میلادالنبیﷺ کا قرآن حکیم سے اِستدلال
2.1
امت کے میلادالنبی ﷺ کی خوشی منانےکی بہت سی شرعی پہلو ہیں جن کا سمجھنا بہت ضروری ہے۔ آیئے سب سے پہلےقرآن حکیم کی روشنی میں ان شرعی پہلو کو درجہ بہ درجہ مندرجہ ذیل نکات کی روشنی میں سمجھتے ہیں۔
غور طلب نکتہ:
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن مجید میں جو کچھ بیان فرمایا خواہ وہ پوری سورت ہو،ایک آیت ہو، کوئی ایک لفظ ہو یا صرف ایک حرف ہو اس کا یقیناَ اس کا مقصد اور معانی ہے اور ہمارے لیے اِس میں تعلیم ہے۔ لہذا یہ ہمارا کام ہے کہ ہم قرآن میں غورو تدبر کریں اور اس کے احکامات کو سمجھیں کی کوشش کریں ۔
اللہ کی نعمتیں
2.1.1
خود اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہمیں اتنی نعمتیں عطا کی ہیں جن کا شمار ہمارے لئے ممکن نہیں
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَ اِن تَعُدُّوا نِعمَتَ اللّٰہِ لَا تُحصُوهَا
’’اور اگر اﷲ کی نعمتیں گنو تو شمار نہ کرسکو گے‘‘
ابراھیم (14:34)
آیت کا یہ حصہ عمومی ہے یعنی ہر خاص و عام، ہر امت اور ہر دور کے لئے ہے۔اس میں اللہ تعالی نے اپنی کبریائی بیان کی ہے کہ اللہ کی پیدا کردہ مخلوق بےشمار ہے جس کو گننا ہمارے بس کی بات نہیں ، یہ علم تو صرف اللہ ہی کے پاس ہے جس نے ان کو پیدا فرمایا۔ اللہ کا اِس تمام خلق کا مقصد انسان کو پیدا کرنا ہے یعنی دوسرے الفاظ میں اللہ تعالی کی ساری خلق انسان کے لئے نعمت ہے انسان کو کسی نہ کسی طریقے سے فائدہ پہنچا رہی ہے۔ اگر اِس زمین پر نظر ڈالیں تو یہ سارے شجر، حجر ،پہاڑ، دریا، سمندر، زمین پر چلنے والی مخلوق ،مویشی ،جانور، پرندے سب کسی نہ کسی طرح انسان کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں یا انسان کے رزق کا سبب ہیں یا انسان ان سے دوسرے فائدے اٹھاتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالی کی ہر مخلوق ہمارے لئے ایک نعمت ہے اور یہ بلاامتیاز ہر مسلمان و کافر کے لیے یکساں نعمت ہے۔
نعمتوں کا یہ سلسلہ اس جہان فانی کے بعد جنت میں بھی جاری وساری ہے جہاں اللہ تعالی کی ایسی ایسی نعمتیں ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالی نے خود قرآن پاک میں بیان فرمایا کہ ہم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ سبحان اللہ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ جَزَا ءً بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ
’’ کسی نفس کو معلوم نہیں کہ جو نعمتیں ان کے لئے چھپا کر رکھی ہیں ان کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک ہے بدلہ ہے اس کا جو وہ کرتے تھے۔‘‘
السجدہ (32:17)
اسی طرح اللہ تعالی کی کچھ خاص نعمتیں ہیں جیسے اللہ تعالی کی کتابیں،اس کے نبی اور رسول ، جن کی پیروی اور اطاعت سے مومن نہ صرف اس دنیا میں نفع حاصل کرتے ہیں بلکہ آخرت میں بھی کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہیں۔
قرآن مجید نے بڑے بلیغ انداز سے جملہ نوع انسانی کو اس نعمت اور فضل و رحمت کو یاد رکھنے کا حکم دیا ہے جو محسنِ انسانیت پیغمبر رحمت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں انہیں عطا ہوئی اور جس نے ان اندھیروں کو چاک کر دیا جو صدیوں سے شبِ تاریک کی طرح ان پر مسلط تھے اور نفرت و بغض کی وہ دیواریں گرا دیں جو انہیں قبیلوں اور گروہوں میں منقسم کیے ہوئے تھیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اﷲِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَفَّ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖ اِخْوَانًا.
’’اور اپنے اوپر (کی گئی) اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اُس نے تمہارے دلوں میں اُلفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہو گئے۔‘‘
(آل عمران، 3: 103)
ان ٹوٹے ہوئے دلوں کو پھر سے جوڑنا اور گروہوں میں بٹی ہوئی انسانیت کو رشتہ اُخوت و محبت میں پرو دینا اتنا بڑی نعمت ہے جس کی کوئی نظیر تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے۔ لہٰذا میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خوشی منانا اور شکرِ اِلٰہی بجا لانا اُمتِ مسلمہ پر سب خوشیوں سے بڑھ کر واجب کا درجہ رکھتا ہے۔
نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا حکم
2.1.2
شکر کا مطلب ہے کہ کسی کے احسان و نعمت کی وجہ سے زبان، دل یا اعضاء کے ساتھ اس کی تعظیم کی جائے۔ قرآن و حدیث میں نعمتوں پر اللہ کاشکر ادا کرنےکے کثیر فضائل بیان کئے گئے اور ناشکری کی مذمت کی گئی ہے ۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ
’’اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔‘‘
(ابراہیم: 14:7)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ شکر سے نعمت زیادہ ہوتی ہے۔ شکر کی حقیقت یہ ہے کہ نعمت دینے والے کی نعمت کا اس کی تعظیم کے ساتھ اعتراف کرے اور نفس کو اِس چیز کا عادی بنائے۔ یہاں ایک باریک نکتہ یہ ہے کہ بندہ جب اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے طرح طرح کے فضل و کرم اور احسان کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے شکر میں مشغول ہوتا ہے ،اس سے نعمتیں زیادہ ہوتی ہیں اور بندے کے دل میں اللّٰہ تعالیٰ کی محبت بڑھتی چلی جاتی ہے یہ مقام بہت برتر ہے اور اس سے اعلیٰ مقام یہ ہے کہ نعمت دینے والے کی محبت یہاں تک غالب ہو جائے کہ دل کا نعمتوں کی طرف میلان باقی نہ رہے، یہ مقام صدیقوں کا ہے۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۷۵-۷۶)
شکر کے فضائل اور ناشکری کی مذمت
2.1.3
قرآن و حدیث میں شکر کے کثیر فضائل بیان کئے گئے اور ناشکری کی مذمت کی گئی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ
’’اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔‘‘
(ابراہیم: 14:7)
اس ا ٓیت کی مناسبت سے یہاں شکر اورناشکری سے متعلق چند اَحادیث بیان کی جاتی ہیں ۔
(1) حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
’’جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر کوئی نعمت نازل فرماتا ہے اور وہ کہتا ہے: ’’الحَمْدُ لِلّٰہ ‘‘ تو یہ کلمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسے نعمت دینے سے بہتر ہوتا ہے۔
حوالاجات
(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب فضل الحامدین، ۴ / ۲۵۰، الحدیث: ۳۸۰۵) | 1 |
(2) حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو ان کی عمر دراز کرتا ہے اور انہیں شکر کا الہام فرماتا ہے۔
حوالاجات
(فردوس الاخبار، باب الالف، جماع الفصول منہ فی معانی شتی۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۴۸، الحدیث: ۹۵۴) | 1 |
(3) حضرت کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی بندے پر انعام کرے پھر وہ اس نعمت کا اللہ تعالیٰ کے لئے شکر ادا کرے اور ا س نعمت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے لئے تواضع کرے تو اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں اس نعمت سے نفع دیتا ہے اور اس کی وجہ سے اس کے آخرت میں درجات بلند فرماتا ہے اور جس پر اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انعام فرمایا اور اس نے شکر ادا نہ کیا اور نہ اللہ تعالیٰ کے لئے اس نے تواضع کی تو اللہ تعالیٰ دنیا میں اس نعمت کا نفع اس سے روک لیتا ہے اور اس کے لئے جہنم کا ایک طبق کھول دیتا ہے ،پھر اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اسے (آخرت میں ) عذاب دے گا یا اس سے در گزر فرمائے گا۔
حوالاجات
(رسائل ابن ابی الدنیا، التواضع والخمول، ۳ / ۵۵۵، رقم: ۹۳) | 1 |
(4) حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَمﷺنے ارشاد فرمایا :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
’’جسے شکر کرنے کی توفیق ملی وہ نعمت کی زیادتی سے محروم نہ ہو گا کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے ’’ لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ‘‘ یعنی اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا۔ جسے توبہ کرنے کی توفیق عطا ہوئی وہ توبہ کی قبولیت سے محروم نہ ہو گا کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے’’وَ هُوَ الَّذِیْ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ‘‘ یعنی اور وہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول فرماتا ہے ۔
حوالاجات
(در منثور، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۷، ۵ / ۹) | 1 |
(5) حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدسﷺنے ارشاد فرمایا:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
’’جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللّٰہ تعالیٰ کابھی شکر ادا نہیں کرتا اوراللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔
حوالاجات
(شعب الایمان، الثانی والستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی المکافأۃ بالصنائع، ۶ / ۵۱۶، الحدیث: ۹۱۱۹) | 1 |
(6) حضرت حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
اللّٰہ تعالیٰ جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے، جب وہ شکر کریں تو اللّٰہ تعالیٰ ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے اور جب وہ نا شکری کریں تو اللّٰہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے۔
حوالاجات
(رسائل ابن ابی دنیا، کتاب الشکر للّٰہ عزّوجلّ، ۱ / ۴۸۴، الحدیث: ۶۰) | 1 |
(7) سنن ابو داؤد میں ہے کہ:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
رسول اکرمﷺ نے حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ہر نماز کے بعد یہ دعا مانگنے کی وصیت فرمائی ’’اَللّٰہُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ‘‘ یعنی اے اللّٰہ ! عَزَّوَجَلَّ، تو اپنے ذکر، اپنے شکر اور اچھے طریقے سے اپنی عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔
حوالاجات
(ابو داؤد، کتاب الوتر، باب فی الاستغفار، ۲ / ۱۲۳، الحدیث: ۱۵۲۲) | 1 |
اللّٰہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں کثرت کے ساتھ اپنا ذکر اورشکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اوراپنی نعمتوں کی ناشکری کرنے سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین
سب سے عظیم نعمت
2.1.4
آیئے قرآن مجید سے پوچھتے ہیں کہ اللہ تعالی کی سب سے عظیم نعمت کون سی ہے ۔ اللہ تعالی نے قرآن میں ارشاد فرمایا:
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
لَقَد مَنَّ اللّٰہُ عَلَی المُؤمِنِینَ اِذ بَعَثَ فِیہِم رَسُولًا مِّن اَنفُسِہِم یَتلُوا عَلَیہِم اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیہِم وَ یُعَلِّمُہُمُ الکِتٰبَ وَ الحِکمَۃَ
بیشک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے ( عظمت والا ) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے ۔
(آل عمران 3:164)
اﷲ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا فرمائیں مگر کسی نعمت پر بھی احسان نہ جتلایا ماسوائے ایک نعمت کے (مندرجہ بالا آیت میں) ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے کسی اور نعمت پر احسان کیوں نہیں جتلایا۔ صرف ایک نعمت پر ہی احسان کیوں جتلایا؟ اس سے یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ یقینَا وہ نعمت اللہ تعالی کی سب سے عظیم اور خاص نعمت ہو گی ہے ۔ پس اس آیت سےثابت ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ ان گنت نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت محمد رسول اللہ ﷺ ہیں ۔
اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آپﷺ کوایک عظیم رحمت بھی بتلایا ہے
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَ مَا اَرسَلنٰکَ اِلَّا رَحمَۃً لِّلعٰلَمِینَ
’’اور ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہاں کے لئے‘‘
(الانبیاء21: 107)
سبحان اللہ، قرآن نے فیصلہ کردیا کہ نبیﷺ سے بڑھ کر کائنات میں کوئی نعمت بھی نہیں اور آپ ﷺ سے بڑھ کر کائنات میں کوئی رحمت بھی نہیں۔
بیشک دوجہاں کی بے شمار نعمتوں میں سے نوعِ انسان کے لیے انبیاء اکرام اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہیں۔ انہی کے ذریعے اللہ تعالی ہم کو ایمان جیسی عظیم نعمت عطا کرتا ہے اور بالآخرہم نا ختم ہونے والی بے شمار اُخروی نعمتیں پائیں گے۔ انشاءاللہ
لیکن اللہ تعالی نے تمام انبیاء ورسل میں سے صرف ہمارے آقا محمد رسول اللہ ﷺ کوہی اپنا محبوب بنایا اور تمام انبیاء کا سردار کیا۔ اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو رحمۃ العالمین کے شرف سے نوازا ، ساری مخلوق کے لئے حجت بنا کر مبعوث کیا اور بندوں پر ان کی محبت توقیر اور ان کی اطاعت واتباع کو فرض قرار دیا ۔ تمام انبیاء ورسل سے نبی ﷺ پر ایمان لانے اور ان کی اتباع کرنے کا عہد و میثاق اور وعدے لئے اور انہیں یہ حکم دیا کہ وہ اپنی اتباع کرنے والے مومنوں سے بھی یہ وعدہ لیں ۔
ثابت ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی اللہ تعالیٰ کی نعمتِ عظمیٰ ہیں اسی لیے اللہ نے بنی نوع انسان کو حکم دیا کہ وہ اس کی نعمت کو یاد کریں :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَاذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ
’’اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہو گئے۔‘‘
[آل عمران، 3 : 103]
تحدیثِ نعمت کا حکم
2.1.5
نعمت کا شکر بجا لانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ انسان اللہ کی عطا کردہ کسی نعمت پر اُس کا خوب اِظہار کرے۔ خوشی منانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کے سامنے اس کا تذکرہ بھی کرے۔ اِس کا ذکر قرآن حکیم نے یوں کیا ہے :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَ اَمَّا بِنِعمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّث
’’ اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو ‘‘
(الضحی، 93:11)
ابو نضرہ رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ : “مسلمانوں کا یہ نظریہ رہا ہے کہ نعمتوں کا شکر انہ ادا کرنے کے طریقوں میں نعمتوں کا تذکرہ یعنی چرچا کرنا بھی شامل ہے۔ “تفسیر طبری” (24/489)
معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ حکم دے رہا ہے کہ جو نعمتیں تمہیں میں نے دی ہیں، ان کا خوب چرچا کرو ۔ ہمارے پاس اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی بے شمار نعمتیں ہیں کہ ہمارے لیے ان کا شمار ممکن نہیں ۔ خود اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ’’اور اگر اﷲ کی نعمتیں گنو تو شمار نہ کرسکو گے‘‘ ابراھیم (14:34)
یعنی اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کی گنتی ہم سے نہیں ہوسکتی۔ تو پھر ہم کن کن نعمتوں کا پرچار کریں۔ عقل کہتی ہے کہ جب گنتی معلوم نہ ہوسکے تو سب سے بڑی چیز کو ہی سامنے رکھا جاتا ہے۔ کیونکہ وہی نمایاں ہوتی ہے۔ اسی طرح ہم سے بھی اﷲ پاک کی نعمتوں کی گنتی نہیں ہوسکی تو کم از کم جو نعمت سب سے بڑی ہے اس کا پرچار تو کریں اور اس پر خوشاں منائیں تاکہ اﷲ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہوسکے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سب سے بڑی نعمت کون سی ہے؟ قرآن ِکے مطابق اس کا جواب یہ ہے کہ کو نبی کریمﷺ کی ذات مبارک اللہ تعالی کی سب سے بڑی نعمت ہیں۔ اس کی تفصیل پہلے آچکی ہے۔
تحدیثِ نعمت کے بیان میں سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ نعمتِ خداوندی کے نزول کا علم زیادہ سے زیادہ خلقِ خدا تک پہنچے اور لوگ کثرت کے ساتھ اس ادائے شکر میں شریک ہوں۔ ذکر اور تحدیث میں بڑا اور واضح فرق یہ ہے کہ ذکر تنہا شکر بجا لا کر بھی ہوسکتا ہے مگر تحدیثِ نعمت کا تقاضا ہے کہ اسے نجی محفلوں، جلسوں اور اجتماعات میں خلقِ خدا تک پہنچایا جائے۔ اس کے شکرانے کے لیے اس کی نعمت کے شایانِ شان عظیم محافل و مجالس اور اجتماعات کا اہتمام کیا جائے اور ان محافل میں اس نعمتِ کبریٰ کا تذکرہ کیا جائے۔
نعمتوں پر خوشی منانے کا حکم
2.1.6
اﷲ تعالیٰ نےقرآن مجید میں یہ حکم دیا ہے کہ :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ.
’’فرما دیجئے! (یہ سب کچھ) اﷲ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پر خوشیاں منائیں۔‘‘
(يونس، 10:58)
اﷲ تعالیٰ نے اس آیت میں صاف الفاظ میں خوشیاں منانے کا حکم دیا ہے کہ جو نعمتیں ہمیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے عطاکی ہیں وہ اس کے فضل اور رحمت کے باعث ہیں اس لئے ہم کواننعمتیں پر خوشیاں منانی چاہئیں ۔ سبحان اللہ
چونکہ آخری نبیﷺ کی ذات مبارک اللہ تعالی کی ایک عظیم نعمت ہے اسلیئے قرآن کے مطابق ہر مسلمان کو نبی کریمﷺ کے ملنے کی خوشیاں منانی چاہئیں۔
نعمتوں پر خوشی منانا سنتِ انبیاءء
2.1.7
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں اپنی اُمت کے لیے مائدہ کی نعمت طلب کی تو یوں عرض کیا :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ.
’’اے اﷲ! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے خوان(نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے اترنے کا دن) ہمارے لیے عید ہوجائے ہمار ے اگلوں کے لیے (بھی) اور ہمارے پچھلوں کے لیے (بھی) اور (وہ خوان) تیری طرف سے نشانی ہو۔‘‘
(المائده، 5 : 114)
قرآن مجید نے اس آیت میں نبی کی زبان سے یہ تصور دیا ہے کہ
جس دن اﷲ تعالیٰ کی نعمت اُترے اس دن کو بطور عید منانا اس نعمت کے شکرانے کی مستحسن صورت ہے۔
’’اَوَّلِنَا‘‘ اور ’’اٰخِرِنَا‘‘ کے کلمات اس امر پر دلالت کر رہے ہیں کہ نعمت کا نزول تو ایک بار ہوا لیکن اس کے بعد امت قیامت تک ہر سال عید منا سکتی ہے۔
آیت میں مذکور اَلفاظ۔ ’’اَوَّلِنَا‘‘ اور ’’اٰخِرِنَا‘‘۔ میں کلمہ ’’نَا‘‘ اِس اَمر کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ نعمت کی خوشیاں وہی منائے گا جو اس نعمت کے شکر میں ہمارے ساتھ شریک ہوگا، اور جو اس خوشی میں ہمارے ساتھ شریک نہیں اس کا عید منانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
انبیاء کے یومِ ولادت کی اہمیت
2.1.8
قرآن مجید میں دیگر موضوعات کے علاوہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جگہ جگہ انبیاء علیہ السلام کے پیدائش کے دن اور پیدائش کے واقعات کا ذکر فرمایا ہے۔بےشک اِن سب میں کوئی نہ کوئی حکمت ہے ہم ان واقعات کو صرف ماضی کی کہانیاں سمجھ کر نہیں پڑھ سکتے بلکہ ہم کو ان کے ایک ایک لفظ پر غور و فکر کرنا چاہیے اور یہ جاننا چاہیے کہ اللہ تعالی کا ان کو بیان کرنے کا مقصد کیا ہے؟
بہت سے لوگوں کو قرآن میں کسی نبی کا واقعہ مختلف جگہوں پر بار بار دہرایا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ لیکن جو لوگ غور و فکر کرتے ہیں ہیں وہ ان واقعات کے ایک ایک لفظ پر غور کرتے ہیں وہ حکمت کے بےشمارموتی چنتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَكُلًّا نَّقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ اَنْبَآءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهٖ فُؤَادَكَ ۚ وَجَآءَكَ فِىْ هٰذِهِ الْحَقُّ وَمَوْعِظَةٌ وَّذِكْرٰى لِلْمُؤْمِنِيْنَ
اور رسولوں کی خبروں میں سے ہم سب تمہیں سناتے ہیں جس سے تمہا رے دل کو قوت دیں اور اس سورت میں تمہارے پاس حق آیا اور مسلمانوں کے لئے وعظ و نصیحت (آئی)۔
(سورۃ ھود،11:120)
اللہ تعالی نے اس آیت میں سابقہ انبیاء کے واقعات کو قرآن پاک میں بیان کرنے کی وجہ بیان کر دی ہے کہ یہ واقعات رسول اللہ کے دل کو قوت دیتے ہیں اور مومنوں کے لیے وعظ و نصیحت ہیں۔ بیشک ہمارے دل بھی ان واقعات سے اخذ کیے گئے مسائل کے حل پر اطمینان اور یقینِ کامل پاتے ہیں ۔
ایک اور مقام پر سورہ شوريٰ میں بھی اس کا ذکر کیا :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ.
’’اُس نے تمہارے لیے دین کا وہی راستہ مقرّر فرمایا جس کا حکم اُس نے نُوح (علیہ السلام) کو دیا تھا اور جس کی وحی ہم نے آپ کی طرف بھیجی اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم اور موسيٰ و عیسيٰ (علیھم السلام) کو دیا تھا (وہ یہی ہے) کہ تم (اِسی) دین پر قائم رہو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو۔‘‘
الشوری، 42 : 13
آیئے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے بعض انبیاء کرام علیہم السلام کے ایام ِولادت کا تذکرہ فرما کر ہمیں کیا تعلیم دی ہے اور ہم مندرجہ بالا آیت پر عمل پیرا ہوکر ذیل کی دو آیات سے کیا وعظ و نصیحت حاصل کرتے ہیں۔
حضرت یحییٰ علیہ السلام کے حوالے سے ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَسَلاَمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا
’’اور یحییٰ پر سلام ہو، ان کے میلاد کے دن اور ان کی وفات کے دن اور جس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں گے‘‘
( مريم، 19 : 15)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف کلام کی نسبت کرکے قرآن مجید فرماتا ہے :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَالسَّلاَمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا
’’اور مجھ پر سلام ہو میرے میلاد کے دن اور میری وفات کے دن اور جس دن میں زندہ اٹھایا جاؤں گا‘‘
(مريم، 19 : 33)
اِن آیات پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ :
اللہ تعالی نے اِن آیات میں انبیاء کرام علیہم السلام کے ایام ِولادت کا تذکرہ فرما کراِن دنوں کی اہمیت و فضیلت اور برکت کو واضح کیا ہے۔ | 1 |
اللہ تعالی نےقرآن میں انبیاء کرام علیہم السلام کی ولادت کے دن کا چرچا کیا ہے ۔ تاکہ مسلمان جب جب ا ِ ن آیات کو پڑھیں ان کی زبان سے انبیاء علیہ السلام کا میلاد ادا ہو۔ | 2 |
اگر ولادت کا دن قرآن و شریعت کے نقطہ نظر سے خاص اہمیت کا حامل نہ ہوتا تو اس دن پر بطور خاص سلام بھیجنے کا بیان کیا معنی رکھتا ہے؟ | 3 |
چونکہ انبیاء علیہ السلام کی ولادت کا دن خاص اہمیت رکھتا ہے یہ کوئی عام بات نہیں ہے، اسی لیے اللہ نے یہ نظام رائج کر دیاہے کہ دنیا بھر میں لاکھوں مسلمان جو ہر روز قرآن کی تلاو ت کرے ہیں اِن کی زبان سے یہ چرچا عام ہو اور انبیاء علیہ السلام کی تعظیم تقریم اِن کے دلوں میں بس جائے۔ | 4 |
انبیاء کا مِیلاد نامۂ
2.1.9
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
لَقَدْ كَانَ فِیْ قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّاُولِی الْاَلْبَابِؕ-مَا كَانَ حَدِیْثًا یُّفْتَرٰى وَ لٰكِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهِ وَ تَفْصِیْلَ كُلِّ شَیْءٍ وَّ هُدًى وَّ رَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ
بیشک ان رسولوں کی خبروں میں عقل مندوں کیلئے عبرت ہے ۔ یہ (قرآن) کوئی ایسی بات نہیں جو خود بنالی جائے لیکن (یہ قرآن) ان کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے جو اس سے پہلے تھیں اور یہ ہر چیز کا مفصل بیان اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔
(یوسف 12، 111)
سورۃ یوسف کی اس آخری آیت سے صاف ظاہر ہے کہ انبیاء علیہ السلام کے واقعات کلی طور پر اور جزوی طور پر مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہیں۔ کلی طور پر اس طرح کہ پورا واقعہ ہمارے لیے وعظ و نصیحت ہے۔ جزوی طور پر اس طرح کہ ان میں بیان کردہ چھوٹی چھوٹی جزئیات کا بھی خاص مقصد ہے ان میں بھی یقیناَ ہمارے لئے ہدایت و رحمت ہے۔
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
قَالُوْا یٰۤاَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَاۤ اِنَّا كُنَّا خٰطِـٕیْنَ(۹۷)قَالَ سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّیْؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ
بیٹوں نے کہا: اے ہمارے باپ! ہمارے گناہوں کی معافی مانگئے ،بیشک ہم خطاکار ہیں ۔ فرمایا: عنقریب میں تمہارے لئے اپنے رب سے مغفرت طلب کروں گا، بیشک وہی بخشنے والا، مہربان ہے۔
(یوسف 12، 97,98)
مثال کے طور پر جہاں حضرت یوسف علیہ السلام کا پورا واقعہ بہت دلچسپ اورنصیحت آمیز ہے۔وہاں سورۃ یوسف کی اس آیت سے ہم کو ایک منفرد وعظ و نصیحت یہ ملتی ہے کہ اپنے سے برگزیدہ اللّٰہ کے بندوں کو ہم اپنے لئے دعا کی درخواست کر سکتے ہیں۔ یقینَا یہ عقیدہ انبیاء ہےورنہ حضرت یعقوب اثبات میں حامی نہ بھرتےاور یہی طورِ صحابہ رہا ہے۔
اسی طرح اگر ولادت کا دن قرآن و سنت اور شریعت کے نقطہ نظر سے خاص اہمیت کا حامل نہ ہوتا تو قرآن مجید میں اس دن پر بطور ِخاص سلام بھیجنےکا بیان کیا معنی رکھتا ہے؟ لہٰذا اسی اہمیت کے پیشِ نظر اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں بہت سے انبیاء کرام علیہم السلام کی ولادت سے منسلک واقعات یعنی (میلاد نا مہ) کا تذکرہ فرمایا ہے۔
اللہ تعالی نےقرآن مجید میں انبیاء علیہ السلام کے میلاد نا مہ بیان فرماتے ہوئے ان کی پیدائش سے پہلے کے واقعات، ایام ِ ولادت کے واقعات اور بچپن کے مختلف واقعات کا تذکرہ کیا ،حتی کہ چھوٹی چھوٹی جزئیات بھی بیان کی ہیں۔ مثال کے طور پر کس طرح جبرئیل امین علیہ السلام آئے اور انہوں نے روح پھونکی اور حضرت مریم علیھا السلام اُمید سے ہوئیں۔ وضعِ حمل کے وقت حضرت مریم علیھا السلام کو تکلیف ہوئی، قرآن کریم نے ان کی اس تکلیف کا بھی ذکر کیا اور بہ تقاضائے نسوانیت ان کا شرمانا بھی بیان فرمایا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے جب وہ خلوت گزیں ہوگئیں تو اس کا بھی ذکر کیا۔ پھر یہ بیان کیا کہ کس طرح تکلیف کو رفع کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے چشمے کا شیریں پانی مہیا کیا، تازہ کھجوریں دیں جن کے کھانے سے تکلیف دور ہو گئی۔ عین لمحۂ ولادت کا ذکر کیا۔ ولادت کے بعد جب وہ نومولود کو اٹھا کر اپنی قوم کے پاس لے گئیں اور انہوں نے طعنے دیئے، ان طعنوں کا ذکر کیا اور طعن و تشنیع کے جواب میں پنگھوڑے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کلام کرنے کا ذکر کیا۔ یہ سارے اَحوال اﷲ رب العزت نے قرآن مجید میں بیان فرمائے ہیں ۔ بطور حوالہ ذیل میں چند جلیل القدر انبیاء علیہم السلامکے میلاد کا تذکرہ کیا جاتا ہے:
مِیلاد نامۂ آدم علیہ السلام
1
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اپنے محبوب اور برگزیدہ بندوں میں سے سب سے پہلے ابو البشر سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش کا ذکر فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً.
’’اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔‘‘
(البقرہ، 2 : 30)
اﷲ رب العزت نے سیدنا آدم علیہ السلام کے میلاد کا ذکر ان کی تخلیق سے بھی پہلے فرما دیا، جس کا ذکر مذکورہ بالا آیتِ کریمہ میں ہوا ہے۔ پھر جب خالقِ کائنات نے آدم علیہ السلام کے پیکرِ بشری کی تخلیق فرمائی اور تمام فرشتوں کو اس کے آگے سجدہ ریز ہونے کا حکم دیا تو ابلیس نے نافرمانی کی اور راندۂ درگاہ ہوا۔ تخلیقِ آدم علیہ السلام کی اس پُرکیف داستان کا ذکر قرآن مجید نے تفصیلاً کر دیا ہے :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِّن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍO فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُواْ لَهُ سَاجِدِينَO فَسَجَدَ الْمَلآئِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَO إِلاَّ إِبْلِيسَ أَبَى أَن يَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَO
’’اور (وہ واقعہ یاد کیجئے) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایاکہ میں سن رسیدہ (اور) سیاہ بودار، بجنے والے گارے سے ایک بشری پیکر پیدا کرنے والا ہوں۔ پھر جب میں اس کی (ظاہری) تشکیل کو کامل طور پر درست حالت میں لاچکوں اور اس پیکر (بشری کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دوں تو تم اس کے لیے سجدہ میں گر پڑنا۔ پس (اس پیکرِ بشری کے اندر نورِ ربانی کا چراغ جلتے ہی) سارے کے سارے فرشتوں نے سجدہ کیا۔سوائے ابلیس کے، اس نے سجدہ کرنے والوں کے ساتھ ہونے سے انکار کر دیا ‘‘
(الحجر، 15 : 28 – 31)
قرآن مجید میں متعدد مقامات پر حضرت آدم علیہ السلام کا ذکر تفصیل کے ساتھ کیا گیا ہے، صرف پیدائش کا ہی نہیں بلکہ ان کی حیاتِ طیبہ کے کئی پہلوؤں کا ذکر موجود ہے، جیسے جنت میں ان کے رہن سہن، تخلیقِ آدم پر فرشتوں کے خیالات، شیطان مردود کا اعتراض اور پیکرِ آدم کو سجدہ نہ کرنے کا ذکر بھی تفصیل سے کیا گیا ہے۔ انسانی تخلیق سے متعلق جتنی آیات ہیں ان کا اوّلین مصداق سیدنا آدم علیہ السلام ہیں جن کے احوال کو تفصیل سے قرآنِ مجید کی زینت بنایا گیا ہے۔ یہی ان کا ’’میلاد نامہ‘‘ ہے۔
مِیلاد نامۂ موسیٰ علیہ السلام
2
سیدنا موسیٰ علیہ السلام وہ جلیل القدر نبی ہیں جنہوں نے فرعون جیسے ظالم، جابر اور سرکش شخص کو للکارا جو زمین پر خدائی کا دعوے دار بنا بیٹھا تھا۔ اللہ رب العزت نے ان کی بعثت کے ذریعہ بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے نجات دی اور فرعون کو غرق کرکے ہمیشہ کے لیے نشانِ عبرت بنا دیا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے قبل فرعون نے بنی اسرائیل پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے۔ جب اسے شاہی نجومیوں نے بتایا کہ بنی اسرائیل میں کسی ایسے بچے کی پیدائش ہونے والی ہے جس کے ذریعہ بنی اسرائیل تمہاری محکومی سے نجات پا لیں گے تو اس نے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھانے شروع کر دیے۔ لڑکوں کو ذبح کروا دیتا اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتا۔ ان حالات میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی جسے اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔
سورۃ القصص کا آغاز ہی قصۂ موسیٰ و فرعون سے ہوا ہے جو کہ 50 آیات مبارکہ پر مشتمل ہے۔ پہلے 5 رکوعات مسلسل حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے وقف ہیں۔ ذیل میں ہم میلاد نامۂ موسیٰ علیہ السلام کے ضمن میں سورۃ القصص کی ابتدائی 14 آیات بمع ترجمہ دے رہے ہیں جن میں باری تعالیٰ نے ان کی پیدائش سے لے کر جوانی تک کا ذکر بڑے بلیغ انداز سے کرتے ہوئے اُمت مسلمہ کو یہ پیغام دیا ہے کہ اپنے محبوب بندوں کی ولادت اوربچپن کے واقعات کا تذکرہ کرنا میری سنت ہے۔ ارشاد فرمایا :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
طسمO تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِO نَتْلُوا عَلَيْكَ مِن نَّبَإِ مُوسَى وَفِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَO إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَO وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَO وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا مِنْهُم مَّا كَانُوا يَحْذَرُونَO وَأَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّ مُوسَى أَنْ أَرْضِعِيهِ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ وَلَا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِي إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَO فَالْتَقَطَهُ آلُ فِرْعَوْنَ لِيَكُونَ لَهُمْ عَدُوًّا وَحَزَنًا إِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا كَانُوا خَاطِئِينَO وَقَالَتِ امْرَأَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَيْنٍ لِّي وَلَكَ لَا تَقْتُلُوهُ عَسَى أَن يَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَO وَأَصْبَحَ فُؤَادُ أُمِّ مُوسَى فَارِغًا إِن كَادَتْ لَتُبْدِي بِهِ لَوْلَا أَن رَّبَطْنَا عَلَى قَلْبِهَا لِتَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَO وَقَالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ فَبَصُرَتْ بِهِ عَن جُنُبٍ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَO وَحَرَّمْنَا عَلَيْهِ الْمَرَاضِعَ مِن قَبْلُ فَقَالَتْ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى أَهْلِ بَيْتٍ يَكْفُلُونَهُ لَكُمْ وَهُمْ لَهُ نَاصِحُونَO فَرَدَدْنَاهُ إِلَى أُمِّهِ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ وَلِتَعْلَمَ أَنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَO وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَاسْتَوَى آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَO
’’طا، سین، میم (معنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)۔ یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں۔ (اے حبیبِ مکرم!) ہم آپ پر موسیٰ اور فرعون کے حقیقت پر مبنی حال میں سے ان لوگوں کے لیے کچھ پڑھ کر سناتے ہیں جو ایمان رکھتے ہیںo بے شک فرعون زمین میں سرکش و متکبر (یعنی آمرِ مطلق) ہوگیا تھا اور اس نے اپنے (ملک کے) باشندوں کو (مختلف) فرقوں (اور گروہوں) میں بانٹ دیا تھا اس نے ان میں سے ایک گروہ (یعنی بنی اسرائیل کے عوام) کو کمزور کر دیا تھا کہ ان کے لڑکوں کو (ان کے مستقبل کی طاقت کچلنے کے لیے) ذبح کر ڈالتا اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتا (تاکہ مردوں کے بغیر ان کی تعداد بڑھے اور ان میں اخلاقی بے راہ روی کا اضافہ ہو)، بے شک وہ فساد انگیز لوگوں میں سے تھا۔ اور ہم چاہتے تھے کہ ہم ایسے لوگوں پر احسان کریں جو زمین میں (حقوق اور آزادی سے محرومی اور ظلم و استحصال کے باعث) کمزور کر دیے گئے تھے اور انہیں (مظلوم قوم کے) رہبر و پیشوا بنا دیں اور انہیں (ملکی تخت کا) وارث بنا دیں۔ اور ہم انہیں ملک میں حکومت و اقتدار بخشیں اور فرعون اور ہامان اور ان دونوں کی فوجوں کو وہ (انقلاب) دکھا دیں جس سے وہ ڈرا کرتے تھے۔ اور ہم نے موسیٰ کی والدہ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ تم انہیں دودھ پلاتی رہو پھر جب تمہیں ان پر (قتل کر دیے جانے کا) اندیشہ ہوجائے تو انہیں دریا میں ڈال دینا اور نہ تم (اس صورت حال سے) خوف زدہ ہونا اور نہ رنجیدہ ہونا، بے شک ہم انہیں تمہاری طرف واپس لوٹانے والے ہیں اور انہیں رسولوں میں (شامل) کرنے والے ہیںo پھر فرعون کے گھر والوں نے انہیں (دریا سے) اٹھا لیا تاکہ وہ (مشیتِ الٰہی سے) ان کے لیے دشمن اور (باعثِ) غم ثابت ہوں، بے شک فرعون اور ہامان اور ان دونوں کی فوجیں سب خطا کار تھے۔ اور فرعون کی بیوی نے (موسیٰ کو دیکھ کر) کہا کہ (یہ بچہ) میری اور تیری آنکھ کے لیے ٹھنڈک ہے، اسے قتل نہ کرو، شاید یہ ہمیں فائدہ پہنچائے یا ہم اس کو بیٹا بنالیں اور وہ (اس تجویز کے انجام سے) بے خبر تھے۔ اور موسیٰ کی والدہ کا دل (صبر سے) خالی ہوگیا، قریب تھا کہ وہ (اپنی بے قراری کے باعث) اس راز کو ظاہر کر دیتیں اگر ہم ان کے دل پر صبر و سکون کی قوت نہ اتارتے تاکہ وہ (وعدہء الٰہی پر) یقین رکھنے والوں میں سے رہیں۔ اور (موسیٰ کی والدہ نے) ان کی بہن سے کہا کہ (ان کا حال معلوم کرنے کے لیے) ان کے پیچھے جاؤ، سو وہ انہیں دور سے دیکھتی رہی اور وہ لوگ (بالکل) بے خبر تھے۔ اور ہم نے پہلے ہی سے موسیٰ پر دائیوں کا دودھ حرام کردیا تھا سو (موسیٰ کی بہن نے) کہا : کیا میں تمہیں ایسے گھروالوں کی نشاندہی کروں جو تمہارے لیے اس (بچے) کی پرورش کر دیں اور وہ اس کے خیر خواہ (بھی) ہوں۔ پس ہم نے موسیٰ کو (یوں) ان کی والدہ کے پاس لوٹا دیا تاکہ ان کی آنکھ ٹھنڈی رہے اور وہ رنجیدہ نہ ہوں اور تاکہ وہ (یقین سے) جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ اور جب موسیٰ اپنی جوانی کو پہنچ گئے اور (سنِ) اعتدال پر آگئے تو ہم نے انہیں حکمِ (نبوت) اور علم و دانش سے نوازا، اور ہم نیکو کاروں کو اسی طرح صلہ دیا کرتے ہیں۔‘‘
(القصص، 28 : 1 – 14)
ان چودہ آیاتِ بینات میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے کے حالات، ان کی پیدائش، ان کے بہ اَمرِ الٰہی صندوق میں ڈالے جانے، پھر فرعون کے محل میں پرورش پانے اور رضاعت کے لیے ان کی والدہ کی طرف لوٹائے جانے اور پھر جوانی اور بعثت یعنی ایک ایک چیز کا بیان ہوا۔ اور یہی ’’میلاد نامۂ موسیٰ علیہ السلام ‘‘ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک کی زینت بنایا۔
ان چودہ آیاتِ بینات میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے کے حالات، ان کی پیدائش، ان کے بہ اَمرِ الٰہی صندوق میں ڈالے جانے، پھر فرعون کے محل میں پرورش پانے اور رضاعت کے لیے ان کی والدہ کی طرف لوٹائے جانے اور پھر جوانی اور بعثت یعنی ایک ایک چیز کا بیان ہوا۔ اور یہی ’’میلاد نامۂ موسیٰ علیہ السلام ‘‘ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک کی زینت بنایا۔
مِیلاد نامۂ مریم علیھا السلام
3
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت مریم علیھا السلام کا میلاد نامہ بھی بیان کیا ہے جو اگرچہ پیغمبر نہیں لیکن ایک برگزیدہ پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ اور ایک پاک باز ولیۂ کاملہ تھیں۔ ان کا میلاد نامہ بیان کرتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے سب سے پہلے بعض انبیاء علیھم السلام اور ان کی نسل کی فضیلت بیان کی۔ اِرشاد فرمایا :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
إِنَّ اللّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَO ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِن بَعْضٍ وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌO
’’بے شک اللہ نے آدم کو اور نوح کو اور آلِ ابراہیم کو اور آلِ عمران کو سب جہان والوں پر (بزرگی میں) منتخب فرما لیا۔یہ ایک ہی نسل ہے ان میں سے بعض بعض کی اولاد ہیں، اور اللہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔‘‘
(آل عمران، 3 : 33، 34)
اِس تمہید کے بعد میلاد نامۂ مریم علیھا السلام کا بیان شروع ہوتا ہے ، ارشاد ہوتا ہے :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
إِذْ قَالَتِ امْرَأَةُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُO فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنثَى وَاللّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثَى وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وِإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِO
’’اور (یاد کریں) جب عمران کی بیوی نے عرض کیا : اے میرے رب! جو میرے پیٹ میں ہے میں اسے (دیگر ذمہ داریوں سے) آزاد کر کے خالص تیری نذر کرتی ہوں، سو تو میری طرف سے (یہ نذرانہ) قبول فرمالے، بے شک تو خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔ پھر جب اس نے لڑکی جنی تو عرض کرنے لگی : مولا! میں نے تو یہ لڑکی جنی ہے، حالاں کہ جو کچھ اس نے جنا تھا اللہ اسے خوب جانتا تھا، (وہ بولی : ) اور لڑکا (جو میں نے مانگا تھا) ہرگز اس لڑکی جیسا نہیں (ہوسکتا) تھا (جو اللہ نے عطا کی ہے)، اور میں نے اس کا نام ہی مریم (عبادت گزار) رکھ دیا ہے، اور بے شک میں اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود (کے شر) سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔‘‘
(آل عمران، 3 : 35، 36)
یہ حضرت مریم علیھا السلام کی ولادت کا حسین تذکرہ ہے جسے اللہ رب العزت نے بیان فرمایا۔ اگلی آیات میں ان کے بچپن کا بیان ہے جب وہ حضرت زکریا علیہ السلام کے سایہ عاطفت میں پرورش پانے لگیں۔ اس دوران میں اللہ رب العزت نے ان پر جو نوازشات کیں اور بے موسم پھل عطا فرمائے اُن کا تذکرہ ہے۔ اُن کی قیام گاہ کو وسیلہ بناتے ہوئے حضرت زکریا علیہ السلام نے اللہ رب العزت سے اولادِ نرینہ کی دعا کی اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی بشارت عطا فرمائی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقاً قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنَّى لَكِ هَـذَا قَالَتْ هُوَ مِنْ عِندِ اللّهِ إِنَّ اللّهَ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍO
’’سو اس کے رب نے اس (مریم) کو اچھی قبولیت کے ساتھ قبول فرما لیا اور اسے اچھی پرورش کے ساتھ پروان چڑھایا، اور اس کی نگہبانی زکریا کے سپرد کردی، جب بھی زکریا اس کے پاس عبادت گاہ میں داخل ہوتے تو وہ اس کے پاس (نئی سے نئی) کھانے کی چیزیں موجود پاتے، انہوں نے پوچھا : اے مریم! یہ چیزیں تمہارے لیے کہاں سے آتی ہیں؟ اس نے کہا : یہ (رزق) اللہ کے پاس سے آتا ہے، بے شک اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق عطا کرتا ہے۔‘‘
(آل عمران، 3 : 37)
مذکورہ بالا آیت کریمہ میں حضرت مریم علیھا السلام کے بچپن اور پرورش سے متعلق حالات کا بیان ہے مگر بات فقط اس پر ختم نہیں ہوئی بلکہ اللہ رب العزت نے ان کے فضائل مزید بیان فرمائے، یہاں تک کہ اس چھوٹی سی بات کو بھی نظرانداز نہ کیا جو ان کاہنوں سے متعلق ہے جب وہ اس کی پرورش کے لیے قرعہ ڈال رہے تھے۔ فرمایا :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَإِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَى نِسَاءِ الْعَالَمِينَO يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ وَاسْجُدِي وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَO ذَلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيكَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُون أَقْلاَمَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَO
’’اور جب فرشتوں نے کہا : اے مریم! بے شک اللہ نے تمہیں منتخب کر لیا ہے اور تمہیں پاکیزگی عطا کی ہے اور تمہیں آج سارے جہان کی عورتوں پر برگزیدہ کر دیا ہے۔ اے مریم! تم اپنے رب کی بڑی عاجزی سے بندگی بجا لاتی رہو اور سجدہ کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کیا کرو۔ (اے محبوب!) یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی فرماتے ہیں حالانکہ آپ (اس وقت) ان کے پاس نہ تھے جب وہ (قرعہ اندازی کے طور پر) اپنے قلم پھینک رہے تھے کہ ان میں سے کون مریم کی کفالت کرے، اور نہ آپ اس وقت ان کے پاس تھے جب وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے۔‘‘
(آل عمران، 3 : 42 – 44)
یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے بیان کردہ ’’میلاد نامۂ مریم علیھا السلام‘‘ ہی تو ہے کہ اس قدر چھوٹی چھوٹی باتیں بھی نظر انداز نہیں کی گئیں مثلاً یہ فرمانا کہ وہ قرعہ اندازی کر رہے تھے، اپنے قلم پھینک رہے تھے اور آپس میں جھگڑ رہے تھے۔
مِیلاد نامۂ یحییٰ علیہ السلام
4
اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کا میلاد نامہ تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ جب ان کے والد گرامی حضرت زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم علیھا السلام کی پرورش کے دوران حجرۂ مریم علیھا السلام میں کھڑے ہوکر دعا کی تو یہ منظر بیان کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهُ قَالَ رَبِّ هَبْ لِي مِن لَّدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِO فَنَادَتْهُ الْمَلآئِكَةُ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمِحْرَابِ أَنَّ اللّهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيَـى مُصَدِّقًا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّهِ وَسَيِّدًا وَحَصُورًا وَنَبِيًّا مِّنَ الصَّالِحِينَO قَالَ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلاَمٌ وَقَدْ بَلَغَنِيَ الْكِبَرُ وَامْرَأَتِي عَاقِرٌ قَالَ كَذَلِكَ اللّهُ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُO قَالَ رَبِّ اجْعَل لِّي آيَةً قَالَ آيَتُكَ أَلاَّ تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ إِلاَّ رَمْزًا وَاذْكُر رَّبَّكَ كَثِيرًا وَسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِO
’’اسی جگہ زکریا نے اپنے رب سے دعا کی، عرض کیا : میرے مولا! مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بے شک تو ہی دعا کا سننے والا ہے۔ ابھی وہ حجرے میں کھڑے نماز ہی پڑھ رہے تھے (یا دعا ہی کر رہے تھے) کہ انہیں فرشتوں نے آواز دی : بے شک اللہ آپ کو (فرزند) یحییٰ کی بشارت دیتا ہے جو کلمۃ اﷲ (یعنی عیسیٰ) کی تصدیق کرنے والا ہوگا اور سردار ہوگا اور عورتوں (کی رغبت) سے بہت محفوظ ہو گا اور (ہمارے) خاص نیکوکار بندوں میں سے نبی ہوگا۔ (زکریا نے) عرض کیا : اے میرے رب! میرے ہاں لڑکا کیسے ہوگا درآنحالیکہ مجھے بڑھاپا پہنچ چکا ہے اور میری بیوی (بھی) بانجھ ہے؟ فرمایا : اسی طرح اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ عرض کیا : اے میرے رب! میرے لیے کوئی نشانی مقرر فرما؟ فرمایا : تمہارے لیے نشانی یہ ہے کہ تم تین دن تک لوگوں سے سوائے اشارے کے بات نہیں کر سکو گے اور اپنے رب کو کثرت سے یاد کرو اور شام اور صبح اس کی تسبیح کرتے رہو۔‘‘
(آل عمران، 3 : 38 – 41)
واضح رہے کہ ابھی حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت نہیں ہوئی، صرف دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے قبل اَز ولادت ان کے بعض فضائل کا ذکر کر دیا۔ آگے سورۃ مریم میں ان کی ولادت کا مکمل بیان ہے جب کہ پہلے رکوع میں سارا بیان ہی میلادِ یحییٰ علیہ السلام کے لیے مختص ہے۔ اس بیان کو قرآن حکیم یوں شروع کرتا ہے :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
كهيعصO ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّاO
’’کاف، ہا، یا، عین، صاد (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)۔ یہ آپ کے رب کی رحمت کا ذکر ہے اپنے بندے زکریا پر ۔‘‘
(مريم، 19 : 1 – 2)
ان آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ پیغمبر کی ولادت کا ذکر (میلاد نامہ) قرآن مجید کے الفاظ میں اللہ کی رحمت ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے آگے ولادتِ یحییٰ علیہ السلام کے ذکرِ رحمت کو تسلسل سے یوں بیان فرمایا ہے :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
إِذْ نَادَى رَبَّهُ نِدَاءً خَفِيًّاO قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا وَلَمْ أَكُن بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّاO وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّاO يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّاO يَا زَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلاَمٍ اسْمُهُ يَحْيَى لَمْ نَجْعَل لَّهُ مِن قَبْلُ سَمِيًّاO قَالَ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلاَمٌ وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّاO قَالَ كَذَلِكَ قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِن قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَيْئًاO قَالَ رَبِّ اجْعَل لِّي آيَةً قَالَ آيَتُكَ أَلاَّ تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلاَثَ لَيَالٍ سَوِيًّاO فَخَرَجَ عَلَى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ أَن سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّاO يَا يَحْيَى خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّاO وَحَنَانًا مِّن لَّدُنَّا وَزَكَاةً وَكَانَ تَقِيًّاO وَبَرًّا بِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُن جَبَّارًا عَصِيًّاO وَسَلاَمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّاO
’’جب انہوں نے اپنے رب کو (ادب بھری) دبی آواز سے پکاراo عرض کیا : اے میرے رب! میرے جسم کی ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں اور بڑھاپے کے باعث میرا سر آگ کے شعلہ کی مانند سفید ہوگیا ہے، اور اے میرے رب! میں تجھ سے مانگ کر کبھی محروم نہیں رہا۔ اور میں اپنے (رخصت ہوجانے کے) بعد (بے دین) رشتہ داروں سے ڈرتا ہوں (کہ وہ دین کی نعمت ضائع نہ کر بیٹھیں)، اور میری بیوی (بھی) بانجھ ہے، سو تو مجھے اپنی (خاص) بارگاہ سے ایک وارث (فرزند) عطا فرما۔ جو (آسمانی نعمت میں) میرا (بھی) وارث بنے اور یعقوب کی اولاد (کے سلسلۂ نبوت) کا (بھی) وارث ہو، اور اے میرے رب! تو (بھی) اسے اپنی رضا کا حامل بنالے۔ (ارشاد ہوا : ) اے زکریا! بے شک ہم تمہیں ایک لڑکے کی خوش خبری سناتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہوگا، ہم نے اس سے پہلے اس کا کوئی ہم نام نہیں بنایا۔ (زکریا علیہ السلام نے) عرض کیا : اے میرے رب! میرے ہاں لڑکا کیسے ہوسکتا ہے درآنحالیکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں خود بڑھاپے کے باعث (انتہائی ضعف میں) سوکھ جانے کی حالت کو پہنچ گیا ہوں۔ فرمایا : (تعجب نہ کرو) ایسے ہی ہوگا تمہارے رب نے فرمایا ہے یہ (لڑکا پیدا کرنا) مجھ پر آسان ہے، اور بے شک میں اس سے پہلے تمہیں (بھی) پیدا کرچکا ہوں اس حالت سے کہ تم (سرے سے) کوئی چیز ہی نہ تھے۔ (زکریا نے) عرض کیا : اے میرے رب! میرے لیے کوئی نشانی مقرر فرما، ارشاد ہوا : تمہاری نشانی یہ ہے کہ تم بالکل تندرست ہوتے ہوئے بھی تین رات (دن) لوگوں سے کلام نہ کر سکو گے۔ پھر (زکریا علیہ السلام ) حجرۂ عبادت سے نکل کر اپنے لوگوں کے پاس آئے تو ان کی طرف اشارہ کیا (اور سمجھایا) کہ تم صبح و شام (اللہ کی) تسبیح کیا کرو۔ اے یحییٰ! (ہماری) کتاب (تورات) کو مضبوطی سے تھامے رکھو، اور ہم نے انہیں بچپن ہی سے حکمت و بصیرت (نبوت) عطا فرما دی تھی۔ اور اپنے لطفِ خاص سے (انہیں) درد و گداز اور پاکیزگی و طہارت (سے بھی نوازا تھا)، اور وہ بڑے پرہیزگار تھے۔ اور اپنے ماں باپ کے ساتھ بڑی نیکی (اور خدمت) سے پیش آنے والے (تھے) اور (عام لڑکوں کی طرح) ہرگز سرکش و نافرمان نہ تھے۔ اور یحییٰ پر سلام ہو اُن کے میلاد کے دن اور ان کی وفات کے دن اور جس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں گے۔‘‘
(مريم، 19 : 3 – 15)
’’ کهيعص o یہ آپ کے رب کی رحمت کا ذکر ہے اپنے بندے زکریا پر o‘‘(مريم، 19 : 1 – 2)
اس آیاتِ مبارکہ میں خود اللہ تعالی نے اپنے بندے زکریا کو عطا کی گئ رحمتوں کا چرچا کیا ہے ۔ پھر اسی سورۃ مريم کی اگلی آیات ( 3 تا 15 ) میں اللہ تعالی نے اِن کو عطا کی گئ 10 نعمتوں کا چرچا کیا ہے اور ( اوپر کی آیت میں ) ان میں سے ہر ایک نعمت کو رحمت قرار دیا ہے۔
اللہ تعالی نے اپنی رحمتوں کے ذکر کا آغاز یحییٰ علیہ السلام کے میلاد نامہ سے کیا ، پھر باقی رحمتوں کو تسلسل سے یوں بیان فرمایا ہے :
اے زکریا! بے شک ہم تمہیں ایک لڑکے کی خوش خبری سناتے ہیں | 1 |
جس کا نام یحییٰ ہوگا، | 2 |
ہم نے انہیں بچپن ہی سے حکمت و بصیرت (نبوت) عطا فرما دی تھی | 3 |
اور اپنے لطفِ خاص سے (انہیں) درد و گداز اور پاکیزگی و طہارت (سے بھی نوازا تھا)، | 4 |
اور وہ بڑے پرہیزگار تھے | 5 |
اور اپنے ماں باپ کے ساتھ بڑی نیکی (اور خدمت) سے پیش آنے والے (تھے) | 6 |
اور (عام لڑکوں کی طرح) ہرگز سرکش و نافرمان نہ تھے | 7 |
اور یحییٰ پر سلام ہو اُن کے میلاد کے دن | 8 |
اور ان کی وفات کے دن | 9 |
اور جس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں گے ‘‘ | 10 |
(مريم، 19 : 3 – 15) |
سورہ مریم کا پہلا پورا رکوع میلادِ یحییٰ علیہ السلام کے بیان کے لیے وقف ہے، جس میں پہلے ان کے میلاد کا ذکر ہے کہ کیسے ان کے والد گرامی حضرت زکریا علیہ السلام نے ان کی ولادت کے لیے عالمِ پیری میں دعا کی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت کی خوش خبری سنائی۔ جب انہوں نے تعجب کا اظہار کیا تو اﷲ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا بیان فرمایا۔ الغرض حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت کے وقت اﷲ تعالیٰ اور اس کے محبوب پیغمبر کے درمیان جو مکالمہ ہوا قرآن کریم نے تفصیل سے بیان کیا۔ پھر حضرت یحییٰ علیہ السلام کے روحانی مقامات اور سیرت کے چند خصوصی گوشوں کا بھی تذکرہ کیا۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت سے آغاز کرکے ان کی سیرت کے مختلف پہلو بیان کرنے کے بعد بات ان کے یومِ میلاد، یومِ وصال اور یومِ بعثت (قیامت کے دن اٹھائے جانے) پر سلام کے ساتھ ختم کی۔ قرآن حکیم کا ان جزئیات کو بیان کرنے کا مقصد صر ف ایک برگزیدہ نبی حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور پڑھنے والوں کے ذہنوں میں اسے جاگزیں کرنا ہے۔ یہ تھا میلاد نامۂ یحییٰ علیہ السلام جس کی قرآن حکیم میں تلاوت کی جاتی ہے۔
مِیلاد نامۂ عیسیٰ علیہ السلام
5
حضرت مریم علیھا السلام کے میلاد نامہ کے بعد ان کے فرزند حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا میلاد نامہ بھی قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے۔ سورۂ مریم کا ایک مکمل رکوع میلاد نامۂ عیسیٰ علیہ السلام پر مشتمل ہے جس میں ان کی ولادت سے قبل ان کی والدہ ماجدہ کو بیٹے کی خوش خبری دی گئی۔ اس کی تفصیل قرآن مجید یوں بیان کرتا ہے :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
إِذْ قَالَتِ الْمَلآئِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَO وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلاً وَمِنَ الصَّالِحِينَO قَالَتْ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي وَلَدٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ قَالَ كَذَلِكِ اللّهُ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ إِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُO
’’جب فرشتوں نے کہا : اے مریم! بے شک اللہ تمہیں اپنے پاس سے ایک کلمۂ (خاص) کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہوگا، وہ دنیا اور آخرت (دونوں) میں قدر و منزلت والا ہوگا اور اللہ کے خاص قربت یافتہ بندوں میں سے ہوگا۔ اور وہ لوگوں سے گہوارے میں اور پختہ عمر میں (یکساں) گفتگو کرے گا اور وہ (اللہ کے) نیکوکار بندوں میں سے ہوگا۔ (مریم نے) عرض کیا : اے میرے رب! میرے ہاں کیسے لڑکا ہوگا درآنحالیکہ مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ تک نہیں لگایا! ارشاد ہوا : اسی طرح اللہ جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے، جب کسی کام (کے کرنے) کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو اس سے فقط اتنا فرماتا ہے کہ ’ہو جا‘ وہ ہوجاتا ہے۔ ‘‘
(آل عمران، 3 : 45 – 47)
اس کے بعد تفصیل سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا ذکر کرتے ہوئے حسبِ سابق چھوٹی چھوٹی جزئیات بھی بیان ہوئیں کہ کس طرح جبرئیل امین علیہ السلام آئے اور انہوں نے روح پھونکی اور حضرت مریم علیھا السلام اُمید سے ہوئیں۔ وضعِ حمل کے وقت حضرت مریم علیھا السلام کو تکلیف ہوئی، قرآن کریم نے ان کی اس تکلیف کا بھی ذکر کیا اور بہ تقاضائے نسوانیت ان کا شرمانا بھی بیان فرمایا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے جب وہ خلوت گزیں ہوگئیں تو اس کا بھی ذکر کیا۔ پھر یہ بیان کیا کہ کس طرح تکلیف کو رفع کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے چشمے کا شیریں پانی مہیا کیا، تازہ کھجوریں دیں جن کے کھانے سے تکلیف دور ہو گئی۔ عین لمحۂ ولادت کا ذکر کیا۔ ولادت کے بعد جب وہ نومولود کو اٹھا کر اپنی قوم کے پاس لے گئیں اور انہوں نے طعنے دیئے، ان طعنوں کا ذکر کیا اور طعن و تشنیع کے جواب میں پنگھوڑے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کلام کرنے کا ذکر کیا۔ یہ سارے اَحوال اﷲ رب العزت نے یوں بیان فرمائے ہیں :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّاO فَاتَّخَذَتْ مِن دُونِهِمْ حِجَابًا فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّاO قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمَنِ مِنكَ إِن كُنتَ تَقِيًّاO قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاَمًا زَكِيًّاO قَالَتْ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلاَمٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيًّاO قَالَ كَذَلِكِ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَلِنَجْعَلَهُ آيَةً لِّلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِّنَّا وَكَانَ أَمْرًا مَّقْضِيًّاO فَحَمَلَتْهُ فَانتَبَذَتْ بِهِ مَكَانًا قَصِيًّاO فَأَجَاءَهَا الْمَخَاضُ إِلَى جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ يَا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَذَا وَكُنتُ نَسْيًا مَّنسِيًّاO فَنَادَاهَا مِن تَحْتِهَا أَلاَّ تَحْزَنِي قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّاO وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّاO فَكُلِي وَاشْرَبِي وَقَرِّي عَيْنًا فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُولِي إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنسِيًّاO فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ قَالُواْ يَا مَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّاO يَا أُخْتَ هَارُونَ مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيًّاO فَأَشَارَتْ إِلَيْهِ قَالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَن كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّاO قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّاO وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلاَةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّاO وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّاO وَالسَّلاَمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّاO ذَلِكَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَO مَا كَانَ لِلَّهِ أَن يَتَّخِذَ مِن وَلَدٍ سُبْحَانَهُ إِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُO
’’اور (اے حبیبِ مکرم!) آپ کتاب (قرآن مجید) میں مریم کا ذکر کیجئے جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر (عبادت کے لیے خلوت اختیار کرتے ہوئے) مشرقی مکان میں آگئیں۔ پس انہوں نے ان (گھر والوں اور لوگوں) کی طرف سے حجاب اختیار کر لیا (تاکہ حسنِ مطلق اپنا حجاب اٹھا دے) تو ہم نے ان کی طرف اپنی روح (یعنی فرشتہ جبرئیل) کو بھیجا، سو جبرئیل ان کے سامنے مکمل بشری صورت میں ظاہر ہوا۔ (مریم نے) کہا : بے شک میں تجھ سے (خدائے) رحمان کی پناہ مانگتی ہوں اگر تو (اللہ) سے ڈرنے والا ہے۔ (جبرئیل نے) کہا : میں تو فقط تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں (اس لیے آیا ہوں) کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروں۔ (مریم نے) کہا : میرے ہاں لڑکا کیسے ہوسکتا ہے جب کہ مجھے کسی انسان نے چھوا تک نہیں اور نہ ہی میں بدکار ہوں۔ (جبرئیل نے) کہا : (تعجب نہ کر) ایسے ہی ہوگا، تیرے رب نے فرمایا ہے : یہ (کام) مجھ پر آسان ہے، اور (یہ اس لیے ہوگا) تاکہ ہم اسے لوگوں کے لیے نشانی اور اپنی جانب سے رحمت بنا دیں اور یہ امر (پہلے سے) طے شدہ ہے۔ پس مریم نے اسے پیٹ میں لے لیا اور (آبادی سے) الگ ہو کر دور ایک مقام پر جا بیٹھیں۔ پھر دردِ زہ انہیں ایک کھجور کے تنے کی طرف لے آیا وہ (پریشانی کے عالم میں) کہنے لگیں : اے کاش! میں پہلے سے مرگئی ہوتی اور بالکل بھولی بسری ہو چکی ہوتی۔ پھر ان کے نیچے کی جانب سے (جبرئیل نے یا خود عیسیٰ نے) انہیں آواز دی کہ تو رنجیدہ نہ ہو، بے شک تمہارے رب نے تمہارے نیچے ایک چشمہ جاری کر دیا ہے (یا تمہارے نیچے ایک عظیم المرتبہ انسان کو پیدا کر کے لٹا دیا ہے)۔ اور کھجور کے تنا کو اپنی طرف ہلاؤ وہ تم پر تازہ پکی ہوئی کھجوریں گرا دے گا۔ سو تم کھاؤ اور پیو اور (اپنے حسین و جمیل فرزند کو دیکھ کر) آنکھیں ٹھنڈی کرو، پھر اگرتم کسی بھی انسان کو دیکھو تو (اشارے سے) کہہ دینا کہ میں نے (خدائے) رحمان کے لیے (خاموشی کے) روزہ کی نذر مانی ہوئی ہے، سو میں آج کسی انسان سے قطعاً گفتگو نہیں کروں گی۔ پھر وہ اس (بچے) کو (گود میں) اٹھائے ہوئے اپنی قوم کے پاس آگئیں، وہ کہنے لگے : اے مریم! یقیناً تو بہت ہی عجیب چیز لائی ہے۔ اے ہارون کی بہن! نہ تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ ہی تیری ماں بدچلن تھی۔ تو مریم نے اس (بچے) کی طرف اشارہ کیا، وہ کہنے لگے : ہم اس سے کس طرح بات کریں جو (ابھی) گہوارہ میں بچہ ہے۔(بچہ خود) بول پڑا : بے شک میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔ اور میں جہاں کہیں بھی رہوں اس نے مجھے سراپا برکت بنایا ہے اور میں جب تک بھی زندہ ہوں اس نے مجھے زکوٰۃ اور نماز کا حکم فرمایا ہے۔ اور اپنی والدہ کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا (بنایا ہے) اور اس نے مجھے سرکش و بدبخت نہیں بنایا۔ اور مجھ پر سلام ہو میرے میلاد کے دن اور میری وفات کے دن اور جس دن میں زندہ اٹھایا جاؤں گا۔ یہ مریم کے بیٹے عیسیٰ ہیں، (یہی) سچی بات ہے جس میں یہ لوگ شک کرتے ہیں۔ یہ اللہ کی شان نہیں کہ وہ (کسی کو اپنا) بیٹا بنائے، وہ (اس سے) پاک ہے جب وہ کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تو اسے صرف یہی حکم دیتا ہے ’’ہو جا‘‘ پس وہ ہوجاتا ہے۔‘‘
(مريم، 19 : 16 – 35)
میلاد نامۂ مصطفٰی ﷺ
2.1.10
گزشتہ باب میں ہم نے ’’میلادنامۂ انبیاء علیھم السلام ‘‘ کے عنوان سے ان انبیاء کرام علیھم السلام کے میلاد نامے بیان کیے جن کا میلاد خواں خود خدائے رحمان ہے۔ قرآن مجید کے حوالے سے ان انبیاء کرام علیھم السلام کے میلاد نامے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انبیاء کرام علیھم السلام کی ولادت کے واقعات، ان کے کمالات و برکات اور ان پر رب کریم کی عنایات کا ذکر کرنا سب سنتِ الٰہیہ اور ان کا بار بار دہرانا قرآنِ مجید کا منشاء ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے انبیاء کرام کا ذکر تو قرآن مجید میں آیا ہے، کیا حضور علیہ السلام کی ولادت کا ذکر بھی قرآن مجید میں ہے؟ اس کا جواب اثبات میں ہے۔ قرآن مجید میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا تذکرہ بھی موجود ہے۔
مطالعۂ قرآن سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اپنے برگزیدہ انبیاء کرام علیھم السلام کی ولادت کا ذکر فرما کر ان کی شان کو اجاگر کیا ہے۔ یہی میلادنامۂ انبیاء ہے۔ اگر قرآنی آیات کے مفہوم پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ربِ کریم نے امام الانبیاء حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے جتنے بھی انبیاء علیھم السلام کا ذکر کیا وہ فقط ذکرِ ولادت تک محدود تھا، مگر جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کیا تو اس شانِ امتیاز کے ساتھ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی نسبت سے نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہرِ ولادت بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباو واجداد اور خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِ وَأَنتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِ وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَ
’’میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوں۔ (اے حبیبِ مکرّم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں۔ (اے حبیبِ مکرّم! آپ کے) والد (آدم یا ابراہیم علیہما السلام) کی قَسم اور (ان کی) قَسم جن کی ولادت ہوئی ‘‘
(البلد، 90 : 1 – 3)
اللہ تبارک و تعالیٰ نے شہر مکہ کو اس وجہ سے لائقِ قسم نہیں ٹھہرایا کہ وہاں بیت اللہ، حجرِ اسود، مطاف، حطیم، ملتزم، مقامِ ابراہیم، چشمۂ زَم زَم، صفا و مروہ، میدانِ عرفات، منیٰ اور مزدلفہ ہیں، بلکہ قسم کھانے کی وجہ قرآن کی رُو سے یہ ہے کہ اس شہر کو محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے سکونت ہونے کا شرف حاصل ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے شہر مکہ کی قسم صرف اس لیے کھائی کہ وہ اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مسکن ہے، پھر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جملہ آباء و اَجداد کی قسم کھائی۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کے پیدا ہونے کی قسم نہیں کھائی بلکہ صرف ایک ہستی کی ولادت کی قسم کھائی ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ کا ذکر اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں مختلف مقامات پر یوں کیا ہے :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
1. كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ
’’اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہی میں سے (اپنا) رسول بھیجا۔‘‘
. (البقره، 2 : 151)
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
2. لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ
’’بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے عظمت والا رسول بھیجا۔‘‘
(آل عمران، 3 : 164)
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
3. يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِن رَّبِّكُمْ فَآمِنُواْ خَيْرًا لَّكُمْ
’’اے لوگو! بے شک تمہارے پاس یہ رسول تمہارے رب کی طرف سے حق کے ساتھ تشریف لایا ہے سو تم (ان پر) اپنی بہتری کے لیے ایمان لے آؤ۔‘‘
(النساء، 4 : 170)
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
4. يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُواْ عَن كَثِيرٍ قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ
’’اے اہلِ کتاب! بے شک تمہارے پاس ہمارے (یہ) رسول تشریف لائے ہیں جو تمہارے لیے بہت سی ایسی باتیں (واضح طور پر) ظاہر فرماتے ہیں جو تم کتاب میں سے چھپائے رکھتے تھے اور (تمہاری) بہت سی باتوں سے درگزر (بھی) فرماتے ہیں، بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) آگیا ہے اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآن مجید)۔ ‘‘
(المائدة، 5 : 15)
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
5. يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلَى فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ أَن تَقُولُواْ مَا جَاءَنَا مِن بَشِيرٍ وَلاَ نَذِيرٍ فَقَدْ جَاءَكُم بَشِيرٌ وَنَذِيرٌ وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
’’اے اہلِ کتاب! بے شک تمہارے پاس ہمارے (یہ آخر الزمان) رسول پیغمبروں کی آمد (کے سلسلے) کے منقطع ہونے (کے موقع) پر تشریف لائے ہیں جو تمہارے لیے (ہمارے احکام) خوب واضح کرتے ہیں، (اس لیے) کہ تم (عذر کرتے ہوئے یہ) کہہ دو گے کہ ہمارے پاس نہ (تو) کوئی خوش خبری سنانے والا آیا ہے اور نہ ڈرانے والا، (اب تمہارا یہ عذر بھی ختم ہو چکا ہے کیونکہ) بلاشبہ تمہارے پاس (آخری) خوش خبری سنانے اور ڈرانے والا (بھی) آگیا ہے، اور اللہ ہر چیز پر بڑا قادر ہے۔‘‘
(المائده، 5 : 19)
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
6. لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ
’’بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول تشریف لائے، تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں۔‘‘
(التوبه، 9 : 128)
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
7. وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ
’’اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔‘‘
(الأنبياء، 21 : 107)
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
8. هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ.
’’وہی ہے جس نے اَن پڑھ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک (باعظمت) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو بھیجا وہ ان پر اس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور ان (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں، بے شک وہ لوگ ان (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘
(الجمعة، 62 : 2)
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
9. إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا
’’بے شک ہم نے تمہاری طرف ایک رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا ہے۔‘‘
(المزمل، 73 : 15)
مذکورہ بالا آیات میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس جہانِ رنگ و بو میں تشریف آوری کا ذکر در حقیقت ذکرِ ولادت ہی ہے۔ ان آیات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا ذکر بلا اِستثنا تمام نسلِ انسانی کے لیے کیا ہے۔ اس میں تمام اہلِ ایمان کے علاوہ جمیع اہلِ کتاب اور کفار و مشرکین شامل ہیں۔ ہر ایک کو مطلع کیا گیا کہ حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے ہیں، اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کو تمام کائنات کے لیے نعمت اور رحمت قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کا ذکر اِس قدر اِہتمام اور تواتر سے کیا ہے کہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ معمول کی بات ہے۔
ان آیاتِ مقدسہ کے ذریعے اللہ تبارک و تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کو یہ سمجھا دیا کہ میرے محبوب کی ولادت کا ذکر قیامت تک آنے والی نسلوں پر لازِم ہے۔ لہٰذا یہ سوچ۔ کہ ولادت کا ذکر کرنے کا کیا فائدہ؟۔ قرآن مجید کی سینکڑوں آیات سے انکار کے مترادف ہے کیوں کہ انبیاء علیھم السلام کی ولادت کا ذکر کرنا اور ان کا میلاد نامہ قرآن حکیم میں بیان کر کے اس کی تلاوت کا حکم دینا منشائے خداوندی ہے۔ جب ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر بہ عنوان میلاد کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجاآوری اور سنت کی ادئیگی کر رہے ہوتے ہیں۔ اگران آیات کے مفہوم پر۔ جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب اور برگزیدہ بندوں کی ولادت کا بیان کیا ہے۔ غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ان آیات میں بیان کردہ واقعات کا اُمتِ مسلمہ کی تعلیم و تربیت سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں سوائے اس کے کہ ان سب کا مقصود میلاد نامہ انبیاء علیھم السلام کا بیان ہے۔
میلاد نامہ اَنبیاء سے میلاد نامہ مصطفیٰ ﷺ تک
اللہ رب العزت نے اپنے برگزیدہ انبیاء علیھم السلام کی ولادت کا ذکر اس قدر اہتمام سے کیا ہے کہ انسانی ذہن میں پیدا ہونے والے خیال تک کو بھی بیان کیا۔ میلاد نامہ یحییٰ علیہ السلام پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ جب ان کے والد گرامی حضرت زکریا علیہ السلام مریم علیھا السلام کے حجرہ میں تشریف لے گئے اوران کے پاس بے موسم پھل دیکھے تو اسی جگہ اولاد کے لیے دعا مانگی، پھر جب ان کو خوش خبری ملی کہ بیٹا عطا ہوگا تو دل میں بشری تقاضے کے تحت ایک خیال پیدا ہوا کہ میں اتنا بوڑھا ہو چکا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہو چکی ہے تو میرے ہاں بیٹا کیسے پیدا ہوگا؟ یہ خیال آتے ہی اللہ کی بارگاہ میں سوال کیا تو قرآن حکیم نے اس خیال اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سوال کا بھی ذکر کیا، پھر اﷲ تعالیٰ نے اس سوال کا جو جواب دیا اس کا ذکر بھی فرمایا۔
اسی طرح میلاد نامہ عیسیٰ علیہ السلام کا مطالعہ بھی بڑا ایمان افروز اور فکر انگیز ہے۔ اس کی بعض جزئیات پڑھ کر ذہن میں سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اس قدر عام چیزیں بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی : جیسے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے لے کر ولادتِ عیسیٰ علیہ السلام تک لمحہ بہ لمحہ واقعات کا ذکر، دردِ زہ کی تکلیف کا تذکرہ، اور یہ کہ حضرت مریم علیھا السلام نے پریشانی کے عالم میں کہا : ’’اے کاش! میں پہلے سے مرگئی ہوتی اور بالکل بھولی بسری ہوچکی ہوتی۔‘‘ اس قسم کی باتیں ذکر کرکے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اُمتِ مسلمہ کو یہ شعور عطا کیا کہ جس طرح قرآن مجید دیگر انبیاء علیھم السلام کی ولادت کے باب میں بہت سے واقعات بیان کرتا ہے اُسی طرح جب حبیب کبریاء سید الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات آئے اور ان کی ولادت کا ذکر چھڑے تو تم حضرت آدم علیہ السلام سے بات شروع کرتے ہوئے حضرت عبد اﷲ رضی اللہ عنہ کا ذکر کرو اور سیدہ آمنہ رضی اﷲ عنہا کی گود سے لے کر حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اﷲ عنہا کے گاؤں تک کے سارے واقعات بیان کرو اور جو کمالات و برکات مشاہدے میں آئے ان کا بھی ذکر کرو، یہی سنتِ الٰہیہ اور منشائے قرآن ہے۔ دیگر انبیاء علیھم السلام کا ذکر تو وحیء الٰہی کے ذریعے حضور علیہ السلام نے کیا اور ظاہر ہے کہ آپ علیہ السلام کا ذکر بعد میں آنے والوں نے ہی کرنا تھا۔ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور کوئی نبی نہیں آئے گا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر آپ کی امت نے کرنا ہے۔
میلاد نامۂ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہی واقعات کا بیان ہے جو آقا علیہ السلام کی ولادت باسعادت سے قبل اور ولادت کے وقت ظہور میں آئے۔ نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ تک کس طرح پاک پشتوں سے پاک رحموں میں منتقل ہوتا رہا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے انسانیت پر کیا کیا احسانات فرمائے۔ عاشقانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوں توسارا سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے تذکرے کرتے رہتے ہیں لیکن جونہی ماہِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ر بیع الاوّل آتا ہے ان کی محبت اور ذیادہ جوش مارتی ہے، وہ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ عظمیٰ کے حسین تذکروں سے اپنے قلوب و اَذہان منّور کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا پیغام عام کرنے کے لیے محافلِ میلاد کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔ ان محافل میں محبانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کشاں کشاں چلے آتے ہیں۔ یہ بڑا ایمان افروز سماں ہوتا ہے۔ اس موقع پرکوئی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زلف و رخسار کی بات کرتا ہے توکوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدارِ فرحت آثار کی، کوئی گنبد خضراء کا حسین منظر بیان کرتا ہے تو کوئی روضہ اقدس کی سنہری جالیوں کی بات کرتا ہے، کوئی شہرِ مدینہ کے گلی کوچوںکی تو کوئی اس شہرِدل نواز کی روشنیوں اور رونقوں کی بات کرتا ہے، کوئی سیدہ آمنہ رضی اﷲ عنہا کے گھر کا تذکرہ کرتا ہے تو کوئی حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اﷲ عنہا کے آنے اور آقا علیہ السلام کو ساتھ لے جانے کی بات کرتا ہے، کوئی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچپن کی بات کرتا ہے تو کوئی لڑکپن کی اور کوئی چودہ سو سال پیچھے پلٹ کر شہر مکہ کی وادی میں آقا علیہ السلام کے خرامِ ناز کا حسین تذکرہ چھیڑ دیتا ہے، الغرض اس مہینے میں فقط محبت کے ترانے گونجتے ہیں، محبت کے تذکرے ہوتے ہیں، آقا علیہ السلام کی ولادت اور بچپن کی باتیں ہوتی ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا ہے کہ عشق کے یہ ترانے سن کر اہلِ ایمان کے دلوں کے اندر موجود خوابیدہ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جاگ اٹھے۔
گزشتہ صفحات میں قرآن مجید کے حوالے سے انبیاء علیھم السلام کے میلاد ناموں کے بیان سے اس سوال کا رَدّ ہوجاتا ہے کہ میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان کے تحت یہ بیان کرنے کی کیا ضرورت ہے کہ کس طرح نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی پشت میں آیا؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کس طرح ہوئی؟ وغیرہ۔ قرآن مجیدمیں مذکور انبیاء کرام علیھم السلام کے احوال و واقعاتِ میلاد پڑھ کر بھی اگر کوئی یہ سوچے اور سمجھے کہ ان چیزوں کو بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تو یہ معترض کی قرآن حکیم کی صریح آیات سے ناواقفیت، محض ہٹ دھرمی اور کم علمی کی دلیل ہے۔
اِس پوری تفصیل کے ذریعے قرآن مجید کے حوالہ سے یہ نکتہ سمجھانا مقصود ہے کہ انبیاء علیھم السلام کے میلاد ناموں، واقعاتِ ولادت، کمالات و برکات اور ان پر ہونے والی اُلوہی عنایات کا ذکر کرنا اللہ کی سنت ہے۔ انہیں خود قرآن مجید میں بارہا اللہ رب العزت نے کھول کھول کر بیان کیا ہے۔ اس حوالہ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا ذکر کرنا بھی سنتِ الٰہیہ کے زمرے میں آتا ہے جسے قیامت تک آنے والے محبانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بجالاتے رہیں گے۔ یہ ذکر کیسے ہوگا؟ اس ذکر کا طریقہ خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے سمجھا دیا ہے۔ جب ہم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات و واقعات کا ذکر کرتے ہیں تو یہ بھی سابقہ انبیاء علیہم السلام کے ذکرِ میلاد کی طرح اللہ رب العزت کی سنت اور منشائے قرآن کے عین مطابق ہوتا ہے۔ گزشتہ صفحات میں ہم نے تفصیل سے بیان کر دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے انبیاء علیھم السلام کے میلاد نامے بیان کرتے ہوئے معمولی اُمور بھی نظرانداز نہیں کیے۔ اسی طریقہ اور سنتِ اِلٰہیہ کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے آج ہم بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے ضمن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خلقت، نورانیت اور ولادت کا ذکر کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زرّیں سلسلۂ نسب بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء و اَجداد کا تذکرہ کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے وقت رُونما ہونے والے عجائب و غرائب اور ان خصائص و امتیازات کو بیان کرتے ہیں جن کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کا ذکر آتا ہے تو واقعات کی کڑیاں حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ملاتے ہوئے حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اﷲ رضی اللہ عنہ سے بات شروع کر کے مخدومۂ کائنات سیدہ آمنہ علیھا السلام کی آغوش اور حضرت حلیمہ سعدیہ علیھا السلام کی بستی تک پھیلاتے چلے جاتے ہیں تاکہ اس ذکرِ جمیل کی شیرینی اور حلاوت سے ہمارے قلوب و اَرواح بھی شاد کام ہوسکیں اور اس اَبدی داستانِ حسن و جمال کا پس منظر ہماری لوحِ تخیل پر نقشِ دوام ہو جائے۔ جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلے میں منعقد ہونے والی محافل میں بھی اِنہی تذکارِ رِسالت کا بیان ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ ایسی محافل کا اِنعقاد (معاذ اﷲ) ناجائز ہے، درست نہیں۔ محافلِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اِس کے اَجزاء پر قرآن و حدیث سے تفصیلی دلائل اگلے اَبواب میں پیش کیے جائیں گے۔
عامُ الفیل اور میلاد نامہ ﷺ
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے سال کا عظیم معجزاتی واقعہ جو قریش مکہ کے لئے بہت خوشی کا باعث بنا، قرآن پاک میں سورۃ الفیل میں بیان فرمایا۔
اللہ کریم نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ولادت کے سال کو قریش کے لیے خوشیوں بھرا سال بنایا جس کو وہ عام الفیل کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ جس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی اس سال خانہ کعبہ اور قریش کو نقصان پہنچا جاتا اور پھر یہ ان سب کے لئے غم کا سال بنتا۔بلکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ابرا کے لشکر کو معجزاتی طور پر ابابیل سے تباہ فرما کر کے اس کو قریش کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ بنا دیا۔ تاکہ اس کو ہمیشہ یاد رکھیں۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ الْعَبْدِيُّ حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ حَدَّثَنَا أَبِي قَال سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْحَقَ يُحَدِّثُ عَنْ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ وُلِدْتُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفِيلِ وَسَأَلَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ قُبَاثَ بْنَ أَشْيَمَ أَخَا بَنِي يَعْمَرَ بْنِ لَيْثٍ أَأَنْتَ أَکْبَرُ أَمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَکْبَرُ مِنِّي وَأَنَا أَقْدَمُ مِنْهُ فِي الْمِيلَادِ وُلِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفِيلِ وَرَفَعَتْ بِي أُمِّي عَلَی الْمَوْضِعِ قَالَ وَرَأَيْتُ خَذْقَ الطَّيْرِ أَخْضَرَ مُحِيلًا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ
محمد بن بشار عبدی، وہب بن جریر، محمد بن اسحاق، مطلب بن عبداللہ بن قیس بن مخرمہ، حضرت قیس بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عام الفیل (ہا تھیوں والے سال) میں پیدا ہوئے۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قبیلہ بنو یعمر بن لیث کے ایک شخص قباث بن اشیم سے پوچھا کہ آپ بڑے ہیں یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے (مرتبہ میں) بڑے ہیں۔ لیکن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے پیدا ہوا۔ میں نے ان سبز پرندوں کی بیٹ دیکھی ہے۔ (جنہوں نے ابرہہ کے ہاتھیوں کو مارا تھا) اس کا رنگ متغیر ہوگیا تھا۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اس حدیث کو صرف محمد بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں۔
حوالاجات
جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ مناقب کا بیان ۔ حدیث 1585 | 1 |
میلادِ مصطفٰی ﷺ کا سابقہ کُتب میں ذکر
2.1.11
قرآن ِپاک بھی اس بات کا گواہ ہے کہ ہر دور میں سابقہ ا نبیا ء نے حضرت محمد ﷺ کی آمدکی خوشخبری اپنی امتوں کو دی اور وہ اپنے اپنے دور میں آپ ﷺ کی آمد کے منتظر رہے۔ قرآن کی سورة الاعراف میں ذکر کیا گیا ہے کہ:
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ٘
وہ لوگ جو ایسے رسول،نبی اُمی ﷺ کی پیروی کرتے ہیں جن کو وہ اپنے ہاں تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔
( الاعراف، 7 : 157)
حضرت عیسٰی نے آپ ﷺ کی آمد کی جو بشارت بنی اسرائیل کو دی اس کا ذکر قرآن کی سورة الصف میں کیا گیا ہے کہ:
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ-فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ
اور یاد کرو جب عیسٰی بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اپنے سے پہلی کتاب توریت کی تصدیق کرتا ہوا اور ان رسول کی بشارت سناتا ہوا جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے پھر جب احمد ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر تشریف لائے بولے یہ کُھلا جادو ہے۔
( الصف، 61 : 6)
تورات اور انجیل میں تو آپ کے آنے کی پیشنگوئیاں اور بشارتیں آج بھی کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں۔گرچہ کہ صدیوں سے ان کتابوں کی اصل زبان بولنے اور سمجھنے والا کوئی نہ رہا لیکن پھر بھی موجودہ زبانوں میں کیے گئے تراجم میں اس کے ثبوت ملتے ہیں۔ ان پیشنگوئیوں کی رو سے ان آنے والے نبی کے خدوخال ، مقام و مرتبہ، اخلاق و کردار، اعلی و ارفع خصائل، عزم و ہمت، تعلیم و تربیت، منصب نبوت ورسالت کی تکمیل میں اپنے پیش روؤں کے ساتھ کمال درجہ توافق اور ان کے ساتھیوں کی کمال درجہ پُرخلوص مصاحِبت نے ان کو تمام انبیاء سے ممتاز بنا دیا تھا۔
یہاں ان تمام پیشنگوئیوں کا احاطہ مقصود نہیں اس لیے موضوع کے مختلف پہلوؤں کو واضح کرنے کے لیے چند اہم بشارتوں کا ذکر کرتے ہیں۔
محمد ﷺ کا ذکر تورات (عہدنامہ قدیم) میں
(Deuteronomy)محمد ﷺ کا ذکر کتابِ استثنا میں
ڈیوٹرانمی(کتابِ استثنا 18 : 18)میں اﷲتعالیٰ موسی سے فرماتا ہے:
“میں تمھارے بھائیوں کے درمیان میں سے ایک پیغمبر پیدا کروں گا،جو تمھاری (موسی) کی طرح ہوگا،اور میں اپنے الفاظ اس کے منہ میں ڈالوں گا اور وہ ان سے یہی کہے گا جو میں اسکوحکم دوں گا۔”
حضرت محمد ،حضرت موسٰی کے بھائیوں میں سے تھے۔ عرب یہودیوں کے بھائی ہے۔ حضرت ابراہیم کے دو بیٹے تھے،حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق (Isaac)۔ عرب اسماعیل کے اولاد میں سے ہے اور یہودی اسحاق کے اولاد میں سے ہے اور
دونوں یعنی موسی اور محمد ﷺ کے ماں باپ تھے جبکہ عیسیٰ معجزانہ طور پر مرد کے مداخلت کے بغیرپیدا ہوا تھا۔
دونوں نے شادیاں کی اور ان کی اولاد بھی تھی جبکہ بائبل کے مطابق عیسی نے شادی نہیں کی اورنہ ہی اُن کی اولاد تھی۔
دونوں نے فطرتی موت وفات پائی۔ جبکہ عیسیٰ کوزندہ اُٹھالیا گیا ہے۔
چونکہ حضرت محمد ﷺ اُمّی تھے۔ اسی لیے تورات میں کہا گیا ہے کہ “اورمیں اپنے الفاظ اُسکے منہ میں ڈالوں گا اور وہ ان سے یہی کہے گا جیسے میں اُسکو حکم کروں گا” یعنی حضرت محمد ﷺ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے بلکہ آپ ﷺ صرف وہی کہتے ہیں جو آپ ﷺ کی طرف وحی کی جاتی ہے۔
ڈیوٹرانمی (کتابِ استثنا 19 : 18)کی کتاب میں یہ بھی ذکر ہے کہ:
“جوکوئی میری اُن باتوں کو جن کو وہ میرا نام لیکر کہے گا، نہ سنے تو میں اُنکا حساب اُن سے لوں گا۔ “
محمد ﷺ کا ذکر (Isaiah) کی کتاب میں
اس کا ذکر(Isaiah) کی کتاب میں ہے کہ:
“جب کتاب اس کو دی گئی جو (امّی) ہے اور کہا کہ اس کو پڑھو میں تمھارے لیے دُعا کروں گا تو اس نے کہا کہ میں پڑھا لکھا نہیں ہوں۔”
اس کی تصدیق قرآن میں سورۃالعلق کے نزول کے وقت ہوئی ، جب جبرائیل نےحضرت محمد ﷺ سے کہا کہ پڑھ تو آپ ﷺ نے کہا:میں پڑھنے والا نہیں ہوں۔
نام ِمحمد ﷺ کا ذکر
آپ ﷺ کے نام “محمد” کا ذکر سلیمان کی مناجات (songs of solomon) میں کیا گیا ہے۔ عبرانی زبان کے عہدنامہ قدیم (Old Testament) میں آپ ﷺ کا نام “محمد” ابھی بھی موجود ہے۔ لیکن تورات کے موجودہ تراجم میں اس کا ترجمہ کر دیا گیا ہے۔
مندرجہ ذیل ایک عبرانی حوالہ ہے جس کا ترجمہ کچھ ایسے کیا گیاہے:
“وہ بہت میٹھا ہے،ہاں: وہ بہت پیارا ہے۔ یہ میرا محبوب ہے اور یہ میرا دوست ہے،اے یروشلم کے بیٹیوں”
عبرانی زبان میں لفظ اِم احترام کے لیے بولا جاتا ہے۔ مثلاً عبرانی زبان میں خُدا کواِلُ کہاجاتا ہے۔ لیکن احترام سے اس کواِلُ اِم’پڑھا جاتا ہے۔ اسی طرح محمد ﷺ کے نام کے ساتھ بھی اِم کااضافہ کیا گیا ہے۔ لیکن انگریزی میں اس کا ترجمہ لفظ پیارا سے کیا گیا ہے۔
محمد ﷺ کا ذکر انجیل (عہدنامہ جدید) میں
تمام وہ حوالے جو تورات (عہد نامہِ قدیم -Old Testament) میں حضرت محمد ﷺ کے بارے میں دیئےگئے ہیں وہ یہودیوں کے علاوہ مسیحیوں کے لیے بھی درست ہے۔ کیونکہ مسیحی دونوں ، تورات (عہد نامہِ قدیم -Old Testament) اور انجیل (عہد نامہِ جدید-New Testament) دونوں کو مانتی ہیں جبکہ یہودی صرف تورات کو مانتے ہے۔
یوحَنّا (John)کی کتاب میں محمد ﷺ کا ذکر اس طرح آتا ہے:
“اور میں خُدا سے دُعا کروں گا اور وہ تمہیں ایک مددگار دے گا جو تمھارے ساتھ،ہمیشہ رہے گا”۔[14:16]
“میں تمھارے پاس مددگار بھیجوں گا جو میرے باپ کی طرف سے ہوگا وہ مددگار سچائی کی روح ہے جو باپ کی طرف سے آتی ہے جب وہ آئے گا تو میرے بارے میں گواہی دے گا”۔[15:26]
“میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمھارے لیے بہتر ہے کیوں کہ اگر میں جاتا ہوں تو تمھارے لیے مددگار بھیجوں گا۔ اگر میں نہ جائوں تو تمھارے پاس مددگار نہ آئے گا”۔[16:7]
احمدیا محمد ﷺ کا مطلب ہے وہ شخص جس کی تعریف کی جاتی ہےیا وہ جس کی تعریف کی گئی ہو۔ یہ یونانی لفظ پے ری کلایٹس(Periclytos) کے معنی ہے۔ حضرت عیسٰی نے درحقیقت احمد ﷺ کا نام لے کر پیش گوئی کی۔ کیونکہ یونانی لفظ پے راکلیٹ (Paraclete) محمد ﷺ کی طرف اشارہ کرتی ہے جو سارے جہان کے لیے رحمت ہے۔ اس طرح یہ پیش گوئی صرف اور صرف محمد ﷺ کے بارے میں ہے ۔
یوحَنّا (John)کی کتاب میں ایک اور جگہ محمد ﷺ کا ذکر اس طرح آتا ہے:
“مجھے تم سے بہت کچھ کہنا ہے مگر ان سب باتوں کو تم برداشت نہ کرسکوگے۔ لیکن جب روحِ حق آئے گا تو تم کو سچائی کی راہ دکھائے گا۔ روحِ حق اپنی طرف سے کچھ نہ کہے گا بلکہ وہی کہے گا جو وہ سنتا ہے وہ تمھیں وہی کہے گا جو کچھ ہونے والا ہے اور وہ میری (یعنی عیسٰی علیہ السّلام) کی بڑائی بیان کرے گا”۔[16:12-14]
مندرجہ بالاآیت میں روحِ حق کا جو لفظ استعمال کیا گیا ہے یہ حضرت محمد ﷺ کے علاوہ کسی اور کی طرف اشارہ نہیں کرتی۔ کیونکہ محمد ﷺ کے لیے یہاں روح حق کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور محمد ﷺ کی صفات میں سے ایک صفت حق بھی ہے جو قرآن مجید میں موجود ہے۔ انجیل کی مندرجہ بالاآیت میں یہ بھی کہا گیا کہ جب وہ آئے گا تو:
1-لوگوں کو سچائی کی راہ دکھائے گا۔
2-جو کچھ سنے گا وہی کہے گا۔ اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں کہے گا۔
3-وہ عیسٰی کی بڑائی بیان کرے گا اور اس کا احترام کرے گا۔
جبکہ قرآن مجید میں رسول اﷲﷺ کی صفات کا ذکر اس طرح آتا ہے
1-رسول اﷲﷺنے لوگوں کو سچائی کی راہ دکھائی اور وہ ہے اﷲتعالیٰ کی راہ۔
2-رسول اﷲ ﷺ نے جو کچھ سُنا وہی کہا اور اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کی۔ قرآن میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
ترجمہ: اور وہ نبی ﷺ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتےوہ تو نہیں مگر وحی جو اُنہیں کی جاتی ہے( النجم، 53 : 3-4)
3-رسول اﷲﷺ ہمیشہ اﷲتعالیٰ کی انبیاء کی تعریف کرتےتھے اور دوسرے انبیاء کے ساتھ ساتھ عیسٰی کی بڑی تعریف کی ہے۔ قرآن مجید میں بھی عیسٰی کی تعریف کئی جگہوں میں کی گئی ہے۔ عیسٰی کو قرآن میں روح اﷲ کہاگیا ہے ۔ اس کے علاوہ عیسٰی کو کلمتہ اﷲیعنی اﷲ تعالیٰ کا کلام، نبی اﷲیعنی اﷲ تعالیٰ کا نبی اور پیغمبر کے نام سے پکارا گیا ہے۔
خلاصہ
تورات اور انجیل کے مندرجہ بالا اقتباس کا ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ، آپ ﷺ کی آمد کی جو پیشنگوئیاں اور بشارتیں تورات اور انجیل میں بیان کی گئی ہیں اور آپ ﷺ کے جو خدوخال ، مقام و مرتبہ، اخلاق و کردار، اعلی و ارفع خصائل، عزم و ہمت، تعلیم و تربیت، منصب نبوت ورسالت بیان کئے گئے ہیں ان تمام کو قرآنِ پاک نے ایک آیت میں جس خوبصورتی سی یکجاء کیا ہے اس کو بیان کرنا ہے۔ وہ سورة الصف کی یہ آیت مبارکہ ہے۔
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ-فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ
اور یاد کرو جب عیسٰی بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اپنے سے پہلی کتاب توریت کی تصدیق کرتا ہوا اور ان رسول کی خوشخبری سناتا ہوا جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے پھر جب احمد ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر تشریف لائے بولے یہ کُھلا جادو ہے۔
( الصف، 61 : 6)
اس آیت میں حضرت عیسٰی نے آپ ﷺ کی آمد کی جو بشارت بنی اسرائیل کو دی اس کا ذکر لفظِ ” مُبَشِّرً” سےکیا ہے یعنی کہ خوشخبری ۔ قرآن نے آپ کے تمام اوصاف کو خوشخبری قرار دیا ہے- یعنی خوشیاں منائو۔سبحان اللہ
خلاصہ میلادِ مصطفٰی ﷺ فی ثبوت ِقرآن
2.1.12
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَ اَنْزَلْنَا اِلَیْكَ الذِّكْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْهِمْ وَ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ
اور اے حبیب! ہم نے تمہاری طرف یہ قرآن نازل فرمایا تاکہ تم لوگوں سے وہ بیان کردو جو اُن کی طرف نازل کیا گیا ہے اورتاکہ وہ غوروفکر کریں ۔
(16:44)
اللہ تعالی نے قرآن پاک میں بہت سی جگہوں پر قرآن پاک میں غور و فکر کرنے کی ترغیب دلانے کے ساتھ ساتھ جو لوگ قرآن پاک میں غور و فکر کرتے ہیں ان کی تعریف بھی فرمائی ہے۔
اس آیت مبارکہ میں بھی اللہ تعالی نے نے قرآن پاک کے نزول کا ایک مقصد غور و فکر قرار دیا ہے۔ تو پھراللہ کریم کے اس حکمِ“غور و فکر“ کی تعمیل کرتے ہوئے آئیے دیکھتے ہیں کہ اس باب میں بیان کردہ قرآن پاک کی آیات سے کیا نتیجہ حاصل ہوتا ہے۔
اور اگر اﷲ کی نعمتیں گنو تو شمار نہ کرسکو گے (ابراھیم 14:34) | 1 |
اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔ (ابراہیم 14:7) | 2 |
بیشک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے ( عظمت والا ) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے ۔ ( آل عمران3:164) | 3 |
اور ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہاں کے لئے (الانبیاء21: 107) | 4 |
اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو (الضحی، 93:11) | 5 |
فرما دیجئے! (یہ سب کچھ) اﷲ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پر خوشیاں منائیں۔ (يونس، 10 58: ) | 6 |
اور رسولوں کی خبروں میں سے ہم سب تمہیں سناتے ہیں جس سے تمہا رے دل کو قوت دیں اور اس سورت میں تمہارے پاس حق آیا اور مسلمانوں کے لئے وعظ و نصیحت (آئی)۔ (سورۃ ھود،11:120) | 7 |
بیشک ان رسولوں کی خبروں میں عقل مندوں کیلئے عبرت ہے ۔ یہ (قرآن) کوئی ایسی بات نہیں جو خود بنالی جائے لیکن (یہ قرآن) ان کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے جو اس سے پہلے تھیں اور یہ ہر چیز کا مفصل بیان اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔(یوسف 12، 111) | 8 |
اے اﷲ! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے خوان(نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے اترنے کا دن) ہمارے لیے عید ہوجائے ہمار ے اگلوں کے لیے (بھی) اور ہمارے پچھلوں کے لیے (بھی) اور (وہ خوان) تیری طرف سے نشانی ہو۔ (المائده، 5 : 114) | 9 |
اور یحییٰ پر سلام ہو، ان کے میلاد کے دن اور ان کی وفات کے دن اور جس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں گے ( مريم، 19 : 15) | 10 |
اور مجھ پر سلام ہو میرے میلاد کے دن اور میری وفات کے دن اور جس دن میں زندہ اٹھایا جاؤں گا (مريم، 19 : 33) | 11 |
کهيعص ۔ یہ آپ کے رب کی رحمت کا ذکر ہے اپنے بندے زکریا پر (مريم، 19 : 1 – 2) | 12 |
اس آیاتِ مبارکہ میں اللہ تعالی نے اپنی عطا کی گئ 10 نعمتوں کو اپنی رحمت قرار دیا ہے جن کاذکر ،اگلی آیات ( 3 تا 15 ) میں بیان تسلسل سے یوں بیان فرمایا ہے | |
۔(1)۔اے زکریا! بے شک ہم تمہیں ایک لڑکے کی خوش خبری سناتے ہیں | |
۔(2)۔جس کا نام یحییٰ ہوگا | |
۔(3)۔ہم نے انہیں بچپن ہی سے حکمت و بصیرت (نبوت) عطا فرما دی تھی | |
۔(4)۔اور اپنے لطفِ خاص سے (انہیں) درد و گداز اور پاکیزگی و طہارت (سے بھی نوازا تھا) | |
۔(5)۔اور وہ بڑے پرہیزگار تھے | |
۔(6)۔اور اپنے ماں باپ کے ساتھ بڑی نیکی (اور خدمت) سے پیش آنے والے (تھے) | |
۔(7)۔اور (عام لڑکوں کی طرح) ہرگز سرکش و نافرمان نہ تھے | |
۔(8)۔اور یحییٰ پر سلام ہو اُن کے میلاد کے دن | |
۔(9)۔اور ان کی وفات کے دن | |
۔(10)۔اور جس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں گے۔ | |
(مريم، 19 : 3 – 15) |
ماخوذِ آیات
ان آیات پر غور و فکر کرنے بعد بِلا شک و شبہ یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ
حضرت محمد ﷺ ہی اللہ تعالی کی سب سے بڑی نعمت ہیں اور | 1 |
حضرت محمد ﷺ ہی اللہ تعالی کی سب سے بڑی رحمت ہیں | 2 |
قرآن کے مطابق ہمیں حضرت محمد ﷺ جیسی عظیم نعمت کا ضرور شکر ادا کرنا چاہیئے | 3 |
قرآن کے مطابق ہمیں حضرت محمد ﷺ جیسی عظیم نعمت کا ضرور چرچاکرنا چاہیئے | 4 |
قرآن کے مطابق ہمیں حضرت محمد ﷺ جیسی عظیم رحمت پر ضرور خوشیاںمنانا چاہیئے | 5 |
قرآن کے مطابق رسولوں کی خبریں عقل مندوں کیلئے سبق ہیں | 6 |
قرآن کے مطابق رسولوں کی خبروں سے دلوں کو قوت ملتی ہے یعنی ایمان و یقین بڑھتا ہے | 7 |
قرآن کے مطابق رسولوں کی خبروں میں مسلمانوں کے لئے وعظ و نصیحت ہے | 8 |
قرآن کے مطابق اللہ کی ایک بار عطا کی گئ نعمت پر ہر سال عید منانا مرادِ نبی ہے۔ | 9 |
قرآن کے مطابق انبیاء کی ولادت کا دن خاص اہمیت رکھتا ہے اسی لیے اللہ تعالی انبیاء پراس دن سلام بھجتا ہے۔ | 10 |
اللہ نے حضرت یحییٰ کے میلاد کی آیات میں اپنے نبی کو عطا کی گئ نعمتوں کے بیان کو رحمت کا ذکر [چرچا ] قرار دیا اور پھر اللہ نے ان نعمتوں کو تسلسل سے بیان کرکے ہمیں رحمت کے چرچا کرنے کاطریقہ کار سمجھا دیا ہے کہ اللہ کے نبی کے چرچا کرنے میں کن کن چیزوں کو شامل کرو۔ جیسے کہ نبی کی ولادت، نام مبارک، حکمت و بصیرت، پاکیزگی و طہارت، درد و گداز، پرہیزگاری، اخلاق و فرمانبداری، نبی سے جڑے دنوں کی اہمیت اورپھر نبی پر سلام بھیجنا۔ | 11 |
قرآن حکیم میں اللہ نے ایسی بیشتر مثالیں حضرت موسیٰ ، حضرت عیسیٰ اورحضرت مریم کے میلاد کے زمن میں بھی بیان کی ہیں، جن کی تفصیل اس باب میں آچکی ہے۔ ان سب نعمتوں کے بیان کو اللہ تعالی نے خود ذکرِ رحمت کہا ہے۔ | |
اللہ تعالی کےاِن تمام بیان کردہ حکموں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے امتِ محمد یﷺ صدیوں سے رسول اللہ کا ذکرِ رحمت کرتی چلی آرہی ہے اور اِسے باقی محافل سے منفرد کرنے کے لیے میلاد النبی ﷺ کا نام دیا گیا ہے۔ جس طرح میلاد النبی ﷺ کاہر جزء قرآن پاک کی نص سے ثابت ہے ، اِسی طرح مجموعی طور بھی محفلِ میلاد النبی ﷺ کی صورت میں اِسے شرعی جواز حاصل ہے۔ کیونکہ یہ تو ممکن نہیں کہ قرآن میں بیان کردہ احسن احکام انفرادی طور پر جائز اور باعثِ ثواب ہوں اور جب ان کو اکٹھا کریں تو یہ ناجائز اور خلافِ شرح ہو جائیں۔ | 12 |
اللہ تعالی نے جس طرح خود انبیاء کا ذکرِ رحمت کیا، اسی طرح امتِ محمد یﷺ سنتِ الہی کو اپناتے ہوئے ، میلاد نامۂ مصطفیٰ ﷺ میں اُن واقعات کا بیان کرتےہیں جو آقا علیہ السلام کی ولادت باسعادت سے قبل اور ولادت کے وقت ظہور میں آئے ، آپ ﷺ کی سیرت، اخلاق و کردار، لُطف وکرم، معجزات، حتیٰ کہ آپ ﷺ سے منسلک ہر چیز کا ذکر ِخیرکرتے ہیں۔ |
قرآن کا فیصلہ
قرآن نے فیصلہ کردیا کہ نبیﷺ سے بڑھ کر کائنات میں کوئی رحمت و نعمت نہیں اور ساتھ میں یہ بھی حکم دیا کہ اس کا چرچا کرو اور خوشیاں مناؤ ۔ اس لئیے مسلمان اگر رحمتہ للعالمین کی آمد کی خوشی نہیں منائیں گے تو اور کون سی رحمت پر منائیں گے۔ لازم ہے کہ مسلمان رحمت دوعالمﷺ کی آمد کی خوشیاں منائیں۔
ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پیغمبر کی ولادت کا ذکر (میلاد نامہ) قرآن مجید کے الفاظ میں اللہ کی رحمت ہوتا ہے۔ جب حضرت یحییٰ علیہ السلام کے میلاد کا ذکر رحمتِ ایزدی ہے تو میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر بدرجہ اُولیٰ رحمت کیوں نہ ہوگا۔ ولادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑی رحمت اور کیا ہو سکتی ہے، لہٰذا عقلی و منطقی رُو سے بھی میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر، ذکرِ رحمت ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت و بعثت کو یاد کرنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت و سیرت، فضائل و کمالات اورخصائص و معجزات کا ذکر کرنا بارگاہِ خداوندی میں اس نعمت عظمیٰ کا شکر ادا کرنے کی ہی ایک صور ت ہے۔ اس نعمت جلیلہ کا ذکر کر کے ہم خود کو بلند کرتے ہیں ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر تو وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ کے فرمودۂ خداوندی کے مطابق ہر روز افزوں ہی رہے گا۔ اور ہر آنے والی ساعت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کی رفعتوں کو بلند سے بلند تر ہوتا دیکھے گی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْأُولَى
’’اور بے شک (ہر) بعد کی گھڑی آپ کے لیے پہلی سے بہتر (یعنی باعثِ عظمت و رفعت) ہے۔‘‘
الضحیٰ، 93 : 4
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ
’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا۔‘‘
الإنشراح، 94 : 4
اس سے پتہ چلتا ہے کہ اب کوئی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرے گا تو اس سے اس کی اپنی ذات کو فائدہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد مبارک کے موقع پر اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں بطور شکرانہ خوشی منائے گا تو یہ بھی اس کے اپنے مفاد میں ہے، ایسا کرنے والا کسی پر احسان نہیں کر رہا بلکہ اپنا ہی توشۂ آخرت جمع کر رہا ہے۔
اس لیے محفلِ میلاد روحانی طور پر ایک قابلِ تحسین، قابلِ قبول اور پسندیدہ عمل ہے۔ ایسی مستحسن اور مبارک محافل کے بارے میں جواز! عدمِ جواز کا سوال اٹھانا یقیناً حقائق سے لا علمی، ضد اور ہٹ دھرمی ہے۔
قرآن کی تنبیع
مسلمانوں یاد رکھو کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ متکبرین کو اپنی آیات سے دور کر دیتاہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالی نےقرآن میں اُن کی یہی سزا تجویز کی ہے۔ فرمانِ باری تعالی ہے:
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِیَ الَّذِیْنَ یَتَكَبَّرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّؕ-وَ اِنْ یَّرَوْا كُلَّ اٰیَةٍ لَّا یُؤْمِنُوْا بِهَاۚ-وَ اِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الرُّشْدِ لَا یَتَّخِذُوْهُ سَبِیْلًاۚ-وَ اِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الْغَیِّ یَتَّخِذُوْهُ سَبِیْلًاؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ كَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِیْنَ۔وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ لِقَآءِ الْاٰخِرَةِ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْؕ-هَلْ یُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۠
اور میں اپنی آیتوں سے ان لوگوں کوپھیردوں گا جو زمین میں ناحق تکبر کرتے ہیں اور اگر وہ سب نشانیاں دیکھ لیں تو بھی ان پر ایمان نہیں لاتے اور اگر وہ ہدایت کی راہ دیکھ لیں تواسے اپنا راستہ نہیں بناتے اور اگر گمراہی کا راستہ دیکھ لیں تو اسے اپنا راستہ بنالیتے ہیں ۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے غافل رہے۔اور جنہوں نے ہماری آیتوں اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا تو ان کے تمام اعمال برباد ہوئے، انہیں ان کے اعمال ہی کا بدلہ دیا جائے گا۔
[الأعراف7:146,147]
حسن بصری رحمہ اللہ اس کی تفسیر میں کہتے ہیں: “اللہ تعالی ایسے لوگوں کوغور و فکر کرنے سے روک دیتا ہے۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ۔ قَالَ رَجُلٌ: إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَكُونَ ثَوْبُهُ حَسَنًا وَنَعْلُهُ حَسَنَةً، قَالَ: إِنَّ اللهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ، الْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ، وَغَمْطُ النَّاسِ
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کے دل میں رتی برابر بھی غرور اور گھمنڈ ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ ایک شخص نے عرض کیا ہر انسان چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے عمدہ ہوں اس کا جوتا بھی اچھا ہو تو کیا یہ غرور اور گھمنڈ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یقینا اللہ تعالی خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے۔ غرور اور گھمنڈ یہ ہے کہ انسان حق کو ناحق بنائے (یعنی اپنی انا کی وجہ سے حق بات کو رد کردے) اور لوگوں کو حقیر سمجھے۔
حوالاجات
ٖ (جامع ترمذی، جلد اول باب البر والصلۃ :1999) (مسلم ، کتاب الایمان) | 1 |
الحمدللہ میلاد النبی ﷺ منانے والوں کو اللہ کریم نے قرآن پاک میں غور و فکر کی توفیق عطا کی ہے۔اس باب میں میلاد سے متعلقہ آیات پر غور وفکر کرنے کے بعد میلاد النبی ﷺ کےانکار کا کوئی جواز نہیں رہا ۔ اب بھی اگر کوئی میلاد النبی ﷺ کی خوشی منانے میں حیلہ بہانہ کرتا ہے تو وہ ان آیات کا منکر ہے اور اللہ کی آیات کے منکر کو اللہ نے مندرجہ بالا آیت میں متکبر کہا ہے۔
مسلمانوں اس سے پہلے کہ ہمیں بھی اوپر کی آیت کے ضمن میں متکبر یں میں شامل کر دیا جائے ہم کو توبہ کر لینی چائیے اور میلاد النبی ﷺ بھر پور خوشی سے منانا چایئے۔
وَ مَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰهِ-عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ وَ اِلَیْهِ اُنِیْبُ
اور میری توفیق اللہ ہی کی مدد سے ہے میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔