جلوسِ میلاد
1.12
میلاد شریف کے جلوس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قلبی تعلق کا ایک ثقافتی اِظہار ہے۔ عید میلاد النبی ﷺ کے دن درود و سلام سے مہکی ہوئی فضا میں جلوسِ میلاد بھی بعض جگہوں پر (اکثر بڑے شہروں میں) جشنِ میلاد کا حصہ بنتا ہے۔
درصل محفل ،اجتماع، کانفرنس ،جلوس میلاد شریف منانے کی مختلف اصطلاحات ہیں۔ ان سب چیزوںمیں صرف اورصرف اصطلاح کا فرق ہے وگرنہ یہ سب میلا شریف منانے کے طریقے ہیں:
اگر گھر یا مسجد میں میلاد شریف منعقد کیا جائے تو اس کو محفل ِمیلاد کہتے ہیں | – |
اگر گھر یا مسجد میں میلاد شریف منعقد کیا جائے تو اس کو محفل ِمیلاد کہتے ہیں | – |
اگر کسی بڑے ہال میں منایا جائے تو اس کو میلا شریف کی میلاد کانفرنس بھی کہتے ہیں | – |
اگر رستوں پہ چلتے پھرتے میلاد شریف منایا جائے تو اس کو جلوسِ میلاد کہتے ہیں | – |
قرونِ اُولیٰ میں جشنِ مسرت منانا
1.12.1
تاریخ اسلام کی روشنی میں جائزہ لیں تو قرونِ اُولیٰ سے لے کر آج تک ہر دور میں حیات انسانی کے مختلف شعبوں میں کئی اعتبار سے طرزِ بود و باش، معاشرتی میل جول، خوشی و غمی، جذبات و احساسات کے اظہار کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہے ہیں۔
کتب تواریخ و سیر میں مذکور ہے کہ جب اہلِ مدینہ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عازمِ ہجرت ہونے کی اطلاع ملی تو وہ سب سخت گرمی کے موسم میں روزانہ نمازِ فجر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کے لیے مدینہ منورہ سے تین کلومیٹر باہر مقام ’حرہ‘ پر جمع ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتظار کرتے، تیز دھوپ میں جب سایہ بھی ختم ہو جاتا تو بجھے دلوں کے ساتھ گھروں کو لوٹتے۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عویم بن ساعدہ اَنصار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے حوالے سے بیان کرتے ہیں :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
لما سمعنا بمخرج رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من مکة، وتوکفنا قدومه، کنا نخرج إذا صلينا الصبح، إلي ظاهر حَرّتنا، ننتظر رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، فواﷲ! ما نبرح حتي تغلبنا الشمس علي الظلال، فإذا لم نجد ظلاً دخلنا، وذلک في أيام حارة.
’’جب ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکہ سے باہر نکلنے اور مدینہ کی طرف تشریف لانے کی خبر سنی تو ہم صبح نماز پڑھ کر باہر نکل آتے اور دن چڑھے تک کھلے میدان میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتظار کرتے۔ اللہ کی قسم! ہم اس وقت تک انتظار کرتے رہتے جب تک کہ سورج ہمارے سایوں پر غالب نہ آجاتا۔ جب ہم سورج کی تپش سے بچنے کے لیے سایہ نہ پاتے تو اپنے گھروں میں آجاتے، اور یہ سخت گرمیوں کے دنوں کی بات ہے۔‘‘
حوالاجات
ابن هشام، السيرة النبويه : 423 | 1 |
طبري، تاريخ الامم والملوک، 1 : 571 | 2 |
ذهبي، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام (السيرة النبوية)، 1 : 331 | 3 |
ابن کثير، البداية والنهاية، 3 : 196 | 4 |
خزاعي، تخريج الدلالات السمعية علي ما کان في عهد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من الحرف : 446 | 5 |
رسول اﷲﷺ کا استقبال جلوس کی شکل میں
1.12.2
جب آقائے دوجہاں ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو ساکنانِ مدینہ خوشی سے جھوم اٹھے، انہوں نے اس قدر دھوم دھام سے خوشی و مسرت کا اظہار کیا کہ سارا شہر استقبالِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مدینہ کی حدود سے باہر امڈ آیا۔ معصوم بچیوں نے دف پر خوشی کے گیت گا کر محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استقبال کیا۔ خیر مقدمی نعرے لگائے گئے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ جلوس کی شکل میں گلی کوچوں سے ہوتے ہوئے سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان پر پہنچے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیام فرمایا۔
آقائے دوجہاں ﷺ کا یہ شاندار اور والہانہ استقبال اور اظہارِ مسرت عین فطرتِ انسانی کے مطابق تھا، جس سے کم از کم اس بات کا جواز ضرور ملتا ہے کہ اسلام میں کسی عظیم خوشی کے موقع پر جشن کا اہتمام کرنا اور دھوم دھام سے اظہارِ مسرت کرنا اَمرِ جائز اور فطری تقاضا ہے۔ اس مسئلہ کا تعلق انسان کی فطرت اور دلی جذبات سے ہے، اس میں کوئی بات شریعت کے منافی نہیں۔ لہٰذا بدعت کہہ کر اس کا انکار ایک مخصوص قلبی کیفیت کا غماز ہے جو محض ہٹ دھرمی کے سوا اور کچھ نہیں۔
رسولِ عربی ﷺ کے غلاموں کا والہانہ استقبال اور پھر جلوس کی شکل میں مدینہ منورہ میں داخل ہونا، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی سنت ہے۔ عہد رسالت مآب ﷺ میں بھی کسی نا کسی شکل میں جلوس نکالے جاتے جن میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم شریک ہوتے۔ درج ذیل احادیث سے جلوس کا ثبوت فراہم ہوتا ہے :
کتب سیر و اَحادیث میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہجرت کے بعد مدینہ منورہ آمد کا حال اس طرح بیان کیا گیا ہے:
’’اُن دنوں جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کسی روز بھی متوقع تھی مدینہ منورہ کے مرد و زن، بچے اور بوڑھے ہر روز جلوس کی شکل میں دیدہ و دل فرشِ راہ کیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِستقبال کے لیے مدینہ سے چند میل کے فاصلے پر قباء کے مقام پر جمع ہو جاتے۔ جب ایک روز سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت کی مسافتیں طے کرتے ہوئے نزولِ اِجلال فرمایا تو اس دن اہلِ مدینہ کی خوشی دیدنی تھی۔ اس دن ہر فرد فرطِ مسرت میں گھر سے باہر نکل آیا اور شہرِ مدینہ کے گلی کوچوں میں ایک جلوس کا سا سماں نظر آنے لگا۔‘‘
حدیثِ مبارکہ کے الفاظ ہیں :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
فصعد الرجال والنساء فوق البيوت، وتفرق الغلمان والخدم في الطرق، ينادون : يا محمد! يا رسول اﷲ! يا محمد! يا رسول اﷲ!
’’مرد و زن گھروں پر چڑھ گئے اور بچے اور خدام راستوں میں پھیل گئے، سب بہ آواز بلند کہہ رہے تھے: یا محمد! یا رسول اللہ! یا محمد! یا رسول اللہ!‘‘
حوالاجات
مسلم، الصحيح، کتاب الزهد والرقائق، باب في حديث الهجرة، 4: 2311، رقم: 2009 | 1 |
ابن حبان، الصحيح، 15 : 289، رقم : 68970 | 2 |
أبويعلي، المسند، 1 : 107، رقم : 116 | 3 |
مروزي، مسند أبي بکر : 129، رقم : 65 | 4 |
اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری دیکھ کر جاں نثاروں پر کیف و مستی کا ایک عجیب سماں طاری ہوگیا۔ اِمام رویانی کے مطابق اہالیانِ مدینہ جلوس کی شکل میں یہ نعرہ لگا رہے تھے :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
جاء محمد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.
’’اﷲ کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے ہیں۔‘‘
حوالاجات
روياني، مسند الصحابة، 1 : 138، رقم : 329 | 1 |
معصوم بچیاں اور اَوس و خزرج کی عفت شعار دوشیزائیں دف بجا کر دل و جان سے محبوب ترین اور عزیز ترین مہمان کو اِن اَشعار سے خوش آمدید کہہ رہی تھیں :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا
مِنْ ثَنِياتِ الْودَاعِ
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَيْنَا
مَا دَعَاِﷲِ دَاعٍ
أيُّهَا الْمَبْعُوْثُ فِيْنَا
جِئْتَ بِالْأمْرِ الْمَطَاعِ
ہم پر وداع کی چوٹیوں سے چودھویں رات کا چاند طلوع ہوا، جب تک لوگ اللہ کو پکارتے رہیں گے ہم پر اس کا شکر واجب ہے۔ اے ہم میں مبعوث ہونے والے نبی! آپ ایسے اَمر کے ساتھ تشریف لائے ہیں جس کی اِطاعت کی جائے گی۔
حوالاجات
ابن ابي حاتم رازي، الثقات، 1 : 131 | 1 |
ابن عبد البر، التمهيد لما في الموطا من المعاني والأسانيد، 14 : 82 | 2 |
أبو عبيد اندلسي، معجم ما استعجم من أسماء البلاد والمواضع، 4 : 1373 | 3 |
محب طبري، الرياض النضرة في مناقب العشرة، 1 : 480 | 4 |
بيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، 2 : 507 | 5 |
ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 583 | 6 |
ابن کثير، البداية والنهاية، 3 : 620 | 7 |
ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 7 : 261 | 8 |
ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 8 : 129 | 9 |
قسطلاني، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 634 | 10 |
زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 4 : 100، 101 | 11 |
أحمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1 : 323 | 12 |
خوشی اور احتجاج دونوں موقعوں پر جلوس نکالنا
1.12.3
دور ِ حاضر میں دنیا کے بیشتر ممالک میں جلوس نکالے کا رواج ہے جو کہ خوشی اور احتجاج موقوں پر نکالے کے ساتھ ساتھ کسی چیز کی اہمیت پر اظہار رائے کیلئے بھی نکالے جاتے ہیں ۔ مثال کے طور پر گستاخی ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر دنیا بھر کے مسلمانوں نے جلوس نکالے تاکہ دنیا کو باور کرایا جائے قرار دیا جائے کہ یہ مسئلہ تمام امت ِ مسلمہ کے لیے بہت تکلیف دہ ہے اور بہت ہی غیر اخلاقی عمل ہے جس کو ہر طرح سے مسلم اور غیر مسلم ممالک میں روکا جائے۔
اسی طرح امریکہ کا عراق پر حملہ کے موقع پر دنیا بھر میں احتجاجی جلوس نکالے گئے جبکہ لندن میں ملین مارچ کا اہتمام ہوا جس میں دس لاکھ لوگوں نےعراق پر حملہ کے خلاف احتجاج کیا۔
ان اہم امور کے علاوہ دنیا بھر میں تو کھیلوں اور الیکشن کی کامیابی پر بھی جلوس نکالنا خوشی کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔ جیتنے والی ٹیموں اور الیکشن جیتنے والے امیدواران کا استقبال جلوس کی شکل میں کیا جاتا ہے۔
جو لوگ بین الاقوامی خبروں میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اس تیزی سے بدلتے ہوئے دور میں جلسہ جلوس کی کتنی اہمیت ہے اور یہ کتنا عام فعل ہے، اس لیے یہاں پر اس پر مزید گفتگو کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
عرب ممالک میں یوم الوطنی کے جلسہ و جلوس
1.12.4
دورِحاضر میں دوسرے ممالک کی طرح سعودی عرب میں بھی 23 ستمبر پر یوم الوطنی منائی جاتی ہے۔ اس دن ملک بھر میں عید کا سماں ہوتا ہے اور جلسہ وجلوس کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ گلیوں اور سڑکوں پر چراغاں کے ساتھ ساتھ آتش بازی بھی کی جاتی ہے اور نوجوان سڑکوں پر نکل آتے دے اور شوروغل کرتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔اس دن سعودی حکومت دنیا کا سب سے اونچا جھنڈا لہرانے کا بھی اہتمام کرتی ہے۔
سعودی عرب کی طرح عمان، قطراور متحدہ عرب امارات بھی اپنا قومی دن یوم الوطنی یا عید الوطنی کے نام سےدھوم دھام مناتے ہیں اور ملک بھر میں حکومتی اورنجی سطح پر جلسسہ و جلوس نکالتے ہیں۔
یوم الوطنی یا عید الوطنی جیسےعمل اور ان دنوں میں جلسہ جلوس نکالنا اور خوشی منانا شریعت میں منع نہیں بلکہ مباح ہے ۔اس دور میں یہ ثقافتی ضرورت بن گئےہیں ، ان پر شرعی اعتراض صحیح نہیں ہے۔ لہٰذا جلوس ِ میلادالنبی ﷺ کا اصل مقصد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی منانا ہے تو اس پر اعتراض کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پر اگر جلسہ و جلوس کا اہتمام ہوتا ہے تو اس کا شرعی جواز دریافت کرنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ یہ واضح ہے کہ یہ ہماری ثقافت کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ مباح اور جائز بھی ہے۔
جلوس ِ میلادالنبیﷺ علاقائی ثقافت کا حصہ ہے
1.12.5
میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوس جو ہمارے ہاں رواج پا چکے ہیں ان کو معترضین بدعت سے تعبیر کرتے ہیں ۔ حالانکہ کچھ چیزیں اصلاً دینی ہوتی ہیں ان کی اصل توضیح اور استدلال کو کتاب وسنت میں تلاش کرنا چاہیے کہ وہ احکامِ دین کا حصہ ہوتی ہیں۔ اس کے ثبوت یا عدمِ ثبوت پر تو حکم شرعی ہونا چاہیے کہ ثابت ہے تو حکم ہے اور اگر غیر ثابت ہے تو حکم نہیں اور باقی چیزوں کی تقسیم کر سکتے ہیں :
اَوّلاً : کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان میں علاقائی اور سماجی رواج شامل ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک اہم اور نئی جہت ہے کہ علاقائی رواج دینی اُمور نہیں بن جاتے اور وہ چیزیں کلچر یعنی تہذیب و ثقافت کا رُخ اختیار کرلیتی ہیں۔
ثانیاً : کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو وقتی مصالح، بدلتے ہوئے حالات، لوگوں کے رُجحانات اور اجتماعی میلانات کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔
ثالثاً : بعض علاقائی، سماجی اور کلچرل ضرورتیں اور تقاضے بعض چیزوں کو ناگزیر بنا دیتے ہیں۔
عرب ممالک اپنا قومی دن یوم ُالوطنی یا عید ُالوطنی کے نام سے مناتے ہیں جبکہ ہم یومِ پاکستان اور یومِ قائدِ اعظم مناتے ہیں اور ان مواقعوںپر جلوس نکالتے ہیں۔ یہ ان ممالک کے علاقائی رسم و رواج کا حصہ ہے، اسے شرعی نہیں بلکہ ثقافتی نقطۂ نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
اگر عرب کا یوم ُالوطنی اور پاکستان کا یومِ پاکستان منانا ثقافتی نقطۂ نظر سے درست ہے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کا دن جو انسانی تاریخ کا اہم ترین دن ہے کیوں نہ منایا جائے؟ اس طرح اور موقعوں پر چراغاں ہوتا ہے تو یومِ میلاد پر چراغاں کیوں نہ کیا جائے؟ اگر قومی تہوار پر قوم اپنی عزت و افتخار کو نمایاں کرتی ہے تو حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے دن وہ بہ طور اُمت اپنا جذبہ افتخار کیوں نمایاں نہ کرے؟ جس طرح ان ثقافتی مظاہر پر کسی اِستدلال کی ضرورت نہیں اُسی طرح میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوس کے جواز پر بھی کسی اِستدلال کی ضرورت نہیں۔
جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد شریف پر خوشی منانا قرآن و سنت سے ثابت ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ مومن کا دل خوشی و انبساط سے لبریز ہوجائے، البتہ اس کے اظہار کے مختلف ثقافتی طریقے ہیں جن کا وقت اور علاقوں کے ساتھ ساتھ بدلنا ناگزیر ہوتا ہے۔
مفتي محمد مظہر اﷲ دہلوی (1386 1303-ھ/ 1886-1966 ء) لکھتے ہیں :
’’میلاد خوانی بشرطیکہ صحیح روایات کے ساتھ ہو اور بارہویں شریف میں جلوس نکالنا بشرطیکہ اس میں کسی فعل ممنوع کا ارتکاب نہ ہو، یہ دونوں جائز ہیں۔ ان کو ناجائز کہنے کے لیے دلیل شرعی ہونی چاہیے۔ مانعین کے پاس اس کی ممانعت کی کیا دلیل ہے؟ یہ کہنا کہ صحابہ کرام نے نہ کبھی اس طور سے میلاد خوانی کی نہ جلوس نکالا ممانعت کی دلیل نہیں بن سکتی کہ کسی جائز اَمر کو کسی کا نہ کرنا اس کو ناجائز نہیں کر سکتا۔‘‘
یہ پوچھا جاتا ہے کہ عرب جلوس ِ میلادالنبی ﷺ کیوں نہیں نکالتے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عرب کے کلچر میں جلوس نکالنا اتنا عام نہیں جتنا عجم کے کلچر میں ہے۔ متحدہ عرب امارات اور مصر وغیرہ میں لوگ میلاد مناتے ہیں لیکن جلوس نکالنا ان کے کلچر میں نہیں ہے۔ لیکن یہ بعید نہیں کہ جس طرح عرب ممالک نےاپنی یوم الوطنی کی خوشی منانا شروع کر دی ہے اسی طرح مستقبل قریب میں عرب ممالک ایک دن رسول اللہ صلی وسلم کی ولادت کی خوشی پر میلاد شریف کا جلوس بھی نکالنا شروع کر دیں اور اس عظیم خوشی کو اپنی تہذیب و ثقافت کا حصہ بنالیں۔
اسلامی تاریخ میں جلوسِ میلاد
1.12.6
مکہ مکرمہ میں محافلِ میلادالنبیﷺ کا اِنعقاد
علامہ قطب الدین حنفی (م 988ھ) نے ’’کتاب الاعلام باعلام بیت اﷲ الحرام فی تاریخ مکۃ المشرفۃ‘‘ میں اہلِ مکہ کی محافلِ میلاد کی بابت تفصیل سے لکھا ہے۔ اُنہوں نے واضح کیا ہے کہ اہلِ مکہ صدیوں سے جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مناتے رہے ہیں :
قول
يزار مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم المکاني في الليلة الثانية عشر من شهر ربيع الأول في کل عام، فيجتمع الفقهاء والأعيان علي نظام المسجد الحرام والقضاة الأربعة بمکة المشرفة بعد صلاة المغرب بالشموع الکثيرة والمفرغات والفوانيس والمشاغل وجميع المشائخ مع طوائفهم بالأعلام الکثيرة ويخرجون من المسجد إلي سوق الليل ويمشون فيه إلي محل المولد الشريف بازدحام ويخطب فيه شخص ويدعو للسلطنة الشريفة، ثم يعودون إلي المسجد الحرام ويجلسون صفوفًا في وسط المسجد من جهة الباب الشريف خلف مقام الشافعية ويقف رئيس زمزم بين يدي ناظر الحرم الشريف والقضاة ويدعو للسلطان ويلبسه الناظر خلعة ويلبس شيخ الفراشين خلعة. ثم يؤذن للعشاء ويصلي الناس علي عادتهم، ثم يمشي الفقهاء مع ناظر الحرم إلي الباب الذي يخرج منه من المسجد، ثم يتفرقون. وهذه من أعظم مواکب ناظر الحرم الشريف بمکة المشرفة ويأتي الناس من البدو والحضر وأهل جدة، وسکان الأودية في تلک الليلة ويفرحون بها.
’’ہر سال باقاعدگی سے بارہ ربیع الاول کی رات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے ولادت کی زیارت کی جاتی ہے۔ (تمام علاقوں سے) فقہاء، گورنر اور چاروں مذاہب کے قاضی مغرب کی نماز کے بعد مسجد حرام میں اکٹھے ہوتے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں کثیر تعداد میں شمعیں، فانوس اور مشعلیں ہوتیں ہیں۔ یہ (مشعل بردار) جلوس کی شکل میں مسجد سے نکل کر سوق اللیل سے گزرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے ولادت کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ پھر ایک عالم دین وہاں خطاب کرتا ہے اور اس سلطنتِ شریفہ کے لیے دعا کرتا ہے۔ پھر تمام لوگ دوبارہ مسجد حرام میں آنے کے بعد باب شریف کی طرف رُخ کرکے مقامِ شافعیہ کے پیچھے مسجد کے وسط میں بیٹھ جاتے ہیں اور رئیسِ زَم زَم حرم شریف کے نگران کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ بعدازاں قاضی بادشاہِ وقت کو بلاتے ہیں، حرم شریف کا نگران اس کی دستار بندی کرتا ہے اور صاحبانِ فراش کے شیخ کو بھی خلعت سے نوازتا ہے۔ پھر عشاء کی اذان ہوتی اور لوگ اپنے طریقہ کے مطابق نماز ادا کرتے ہیں۔ پھر حرم پاک کے نگران کی معیت میں مسجد سے باہر جانے والے دروازے کی طرف فقہاء آتے اور اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ یہ اتنا بڑا اجتماع ہوتا کہ دور دراز دیہاتوں، شہروں حتیٰ کہ جدہ کے لوگ بھی اس محفل میں شریک ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت پر خوشی کا اِظہار کرتے تھے۔‘‘
قطب الدين، کتاب الإعلام بأعلام بيت اﷲ الحرام في تاريخ مکة المشرفة : 355، 356
مقامِ میلادالنبیﷺ کی اَہمیت اور تعظیم
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سفرِ معراج بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام نے بیت اللحم کے مقام پر مجھ سے کہا : آپ براق سے اتریے اور نماز پڑھیے۔ میں نے اتر کر نماز ادا کی۔ پس اس نے کہا :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
أتدري أين صليت؟ صليت ببيت لحم حيث ولد عيسي عليه السلام.
’’پس اس نے کہا: کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز ادا کی ہے؟ آپ نے بیت اللحم میں نماز ادا کی ہے جہاں عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی تھی۔‘‘
حوالاجات
نسائي، السنن، کتاب الصلاة، باب فرض الصلاة، 1 : 222، رقم : 450 | 1 |
طبراني، مسند الشاميين، 1 : 194، رقم : 341 | 2 |
درج ذیل کتب میں یہ حدیث حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : | |
بزار، البحر الزخار (المسند)، 8 : 410، رقم : 3484 | 3 |
طبراني، المعجم الکبير، 7 : 283، رقم : 7142 | 4 |
هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 1 : 73 | 5 |
عسقلاني، فتح الباري، 7 : 199 | 6 |
اِس حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جس طرح جمعہ کو فضیلت اور تکریم حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کی وجہ سے ملی۔ جو کہ تعظیمِ زمانی ہے۔ اِسی طرح بیت اللحم کو مولدِ عیسیٰ علیہ السلام ہونے کی وجہ سے تعظیمِ مکانی کا شرف حاصل ہوا۔ اِسی وجہ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہاں نماز ادا کرنے کی گزارش کی گئی۔ اِس حدیث شریف سے نبی کی جائے ولادت کی اَہمیت اور تعظیم ثابت ہوتی ہے۔ اِسی لیے عاشقانِ رسول مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (وہ مکان جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی) کی تعظیم اور زیارت کرتے ہیں۔ اہلِ مکہ کا ایک عرصہ تک معمول رہا ہے کہ وہ اِس مکان سے جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جلوس نکالا کرتے تھے۔ مزید برآں اگر نبی کی ولادت کسی مکان کو متبرک اور یادگار بنا دیتی ہے اور یہ براہِ راست حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے تو وہ دن اور لمحہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی واجب التعظیم، یادگار اور یومِ عید کیوں نہ ہوگا۔
شیخ محمد رضا مصری کی تحقیق
عظیم سیرت نگار و مؤرخ شیخ محمد رضا مصری نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ میں تمام عالم اسلام کے تناظر میں اِنعقادِ میلاد کے بارے میں تاریخی جائزہ لیا ہے اور دنیا بھر میں وقوع پذیر ہونے والی تقریباتِ میلاد کے اَحوال بیان کرنے کے بعد اپنے زمانے میں را ئج میلاد شریف کی محافل و جلاس کے بارے میں لکھتےہیں کہ:
قول
’’ہمارے زمانہ میں بھی مسلمانان عالم اپنے اپنے شہروں میں میلاد کی محفلیں منعقد کرتے ہیں۔ مصر کے علاقوں میں یہ محفلیں مسلسل منعقد کی جاتی ہیں اور ان میں برابر میلاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق واقعات بیان کیے جاتے ہیں۔ فقراء و مساکین کو خیرات تقسیم کی جاتی ہے۔ خاص طور پر قاہرہ میں اس روز ظہر کے بعد ایک پیادہ جلوس کمشنر آفس کے سامنے سے گزرتا ہوا عباسیہ میدان کی طرف روانہ ہوتا ہے جو پولیس کے حفاظتی دستوں کے ساتھ سڑکوں سے گزرتا ہے۔ یہ جلوس مقاماتِ غوریہ، اشراقیہ، کوئلہ بازار اور حسینیہ سے گزرتا ہوا عباسیہ میدان پر ختم ہوتا ہے۔ ان راستوں پر ہجوم بڑھتا جاتا ہے، جلوس کے آگے پولیس کے سوار دستے ہوتے ہیں اور دونوں طرف فوج کے کچھ افسر ہوتے ہیں۔ مصر میں یہ مبارک دن حکومت کی طرف سے منایا جاتا ہے۔ چنانچہ عباسیہ میں وزراء و حکام کے لیے شامیانے نصب کیے جاتے ہیں اور خود شاہِ وقت یا ان کے نائب جلسہ گاہ میں حاضر ہوتے ہیں۔ شاہ کے پہنچنے پر فوج سلامی دیتی ہے، پھر وہ شامیانے میں داخل ہوتے ہیں اور پھر صوفیاء اور مشائخ طریقت اپنے اپنے جھنڈے لیے وہاں حاضر ہو کر ذکر میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سماعت فرماتے ہیں۔ ختم محفل پر حاکمِ مصر میلاد کا بیان کرنے والے کو شاہانہ خلعت عطا فرماتے ہیں، پھر حاضرین میں شیرینی تقسیم کی جاتی ہے اور شربت پلایا جاتا ہے۔ اس کے بعد توپوں کی گونج میں شاہانہ سواری مراجعت فرما ہوتی ہے، پھر شام کے وقت خیموں پر نصب شدہ قمقمے روشن کیے جاتے ہیں۔ بہترین آتش بازی چھوڑی جاتی ہے۔ اس دن تمام دفاتر میں تعطیل ہوتی ہے۔ نیز بمقام مشہد حسینی کمشنر مصر کی موجودگی میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان ہوتا ہے۔ آج کل مذہبی علماء اور بے دار مغز حکام کی توجہات و مساعی جمیلہ سے بیشتر مروجہ بدعتوں کو دور کیا جا رہا ہے۔
’’یہ جشن میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہتمام کا بیان کیا گیا ہے، ساتھ ہی ہم حکامِ وقت سے مسلسل یہ مطالبہ کرتے رہتے ہیں کہ وہ ہر برائی جو دین کے خلاف ہے اور وہ تمام غیر ضروری باتیں جو ان مبارک مجالس کے موقعوں پر رواج پاگئی ہیں انہیں سختی سے روک دیا جائے کیوں کہ یہ باتیں اسلام کی خوبیوں کو داغ دار بنا دیتی ہیں اور مجالسِ میلاد کے انعقاد کے پاکیزہ مقاصد کو مفاسد سے آلودہ کر دیتی ہیں۔‘‘
محمد رضا، محمد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : 26. 28
دور حاضر میں میلادالنبیﷺ کے جلوس
1.12.7
ماہِ ربیع الاول کا آغاز ہوتے ہی پورا عالمِ اِسلام میلادِ مصطفیٰ ﷺ کی خوشی میں اِنعقادِ تقریبات کا آغاز کر دیتا ہے۔ عید میلاد النبی ایک تہوار یا خوشی کا دن ہے جو دنیا بھرکے ممالک اپنی ثقافت اور رسم و رواج کے مطابق محبت آمیز جذبات کے ساتھ یہ مہینہ مناتےہے۔ پیغمبرِ اسلام کو یاد کرنے کے محافل، جلسے، جلوس کا انعقاد کیا جاتا ہے اور گلی کوچوں، گھروں اور بازاروں میں جھنڈے اور چراغاں کیا جاتا ہے۔
مسلم ممالک میں میلادالنبیﷺ کے جلوس
مسلم ممالک میں ہر سال پیغمبرِ اسلام ﷺ کا یوم ولادت مختلف طریقوں سے منایا جاتا ہے، یکم ربیع الاول سے ہی مساجد اور دیگر مقامات پر میلاد النبی ﷺ اور نعت خوانی کی محافل شروع ہو جاتی ہیں۔ بالخصوص 12 ربیع الاوّل کے دن زیادہ تر مسلم ممالک میں گلی کوچوں کو برقی قمقموں سے سجا دیا جاتا ہے اور ایمان کو تازگی بخشنے کے لیے روح پرور محافل میں اس روز رسول اللہ کی خصائص وشمائل،معجزات،عظمت و فضائل بیان کیے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ بہ کثرت درود شریف،فقیروں اور مسکینوں میں کھانا تقسیم کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ جن مسلم ممالک میں جشن آمد رسول کے جلوسوں کا اہتمام کیا جاتا ہے ان میں سر فہرست
پاکستان، بنگلہ دیش، مصر، ملائشیا، ترکی، فلسطین، مراکش، عراق اور یمن
ہیں۔ان جلوسوں میں مسلمان میلاد شریف کے جھنڈوں کے ساتھ سڑکوں پر نکلتے ہیں اور اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں ۔ اس موقع کی مناسبت سے اکثر لوگ بلند آواز سےنعتیہ اشعار پڑھتے ہیں اوربعض دَف بجا کر آپ کی عظمت کے گیت گاتے ہیں۔ انٹرنیٹ ان جلوسوں کی خبروں اور دڈیوذ سے بھرا پڑا ہے۔ چونکہ ان تک رسائی ہر کسی کو با آسانی میسر ہے اِس لیے یہاں تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔
غیر مسلم ممالک میں میلادالنبیﷺ کے جلوس
اسلامی ممالک کی طرح بعض غیر اسلامی ممالک میں بھی میلادِ مصطفیٰ ﷺ میں بھی انتہائی گرم جوشی اور اہتمام کے ساتھ یہ دن منایا جاتا رہا ہے۔ میلادالنبی ﷺ کے دنوں میں عاشقانِ رسول غیر مسلم ممالک میں بھی چرچا ِ رسول ِعربی ﷺ کے لیے جلوس منعقدکرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ان مملک کے علاقائی کونسل سے باقاعدہ اجازت طلب کر کے ایک مخصوص دن اور وقت مقرر کیا جاتا ہے اور پھر اس دن مقامی مومنین اِن جلوسوں میں جوق در جوق شرکت کرتے ہیں۔ اس دوران شراکا٫ ِجلوس ان ممالک کی سڑکوں اور گلی کوچوں میں رسول ِعربی ﷺ کا ذکر بلند کرتے ہیں اور آپ ﷺ کا چرچا غیر مسلموں تک بھی پہنچاتے ہیں۔
جن غیر مسلم ممالک میں جشن آمد رسول کے جلوسوں کا اہتمام کیا جاتا ہے ان میں سر فہرست
برطانیہ ، امریکہ، روس، آسٹریلیا اور بھارت
ہیں۔ان جلوسوں میں بھی مسلم کمیونٹی کے افراد میلاد شریف کے جھنڈوں کے ساتھ سڑکوں پر نکلتے ہیں اور اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں ۔ اس موقع کی مناسبت سے اکثر لوگ بلند آواز سےنعتیہ اشعار پڑھتے ہیں۔