یومِ عید کی طرح منانا

1.9

تحدیثِ نعمت اور شکرِ نعمت حکمِ خداوندی ہے ۔  حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بھی اپنے یومِ ولادت کی تعظیم فرماتے اور اِس کائنات میں اپنے ظہور وجود پر شکرگزار ہوتے ہوئے پیر کے دن روزہ رکھتے۔  چونکہ  مسلمانوں پر یہ  بات وا ضح  ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے وجودِ مسعود کے تصدق و توسل سے ہر وجود کو سعادت ملی ہے اور آپ سے بڑھ کر کوئی اور نعمت نہیں۔  اسی لئے دنیا بھر میں مسلمان آپ کی ذات کی خوشی اور شکرانے کے طور پر میلاد النبی  مناتے ہیں ۔

مسلمان  میلادالنبی کو عید کی طرح  کیوںمنا تے ہیں؟  اس کے پیچھے  چند شرعی دلائل ہیں جن کا سمجھنا بہت ضروری ہے۔جس کا     قرآن و احادیث کی روشنی میں   تفصیلی   جائزہ  اگلے باب نمبر2  میں لیا گیا ہے اور مندرجہ ذیل نکات پر بحث کی گئی ہے

اللہ کی نعمتیں1
اللہ تعالی  کی سب سے بڑینعمت2
نعمتوں  کا شکر ادا کرنے کا حکم3
نعمتوں  کا چرچا کرنے کا حکم4
نعمتوں  پر خوشی منانے کا حکم5

خو شی منانے کا حکمِ الہی

1.9.1

فی الحال ہم یہاں چند قرآنی آیات اور احادیث بیان کرتے ہیں جو ان نکات سے تعلق رکھتی ہیں جن سے ان نکات کی اہمیت ہمارے ذہن میں واضح ہو جائے گی ۔

اللہ کی  نعمتیں :

خود اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہمیں اتنی نعمتیں عطا کی ہیں جن کا شمار ہمارے لئے ممکن نہیں  

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَ اِن تَعُدُّوا نِعمَتَ اللّٰہِ لَا تُحصُوہَا

’’اور اگر اﷲ کی نعمتیں گنو تو شمار نہ کرسکو گے‘‘  

  ابراھیم (14:34)

نعمتوں  کا شکر ادا کرنے کا حکم :

            قرآن و حدیث میں نعمتوں پر اللہ کاشکر  ادا کرنےکے کثیر فضائل بیان کئے گئے اور ناشکری کی مذمت کی گئی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ

اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔

(ابراہیم: 14:7)

نعمتوں  کا چرچا کرنے کا حکم :

اﷲ تعالیٰ  نےقرآن مجید میں یہ حکم دیا ہے کہ جو  نعمتیں ہمیں  اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے عطاکی ہیں ہم ان کا خوب چرچا کریں ۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَ اَمَّا بِنِعمَۃِ  رَبِّکَ فَحَدِّث

’’اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو‘‘  

(الضحی، 93:11)

اللہ تعالی  کی سب سے بڑی نعمت:

اﷲ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا فرمائیں مگر کسی نعمت پر بھی احسان نہ جتلایا ماسوائے ایک نعمت کے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے کسی اور نعمت پر احسان کیوں نہیں جتلایا۔ صرف ایک نعمت پر ہی احسان کیوں جتلایا؟

اس سے یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ  یقینا وہ نعمت اللہ تعالی کی سب سے عظیم نعمت ہو گی ہے ،آیئے قرآن مجید سے پوچھتے ہیں۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

لَقَد مَنَّ اللّٰہُ عَلَی المُؤمِنِینَ اِذ بَعَثَ فِیہِم رَسُولًا مِّن اَنفُسِہِم یَتلُوا عَلَیہِم اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیہِم وَ یُعَلِّمُہُمُ الکِتٰبَ وَ الحِکمَۃَ

بیشک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے  ( عظمت والا )  رسول  ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )  بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے

3:164 آل عمران

اس آیت سےثابت ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ ان گنت نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت آخری نبیﷺ ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں  آپ کوایک  عظیم رحمت بھی بتلایا ہے

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَ مَا  اَرسَلنٰکَ اِلَّا رَحمَۃً  لِّلعٰلَمِینَ

’’اور ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہاں کے لئے‘‘

(21:107 )

نعمتوں  پر خوشی منانے کا حکم :

اﷲ تعالیٰ  نےقرآن مجید میں یہ حکم دیا ہے کہ جو  نعمتیں ہمیں  اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے عطاکی ہیں ہم  ان پر خوشیاں منائیں۔  

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ.

’’فرما دیجئے! (یہ سب کچھ) اﷲ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پر خوشیاں منائیں۔‘‘    

يونس، 10  58:

سبحان اللہ اس آیت میں تو اﷲ تعالیٰ صاف الفاظ میں خوشیاں منانے کا حکم فرما رہا ہے۔

یومِ عید کی طرح منانا

1.9.2

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ولادت کی خوشی میں ہر سوموار کو روزہ رکھا  اور  اس سنت پر آج بھی بہت سے امتی عمل کرتے ہیں اور سوموار کے دن روزہ رکھتے ہیں ۔

ایک جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف جمعہ کے دن کو عید کا موقع بیان کیا ہے اور اس  دن  آپ ﷺ نے روزہ رکھنے سے منع فرمایا ۔  بلکہ مسلمانوں کو اس دن خوشی سے  منانے کا حکم فرمایا اور اس دن  پاکیزگی طہارت کو اپنانے کا اور  درود شریف پڑھنے کا حکم فرمایا۔ یعنی  اپنی ذات مبارکہ ﷺ کا چرچا کرنے کا مسلمانوں کو حکم فرمایا

اسی حدیث پر عمل کرتے ہوئے عاشق رسول ا ﷺ سال میں ایک بار  میلادالنبی ﷺ کا دن  روزہ  رکھنے کے بجائےعید کی طرح مناتے ہیں۔کیونکہ روزہ رکھنے کی سنت پر عمل توصرف سوموار کے دن روزہ رکھنے سے ہی ہوگا ۔ جبکہ میلادالنبی ﷺ تو سال میں کسی دن بھی منایا جا سکتا ہے۔

یہ دن منانے کے مختلف طریقے ہیں جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں۔ جیسے مذکورہ بالا حدیث سے عبادات کی ایک قسم روزہ رکھنا ثابت ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کے حصول کے لیے صدقہ و خیرات کرنا، کھانا کھلانا، شکر بجا لانا اور خوشی منانا میلاد منانے کی مختلف صورتیں ہیں۔

احمد بن حنبل (164۔ 241ھ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

إن يوم الجمعة يوم عيد، فلا تجعلوا يوم عيدکم يوم صيامکم إلا أن تصوموا قبله أو بعده.

’’بے شک یومِ جمعہ عید کا دن ہے، پس تم اپنے عید کے دن کو یومِ صیام (روزوں کا دن) مت بناؤ مگر یہ کہ تم اس سے قبل (جمعرات) یا اس کے بعد (ہفتہ) کے دن کا روزہ رکھو (پھر جمعہ کے دن روزہ رکھنے کی اجازت ہے ورنہ نہیں)۔‘‘

حوالاجات

ان تمام آیات کی روشنی میں قرآن حکیم نے فیصلہ کردیا کہ اﷲ کے نبیﷺ کی آمد کی  خوشیاں مناؤ کیونکہ اﷲ کے نبیﷺ سے بڑھ کر کائنات میں کوئی نعمت نہیں اور اﷲ کے نبیﷺ سے بڑھ کر کائنات میں کوئی رحمت   بھی نہیں ۔

مسلمان اگر رحمتہ للعالمین ﷺ کی آمد کی خوشی نہیں منائیں گے تو اور کون سی رحمت پر منائیں گے۔ لازم ہے کہ مسلمان رحمت دوعالمﷺ کی آمد کی خوشیاں عید کی طرح منائیں اور  اس کا پرچار کریں۔ تاکہ اﷲ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہوسکے۔

شیخ الاسلام حافظ العصر ابو الفضل ابن حجر سے میلاد شریف کے عمل کے حوالہ سے پوچھا گیا تو آپ نے اس کا جواب کچھ یوں دیا :

’’مجھے میلاد شریف کے بارے میں اصل تخریج کا پتہ چلا ہے۔ ’’صحیحین‘‘سے ثابت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا: ایسا کیوں کرتے ہو؟ اس پر وہ عرض کناں ہوئے کہ اس دن اﷲ تعالیٰ نے فرعون کو غرق کیا اور موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی، سو ہم اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر بجا لانے کے لیے اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔‘‘

اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کسی اِحسان و اِنعام کے عطا ہونے یا کسی مصیبت کے ٹل جانے پر کسی معین دن میں اﷲ تعالیٰ کا شکر بجا لانا اور ہر سال اس دن کی یاد تازہ کرنا مناسب تر ہے۔

’’اﷲ تعالیٰ کا شکر نماز و سجدہ، روزہ، صدقہ اور تلاوتِ قرآن و دیگر عبادات کے ذریعہ بجا لایا جا سکتا ہے اور حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے بڑھ کر اﷲ کی نعمتوں میں سے کون سی نعمت ہے؟ اس لیے اس دن ضرور شکرانہ بجا لانا چاہیے۔‘‘

 بعض لوگ یہ وسوسہ اندازی کرتے ہیں کہ اسلام میں صرف دو عید یں ہیں لہذا تیسری عید حرام ہے ۔ ( معاذ ا للہ ) اس نظریہ کے باطل ہونے کے متعلق قرآن کریم سے دلیل لیجئے ۔ ارشاد باری تعالی ہے ، ( عیسیٰ بن مریم نے عرض کی ، اے اللہ ! اے ہمارے رب ! ہم پر آسمان سے ایک ( کھانے کا ) خوان اتار کہ وہ ہمارے لیے عید ہو ہمارے اگلوں پچھلوں کی)۔ (المائدہ ، 114، کنزالایمان)

صدر الافاضل فرماتے ہیں ، ( یعنی ہم اس کے نزول کے دن کو عید بنائیں ، اسکی تعظیم کریں ، خوشیاں منائیں ، تیری عبادت کریں ، شکر بجا لا ئیں ۔ اس سے معلوم ہو ا کہ جس روز اللہ تعالی کی خاص رحمت نازل ہو ۔ اس دن کو عید بنانا اور خوشیاں بنانا ، عبادتیں کرنا اور شکر بجا لانا صالحین کا طریقہ ہے ۔ اور کچھ شک نہیں کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری اللہ تعالی کی عظیم ترین نعمت اور بزرگ ترین رحمت ہے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے دن عید منانا اور میلاد شریف پڑھ کر شکر الہی بجا لانا اور اظہار فرح اور سرور کرنا مستحسن و محمود اور اللہ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے ) ۔ ( تفسیر خزائن العرفان )۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت (الیوم اکملت لکم دینکم ) تلاوت فرمائی تو ایک یہود ی نے کہا، اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے۔ اس پر آپ نے فرمایا ، یہ آیت جس دن نازل ہوئی اس دن دو عیدیں تھیں، عید جمعہ اور عید عرفہ۔ (ترمذی) پس قرآن و حدیث سے ثابت ہوگیا کہ جس دن کوئی خاص نعمت نازل ہو اس دن عید منانا جائز بلکہ اللہ تعالی کے مقرب نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کی سنت ہے۔ چونکہ عید الفطر اور عید الاضحی حضور ﷺ ہی کے صدقے میں ملی ہیں اس لیے آپ کا یوم میلاد بدرجہ اولی عید قرار پایا۔

عید میلاد پہ ہوں قربان ہماری عیدیں

کہ اسی عید کا صدقہ ہیں یہ ساری عیدیں

شیخ عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ اکابر محدثین کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ شب میلاد مصفطے صلی اللہ علیہ وسلم شب قدر سے افضل ہے، کیونکہ شب قدر میں قرآن نازل ہو اس لیے وہ ہزار مہنوں سے بہتر قرار پائی تو جس شب میں صاحب قرآن آیا وہ کیونکہ شب قدر سے افضل نہ ہو گی؟ (ماثبت بالستہ)

جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند

اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام

صحیح بخاری جلد دوم میں ہے کہ ابو لہب کے مرنے کے بعد حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اسے خ-واب میں بہت بری حالت میں دیکھا اور پوچھا ، مرنے کے بعد تیرا کیا حال رہا؟ ابو لہب نے کہا، تم سے جدا ہو کر میں نے کوئی راحت نہیں پائی سوائے اس کے کہ میں تھوڑا سا سیراب کیا جاتا ہوں کیونکہ میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پیدائش کی خوشی میں اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔ امام ابن جزری فرماتے ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد کی خوشی کی وجہ سے ابو لہب جیسے کافر کا یہ حا ل ہے کہ اس کے عذاب میں کمی کردی جاتی ہے ۔ حالانکہ ا س کی مذمت میں قرآن نازل ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مومن امتی کا کیا حال ہوگا ۔ جو میلاد کی خوشی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے سبب مال خرچ کرتا ہے ۔ قسم ہے میری عمر کی ، اس کی جزا یہی ہے کہ اللہ تعالی اسے اپنے فضل و کرم سے جنت نعیم میں داخل فرمادے ۔ ( مواہب الدنیہ ج 1 ص 27 ، مطبوعہ مصر )

عید میلادالنبی ﷺ عیدِ مسرّت ہے عیدِ شرعی نہیں

1.9.3

عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ عیدِ شرعی ہے نہ ہم اِسے عیدِ شرعی سمجھتے ہیں، لیکن یہ  ذاتِ  رسول اللہ ﷺ  کی نسبت سے ایک عاشقِ رسول ﷺ  کے لیےعید شرعی سے بھی زیادہ عظمت والا اور کئی گنا زیادہ قدر و منزلت والا دن ہے۔ اِس لیے اس دن خوشیاں منانا ایک فطری عمل ہے، اور اگر اِسے عید مسرت بھی کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو سال میں صرف ایک دفعہ آتی ہیں جب کہ محافلِ میلاد اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر اور سیرت کا بیان سال بھر جاری رہتاہے، اس میں زمان و مکان کی کوئی قید نہیں۔ مگر تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے دن کو عید کا نام اِس لیے دیا جاتا ہے کہ لوگ اپنی ہر بڑی خوشی اور فرحت کے اِظہار کے لیے لفظِ عید اِستعمال کرتے ہیں۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یوم ولادت کو عیدِ میلاد اور عیدِ نبوی کا نام دینا اس حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ ہمارے نزدیک شرعی طور پر صرف دو ہی عیدیں ہیں : عید الفطر اور عید الاضحی۔ حالاں کہ بنظر غائر دیکھا جائے تو یومِ میلاد ان عیدوں سے کئی گنا بلند رُتبہ اور عظمت کا حامل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے صدقہ و توسط سے ہمیں دونوں عیدیں[عید الفطر اور عید الاضحی] اور اسلام کے تمام عظمت والے دن نصیب ہوئے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت نہ ہوتی تو نہ اللہ  کا پیغام قرآن ِپاک  ہم تک پہنچتا بلکہ ہم مسلمان ہی نہ ہوتے اور ہم اتنی بڑی نعمت سے محروم رہتے ۔

بحثیتِ مسلمان ہم سب کا یہ ایمان ہے کہ ہمیں   اللہ کی تمام نعمتیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے تصدق و توسل سے نصیب ہوئی ہیں۔

عاشقانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محافلِ میلاد ہر اُس موقع پر منعقد کرتے ہیں جس میں خوشی، فرحت اور سرور ہوتا ہے اور یہ مسرت و شادمانی کا احساس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماہِ ولادت ’’ربیع الاول‘‘ میں اور بڑھ جاتا ہے  اور خوشی و مسرت کے لطیف جذبات اپنی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال کرنا کہ محافلِ میلاد کیوں منعقد کی جاتی ہیں، درست نہیں ہے۔ کیوں کہ اِس سوال سے مراد گویا یہ پوچھنا ہے کہ تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے دن پر کیوں خوش ہوتے ہو؟ یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ تمہیں صاحبِ معراج صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں یہ خوشی اور مسرت کیوں حاصل ہوئی؟ کیا کسی مسلمان کو یہ سوال زیب دیتا ہے؟ اس لایعنی سوال کے جواب میں اتنا کہہ دینا بھی کافی ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد پر مسرور اور خوش ہونے کی وجہ سے محفلِ میلاد منعقد کرتا ہوں، میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں اس لیے کہ میں مومن ہوں۔

عیدمیلادنبی کی کیفیت باقی عیدوں سے جدا   کیوں ہے؟

1.9.4

عید میلاد النبی منانے والے مسلمان  یہ باخوبی  جانتے اور محسوس کرتے ہیں کہ میلادنبی میں کیفیت دل و دماغ کی کیفیت دوسری عیدوں سے قدرے مختلف ہے۔

باقی دو عیدوں کے دوران مسلمان عید کی نماز ادا کرتے ہیں اور پھر ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور مل بیٹھ کر اچھے اور عمدہ کھانا کھاتے ہیں۔ جبکہ عید میلادالنبی کے دن  مسلمانوں کا مقصد صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ سننا ہوتا ہے اور سارا دن آپ کی عظمت اور محبت دلوں میں بسائے رکھنا  ہوتاہے۔

ان دونوں کا موازنہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ایک طرف تو آپس میں ملنے ملانے کی خوشی اور کھانا کھانے کھلانے کی خوشی ہے اور دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت محسوس کرنا ہے۔ اور ان دونوں چیزوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

شاید اسی لیے باقی دو عیدوں کے دوران کچھ لوگ باآسانی یہ کہہ دیتے ہیں کہ عید توبچوں کی ہوتی ہے۔ اس سے خدا نہ خواستہ ہم یہ مطلب نہیں لیتے کہ ان کے دلوں میں ان عیدوں کی قدر و منزلت کم ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اس دن بھی  اپنے دل میں کوئی خاص کیفیت و سرور پیدا نہیں کرسکتے ہیں۔کیونکہ یہ انسان کے بس کی بات نہیں۔  جبکہ عید میلادالنبی کو منانے والا، چھوٹا بڑا ، ہر شخص اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اپنے دل  کو  ایک خاص ایمانی کیفیت میں مبتلا پاتا ہے اور اس سے خوب لطف اندوز ہوتا ہے۔

اس محبت  وکیفیت کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی دن ہم  ایک عالم دین سے اللہ تعالی کے احکامات کے بارے میں سن رہے ہوتے ہیں اور اس دوران وہ عالم  یکلخت صرف اللہ تعالی کی ذات کے بارے میں بیان شروع کر دیتا ہے کہ اللہ تعالی کی ذات کتنی کریم رحیم اور محبت والی ذات ہے جب یہ باتیں ہم سنتے ہیں تو اللہ پاک کی محبت میں ہمارے دل نرم ہو جاتے ہیں اور ایک خاص کیفیت طاری ہوتی ہے اور ساتھ ہی ہماری آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔ بالکل ایسی  ہی کیفیت میلاد شریف کے دن ہمارے دلوں پر  طاری ہوتی ہے جب ہم خاص طور پر صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات کے بارے میں سنتے ہیں اور آپ کی محبت اپنے  دلوں میں  سرائیت ہوتی محسوس کرتے ہیں۔

درحقیقت کم لوگوں کو یہ سعادت نصیب ہوتی ہے۔ اللہ کریم  یہ  محبت و سرور والی کیفیت ہم سب کے دلوں میں جاری فرمائے اور ہمیں اس کی بار بار توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

بلاشبہ محافلِ میلاد اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجالس کا انعقاد، سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت و مدحت سننے سنانے کے لیے جلسۂ و جلوس کا اہتمام، غریبوں کو کھانا کھلانا اور اہل اسلام کے لیے اجتماعی طور پر خوشی اور مسرت کا سامان پیدا کرنا جائز اور مستحسن عمل ہے! یہ بھی فطری اَمر ہے کہ ماہِ ولادت باسعادت (ربیع الاول) میں ذکرِ جمیلِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسباب زیادہ قوی اور مضبوط ہوتے ہیں کیوں کہ اس مناسبت سے لوگ ایسی محفلوں میں کشاں کشاں چلے آتے ہیں۔ لوگ شعوری طور پر اس بات کے قائل ہیں کہ بعض لمحات کسی خاص مناسبت کی وجہ سے دوسرے لمحات و اوقات سے زیادہ شان اور شرف کے حامل ہوتے ہیں لہٰذا دوسروں کی نسبت سے وہ زیادہ پرکشش اور کیف آور یادیں لے کر آتے ہیں۔ اور اِسی طرح لوگ حال کو ماضی کے ساتھ ملا کر اور موجود کو غائب کی طرف منتقل کر کے ذکرِ یار کی لذت سے اِنتہائی کیف و سرور حاصل کرتے ہیں۔ بقول شاعر :

باز گو اَز نجد و اَز یارانِ نجد

تا دَر و دیوار را آری بہ وجد

( شہرِ دِل بر اور اِس میں بسنے والے اَحباب کا ذِکر کرتے رہیے تاکہ اِس کے در و دیوار یک گونہ کیف و مستی سے وجد میں آجائیں)

لفظِ عید کا اطلاق

1.9.5

یومِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معروف معنی میں عید کا دن ہے، جیسے کسی قریبی دوست یا محبوب کی آمد پر کہا جاتا ہے کہ آپ کا آنا عید ہے! آپ کا ملنا عید ہے! عربی زبان کا یہ شعر اس معنی کی صحیح عکاسی کرتا ہے :

عيد وعيد وعيد صرن مجتمعة
وجه الحبيب وعيد الفطر والجمعة

( ہمارے لیے تین عیدیں اکٹھی ہوگئی ہیں: محبوب کا چہرہ، عید الفطر اور یومِ جمعہ۔)

مولانا رومی نے  اپنےاِن تین اشعار میں ایک عاشق کی عید کے بارے میں کیا خوب کہا:

اے خدا از عاشقان خشنود باد         عاشقان را عاقبت محمود باد

اے خدا، عاشقوں سے راضی رہ اور عاشقوں کی عاقبت محمود (قابل ِستائش) کر۔

عاشقان را از جمالت عید باد            جان شان در آتشت چون عُود باد

عاشقوں کی تیرے جمال کے دیدار سے عید ہوتی ہے، اور اُن کی جان تیری آتش میں( جلنے والے خوشبودار) عود کی طرح ہوتی ہے۔

دیگران از مرگ مہلت خواستند         عاشقان گویند نے نے زود باد

دوسرے سب موت سے مہلت چاہتے ہیں، لیکن عاشق کہتے ہیں کہ نہیں نہیں اے موت تو جلدی آ اور (ہمیں حق سے واصل کر)۔

رسول کریم ﷺ اللہ کی نعمت ہیں اور نعمت کا چرچا کرنا منشا قرآن ہے ۔ نعمت کے چرچا کرنے کا بہترین موقع میلادا لنبی ﷺ بھی ہے ۔ ہمیں میلادشریف کا خوب چرچا کرنا چاہئے ۔اس دن کو عید جیسا سماں ہو تا ہے ۔ اس لئے کہ اسی عید کی وجہ سے باقی عیدیں بھی نصیب ہوئیں ہیں ۔ میلاد شریف کو عید کہنے کے حوالے سے قرآن کریم سے عید کا قاعدہ سمجھا جا سکتا ہے ۔ سورہ المائدہ کی آیت نمبر114ملاحظہ ہو ۔ ,, عیسی ابن مریم نے دعا فرمائی اے اللہ ہمارے پروردگار ! ہم پر آسمان سے خوان اتار ، بن جائے ہمارے لیے خوشی کا دن ہمارے پہلوں کے لیے بھی اور بعد میں آنے والوں کے لیے بھی اور ایک نشانی تیری طرف سے اور تو ہمیں عطا فرما اور تو ہی بہترین عطا فرمانے والا ہے ،، اس آیت مقدسہ میں دستر خوان کے نزول کو عید کہا گیا ہے ۔ آسمان سے کھانا نازل ہو تو وہ دن عید ہوتا ہے ۔ کھانا ایک ایسی نعمت ہے جو عارضی ہے ۔ کھانا کھاتے ہی وہ اپنا وجود کو دیتا ہے ۔ لیکن وہ نعمت جو مستقل نعمت ہے ۔ ہمیشہ کے لئے نعمت ہے ۔ اس نعمت کا ذکر اللہ تعالی خود بلند فرمائے تو اس نعمت کی آمد بدرجہ اولی نعمت ہے ۔ وہ عظیم نعمت ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ ہیں ۔ ان کی آمد ،انکی ولادت ، انکی پیدائش ، کادن عید ہے ۔ ہمیں قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اس دن کو عید میلادالنبی کے طور پر پورے جو ش و خروش سے منا نا ہو گا ۔

عرب ممالک میں لفظِ عید کا استعمال

1.9.6

اب تو سعودی عرب میں بھی 23 ستمبر پر عید الوطنی   منایا جاتا ہے۔ اس دن کو عید الوطنی  اور یوم الوطنی  دونوں ناموں سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اس دن ملک بھر میں عید کا سماں ہوتا ہے اور جلسہ وجلوس کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ گلیوں اور سڑکوں پر چراغاں کے ساتھ ساتھ آتش بازی بھی کی جاتی ہے اور نوجوان سڑکوں پر نکل آتے دے اور شوروغل کرتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔اس دن سعودی  حکومت دنیا کا سب سے اونچا جھنڈا لہرانے کا بھی اہتمام کرتی ہے.

سعودی عرب کی طرح عمان، قطراور متحدہ عرب امارات بھی اپنا قومی دن عید الوطنی کے نام سےدھوم دھام  مناتے ہیں اور ملک بھر میں حکومتی اورنجی سطح پر جلسسہ و جلوس نکالتے ہیں۔

عید الوطنی  جیسےعمل  اور ان دنوں میں جلسہ جلوس  نکالنا اور خوشی  منانا شریعت میں منع نہیں بلکہ مباح ہے اور  یہ  اس دور میں ثقافتی ضرورت بن گئےہیں ۔    اس لیے لفظ   ِعید کا استعمال کسی ثقافت  تہوار  یا جشنِ مسرت  کے لیے مباح  اور جائز  ہے۔

لیکن یہ بعید نہیں کہ جس طرح عرب ممالک نےاپنی عیدالوطنی کی خوشی منانا شروع کر دی ہے   اور اس کو اپنے کیلنڈر کا حصہ بنا لیا ہے اسی طرح مستقبل قریب میں  یہ عرب ممالک ایک دن رسول اللہ صلی وسلم کی ولادت کی خوشی کو عید میلادا لنبی ﷺ  کے دن  کو اپنے کیلنڈر کا حصہ بنالیں۔  اِنشاء اللہ

Scroll to Top