حُب رسولﷺ

2.6

اللہ رب العزت کی محبت کی طرح محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی واجباتِ دین میں سے ہے۔ کسی شخص کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ اسے اپنے والدین، اولاد، رشتہ دار، عزیز و اقارب، تمام لوگ حتی کہ اپنی جان سے بھی زیادہ حضور رضی اللہ عنہ سے محبت نہ ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

لَا يُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی أَکُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَ وَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ.

’’تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اُس کے والد (یعنی والدین)، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘

حوالاجات

اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ.

’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہِ قدرت میں میری جان ہے! (اِس کے بعد سابقہ الفاظِ حدیث ہیں)۔‘‘

حوالاجات

حضرت عبد اللہ بن ہِشام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللهِ! لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ کُلِّ شَيئٍ إِلاَّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: لَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، حَتَّی أَکُونَ أَحَبَّ إِلَيْکَ مِنْ نَفْسِکَ. فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: فَإِنَّهُ الآنَ، وَاللهِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: الآنَ يَا عُمَرُ.

’’ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ مجھے اپنی جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہِ قدرت میں میری جان ہے! جب تک میں تمہیں اپنی جان سے بھی محبوب تر نہ ہو جائوں (تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے)۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ رب العزت کی قسم! اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں، چنانچہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عمر! اب (تمہارا ایمان کامل ہوا) ہے۔‘‘

حوالاجات

محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم درحقیقت محبتِ الٰہی کی تابع ہے اور جو حضور رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہے یہی محبت اسے باری تعالیٰ کی محبت کے حصول کا ذریعہ بنتی ہے۔

فہرست

محبت کے معانی و مفاہیم
اللہ کی رسول اللہﷺ سےمحبت2.6.1
رسول اللہﷺ کی مومنین سے محبت2.6.2
مومنین کو رسول اللہﷺ سےمحبت کی تلقین2.6.3
صحابہ اکرام کی رسول اللہ ﷺ سے محبت2.6.4
بزگانِ دین کی رسول اللہ ﷺ سے محبت2.6.5
عرشی و فرشی مخلوق کی محبتِ رسولﷺ2.6.6
رسولﷺ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے2.6.7
رسولﷺ سے محبت اللہ سے محبت ہے2.6.8
محبتِ الٰہی اور محبتِ  رسولﷺ نجات کا باعث2.6.9
نعت ِ رسولﷺ حُبِ رسولﷺ ہے 2.6.10
میلاد النبیﷺ حُبِ رسولﷺ ہے2.6.11
خلاصہِ کلام2.6.12

محبت کے معانی و مفاہیم

اگرہم محبت کے معانی و مفاہیم جان لیں تو پھر ہمیں اس امر کی بھی سمجھ اور شعور آجائے گا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ محبت کے تقاضوں کو کس طرح مکمل کیا جائے۔ محبت کے کئی معانی ہیں، ان میں سے چند کا تذکرہ ذیل میں درج کیا جارہا ہے:

محبت: صفائے قلب

(1)

محبت کا ایک معنی ’’صفائے قلب‘‘ ہے۔ یعنی کسی کے ساتھ موجود قلبی تعلق کو ہر قسم کی میل کچیل اور غبار سے کلیتاً پاک کردینا۔ جب قلبی تعلق ہر غرض اور غبار سے پاک ہو تو اس کیفیت کو محبت کہتے ہیں۔ اس معنی کا استنباط و استخراج ’’حَبَّۃٌ بَیْضَآءٌ نَقِیَّۃٌ‘‘ سے کیا گیا ہے۔ ایک چھوٹے خالص سفید دانہ کو حبہ کہتے ہیں، اس حَبہ سے محبت ہے یعنی دل اس رشتہ کی خالصیت سے اتنا روشن ہوجائے کہ اس میں کوئی غبار نہ رہے۔

محبت: غایت و مقصود

(2)

محبت کے دوسرے معنی کا استنباط ’’حباب‘‘ سے کیا جاتا ہے۔ ’’حباب‘‘ کا معنی ’’غایت و مقصود‘‘ ہے۔ یعنی محبوب کو زندگی کی غایت و مقصود بنالینا اور بقیہ تمام غایتوں سے نجات پا جانا، تمام مطالب چھوڑ دینا اور ایک ہی مطلب کو اپنا لینا محبت ہے۔ یاد رکھیں! غایت اس وقت ہوتی ہے جب محبوب، محبت کرنے والے کی زندگی کا مقصدِ وحید بن جاتا ہے۔

محبت: لزوم و ثبات

(3)

محبت کے پہلے معنی کی رو سے جب دل اغیار سے صاف و پاک ہوگیا اور دوسرے معنی کی رو سے مقصود و مطلوب تنہا رہ گیا اور اس پر فوکس ہوگیا تو اب محبت کے تیسرے معنی ’’اللزوم والثبات‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے یعنی پھر محبوب کے ساتھ اس طرح چمٹ جانا کہ کوئی اٹھائے بھی تو اس سے الگ نہ ہوسکے اورکوئی ہٹائے بھی تو نہ ہٹ سکے۔ ایسا لزوم و ثبات کسی کے ساتھ قائم ہوجائے کہ نفس کی خواہشات، دنیا کے مفادات، لوگوں کے افکارو خیالات اور اغراض اسے کھینچ کر ہٹانا بھی چاہیں تو وہ مصطفی ﷺ کی دہلیز سے سر نہ اٹھائے۔ اسے کوئی مٹادے، ختم کردے، مگر کوئی اسے وہاں سے الگ نہ کرسکے۔

محبت: قلق و اضطراب

(4)

کسی کے ساتھ قلبی تعلق استوار ہوجانے کے بعد اس تعلق میں ’’قلق اور اضطراب‘‘ کا رہنا محبت کہلاتا ہے۔ یعنی جب تک محبوب مل نہ جائے، اس کی زیارت نہ ہو اور وصال نہ ہوجائے، اس وقت تک دل کو سکون نہ ملے اور قلق، اضطراب اور تڑپ باقی رہے۔ دنیاوی اضطراب میں بے چینی ہوتی ہے مگر اللہ کی محبت اور حضور علیہ السلام کے ساتھ محبت کے اضطراب میں عاشقوں کو لذت ملتی ہے اور ایسا اضطراب بندے کو بے چین نہیں کرتا بلکہ حقیقت میں سکون دیتا ہے۔

محبت: فنائیت

(5)

محبت کا پانچواں معنی ’’خشبات‘‘ سے مستنبط ہے۔ خشبات سے مراد گھاس ہے۔ ہم گھاس پر چلتے ہیں، فرنیچر رکھتے ہیں، یہ پاؤں تلے آتا ہے، نیچے دب جاتا ہے مگر اس قدر پامال ہونے کے باوجود کوئی اعتراض نہیں کرتا۔ اس معنیٰ کی رو سے محبت کا معنیٰ ہے کہ محبوب چاہے محب کو ذلیل کردے یارفیع و عزیز کردے۔ ۔ ۔ چاہے عطا کردے یا روک دے۔ ۔ ۔ محبوب اس کی طرف دیکھے یا منہ موڑلے۔ ۔ ۔ اس سب کے باوجود اس کے رشتۂ قلب کی شدت میں کبھی کمی نہ آئے اور ہمہ وقت محبوب کی رضا میں فنا ہو۔ پس جب انسان گھاس کی طرح بچھ جاتا ہے اور اپنی عزت و ذلت کو بھی نظر انداز کردیتا ہے تو اس تعلق کو محبت کہتے ہیں۔

محبت: معموریت

(6)

پانی سے لبالب بھرے ہوئے ایسے برتن کو حُبْ کہتے ہیں کہ جس میں مزید ایک یا دو قطرے پانی ڈالنے کی بھی گنجائش نہ رہے۔ اس معنی کی رو سے محبت کا معنی یہ ہے کہ ایک سے جڑے اور اس کے عشق و محبت سے ایسا بھرے کہ اس کے دل کے برتن میں محبوب کے علاوہ کسی کی محبت تو کجا کسی دوسرے کی رغبت کے لیے بھی معمولی جگہ نہ ہو۔ صبح و شام بس اسی کے تصور میں گم رہے۔

اللہ کی رسول اللہﷺ سےمحبت

2.6.1

محبوب سے جڑی ہر چیز سے محبت علامت ِمحبت میں سے ہے ۔  یہ وہ راز ہے جس کی وجہ سے بیت اللہ کی محبت مومنوں کے دلوں میں ہے ۔  اسی وجہ سے بیت اللہ سے محبت کرنے والے اس کی چاہت میں  اپنے وطن اور عزیزوں کی جدائی  کے ساتھ ساتھ  راستے کی مشقت و پریشانیاں کو بھی  برداشت کرتے ہیں  لیکن انہیں اس کی طرف سفر کرنے میں مزہ آتا ہے حالانکہ سفر عذاب کا ٹکڑا ہے  ۔  اس محبت کا وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس گھر کو اپنی طرف منسوب کیا ہے فرمایا:

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَّ طَهِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّآىٕفِیْنَ

اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں کیلئے پاک رکھو۔

 الحج : 26

جس طرح بیت اللہ کو اللہ تعالی  نے اپنا گھر کہا اسی طرح قران مجید میں اللہ پاک نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو  بھی متعدد جگہ” اپنا بندہ “کہہ کر محبت کا اظہار کیا ہےفرمایا

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَّ اَنَّهٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰهِ یَدْعُوْہُ

اور یہ کہ جب اللہ کا بندہ اس کی عبادت کرنے کھڑا ہوا۔

الجن:19

اور فرمایا

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سُبْحٰنَ الَّذِیْ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ

پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو لے گئی۔

بنی اسرائیل:1

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِہٖ

با برکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندہ پر قرآن اتارا۔

الفرقان:1

نیز فرمایا

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا

اور اگر تمہیں اس کلام  میں کوئی شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پرنازل کیا۔

البقرہ:23

قرآن پاک میں ایسی بیشمار مثالیں ہیں جیسا کہ:

اللہ کریم کو اپنے حبیب سے اتنی محبت ہے کہ امت کو سکھانے کے لیے آپ ﷺ کا پورے قران پاک میں صرف چار مرتبہ آپﷺ کے نام کا ذکر فرمایا۔ یہ اللہ تعالی کی لیے آپﷺ سے بے پناہ محبت ہے تاکہ اپنے محبوب کا ادب امتِ مسلمہ میں قائم رہے۔

قران پاک میں جیسے اللہ تعالی نے اپنے نام اور صفات سے سورتوں کا آغاز کیا ہے مثلا سورۃ الرحمن اس میں اپنی صفت کے ساتھ اس سورۃ کا آغاز کیا ہے۔اسی طرح اللہ تعالی کی اپنے حبیبﷺ سے محبت کی وجہ سے بعض صورتوں کی ابتدا لفظِ ”قل” (یعنی فرما دیجئے میرے حبیب) سے کی اور

اس کے علاوہ قرآن پاک میں جگہ جگہ آپﷺ کی صفات بیان کی جیسا کہ الشاهد، والمبشر، والنذير، والمبين، والداعي إلى الله، ‏والسراج المنير، والمذكر، والرحمة، والنعمة، والهادي، والشهيد، والأمين والمزمل، ‏والمدثر۔ جو کبھی کسی اور ہستی کے لیے استعمال نہ کیے۔

رسول اللہﷺ کی مومنین سے محبت

2.6.2

اللہ سبحان تعالی نے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو  رحمت العالمین  بنا کر  بھیجا اس لیے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم   ساری زندگی تمام انسانیت سے محبت کرتے رہے ۔حتی کہ اپنے دشمنوں کوبھی جہنم کی دائمی آگ سے بچانے کی فکرکرتے اوراس فکرمیں اپناچین وسکون بھی قربان کردیتے تھے،یہاں تک کہ آیت نازل ہوئی:

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا

    پس اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو کیا آپﷺ ان کے پیچھے اس رنج میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے۔

[الكهف: 6]

آپ ﷺنے  ہر وقت تمام انسانیت کی نجات کے لیے محنت فرمائی ۔    جو بارِ گراں اور طوقِ (قیود) اُن  پر اُن کی نافرمانیوں کے باعث   مسلط   تھے  اس کو ساقط فرماتے اور اُنہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب فرماتے ۔  جس کا ذکر قرآن پاک کی سورہ الأعراف میں آتا ہے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَ یَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ كَانَتْ عَلَیْهِمْ

’’ اور ان کے اوپر سے وہ بوجھ اور قیدیں اتارتے ہیں جو ان پر تھیں  ۔‘‘

الأعراف، 7 : 157

خودآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت سے اپنی محبت کی مثال اس طرح پیش کی ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُ النَّاسِ كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ جَعَلَ الْفَرَاشُ وَهَذِهِ الدَّوَابُّ الَّتِي تَقَعُ فِي النَّارِ يَقَعْنَ فِيهَا فَجَعَلَ يَنْزِعُهُنَّ وَيَغْلِبْنَهُ فَيَقْتَحِمْنَ فِيهَا فَأَنَا آخُذُ بِحُجَزِكُمْ عَنْ النَّارِ وَهُمْ يَقْتَحِمُونَ فِيهَا

    میری اور لوگوں کی مثال اس شخص کی ہے کہ جس نے آگ سلگائی۔ پس اس کے ارد گرد روشنی پھیل گئی۔ تو پروانے اور وہ کیڑے جو آگ میں گرتے ہیں۔ اس میں گرنے لگے۔ وہ آدمی انہیں کھینچ کر باہر نکالنے لگا اور وہ اس پر غالب آکر اس آگ میں گرے جاتے تھے۔ (اسی طرح) میں تمہیں کمر سے پکڑ پکڑ کر آگ سے باہر کھینچتا ہوں اور تم ہو، کہ اس میں داخل ہوئے جاتے ہو۔

حوالاجات

’’یَارَبِّ اُمَّتِیْ اُمَّتِیْ‘‘ کہنے والے رسولﷺ کو اپنی امت سے کتنی محبت ہے اس کا ذکے قرآن پاک میں اس طرح آتا ہے:

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

لَقَدْ جَآء کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْکُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌo

’’بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول ( ﷺ ) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزومند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں‘‘

(التوبۃ، 9 : 128)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ اکرام کے ساتھ ساتھ  قیامت تک آنے والی تمام  امت  سے بھی بے پناہ  محبت ہے۔ اس لیےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آنے والی  امت کی حفاضت کے لیے یہ دعاء کررکھی ہے :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

سألته ان لا يهلك أمتي بالغرق فأعطانيها وسألته ان لا يهلك أمتي بالسنة فأعطانيها [مسند أحمد بن حنبل: ١/ ١٧٥ عن سعد بن أبی وقاص ،قال الشیخ الأ رنؤوط:ا سنادہ صحیح علی شرط مسلم، و فی روایۃ ،’ بِمَا عَذَّبَ بِہِ الْأُمَم قَبْلہمْ : قال الحافظ ابن حجر رحمہ اللہ : وَدَخَلَ فِي قَوْله ” بِمَا عَذَّبَ بِهِ الْأُمَم قَبْلهمْ ” الْغَرَق كَقَوْمِ نُوح وَفِرْعَوْن ، وَالْهَلَاك بِالرِّيحِ كَعَادٍ ، وَالْخَسْف كَقَوْمِ لُوط وَقَارُون ، وَالصَّيْحَة كَثَمُودَ وَأَصْحَاب مَدْيَن ، وَالرَّجْم كَأَصْحَابِ الْفِيل وَغَيْر ذَلِكَ مِمَّا عُذِّبَتْ بِهِ الْأُمَم عُمُومًا]۔

    میں نے اپنے رب سے مطالبہ کیا کہ میری امت کو (عمومی غرق) سے ہلاک نہ کیا جائے تو رب نے مجھے یہ عطاکیانیزمیں نے اپنے رب سے مطالبہ کیا کہ میری امت کو(عمومی) قحط سے ہلاک نہ کرنا تواللہ نے مجھے یہ عطاء کردیا(یعنی اس امت کوکسی بھی عمومی عذاب سے ہلاک نہیں کیاجائے گا ) ۔

حوالاجات

ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نزدیک سے درود بھیجتے ہیں، دور سے درود بھیجتے ہیں اور بعد میں آنے والے بھی بھیجیں گے، کیا یہ سب درود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیش کیے جاتے ہیں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

أسمع صلاة أهلِ محبتي وأعرفهم.

’’میں اہلِ محبت کا درود خود سنتا ہوں اور اُنہیں پہچانتا (بھی) ہوں۔‘‘

حوالاجات

اِس سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہلِ محبت کا درود نہ صرف خود سُنتے ہیں بلکہ بھیجنے والوں کو پہچانتے بھی ہیں، اگرچہ وہ کسی بھی مقام پر ہو یا کسی زمانے میں ہی کیوں نہ ہوں۔

احادیثِ مبارکہ میں ایسی بیشمار مثالیں ہیں جن میں آپﷺ نےمومنوں سے محبت کا اظہار فرمایا جیسا کہ:

ایک حدیث ہے کہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی سے فرمایا تھا میں تمہیں پُلِ صر اط پر ملوں گا اگر وہاں نہ ملا تو حوض کوثر پر ملوں گا ورنہ جنت کے دروازوں پر ملوں گا ۔ یہ ساری حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت سے  لازوال محبت پر مبنی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کتنی محبت کرتے ہیں کہ قیامت کی ہولناکیوں میں بھی امت کا ساتھ دیں گے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات صحابہ کرام سے مشورہ لیتے صرف اور صرف ان سے ان کی دل جوئی کے لیے ورنہ اللہ تو آپ کو کافی ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو قبر میں آپﷺ کی تصویر دکھانا فقط اس لیے ہے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے صدقے امت کی بخشش ہو جائے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام معجزات فقط محبت ِصحابہ کرام کی وجہ سےتھے۔ آپ نے صحابہ کرام کی محبت میں اپنے معجزات سے مدد اُن کی فرمائی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مومنوں کی خواب میں آنا اور ان کی رہنمائی اور مدد فرمانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جاری و ساری محبت کی علامت ہے۔

مومنین کو رسول اللہﷺ سےمحبت کی تلقین

2.6.3

حضور نبی اکرم ﷺ سے محبت کرنا ایمان کا تقاضا ہے۔ قرآن مجید میں حضور نبی اکرم ﷺ سے محبت کرنے کا حکم صراحتاً موجود ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ محبت کے لیے قرآن مجید میں لفظِ اَوْلیٰ بھی بیان ہوا ہے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا:

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

1۔ اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ.

’’ نبی مسلمانوں کے لیے ان کی جانوں سے بڑھ کر ہیں۔‘‘

 (الاحزاب، 33: 6)

اس آیت کے دو معنی ہیں:

1۔ ائمہ لغت نے ’’الولی‘‘ کے کئی معانی میں سے ایک معنی ’’المحب التابع‘‘ بھی کیا ہے۔ یعنی ولی وہ ہے جو محبت کرنے والا بھی ہو اور تابعداری و وفاداری نبھانے والا بھی ہو۔ اس معنیٰ کی رو سے مذکورہ آیت کا معنی یہ ہوگا کہ مومن کے لیے واجب ہے کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کو اپنی جان سے زیادہ محبوب رکھے۔

2۔ اس آیتِ کریمہ کا دوسرا معنیٰ ’’الولی‘‘ بمعنی قریب کے لحاظ سے ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ مومنوں کے ساتھ ان کی جانوں سے زیاہ قریب ہیں۔

یہ دونوں معانی ایک ہی مفہوم پر دلالت کرتے ہیں۔ یعنی ایک بندۂ مومن کو اپنی جان اور کائنات کی ہر شے سے زیادہ حضور علیہ السلام محبوب و عزیز بھی ہیں اور قریب بھی ہیں۔ پس مومن وہ ہے جو اپنے نبی ﷺ سے تمام حدود سے بھی بڑھ کر محبت کرے۔

ایک اور جگہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

2۔ قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ

کَسَادَهَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَهَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِهٖ وَجِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللهُ بِاَمْرِهٖ وَاللهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ.

’’(اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں: اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔‘‘

(التوبة، 9: 24)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کے آٹھ مظاہر محبت بیان کیے ہیں کہ انسان اپنے والدین، اولاد، بیویوں، رشتہ داروں ، مکانات، مالِ دنیا اور تجارت سے الگ الگ صورتوں اور زاویوں سے محبت کرتا ہے۔ دنیا میں موجود تمام محبتیں ان آٹھ مظاہر میں سے کسی نہ کسی ایک محبت کے تحت آجاتی ہیں۔ اللہ رب العزت نے ان مظاہر محبت کو بیان کرنے کے بعد فرمایا:  اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِهٖ یعنی اگر تمھیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے زیادہ ان مذکورہ مظاہر کے ساتھ محبت ہو تو پھر اللہ کے امر اور گرفت کا انتظار کرو۔ گویا اس آیت میں نہ صرف حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ محبت کو لفظِ محبت کے ساتھ صراحتاً بیان فرمایا بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کو ایک ہی محبت قرار دیا گیا اور اس میں دوئی کو بھی ختم کردیا گیا۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

3۔ قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِی السَّمَآءِ ۚ فَلَنُوَلِّیَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ؕ وَ حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ۔

’’(اے حبیب!) ہم بار بار آپ کے رُخِ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں، سو ہم ضرور بالضرور آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں، پس آپ اپنا رخ ابھی مسجدِ حرام کی طرف پھیر لیجئے، اور (اے مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی ہو پس اپنے چہرے اسی کی طرف پھیر لو۔‘‘

(البقرۃ، 2 : 144)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

4۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ یُحْبِبْکُمُ اللهُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ط وَاللهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌo

’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں : اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لئے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اللہ نہایت بخشنے والا مہربان ہےo‘‘

(آل عمران، 3 : 31)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

5۔ لَقَدْ جَآء کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْکُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌo

’’بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول ( ﷺ ) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزومند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیںo‘‘

(التوبۃ، 9 : 128)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

6۔ قُلْ بِفَضْلِ اللهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ط ھُوَ خَيْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَo

’’فرما دیجئے : (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی ﷺ کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیںبہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیںo‘‘

(یونس، 10 : 58)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

7۔ سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِهٖ لَيْـلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰـرَکْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰـتِنَا ط اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُo

’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂِ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہےo‘‘

(بني إسرائیل، 17 : 1)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

8۔ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللهَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللهَ کَثِيْرًاo

’’فی الحقیقت تمہارے لئے رسول اللہ ( ﷺ کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے ہر شخص کے لئے جو اللہ (سے ملنے) کی اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرتا ہےo‘‘

(الأحزاب، 33 : 21)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

9۔ اِنَّ اللهَ وَمَلٰـئِکَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِيِّ ط یٰـاَیُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيْمًاo

’’بے شک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ ﷺ ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کروo۔‘‘

(الأحزاب، 33 : 56)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

10۔ لَآ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِo وَ اَنْتَ حِلٌّم بِهٰذَا الْبَلَدِo وَوَالِدٍ وَّمَا وَلَدَo

’’میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوںo (اے حبیبِ مکرّم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیںo(اے حبیبِ مکرّم! آپ کے) والد (آدم یا ابراہیم علیہما السلام) کی قَسم اور (ان کی) قَسم جن کی ولادت ہوئیo‘‘

(البلد، 90 : 1۔3)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

11۔ وَالضُّحٰیo وَالَّيْلِ اِذَا سَجٰیo

’’(اے حبیبِ مکرّم!) قَسم ہے چاشت (کی طرح آپ کے چہرۂ انور) کی (جس کی تابانی نے تاریک روحوں کو روشن کر دیاo(اے حبیبِ مکرّم!) قَسم ہے سیاہ رات کی (طرح آپ کی زلفِ عنبریں کی) جب وہ (آپ کے رُخِ زیبا یا شانوں پر) چھا جائےo‘‘

(الضحی، 93 : 1۔2)

مومن کی اپنی  ذات کے لیے محبتِ رسول  ﷺ  کتنی اہم ہے اور اس کو آگے  دوسروں تک  پہنچانا کتنا ضروری ہے ،اس ضمن میں ہماری رہنمائی ان  احادیثِ مبارکہ سے  واضح  ہوتی ہے۔

۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

1-لا يؤمن أحدکم حتي أکون أحب إليه من والده وولده والناس أجمعين.

’’تم میں سے کوئی شخص مومن ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ میں اسے اس کے ماں باپ، اس کی اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘

حوالاجات

مندرجہ ذیل  حدیث  مبارکہ میں خاص طور پر  اپنی اولاد کو حُبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم دینے کی تلقین فرمائی گئی ہے :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

2-أدبوا أولادکم علي ثلاث خصال : حبّ نبيکم، وحبّ أهل بيته، وقراء ة القرآن.

’’اپنی اولاد کو تین خصلتیں سکھاؤ : اپنے نبی کی محبت، نبی کے اہلِ بیت کی محبت اور (کثرت کے ساتھ) تلاوتِ قرآن۔‘‘

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

3-عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَحِبُّوْا اﷲَ لِمَا يَغْذُوْکُمْ مِنْ نِعَمِه، وَأَحِبُّوْنِي بِحُبِّ اﷲِ لوَأَحِبُّوْا اَهْلَ بَيْتِي لِحُبِّي.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدَيْثٌ حَسَنٌ غَرِيْبٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ آپ نے بیان فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ سے محبت کرو ان نعمتوں کی وجہ سے جو اس نے تمہیں عطا فرمائیں اور مجھ سے اﷲ تعالیٰ کی محبت کے سبب محبت کرو اور میرے اہلِ بیت سے میری محبت کی خاطر محبت کرو۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام ترمذی، حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اور امام حاکم نے فرمایا : اس حدیث کی سند صحیح ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

4۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ھِشَامٍ رضی الله عنه قَالَ : کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ ، وَھُوَ آخِذٌ بِیَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ کُلِّ شَيئٍ إِلاَّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : لَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِهِ، حَتَّی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَيْکَ مِنْ نَفْسِکَ۔ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ : فَإِنَّهُ الآنَ، وَاللهِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : الآنَ یَا عُمَرُ۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ۔

’’حضرت عبد اللہ بن هِشَام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے اور آپ ﷺ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ مجھے اپنی جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ اس پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے(تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے) جب تک میں تمہیں اپنی جان سے بھی محبوب تر نہ ہو جائوں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : اللہ رب العزت کی قسم! اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں، حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے عمر! اب (تمہارا ایمان کامل ہوا) ہے۔‘‘ اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

5۔ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ عُتْبَةَ رضي الله عنھا قَالَتْ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا کَانَتْ قُبَّةٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ قُبَّتِکَ وَلَا أَحَبَّ أَنْ یُبِيْحَھَا اللهُ وَمَا فِيْھَا، وَوَاللهِ، مَا مِنْ قُبَّةٍ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ یُّعَمِّرَھَا اللهُ وَیُبَارِکَ فِيْھَا مِنْ قُبَّتِکَ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : وَأَيْضًا وَاللهِ، لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَلَدِهِ وَوَالِدِهِ۔

رَوَاهُ الْحَاکِمُ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ وَوَافَقَهُ الذَّھَبِيُّ۔

’’حضرت فاطمہ بنت عتبہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے (قبول اسلام کے بعد) عرض کیا : یا رسول اللہ! (قبولِ اسلام سے پہلے) آپ کے خیمہ سے زیادہ ناپسندیدہ خیمہ میرے لئے کوئی نہ تھا، اور میں پسند نہ کرتی تھی کہ خدا اس خیمہ کو اور اس خیمہ میں رہنے والے کو باقی رکھے، اور اب خدا کی قسم! مجھے آپ کے خیمہ سے زیادہ کوئی خیمہ محبوب نہیں، اللہ تعالیٰ اسے (ہمیشہ) باقی رکھے، اور اس میں برکت نازل فرمائے۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی قسم کھا کر فرمایا : تم میں سے کوئی اس وقت تک مومنِ کامل نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کی اولاد اور اس کے (ماں) باپ سے بھی محبوب تر نہ ہو جاؤں۔‘‘

حوالاجات

اسے امام حاکم نے روایت کیا ہے نیز فرمایا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے امام ذہبی نے بھی ان کی موافقت کی ہے۔

صحابہ اکرام کی رسول اللہ ﷺ سے محبت

2.6.4

یہ حقیقت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اوّل تا آخر محبوبِ رب العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ محبت کرتے تھے اسی محبت کا کرشمہ تھا کہ نہ انہیں اپنی جان کی پروا تھی، نہ مال و اولاد کی۔ وہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اپنے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عزیز جانتے تھے۔ ان کی اسی طاقت نے انہیں ہر طوفان سے ٹکرانے اور ہر مشکل سے سرخرو ہونے کا ہنر سکھایا۔ انہوں نے جس والہانہ عشق و محبت کا مظاہرہ کیا انسانی تاریخ آج تک اس کی نظیر پیش کر سکی اور نہ قیامت تک اس بے مثال محبت کے مظاہر دیکھنے ممکن ہوں گے۔ اُن کی محبتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عالم تھا کہ وہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے ہی اپنی بھوک پیاس کو بجھا لیتے تھے حتیٰ کہ حالتِ نماز میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تَکتے رہتے تھے۔

کتبِ احادیث و سیر میں متعدد واقعات کا ذکر ہے جو انفرادی و اجتماعی طور پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو پیش آئے۔ یہ واقعات اِس اَمر کی غمازی کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشاق صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے زندگی کی حرارت پاتے تھے۔ انہیں محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک لمحہ کی جدائی بھی گوارا نہ تھی۔ ان مشتاقانِ دید کے دل میں ہر لمحہ یہ تمنا دھڑکتی رہتی تھی کہ ان کا محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی بھی ان سے جدا نہ ہو اور وہ صبح و شام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے اپنے قلوب و اذہان کو راحت و سکون بہم پہنچاتے رہیں۔

ذیل میں اسی لازوال محبت کے چند مستند واقعات کا ذکر کیا جائے گا۔

صحابہ کی نماز اور زیارتِ رسولﷺ کا حسین منظر

(1)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مرضِ وصال میں جب تین دن تک حجرہ مبارک سے باہر تشریف نہ لائے تو وہ نگاہیں جو روزانہ زیارتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشرف ہوا کرتی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک جھلک دیکھنے کو ترس گئیں۔ جان نثارانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سراپا انتظار تھے کہ کب ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار نصیب ہوتا ہے۔ بالآخر وہ مبارک و مسعود لمحہ ایک دن حالتِ نماز میں انہیں نصیب ہوگیا۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایامِ وصال میں جب نماز کی امامت کے فرائض سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے سپرد تھے۔ پیر کے روز تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی اقتدا میں حسبِ معمول باجماعت نماز ادا کر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قدرے افاقہ محسوس کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجرہ مبارک سے مسجدِ نبوی میں جھانک کر گویا اپنے غلاموں کو صدیق کی اقتداء میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھ کر اظہارِ اطمینان فرما رہے تھے۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

فکشف النبي صلي الله عليه وآله وسلم ستر الحجرة، ينظرإلينا وهو قائمٌ، کأن وجهه ورقة مصحف، ثم تبسّم.

’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے حجرۂ مبارک کا پردہ اٹھا کر کھڑے کھڑے ہمیں دیکھنا شروع فرمایا۔ (ہم نے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی تو یوں لگا) جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور کھلا ہوا قرآن ہو، پھر مسکرائے۔‘‘

حوالاجات

حضرت انس رضی اللہ عنہ اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

فهممنا أن نفتتن من الفرح برؤية النبي صلي الله عليه وآله وسلم، فنکص أبوبکر علي عقبيه ليصل الصف، وظنّ أن النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم خارج إلي الصلوٰة.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کی خوشی میں قریب تھا کہ ہم لوگ نماز چھوڑ بیٹھتے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی ایڑیوں پر پیچھے پلٹے تاکہ صف میں شامل ہوجائیں اور انہوں نے یہ سمجھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لیے باہر تشریف لانے والے ہیں۔‘‘

حوالاجات

ان پرکیف لمحات کی منظر کشی رِوایت میں یوں کی گئی ہے :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

فلما وضح وجه النبي صلي الله عليه وآله وسلم ما نظرنا منظرًا کان أعجب إلينا من وجه النبي صلي الله عليه وآله وسلم حين وضح لنا.

’’جب (پردہ ہٹا اور) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور سامنے آیا تو یہ اتنا حسین اور دلکش منظر تھا کہ ہم نے پہلے کبھی ایسا منظر نہیں دیکھا تھا۔‘‘

حوالاجات

مسلم شریف میں فھممنا ان نفتتن کی جگہ یہ الفاظ منقول ہیں :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

فبهتنا ونحن في الصلوة، من فرح بخروج النبي صلي الله عليه وآله وسلم.

’’ہم دورانِ نماز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باہر تشریف لانے کی خوشی میں حیرت زدہ ہو گئے (یعنی نماز کی طرف توجہ نہ رہی)۔‘‘

حوالاجات

علامہ اقبال نے حالتِ نماز میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشقِ زار حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے حوالے سے دیدارِ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منظر کی کیا خوبصورت لفظی تصویر کشی کی ہے :

ادائے دید سراپا نیاز تھی تیری

کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری

(علامہ محمد اقبال)

زیارتِ رسولﷺ سے بھوک کا مداوا

(2)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت صحابہ کرام کے لئے اتنی بڑی قوت اور سعادت تھی کہ یہ بھوکوں کی بھوک رفع کرنے کا ذریعہ بھی بنتی تھی۔ چہرۂ اقدس کے دیدار کے بعد قلب ونظر میں اترنے والے کیف کے سامنے بھوک و پیاس کے احساس کی کیا حیثیت تھی؟

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے وقت کا شانۂ نبوت سے باہر تشریف لائے کہ

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

لا يخرج فيها و لا يلقاه فيها أحد.

’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے کبھی اس وقت باہر تشریف نہ لاتے تھے اور نہ ہی کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کرتا۔‘‘

دراصل ہوا یوں تھا کہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی بھوک سے مغلوب باہر تشریف لے آئے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رفیقِ سفر اور یارِ غار سے پوچھا :

ما جاء بک يا أبا بکر؟

’’اے ابوبکر! تم اس وقت کیسے آئے ہو؟‘‘

اس وفا شعار پیکرِ عجزو نیاز نے ازراہِ مروّت عرض کیا :

خرجت ألقي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وأنظر في وجهه و التسليم عليه.

’’یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف آپ کی ملاقات، چہرہ انور کی زیارت اور سلام عرض کرنے کی غرض سے حاضر ہوا ہوں۔‘‘

تھوڑی دیر بعد ہی سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ بھی اسی راستے پر چلتے ہوئے اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوگئے۔ نبیء رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا :

ما جاء بک يا عمر؟

’’اے عمر! تمہیں کون سی ضرورت اس وقت یہاں لائی؟‘‘

شمعِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروانے نے حسبِ معمول لگی لپٹی کے بغیر عرض کی :

الجوع، يا رسول اﷲ.

’’یا رسول اللہ! بھوک کی وجہ سے حاضر ہوا ہوں۔‘‘

حوالاجات

شمائلِ ترمذی کے حاشیہ پر مذکورہ حدیث کے حوالے سے یہ عبارت درج ہے :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

لعل عمر رضي الله عنه جاء ليتسلي بالنظر في وجه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کما کان يصنع أهل مصر في زمن يوسف عليه السلام، و لعل هذا المعني کان مقصود أبي بکر رضي الله عنه و قد أدي بالطف وجه کأنه خرج رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم لما ظهر عليه بنور النبوة أن أبابکر طالب ملاقاته، وخرج أبوبکر لما ظهر عليه بنور الولاية أنه صلي الله عليه وآله وسلم خرج في هذا الوقت لانجاح مطلوبه.

’’حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس لئے تشریف لائے تھے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کی زیارت سے اپنی بھوک مٹانا چاہتے تھے، جس طرح مصر والے حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن سے اپنی بھوک کو مٹا لیا کرتے تھے اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عمل میں بھی یہی راز مضمر تھا۔ مگر مزاج شناس نبوت نے اپنا مدعا نہایت ہی لطیف انداز میں بیان کیا اور یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نورِ نبوت کی وجہ سے ان کا مدعا بھی آشکار ہو چکا تھا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کیوں طالبِ ملاقات ہیں اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر نورِ ولایت کی وجہ سے واضح ہو چکا تھا کہ اس گھڑی آقائے مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار انہیں ضرور نصیب ہو گا۔‘‘

حوالاجات

چنانچہ ایسا ہی ہوا اور حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دونوں جاں نثاروں کی حالت سے باخبر ہونے پر اپنی زیارت کے طفیل ان کی بھوک ختم فرما دی۔ یہ واقعہ باہمی محبت میں اخلاص اور معراج کا منفرد انداز لیے ہوئے ہے۔

ٹکٹکی باندھ کر حضورﷺ کی زیارت

(3)

کائنات کا سارا حسن و جمال نبیء آخر الزماں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور میں سمٹ آیاتھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کی زیارت سے مشرف ہونے والا ہر شخص جمالِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس طرح کھو جاتا کہ کسی کو آنکھ جھپکنے کا یارا بھی نہ ہوتا اور نگاہیں اٹھی کی اٹھی رہ جاتیں۔ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا روایت کرتی ہیں :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

کان رجل عند النبي صلي الله عليه وآله وسلم ينظر إليه لا يطرف.

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کے چہرۂ انور) کو (اِس طرح ٹکٹکی باندھ کر) دیکھتا رہتا کہ وہ اپنی آنکھ تک نہ جھپکتا۔‘‘

حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس جاں نثار صحابی کی یہ حالت دیکھ کر فرمایا :

ما بالک؟

’’اِس ( طرح دیکھنے) کا سبب کیا ہے؟‘‘

اس عاشقِ رسول صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :

بأبي و أمي! أتمتع من النظر إليک.

’’میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کی زیارت سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔‘‘

حوالاجات

اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ جاں نثارانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خودسپردگی کی ایک عجیب کیفیت طاری ہو جاتی اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال میں اس طرح کھو جاتے کہ دنیا کی ہر شے سے بے نیاز ہو جاتے۔

رُخِ مصطفی ہے وہ آئینہ کہ اب ایسا دوسرا کوئی آئینہ

نہ ہماری بزم خیال میں ہے اور نہ دکان آئینہ ساز میں

سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی خواہشِ زیارت

(4)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کس طرح چہرۂ نبوت کے دیدارِ فرحت آثار سے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان کیا کرتے تھے اور ان کے نزدیک پسند و دلبستگی کا کیا معیار تھا؟ اس کا اندازہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یارِ غار سے متعلق درج ذیل روایت سے بخوبی ہو جائے گا :

ایک مرتبہ حضور رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے تمہاری دنیا میں تین چیزیں پسند ہیں : خوشبو، نیک خاتون اور نماز جو میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔

سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے سنتے ہی عرض کیا : یا رسول اللہ! مجھے بھی تین ہی چیزیں پسند ہیں :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

النظر إلي وجه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، وإنفاق مالي علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، وأن يکون ابنتي تحت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.

’’آپ صلی اﷲ علیک وسلم کے چہرۂ اقدس کو تکتے رہنا، اللہ کا عطا کردہ مال آپ صلی اﷲ علیک وسلم کے قدموں پر نچھاور کرنا اور میری بیٹی کا آپ صلی اﷲ علیک وسلم کے عقد میں آنا۔‘‘

حوالاجات

شیخین رضی اﷲ عنھما کا منفرد اعزاز

(5)

صدیقِ باوفا رضی اللہ عنہ کو سفرِ ہجرت میں رفاقتِ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعزاز حاصل ہوا، جبکہ سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ مرادِ رسول ہونے کے شرفِ لازوال سے مشرف ہوئے۔ ان جلیل القدر شخصیات کو صحابہ رضی اللہ عنھم کی عظیم جماعت میں کئی دیگر حوالوں سے بھی خصوصی اہمیت حاصل تھی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کان يخرج علي أصحابه من المهاجرين والأنصار، وهم جلوس وفيهم أبوبکر وعمر، فلا يرفع إليه أحد منهم بصره إلا أبوبکر وعمر، فإنهما کانا ينظران إليه وينظر إليهما ويتبسّمان إليه ويتبسّم إليهما.

’’حضور علیہ الصلوۃ والسلام اپنے مہاجر اور انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے جھرمٹ میں تشریف فرما ہوتے اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اﷲ عنہما بھی ان میں ہوتے تو کوئی صحابی بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہ کرتا، البتہ ابوبکر صدیق اور فاروق اعظم رضی اللّٰہ عنھما حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کو مسلسل دیکھتے رہتے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ان کو دیکھتے، یہ دونوں حضرات رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر مسکراتے اور خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دونوں کو دیکھ کر تبسم فرماتے۔‘‘

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

کان عمر بن الخطاب رضی الله عنه یقول : اللّٰھم ارزقني شهادۃ في سبیلک، واجعل موتي في بلد رسولک ﷺ ۔

’’حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ دعا کیا کرتے تھے : اے میرے اللہ! مجھے اپنی راہ میں شہادت عطا فرما اور اپنے رسول ﷺ کے شہر میں موت عطا فرمائے۔‘‘

حوالاجات

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی کیفیتِ اِضطراب

(6)

یوں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کی آرزو اور تمنا ہر صحابی رسول کے دل میں اس طرح بسی ہوئی تھی کہ اُن کی زندگی کا کوئی لمحہ اس سے خالی نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو سکون کی دولت نصیب ہوتی اور معرفتِ الٰہی کے دریچے ان پر روشن ہو جاتے۔ اُن کے دل کی دھڑکن میں زیارتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش اس درجہ سما گئی تھی کہ اگر کچھ عرصہ کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار میسر نہ آتا تو وہ بے قرار ہو جاتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر جو کیفیت گزرتی تھی اس کے بارے میں وہ خود روایت کرتے ہیں کہ میں نے بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض گزاری :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

إني إذا رأيتک طابت نفسي و قرّت عيني، فأنبئني عن کل شئ، قال : کل خلق اﷲ من الماء.

’’جب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوتا ہوں (تو تمام غم بھول جاتا ہوں اور) دل خوشی سے جھوم اٹھتا ہے اور آنکھیں ٹھنڈی ہو جاتی ہیں، پس مجھے تمام اشیاء (کائنات کی تخلیق) کے بارے میں آگاہ فرمائیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ہر شے کی تخلیق پانی سے کی ہے۔‘‘

حوالاجات

سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ کی  حبِ رسولﷺ

(7)

    یہی عمل ہمیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سیرت سے بھی میسر آتا ہے۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ اس حال میں آرام فرمارہے تھے کہ آپ ﷺ کا سرِ انور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا۔ یہ نمازِ عصر کا وقت تھا، آپ ﷺ نمازِ عصر ادا فرماچکے تھے مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابھی تک نماز عصر ادا نہیں کی تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ کے آرام میں خلل نہ آنے کے پیشِ نظر اسی حالت میں بیٹھے رہے، یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔ بعد ازاں آپ ﷺ کو جب حضرت علیؓ کی نماز عصر کے قضا ہوجانے کا علم ہوا تو آپ ﷺ نے اللہ کی بارگاہ میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھادیئے اور فرمایا:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

اللهم ان عليا كان في طاعتك وطاعة رسولك فاردد عليه الشمس قالت أسماء فرأيتها غربت ورأيتها طلعت بعد ما غربت.

اے اللہ! علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں مصروف تھا پس اس پر سورج کو لوٹادے۔ حضرت اسماء بنت عمیس فرماتی ہیں کہ ہم نے سورج کو غروب ہوتے دیکھا اور پھر غروب کے بعد طلوع ہوتے دیکھا۔

حوالاجات

اندازہ کریں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نمازِ عصر کا قضا ہونا تو قبول کرلیا مگر آپ ﷺ کو بے آرام نہ کیا اور دوسری طرف حضور نبی اکرم ﷺ دعا کررہے ہیں کہ اے اللہ! علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں مصروف تھا۔ گویا صحابہ کرام رضوان  اللہ علیہم اجمعین کا معیار یہ تھا کہ آقا علیہ السلام کی راحتِ جان، آپ کی محبت، متابعت جس میں آپ ﷺ خوش ہوں، وہی دینِ کل ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : اَصَابَ نَبِيَّ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم خَصَاصَةٌ فَبَلَغَ ذَالِکَ عَلِيّا، فَخَرَجَ يَلْتَمِسُ عَمَلًا يُصِيْبُ فِيْهِ شَيْئًا لِيُقِيْتَ بِه رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَاَتٰی بُسْتَانًا لِرَجُلٍ مِنَ الْيَهُوْدِ، فَاسْتَسْقٰی لَه سَبْعَةَ عَشَرَ دَلْوًا کُلُّ دَلْوٍ بِتَمْرَةٍ، فَخَيَرَهُ الْيَهُوْدِيُّ مِنْ تَمْرِه سَبْعَ عَشَرَةَ عَجْوَةً، فَجَائَ بِهَا إِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم.

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه.

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ (ایک مرتبہ) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاقہ سے تھے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ خبر پہنچی تو وہ مزدوری کرنے نکلے تاکہ اُس کے معاوضہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کھانا پیش کر سکیں چنانچہ وہ ایک یہودی کے باغ میں پہنچے تو اس کے لیے ہر ڈول کے عوض ایک کھجور کے معاوضہ پر سترہ ڈول پانی کھینچا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ وہ سترہ عجوہ کھجوریں لے کر بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہو گئے۔‘‘ اسے امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

بلال رضی اللہ عنہ کی  حبِ رسولﷺ

(8)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

قال بلال رضی الله عنه حین حضرته الوفاۃ : غداً نلقی الأحبۃ محمداً وحزبه قال : تقول امرأته : واویلاه! قال : یقول : وافرحاه۔

’’جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے انتقال کا وقت قریب آیا تو انہوں نے (موت کے آثار نظر آنے پر اظہار مسرت کرتے ہوئے) فرمایا : کل ہم اپنے محبوب حضور نبی اکرم ﷺ اور ان کے اصحاب سے ملاقات کریں گے۔ راوی کہتے ہیں کہ ان کی بیوی نے کہا : ہائے افسوس! راوی کہتے کہ انہوں نے بیوی کو اظہار افسوس کی بجائے اظہار فرحت کی تلقین فرمائی۔‘‘

حوالاجات

زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی  حبِ رسولﷺ

(9)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنْ جَبَلَةَ بْنِ حَارِثَةَ، اَخِي زَيْدٍ، قَالَ : قَدِمْتُ عَلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، ابْعَثْ مَعِي اَخِي زَيْدًا، قَالَ : هُوَ ذَا، قَالَ : فَإِنِ انْطَلَقَ مَعَکَ لَمْ اَمْنَعْهُ، قَالَ زَيْدٌ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، وَاﷲِ، لَا اَخْتَارُ عَلَيْکَ اَحَدًا اَبَدًا، قَالَ : فَرَاَيْتُ رَاْيَ اَخِي اَفْضَلَ مِنْ رَاْيِي.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

’’حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے بھائی، حضرت جبلہ بن حارثہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میرے ساتھ میرے بھائی حضرت زید رضی اللہ عنہ کو (گھر) بھیج دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ (تمہارا بھائی) یہ (موجود) ہے۔ اگر تمہارے ساتھ جانا چاہے تو میں اسے روکوں گا نہیں، حضرت زید رضی اللہ عنہ نے (فورًا) عرض کیا : یا رسول اللہ، اللہ کی قسم! میں آپ (کی غلامی) پر کسی (آزادی) کو ترجیح نہیں دوں گا۔ (پھر اسلام میں حضرت زید رضی اللہ عنہ کا مقام دیکھ کر) حضرت جبلہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے اپنی رائے سے زیادہ اپنے بھائی کے اس فیصلہ کو بہتر پایا۔‘‘

حوالاجات

اسے امام ترمذی، ابن ابی عاصم، ابنِ حبان اور بخاری نے التاریخ الکبیر میں روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : اس حدیث کی سند صحیح ہے۔

 ایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ کی  حبِ رسولﷺ

(10)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنْ عَتْمَةَ الْجُهَنِيِّ رضی الله عنه، عَنْ اَبِيْهِ، قَالَ : خَرَجَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم ذَاتَ يَوْمٍ فَلَقِيَه رَجُلٌ مِنَ الْاَنْصَارِ، فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، بِاَبِي وَاُمِّي اَنْتَ، إِنَّه لَيَسُوْؤُنِيَ الَّذِي اَرٰی بِوَجْهِکَ وَعَمَّا هُوَ قَالَ : فَنَظَرَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم إِلٰی وَجْهِ الرَّجُلِ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ : الْجُوْعُ، فَخَرَجَ الرَّجُلُ يَعْدُوْ اَوْ شَبِيْهٌ بِالْعَدْوِ حَتّٰی اَتٰی بَيْتَه، فَالْتَمَسَ فِيْهِ الطَّعَامَ، فَلَمْ يَجِدْ شَيْئًا، فَخَرَجَ إِلٰی بَنِي قُرَيْظَةَ وَفَآجَرَ نَفْسَه بِکُلِّ دَلْوٍ يَنْزَعُهَا تَمْرَةً حَتّٰی جَمَعَ حَضْنَةً اَوْ کَفًّا مِنْ تَمْرٍ ثُمَّ رَجَعَ بِالتَّمْرِ حَتّٰی وَجَدَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي مَجْلِسٍ لَمْ يَرِمْ، فَوَضَعَه بَيْنَ يَدَيْهِ وَقَالَ : کُلْ اَي رَسُوْلَ اﷲِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : مِنْ اَيْنَ لَکَ هٰذَا التَّمْرُ؟ فَاَخْبَرَهُ الْخَبْرَ، فَقَالَ لَه رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنِّي لَاَظُنُّکَ تُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَه قَالَ : اَجَلْ، وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ لَاَنْتَ اَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي وَوَلَدِي وَاَهْلِي وَمَالِي، فَقَالَ : اَمَّا لَا فَاصْطَبِرْ لِلْفَاقَةِ وَاَعِدَّ لِلْبَلَاءِ تِجْفَافًا فَوَالَّذِي بَعَثَنِي بِالْحَقِّ، لَهُمَا إِلٰی مَنْ يُحِبُّنِي اَسْرَعُ مِنْ هُبُوْطِ الْمَاءِ مِنْ رَاْسِ الْجَبَلِ إِلٰی اَسْفَلِه. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

’’حضرت عتمہ جہنی رضی اللہ عنہ نے اپنے والد سے روایت کیا کہ انہوں نے بیان کیا : ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے تو انصار میں سے ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپ کے چہرۂ اقدس کی اس حالت نے مجھے پریشان کردیا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لمحہ اس شخص کی طرف دیکھا پھر فرمایا : فاقہ، تو وہ شخص دوڑتا ہوا یا تیز تیز چلتا ہوا وہاں سے نکلا یہاں تک کہ اپنے گھر میں آیا اور وہاں کھانا تلاش کیا لیکن کوئی چیز نہ پائی، پھر وہ بنی قریظہ (قبیلہ یہود) کی طرف آیا اور فی ڈول پانی نکالنے کے بدلے ایک کھجور پر مزدوری کرلی، یہاں تک کہ گود بھر یا مٹھی بھر کھجوریں جمع کر لیں، پھر کھجوریں لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں لوٹا، تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسی جگہ موجود پایا۔ سو اس نے وہ کھجوریں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے رکھ دیں اور عرض کیا : یا رسول اللہ! تناول فرمائیے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارے پاس یہ کھجوریں کہاں سے آئی ہیں؟ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں سارا واقعہ عرض کیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرا خیال ہے کہ تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ اس نے عرض کیا : جی ہاں (یا رسول اﷲ!) اور قسم ہے اس ذات کی جس نے حق کے ساتھ آپ کو مبعوث فرمایا! بلاشبہ آپ مجھے میری جان، میری اولاد، میرے اہل و عیال اور میرے مال سے بھی بڑھ کر محبوب ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (اگر ایسا ہے) تو فاقہ کشی کا انتظار کر اور مصائب (کا سامنا کرنے) کے لیے کمربستہ ہو جا۔ پس قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا! یہ (فقر و مصائب) دونوں میرے ساتھ محبت کرنے والے (کی آزمائش کے لیے اس) کی طرف پہاڑ کی چوٹی سے پستی کی طرف گرنے والے سیلاب سے بھی زیادہ تیزی سے آتے ہیں۔‘‘ اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی  حبِ رسولﷺ

(11)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنْ يَحْيَ بْنِ سَعِيْدٍ … قَالَ سَعْدُ بْنُ رَبِيْعٍ رضی الله عنه لِاُبَيِّ بِنْ کَعْبٍ رضی الله عنه إِذَا جُرِحَ بِاُحُدٍ : فَاذْهَبْ إِلَيْهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَاَقْرِئْهُ مِنِّيَ السَّلَامَ، وَاَخْبِرْهُ اَنِّي قَدْ طُعِنْتُ اثْنَتَي عَشْرً طَعْنَةً، وَاَنِّي قَدْ أُنْفِذَتْ مُقَاتِلِي، وَاَخْبِرْ قَوْمَکَ اَنَّه لَا عُذْرَ لَهُمْ عِنْدَ اﷲِ إِنْ قُتِلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَوَاحِدٌ مِنْهُمْ حَيٌّ. رَوَاهُ مَالِکٌ وَابْنُ سَعْدٍ.

’’امام یحییٰ بن سعید سے مروی ہے کہ ۔ ۔ ۔ حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ نے حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے اس وقت جب وہ (حضرت سعد بن ربیع) میدانِ اُحد میں زخمی حالت میں تھے کہا کہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں میرا سلام عرض کرنا اور کہنا کہ مجھے نیزے کے بارہ زخم لگے ہیں اور میں نے اپنے مقابل کے جسم سے نیزہ آر پار کر دیا ہے۔ اپنے قبیلہ کے لوگوں سے کہنا کہ اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کچھ ہوا اور تم میں سے ایک فرد بھی زندہ بچا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کا کوئی بھی عذر قابلِ قبول نہ ہو گا۔‘‘ اسے امام مالک اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

ایک صحابی رضی اللہ عنہ کی  حبِ رسولﷺ

(12)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها، قَالَتْ : جَائَ رَجُلٌ إِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّکَ لَأَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي، وَإِنَّکَ لَاَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ اَهْلِي وَاَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ وَلَدِي، وَإِنِّي لَاَکُوْنُ فِي الْبَيْتِ، فَاَذْکُرُکَ، فَمَا اَصْبِرُ حَتّٰی آتِيَکَ، فَانْظُرُ إِلَيْکَ، وَإِذَا ذَکَرْتُ مَوْتِي وَمَوْتَکَ عَرَفْتُ اَنَّکَ إِذَا دَخَلْتَ الْجَنَّةَ رُفِعْتَ مَعَ النَّبِيّيْنَ، وَاَنِّي إِذَا دَخَلْتُ الْجَنَّةَ حَسِبْتُ اَنْ لَا اَرَاکَ، فَلَمْ يَرُدَّ إِلَيْهِ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم شَيْئًا، حَتّٰی نَزَلَ جِبْرِيْلُ بِهٰذِهِ الْآيَةِ : ﴿وَمَنْ يُطِعِ اﷲَ وَالرَّسُوْلَ فَاُوْلٰئِکَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اﷲُ عَلَيْهِمْ . . . ﴾] النساء، 4 : 69، فَدَعَا بِه، فَقَرَاَهَا عَلَيْهِ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَاَبُوْ نُعَيْمٍ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُه رِجَالُ الصَّحِيْحِ؟

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ ایک صحابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر عرض گذار ہوا : یا رسول اللہ! آپ مجھے میری جان، اہل و عیال اور اولاد سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ جب میں اپنے گھر میں ہوتا ہوں تو بھی آپ کو ہی یاد کرتا رہتا ہوں اور اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک حاضر ہو کر آپ کی زیارت نہ کرلوں۔ لیکن جب مجھے اپنی موت اور آپ کے وصال مبارک کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ آپ تو جنت میں انبیاء کرام علیھم السلام کے ساتھ بلند ترین مقام پر جلوہ افروز ہوں گے اور جب میں جنت میں داخل ہوں گا تو اپنے درجے میں ہوں گا لہٰذا مجھے خدشہ ہے کہ کہیں میں آپ کی زیارت سے محروم نہ ہو جاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس صحابی کی اس بات پر سکوت فرمایا، یہاں تک کہ حضرت جبرائیل ں یہ آیت مبارکہ لے کر اُترے:’’اور جو کوئی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روز قیامت) اُن (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کو بلایا اور اسے یہ آیت پڑھ کر سنائی۔‘‘

حوالاجات

اسے امام طبرانی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا : اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔

عبیدہ سلمانی رضی اللہ عنہ کی  حبِ رسولﷺ

(13)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنْ مُحَمَّدٍ يَعْنِي ابْنَ سِيْرِيْنَ عَنْ اَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا حَلَقَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم رَاْسَه بِمِنًی اَخَذَ شِقَّ رَاْسِهِ الْاَيْمَنَ بِيَدِه فَلَمَّا فَرَغَ نَاوَلَنِي فَقَالَ : يَا اَنَسُ، انْطَلِقْ بِهٰذَا إِلٰی اُمِّ سُلَيْمٍ، فَلَمَّا رَاَی النَّاسُ مَا خَصَّهَا بِه مِنْ ذَالِکَ تَنَافَسُوْا فِي الشِّقِّ الْآخَرِ، هٰذَا يَاْخُذُ الشَّيئَ وَهٰذَا يَاْخُذُ الشَّيئَ، قَالَ مُحَمَّدٌ : فَحَدَّثْتُه عُبَيْدَةَ السَّلْمَانِيَّ فَقَالَ : لَاَنْ يَکُوْنَ عِنْدِي مِنْهُ شَعْرَةٌ اَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ کُلِّ صَفْرَائَ وَبَيْضَائَ اَصْبَحَتْ عَلٰی وَجْهِ الْاَرْضِ وَفِي بَطْنِهَا.

رَوَاهُ اَحْمَدُ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ سَعْدٍ.

وَقَالَ الذَّهَبِيُّ فِي السِّيَرِ : قُلْتُ (اَي الذَّهَبِيُّ) : هٰذَا الْقَوْلُ مِنْ عُبَيْدَةَ رضی الله عنه هُوَ مِعْيَارُ کَمَالِ الْحُبِّ وَهُوَ اَنْ يُؤْثَرَ شَعَرَةٌ نَبَوِيَةٌ عَلٰی کُلِّ ذَهَبٍ وَفِضَّةٍ بِاَيْدِي النَّاسِ وَمِثْلُ هٰذَا يَقُوْلُه هٰذَا الإِمَامُ بَعْدَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم بِخَمْسِيْنَ سَنَةً، فَمَا الَّذِي نَقُوْلُه نَحْنُ فِي وَقْتِنَا لَوْ وَجَدْنَا بَعْضَ شَعَرِه بِإِسْنَادٍ ثَابِتٍ اَوْ شَسِعٍ نَعْلٌکَانَ لَه، اَوْ قُلَامَةُ ظُفْرٍ اَوْ شَقَفَةٌ مِنْ إِنَائٍ شَرِبَ فِيْهِ، فَلَوْ بَذَلَ الْغَنِيُّ مُعْظَمَ اَمْوَالِه فِي تَحْصِيْلِ شَيئٍ مِنْ ذَالِکَ عِنْدَه اَکُنْتَ تَعُدُّه مُبَذِّرًا اَوْ سَفِيْها، کَلَّا فَابْذُلْ مَالَکَ فِي زَوْرَةِ مَسْجِدِهِ الَّذِي بَنٰی فِيْهِ بِيَدِه وَالسَّلَامِ عَلَيْهِ عِنْدَ حُجْرَتِه فِي بَلَدِه إِلٰی اُحَدِه وَاَحَبِّه فَقَدَ کَانَ نَبِيُکَ صلی الله عليه وآله وسلم اُحِبُّه وَتَمْلَاُ بِالْحُلُوْلِ فِي رَوْضَتِه وَمَقْعَدِه فَلَنْ تَکُوْنَ مُؤْمِنًا حَتّٰی يَکُوْنَ هٰذَا السَّيّدُ اَحَبَّ إِلَيْکَ مِنْ نَفْسِکَ وَوَلَدِکَ وَاَمْوَالِکَ وَالنَّاسِ کُلِّهِمْ وَقَبِّلْ حَجَرًا مُکَرَّمًا نَزَلَ مِنَ الْجَنَّةِ وَضَعْ فَمَکَ لَاثِمًا مَکَانًا قَبَّلَه سَيّدُ الْبَشَرِ بِيَقِيْنٍ، فَهَنَّاکَ اﷲُ بِمَا اَعْطَاکَ فَمَا فَوْقَ ذَالِکَ مَفْخَرٌ. وَلَوْ ظَفَرْنَا بِالْمِحْجَنِ الَّذِي اَشَارَ بِهِ الرَّسُوْلُ صلی الله عليه وآله وسلم إِلَی الْحَجَرِ، ثُمَّ قَبَّلَ مِحْجَنَه لَحَقٌّ لَنَا اَنْ نَزْدَحِمَ عَلٰی ذًالِکَ الْمِحْجَنِ بِالتَّقْبِيْلِ وَالتَّبْجِيْلِ، وَنَحْنُ نَدْرِي بِالضَّرُوْرَةِ اَنَّ تَقْبِيْلَ الْحَجَرِ اَرْفَعُ وَاَفْضَلُ مِنْ تَقْبِيْلِ مِحْجَنِه وَنَعْلِه، وَقَدْ کَانَ ثَابِتُ الْبُنَانِيُّ إِذَا رَاٰی اَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رضی الله عنه اَخَذَ يَدَه، فَقَبَّلَهَا وَيَقُوْلُ : يَدٌ مَسَّتْ يَدَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَنَقُوْلُ : نَحْنُ إِذْ فَاتَنَا ذَالِکَ حَجَرٌ مُعَظَّمٌ بِمَنْزِلَةِ يَمِيْنِ اﷲِ فِي الْاَرْضِ مَسَّتْهُ شَفَتَا نَبِيّنَا صلی الله عليه وآله وسلم لَاثِمًا لَه، فَإِذَا فَاتَکَ الْحَجُّ وَتًلَقَّيْتَ الْوَفَدَ فَالْتَزِمِ الْحَاجَّ وَقَبِّلَ فَمَه. وَقُلْ : فَمٌ مَسَّ بِالتَّقْبِيْلِ حَجَرًا قَبَّلَه خَلِيْلِي صلی الله عليه وآله وسلم.

’’امام محمد بن سیرین، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے  ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منیٰ میں اپنے سرمبارک کے بال اُتروائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے سر انور کی دائیں جانب (کے موئے مبارک) کو اپنے ہاتھ سے پکڑا پس جب (اُتروا کر) فارغ ہوئے تو مجھے (وہ موئے مبارک) عطا فرمائے اور فرمایا : اے انس! یہ اُمِّ سلیم کے پاس لے جاؤ۔ جب صحابہ کرام نے اس عطیہ کے معاملہ میں اُم سلیم پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصی عنایت دیکھی تو وہ دوسری جانب (کے موئے مبارک کے حصول کے لیے آپس) میں مقابلہ کرنے لگے۔ کچھ موئے مبارک ایک صحابی لے رہا ہے تو کچھ دوسرا۔ امام محمد بن سیرین کہتے ہیں : میں نے یہ بات حضرت عبیدہ سلمانی رضی اللہ عنہ سے بیان کی تو انہوں نے فرمایا : (کاش) میرے پاس ان موئے مبارک میں سے اگر ایک بھی ہوتا تو وہ میرے نزدیک سونے چاندی سے بھی، جو اس زمین کے اوپر موجود ہیں یا اس کے اندر پوشیدہ ہیں، سے زیادہ محبوب ہوتا۔ (یعنی وہ موئے مبارک میرے لیے کائنات کے تمام ظاہر اور پوشیدہ خزانوں سے بڑھ کر ہوتا)۔‘‘

حوالاجات

’’امام ذہبی اپنی کتاب سیر اعلام النبلاء میں فرماتے ہیں : میں کہتا ہوں حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول کمالِ محبت کا انتہائی اعلیٰ معیار ہے اور وہ یہ کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک موئے مبارک کو ساری دنیا کے لوگوں کے پاس موجود سونے چاندی کے خزانوں پر بھی ترجیح دی جائے اور یہ قول اس امام کا ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صرف پچاس سال بعد ہوئے ہیں۔ پھر ہم اپنے اس زمانے میں کیا کہیں گے جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض موئے مبارک کو صحیح سند کے ساتھ پالیں۔ یا کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت والی چیز خواہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک ہوں یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ناخن مبارک کا تراشہ، یا اس برتن کا ٹکڑا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نوش فرمایا ہو۔ پس اگر کوئی امیر آدمی ان چیزوں کے حصول میں اپنا بہت زیادہ مال صرف کر دے تو کیا تم اسے فضول خرچ یا بے وقوف خیال کروگے؟ ہرگز نہیں۔ بس تم بھی اپنا مال (اس مقصد کی خاطر) خرچ کرو (اور اگر اور کچھ نہیں) تو اس مسجد کی زیارت ہی کر لو جسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دستِ اقدس سے تعمیر کیا۔ (اسی طرح تم اپنا مال) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حجرہ مبارک کے قریب، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر میں اور وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب پہاڑ اُحد تک، سلام عرض کرنے کے لیے خرچ کرو۔ پس حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے (اُحد پہاڑ سے) محبت فرماتے تھے، اور (اے زائر!) تو حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ اطہر اور مسند شریف کی جگہ حاضری کی سعادت حاصل کر اور تم ہرگز مومن نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ یہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں تمہاری ذات، تمہاری اولاد اور تمہارے اموال اور تمام لوگوں سے محبوب تر نہ ہوجائیں۔ اور تُو اس بزرگی والے پتھر (یعنی حجر اسود) کو بھی چوم لے جو جنت سے نازل ہوا۔ اور اپنے منہ سے اس جگہ کا بوسہ لینے کی سعادت حاصل کر جس جگہ سے یقینی طور پر سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بوسہ لیا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ تیرے لیے اس امرکو باعث مسرت بنائے رکھے جو اس نے تجھے عطا کیا ہے اور جو اس سے زیادہ ہے وہ قابل فخر ہے۔ اور اگر ہم حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس عصا مبارک کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں جس کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجر اسود کی طرف اشارہ فرمایا اور پھر اسے چوما، تو ہمارے لیے یہ واجب ہے کہ ہم اس عصا مبارک کے گرد (با ادب ہوکر) ہجوم بنا لیں اور اسے چومیں اور اس کی (بے پناہ) تعظیم بجا لائیں، اور ہم بالضرور جانتے ہیں کہ بے شک حجرِ اسود کا چومنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عصا مبارک اور نعل مقدس کے چومنے سے ارفع و افضل ہے۔ اور حضرت ثابت بنانی رضی اللہ عنہ جب حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو دیکھتے تو ان کے ہاتھ چومتے اور فرماتے یہ وہ ہاتھ ہے جس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس) کو مس کیا تھا۔ پس ہم کہتے ہیں جبکہ ہم اُس (دستِ اقدس کے بوسہ کی) نعمت سے محروم ہیں تو ہمارے پاس وہ عظیم الشان حجرِ اسود موجود ہے جو اس زمین میں اﷲتعالیٰ کا دایاں دستِ قدرت ہے اور جسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک لبوں نے چومتے ہوئے چھوا تھا۔ اور (اگر) تمہیں خود حج کی سعادت نصیب نہ ہو سکے اور تو کسی ایسے وفد سے مل لو جو حج (اور روضئہ اقدس کی حاضری) کی سعادت حاصل کرکے لوٹا ہو۔ تو تم (اس وفد میں سے) کسی حاجی کے ہی منہ کو بوسہ دے لو یہ سوچ کر کہ یہ وہ لب ہیں جنہوں نے اس حجرِ اسود کا بوسہ لینے کی سعادت حاصل کی ہے جسے میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک لبوں نے بوسہ دیا تھا۔‘‘

ایک صحابی رضی اللہ عنہ کی  حبِ رسولﷺ

(14)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنِ الْاَدْرَعِ السُّلَمِيِّ رضی الله عنه قَالَ : جِئْتُ لَيْلَةً اَحْرُسُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَإِذَا رَجُلٌ قِرَائَ تُه عَالِيَةٌ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، هٰذَا مُرَائٍ (وفي روارواية قَالَ : فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، أَمُرَائٍ هٰذَا؟ قَالَ : مَعَاذَ اﷲِ، هٰذَا عَبْدُ اﷲِ ذُو الْبِجَادَيْنِ) قَالً : فَمَاتَ بِالْمَدِيْنَةِ، فَفَرَغُوْا مِنْ جِهَازِه، فَحَمَلُوْا نَعْشَه. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : ارْفُقُوْا بِه رَفَقَ اﷲُ بِه، إِنَّه کَانَ يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَه. قَالَ : وَحَفَرَ حُفْرَتَه. فَقَالَ : اَوْسِعُوْا لَه اَوْسَعَ اﷲُ عَلَيْهِ. فَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِه : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، لَقَدْ حَزِنْتَ عَلَيْهِ. فَقَالَ : اَجَلْ إِنَّه کَانَ يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَه.

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ. وَقَالَ الْکِنَانِيُّ : وَلَه شَوَاهِدُ مِنْ حَدِيْثِ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ رضی الله عنه رَوَاهُ أَصْحَابُ السُّنَنِ الْاَرْبَعَةِ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُه رِجَالُ الصَّحِيْحِ.

’’حضرت ادرع سلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات میں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہرہ داری کے فرائض ادا کرنے آیا تو (کہیں سے) ایک شخص کی بلند آواز سے قرات کی آواز آرہی تھی۔ اتنے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لے آئے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! یہ آدمی ریاکار معلوم ہوتا ہے (ایک روایت میں بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یارسول اﷲ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، کیا یہ شخص ریاکار ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : معاذ اﷲ! یہ تو عبد اﷲ ذو البجادین ہے۔) اس کے چند روز بعد اس آدمی کا انتقال ہوگیا۔ جب اس کا جنازہ تیار ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا : اپنے بھائی کے ساتھ نرمی کرنا اللہ تعالیٰ بھی اس کے ساتھ نرمی کرے گاکیوں کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھتا تھا۔ لوگوں نے اس کی قبر کھودی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قبر کشادہ کرو، اللہ ل بھی اس پر کشادگی کرے گا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ کو اس کا بہت غم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں یہ اللہ  اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت (جو) رکھتا تھا۔‘‘

حوالاجات

اسے امام ابن ماجہ، احمد اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔ امام کنانی نے فرمایا : اس حدیث کے دیگر شواہد بھی موجود ہیں جو کہ حضرت ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں جو کہ چاروں اصحابِ سنن (ترمذی، ابو داود، نسائی اور ابن ماجہ) نے روایت کی ہیں۔ امام ہیثمی نے فرمایا : اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔

عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ کی  حبِ رسولﷺ

(15)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنْ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدٍ رضی الله عنه عَنْ اَبِيْهِ قَالَ : مَا سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما يَذْکُرُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَطُّ إِلاَّ بَکٰی. رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ.

’’حضرت عمر بن محمد رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے جب بھی حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے سنا تو اُن کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے۔‘‘ اس حدیث کو امام دارمی نے روایت کیا ہے۔

قاضی عیاض ’’الشفائ‘‘ میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ اپنے اونٹ کو لے کر ایک جگہ گھما رہے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دیکھا تو پوچھا: ’’ابنِ عمر کیا کر رہے ہو؟ اونٹ کو بغیر کسی وجہ کے چکر دیئے جا رہے ہو؟ انہوں نے فرمایا:

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

لَا أَدْرِي إِلاَّ أَنِيّ رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَعَلَهُ فَفَعَلْتُهُ.

’’مجھے اور کچھ پتہ نہیں البتہ ایک روز میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس مقام پر ایسا کرتے دیکھا تھا، پس میں نے بھی ایسے کیا۔‘‘

حوالاجات

انس رضی اللہ عنہ کی  حبِ رسولﷺ

(16)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنِ الْمُثَنَّی بْنِ سَعِيْدٍ الذَّرَاعِ قَالَ : سَمِعْتُ اَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رضی الله عنه يَقُوْلُ : مَا مِنْ لَيْلَةٍ إِلَّا وَاَنَا اَرٰی فِيْهَا حَبِيْبِي صلی الله عليه وآله وسلم، ثُمَّ يَبْکِي. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

’’حضرت مثنی بن سعید ذراع روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد) کوئی ایک رات بھی ایسی نہیں گزری جس میں، میں نے اپنے محبوب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نہ کرتا ہوں یہ کہہ کرحضرت اَنس رضی اللہ عنہ زار و قطار رونے لگے۔‘‘

حوالاجات

اسے امام ابن سعد اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت انس بن مالک  رضی اللہ عنہ کدو سے محبت کرتے تھے کیونکہ حضورﷺ کو کدو کو پیالے کی کناروں سے اٹھا تے دیکھا تھا۔

صحابہ رضی اللہ عنہم کے بعد مومن کی  حبِ رسولﷺ

(17)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مِنْ اَشَدِّ اُمَّتِي لِي حُبًّا نَاسٌ يَکُوْنُوْنَ بَعْدِي، يَوَدُّ اَحَدُهُمْ لَوْ رَآنِي بِاَهْلِه وَمَالِه.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری اُمت میں مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو میرے بعد ہوں گے، ان میں سے ایک شخص کی یہ آرزو ہوگی کہ کاش وہ اپنے تمام اہل و عیال اور مال و دولت کو قربان کر کے میری زیارت کر لے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی  حبِ رسولﷺ

(18)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنْ کَرِيْمَةَ بِنْتِ هَمَّامٍ رضي اﷲ عنها اَنَّ امْرَاَةً اَتَتْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها فَسَاَلَتْهَا عَنْ خِضَابِ الْحِنَّائِ. فَقَالَتْ : لَا بَاْسَ بِه، وَلٰکِنْ اَکْرَهُه، کَانَ حَبِيْبِي رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَکْرَهُ رِيْحَه.

رَوَاهُ اَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَاَحْمَدُ.

’’حضرت کریمہ بنت ہمام رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ ایک عورت نے مہندی کے خضاب کے متعلق حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے دریافت کیا۔ تو انہوں نے فرمایا : اِس میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن میں اسے ناپسند کرتی ہوں کیوں کہ میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی بو کو ناپسند فرمایا کرتے تھے۔‘‘

حوالاجات

اِس حدیث کو امام ابوداود، نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔

عبد الرحمن بن سعد رضی اللہ عنہ کی  حبِ رسولﷺ

(19)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما فَخَدِرَتْ رِجْلُه، فَقُلْتُ : يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، مَا لِرِجْلِکَ؟ قَالَ : اجْتَمَعَ عَصَبُهَا مِنْ هَاهُنَا. فَقُلْتُ : اُدْعُ اَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْکَ. فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ. فَانْبَسَطَتْ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْاَدَبِ وَابْنُ السُّنِّيِّ وَاللَّفْظُ لَه.

’’حضرت عبد الرحمن بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کے ساتھ تھے کہ ان کا پاؤں سن ہوگیا تو میں نے ان سے عرض کیا : اے ابو عبد الرحمن! آپ کے پاؤں کو کیا ہوا ہے؟ توانہوں نے فرمایا : یہاں سے میرے پٹھے کھینچ گئے ہیں تو میں نے عرض کیا : تمام لوگوں میں سے جو ہستی آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہو اسے پکاریں، تو انہوں نے یا محمد (صلی اﷲ علیک وسلم) کا نعرہ بلند کیا (راوی بیان کرتے ہیں کہ) اسی وقت ان کے اعصاب کھل گئے۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام بخاری نے الادب المفرد میں اور ابن السنی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔

ابو محذورہ  رضی اللہ عنہ کی  حبِ رسولﷺ

(20)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنْ صَفِيَةَ بِنْتِ مَجْزَأَةَ رضي اﷲ عنها أَنَّ أَبَا مَحْذُوْرَةَ رضی الله عنه کَانَتْ لَه قُصَّةٌ فِي مُقَدَّمِ رَأْسِه، إِذَا قَعَدَ أَرْسَلَهَا، فَتَبْلُغُ الْاَرْضَ، فَقَالُوْا لَه : أَلَا تَحْلِقُهَا؟ فَقَالَ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مَسَحَ عَلَيْهَا بِيَدِه، فَلَمْ أَکُنِْلاَحْلِقَهَا حَتّٰی أَمُوْتَ. فَلَمْ يَحْلِقْهَا حَتّٰی مَاتَ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ وَالطَّبَرَانِيُّ.

’’حضرت صفیہ بنت مجزاۃ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کے بالوں کے اگلے حصے میں ایک طویل لٹ تھی۔ جب وہ بیٹھتے اور اسے نیچے چھوڑ دیتے تو وہ لٹ زمین تک پہنچ جاتی تھی۔ لوگوں نے ان سے کہا : آپ اسے منڈواتے کیوں نہیں؟ تو انہوں نے فرمایا : ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان بالوں پر اپنا دستِ شفقت پھیرا تھا لہٰذا میں ان بالوں کو اپنے مرتے دم تک نہیں کٹواؤں گا چنانچہ انہوں نے اپنی موت تک ان بالوں کو نہیں کٹوایا۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام حاکم، بخاری نے التاریخ الکبیر میں اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

خالد  بن ولید رضی اللہ عنہ کی  حبِ رسولﷺ

(21)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنْ عَبْدَةَ بِنْتِ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ رضي اﷲ عنهما قَالَتْ : مَا کَانَ خَالِدٌ يَاْوِي إِلٰی فِرَاشٍ إِلَّا وَهُوَ يَذْکُرُ مِنْ شَوْقِه إِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، وَإِلٰی اَصْحَابِه مِنَ الْمُهَاجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ يُسَمِّيْهِمْ، وَيَقُوْلُ : هُمْ اَصْلِي وَفَصْلِي، وَإِلَيْهِمْ يَحِنُّ قَلْبِي، طَالَ شَوْقِي إِلَيْهِمْ، فَعَجِّلْ رَبِّي قَبْضِي إِلَيْکَ، حَتّٰی يَغْلِبَهُ النَّوْمُ. رَوَاهُ اَبُوْ نُعَيْمٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

’’حضرت عبدہ بنت خالد بن معدان رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ جب بھی حضرت خالد رضی اللہ عنہ اپنے بستر پر لیٹتے تو وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مہاجرین و انصار صحابہ کرام ث کا نام لے لے کر ان کے لیے اپنے شوق کا اظہار کرتے اور فرماتے تھے کہ یہ میری اصل اور فصل (یعنی میرا خاندان اور قبیلہ) ہیں اور بس انہی کی طرف میرا دل مشتاق رہتا ہے۔ میرا شوقِ (ملاقات) ان کی طرف طویل ہوگیا ہے۔ سو اے میرے ربّ! مجھے جلد اپنے پاس بلا (تاکہ ملاقاتِ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سامان ہو جائے) یہاں تک کہ (یہ کہتے کہتے) ان پر نیند غالب آجاتی۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام ابونعیم اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کی  حبِ رسولﷺ

(22)

حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ بغیر وضو کے حدیث نبوی  ﷺ  کی نہ قرأت کرتے تھے اور نہ بیان کرتے تھے۔

حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی  حبِ رسولﷺ

(23)

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے ہر کوئی فنا فی الرسول کے مقام پر فائز تھا اُن کا جینا مرنا، عبادت ریاضت، جہاد تبلیغ سب کچھ ذاتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ منسوب تھا۔ اس لئے وہ اپنے آقا و مولا سے ایک لمحہ کی جدائی گوارا نہ کرتے تھے اور ہر لمحہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت میں مست و بے خود رہتے۔

حسان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

ثوَى في قرَيش، بضْعَ عشرَة َ حِجّة ً، …… يُذكِّرُ، لو يَلْقى خليلاً مُؤاتِيا

وَيَعْرِضُ في أهلِ المَواسِمِ نفسَهُ، …… فلمْ يرَ من يؤوي، ولمْ يرَ داعيا

فلمّا أتانا، واطمأنّتْ به النّوى ، ……… فأصبحَ مسروراً، بطيبة َ، راضيا

بذلنا لهُ الأموالَ من جلّ مالنا، …… وأنفُسَنا، عندَ الوَغَى ، والتّآسِيا

نحاربُ من عادى من الناس كلهم، …جميعاً، وإن كان الحبيبَ المصافيا

ونعلمُ أنّ اللهَ لا ربّ غيرهُ، ……… وإنّ رسول اللَّهِ أصْبَحَ هادِيا

“وہ  دس سال کے قریب قریش میں رہے اور وہ نصیحت کرتے تھے

اگر کسی ہمدرد ساتھی کو ملتے ، وہ اہل مواسم کے پاس خود گئے لیکن

وہاں نہ کسی دعوت دینے والے کو دیکھا نہ ٹھکانہ دینے والے کو ،

جب وہ ہمارے پاس آئے تو خوش،  راضی اور مانوس ہو گئے

ہم  نے اپنے حلال مالوں اور جانوں کو ان کے لیے لگا دیا ،جنگ اور

ان کی پریشانی کے وقت ،جواِن کا دشمن بنا ، ہم اس کے دشمن بن گئے

اگرچہ وہ خالص دوست ہی کیوں نہ ہو،  اور ہم نے جان لیا کہ اللہ

 کے سوا کوئی  رب نہیں، اور رسول اللہ ہدایت دینے والے بن کر آئے  “

ایک صحابی رضی اللہ عنہ کی  حبِ رسولﷺ

(24)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنِ الْقَاسِمِ ابْنِ مُحَمَّدٍ أَنَّ رَجُـلًا مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ ﷺ ذَهَبَ بَصَرُهُ، فَعَادُوْهُ۔ فَقَالَ : کُنْتُ أُرِيْدُهُمَا لِأَنْظُرَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ ۔ فَأَمَّا إِذْ قُبِضَ النَّبِيُّ ﷺ ، فَوَاللهِ، مَا یَسُرُّنِي أَنْ مَا بِهِمَا بِظَبْيٍ مِنْ ظِبَاءِ تُبَالَةَ۔

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ وَابْنُ سَعْدٍ۔

’’حضرت قاسم بن محمد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے ایک صحابی کی بینائی جاتی رہی تو لوگ ان کی عیادت کے لئے گئے۔ (جب ان کی بینائی ختم ہونے پر افسوس کا اظہار کیا) تو انہوں نے فرمایا : میں ان آنکھوں کو فقط اس لئے پسند کرتا تھا کہ ان کے ذریعہ مجھے حضور نبی اکرم ﷺ کا دیدار نصیب ہوتا تھا۔ اب چونکہ آپ ﷺ کا (ظاہراً) وصال ہو گیا ہے اس لئے اگر مجھے چشم غزال (ہرن کی آنکھیں) بھی مل جائیں تو کوئی خوشی نہ ہو گی ۔‘‘

حوالاجات

اسے امام بخاری نے ’’الأدب المفرد‘‘ میں اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی  حبِ رسولﷺ

(25)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنْ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدٍ رضی الله عنه عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : مَا سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رضي الله عنهما یَذْکُرُ النَّبِيَّ قَطُّ إِلاَّ بَکَی۔ رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ۔

’’حضرت عمر بن محمد رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے کبھی بھی حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو حضور نبی اکرم ﷺ کو یاد کرتے ہوئے نہیں سنا مگر یہ کہ وہ ہربار (آپ ﷺ کے ذکر پر) آبدیدہ ہو جاتے۔‘‘ اس حدیث کو امام دارمی نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

خالد بن معدان رضی اللہ عنہ کی  حبِ رسولﷺ

(26)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عن عبدۃ بنت خالد بن معدان، قالت : ما کان خالد یأوي إلی فراش إلا وهو یذکر من شوقه إلی رسول الله ﷺ وإلی أصحابه من المهاجرین والأنصار یسمیهم ویقول : هم أصلي وفصلي، وإلیهم یحن قلبي، طال شوقي إلیهم، فعَجِّل رب قبضي إلیک حتی یغلبه النوم۔

’’عبدہ بنت خالد بن معدان رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا : خالد ( یعنی ان کے والد) جب بھی اپنے بستر پر آتے تو وہ حضور نبی اکرم ﷺ سے اپنا شوق اور آپ ﷺ کے صحابہ مہاجرین و انصار سے اپنی محبت کا ذکر نام لے لے کر کیا کرتے اور کہتے کہ یہ لوگ میرا سب کچھ ہیں، ان کی طرف میرا دل میلان کرتا ہے۔ میرا شوق ان کی طرف بہت بڑھ گیا ہے۔ اے میرے رب عزوجل میری روح ان کی طرف جلدی قبض کر (یہی کہتے کہتے) ان پر نیند غالب آ جاتی۔‘‘

حوالاجات

زید بن دثنہ رضی اللہ عنہ کی  حبِ رسولﷺ

(27)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

قال أبو سفیان ابن حرب : أنشدک بالله یا زید، أتحبّ أنّ محمداً الآن عندنا مکانک تضرب عنقه وإنّک في أهلک؟ فقال زید : والله، ما أحبّ أنّ محمداً الآن في مکانه الّذي هو فیه تصیبه شوکۃ وأنّي جالس في أهلي۔ فقال أبو سفیان : ما رأیتُ من النّاس أحداً یحبّ أحداً کحبّ أصحاب محمد محمداً ﷺ ۔

’’ابو سفیان بن حرب نے (صحابیٔ رسول حضرت زید بن دثنہ رضی اللہ عنہ سے) کہا : اے زید! میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تو پسند کرتا ہے کہ اس وقت محمد ﷺ تیری جگہ ہوں اور ان کی (معاذ اللہ) گردن ماری جائے اور تو واپس اپنے اہل و عیال میں چلا جائے؟ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے جواباً کہا : خدا کی قسم! میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ حضور نبی اکرم ﷺ اس وقت جہاں بھی رونق افروز ہیں وہاں آپ ﷺ کے پائے اقدس میں کانٹا بھی چبھے اور میں اپنے اہل و عیال کے پاس ہوں۔ اس وقت ابو سفیان نے کہا کہ میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ وہ کسی کو اس قدر محبوب رکھتا ہو جس قدر کہ محمد ﷺ کے اصحاب رضی اللہ عنہم ان کو محبوب رکھتے ہیں۔‘‘

حوالاجات

صحابیہ رضی اللہ عنہا کی  حبِ رسولﷺ

(28)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا کَانَ يَوْمُ اُحُدٍ حَاصَ اَهْلُ الْمَدِيْنَةِ حَيْصَةً، قَالُوْا : قُتِلَ مُحَمَّدٌ (صلی الله عليه وآله وسلم) حَتّٰی کَثُرَتِ الصَّوَارِخُ فِي نَاحِيَةِ الْمَدِيْنَةِ، فَخَرَجَتِ امْرَاَةٌ مِنَ الْاَنْصَارِ مُتَحَزِّمَةً فَاسْتَقْبَلَتْ بِابْنِهَا وَاَبِيْهَا وَزَوْجِهَا وَاَخِيْهَا لَا اَدْرِي اَيَهُمُ اسْتَقْبَلَتْ بِه اَوَّلًا فَلَمَّا مَرَّتْ عَلٰی آخِرِهِمْ قَالَتْ : مَنْ هٰذَا؟ قَالُوْا : اَبُوْکِ، اَخُوْکِ، زَوْجُکِ، ابْنُکِ، تَقُوْلُ : مَا فَعَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ يَقُوْلُوْنَ : اَمَامَکِ حَتّٰی دُفِعَتْ إِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَاَخَذَتْ بِنَاحِيَةِ ثَوْبِه، ثُمَّ قَالَتْ : بِاَبِي اَنْتَ وَاُمِّي يَا رَسُوْلَ اﷲِ، لَا اُبَالِي إِذْ سَلِمْتَ مِنْ عَطَبٍ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَاَبُوْ نُعَيْمٍ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ عَنْ شَيْخِه مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبٍ وَلَمْ أَعْرِفْهُ وَبَقِيَةُ رِجَالِه ثِقَاتٌ.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب غزوہ اُحد کا دن تھا تو اہل مدینہ سخت تنگی و پریشانی میں مبتلا ہوگئے (کیونکہ)، انہوں نے (غلط فہمی اور منافقین کی افواہیں سن کر) سمجھا کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (العیاذ باﷲ) شہید کر دیا گیا ہے، یہاں تک کہ مدینہ منورہ میں چیخ و پکار کرنے والی عورتوں کی کثیر تعداد (جمع) ہو گئی، یہاں تک کہ انصار کی ایک عورت پیٹی باندھے ہوئے باہر نکلی اور اپنے بیٹے، باپ، خاوند اور بھائی (کی لاشوں کے پاس) سے گذری، (راوی کہتے ہیں:) مجھے یاد نہیں کہ اس نے سب سے پہلے کس کی لاش دیکھی۔ پس جب وہ ان میں سے سب سے آخری لاش کے پاس سے گزری تو پوچھنے لگی : یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا : تمہارا باپ، بھائی، خاوند اور تمہارا بیٹا ہے۔ (جوکہ شہید ہو چکے ہیں) وہ کہنے لگی : (مجھے صرف یہ بتاؤ کہ) رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس حال میں ہیں؟ لوگ کہنے لگے:آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے سامنے موجود ہیں یہاں تک کہ اس عورت کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچا دیا گیا تو اس عورت نے (شدتِ جذبات سے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کرتہ مبارک کا پلو پکڑ لیا اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، جب آپ سلامت ہیں تو مجھے اور کوئی دکھ نہیں (یعنی یا رسول اﷲ! آپ پر میرا باپ،بھائی، خاوند اوربیٹاسب کچھ قربان ہیں)۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام طبرانی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔امام ہیثمی نے فرمایا : اسے امام طبرانی نے اپنے جس شیخ محمد بن شعیب سے روایت کیا ہے انہیں میں نہیں جانتا اور باقی تمام رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما کَانَتِ الْمَرْأَةُ إِذَا أَتَتِ النَّبِيَّ ﷺ حَلَفَهَا بِاللهِ مَا خَرَجْتُ مِنْ بُغْضِ زَوْجٍ وَبِاللهِ مَا خَرَجْتُ رَغْبَةً بِأَرْضٍ عَنْ أَرْضٍ، وَبِاللهِ مَا خَرَجْتُ الْتِمَاسَ الدُّنْیَا وَبِاللهِ مَا خَرَجْتُ إِلَّا حُبًّا ِللهِ وَرَسُوْلِهِ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَالطَّبَرَانِيُّ، وَابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ، وَاللَّفْظُ لَهُ۔

’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ (جب اسلام قبول کرنے کے لیے) کوئی عورت حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آتی تو آپ ﷺ اس سے اللہ عزوجل کی قسم لیتے کہ (کہئے کہ) میں نہ تو خاوند کی دشمنی کی وجہ سے، نہ کسی زمین کی طمع میں اور نہ ہی کسی دنیاوی مقصد کے حصول کے لیے حاضر ہوئی ہوں بلکہ میں صرف اللہ عزوجل اور اس کے رسول ﷺ کی محبت میں (اسلام قبول کرنے کے لیے) آئی ہوں۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام ترمذی، طبرانی اور ابن عبد البر نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ ابن عبد البر کے ہیں۔

بزگانِ دین کی رسول اللہ ﷺ سے محبت

2.6.5

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : مِنْ أَشَدِّ أُمَّتِي لِي حُبًّا نَاسٌ یَکُوْنُوْنَ بَعْدِي یَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ رَآنِي بِأَهْلِهِ وَمَالِهِ۔ رَوَاهُ مُسْلِمُ۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میری اُمت میں مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو میرے بعد ہوں گے، ان میں سے ایک شخص کی یہ آرزو ہو گی کہ کاش وہ اپنے تمام اہل و عیال اور مال و دولت کو قربان کر کے میری زیارت کر لے۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

جب تک آپ ﷺ کے فضل و کمال کا اعتراف و ادراک نہ کیا جائے حضور نبی کریم ﷺ سے والہانہ محبت انسان کے وجود میں جاگزین نہیں ہوسکتی۔

حُضور  ﷺکے ذکر کے وقت اور آپ  ﷺ  کی حدیث و سنت، اسم گرامی اور سیرتِ مبارکہ کے سنتے وقت، آپ  ﷺ   کی محبت کی وجہ سے کس طرح   ہمارے بزرگانِ دین    تعظیم و توقیر اور انتہائی ادب کو ملحوظ رکھتے   ۔ اس کی چند مثالیں پیشِ نظر ہیں۔

امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ  کی  حبِ رسولﷺ

(1)

حضرت امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ  کے سامنے جب نبیِّ اکرم  ﷺ  کا ذکر کیا جاتا تو اُن کے چہرے کا رنگ بدل جاتا اور وہ ذِکْرِ مصطفےٰ  ﷺ  کی تعظیم کے لئے خوب جھک جاتے۔ درسِ حدیث میں تعظیم کا عالَم یہ ہوتا کہ عمدہ لباس زیبِ تن فرما کر مسند پر نہایت عاجزی کے ساتھ تشریف فرما ہوتے اور درس  کے دوران کبھی پہلو نہ بدلتے۔

الشفا ، 2 / 41 ، 42 ، 45

حضرت  سیّدُنا امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ  نے جب احادیثِ مبارَکہ سنانی ہوتیں (تو غُسل کرتے) ، چَوکی(مَسنَد) بچھائی جاتی اور آپ  رحمۃ اللہ علیہ  عمدہ لباس زیبِ تن فرما کر خوشبو لگا کر نہایت عاجزی کے ساتھ اپنے حُجرۂ مبارَکہ سے باہَر تشریف لا کر اس پر با ادب بیٹھتے (درسِ حدیث کے دوران کبھی پہلو نہ بدلتے) اور جب تک اُس مجلس میں حدیثیں پڑھی جاتیں اَنگیٹھی میں عُود و لُوبان سُلگتا رہتا۔

  امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں : میں نے محمد بن منکدر   رحمۃ اللہ علیہ  کو دیکھا وہ قاریوں کے سردار تھے ، جب کبھی ہم ان سے حدیث کے بارے میں سوال کرتے تو وہ اتنا روتے کہ ہمیں ان پر رحم آتا۔

عبدُالرّحمٰن بن مہدی  رحمۃ اللہ علیہ  کی  حبِ رسولﷺ

(2)

حضرت عبدُالرّحمٰن بن مہدی  رحمۃ اللہ علیہ  جب بھی حدیثِ نبوی  ﷺ  پڑھتے تو حاضرین کو خاموش رہنے کا حکم دیتے اور فرماتے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ۔

اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو۔

 الحجرات : 2

مزید فرماتے تھے کہ حدیثِ نبوی  ﷺ  سنتے وقت اسی طرح خاموش رہنا واجب ہے جس طرح خود حضور  ﷺ  کی مبارک زبان سے سنتے وقت خاموش رہنا واجب تھا۔

الشفامترجم ، 2 / 92

ابو ابراہیم تجیبی  رحمۃ اللہ علیہ  کی  حبِ رسولﷺ

(3)

ابو ابراہیم تجیبی  رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں کہ مسلمان پر واجب ہے کہ جب بھی آپ  ﷺکا ذکر کرے یا سنے تو خشوع و خضوع کے ساتھ آپ  ﷺکی تعظیم و توقیر کرے۔ متعدد مؤرخین اور متعدد بزرگوں  نے امام ابو ابراہیم التجیبی رحمۃ اللہ علیہ کے ادبِ رسولﷺ  کے بارے میں کا یہ قول لکھاہے کہ :

’’واجب علی کل مومنٍ متی ذکرہ او ذکر عندہ ان یغضع و یخشع و یتوقر و یسکن من حرکاتہ و یاخذ فی ہیبتہ و اجلالہ بما کان یاخذ بہ نفسہ لو کا ن بین یدیہ و یتأدب بما ادبہ اللّٰہ بہ‘‘

’’ہر مسلمان پر یہ لازم ہے کہ جب بھی مسلمان کے سامنے امام الانبیائ حضرت محمدر سول اللہ ﷺ کا ذکر کیا جائے یا حضور ﷺ کا اسمِ گرامی لیا جائے تو خشوع و خضوع کے ساتھ حضور ﷺ کے نام اور ذکر کاادب و احترام کرے اور اپنی حرکات میں سکون اور قرار اختیار کر لے اور آپ ﷺ کی ہیبت اور تعظیم کاایسے اظہار کرے کہ جس طرح بندہ کے سامنے ﴿اسم یا ذکر نہیں بلکہ خود ﴾ حضور پاک ﷺ موجو د ہیں ‘‘-

 پھر وہ فرماتے ہیں کہ اِس طرح حضور ﷺ کا ادب کرے جس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں حضور ﷺ کا ادب سکھا دیااور فرمایاکہ حضور ﷺ کا یہ ادب ہم نے اپنے اسلاف سے سیکھا ہے :-

’’و ھذہ کانت سیرۃ السلف الصالحین و ائمۃ المھدیین ‘‘

’’اور یہ ہم نے اپنی طرف سے اختراع نہیں کیا بلکہ ہم نے اپنے سلف صالحین سے سینہ بہ سینہ ( حضور ﷺ کا)  یہ ادب سیکھا ہے۔ ‘‘

ان کے فرمان کا مقصد یہ ہے کہ ہم نے حضور ﷺ کے ذکر کے  دوران ادب و احترام کا خاص خیال رکھیں تاکہ  آپ کی محبت ہمارے اندر پیدا ہو۔

قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ  کی  حبِ رسولﷺ

(4)

قاضی عیاض مالکیؒ اندلس کے عظیم المرتبت فقیہ اورمحدث تھے۔ قاضی عیاض اندلسی کی تصنیف ’’الشفاء بتعریف حقوق المصطفےٰ ﷺ‘‘ کے متعلق بہت ہی دلچسپ بات یہ  ہےکہ جیسے ہی آپ نے سیرت النبی ﷺ پہ یہ کتاب لکھی تو اسے بہت شہرت ملی اور لوگوں نے آپ کی اس کتاب کے کئی نسخے فوراً تیار کر دیئے، اس وقت کے بڑے بڑے آئمہ علماء نے اس کو پڑھا ۔ جو آدمی بھی پڑھتا جاتا وہ یہ کہتا کہ یہ کتاب نہیں بلکہ شفاء ہے جو دلوں کے وسوسے، وہم اور غلط فہمیوں کو نکال دیتی ہے اور حضور نبی کریم ﷺ کی محبت دلوں میں جاگزیں کردیتی ہے۔اس لئے اسے محض کتاب نہ کہو اسے ’’شفاء‘‘ کہو۔ آئمہءِ وقت نے اس کا نام ’’الشفاء‘‘ رکھا ہے۔ اس لئے سیرتِ رسول ﷺ میں اگر کوئی محفوظ ترین منہج ہے تو وہ قاضی عیاض مالکیؒ ہیں۔

 اگر کوئی سیرت النبی ﷺ کا مطالعہ کرنا چاہے تو قاضی عیاض مالکیؒ کی ’’الشفاء‘‘، شاہ عبد الحق محدث دہلویؒ کی ’’مدارج النبوۃ‘‘ اور ’’جذب القلوب‘‘، امام جامیؒ  کی ’’شواہد النبوۃ‘‘، امام بیہقیؒ کی ’’دلائل النبوۃ‘‘پڑھے جس سے یہ معلوم ہوگا کہ جس مصطفےٰ کریم ﷺ سے ہم محبت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو کیا کیا عظمتیں و رفعتیں عطا فرمائی ہیں۔

اولیاء و صالحین

رسول اللہﷺ کے چاہنے والوں کی تعداد بے شمار ہے جن کا ذکر بیان کرنے کے لیے بہت سی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں اس لیے یہاں صرف ان میں سے چند کے نام مبارک کا ہی حوالہ دیتے ہیں۔ إن شاء الله اگر زندگی نے موقع دیا تو ان میں سے ہر ایک کے چند واقعات بھی بیان کریں گے۔

  حضرت اویس قرنیؒ   کی  حبِ رسولﷺ1
  امام بخاریؒ   کی  حبِ رسولﷺ2
  امام ابو حنیفہؒ   کی  حبِ رسولﷺ3
  حضرت امام شافعیؒ   کی  حبِ رسولﷺ4
  امام احمد بن حنبلؒ   کی  حبِ رسولﷺ5
  حضرت امام مسلم ؒ   کی  حبِ رسولﷺ6
  امام ابن ماجہؒ   کی  حبِ رسولﷺ7
  امام ترمذیؒ   کی  حبِ رسولﷺ8
  حضرت امام جعفر صادقؒ   کی  حبِ رسولﷺ9
  حضرت عبد اللہ ابن مبارک ؒ   کی  حبِ رسولﷺ10
  حضرت ذوالنون مصری ؒ   کی  حبِ رسولﷺ11
  مالک بن دینارؒ   کی  حبِ رسولﷺ12
  حضرت سفیان ثوریؒ   کی  حبِ رسولﷺ13
  حضرت خواجہ سری سقطیؒ   کی  حبِ رسولﷺ14
حضرت   ابو حازم مکیؒ   کی  حبِ رسولﷺ15
  حضرت داؤد طائی ؒ   کی  حبِ رسولﷺ16
  حضرت حسن بصریؒ   کی  حبِ رسولﷺ17
  حضرت رابعہ بصریؒ  کی  حبِ رسولﷺ18
  فضیل بن عیاضؒ   کی  حبِ رسولﷺ19
  حضرت بشر حافیؒ   کی  حبِ رسولﷺ20
  حضرت جنید بغدادیؒ   کی  حبِ رسولﷺ21
  حضرت امام غزالیؒ   کی  حبِ رسولﷺ22
حضرت  عتبہ بن غلامؒ   کی  حبِ رسولﷺ23
  حضرت سماکؒ   کی  حبِ رسولﷺ24
  حضرت ابو علی شفیق بلخیؒ   کی  حبِ رسولﷺ25
  مولانا جلال الدین رومیؒ   کی  حبِ رسولﷺ26
  شیخ عبد القادر جیلانیؒ   کی  حبِ رسولﷺ27
  حضرت شیخ جلال الدین تبریزیؒ   کی  حبِ رسولﷺ28
  حضرت شیخ احمد شیبانیؒ   کی  حبِ رسولﷺ29
  حضرت شیخ بہاؤ الدینؒ   کی  حبِ رسولﷺ30
  بابا فرید الدین گنج شکرؒ   کی  حبِ رسولﷺ31
  خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ   کی  حبِ رسولﷺ32
  حضرت نظام الدین اولیاءؒ   کی  حبِ رسولﷺ33
  شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ   کی  حبِ رسولﷺ34
  حضرت شاہ نعمت اللہ ولیؒ   کی  حبِ رسولﷺ35
  حضرت صابر کلیریؒ   کی  حبِ رسولﷺ36
  حضرت شیخ سلیم چشتیؒ   کی  حبِ رسولﷺ37
حضرت   احمد رضا خانؒ   کی  حبِ رسولﷺ38

عرشی و فرشی مخلوق کی محبتِ رسولﷺ

2.6.6

حضورنبی اکرم ﷺ کے ساتھ آسمانی مخلوق کی محبت

(1)

فَصْلٌ فِي مَحَبَّةِ الْأَجْرَامِ السَّمَاوِيَّةِ لِلنَّبِيِّ ﷺ

حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ملائکہ کی محبت

1

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

1۔ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضی الله عنه قَالَ : رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَوْمَ أُحُدٍ، وَمَعَهُ رَجُـلَانِ یُقَاتِـلَانِ عَنْهُ، عَلَيْهِمَا ثِیَابٌ بِيْضٌ، کَأَشَدِّ الْقِتَالِ، مَا رَأَيْتُھُمَا قَبْلُ وَلَا بَعْدُ یَعْنِي جِبْرِيْلَ وَمِيْکَائِيْلَ علیھما السلام۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جنگ اُحد کے روز میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس دو ایسے حضرات کو دیکھا جو آپ ﷺ کی جانب سے لڑ رہے تھے۔ انہوں نے سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے اور بڑی بہادری سے برسرپیکار تھے۔ میں نے انہیں اس سے پہلے دیکھا تھا نہ بعد میں، یعنی وہ جبرائیل و میکائیل علیہما السلام تھے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

2۔ عَنْ رِفاَعَةَ بْنِ أَبِي رَافِعٍ رضی الله عنه وَکَانَ مِنْ أَھْلِ بَدْرٍ قَالَ : جَاءَ جِبْرِيْلُ إِلَي النَّبِيِّ ﷺ وَقَالَ : مَا تَعُدُّوْنَ أَھْلَ بَدْرٍ فِيْکُمْ؟ قَالَ : مِنْ أَفْضَلِ الْمُسْلِمِيْنَ۔ أَوْ کَلِمَةً نَحْوَھَا قَالَ : وَکَذَلِکَ مَنْ شَھِدَ بَدْرًا مِنَ الْمَـلَائِکَةِ۔

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ وَهَذَا َلَفْظُھُمَا۔

’’حضرت رفاعہ بن ابی رافع رضی اللہ عنہ جو کہ اہلِ بدر صحابہ میں سے ہیں، فرماتے ہیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر دریافت کیا کہ (یا رسول اللہ!) آپ غزوئہ بدر میں شرکت کرنے والے (صحابہ) کو کیسا سمجھتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میں انہیں مسلمانوں میں سب سے افضل شمار کرتا ہوں یا ایسا ہی کوئی دوسرا کلمہ استعمال فرمایا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا : غزوئہ بدر میں شمولیت کرنے والے فرشتے بھی دوسرے فرشتوں میں اسی طرح ہیں۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام بخاری، ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے اور یہ الفاظ ابن ماجہ کے ہیں۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

3۔ عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ عَنْ جِبْرِيْلَ علیه السلام قَالَ : قَلَّبْتُ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَھَا فَلَمْ أَجِدْ رَجُلًا أَفْضَلَ مِنْ مُحَمَّدٍ ﷺ ، وَلَمْ أَرَ بَيْتًا أَفْضَلَ مِنْ بَيْتِ بَنِي ھَاشِمٍ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَاللاَّلْکَائِيُّ۔

’’اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : حضرت جبرائیل نے کہا : میں نے تمام زمین کے اطراف و اکناف اور گوشہ گوشہ کو چھان مارا، مگر نہ تو میں نے محمد مصطفی ﷺ سے بہتر کسی کو پایا اور نہ ہی میں نے بنو ہاشم کے گھر سے بڑھ کر بہتر کوئی گھر دیکھا۔‘‘ اسے امام طبرانی اور لالکائی نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

4۔ عَنْ رَبِيْعَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : مَا مِنْ مُسْلِمٍ یُصَلِّي عَلَيَّ إِلاَّ صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَـلَائِکَةُ مَا صَلَّی عَلَيَّ فَلْیُقِلَّ الْعَبْدُ مِنْ ذَلِکَ أَوِ لْیُکْثِرْ۔

رَوَاهُ ابنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ۔

’’حضرت ربیعہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : جوبندہ بھی مجھ پر درود بھیجتا ہے تو فرشتے اس پر اسی طرح درود (بصورتِ دعا) بھیجتے ہیں جس طرح اس نے مجھ پر درود بھیجا۔ پس اب بندہ کو اختیار ہے کہ وہ مجھ پراس سے کم درود بھیجے یازیادہ۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

5۔ عَنْ أَبِي طَلْحَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ جَاء ذَاتَ یَوْمٍ وَالْبِشْرُ یُرَی فِي وَجْھِهِ، فَقَالَ : إِنَّهُ جَاءَ نِي جِبْرِيْلُ علیه السلام فَقَالَ : أَمَا یُرْضِيْکَ یَامُحَمَّدُ، أَنْ لاَ یُصَلِّيَ عَلَيْکَ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِکَ إِلاَّ صَلَّيْتُ عَلَيْهِ عَشْراً، وَلاَ یُسَلِّمُ عَلَيْکَ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِکَ إِلاَّ سَلَّمْتُ عَلَيْهِ عَشْرًا؟ رَوَاهُ النَّسَائِيُّ۔

5 : أخرجه النسائی فی السنن الکبری، 1 / 384، الرقم : 1218۔

قَالَ ابنُ المُبَارک في الزُّهد : عَنْ کَعْبٍ قَالَ : مَا مِنْ فَجْرٍ یَطْلُعُ إِلاَّ ھَبَطَ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ یَضْرِبُوْنَ الْقَبْرَ بِأَجْنِحَتِھِمْ وَیَحُفُّوْنَ بِهِ فَیَسْتَغْفِرُوْنَ لَهُ، وَأَحْسِبُهُ قَالَ : وَیُصَلُّوْنَ عَلَيْهِ حَتَّی یُمْسُوْا فَإِذَا أَمْسَوْا عَرَجُوْا وَھَبَطَ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ، یَضْرِبُوْنَ الْقَبْرَ بِأَجْنِحَتِھِمْ وَیَحُفُّوْنَ بِهِ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لَهُ، وَأَحْسِبُهُ قَالَ : وَیُصَلُّوْنَ عَلَيْهِ حَتَّی یُصْبِحُوْا، وَکَذَلِکَ حَتَّی تَکُوْنَ السَّاعَةُ، فَإِذَا کَانَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ خَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ فِيْ سَبْعِيْنَ أَلْفَ مَلَکٍ۔(1)

(1) أخرجه ابن المبارک في الزهد : 558، الرقم : 1600، والسیوطی في الخصائص الکبریٰ، 2 / 217، والصالحي في سبل الهدیٰ و الرشاد، 12 / 452، 453۔

أَخْرَجَهُ القُرْطُبِيُّ فِي التَّذْکِرَةِ عَنْ کَعْبٍ قَالَ : مَا مِنْ فَجْرٍ یَطْلُعُ إِلاَّ نَزَلَ سَبْعُوْنَ أَلْفًا مِنَ الْمَلاَئِکَةِ حَتَّی یَحُفُّوْا بِالْقَبْرِ، یَضْرِبُوْنَ بِأَجْنِحَتِھِمْ وَیُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ حَتَّی إِذَا أَمْسَوْا عَرَجُوْا، وَھَبَطَ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ یَحُفُّوْنَ بِالْقَبْرِ وَیَضْرِبُوْنَ بِأَجْنِحَتِھِمْ وَیُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ سَبْعُوْنَ أَلْفًا بِاللَّيْلِ وَسَبْعُوْنَ أَلْفًا بِالنَّھَارِ۔ وَحَتَّی إِذَا انْشَقَّتْ عَنْهُ الْأَرْضُ خَرَجَ فِيْ سَبْعِيْنَ أَلْفًا مِنَ الْمَلاَئِکَةِ یُوَقِّرُوْنَهُ ﷺ ۔

رَوَاهُ الْقُرْطَبِيُّ وَالدَّارِمِيُّ۔(2)

(2) أخرجه القرطبی في التذکره فی اُمور اَحوال الموتیٰ و اُمور الآخرۃ : 213، 214، والدارمی في السنن مختصرًا، 1 / 57، الرقم : 94۔

قَالَ الإِمَامُ السَّیُّوْطِيُّ فِي الْخَصَائص : إِنَّ مَهْدَهُ کَانَ یَتَحَرَّکُ بِتَحْرِيْکِ الْمَلَائِکَةِ۔(3)

(3) السیوطي في الخصائص الکبری، 1 / 53، وکذا فی المواهب والزرقانی۔

’’حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیںکہ حضور نبی اکرم ﷺ ایک دن تشریف لائے اور آپ ﷺ کے چہرہ انور پر خوشی کے آثار نمایاں تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : میرے پاس جبرائیل آئے اور کہا : اے محمد! کیا آپ اس بات پر خوش نہیں ہوں گے کہ آپ کی امت میں سے جو کوئی بھی آپ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے میں اس پر دس مرتبہ درود (بصورت دعا) بھیجتا ہوں اورجو آپ پر ایک مرتبہ سلام بھیجتا ہے میں اس پر دس مرتبہ سلام بھیجتا ہوں؟‘‘ اس حدیث کو امام نسائی نے روایت کیا ہے۔

’’امام عبد اللہ ابن مبارک ’’کتاب الزہد‘‘ میں حضرت کعب سے روایت کرتے ہیں کہ ہر روز صبح سویرے ستر ہزار ملائکہ (آسمان سے زمین پر) اُترتے ہیں، وہ اپنے پَر (تبرکاً آپ ﷺ کی) قبرِ انور سے مس کرتے اور اُسے ڈھانپ لیتے ہیں، پھر آپ ﷺ (کی اُمت) کے لئے مغفرت طلب کرتے ہیں، اور میرا خیال ہے کہ راوی نے یہ کہا کہ وہ آپ ﷺ پر درود بھیجتے ہیں یہاں تک کہ اُنہیں (اِسی حالت میں) شام ہو جاتی ہے اور جب شام ہوتی ہے تو وہ (آسمان کی طرف) لوٹ جاتے ہیں اور پھر (اُسی طرح دوسرے) ستر ہزار ملائکہ اُتر آتے ہیں، جو اپنے پَر (تبرکاً آپ ﷺ کی) قبرِ انور سے مس کرتے اور اُسے ڈھانپ لیتے ہیں، اور آپ ﷺ کے لئے بلندئ درجات کی دُعا کرتے ہیں، اور میرا خیال ہے کہ راوی نے یہ کہا کہ وہ آپ ﷺ پر درود بھیجتے ہیں، یہاں تک کہ (اِسی حالت میں) صبح کرتے ہیں اور اِسی طرح قیامت تک (ملائکہ کی جماعتوں کا یہ سلسلہ) جاری رہے گا، پھر جب قیامت کا دن آئے گا تو حضور ﷺ ستر ہزار ملائکہ کے جَلو میں (قبرِ انور سے) باہر تشریف لائیں گے۔‘‘

’’امام قرطبی ’’تذکرۃ‘‘ میں حضرت کعب سے روایت کرتے ہیں کہ ہر روز صبح سویرے ستر ہزار فرشتے (آسمان سے زمین پر) اُترتے ہیں، یہاں تک کہ قبرِ انور کو (اپنے پروں سے) ڈھانپ لیتے ہیں، وہ اپنے پَر (تبرکًااُس سے) مَس کرتے اور حضور نبی اکرم ﷺ پردرود بھیجتے ہیں، یہاں تک کہ جب شام ہوتی ہے تو وہ (آسمان کی طرف) لوٹ جاتے ہیں اور پھر (اُسی طرح دوسرے) ستر ہزار فرشتے قبرِ انور کو (اپنے پروں سے) ڈھانپ لیتے ہیں اور اپنے پَر (تبرکًا) اُس سے مس کرتے ہیں، اور ستر ہزار فرشتے رات کو اور ستر ہزار فرشتے دن کو حضور نبی اکرم ﷺ پر درود بھیجتے ہیں، اور یہاں تک کہ جب (روزِ محشر) آپ ﷺ (کی قبرِ انور) کی زمین شق ہو جائے گی تو آپ ﷺ (ایسے) ستر ہزار فرشتوں کے جُھرمٹ میں (وہاں سے) جلوہ افروز ہوں گے جو آپ ﷺ کی (عظمت و) توقیر کے ڈنکے بجا رہے ہوں گے۔‘‘ اس حدیث کو امام قرطبی اور دارمی نے روایت کیا ہے۔

’’امام سیوطی نے ’’الخصائص الکبری‘‘ میں روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا جھولا ملائکہ کے ہلانے سے ہمیشہ ہلتا رہتا تھا۔‘‘

حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ براق کی محبت

2

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

1۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : أُتِيْتُ بِالْبُرَاقِ وَهُوَ دَابَّةٌ أَبْیَضُ طَوِيْلٌ فَوْقَ الْحِمَارِ وَدُوْنَ الْبَغْلِ یَضَعُ حَافِرَهُ عِنْدَ مُنْتَهَی طَرْفِهِ قَالَ : فَرَکِبْتُهُ حَتَّی أَتَيْتُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ قَالَ : فَرَبَطْتُهُ بِالْحَلْقَةِ الَّتِي یَرْبِطُ بِهِ الْأَنْبِیَاء قَالَ : ثُمَّ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَصَلَّيْتُ فِيْهِ رَکْعَتَيْنِ ثُمَّ خَرَجْتُ فَجَائَنِي جِبْرِيْلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ بِإِنَاءٍ مِنْ خَمْرٍ وَإِنَاءٍ مِنْ لَبَنٍ فَاخْتَرْتُ اللَّبَنَ فَقَالَ جِبْرِيْلُ : اخْتَرْتَ الْفِطْرَةَ ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَی السَّمَاءِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيْلُ فَقِيْلَ : مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ : جِبْرِيْلُ۔ قِيْلَ : وَمَنْ مَعَکَ؟ قَالَ : مُحَمَّدٌ۔ قِيْلَ : وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟ قَالَ : قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا… رَوَاهُ مُسْلِمٌ۔

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے پاس براق لایا گیا، وہ ایک لمبے قد اور سفید رنگ کا چوپایہ تھا۔ گدھے سے بڑا اور خچر سے کم تھا۔ اس کا قدم نظر کی انتہاء پر پڑتا تھا۔ میں اس پر سوار ہو کر بیت المقدس تک پہنچا اور جس جگہ انبیاء علیہم السلام اپنی سواریوں کو باندھتے تھے وہاں میں نے اس کو باندھ دیا۔ پھر میں مسجد میں داخل ہوا اور اس میں دو رکعات پڑھ کر باہر آیا۔ جبرئیل میرے پاس ایک برتن میں شراب اور دوسرے میں دودھ لے کر آئے، میں نے دودھ لے لیا، جبرئیل نے کہا کہ آپ نے فطرت کو اختیار کیا، پھر مجھے آسمان پر لے جایا گیا اور جبرائیل نے آسمان کا دروازہ کھٹکھٹایا، پوچھا تم کون ہو؟ کہا جبرئیل، پوچھا تمہارے ساتھ کون ہے؟ کہا محمد ﷺ ۔ پوچھا کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ کہا ہاں انہیں بلایا گیا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : پھر ہمارے لیے آسمان کا دروازہ کھول دیا گیا۔…‘‘ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

2۔ عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أُتِيَ بِالْبُرَاقِ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ مُلْجَمًا مُسْرَجًا، فَاسْتَصْعَبَ عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ جِبْرِيْلُ : أَبِمُحَمَّدٍ تَفْعَلُ ھَذَا؟ قَالَ : فَمَا رَکِبَکَ أَحَدٌ أَکْرَمُ عَلَی اللهِ مِنْهُ۔ قَالَ : فَارْفَضَّ عَرَقًا۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْیَعْلَی وَابْنُ حِبَّانَ وَأَحْمَدُ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : ھَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں شب معراج براق لایا گیا جس پر زین کسی ہوئی تھی اور لگام ڈالی ہوئی تھی۔ (حضور نبی اکرم ﷺ کی سواری بننے کی خوشی میں) اس براق کے رقص کی وجہ سے آپ ﷺ کا اس پر سوار ہونا مشکل ہو گیا تو حضرت جبرئیلں نے اسے کہا : کیا تو حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ اس طرح کر رہا ہے؟ حالانکہ آج تک تجھ پر کوئی ایسا شخص سوار نہیں ہوا جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آپ ﷺ جیسا معزز و محترم ہو۔ یہ سن کر وہ براق شرم سے پسینہ پسینہ ہو گیا۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام ترمذی، ابو یعلی، ابن حبان اور احمد نے روایت کیاہے۔ اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔

حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ چاند کی محبت

3

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

1۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه قَالَ : انْشَقَّ الْقَمَرُ عَلَی عَھْدِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فِلْقَتَيْنِ۔ فَسَتَرَ الْجَبَلُ فِلْقَةً وَکَانَتْ فِلْقَةٌ فَوْقَ الْجَبَلِ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اَللَّھُمَّ اشْھَدْ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ۔

’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا واقعہ حضور نبی اکرم ﷺ کے عہد مبارک میں پیش آیا، ایک ٹکڑا پہاڑ میں چھپ گیا اور ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر تھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے اللہ تعالیٰ توگواہ رہنا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور یہ الفاظ امام مسلم کے ہیں۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

2۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ أَنَّ أَھْلَ مَکَّةَ سَأَلُوْا رَسُوْلَ اللهِ ﷺ أَنْ یُرِیَھُمْ آیَةً، فَأَرَاھُمُ انْشِقَاقَ الْقَمَرِ مَرَّتَيْنِ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ۔

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ اہل مکہ نے حضور نبی اکرم ﷺ سے معجزہ دکھانے کا مطالبہ کیا تو آپ ﷺ نے انہیں دو مرتبہ چاند کے دو ٹکڑے کر کے دکھائے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور یہ الفاظ امام مسلم کے ہیں۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

3۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ قَالَ : انْشَقَّ الْقَمَرُ وَنَحْنُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فَصَارَ فِرْقَتَيْنِ فَقَالَ لَنَا : اشْهَدُوْا اشْهَدُوْا۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

’’حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب (حضور نبی اکرم ﷺ کے حکم پر) چاند شق کیا گیا تو اس وقت ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ تھے پس چاند کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ پھر آپ ﷺ نے ہم سے فرمایا : گواہ رہنا، گواہ رہنا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

4۔ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : انْشَقَّ الْقَمَرُ عَلَی عَهْدِ النَّبِيِّ ﷺ حَتَّی صَارَ فِرْقَتَيْنِ عَلَی هَذَا الْجَبَلِ وَعَلَی هَذَا الْجَبَلِ فَقَالُوْا : سَحَرَنَا مُحَمَّدٌ۔ فَقَالَ بَعْضُهُمْ : لَئِنْ کَانَ سَحَرَنَا فَمَا یَسْتَطِيْعُ أَنْ یَسْحَرَ النَّاسَ کُلَّهُمْ۔

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ۔

’’حضرت جبیر بن معطم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عہد نبوت میں چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہوا ایک ٹکڑا پہاڑ کی اس طرف اور ایک اس جانب ہوگیا کفار نے کہا (حضرت) محمد ( ﷺ ) نے ہم پر جادو کیا ہے۔ بعض کہنے لگے اگر ہم پر جادو کیا تو وہ سب لوگوں پر جادو نہیں کر سکتے۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام بخاری اور ترمذی نے روایت کیا ہے، مذکورہ الفاظ ترمذی کے ہیں۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

5۔ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، دَعَانِي، إِلی الدَّخُوْلِ فِي دِيْنِکَ أَمَارَةٌ لِنُبُوَّتِکَ رَأَيْتُکَ فِي الْمَهْدِ تُنَاغِي الْقَمَرَ وَتُشِيْرُ بِاصْبَعِکَ فَحَيْثُ أَشَرْتَ إلَيْهِ مَالَ قَالَ : إِنِّی کُنْتُ أُحَدِّثُهُ وَیُحَدِّثُنِي وَیُلْهِيْنِي عَنِ الْبُکَاء۔ رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ وَالسَّیُوْطِيُّ۔

5 : أخرجه ابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 4 / 360، والسیوطی في الخصائص الکبری، 1 / 53۔

’’حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ کی نبوت پر دلالت کرنے والی ایک خاص نشانی نے مجھے آپ کے دین میں داخل ہونے کی ترغیب دی۔ میں نے دیکھا کہ آپ ایام طفولیت میں گہوارے کے اندر چاند کے ساتھ کھیلا کرتے تھے اور انگلی مبارک کے ساتھ جس طرف اشارہ فرمایا کرتے تھے چاند اسی طرف جھک جاتا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : میں اس کے ساتھ باتیں کرتا تھا اور وہ میرے ساتھ باتیں کرتا تھا اور مجھے رونے نہیں دیتا تھا۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام ابن عساکر اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔

حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ سورج کی محبت

4

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

1۔ عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ عُمَيْسٍ رضي الله عنها قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یُوْحَی إِلَيْهِ وَرَأْسُهُ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ رضی الله عنه فَلَمْ یُصَلِّ الْعَصْرَ حَتَّی غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اَللَّھُمَّ إِنَّ عَلِیًّا فِي طَاعَتِکَ وَطَاعَةِ رَسُوْلِکَ فَارْدُدْ عَلَيْهِ الشَّمْسَ قَالَتْ أَسْمَائُ رضي الله عنها : فَرَأَيْتُھَا غَرَبَتْ وَرَأَيْتُھَا طَلَعَتْ بَعْدَ مَا غَرَبَتْ۔

رَوَاهُ الطَّحَاوِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ۔

وقال الإمام النووي فی شرحه علی مسلم (12 / 52) : ذکر القاضی رضی الله عنه : أن نبینا ﷺ حبست له الشمس مرّتین … ذکر ذلک الطحاوي وقال : رواته ثقات۔

’’حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ پر وحی نازل ہو رہی تھی اور آپ ﷺ کا سر اقدس حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا۔ وہ عصر کی نماز نہ پڑھ سکے یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے دعا کی : اے اللہ! علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھا اس پر سورج واپس لوٹا دے۔ حضرت اسماء فرماتی ہیں : میں نے اسے غروب ہوتے ہوئے بھی دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ وہ غروب ہونے کے بعد دوبارہ طلوع ہوا۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ بادل اور بارش کی محبت

5

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

1۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : أَصَابَتِ النَّاسَ سَنَةٌ عَلَی عَهْدِ النَّبِيِّ ﷺ فَبَيْنَا النَّبِيُّ ﷺ یَخْطُبُ فِي یَوْمِ جُمُعَةٍ قَامَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، هَلَکَ الْمَالُ وَجَاعَ الْعِیَالُ فَادْعُ اللهَ لَنَا۔ فَرَفَعَ یَدَيْهِ وَمَا نَرَی فِي السَّمَائِ قَزَعَةً فَوَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِهِ، مَا وَضَعَهَا حَتَّی ثَارَ السَّحَابُ أَمْثَالَ الْجِبَالِ ثُمَّ لَمْ یَنْزِلْ عَنْ مِنْبَرِهِ حَتَّی رَأَيْتُ الْمَطَرَ یَتَحَادَرُ عَلَی لِحْیَتِهِ ﷺ فَمُطِرْنَا یَوْمَنَا ذَلِکَ وَمِنْ الْغَدِ وَبَعْدَ الْغَدِ وَالَّذِي یَلِيْهِ حَتَّی الْجُمُعَةِ الْأُخْرَی وَقَامَ ذَلِکَ الْأَعْرَابِيُّ أَوْ قَالَ : غَيْرُهُ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، تَهَدَّمَ الْبِنَائُ وَغَرِقَ الْمَالُ فَادْعُ اللهَ لَنَا فَرَفَعَ یَدَيْهِ فَقَالَ : اَللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا فَمَا یُشِيْرُ بِیَدِهِ إِلَی نَاحِیَةٍ مِنَ السَّحَابِ إِلَّا انْفَرَجَتْ وَصَارَتِ الْمَدِيْنَةُ مِثْلَ الْجَوْبَةِ وَسَالَ الْوَادِي قَنَاةُ شَهْرًا وَلَمْ یَجِيئْ أَحَدٌ مِنْ نَاحِیَةٍ إِلَّا حَدَّثَ بِالْجَوْدِ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے زمانہ میں لوگ قحط سالی میں مبتلا ہو گئے۔ ایک مرتبہ جب حضور نبی اکرم ﷺ جمعہ کے روز خطبہ دے رہے تھے تو ایک اعرابی کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! مال ہلاک ہو گیا اور بچے بھوکے مر گئے، اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے دعا کیجئے۔ آپ ﷺ نے ہاتھ اٹھائے۔ ہم نے اس وقت آسمان میں بادل کا کوئی ٹکڑا تک نہیں دیکھا تھا، پھر قسم اس کی ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! آپ ﷺ نے ہاتھ کیا اٹھائے کہ پہاڑوں جیسے بادل آ گئے۔ آپ ﷺ منبر سے اترے بھی نہیں کہ میں نے بارش کے قطرے آپ ﷺ کی ریش مبارک سے ٹپکتے دیکھے۔ اس روز بارش برسی، اگلے روز بھی، اس سے اگلے روز بھی یہاں تک کہ اگلے جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ پس وہی اعرابی کھڑا ہوا یا کوئی دوسرا شخص اور عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! مکانات گر گئے اور مال ڈوب گیا۔ اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے دعا کیجئے۔ پس آپ ﷺ نے ہاتھ اٹھائے اور کہا : اے اللہ! ہمارے اردگرد برسا، ہم پر نہیں۔ پس جس طرف دست مبارک سے اشارہ کرتے ادھر کے بادل چھٹ جاتے یہاں تک کہ مدینہ منورہ ایک دائرہ سا بن گیا۔ قناہ نامی نالہ مہینہ بھر بہتا رہا اور جو بھی آتا وہ اس بارش کا حال بیان کرتا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

2۔ عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : أَصَابَ أَهْلَ الْمَدِيْنَةِ قَحْطٌ عَلَی عَهْدِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَبَيْنَا هُوَ یَخْطُبُ یَوْمَ جُمُعَةٍ إِذْ قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، هَلَکَتِ الْکُرَاعُ هَلَکَتِ الشَّاءُ فَادْعُ اللهَ یَسْقِيْنَا فَمَدَّ یَدَيْهِ وَدَعَا قَالَ أَنَسٌ : وَإِنَّ السَّمَاءَ لَمِثْلُ الزُّجَاجَةِ فَهَاجَتْ رِیحٌ أَنْشَأَتْ سَحَابًا ثُمَّ اجْتَمَعَ ثُمَّ أَرْسَلَتِ السَّمَائُ عَزَالِیَهَا فَخَرَجْنَا نَخُوْضُ الْمَاءَ حَتَّی أَتَيْنَا مَنَازِلَنَا فَلَمْ نَزَلْ نُمْطَرُ إِلَی الْجُمُعَةِ الْأُخْرَی فَقَامَ إِلَيْهِ ذَلِکَ الرَّجُلُ أَوْ غَيْرُهُ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، تَهَدَّمَتِ الْبُیُوْتُ فَادْعُ اللهَ یَحْبِسْهُ فَتَبَسَّمَ ثُمَّ قَالَ : حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا فَنَظَرْتُ إِلَی السَّحَابِ تَصَدَّعَ حَوْلَ الْمَدِيْنَةِ کَأَنَّهُ إِکْلِيْلٌ۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَمُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ۔

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے زمانۂ مبارک میں ایک دفعہ اہل مدینہ (شدید) قحط سے دوچار ہوگئے۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک شخص نے کھڑے ہوکر عرض کیا : یا رسول اللہ! گھوڑے ہلاک ہوگئے، بکریاں مرگئیں، اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ ہمیں پانی مرحمت فرمائے۔ آپ ﷺ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس وقت آسمان شیشے کی طرح صاف تھا لیکن ہوا چلنے لگی، بادل گھر کر جمع ہوگئے اور آسمان نے ایسا اپنا منہ کھولا کہ ہم برستی ہوئی بارش میں اپنے گھروں کو گئے اور متواتر اگلے جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ پھر (آئندہ جمعہ) وہی شخص یا کوئی دوسرا آدمی کھڑا ہوکر عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! گھر تباہ ہو رہے ہیں، لهٰذا اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ اب اس (بارش) کو روک لے۔ تو آپ ﷺ (اس شخص کی بات سن کر) مسکرا پڑے اور (اپنے سرِ اقدس کے اوپر بارش کی طرف انگلی مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے) فرمایا : ’’ہمیں چھوڑ کر ہمارے گردا گرد برسو۔‘‘ تو ہم نے دیکھا کہ اسی وقت بادل مدینہ منورہ کے اوپر سے ہٹ کر یوں چاروں طرف چھٹ گئے گویا وہ تاج ہیں (یعنی تاج کی طرح دائرہ کی شکل میں پھیل گئے)۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام بخاری، مسلم اور ابو داود نے روایت کیا ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

3۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إِلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، هَلَکَتِ الْمَوَاشِي وَانْقَطَعَتِ السُّبُلُ فَادْعُ اللهَ فَدَعَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَمُطِرُوْا مِنْ جُمُعَةٍ إِلَی جُمُعَةٍ فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، تَهَدَّمَتِ الْبُیُوْتُ وَتَقَطَّعَتِ السُّبُلُ وَهَلَکَتِ الْمَوَاشِي فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اَللَّھُمَّ، عَلَی رُئُوْسِ الْجِبَالِ وَالْآکَامِ وَبُطُوْنِ الْأَوْدِیَةِ وَمَنَابِتِ الشَّجَرِ فَانْجَابَتْ عَنِ الْمَدِيْنَةِ انْجِیَابَ الثَّوْبِ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! (قحط سالی کی وجہ سے) مویشی ہلاک ہو گئے اور راستے بند ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں (اس کی التجاء پر) حضور نبی اکرم ﷺ نے دعا فرمائی تو اس جمعہ سے اگلے جمعہ تک مسلسل بارش ہوتی رہی۔ پھر ایک آدمی آ کر آپ ﷺ کی بارگاہ میں عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! گھر گر گئے، راستے بند ہو گئے اور مویشی ہلاک ہو گئے۔ تو آپ ﷺ نے دعا فرمائی : اے اللہ! پہاڑوں کی چوٹیوں، ٹیلوں، وادیوں کے درمیان اور درختوں کے اگنے کی جگہوں پر (برسا)۔ پس مدینہ منورہ کے اوپر سے بادل کپڑے کی طرح پھٹ گیا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

4۔ عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّ رَجُـلًا جَاءَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ یَوْمَ الْجُمُعَةِ وَھُوَ یَخْطُبُ بِالْمَدِيْنَةِ، فَقَالَ : قَحَطَ الْمَطَرُ، فَاسْتَسْقِ رَبَّکَ۔ فَنَظَرَ إِلَی السَّمَاءِ وَمَا نَرَی مِنْ سَحَابٍ، فَاسْتَسْقَی، فَنَشَأَ السَّحَابُ بَعْضُهُ إِلَی بَعْضٍ، ثُمَّ مُطِرُوْا حَتَّی سَالَتْ مَثَاعِبُ الْمَدِيْنَةِ، فَمَا زَالَتْ إِلَی الْجُمُعَةِ الْمُقْبِلَةِ مَا تُقْلِعُ، ثُمَّ قَامَ ذَلِکَ الرَّجُلُ أَوْ غَيْرُهُ وَالنَّبِيُّ ﷺ یَخْطُبُ، فَقَالَ : غَرِقْنَا، فَادْعُ رَبَّکَ یَحْبِسْھَا عَنَّا، فَضَحِکَ ثُمَّ قَالَ : اَللَّھُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا۔ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَـلَاثًا، فَجَعَلَ السَّحَابُ یَتَصَدَّعُ عَنِ الْمَدِيْنَةِ یَمِيْنًا وَشِمَالًا، یُمْطَرُ مَا حَوَالَيْنَا وَلَا یُمْطَرُ مِنْھَا شَيئٌ، یُرِيْھِمُ اللهُ کَرَامَةَ نَبِيِّهِ ﷺ وَإِجَابَةَ دَعْوَتِهِ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا۔ آپ ﷺ مدینہ منورہ میں خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے اس نے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) بارش نہ ہونے کے باعث قحط پڑ گیا ہے لهٰذا اپنے رب سے بارش مانگئے، تو آپ ﷺ نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور ہمیں کوئی بادل نظر نہیں آ رہا تھا۔ آپ ﷺ نے بارش مانگی تو فوراً بادلوں کے ٹکڑے آ کر آپس میں ملنے لگے پھر بارش ہونے لگی یہاں تک کہ مدینہ منورہ کی گلیاں بہہ نکلیں اور بارش متواتر اگلے جمعہ تک ہوتی رہی پھر وہی یا کوئی دوسرا شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا جبکہ حضور نبی اکرم ﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے : (یا رسول اللہ!) ہم تو غرق ہونے لگے لهٰذا اپنے رب سے دعا کیجئے کہ اس بارش کو ہم سے روک دے۔ آپ ﷺ مسکرا پڑے اور دعا کی : اے اللہ! ہمارے اردگرد برسا اور ہمارے اوپر نہ برسا، ایسا دو یا تین دفعہ فرمایا۔ سو بادل چھٹنے لگے اور مدینہ منورہ کی دائیں بائیں جانب جانے لگے۔ چنانچہ ہمارے اردگرد (کھیتوں اور فصلوں پر) بارش ہونے لگی ہمارے اوپر بند ہو گئی۔ یونہی اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی برکت اور ان کی قبولیتِ دعا دکھاتا ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

حوالاجات

قَالَ الإِمَامُ السَّیُّوْطِيُّ فِي الْخَصَائص عَنِ ابْنِ عَبَاسٍ قَالَ : کَانَتْ حَلِيْمَةُ لَا تَدَعُهُ یَذْهَبُ مَکَانًا بَعِيْدًا فَغَفَلَتْ عَنْهُ فَخَرَجَ مَعَ أُخْتِهِ الشَّيْمَاءِ فِي الظَّهِيْرَةِ إلَی الْبَهْمِ فَخَرَجَتْ حَلِيْمَةُ تَطْلُبُهُ حَتَّی تَجِدَهُ مَعَ أُخْتِهِ فَقَالَتْ : فِي هَذَا الْحَرَّةِ فَقَالَتْ أُخْتُهُ : یَا أُمَّه! مَا وَجَدَ أَخِي حَرًّا رَأَيْتُ غُمَامَةً تُظِلُّ عَلَيْهِ إِذَا وَقَفَ وَقَفَتْ، وَإِذَا سَارَ سَارَتْ، حَتَّی انْتَهَی إِلَی هَذَا الْمَوْضِعِ، قَالَتْ : أَحَقَّا یَا بُنَيَّۃ، قَالَتْ : أَيْ وَاللهِ۔

 أخرجه السیوطي في الخصائص الکبری، 1 : 58۔

’’امام سیوطی نے الخصائص الکبری میں روایت کیا ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : حلیمہ سعدیہ آپ کا بہت خیال رکھتی تھی ایک روز قدرے غافل ہو گئی تو آپ اپنی رضاعی بہن شیماء کے ساتھ دوپہر کے وقت ریوڑ کی طرف نکل گئے حلیمہ بے قرار ہو گئی اور فوراً تلاش میں نکلی۔ جب بہن کے ساتھ دیکھا تو اس کی جان میں جان آئی۔ بیٹی کو ناراض ہوئی کہ اتنی سخت دھوپ میں انہیں لے کر کیوں آئی ہو؟ شیماء نے جواب دیا : امی جان! میرے بھائی کو دھوپ نے کچھ نہیں کہا۔ بادل ان پر مسلسل سایہ فگن رہا، جب یہ ٹھہرتے تو وہ بھی ٹھہر جاتا اور جب یہ چلتے تو وہ بھی چل پڑتا تھا یہاں تک کہ ہم یہاں پہنچ گئے۔ حلیمہ یہ سن کر خوشگوار حیرت کے عالم میں چیخ پڑی۔ میری بیٹی! کیا یہ سچ ہے؟ شیما نے جواب دیا : ہاں، امی جان یہ بالکل سچ ہے۔‘‘

حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نباتات کی محبت

(2)

حضور ﷺ کے ساتھ کھجور کے تنے کی محبت کا بیان

1

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

1۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما أَنَّ امْرَأَةً مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَتْ لِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَ لَا أَجْعَلُ لَکَ شَيْئًا تَقْعُدُ عَلَيْهِ، فَإِنَّ لِي غُـلَامًا نَجَّارًا۔ قَالَ : إِنْ شِئْتِ قَالَ : فَعَمِلَتْ لَهُ الْمِنْبَرَ، فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ الْجُمُعَةِ، قَعَدَ النَّبِيُّ ﷺ عَلَی الْمِنْبَرِ الَّذِي صُنِعَ فَصَاحَتِ النَّخْلَةُ الَّتِي کَانَ یَخْطُبُ عِنْدَھَا، حَتَّی کَادَتْ أَنْ تَنْشَقَّ، فَنَزَلَ النَّبِيُّ ﷺ حَتَّی أَخَذَھَا فَضَمَّھَا إِلَيْهِ، فَجَعَلَتْ تَئِنُّ أَنِيْنَ الصَّبِيِّ الَّذِي یُسَکَّتُ، حَتَّی اسْتَقَرَّتْ۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه۔

’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک انصاری عورت نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا میں آپ کے تشریف فرما ہونے کے لئے کوئی چیز نہ بنوا دوں؟ کیونکہ میرا غلام بڑھئی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تم چاہو (تو بنوا دو)۔ اس عورت نے آپ ﷺ کے لئے ایک منبر بنوا دیا۔ جمعہ کا دن آیا تو حضور نبی اکرم ﷺ اسی منبر پر تشریف فرما ہوئے جو تیار کیا گیا تھا لیکن (حضور نبی اکرم ﷺ کے منبر پر تشریف رکھنے کی وجہ سے) کھجور کا وہ تنا جس سے ٹیک لگا کر آپ ﷺ خطبہ ارشاد فرماتے تھے (ہجر و فراق رسول ﷺ میں) چِلاَّ (کر رو) پڑا یہاں تک کہ پھٹنے کے قریب ہو گیا۔ یہ دیکھ کر حضور نبی اکرم ﷺ منبر سے اُتر آئے اور کھجور کے ستون کو گلے سے لگا لیا۔ ستون اس بچہ کی طرح رونے لگا، جسے تھپکی دے کر چپ کرایا جاتا ہے، یہاں تک کہ اسے سکون آ گیا۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام بخاری، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

2۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما کَانَ النَّبِيُّ ﷺ یَخْطُبُ إِلَی جِذْعٍ۔ فَلَمَّا اتَّخَذَ الْمِنْبَرَ تَحَوَّلَ إِلَيْهِ فَحَنَّ الْجِذْعُ۔ فَأَتَاهُ فَمَسَحَ یَدَهُ عَلَيْهِ۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ۔

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں : حضورنبی اکرم ﷺ ایک درخت کے تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر خطاب فرمایا کرتے تھے۔ جب منبر بنا اور آپ ﷺ اس پر جلوہ افروز ہوئے تو لکڑی کا وہ ستون (آپ ﷺ کے ہجر و فراق میں) گریہ و زاری کرنے لگا۔ آپ ﷺ اس کے پاس تشریف لائے او راس پر اپنا دستِ شفقت پھیرا (تو وہ پرسکون ہو گا)۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

3۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ خَطَبَ إِلَی لِزْقِ جِذْعٍ وَاتَّخَذُوْا لَهُ مِنْبَرًا۔ فَخَطَبَ عَلَيْهِ فَحَنَّ الْجِذْعُ حَنِيْنَ النَّاقَةِ۔ فَنَزَلَ النَّبِيُّ ﷺ فَمَسَّهُ فَسَکَنَ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَقَالَ : ھَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کجھور کے ایک تنے کے ساتھ کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ ﷺ کے لئے منبر بنوا دیا۔ آپ ﷺ جب اس پر تشریف فرما ہو کر خطبہ دینے لگے تو وہ تنا اس طرح رونے لگا جس طرح اُونٹنی اپنے بچے کی خاطر روتی ہے۔ حضورنبی اکرم ﷺ منبر سے نیچے تشریف لائے اور اس پر ہاتھ پھیرا تو وہ خاموش ہوگیا۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

4۔ عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یُصَلِّي إِلَی جِذْعٍ إِذْ کَانَ الْمَسْجِدُ عَرِيْشًا وَکَانَ یَخْطُبُ إِلَی ذَلِکَ الْجِذْعِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ : هَلْ لَکَ أَنْ نَجْعَلَ لَکَ شَيْئًا تَقُوْمُ عَلَيْهِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ حَتَّی یَرَاکَ النَّاسُ وَتُسْمِعَهُمْ خُطْبَتَکَ؟ قَالَ : نَعَمْ فَصَنَعَ لَهُ ثَـلَاثَ دَرَجَاتٍ فَهِيَ الَّتِي أَعْلَی الْمِنْبَرِ فَلَمَّا وُضِعَ الْمِنْبَرُ وَضَعُوْهُ فِي مَوْضِعِهِ الَّذِي هُوَ فِيْهِ فَلَمَّا أَرَادَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَنْ یَقُوْمَ إِلَی الْمِنْبَرِ مَرَّ إِلَی الْجِذْعِ الَّذِي کَانَ یَخْطُبُ إِلَيْهِ فَلَمَّا جَاوَزَ الْجِذْعَ خَارَ حَتَّی تَصَدَّعَ وَانْشَقَّ فَنَزَلَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ لَمَّا سَمِعَ صَوْتَ الْجِذْعِ فَمَسَحَهُ بِیَدِهِ حَتَّی سَکَنَ ثُمَّ رَجَعَ إِلَی الْمِنْبَرِ فَکَانَ إِذَا صَلَّی صَلَّی إِلَيْهِ فَلَمَّا هُدِمَ الْمَسْجِدُ وَغُيِّرَ أَخَذَ ذَلِکَ الْجِذْعَ أُبَيُّ بْنُ کَعْبٍ رضی الله عنه وَکَانَ عِنْدَهُ فِي بَيْتِهِ …الحدیث۔

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالدَّارِمِيُّ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ۔ وَقَالَ الْمَقْدَسِيُّ : رَوَاهُ أَبُوْ عَبْدِ اللهِ ابْنِ مَاجَه عَنْ إِسْمَاعِيْلَ بْنِ عَبْدِ اللهِ لَهُ شَاهِدٌ فِي الصَّحِيْحِ مِنْ حَدِيْثِ ابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ رضی الله عنهم وَلَهُ طُرُقٌ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنَ الصَّحَابَةِ وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ۔ وَقَالَ الْکِنَانِيُّ : هَذَا إِسْنَادٌ حَسَنٌ وَرَوَاهُ أَبُوْ یَعْلَی الْمُوْصِلِيُّ فِي مُسْنَدِهِ۔

’’حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کھجور کے ایک تنے سے ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے اور اس وقت مسجد نبوی چھپر کی تھی۔ ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اللہ! کیوں نہ ہم آپ کے لئے ایسی چیز تیار کر دیں جس پر آپ جمعہ کے دن قیام فرما ہوں تاکہ لوگ آپ ﷺ کی زیارت بھی کر سکیں اور خطبہ بھی سن سکیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ٹھیک ہے۔ منبر تیار کیا گیا جس کی تین سیڑھیاں تھیں۔ صحابہ کرام نے اس منبر کو اس مقام پر رکھ دیا جہاں منبر کی جگہ تھی۔ جب حضور نبی اکرم ﷺ نے منبر پر کھڑے ہونے کا ارادہ فرمایا اور اس ستون کے قریب سے گزرے جس پر ٹیک لگا کر آپ ﷺ خطبہ دیا کرتے تھے تو اس ستون میں سے (ہجر و فراقِ رسول ﷺ میں) رونے کی آواز آئی اور وہ ستون درمیان سے شق ہو گیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس کے رونے کی یہ حالت دیکھی تو آپ ﷺ نے اس پر اپنا دستِ شفقت پھیرا جس سے اس ستون کی حالت گریہ ختم ہو گئی پھر آپ ﷺ منبر پر تشریف لے گئے۔ جب آپ ﷺ نماز پڑھتے تو اس کے پاس نماز پڑھتے جب مسجد منہدم کی گئی تو اس ستون کو حضرت ابی کعب رضی اللہ عنہ نے لے لیا اور انہی کے گھر میں رہا…الحدیث۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام ابن ماجہ، دارمی، شافعی اور احمد نے روایت کیا ہے۔ امام مقدسی نے فرمایا کہ اسے امام ابو عبد اللہ ابن ماجہ نے حضرت اسماعیل بن عبد اللہ سے روایت کیا ہے اور اس کے شواہد حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی احادیث صحیح (بخاری و مسلم) میں بھی ہیں اور اس کے بے شمار صحابہ کرام سے دیگر طرق بھی مروی ہیں اور اس کی اسناد حسن ہیں۔ امام کنانی نے فرمایا کہ یہ اسناد حسن ہے اور اسے امام ابو یعلی الموصلی نے بھی اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

5۔ عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ کَانَ یَخْطُبُ إِلَی جِذْعٍ۔ فَلَمَّا اتَّخَذَ الْمِنْبَرَ ذَھَبَ إِلَی الْمِنْبَرِ۔ فَحَنَّ الْجِذْعُ، فَأَتَاهُ، فَاحْتَضَنَهُ، فَسَکَنَ۔ فَقَالَ : لَوْ لَمْ أَحْتَضِنْهُ لَحَنَّ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ۔ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَأَبُوْ یَعْلَی وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ۔

وفي روایۃ عن جابر رضی الله عنه : حَتَّی سَمِعَهُ أَھْلُ الْمَسْجِدِ حَتَّی أَتَاهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَمَسَحَهُ فَسَکَنَ۔ فَقَالَ بَعْضُھُمْ : لَوْ لَمْ یَأْتِهِ، لَحَنَّ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ۔

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم ﷺ ایک ستون سے ٹیک لگا کر خطبہ دیتے تھے۔ پھر جب آپ ﷺ کے لئے منبر تیار ہوگیا تو آپ ﷺ منبر کی طرف تشریف لے گئے تو وہ ستون رونے لگا۔ آپ ﷺ اس کے پاس تشریف لائے اور اسے سینہ سے لگایا تو وہ پر سکون ہوگیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اگرمیں اسے سینہ سے نہ لگاتا تو یہ قیامت تک روتا رہتا۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام ابن ماجہ، ابو یعلی اور بخاری نے ’’التاریخ الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک اور روایت میں ہے کہ (ستون کے رونے کی) آواز تمام اہلِ مسجد نے سنی۔ (اس کا رونا سن کر) حضورنبی اکرم ﷺ اس کے پاس تشریف لائے اور اس پر اپنا دستِ شفقت پھیرا تو وہ پرسکون ہو گیا۔ بعض صحابہ کہنے لگے : اگر حضورنبی اکرم ﷺ اس کے پاس تشریف نہ لاتے تو یہ قیامت تک روتا رہتا۔‘‘

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

6۔ عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ رضي الله عنهما عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : کَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا خَطَبَ قَامَ فَأَطَالَ الْقِیَامَ فَکَانَ یَشُقُّ عَلَيْهِ قِیَامُهُ فَأُتِيَ بِجِذْعِ نَخْلَةٍ فَحُفِرَ لَهُ وَأُقِيْمَ إِلَی جَنْبِهِ قَائِمًا لِلنَّبِيِّ ﷺ فَکَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا خَطَبَ فَطَالَ الْقِیَامُ عَلَيْهِ وَغَلَبَهُ اسْتَنَدَ إِلَيْهِ فَاتَّکَأَ عَلَيْهِ فَبَصُرَ بِهِ رَجُلٌ کَانَ وَرَدَ الْمَدِيْنَةَ فَرَآهُ قَائِمًا إِلَی جَنْبِ ذَلِکَ الْجِذْعِ فَقَالَ لِمَنْ یَلِيْهِ مِنَ النَّاسِ : لَوْ أَعْلَمُ أَنَّ مُحَمَّدًا یَحْمَدُنِي فِي شَيئٍ یَرْفُقُ بِهِ لَصَنَعْتُ لَهُ مَجْلِسًا یَقُوْمُ عَلَيْهِ فَإِنْ شَاءَ جَلَسَ مَا شَاءَ وَإِنْ شَاءَ قَامَ۔ فَبَلَغَ ذَلِکَ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ : اِئْتُوْنِي بِهِ۔ فَأَتَوْهُ بِهِ فَأُمِرَ أَنْ یَصْنَعَ لَهُ هَذِهِ الْمَرَاقِيَ الثَّلاَثَ أَوِ الْأَرْبَعَ، هِيَ الآنَ فِي مِنْبَرِ الْمَدِيْنَةِ، فَوَجَدَ النَّبِيُّ ﷺ فِي ذَلِکَ رَاحَةً فَلَمَّا فَارَقَ النَّبِيُّ ﷺ الْجِذْعَ وَعَمَدَ إِلَی هَذِهِ الَّتِي صُنِعَتْ لَهُ جَزِعَ الْجِذْعُ فَحَنَّ کَمَا تَحِنُّ النَّاقَةُ حِيْنَ فَارَقَهُ النَّبِيُّ ﷺ فَزَعَمَ ابْنُ بُرَيْدَةَ رضی الله عنه عَنْ أَبِيْهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ حِيْنَ سَمِعَ حَنِيْنَ الْجِذْعِ رَجَعَ إِلَيْهِ فَوَضَعَ یَدَهُ عَلَيْهِ وَقَالَ : اِخْتَرْ أَنْ أَغْرِسَکَ فِي الْمَکَانِ الَّذِي کُنْتَ فِيْهِ فَتَکُوْنَ کَمَا کُنْتَ وَإِنْ شِئْتَ أَنْ أَغْرِسَکَ فِي الْجَنَّةِ فَتَشْرَبَ مِنْ أَنْهَارِهَا وَعُیُوْنِهَا فَیَحْسُنَ نَبْتُکَ وَتُثْمِرَ فَیَأْکُلَ أَوْلِیَاءُ اللهِ مِنْ ثَمَرَتِکَ وَنَخْلِکَ فَعَلْتُ۔ فَزَعَمَ أَنَّهُ سَمِعَ مِنَ النَّبِيِّ ﷺ وَهُوَ یَقُوْلُ لَهُ : نَعَمْ، قَدْ فَعَلْتُ مَرَّتَيْنِ۔ فَسُئِلَ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ : اِخْتَارَ أَنْ أَغْرِسَهُ فِي الْجَنَّةِ۔ رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ۔

وفي روایۃ : عَنْ عَمْرِو بْنِ یَخْلُو السِّرَحِيِّ عَنِ الشَّافِعِيِّ رضی الله عنه قَالَ : مَا أَعْطَی اللهُ نَبِیًّا مَا أَعْطَی مُحَمَّدًا ﷺ ؟ فَقُلْتُ : أَعْطَی عِيْسَی علیه السلام إِحْیَاءَ الْمَوْتَی فَقَالَ : أَعْطَی مُحَمَّدًا ﷺ حَنِيْنَ الْجِذْعِ الَّذِي کَانَ یَخْطُبُ إِلَی جَنْبِهِ ھُيِّیَٔ لَهُ الْمِنْبَرُ حَنَّ الْجِذْعُ حَتَّی سُمِعَ صَوْتُهُ فَهَذَا أَکْبَرُ مِنْ ذَلِکَ۔

رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْبَيْهَقِيُّ۔

’’حضرت ابن بریدہ رضی اللہ عنہما اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب خطاب فرماتے تو کھڑے ہو کر فرماتے اور دوران خطاب کبھی قیام طویل ہو جاتا تو یہ طوالت آپ ﷺ کی طبیعت مقدسہ پر گراں گزرتی، تب ایک کھجور کا خشک تنا ایک گڑھا کھود کر گاڑھ دیا گیا، پس حضور نبی اکرم ﷺ جب خطاب فرماتے اور آپ ﷺ کا قیام طویل اور تھکا دینے والا ہو جاتا تو آپ ﷺ اس کھجور کے خشک تنے کا سہارا لے لیتے اور اس کے ساتھ ٹیک لگا لیتے، پس ایک شخص نے جو کہ یہیں سے مدینہ منورہ آیا ہوا تھا آپ ﷺ کو اس حالت میں دیکھا کہ آپ ﷺ اس کھجور کے تنے کے پہلو میں کھڑے ہیں، تو اس شخص نے اپنے آس پاس بیٹھے ہوئے لوگوں سے کہا : اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ محمد مصطفی ﷺ میری اس چیز کو پسند فرمائیں گے جو ان کے لئے آرام دہ ہوگی تو میں ان کے لئے ایک ایسی مسند تیار کردوں، جس پر آپ ﷺ قیام فرما ہو سکیں اور اگر جتنی دیر چاہیں اس پر تشریف فرما بھی ہو جائیں۔ یہ بات حضور نبی اکرم ﷺ تک پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس شخص کو میرے پاس لے کر آؤ۔ تو صحابہ کرام اس شخص کو حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں لے آئے۔ پس اس شخص کو حکم دے دیا گیا کہ وہ تین یا چار پائیدان والا منبر تیار کر دے، جسے آج ’’منبر المدینہ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس میں راحت محسوس کی۔ پس جب حضور نبی اکرم ﷺ نے اس خشک کھجور کے تنے سے جدائی اختیار کی اور اس منبر پر جلوہ افروز ہوئے جو ان کے لئے بنایا گیا تھا، تو وہ خشک لکڑی کا تنا غمناک ہوگیا، اور ایسے دھاڑیں مارنے لگا جیسے اونٹنی اپنے (گمشدہ) بچے کے لئے دھاڑیں مارتی ہے۔ حضرت ابن بریدہ رضی اللہ عنہما اپنے والد سے یہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ نے اس خشک تنے کی آہ و بکاء سنی تو اس کے پاس تشریف لائے اور اپنا دستِ اقدس اس پر رکھا اور فرمایا : تم چاہے یہ چیز اختیار کر لو کہ میں تمہیں اسی جگہ میں دوبارہ لگا دوں جہاں تم پہلے تھے، اور تم دوبارہ ایسے ہی سرسبز ہو جاؤ جیسا کہ کبھی تھے، اور اگر چاہو تو (اپنی اس خدمت کے صلہ میں جو تم نے میری کچھ عرصہ کی ہے) تمہیں جنت میں لگا دوں، وہاں تم جنت کے نہروں اور چشموں سے سیراب ہوتے رہو، پھر تمہاری پیداوار بہترین ہو جائے اور تم پھل دینے لگو، اور پھر اولیاء اللہ، تیرا پھل کھائیں، اگر تم چاہو تو میں تمہیں ایسا کر دیتا ہوں۔ راوی کا بیان ہے کہ اس نے حضور نبی اکرم ﷺ سے سنا کہ آپ ﷺ نے اسے دو مرتبہ فرمایا : ہاں میں نے ایسا کر دیا۔ پس حضور نبی اکرم ﷺ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس کھجور کے تنے نے یہ اختیار کیا کہ میں اسے جنت میں لگاؤں۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام دارمی نے روایت کیا ہے۔

’’اور ایک روایت میں حضرت عمرو بن ابی یخلو بیان کرتے ہیں : امام شافعی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو جو کچھ عطا فرمایا ہے وہ کسی اور نبی کو عطا نہیں فرمایا۔ میں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مردوں کو زندہ کرنے کا معجزہ عطا کیا۔ انہوں نے فرمایا : حضرت محمد ﷺ کو کھجور کا وہ تنا عطا کیا گیا ہے جس کے ساتھ آپ ﷺ ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے۔یہاں تک کہ آپ ﷺ کے لئے منبر تیار کیا گیا۔ جب آپ ﷺ کے لئے منبر تیار کیا گیا وہ کھجور کا تنا رونے لگا یہاں تک کہ اس کے رونے کی آواز سنی گئی اور یہ اس سے بڑا معجزہ ہے۔‘‘

اسے امام ابو نعیم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

7۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ کَانَ یَقُوْمُ یَوْمَ الْجُمُعَةِ فَیُسْنِدُ ظَهْرَهُ إِلَی جِذْعٍ مَنْصُوْبٍ فِي الْمَسْجِدِ فَیَخْطُبُ النَّاسَ فَجَاءَ هُ رُوْمِيٌّ فَقَالَ : أَلاَ أَصْنَعُ لَکَ شَيْئًا تَقْعُدُ عَلَيْهِ وَکَأَنَّکَ قَائِمٌ فَصَنَعَ لَهُ مِنْبَرًا لَهُ دَرَجَتَانِ وَیَقْعُدُ عَلَی الثَّالِثَةِ فَلَمَّا قَعَدَ نَبِيُّ اللهِ ﷺ عَلَی ذَلِکَ الْمِنْبَرِ خَارَ الْجِذْعُ کَخُوَارِ الثَّوْرِ حَتَّی ارْتَجَّ الْمَسْجِدُ حُزْنًا عَلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَنَزَلَ إِلَيْهِ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ مِنَ الْمِنْبَرِ فَالْتَزَمَهُ وَهُوَ یَخُوْرُ فَلَمَّا الْتَزَمَهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ سَکَتَ ثُمَّ قَالَ : أَمَا وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ، لَوْ لَمْ أَلْتَزِمْهُ لَمَا زَالَ هَکَذَا إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ حُزْنًا عَلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَأَمَرَ بِهِ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَدُفِنَ۔

رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَابْنُ خُزَيْمَةَ وَصَحَّحَهُ وَاللَّالْکَائِيُّ۔ وَقَالَ الْمَقْدَسِيُّ : إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ۔

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم ﷺ کا یہ معمول مبارک تھا کہ آپ ﷺ جمعہ کے دن مسجد میں نصب شدہ ایک کجھور کے تنے سے ٹیک لگا کر کھڑے ہو جاتے اور لوگوں سے خطاب فرماتے۔ ایک رومی صحابی آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : (یارسول اللہ!) کیا میں آپ کے لئے ایسی چیز تیار نہ کر لائوں کہ آپ اس پر بیٹھ جائیں اور یوں محسوس ہو کہ آپ قیام فرما ہیں؟ پس اس نے آپ ﷺ کے لئے منبر تیار کیا۔ اس منبر کے دو درجے تھے۔ اور آپ ﷺ تیسرے درجہ پر جلوہ افروز ہوئے۔ جب حضورنبی اکرم ﷺ (پہلی مرتبہ) اس منبر پر جلوہ افروز ہوئے تو وہ کجھور کا تنا حضور نبی اکرم ﷺ کی جدائی کی وجہ سے بیل جیسی آواز نکالنے لگا یہاں تک کہ پوری مسجد اس کی آواز سے غمگین ہوگئی۔ حضورنبی اکرم ﷺ اس کی خاطر منبر سے نیچے تشریف لائے۔ اس کے پاس گئے اور اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا جبکہ وہ بلبلا رہا تھا۔ جب حضورنبی اکرم ﷺ نے اسے اپنے ساتھ لگایا تو وہ پر سکون ہو گیا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں محمد( ﷺ ) کی جان ہے اگر میں اسے اپنے ساتھ نہ ملاتا تو یہ اللہ کے رسول کے غم کی وجہ سے قیامت تک اسی طرح روتا رہتا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اس کے بارے میں حکم فرمایا تو اسے دفن کردیاگیا۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام دارمی نے روایت کیا ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

8۔ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضی الله عنه قَالَ : حَنَّتِ الْخَشَبَةُ الَّتِي کَانَ یَقُوْمُ عِنْدَهَا، فَقَامَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِلَيْهَا : فَوَضَعَ یَدَهُ عَلَيْهَا فَسَکَنَتْ۔

رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُوْ یَعْلَی وَابْنُ خُزَيْمَةَ وَابْنُ حِبَّانَ۔ وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رَوَاهُ أَبُوْ یَعْلَی عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه وَرِجَالُهُ مُوَثَّقُوْنَ۔

’’حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ (کھجور کے تنے کی خشک) لکڑی جس کے پاس کھڑے ہو کر حضور نبی اکرم ﷺ خطاب فرمایا کرتے تھے، آپ ﷺ کی محبت میں چیخ چیخ کر رونے لگی تو حضور نبی اکرم ﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے اور اپنا دستِ اقدس اس پر رکھا تو وہ خاموش ہو گئی۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام دارمی، ابن ابی شیبہ، ابو یعلی، ابن خزیمہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے اور امام ہیثمی نے فرمایا کہ اسے امام ابو یعلی نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

9۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ : حَنَّتِ الْخَشَبَةُ حَنِيْنَ النَّاقَةِ الْخَلُوْجِ۔ رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَأَبُوْ یَعْلَی وَالْأَصْبَهَانِيُّ۔

’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ کھجور کا خشک تنا حضور نبی اکرم ﷺ کے فراق میں اس طرح تڑپا جس طرح وہ اونٹنی تڑپتی اور بے چین ہوتی ہے جس کا (چھوٹا سا) بچہ اس سے جدا کر دیا جائے۔‘‘ اس حدیث کو امام دارمی، ابو یعلی اور اصبہانی نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

10۔ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَخْطُبُ إِلَی لِزْقِ جِذْعٍ فَأَتَاهُ رَجُلٌ رُوْمِيٌّ فَقَالَ : أَصْنَعُ لَکَ مِنْبَرًا تَخْطُبُ عَلَيْهِ، فَصَنَعَ لَهُ مِنْبَرًا هَذَا الَّذِي تَرَوْنَ۔ قَالَ : فَلَمَّا قَامَ النَّبِيُّ ﷺ یَخْطُبُ حَنَّ الْجِذْعُ حَنِيْنَ النَّاقَةِ إِلَی وَلَدِهَا فَنَزَلَ إِلَيْهِ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَضَمَّهُ إِلَيْهِ فَسَکَنَ فَأُمِرَ بِهِ أَنْ یُحْفَرَ لَهُ وَیُدْفَنَ۔

رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ۔

’’حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کھجور کے ایک خشک تنے کے پاس قیام فرما ہو کر خطاب فرمایا کرتے تھے، تو ایک رومی شخص آیا اور عرض کیا : (یا رسول اللہ!) میں آپ کے لئے منبر تیار کر دیتا ہوں جس پر تشریف فرما ہو کر آپ خطاب کرسکیں گے۔ پھر (اجازت ملنے پر) اس نے یہ منبر تیار کر دیا جسے تم دیکھ رہے ہو۔ راوی بیان کرتے ہیں : جب حضور نبی اکرم ﷺ اس منبر پر خطاب فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے تو کھجور کا وہ خشک تنا یوں تڑپنے لگا جیسے اونٹنی اپنے (گمشدہ) بچے کے لئے تڑپتی ہے۔ تو حضور نبی اکرم ﷺ اس منبر سے اتر کر اس کھجور کے خشک تنے کی طرف تشریف لائے، اور اسے اپنے سینے سے لگایا تو وہ پر سکون ہوگیا، پھر آپ ﷺ نے اس کے بارے میں حکم دیا کہ (اسی منبر کے نیچے) گڑھا کھود کر اسے اس میں دفن کر دیا جائے۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام دارمی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

11۔ عَنِ الصَّعْقِ قَالَ : سَمِعْتُ الْحَسَنَ رضی الله عنه یَقُوْلُ : لَمَّا أَنْ قَدِمَ النَّبِيُّ ﷺ الْمَدِيْنَةَ جَعَلَ یُسْنِدُ ظَهْرَهُ إِلَی خَشَبَةٍ وَیُحَدِّثُ النَّاسَ فَکَثُرُوْا حَوْلَهُ فَأَرَادَ النَّبِيُّ ﷺ أَنْ یُسْمِعَهُمْ فَقَالَ : ابْنُوْا لِي شَيْئًا أَرْتَفِعْ عَلَيْهِ۔ قَالُوْا : کَيْفَ یَا نَبِيَّ اللهِ؟ قَالَ : عَرِيْشٌ کَعَرِيْشِ مُوْسَی علیه السلام۔ فَلَمَّا أَنْ بَنَوْا لَهُ۔ قَالَ الْحَسَنُ : حَنَّتْ، وَاللهِ، الْخَشَبَةُ۔ قَالَ الْحَسَنُ : سُبْحَانَ اللهِ هَلْ تَشْقَی قُلُوْبُ قَوْمٍ سَمِعُوْا قَالَ أَبُوْ مُحَمَّدٍ : یَعْنِي هَذَا۔ رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ۔

’’حضرت صعق بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو دورانِ خطاب اپنی پشت مبارک کھجور کے خشک تنے سے لگا لیا کرتے تھے۔ پھر آپ ﷺ کے سامعین زیادہ ہوگئے، تو آپ ﷺ نے ان سب کو اپنی آواز سنانے کا ارادہ فرمایا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : میرے لئے کوئی ایسی چیز بناؤ جس پر بیٹھ کر میں لوگوں سے خطاب کر سکوں۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! وہ کیا ہو؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ایسا چبوترہ (نما تختہ) جیسا کہ حضرت موسی علیہ السلام کا تھا۔ پس جب انہوں نے وہ منبر بنایا تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی قسم! وہ خشک لکڑی (فراقِ رسول ﷺ میں) زار و قطار رو پڑی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سبحان اللہ! کیا ان لوگوں کے دل بدبخت ہو سکتے ہیں جنہوں نے یہ ایمان افروز واقعہ (خود دیکھا ہو اور اس خشک لکڑی کا رونا اپنے کانوں سے) سن رکھا ہو۔‘‘ اس حدیث کو امام دارمی نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

12۔ عَنْ مُبَارَکِ بْنِ فُضَالَةَ قَالَ : حَدَّثَنَا الْحَسَنُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَخْطُبُ یَوْمَ الْجُمُعَةِ إِلَی جَنْبِ خَشَبَةٍ یُسْنِدُ ظَھْرَهُ إِلَيْھَا۔ فَلَمَّا کَثُرَ النَّاسُ قَالَ : ابْنُوْا لِي مِنْبَرًا۔ فَبَنَوْا لَهُ مِنْبَرًا لَهُ عَتَبَتَانِ۔ فَلَمَّا قَامَ عَلَی الْمِنْبَرِ لِیَخْطُبَ، حَنَّتِ الْخَشَبَةُ إِلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ۔ فَقَالَ أَنَسٌ : وَأَنَا فِي الْمَسْجِدِ فَسَمِعْتُ الْخَشَبَةَ حَنَّتْ حَنِيْنَ الْوَلَدِ۔ فَمَا زَالَتْ تَحِنُّ حَتَّی نَزَلَ إِلَيْهَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَاحْتَضَنَهَا فَسَکَنَتْ۔

قَالَ : وَکَانَ الْحَسَنُ إِذَا حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيْثِ بَکَی ثُمَّ قَالَ : یَا عِبَادَ اللهِ، اَلْخَشَبَةُ تَحِنُّ إِلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ شَوْقًا إِلَيْهِ لِمَکَانِهِ مِنَ اللهِ۔ فَأَنْتُمْ أَحَقُّ أَنْ تَشْتَاقُوْا إِلَی لِقَائِهِ۔ رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ یَعْلَی۔

’’حضرت مبارک بن فضالہ کا بیان ہے : ہم سے حضرت حسن بصری رَحِمَهُ اللہ نے بیان کیا کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : حضور نبی اکرم ﷺ جمعہ کے دن ایک لکڑی کے ساتھ اپنی کمر کی ٹیک لگا کر خطاب فرمایا کرتے تھے۔ پھر جب لوگ کثرت سے آنے لگے تو آپ ﷺ نے فرمایا : میرے لئے منبر تیار کرو۔ پس لوگوں نے آپ ﷺ کے لئے منبر تیار کیا جس کے دو درجے تھے۔ جب آپ ﷺ خطاب فرمانے کے لیے منبر پر تشریف فرما ہوئے تو وہ لکڑی حضور نبی اکرم ﷺ کے فراق میں رونے لگی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں اس وقت مسجد میں موجود تھا۔ میں نے اس لکڑی کو بچے کی طرح روتے ہوئے سنا۔ وہ لکڑی مسلسل روتی رہی یہاں تک کہ حضور نبی اکرم ﷺ اس کے لیے منبر سے نیچے تشریف لائے اور اسے سینے سے لگایا تو وہ پرسکون ہوگئی۔

حوالاجات

’’راوی بیان کرتے ہیں : حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ جب یہ حدیث بیان کرتے تو رو پڑتے اور فرماتے : اے اللہ کے بندو! لکڑی حضور نبی اکرم ﷺ سے ملنے کے شوق میں اور اللہ کے حضور آپ ﷺ کے مقام و مرتبہ کی وجہ سے روتی ہے۔ پس تم اس بات کے زیادہ حقدار ہو کہ تم ان سے ملاقات کا اشتیاق رکھو۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن حبان، طبرانی اور ابویعلی نے روایت کیا ہے۔

حضور ﷺ کے ساتھ درختوں کی محبت کا بیان

2

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

1۔ عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه في روایۃ طویلۃ قَالَ : سِرْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ حَتَّی نَزَلَ وَادِیًا أَفْیَحَ۔ فَذَھَبَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَقْضِي حَاجَتَهُ۔ فَاتَّبَعْتُهُ بِإِدَاوَةٍ مِنْ مَاءٍ۔ فَنَظَرَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَلَمْ یَرَ شَيْئًا یَسْتَتِرُ بِهِ فَإِذَا شَجَرَتَانِ بِشَاطِیئِ الْوَادِي۔ فَانْطَلَقَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِلَی إِحْدَاھُمَا فَأَخَذَ بِغُصْنٍ مِنْ أَغْصَانِھَا۔ فَقَالَ : انْقَادِي عَلَيَّ بِإِذْنِ اللهِ۔ فَانْقَادَتْ مَعَهُ کَالْبَعِيْرِ الْمَخْشُوْشِ، الَّذِي یُصَانِعُ قَائِدَهُ۔ حَتَّی أَتَی الشَّجَرَةَ الْأُخْرَی۔ فَأَخَذَ بِغُصْنٍ مِنْ أَغْصَانِھَا۔ فَقَالَ : انْقَادِي عَلَيَّ بِإِذْنِ اللهِ فَانْقَادَتْ مَعَهُ کَذَلِکَ، حَتَّی إِذَا کَانَ بِالْمُنْصَفِ مِمَّا بَيْنَھُمَا، قَالَ : الْتَئِمَا عَلَيَّ بِإِذْنِ اللهِ فَالْتَأَمَتَا۔ فَجَلَسْتُ أُحَدِّثُ نَفْسِي۔ فَحَانَتْ مِنِّي لَفْتَهٌ، فَإِذَا أَنَا بِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ مُقْبِـلًا۔ وَإِذَا الشَّجَرَتَانِ قَدِ افْتَرَقَتَا۔ فَقَامَتْ کُلُّ وَاحِدَةٍ مِنْھُمَا عَلَی سَاقٍ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : یَا جَابِرُ، ھَلْ رَأَيْتَ مَقَامِي؟ قُلْتُ : نَعَمْ، یَا رَسُوْلَ اللهِ، قَالَ : فَانْطَلِقْ إِلَی الشَّجَرَتَيْنِ فَاقْطَعْ مِنْ کُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْھُمَا غُصْنًا۔ فَأَقْبِلْ بِھِمَا۔ حَتَّی إِذَا قُمْتَ مَقَامِي فَأَرْسِلْ غُصْنًا عَنْ یَمِيْنِکَ وَعَنْ یَسَارِک۔ قَالَ جَابِرٌ : فَقُمْتُ فَأَخَذْتُ حَجَرًا فَکَسَرْتُهُ وَحَسَرْتُهُ۔ فَانْذَلَقَ لِي۔ فَأَتَيْتُ الشَّجَرَتَيْنِ فَقَطَعْتُ مِنْ کُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْھُمَا غُصْنًا۔ ثُمَّ أَقْبَلْتُ أَجُرُّھُمَا حَتَّی قُمْتُ مَقَامَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ، أَرْسَلْتُ غُصْنًا عَنْ یَمِيْنِي وَغُصْنًا عَنْ یَسَارِي، ثُمَّ لَحِقْتُهُ فَقُلْتُ : قَدْ فَعَلْتُ یَا رَسُوْلَ اللهِ، فَعَمَّ ذَاکَ؟ قَالَ : إِنِّي مَرَرْتُ بِقَبْرَيْنِ یُعَذَّبَانِ۔ فَأَحْبَبْتُ : بِشَفَاعَتِي، أَنْ یُرَفَّهَ عَنْھُمَا مَا دَامَ الغُصْنَانِ رَطْبَيْنِ … الحدیث۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ حِبَّانَ۔

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ (ایک غزوہ) کے سفر پر روانہ ہوئے یہاں تک کہ ہم ایک کشادہ وادی میں پہنچے۔ حضور نبی اکرم ﷺ رفع حاجت کے لئے تشریف لے گئے۔ میں پانی وغیرہ لے کر آپ ﷺ کے پیچھے گیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے (اردگرد) دیکھا لیکن آپ ﷺ کو پردہ کے لئے کوئی چیز نظر نہ آئی، وادی کے کنارے دو درخت تھے، حضور نبی اکرم ﷺ ان میں سے ایک درخت کے پاس گئے۔ آپ ﷺ نے اس کی شاخوںمیں سے ایک شاخ پکڑی اور فرمایا : اللہ تعالیٰ کے حکم سے میری اطاعت کر۔ وہ درخت اس اونٹ کی طرح آپ ﷺ کا فرمانبردار ہوگیا جس کی ناک میں نکیل ہو اور وہ اپنے ہانکنے والے کے تابع ہوتا ہے پھر آپ ﷺ دوسرے درخت کے پاس گئے اور اس کی شاخوں میں سے ایک شاخ پکڑ کر فرمایا : اللہ کے اذن سے میری اطاعت کر، وہ درخت بھی پہلے درخت کی طرح آپ ﷺ کے تابع ہو گیا یہاں تک کہ جب آپ ﷺ دونوں درختوں کے درمیان پہنچے تو آپ ﷺ نے ان دونوں درختوں کو ملا دیا اور فرمایا : اللہ کے اذن سے جڑ جاؤ، سو وہ دونوں درخت جڑ گئے۔ میں وہاں بیٹھا اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا، میں نے اچانک دیکھا کہ حضور نبی اکرم ﷺ تشریف لا رہے ہیں اور وہ دونوں درخت اپنے اپنے سابقہ اصل مقام پر کھڑے تھے۔

’’پھر آپ ﷺ نے فرمایا : اے جابر! تم نے وہ مقام دیکھا تھا جہاں میں کھڑا تھا۔ میں نے عرض کیا : جی! یا رسول اللہ! فرمایا : ان دونوں درختوں کے پاس جاؤ اور ان میں سے ہر ایک کی ایک ایک شاخ کاٹ کر لاؤ اور جب اس جگہ پہنچو جہاں میں کھڑا تھا تو ایک شاخ اپنی دائیں جانب اور ایک شاخ اپنی بائیں جانب ڈال دینا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کھڑے ہو کر ایک پتھر توڑا اور تیز کیا، پھر میں ان درختوں کے پاس گیا اور ہر ایک سے ایک شاخ توڑی، پھر میں انہیں گھسیٹ کر حضور نبی اکرم ﷺ کے کھڑے ہونے کی جگہ لایا اس جگہ ایک شاخ دائیں جانب اور ایک شاخ بائیں جانب ڈال دی۔ پھر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے آپ کے حکم پر عمل کر دیا ہے۔ مگر اس عمل کا سبب کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میں اس جگہ دو قبروں کے پاس سے گزرا جن میں قبر والوں کو عذاب ہو رہا تھا، میں نے چاہا کہ میری شفاعت کے سبب جب تک وہ شاخیں سرسبز و تازہ رہیں ان کے عذاب میں کمی رہے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

2۔ عَنْ یَعْلَی بْنِ مُرَّةَ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي سَفَرٍ فَأَرَادَ أَنْ یَقْضِيَ حَاجَتَهُ فَقَالَ لِي : ائْتِ تِلْکَ الْأَشَائَتَيْنِ قَالَ وَکِيْعٌ : یَعْنِي النَّخْلَ الصِّغَارَ فَقُلْ لَهُمَا إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَأْمُرُکُمَا أَنْ تَجْتَمِعَا فَاجْتَمَعَتَا فَاسْتَتَرَ بِهِمَا فَقَضَی حَاجَتَهُ ثُمَّ قَالَ لِي : ائْتِهِمَا فَقُلْ لَهُمَا لِتَرْجِعْ کُلُّ وَاحِدَةٍ مِنْکُمَا إِلَی مَکَانِهَا فَقُلْتُ لَهُمَا : فَرَجَعَتَا۔ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ۔

’’یعلی بن مرہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک سفر کے دوران میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھا۔ آپ ﷺ نے حاجت کے لیے جانے کا ارادہ ظاہر کیا تو مجھ سے فرمایا : ان دو درختوں کو بلا لاؤ ۔وکیع فرماتے ہیں کہ چھوٹے کھجور کے درختوں کو۔ مرہ کہتے ہیں کہ میں ان کے پاس گیا اور ان سے کہا تمہیں رسول اللہ ﷺ حکم دیتے ہیں کہ ایک جگہ جمع ہو جاؤ۔ وہ دونوں جمع ہوگئے اور آپ ﷺ نے ان کے ذریعہ پردہ فرمایا۔ جب آپ ﷺ حاجت سے فارغ ہوئے تو مجھ سے فرمایا : جاؤ ان دونوں سے کہو کہ اپنی جگہ پر لوٹ جائیں، میں نے ان سے جاکر کہا وہ اپنی جگہ واپس چلے گئے۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو ابن ماجہ اور ابن ابی شیبہ کی روایت کیا ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

3۔ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه قَالَ : کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ بِمَکَّةَ، فَخَرَجْنَا فِي بَعْضِ نَوَاحِيْھَا، فَمَا اسْتَقْبَلَهُ جَبَلٌ وَلَا شَجَرٌ إِلَّا وَهُوَ یَقُوْلُ : اَلسَّـلَامُ عَلَيْکَ یَا رَسُوْلَ اللهِ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَالْحَاکِمُ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : ھَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ : ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ۔

’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں مکہ مکرمہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ تھا۔ ہم مکہ مکرمہ کی ایک طرف چلے تو جو پہاڑ اور درخت بھی آپ ﷺ کے سامنے آتا (وہ آپ ﷺ سے) عرض کرتا : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ یَا رَسُوْلَ اللهِ ’یا رسول اللہ! آپ پر سلامتی ہو‘۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام ترمذی، دارمی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے اس کو حسن کہا ہے جبکہ حاکم نے کہا ہے کہ یہ صحیح الاسناد ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

4۔ عَنْ أَبِي مُوْسَی الأَشْعَرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : خَرَجَ أَبُوْطَالِبٍ إِلَی الشَّامِ، وَخَرَجَ مَعَهُ النَّبِيُّ ﷺ فِي أَشْیَاخٍ مِنْ قُرَيْشٍ، فَلَمَّا أَشْرَفُوْا عَلَی الرَّاھِبِ ھَبَطُوْا، فَحَلُّوْا رِحَالَھُمْ، فَخَرَجَ إِلَيْھِمُ الرَّاھِبُ، وَکَانُوْا قَبْلَ ذَلِکَ یَمُرُّوْنَ بِهِ فَـلَا یَخْرُجُ إِلَيْھِمْ وَلَا یَلْتَفِتُ، قَالَ : فَھُمْ یَحُلُّوْنَ رِحَالَھُمْ، فَجَعَلَ یَتَخَلَّلُھُمُ الرَّاھِبُ، حَتَّی جَاءَ فَأَخَذَ بِیَدِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ، فَقَالَ : ھَذَا سَيِّدُ الْعَالَمِيْنَ، ھَذَا رَسُوْلُ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، یَبْعَثُهُ اللهُ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِيْنَ، فَقَالَ لَهُ أَشْیَاخٌ مِنْ قُرَيْشٍ : مَا عِلْمُکَ؟ فَقَالَ : إِنَّکُمْ حِيْنَ أَشْرَفْتُمْ مِنَ الْعَقَبَةِ لَمْ یَبْقَ شَجَرٌ وَلَا حَجَرٌ إِلَّا خَرَّ سَاجِدًا، وَلَا یَسْجُدَانِ إِلَّا لِنَبِيٍّ، وَإِنِّي أَعْرِفُهُ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ أَسْفَلَ مِنْ غُضْرُوْفِ کَتِفِهِ مِثْلَ التُّفَاحَةِ، ثُمَّ رَجَعَ فَصَنَعَ لَھُمْ طَعَامًا، فَلَمَّا أَتَاھُمْ بِهِ، وَکَانَ ھُوَ فِي رِعْیَةِ الْإِبِلِ، قَالَ : أَرْسِلُوْا إِلَيْهِ، فَأَقْبَلَ وَعَلَيْهِ غَمَامَةٌ تُظِلُّهُ۔ فَلَمَّا دَنَا مِنَ الْقَوْمِ وَجَدَھُمْ قَدْ سَبَقُوْهُ إِلَی فَيئِ الشَّجَرَةِ، فَلَمَّا جَلَسَ مَالَ فَيئُ الشَّجَرَةِ عَلَيْهِ، فَقَالَ : انْظُرُوْا إِلَی فَيئِ الشَّجَرَةِ مَالَ عَلَيْهِ … قَالَ : أَنْشُدُکُمْ بِاللهِ أَیُّکُمْ وَلِیُّهُ؟ قَالُوْا : أَبُوْطَالِبٍ۔ فَلَمْ یَزَلْ یُنَاشِدُهُ حَتَّی رَدَّهُ أَبُوْطَالِبٍ، وَبَعَثَ مَعَهُ أَبُوْبَکْرٍ بِلَالًا، وَزَوَّدَهُ الرَّاھِبُ مِنَ الْکَعْکِ وَالزَّيْتِ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ۔

’’حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابو طالب روسائے قریش کے ہمراہ شام کے سفر پر روانہ ہوئے تو حضور نبی اکرم ﷺ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ جب راہب کے پاس پہنچے وہ سواریوں سے اترے اور انہوں نے اپنے کجاوے کھول دیئے۔ راہب ان کی طرف آنکلا حالانکہ (روسائے قریش) اس سے قبل بھی اس کے پاس سے گزرا کرتے تھے لیکن وہ ان کے پاس نہیں آتا تھا اور نہ ہی ان کی طرف کوئی توجہ کرتا تھا۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ ابھی کجاوے کھول ہی رہے تھے کہ وہ راہب ان کے درمیان چلنے لگا یہاں تک کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے قریب پہنچا اور آپ ﷺ کا دستِ اقدس پکڑ کر کہا : یہ تمام جہانوں کے سردار اور رب العالمین کے رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر مبعوث فرمائے گا۔ روسائے قریش نے اس سے پوچھا آپ یہ سب کیسے جانتے ہیں؟ اس نے کہا : جب تم لوگ گھاٹی سے نمودار ہوئے تو کوئی پتھر اور درخت ایسا نہیں تھا جو سجدہ میں نہ گر پڑا ہو۔ اور وہ صرف نبی ہی کو سجدہ کرتے ہیں نیز میں انہیں مہر نبوت سے بھی پہچانتا ہوں جو ان کے کاندھے کی ہڈی کے نیچے سیب کی مثل ہے۔ پھر وہ واپس چلا گیا اور اس نے ان لوگوں کے لئے کھانا تیار کیا۔ جب وہ کھانا لے آیا تو آپ ﷺ اونٹوں کی چراگاہ میں تھے۔ راہب نے کہا انہیں بلا لو۔ آپ ﷺ تشریف لائے تو آپ کے سرِ انور پر بادل سایہ فگن تھا اور جب آپ لوگوں کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ تمام لوگ (پہلے سے ہی) درخت کے سایہ میں پہنچ چکے ہیں لیکن جیسے ہی آپ ﷺ تشریف فرما ہوئے تو سایہ آپ ﷺ کی طرف جھک گیا۔ راہب نے کہا : درخت کے سائے کو دیکھو وہ آپ ﷺ پر جھک گیا ہے۔ پھر راہب نے کہا : میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ ان کا سرپرست کون ہے؟ انہوں نے کہا ابو طالب! چنانچہ وہ حضرت ابوطالب کو مسلسل واسطہ دیتا رہا (کہ انہیں واپس بھیج دیں) یہاں تک کہ حضرت ابو طالب نے آپ ﷺ کو واپس (مکہ مکرمہ) بھجوا دیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کے ہمراہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور راہب نے آپ ﷺ کے ساتھ زادِ راہ کے طور پر کیک اور زیتون پیش کیا۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

5۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنھما قَالَ : جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَالَ : بِمَا أَعْرِفُ أَنَّکَ نَبِيٌّ؟ قَالَ : إِنْ دَعَوْتُ هَذَا الْعِذْقَ مِنْ هَذِهِ النَّخْلَةِ، أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُوْلُ اللهِ؟ فَدَعَاهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَجَعَلَ یَنْزِلُ مِنَ النَّخْلَةِ حَتَّی سَقَطَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ ثُمَّ قَالَ : ارْجِعْ۔ فَعَادَ، فَأَسْلَمَ الْأَعْرَابِيُّ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ۔ وَقَالَ أَبُوْعِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ۔

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : مجھے کیسے علم ہوگا کہ آپ نبی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر میں کھجور کے اس درخت کے اس گچھے کو بلاؤں تو کیا تو گواہی دے گا کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ پھر آپ ﷺ نے اسے بلایا تو وہ درخت سے اترنے لگا یہاں تک کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے قدموں میں آگرا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا : واپس چلے جاؤ۔ تو وہ واپس چلا گیا۔ اس اعرابی نے یہ دیکھ کر اسلام قبول کرلیا۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام ترمذی، حاکم طبرانی اور بخاری نے التاریخ الکبیر میں روایت کیا ہے اور امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور امام حاکم بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

6۔ عَنْ یَعْلَی بْنِ سِیَابَةَ رضی الله عنه قَالَ : کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي مَسِيْرٍ لَهُ، فَأَرَادَ أَنْ یَقْضِيَ حَاجَةً، فَأَمَرَ وَدْیَتَيْنِ فَانْضَمَّتْ إِحْدَاھُمَا إِلَی الْأُخْرَی، ثُمَّ أَمَرَھُمَا فَرَجَعَتَا إِلَی مَنَابَتِھِمَا۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ۔

’’حضرت یعلی بن سیابہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں ایک سفر میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ تھا۔ آپ ﷺ نے ایک جگہ قضائے حاجت کا ارادہ فرمایا تو آپ ﷺ نے کھجور کے درختوں کو حکم دیا۔ وہ آپ کے حکم سے ایک دوسرے سے مل گئے (اور آپ ﷺ کے لیے پردہ بن گئے۔ آپ ﷺ نے ان کے پیچھے قضائے حاجت فرمائی)۔ پھر آپ ﷺ نے انہیں دوبارہ حکم دیا تو وہ اپنی اپنی جگہ پر واپس چلے گئے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

7۔ عَنْ یَعْلَی بْنِ مُرَّةَ الثَّقَفِيِّ رضی الله عنه قَالَ : ثُمَّ سِرْنَا فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا، فَنَامَ النَّبِيُّ ﷺ ، فَجَاءَتْ شَجَرَهٌ تَشُقُّ الْأَرْضَ حَتَّی غَشِیَتْهُ، ثُمَّ رَجَعَتْ إِلَی مَکَانِھَا۔ فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ ذَکَرْتُ لَهُ، فَقَالَ : ھِيَ شَجَرَةٌ اسْتَأْذَنَتْ رَبَّھَا عزوجل أَنْ تُسَلِّمَ عَلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَأَذِنَ لَھَا۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ۔

’’حضرت یعلی بن مروہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ہم روانہ ہوئے اور ہم نے ایک جگہ پڑائو کیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ وہاں محو استراحت ہو گئے۔ اتنے میں ایک درخت زمین کو چیرتا ہوا آیا اور آپ ﷺ پر سایہ فگن ہو گیا پھر کچھ دیر بعد وہ واپس اپنی جگہ پر چلا گیا۔ جب آپ ﷺ بیدار ہوئے تو میں نے آپ ﷺ سے اس واقعہ کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اس درخت نے اپنے رب سے اجازت طلب کی تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول کی بارگاہ میں سلام عرض کرے، پس اس نے اسے اجازت دے دی۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام احمد اور ابونعیم نے روایت کیا ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

8۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنھما قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَامِرٍ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ کَأَنَّهُ یُدَاوِي وَیُعَالِجُ فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ، إِنَّکَ تَقُوْلُ أَشْیَاءَ؛ هَلْ لَکَ أَنْ أُدَاوِیَکَ؟ قَالَ : فَدَعَاهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِلَی اللهِ ثُمَّ قَالَ : هَلْ لَکَ أَنْ أُرِیَکَ آیَةً؟ وَعِنْدَهُ نَخْلٌ وَشَجَرٌ۔ فَدَعَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عِذْقًا مِنْهَا، فَأَقْبَلَ إِلَيْهِ وَهُوَ یَسْجُدُ، وَیَرْفَعُ رَأْسَهُ وَیَسْجُدُ، وَیَرْفَعُ رَأْسَهُ حَتَّی انْتَهَی إِلَيْهِ ﷺ ، فَقَامَ بَيْنَ یَدَيْهِ۔ ثُمَّ قَالَ لَهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : ارْجِعْ إِلَی مَکَانِکَ۔ فَقَالَ الْعَامِرِيُّ : وَاللهِ، لَا أُکَذِّبُکَ بِشَيئٍ تَقُوْلُهُ أَبَدًا، ثُمَّ قَالَ : یَا آلَ عَامِرِ بْنِ صَعْصَعَةَ، وَاللهِ، لَا أُکَذِّبُهُ بِشَيئٍ۔ رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ یَعْلَی وَالطَّبَرَانِيُّ۔

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : قبیلہ بنو عامر کا ایک شخص حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا۔ وہ شخص علاج معالجہ کرنے والا (حکیم) دکھائی دیتا تھا۔ پس اس نے کہا : اے محمد! آپ بہت سی (نئی) چیزیں (امورِ دین میں سے) بیان کرتے ہیں۔ (پھر اس نے ازراہ تمسخر کہا : ) کیا آپ کو اس چیز کی حاجت ہے کہ میں آپ کا علاج کروں؟ راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اسے اللہ کے دین کی دعوت دی پھر فرمایا : کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں کوئی معجزہ دکھاؤں؟ آپ ﷺ کے پاس کھجور اور کچھ اور درخت تھے۔ آپ ﷺ نے کھجور کی ایک شاخوں والی ٹہنی کواپنی طرف بلایا، وہ ٹہنی (کھجور سے جدا ہو کر) آپ کی طرف سجدہ کرتے اور سر اٹھاتے، سجدہ کرتے اور پھر سر اٹھاتے ہوئے بڑھی یہاں تک کہ آپ کے قریب پہنچ گئی، پھر آپ ﷺ کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے اسے حکم دیا کہ وہ اپنی جگہ واپس چلی جائے۔ (یہ واقع دیکھ کر) قبیلہ بنو عامر کے اس شخص نے کہا : خدا کی قسم! میں کبھی بھی کسی شے میں بھی آپ کی تکذیب نہیں کروں گا جو آپ فرماتے ہیں۔ پھر اس نے برملا اعلان کرکے کہا : اے آلِ عامر بن صعصعہ! اللہ کی قسم! میں انہیں (یعنی حضور نبی اکرم ﷺ کو) آئندہ کسی چیز میں نہیں جھٹلاؤں گا۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن حبان، ابو یعلی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

حضور نبی اکرم ﷺ سے حیوانات کی محبت کا بیان

(3)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

1۔ قَالَ فَخُذْ اَرْبَعةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْھُنَّ اِلَيْکَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ مِّنْھُنَّ جُزْئًا ثُمَّ ادْعُھُنَّ یَاْتِيْنَکَ سَعْیًا ط وَاعْلَمْ اَنَّ اللهَ عَزِيْزٌ حَکِيْمٌo

’’ارشاد فرمایا : سو تم چار پرندے پکڑ لو پھر انہیں اپنی طرف مانوس کر لو پھر (انہیں ذبح کر کے) ان کا ایک ایک ٹکڑا ایک ایک پہاڑ پر رکھ دو پھر انہیں بلاؤ وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آ جائیں گے، اور جان لو کہ یقینا اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہےo‘‘

(البقرۃ، 2 : 260)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

2۔ اَلَمْ یَرَوْا اِلَی الطَّيْرِ مُسَخَّرٰتٍ فِيْ جَوِّ السَّمَآء ط مَا یُمْسِکُھُنَّ اِلَّا اللهُ ط اِنَّ فِيْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَo

’’کیا انہوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا جو آسمان کی ہوا میں (قانونِ حرکت و پرواز کے) پابند (ہو کر اڑتے رہتے) ہیں، انہیں اللہ کے (قانون کے) سوا کوئی چیز تھامے ہوئے نہیں ہے۔ بیشک اس (پرواز کے اصول) میں ایمان والوں کے لئے نشانیاں ہیںo‘‘

(النحل، 16 : 79)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

3۔ وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ ط وَکُنَّا فٰعِلِيْنَo

’’اور ہم نے پہاڑوں اور پرندوں (تک) کو داؤد (علیہ السلام) کے (حکم کے) ساتھ پابند کر دیا تھا وہ (سب ان کے ساتھ مل کر) تسبیح پڑھتے تھے، اور ہم ہی (یہ سب کچھ) کرنے والے تھےo‘‘

(الأنبیاء، 21 : 79)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

4۔ اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللهَ یُسَبِّحُ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰـوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّيْرُ صٰٓـفّٰتٍ ط کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَتَسْبِيْحَهٗ ط وَاللهُ عَلِيْمٌم بِمَا یَفْعَلُوْنَo

’’کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کوئی بھی آسمانوں اور زمین میں ہے وہ (سب) اللہ ہی کی تسبیح کرتے ہیں اور پرندے (بھی فضائوں میں) پر پھیلائے ہوئے (اسی کی تسبیح کرتے ہیں)، ہر ایک (اللہ کے حضور) اپنی نماز اور اپنی تسبیح کو جانتا ہے، اور اللہ ان کاموں سے خوب آگاہ ہے جو وہ انجام دیتے ہیںo‘‘

(النور، 24 : 41)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

5۔ فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّيْحَ تَجْرِيْ بِاَمْرِهٖ رُخَآءً حَيْثُ اَصَابَo وَالشَّیٰطِيْنَ کُلَّ بَنَّآءٍ وَّغَوَّاصٍo وَّاٰخَرِيْنَ مُقَرَّنِيْنَ فِی الْاَصْفَادِo

’’پھر ہم نے اُن کے لئے ہوا کو تابع کر دیا، وہ اُن کے حکم سے نرم نرم چلتی تھی جہاں کہیں (بھی) وہ پہنچنا چاہتےo اور کل جنّات (و شیاطین بھی ان کے تابع کر دیئے) اور ہر معمار اور غوطہ زَن (بھی)o اور دوسرے (جنّات) بھی جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھےo‘‘

(ص، 38 : 36۔38)

حضور ﷺ کے ساتھ اُونٹوں کی محبت کا بیان

1

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

1۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ جَعْفَرٍ رضی الله عنه قَالَ : فَدَخَلَ حَائِطًا لِرَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ فَإِذَا جَمَلٌ۔ فَلَمَّا رَأَی النَّبِيَّ ﷺ حَنَّ وَذَرَفَتْ عَيْنَاهُ۔ فَأَتَاهُ النَّبِيُّ ﷺ فَمَسَحَ ذِفْرَاهُ فَسَکَتَ فَقَالَ : مَنْ رَبُّ ھَذَا الْجَمَلِ؟ لِمَنْ ھَذَا الْجَمَلُ؟ فَجَائَ فَتًی مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَ : لِي، یَا رَسُوْلَ اللهِ۔ فَقَالَ : أَفَـلَا تَتَّقِي اللهَ فِي ھَذِهِ الْبَھِيْمَةِ الَّتِي مَلَّکَکَ اللهُ إِيَّاھَا، فَإِنَّهُ شَکَا إِلَيَّ أَنَّکَ تُجِيْعُهُ وَتُدْئِبُهُ۔ رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ۔

’’حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : حضور نبی اکرم ﷺ ایک انصاری شخص کے باغ میں داخل ہوئے تو وہاں ایک اُونٹ تھا۔ جب اس نے حضور نبی اکرم ﷺ کو دیکھا تو وہ رو پڑا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔ حضور نبی اکرم ﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے اور اس کے سر پر دست شفقت پھیرا تو وہ خاموش ہو گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اس اُونٹ کا مالک کون ہے اور یہ کس کا اونٹ ہے؟ انصار کا ایک نوجوان حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! یہ میرا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم اس بے زبان جانور کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے جس کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں مالک بنایا ہے۔ اس نے مجھے شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور اس سے بہت زیادہ کام لیتے ہو۔‘‘ اس حدیث کو امام ابوداود اور احمد نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

2۔ عَنْ یَعْلَی بْنِ سِیَابَةَ رضی الله عنه قَالَ : کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي مَسِيْرٍ لَهُ، فَأَرَادَ أَنْ یَقْضِيَ حَاجَةً، فَأَمَرَ وَدْیَتَيْنِ فَانْضَمَّتْ إِحْدَاھُمَا إِلَی الْأُخْرَی، ثُمَّ أَمَرَھُمَا فَرَجَعَتَا إِلَی مَنَابِتِھِمَا۔ وَجَائَ بَعِيْرٌ فَضَرَبَ بِجِرَانِهِ إِلَی الْأَرْضِ ثُمَّ جَرْجَرَ حَتَّی ابْتَلَّ مَا حَوْلَهُ۔ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : أَتَدْرُوْنَ مَا یَقُوْلُ الْبَعِيْرُ؟ إِنَّهُ یَزْعُمُ أَنَّ صَاحِبَهُ یُرِيْدُ نَحْرَهُ۔ فَبَعَثَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ : أَوَاھِبُهُ أَنْتَ لِي؟ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا لِي مَالٌ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُ۔ قَالَ : اسْتَوْصِ بِهِ مَعْرُوْفًا۔ فَقَالَ : لَا جَرَمَ لَا أُکْرِمُ مَالًا لِي کَرَامَتُهُ، یَا رَسُوْلَ اللهِ۔ وَأَتَی عَلَی قَبْرٍ یُعَذَّبُ صَاحِبُهُ فَقَالَ : إِنَّهُ یُعَذَّبُ فِي غَيْرِ کَبِيْرٍ۔ فَأَمَرَ بِجَرِيْدَةٍ فَوُضِعَتْ عَلَی قَبْرِهِ فَقَالَ : عَسَی أَنْ یُخَفَّفَ عَنْهُ مَا دَامَتْ رَطْبَةً۔ رَوَاهُ أَحْمَدَُ۔

’’حضرت یعلی بن سیابہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں ایک سفر میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ تھا۔ آپ ﷺ نے ایک جگہ قضائے حاجت کا ارادہ فرمایا تو آپ ﷺ نے کھجور کے دو درختوں کو حکم دیا۔ وہ آپ ﷺ کے حکم سے ایک دوسرے سے مل گئے (اور آپ ﷺ کے لیے پردہ بن گئے۔ آپ ﷺ نے ان کے پیچھے قضائے حاجت فرمائی)۔ پھر آپ ﷺ نے انہیں دوبارہ حکم دیا تو وہ اپنی اپنی جگہ پر واپس آ گئے۔ پھر ایک اونٹ آپ ﷺ کی خدمت میں اپنی گردن کو زمین پر رگڑتا ہوا حاضر ہوا۔ وہ اتنا بلبلایا کہ اس کے اردگرد کی جگہ گیلی ہو گئی۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ یہ اونٹ کیا کہہ رہا ہے؟ اس کا خیال ہے کہ اس کا مالک اسے ذبح کرنا چاہتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس کے مالک کی طرف آدمی بھیجا (کہ اسے بلا لائے۔ جب وہ آ گیا تو) آپ ﷺ نے اس سے فرمایا : کیا یہ اونٹ مجھے ہبہ کرتے ہو؟ اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ! مجھے اس سے بڑھ کر اپنے مال میں سے کوئی چیز محبوب نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : میں تم سے اس کے معاملہ میں بھلائی کی توقع رکھتا ہوں۔ اس صحابی نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں اپنے تمام مال سے بڑھ کر اس کا خیال رکھوں گا۔ پھر آپ ﷺ کا گزر ایک قبر سے ہوا جس کے اندر موجود میت کو عذاب دیا جا رہا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اسے گناہ کبیرہ کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا۔ پھر آپ ﷺ نے ایک درخت کی ٹہنی طلب فرمائی اور اسے اس قبر پر رکھ دیا اور فرمایا : جب تک یہ ٹہنی خشک نہیں ہو جاتی اسے عذاب میں تخفیف دی جاتی رہے گی۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

3۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ : غَزَوْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ۔ قَالَ : فَتَـلَاحَقَ بِيَ النَّبِيُّ ﷺ وَأَنَا عَلَی نَاضِحٍ لَنَا قَدْ أَعْیَا، فَلَا یَکَادُ یَسِيْرُ۔ فَقَالَ لِي : مَا لِبَعِيْرِکَ؟ قَالَ : قُلْتُ : عَیِيَ۔ قَالَ : فَتَخَلَّفَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَزَجَرَهُ وَدَعَا لَهُ۔ فَمَا زَالَ بَيْنَ یَدَيِ الإِبِلِ قُدَّامَھَا یَسِيْرُ۔ فَقَالَ لِي : کَيْفَ تَرَی بَعِيْرَکَ؟ قَالَ : قُلْتُ : بِخَيْرٍ، قَدْ أَصَابَتْهُ بَرَکَتُکَ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں ایک غزوہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ تھا۔ وہ فرماتے ہیں کہ اتفاق سے حضور نبی اکرم ﷺ میرے ساتھـ آملے میں اپنے پانی ڈھونے والے اونٹ پر سوار تھا جو تھکاوٹ کے باعث چل نہیں رہا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارے اونٹ کو کیا ہو گیا ہے؟ ان کا بیان ہے کہ میں عرض گزار ہوا : یہ تھک گیا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ پیچھے کی جانب تشریف لائے، اونٹ کو ڈانٹا اور اس کے لیے دعا کی تو وہ آسانی سے دوسرے اونٹوں سے آگے چلنے لگا۔ پھر ارشاد فرمایا : اب تم اپنے اونٹ کو کیسا دیکھتے ہو؟ میں نے عرض کی : اب تو اچھا ہے۔ اسے آپ ﷺ کی برکت حاصل ہوگئی ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

4۔ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ قَالَ : سَمِعْتُ شَيْخًا مِنْ قَيْسٍ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِيْهِ أَنَّهُ قَالَ : جَاءَ نَا النَّبِيُّ ﷺ وَعِنْدَنَا بَکْرَةٌ صَعْبَةٌ لَا یُقْدَرُ عَلَيْھَا قَالَ : فَدَنَا مِنْھَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ ، فَمَسَحَ ضَرْعَھَا، فَحَفَلَ فَاحْتَلَبَ۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ۔

’’حضرت حماد بن سلمہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے بنی قیس کے ایک بزرگ کو اپنے والد کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے سنا کہ حضور نبی اکرم ﷺ ہمارے ہاں تشریف لائے۔ ہمارے پاس ایک سرکش اونٹنی تھی جو قابو میں نہ آتی تھی۔ حضور نبی اکرم ﷺ اس اونٹنی کے پاس گئے، اس کے تھنوں پر دستِ اقدس پھیرا تو وہ دودھ سے بھر گئے۔ پھر آپ ﷺ نے انہیں دوہا۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

5۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ : کُنَّا جُلُوْسًا حَوْلَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ، إِذْ دَخَلَ أَعْرَابِيٌّ جَھُوْرِيٌّ، بَدَوِيٌّ یَمَانِيٌّ، عَلَی نَاقَةٍ حَمْرَاءَ، فَأَنَاخَ بِبَابِ الْمَسْجِدِ فَدَخَلَ فَسَلَّمَ ثُمَّ قَعَدَ، فَلَمَّا قَضَی نُحْبَهُ، قَالُوْا : یَارَسُوْلَ اللهِ، إِنَّ النَّاقَةَ الَّتِي تَحْتَ الْأَعْرَابِيِّ سَرِقَةٌ، قَالَ : أَثَمَّ بَيِّنَةٌ؟ قَالُوْا : نَعَمْ، یَارَسُوْلَ اللهِ، قَالَ : یَا عَلِيُّ، خُذْ حَقَّ اللهِ مِنَ الْأَعْرَابِيِّ إِنْ قَامَتْ عَلَيْهِ الْبَيِّنَةُ، وَإِنْ لَمْ تَقُمْ، فَرُدَّهُ إِلَيَّ، قَالَ : فَأَطْرَقَ الْأَعْرَابِيُّ سَاعَةً، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ : قُمْ یَا أَعْرَابِيُّ، لِأَمْرِ اللهِ وَإِلَّا فَأَدِلَّ بِحُجَّتِکَ، فَقَالَتِ النَّاقَةُ مِنْ خَلْفِ الْبَابِ : وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْکَرَامَةِ یَارَسُوْلَ اللهِ، إِنَّ ھَذَا مَا سَرَقَنِي، وَلَا مَلَکَنِي أَحَدٌ سِوَاهُ۔ فَقَال لَهُ النَّبِيُّ ﷺ : یَا أَعْرَابِيُّ، بِالَّذِي أَنْطَقَھَا بِعُذْرِکَ، مَا الَّذِي قُلْتَ؟ قَالَ : قُلْتُ : اَللَّھُمَّ إِنَّکَ لَسْتَ بِرَبٍّ اسْتَحْدَثْنَاکَ، وَلَا مَعَکَ إِلَـهٌ أَعَانَکَ عَلَی خَلْقِنَا، وَلَا مَعَکَ رَبٌّ فَنَشُکُّ فِي رَبُوْبِيَّتِکَ، أَنْتَ رَبُّنَا کَمَا نَقُوْلُ، وَفَوْقَ مَا یَقُوْلُ الْقَائِلُوْنَ۔ أَسْأَلُکَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَی مُحَمَّدٍ، وَأَنْ تُبَرِّئَنِي بِبَرَاءَ تِي۔ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ : وَالَّذِي بَعَثَنِي بِالْکَرَامَةِ یَا أَعْرَابِيُّ، لَقَدْ رَأَيْتُ الْمَـلَائِکَةَ یَبْتَدِرُوْنَ أَفْوَاهَ الْأَزِقَّةِ یَکْتُبُوْنَ مَقَالَتَکَ، فَأَکْثِرِ الصَّلَاةَ عَلَيَّ۔

رَوَاهُ الْحَاکِمُ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ : رَوَاهُ هَذَا الْحَدِيْث عَنْ آخِرِهِمْ ثِقَاتٌ وَیَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللهِ الْمِصْرِيُّ هَذَا لَسْتُ أَعْرِفُهُ بِعَدَالَةٍ وَلَا جَرْحٍ۔

’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک بلند آواز والا یمنی دیہاتی بدو اپنی سرخ اونٹنی کے ساتھ ادھر آیا، اس نے اپنی اونٹنی مسجدکے دروازے کے سامنے بٹھائی اور خود آکر بیٹھ گیا پھر جب اس نے اپنا کام پورا کر لیا تو صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ! یہ اونٹنی جو دیہاتی کے قبضہ میں ہے چوری کی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : کیا اس پر کوئی دلیل ہے؟ صحابہ نے عرض کیا : ہاں، یارسول اللہ! تو آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اگراس اعرابی پر چوری کی گواہی مل جاتی ہے تو اس سے اللہ کا حق لو (یعنی اس پر چوری کی حد جاری کرو) اور اگر چوری کی شہادت نہیں ملتی تو اس کو میری طرف لوٹا دو۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ پھر اعرابی نے کچھ دیر کے لئے اپنا سر جھکایا۔ پھر حضور ﷺ نے فرمایا : اے اعرابی! اللہ کے حکم کی پیروی کرنے کے لئے کھڑے ہو جاؤ وگرنہ میں تمہاری حجت سے دلیل پکڑوں گا، پس اسی اثناء میں دروازے کے پیچھے سے اونٹنی بول پڑی اور کہنے لگی : قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ ﷺ کو بڑی عزت وکرامت کے ساتھ مبعوث فرمایا! نہ تو اس شخص نے مجھے چوری کیا ہے اور نہ ہی اس کے سوا میرا کوئی اور مالک ہے۔ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قسم ہے تجھے اس ذات کی جس نے اس اونٹنی کو تیرا عذر بیان کرنے کے لئے قوتِ گویائی بخشی، اے اعرابی یہ بتا تو نے (سر جھکا کر) کیا کہا تھا! اعرابی نے عرض کیا : یارسول اللہ! میں نے کہا : اے اللہ! تو ایسا خدا نہیں ہے جسے ہم نے پیدا کیاہو، نہ ہی تیرے ساتھ کوئی اور معبود ہے جس نے مخلوق بنانے پر تیری اعانت کی ہو، اور نہ ہی تیرے ساتھ کوئی اور رب ہے کہ ہم تیری ربوبیت میں شک کریں، تو ہمارا رب ہے جیسا کہ ہم کہتے ہیں اور کہنے والوں کے کہنے سے بھی بہت بلندہے۔ پس اے میرے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو حضور ﷺ پر درود بھیج اور یہ کہ مجھے میرے الزام سے بری کر دے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس رب کی قسم جس نے مجھے عزت کے ساتھ مبعوث کیا! اے اعرابی! میں نے دیکھا کہ فرشتے تمہاری بات کو لکھنے کے لئے تنگ گلیوں کے موڑوں سے لپک کر آ رہے ہیں، پس تُو کثرت سے مجھ پر درود بھیجا کر۔‘‘

حوالاجات

اسے امام حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا کہ اس حدیث کو ثقات نے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں یحییٰ بن عبد اللہ مصری کے بارے میں کوئی جرح و تعدیل میں نہیں جانتا۔

حضور ﷺ کے ساتھ بکریوں کی محبت کا بیان

2

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

1۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : دَخَلَ النَّبِيُّ ﷺ حَائِطًا لِلْأَنْصَارِ، وَمَعَهُ أَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ وَرِجَالٌ مِنَ الْأَنْصَارِ۔ قَالَ : وَفِي الْحَائِطِ غَنَمٌ فَسَجَدَتْ لَهُ۔ قَالَ أَبُوْبَکْرٍ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّا نَحْنُ أَحَقُّ بِالسُّجُوْدِ لَکَ مِنْ هَذِهِ الْغَنَمِ۔ فَقَالَ : إِنَّهُ لَا یَنْبَغِي أَنْ یَسْجُدَ أَحَدٌ لِأَحَدٍ۔ وَلَوْ کَانَ یَنْبَغِي أَنْ یَسْجُدَ أَحَدٌ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا۔ رَوَاهُ أَبُونُعَيْمٍ وَالْمَقْدَسِيُّ وَهَذَا لَفْظُهُ۔

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک دفعہ حضور نبی اکرم ﷺ ، حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق اور چند دیگر انصار صحابہ رضی اللہ عنہم کے ہمراہ انصار کے ایک باغ میں داخل ہوئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ باغ میں بکریاں تھیں۔ انہوں نے آپ ﷺ کو سجدہ کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ان بکریوں سے زیادہ ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم آپ کو سجدہ کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کسی انسان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے انسان کو سجدہ کرے اور اگر ایک دوسرے کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں ضرور عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام ابو نعیم اور مقدسی نے روایت کیا ہے، اور مذکورہ الفاظ مقدسی کے ہیں۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

2۔ عَنِ الْوَضِيْنِ بْنِ عَطَاءٍ رضی الله عنه أَنَّ جَزَّارًا فَتَحَ بَابًا عَلَی شَاةٍ لِیَذْبَحَھَا، فَانْفَلَتَتْ مِنْهُ حَتَّی أَتَتِ النَّبِيَّ ﷺ وَاتَّبَعَھَا۔ فَأَخَذَھَا یَسْحَبُھَا بِرِجْلِھَا۔ فَقَالَ لَھَا النَّبِيُّ ﷺ : اِصْبِرِي لِأَمْرِ اللهِ، وَأَنْتَ یَا جَزَّارُ، فَسُقْھَا إِلَی الْمَوْتِ سَوْقًا رَفِيْقًا۔

رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ۔

’’حضرت وضین بن عطا رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک قصاب نے بکری ذبح کرنے کے لئے دروازہ کھولا تو وہ اس کے ہاتھ سے نکل بھاگی اور حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں آ گئی۔ وہ قصاب بھی اس کے پیچھے آ گیا اور اس بکری کو پکڑ کر ٹانگ سے کھینچنے لگا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے بکری سے فرمایا : اللہ عزوجل کے حکم پر صبر کر اور اے قصاب! تو اسے نرمی کے ساتھ موت کی طرف لے جا۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام عبد الرزاق نے روایت کیا ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

3۔ عَنِ ابْنَةٍ لِخُبَابٍ رضي الله عنهما قَالَتْ : خَرَجَ أَبِي فِي غَزَاةٍ فِي عَھْدِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَکَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَتَعَاھَدُنَا فَیَحْلِبُ عَنْزًا لَنَا فَکَانَ یَحْلِبُھَا فِي جَفْنَةٍ لَنَا فَتَمْتَلِئُ فَلَمَّا قَدِمَ خُبَابٌ حَلَبَھَا فَعَادَ حِـلَابُھَا کَمَا کَانَ۔

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ۔

’’حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی بیٹی روایت کرتی ہیں کہ میرے والد، حضورنبی اکرم ﷺ کے زمانہ مبارکہ میں کسی غزوہ میں (شرکت کی غرض سے گھرسے) باہر تشریف لے گئے۔ (والد کی غیر موجودگی میں) حضورنبی اکرم ﷺ ہماری دیکھ بھال فرماتے تھے اور ہماری بکری کا دودھ (بھی) دوہتے تھے۔ آپ ﷺ اس کا دودھ ہمارے پیالے میں دوہتے تھے یہاں تک کہ وہ بھر جاتا۔ جب حضرت خباب رضی اللہ عنہ (واپس) گھر تشریف لائے اور بکری کا دودھ دوہا تو اس (کے تھنوں میں دوبارہ) دودھ لوٹ آیا جیسے وہ پہلے تھا۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ، احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

4۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه قَالَ : کُنْتُ غُلَامًا یَافِعًا أَرْعَی غَنَمًا لِعُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ، فَجَاءَ النَّبِيُّ ﷺ وَأَبُوْ بَکْرٍ رضی الله عنه وَقَدْ فَرَّا مِنَ الْمُشْرِکِيْنَ فَقَالَا : یَا غُـلَامُ، ھَلْ عِنْدَکَ مِنْ لَبَنٍ تَسْقِيْنَا؟ قُلْتُ : إِنِّي مُؤْتَمَنٌ وَلَسْتُ سَاقِیَکُمَا، فَقَالَ النَّبِيِّ ﷺ : هَلْ عِنْدَکَ مِنْ جَذَعَةٍ لَمْ یَنْزُ عَلَيْھَا الْفَحْلُ؟ قُلْتُ : نَعَمْ، فَأَتَيْتُھُمَا بِھَا، فَاعْتَقَلَھَا النَّبِيُّ ﷺ وَمَسَحَ الضَّرْعَ، وَدَعَا فَحَفَلَ الضَّرْعُ ثُمَّ أَتَاهُ أَبُوْ بَکْرٍ رضی الله عنه بِصَخْرَةٍ مُنْقَعِرَةٍ، فَاحْتَلَبَ فِيْھَا، فَشَرِبَ، وَشَرِبَ أَبُوْ بَکْرٍ، ثُمَّ شَرِبْتُ، ثُمَّ قَالَ لِلضَّرْعِ : اقْلِصْ، فَقَلَصَ، فَأَتَيْتُهُ بَعْدَ ذَلِکَ، فَقُلْتُ : عَلِّمْنِي مِنْ ھَذَا الْقَوْلِ، قَالَ : إِنَّکَ غُلَامٌ مُعَلَّمَ قَالَ : فَأَخَذْتُ مِنْ فِيْهِ سَبْعِيْنَ سُوْرَةً لَا یُنَازِعُنِي فِيْھَا أَحَدٌ۔

رَوَاهُ أَحْمَد وَ ابْنُ أبِي شَيْبَةَ وَ أَبُوْ یَعْلَی۔

’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک نو عمر لڑکا تھا اور عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چراتا تھا۔ حضور نبی اکرم ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ادھر تشریف لائے اور آپ دونوں مشرکین سے رائے فرار اختیار کر کے آئے تھے۔ انہوں نے فرمایا : اے لڑکے! کیا تمہارے پاس ہمیں پلانے کے لئے دودھ ہے؟ میں نے کہا : میں (کسی کی بکریوں پر) امین ہوں لهٰذا میں آپ کو دودھ نہیں پلا سکتا، پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کیا تمہارے پاس ایک سالہ بکری ہے جس سے بکرے نے جفتی نہ کی ہو؟ میں نے عرض کیا : ہاں (ہے)، میں ان دونوں کو اس بکری کے پاس لے کر آیا تو اسے حضور نبی اکرم ﷺ نے پکڑا اور اس کے تھن پر ہاتھ پھیرا اور دعا کی تو وہ تھن دودھ سے بھر آیا پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے اسے دوہا، پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پیندے والا پتھر آپ ﷺ کے پاس لے کر حاضر ہوئے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس میں دودھ دوہا، پھر آپ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے وہ دودھ نوش فرمایا اور پھر میں نے وہ دودھ پیا۔ پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے تھن کو حکم دیا کہ وہ سکڑ جائے تو وہ سکڑ گیا (جس طرح وہ دودھ دوہنے سے پہلے تھا) پھر میں حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی (یا رسول اللہ!) جو کلمات آپ نے پڑھے وہ) مجھے بھی سکھائیے آپ ﷺ نے فرمایا : بے شک تو سیکھنے والا لڑکا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے ستر سورتیں سیکھیں، اور اس چیز میں میرا کوئی مدمقابل نہیں ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد، ابن ابی شیبہ اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

5۔ عَنْ جَيْشِ بْنِ خَالِدٍ صَاحِبِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ حِيْنَ خَرَجَ مِنْ مَکَّةَ وَخَرَجَ مِنْهَا مُهَاجِرًا إِلَی الْمَدِيْنَةِ وَھُوَ وَأَبُوْ بَکْرٍ وَمَوْلَی أَبِي بَکْرٍ عَامِرُ بْنُ فُھَيْرَةٍ رضي الله عنهما وَدَلِيْلُھُمَا اللَّيْثِيُّ عَبْدُ اللهِ بْنُ الْأَرِيْقَطِ، مَرُّوْا عَلَی خَيْمَتَي أُمِّ مَعْبَدٍ الْخُزَاعِيَّةِ وَکَانَتْ بَرْزَةً جَلْدَةً تَحْتَبِیُٔ بِفَنَاءِ الْقُبَّةِ، ثُمَّ تَسْقِي وَتُطْعِمُ، فَسَأَلُوْھَا لَحْمًا وَتَمْرًا لِیَشْتَرُوْهُ مِنْھَا فَلَمْ یَصِيْبُوْا عِنْدَھَا شَيْئًا مِنْ ذَلِکَ وَکَانَ الْقَوْمُ مُرْمِلِيْنَ مُسْنِتِيْنَ فَنَظَرَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِلَی شَاةٍ فِي کِسْرِ الْخَيْمَةِ، فَقَالَ : مَا ھَذِهِ الشَّاةُ یَا أُمَّ مَعْبَدٍ؟ قَالَتْ : شَاةٌ خَلَّفَھَا الْجَهْدُ عَنِ الْغَنَمِ قَالَ : فَھَلْ بِھَا مِنْ لَبَنٍ؟ قَالَتْ : ھِيَ أَجْهَدُ مِنْ ذَلِکَ قَالَ : أَتَأْذِنِيْنَ أَنْ أَحْلُبَھَا؟ قَالَتْ : بَلَی بَأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي نَعَمْ إِنْ رَأَيْتَ بِهَا حَلْبًا فَاحْلُبْھَا، فَدَعَا بِهَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَمَسَحَ بِیَدِهِ ضَرْعَھَا وَسَمَّی اللهَ عزوجل، وَدَعَا لَھَا فِي شَاتِهَا، فَتَفَاجَّتْ عَلَيْهِ، وَدَرَّتْ وَاجْتَرَّتْ وَدَعَا بِإِنَاءٍ یُرْبِضُ الرَّھْطَ، فَحَلَبَ فِيْهَا ثَجًّا حَتَّی عَلَاهُ الْبَهَاءُ ثُمَّ سَقَاھَا حَتَّی رَوِیَتْ وَسَقَی أَصْحَابَهُ حَتَّی رَوُوْا وَشَرِبَ آخِرُھُمْ ﷺ ثُمَّ أَرَاضُوْا ثُمَّ حَلَبَ فِيْهِ ثَانِیًا بَعْدَ بَدْءٍ حَتَّی مَلَأَ الْإِنَاءَ ثُمَّ غَادَرَهُ عِنْدَھَا ثُمَّ بَایَعَھَا، ثُمَّ ارْتَحَلُوْا عَنْھَا۔

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْحَاکِمُ۔

’’حضرت جیش بن خالد صحابی رسول سے مروی ہے کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ ، ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ، آپ رضی اللہ عنہ کے غلام عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ اور ان کے گائیڈ لیثی عبد اللہ بن اریقط مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی غرض سے نکلے تو وہ اُم معبد خزاعیہ کے دو خیموں کے پاس سے گزرے اور وہ بڑی بہادر اور دلیر خاتون تھیں۔ وہ اپنے خیمے کے آگے میدان میں چادر اوڑھ کر بیٹھتی تھیں اور لوگوں کو کھلاتی پلاتی تھیں۔ ان حضرات نے ان سے کھجور یا گوشت دریافت کیا کہ خریدیں مگر ان میں سے کوئی چیز بھی ان کے پاس نہ پائی۔ لوگوں کا زادِ راہ ختم ہوچکا تھا اور لوگ قحط کی حالت میں تھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے خیمہ کے ایک کونے میں ایک بھیڑ دیکھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اے اُم معبد! یہ بھیڑ کیسی ہے؟ انہوں نے عرض کیا : یہ وہ بکری ہے جس کو تھکن نے بکریوں سے پیچھے کر دیا ہے (جس کی وجہ سے اور بکریاں چرنے گئیں اور یہ رہ گئی ہے)۔ فرمایا : اس کا کچھ دودھ بھی ہے؟ انہوں نے عرض کیا : (اس بکری کے لئے دودھ دینا) اس سے (یعنی جنگل جانے سے) بھی زیادہ دشوار ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم مجھے اجازت دیتی ہو کہ میں اس کا دودھ دوہوں؟ انہوں نے عرض کیا : میرے ماں باپ آپ پر قربان، ہاں اگر آپ اس کے دودھ دیکھیں (تو دوہ لیجئے) آپ ﷺ نے بسم اللہ پڑھ کر تھن پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا کہ اے اللہ! اُم معبد کو ان کی بکریوں میں برکت دے۔ اس بکری نے ٹانگیں پھیلا دیں، کثرت سے دودھ دیا اور فرمانبردار ہو گئی۔ آپ ﷺ نے ان کا وہ برتن مانگا جو ساری قوم کو سیراب کر دے۔ اس میں آپ ﷺ نے دودھ کو سیلاب کی طرح دوہا یہاں تک کہ کف اس کے اوپر آگیا۔ آپ ﷺ نے اسے پلایا، اُم معبد نے پیا یہاں تک کہ وہ بھی سیراب ہو گئیں اور آپ ﷺ نے اپنے اصحاب کو پلایا، وہ بھی سیراب ہو گئے۔ سب سے آخر میں حضور نبی اکرم ﷺ نے بھی نوش فرمایا اور فرمایا کہ قوم کے ساقی کو سب سے آخر میں پینا چاہیے۔ سب نے ایک بار پینے کے بعد دوبارہ پیا اور خوب سیر ہو گئے۔ پھر آپ ﷺ نے اسی برتن میںابتدائی طریقہ پر دوبارہ دودھ دوہا اور اس کو ام معبد کے پاس چھوڑ دیا۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام طبرانی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ہرنیوں کی محبت کا بیان

3

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

1۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : مَرَّ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَلَی قَوْمٍ قَدْ صَادُوْا ظَبْیَةً فَشَدُّوْھَا إِلَی عَمُوْدِ الْفُسْطَاطِ۔ فَقَالَتْ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي وَضَعْتُ وَلِي خَشْفَانِ۔ فَاسْتَأْذِنْ لِي أَنْ أُرْضِعَھُمَا ثُمَّ أَعُوْدُ إِلَيْھِمْ۔ فَقَالَ : أَيْنَ صَاحِبُ ھَذِهِ؟ فَقَالَ الْقَوْمُ : نَحْنُ، یَا رَسُوْلَ اللهِ۔ فَقَالَ : رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : خُلُّوْا عَنْهَا حَتَّی تَأْتِيَ خَشْفَيْھَا تُرْضِعُھُمَا وَتَأْتِيَ إِلَيْکُمْ۔ قَالُوْا : وَمَنْ لَنَا بِذَلِکَ، یَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ : أَنَا۔ فَأَطْلَقُوْھَا فَذَھَبَتْ فَأَرْضَعَتْ ثُمَّ رَجَعَتْ إِلَيْھِمْ فَأَوْثَقُوْھَا۔ فَمَرَّ بِھِمُ النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ : أَيْنَ أَصْحَابُ ھَذِهِ؟ قَالُوْا : ھُوَ ذَا نَحْنُ، یَارَسُوْلَ اللهِ۔ قَالَ : تَبِيْعُوْنِھَا؟ قَالُوْا : یَارَسُوْلَ اللهِ، ھِيَ لَکَ۔ فَخَلُّوْا عَنْھَا فَأَطْلَقُوْھَا فَذَھَبَتْ۔

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْنُعَيْمٍ۔

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضورنبی اکرم ﷺ ایک گروہ کے پاس سے گزرے۔ انہوں نے ایک ہرنی کو شکار کرکے ایک بانس کے ساتھ باندھ رکھا تھا۔ اس ہرنی نے عرض کیا : یارسول اللہ! میرے دو چھوٹے بچے ہیں جنہیں میں نے حال ہی میں جنا ہے۔ پس آپ ﷺ مجھے ان سے اجازت دلوا دیں کہ میں اپنے بچوں کو دودھ پلا کر واپس آجائوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اس کا مالک کہاں ہے؟ اس گروہ نے کہا : یارسول اللہ، ہم اس کے مالک ہیں۔ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اسے چھوڑ دو یہاں تک کہ یہ اپنے بچوں کو دودھ پلا کر تمہارے پاس واپس آجائے۔ انہوں نے عرض کیا : یارسول اللہ! اس کی واپسی کی ہمیں کون ضمانت دے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میں۔ انہوں نے ہرنی کو چھوڑ دیا پس وہ گئی اور اپنے بچوں کو دودھ پلا کر واپس لوٹ آئی۔ انہوں نے اسے پھر باندھ دیا۔ جب حضورنبی اکرم ﷺ دوبارہ ان لوگوں کے پاس سے گزرے اور ان سے پوچھا : اس کا مالک کہاں ہے؟ اس گروہ نے عرض کیا : یارسول اللہ! وہ ہم ہی ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم اس ہرنی کو مجھے فروخت کروگے؟ انہوں نے عرض کیا : یارسول اللہ! یہ آپ ہی کی ہے۔ پس انہوں نے اسے کھول کر آزاد کردیا اور وہ چلی گئی۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

2۔ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رضي الله عنها قَالَتْ : کَانَ رَسُولُ الله ﷺ فِي الصَّحْرَاءِ فَإِذَا مُنَادٍ یُنَادِيْهِ : یَارَسُوْلَ اللهِ، فَالْتَفَتَ فَلَمْ یَرَ أَحَدًا۔ ثُمَّ الْتَفَتَ فَإِذَا ظَبْیَةٌ مُوْثَقَةٌ۔ فَقَالَتْ : أُدْنُ مِنِّي، یَا رَسُوْلَ اللهِ۔ فَدَنَا مِنْھَا فَقَالَ : حَاجَتُکِ؟ قَالَتْ : إِنَّ لِي خَشْفَيْنِ فِي ذَلِکَ الْجَبَلِ۔ فَخَلِّنِي حَتَّی أَذْھَبَ فَأُرْضِعَھُمَا ثُمَّ أَرْجِعُ إِلَيْکَ۔ قَالَ : وَتَفْعَلِيْنَ؟ قَالَتْ : عَذَّبَنِيَ اللهُ عَذَابَ الْعَشَّارِ إِنْ لَمْ أَفْعَلْ۔ فَأَطْلَقَھَا فَذَھَبَتْ فَأَرْضَعَتْ خَشْفَيْھَا ثُمَّ رَجَعَتْ فَأَوْثَقَھَا۔ وَانْتَبَهَ الأَعْرَابِيُّ فَقَالَ : لَکَ حَاجَةٌ، یَارَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ : نَعَمْ، تُطْلِقُ ھَذِهِ۔ فَأَطْلَقَھَا فَخَرَجَتْ تَعْدُوْ وَھِيَ تَقُوْلُ : أَشْھَدُ أَنْ لَا إِلٓهَ إِلاَّ اللهُ وَأَنَّکَ رَسُوْلُ اللهِ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔

’’حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : ایک دفعہ حضورنبی اکرم ﷺ ایک صحراء میں سے گزر رہے تھے۔ کسی ندا دینے والے نے آپ ﷺ کو ’یارسول اللہ‘ کہہ کر پکارا۔ آپ ﷺ آواز کی طرف متوجہ ہوئے لیکن آپ ﷺ کو سامنے کوئی نظر نہ آیا۔ آپ ﷺ نے دوبارہ غور سے دیکھا تو وہاں ایک ہرنی بند ھی ہوئی تھی۔ اس نے عرض کیا : یارسول اللہ، میرے نزدیک تشریف لائیے۔ پس آپ ﷺ اس کے قریب ہوئے اور اس سے پوچھا : تمہاری کیا حاجت ہے؟ اس نے عرض کیا : اس پہاڑ میں میرے دو چھوٹے چھوٹے نومولود بچے ہیں۔ پس آپ مجھے آزاد کر دیجئے کہ میں جا کر انہیں دودھ پلا سکو پھرمیں واپس لوٹ آؤں گی۔ آپ ﷺ نے پوچھا : کیا تم ایسا ہی کرو گی؟ اس نے عرض کیا : اگر میں ایسا نہ کروں تو اللہ تعالیٰ مجھے سخت عذاب دے۔ پس آپ ﷺ نے اسے آزاد کردیا۔ وہ گئی اس نے اپنے بچوں کو دودھ پلایا اور پھر واپس لوٹ آئی۔ آپ ﷺ نے اسے دوبارہ باندھ دیا۔ پھر اچانک وہ اعرابی (جس نے اس ہرنی کو باندھ رکھا تھا) متوجہ ہوا اور اس نے عرض کیا : یارسول اللہ! میں آپ کی کوئی خدمت کرسکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، اس ہرنی کو آزاد کردو۔ پس اس اعرابی نے اسے فوراً آزاد کر دیا۔ وہ وہاں سے دوڑتی ہوئی نکلی اور وہ یہ کہتی جارہی تھی : میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ گھوڑوں کی محبت کا بیان

4

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

1۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَحْسَنَ النَّاسِ وَکَانَ أَجْوَدَ النَّاسِ وَکَانَ أَشْجَعَ النَّاسِ وَلَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ الْمَدِيْنَةِ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَانْطَلَقَ نَاسٌ قِبَلَ الصَّوْتِ فَتَلَقَّاهُمْ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ رَاجِعًا وَقَدْ سَبَقَهُمْ إِلَی الصَّوْتِ وَهُوَ عَلَی فَرَسٍ لِأَبِي طَلْحَةَ عُرْيٍ فِي عُنُقِهِ السَّيْفُ وَهُوَ یَقُوْلُ لَمْ تُرَاعُوْا لَمْ تُرَاعُوْا قَالَ : وَجَدْنَاهُ بَحْرًا أَوْ إِنَّهُ لَبَحْرٌ قَالَ : وَکَانَ فَرَسًا یُبَطَّأُ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَھَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ۔

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ حسین، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ ایک رات اہلِ مدینہ (ایک دہشت ناک آواز کی وجہ سے)خوف زدہ ہوگئے۔ صحابہ کرام اس آواز کی طرف گئے۔ راستہ میں اُنہیں حضور نبی اکرم ﷺ اس جگہ سے واپس آتے ہوئے ملے، آپ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار تھے۔ آپ کی گردن مبارک میں تلوار(لٹک رہی) تھی اور آپ فرما رہے تھے! تم کو خوفزدہ نہیں کیا گیا، تم کو خوفزدہ نہیں کیا گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہم نے اس (گھوڑے) کو سمندر کی طرح رواں دواں پایا، یا وہ سمندر تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ گھوڑا بہت آہستہ چلتا تھا (مگر حضور ﷺ کے اس پر سوار ہونے کی برکت سے یہ نہایت تیز رفتار ہو گیا)۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

2۔ عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ النَّبِيُّ ﷺ أَحْسَنَ النَّاسِ وَأَشْجَعَ النَّاسِ وَلَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ الْمَدِيْنَةِ لَيْلَةً فَخَرَجُوْا نَحْوَ الصَّوْتِ فَاسْتَقْبَلَهُمْ النَّبِيُّ ﷺ وَقَدْ اسْتَبْرَأَ الْخَبَرَ وَهُوَ عَلَی فَرَسٍ لِأَبِي طَلْحَةَ عُرْيٍ وَفِي عُنُقِهِ السَّيْفُ وَهُوَ یَقُولُ : لَمْ تُرَاعُوْا لَمْ تُرَاعُوا ثُمَّ قَالَ : وَجَدْنَاهُ بَحْرًا أَوْ قَالَ : إِنَّهُ لَبَحْرٌ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ سب لوگوں سے حسین و جمیل اور دلیر تھے۔ ایک رات اہل مدینہ کو خطرہ محسوس ہوا۔ لوگ آواز کی جانب دوڑے تو آپ لوگوں کو واپس آتے ہوئے ملے اور صورتِ حال کی خبر بھی لے آئے۔ اس وقت نبی کریم ﷺ حضرت ابو طلحہ کے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار تھے اور تلوار آپ کی گردن مبارک میں لٹک رہی تھی۔ آپ لوگوں سے فرما رہے تھے ڈرو نہیں، ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے پھر ارشاد فرمایا : ہم نے اسے (گھوڑے کو ) دریا کی طرح (تیز رفتار) پایا ہے۔ یا یہ فرمایا : یہ تو دریا (کی طرح تیز رفتار) ہے (جبکہ اس سے پہلے وہ لاغرو کمزور گھوڑا تھا)۔‘‘

حوالاجات

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

3۔ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسًا رضی الله عنه یَقُولُ : کَانَ فَزَعٌ بِالْمَدِيْنَةِ فَاسْتَعَارَ النَّبِيُّ ﷺ فَرَسًا مِنْ أَبِي طَلْحَةَ یُقَالُ لَهُ : الْمَنْدُوْبُ فَرَکِبَ فَلَمَّا رَجَعَ قَالَ : مَا رَأَيْنَا مِنْ شَيئٍ وَإِنْ وَجَدْنَاهُ لَبَحْرًا۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

’’حضرت قتادہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا۔ مدینہ منورہ میں حملے کا خطرہ محسوس ہوا تو حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے گھوڑا مستعار لیا، جس کو مندوب کہتے تھے۔ آپ ﷺ اس پر سوار ہو گئے، جب واپس لوٹے تو فرمایا کہ ہم نے (خطرے والی) کوئی ایسی چیز نہیں دیکھی اور ہم نے تو اس (گھوڑے) کو دریا کی طرح پایا ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

4۔ عَنْ جُعَيْلٍ الْأَشْجَعِيِّ قَالَ : غَزَوْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ (فِي بَعْضِ غَزَوَاتِهِ) وَأَنَا عَلَی فَرَسٍ لِي عَجْفَائَ ضَعِيْفَةٍ۔ قَالَ : فَکُنْتُ فِي أُخْرَیَاتِ النَّاسِ۔ فَلَحِقَنِي رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَقَالَ : سِرْ، یَا صَاحِبَ الْفَرَسِ۔ فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، عَجْفَاءُ ضَعِيْفَةٌ۔ قَالَ : فَرَفَعَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ مِخْفَقَةً کَانَتْ مَعَهُ فَضَرَبَھَا بِھَا وَقَالَ : اَللَّھُمَّ، بَارِکْ لَهُ فِيْھَا۔ قَالَ : فَلَقَدْ رَأَيْتُنِي مَا أَمْسِکُ رَأْسَهُ إِلَی أَنْ أَتَقَدَّمَ النَّاسَ۔ قَالَ : فَلَقَدْ بِعْتُ مِنْ بَطْنِھَا بِاثْنَي عَشَرَ أَلْفًا۔ رَوَاهُ الْبَيْھَقِيُّ۔

’’حضرت جعیل اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک غزوہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ جہاد کیا۔ میں اپنی نڈھال و لاغر گھوڑی پر سوار تھا۔ میں لوگوں کے آخری گروہ میں تھا۔ حضور نبی اکرم ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا : اے گھڑ سوار، آگے بڑھو۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ، یہ نڈھال و لاغر گھوڑی ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنا چابک ہوا میں لہرا کر گھوڑی کو مارا اور یہ دعا فرمائی : اے اللہ، جعیل کی اس گھوڑی میں برکت عطا فرما۔ جعیل کہتے ہیں : میں اس گھوڑی کو پھر قابو نہ کر سکا، یہاں تک کہ میں لوگوں سے آگے نکل گیا۔ نیز میں نے اس کے پیٹ سے پیدا ہونے والے بچے بارہ ہزار میں فروخت کیے۔‘‘ اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

حضور ﷺ کے ساتھ دراز گوش کی محبت کا بیان

5

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

1۔ عَنْ عِصْمَةَ بْنِ مَالِکٍ الْخَطَمِيِّ رضی اللہ عنہ قَالَ : زَارَنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِلَی قُبَاءٍ۔ فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ یَرْجِعَ جِئْنَاهُ بِحِمَارٍ قَحَاطِيٍّ قَطُوْفٍ فَرَکِبَهُ۔ قُلْنَا : یَا رَسُوْلَ اللهِ، ھَذَا غُلَامٌ یَأْتِي مَعَکَ یَرُدُّ الدَّابَةَ۔ قَالَ : صَاحِبُ الدَّابَةِ أَحَقُّ بِصَدْرِھَا۔ قُلْنَا : یَا رَسُوْلَ اللهِ، ارْکَبْ وَرُدَّھَا لَنَا۔ فَذَھَبَ فَرَدَّهُ عَلَيْنَا وَھُوَ ھِمْلَاجٌ مَا یُسَایَرُ۔

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔

’’حضرت عصمہ بن مالک خطمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ قُبَاء کی طرف ہمارے پاس تشریف لائے۔ جب آپ ﷺ نے واپس لوٹنے کا ارادہ فرمایا تو ہم آپ کے پاس ایک انتہائی خستہ حال اور سست رفتار دراز گوش (گدھا) لائے ۔ آپ ﷺ اس پر سوار ہوئے۔ ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! یہ لڑکا آپ کے ساتھ آتا ہے تاکہ جانور واپس لے آئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : جانور کا مالک اس کے اگلے حصہ کا زیادہ حقدار ہے (کہ وہ آگے بیٹھے)۔ ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! اس پر (صرف آپ ہی) سوار ہو جائیں اور پھر اسے ہماری طرف لوٹا دیں۔ آپ ﷺ (اس پر سوار ہو کر) چلے گئے اور جب ہمیں وہ جانور لوٹایا تو (آپ ﷺ کی برکت سے) وہ اس قدر تیز رفتار ہو چکا تھا کہ اس کا مقابلہ ہی نہیں کیا جا سکتا تھا۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

2۔ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ قَالَ : زَارَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ سَعْدًا فَقَالَ عِنْدَهُ، فَلَمَّا أَبْرَدُوْ جَاؤُوْا بِحِمَارٍ لَھُمْ أَعْرَابِيٍّ قَطُوْفٍ، قَالَ : فَوَطَؤُا لِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ بِقَطِيْفَةٍ عَلَيْهِ فَرَکِبَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَأَرَادَ سَعْدٌ أَنْ يَّرْدِفَ ابْنُهُ خَلْفَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ لِیَرُدَّ الْحِمَارَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنْ کُنْتَ بَاعِثَهُ مَعِي فَاحْمِلْهُ بَيْنَ یَدَيَّ قَالَ : لَا بَلْ خَلْفَکَ یَا رَسُوْلَ اللهِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَھْلُ الدَّابَةِ ھُمْ أَوْلَی بِصَدْرِھَا۔ قَالَ سَعْدٌ : لَا أَبْعَثُهُ مَعَکَ وَلَکِنْ رُدَّ الْحِمَارَ۔ قَالَ : فَرَدَّهُ وَھُوَ ھِمْلَاجٌ فَرِيْغٌ مَا یُسَایَرُ۔ رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ۔

’’حضرت اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت سعد کو شرفِ ملاقات بخشا۔ جب گرمی کی حدّت کم ہوئی تو وہ ایک خستہ حال اور سست رفتا دراز گوش (آپ ﷺ کے لئے) لے کر آئے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے لئے اس گدھے پر مخمل ڈال دیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ اس پر سوار ہوئے، پس سعد نے چاہا کہ اس کا بیٹا حضور نبی اکرم ﷺ کے پیچھے بیٹھ جائے تاکہ وہ گدھا واپس لے آئے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر تم اسے میرے ساتھ بھیجنا ہی چاہتے ہو تو اسے میرے آگے سوار کرو۔ اس نے عرض کیا : نہیں، یا رسول اللہ! بلکہ آپ کے پیچھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سواری کا مالک اس کے آگے بیٹھنے کا زیادہ حقدار ہے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں اسے آپ کے ساتھ نہیں بھیجتا لیکن آپ خود ہی دراز گوش کو لوٹا دیجئے گا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اسے واپس لوٹایا تو وہ نہایت تیز رفتار ہوچکا تھا اور اس کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن سعد نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

3۔ عَنْ أَبِي مَنْظُوْرٍ قَالَ : لَمَّا فَتَحَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَعْنِي خَيْبَرَ… أَصَابَ فِيْھَا حِمَارًا أَسْوَدَ، مُکَبَّـلًا قَالَ : فَکَلَّمَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ الْحِمَارَ فَکَلَّمَهُ الْحِمَارُ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ : مَا اسْمُکَ؟ قَالَ : یَزِيْدُ بْنُ شِھَابٍ أَخْرَجَ اللهُ تَعَالَی مِنْ نَسْلِ جَدِّي سِتِّيْنَ حِمَارًا کُلَّھُمْ لَا یَرْکَبُھُمْ إِلَّا نَبِيٌّ قَدْ کُنْتُ أَتَوَقَّعُکَ أَنْ تَرْکَبَنِي لَمْ یَبْقَ مِنْ نَسْلِ جَدِّي غَيْرِي وَلَا مِنَ الْأَنْبِیَاءِ غَيْرُکَ۔ قَدْ کُنْتُ قَبْلَکَ لِرَجُلٍ یَھُوْدِيٍّ وَکُنْتُ أَتَعَثَّرُ بِهِ عَمَدًا، وَکَانَ یُجِيْعُ بَطْنِي وَیَضْرِبُ ظَھْرِي، قَالَ : فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ : فَأَنْتَ یَعْفُوْرُ۔ یَا یَعْفُوْرُ، قَالَ : لَبَّيْکَ … قَالَ : فَکَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَرْکَبُهُ فِي حَاجَتِهِ وَإِذَا نَزَلَ عَنْهُ بَعَثَ بِهِ إِلَی بَابِ الرَّجُلٍ فَیَأْتِي الْبَابَ فَیَقْرَعُهُ بِرَأْسِهِ، فَإِذَا خَرَجَ إِلَيْهِ صَاحِبُ الدَّارِ أَوْمَأَ إِلَيْهِ أَنْ أَجِبْ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ ، فَلَمَّا قُبِضَ النَّبِيُّ ﷺ جَاءَ إِلَی بِئْرٍ کَانَتْ لِأَبِي الْھَيْثَمِ بْنِ التَّيْھَانِ فَتَرَدَّی فِيْھَا جَزِعًا عَلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَصَارَتْ قَبْرَهُ۔ رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ۔

’’ابو منظور بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ نے خیبر کو فتح کیا تو آپ ﷺ نے مالِ غنیمت میں ایک سیاہ گدھا پایااور وہ پابہ زنجیر تھا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس سے کلام فرمایا تو اس نے بھی آپ ﷺ سے کلام کیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اسے فرمایا : تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے عرض کیا : میرا نام یزید بن شہاب ہے، اللہ تعالیٰ نے میرے دادا کی نسل سے ساٹھ گدھے پیدا کئے، ان میں سے ہر ایک پر سوائے نبی کے کوئی سوار نہیں ہوا۔ میں توقع کرتا تھا کہ آپ مجھ پر سوار ہوں، کیونکہ میرے دادا کی نسل میں سوائے میرے کوئی باقی نہیں رہا اور انبیاء کرام میں سوائے آپ کے کوئی باقی نہیں رہا۔ میں آپ سے پہلے ایک یہودی کے پاس تھا، میں اسے جان بوجھ کر گرا دیتا تھا۔ وہ مجھے بھوکا رکھتا اور مجھے مارتا پیٹتا تھا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اسے فرمایا : آج سے تیرا نام یعفور ہے۔ اے یعفور! اس نے لبیک کہا … راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ اس پر سواری فرمایا کرتے تھے اور جب اس سے نیچے تشریف لاتے تو اسے کسی شخص کی طرف بھیج دیتے۔ وہ دروازے پر آتا اسے اپنے سر سے کھٹکھٹاتا اور جب گھر والا باہر آتا تو وہ اسے اشارہ کرتا کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی بات سنے۔ پس جب حضور نبی اکرم ﷺ اس دنیا سے ظاہری پردہ فرما گئے تو وہ ابو ہیثم بن تیہان کے کنویں پر آیا اور حضور نبی اکرم ﷺ کے فراق کے غم میں اس میں کود پڑا۔ وہ کنواں اس کی قبر بن گیا۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ شیر کی محبت کا بیان

6

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

1۔ عَنْ سَفِيْنَةَ رضی الله عنه قَالَ : رَکِبْتُ الْبَحْرَ فِي سَفِيْنَةٍ فَانْکَسَرَتْ فَرَکِبْتُ لَوْحًا مِنْھَا فَطَرَحَنِي فِي أَجَمَةٍ فِيْھَا أَسَدٌ فَلَمْ یَرُعْنِي إِلاَّ بِهِ۔ فَقُلْتُ : یَا أَبَا الْحَارِثِ، أَنَا مَوْلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ۔ فَطَأْطَأَ رَأْسَهُ وَغَمَزَ بِمَنْکَبِهِ شِقِّي۔ فَمَا زَالَ یَغْمِزُنِي وَیَھْدِيْنِيِ إِلَی الطَّرِيْقِ حَتَّی وَضَعَنِي عَلَی الطَّرِيْقِ۔ فَلَمَّا وَضَعَنِي ھَمْھَمَ فَظَنَنْتُ أَنَّهُ یَوَدِّعُنِي۔

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَغَوِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ : ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ۔

’’حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : میں سمندر میں ایک کشتی پر سوار ہوا۔ وہ کشتی ٹوٹ گئی تو میں اس کے ایک تختے پر سوار ہوگیا۔ اس نے مجھے ایک ایسی جگہ پھینک دیا جو شیر کی کچھار تھی۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ وہ (شیر) سامنے تھا۔ میں نے کہا : اے ابو الحارث (شیر کی کنیت)! میں حضور نبی اکرم ﷺ کا غلام ہوں۔ تو اس نے فوراً اپنا سر خم کردیا اور اپنے کندھے سے مجھے اشارہ کیااور وہ اس وقت تک مجھے اشارہ اور رہنمائی کرتا رہا جب تک کہ اس نے مجھے صحیح راہ پرنہ ڈال دیا۔ پھر جب اس نے مجھے صحیح راہ پر ڈال دیا تو وہ دھیمی آواز میں غرایا۔ سو میں سمجھ گیا کہ وہ مجھے الوداع کہہ رہا ہے۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام حاکم، طبرانی، بغوی اور بخاری نے التاریخ الکبیر میں روایت کیا ہے اور امام حاکم فرماتے ہیں : یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

2۔ عَنِ ابْنِ الْمُنْکَدِرِ أَنَّ سَفِيْنَةَ مَوْلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ أَخْطَأَ الْجَيْشَ بَأَرْضِ الرُّوْمِ أَوْ أُسِرَ فِي أَرْضِ الرُّوْمِ۔ فَانْطَلَقَ ھَارِبًا یَلْتَمِسُ الْجَيْشَ فَإِذَا بِالْأَسَدِ۔ فَقَالَ لَهُ : یَا أَبَا الْحَارِثِ، أَنَا مَوْلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَإِنَّ مِنْ أَمْرِي کَيْتَ وَکَيْتَ۔ فَأَقْبَلَ الْأَسَدُ لَهُ بَصْبَصَةً حَتَّی قَامَ إِلَی جَنْبِهِ۔ کُلَّمَا سَمِعَ صَوْتًا أَتَی إِلَيْهِ ثُمَّ أَقْبَلَ یَمْشِي إِلَی جَنْبِهِ۔ فَلَمْ یَزَلْ کَذَلِکَ حَتَّی بَلَغَ الْجَيْشَ ثُمَّ رَجَعَ الْأَسَدُ۔

رَوَاهُ ابْنُ رَاشِدٍ وَالْبَيْهَقِيُّ۔

’’حضرت ابن منکدر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ جو کہ حضورنبی اکرم ﷺ کے آزاد کردہ غلام تھے، ایک دفعہ روم کے علاقہ میں لشکرِ اسلام سے بچھڑ گئے یا وہ ارضِ روم میں قید کردیئے گئے۔ وہ وہاں سے بھاگے تاکہ لشکر سے مل سکیں کہ اچانک ایک شیر ان کے سامنے آگیا۔ انہوں نے اس سے کہا : اے ابو حارث (شبیر کی کنیت)! میں حضورنبی اکرم ﷺ کا غلام ہوں اور میرا معاملہ اس طرح ہے (کہ میں لشکر سے بچھڑ گیا ہوں)۔ یہ سننا تھا کہ شیر فوراً دُم ہلاتا ہوا ان کی طرف آیا اور ان کے پہلو میں کھڑا ہوگیا۔ جب بھی وہ (کسی درندے کی) آواز سنتا تو وہ شیر فوراً حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ کے آگے آجاتا (جب خطرہ ٹل جاتا تو) پھر وہ واپس آجاتا اور ان کے پہلو میں چلنا شروع کردیتا۔ وہ اسی طرح ان کے ساتھ چلتا رہا یہاں تک کہ وہ لشکر میں پہنچ گئے۔ اس کے بعد شیر واپس لوٹ آیا۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو ابن راشد اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

حضور ﷺ کے ساتھ بھیڑیے کی محبت کا بیان

7

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

1۔ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : عَدَا الذِّئْبُ عَلَی شَاةٍ فَأَخَذَهَا، فَطَلَبَهُ الرَّاعِي، فَانْتَزَعَهَا مِنْهُ، فَأَقْعَی الذِّئْبُ عَلَی ذَنَبِهِ۔ قَالَ : أَ لَا تَتَّقِي اللهَ تَنْزِعُ مِنِّي رِزْقًا سَاقَهُ اللهُ إِلَيَّ؟ فَقَالَ : یَا عَجَبِي، ذِئْبٌ مُقْعٍ عَلَی ذَنَبِهِ یُکَلِّمُنِي کَلَامَ الإِنْسِ؟ فَقَالَ الذِّئْبُ : أَ لَا أُخْبِرُکَ بِأَعْجَبَ مِنْ ذَلِکَ؟ مُحَمَّدٌ ﷺ بِیَثْرِبَ یُخْبِرُ النَّاسَ بِأَنْبَاءِ مَا قَدْ سَبَقَ۔ قَالَ : فَأَقْبَلَ الرَّاعِي یَسُوْقُ غَنَمَهُ حَتَّی دَخَلَ الْمَدِيْنَةَ، فَزَوَاهَا إِلَی زَاوِیَةٍ مِنْ زَوَایَاهَا، ثُمَّ أَتَی رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فَأَخْبَرَهُ۔ فَأَمَرَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَنُوْدِيَ : الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ، ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ لِلرَّاعِي : أَخْبِرْهُمْ۔ فَأَخْبَرَهُمْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : صَدَقَ۔ وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِهِ، لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتَّی یُکَلِّمَ السِّبَاعُ الإِنْسَ، وَیُکَلِّمُ الرَّجُلَ عَذَبَةُ سَوْطِهِ، وَشِرَاکُ نَعْلِهِ، وَیُخْبِرَهُ فَخِذُهُ بِمَا أَحْدَثَ أَهْلُهُ بَعْدَهُ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَيْهَقِيُّ۔ وَقَدْ صَحَّحَهُ الْبَيْهَقِيُّ۔ وَقَالَ ابْنُ کَثِيْرٍ : هَذَا إِسْنَادٌ عَلَی شَرْطِ الصَّحِيْحِ۔

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک دفعہ ایک بھیڑیا بکریوں پر حملہ آور ہوا اور ان میں سے ایک بکری کو اٹھا لیا۔ چرواہے نے اس کا پیچھا کیا اور اس سے بکری چھین لی۔ بھیڑیا پچھلی ٹانگوں کو زمین پر پھیلا کر سرین پر بیٹھ گیا اور اگلی ٹانگوں کو کھڑا کرلیا اور اس نے چرواہے سے کہا : کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے کہ مجھ سے اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ رزق چھین رہے ہو؟ چرواہے نے حیران ہو کر کہا : بڑی حیران کن بات ہے کہ بھیڑیا اپنی دم پر بیٹھا مجھ سے انسانوں جیسی باتیں کر رہا ہے؟ بھیڑیے نے کہا : کیا میں تمہیں اس سے بھی عجیب تر بات نہ بتاؤں؟ محمد ﷺ جو کہ یثرب (مدینہ منورہ) میں تشریف فرما ہیں لوگوں کو گزرے ہوئے زمانے کی خبریں دیتے ہیں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ چرواہا فوراً اپنی بکریوں کو ہانکتا ہوا مدینہ منورہ میں داخل ہوا اور ان کو اپنے ٹھکانوں میں سے کسی ٹھکانہ پر چھوڑ کر حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ پھر اس نے آپ ﷺ کو اس معاملہ کی خبر دی۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے حکم پر باجماعت نماز کے لئے اذان کہی گئی۔ پھر آپ ﷺ باہر تشریف لائے اور چرواہے سے فرمایا : سب لوگوں کو اس واقعہ کی خبر دو۔ پس اس نے وہ واقعہ سب کو سنایا۔ اس کے بعد حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس نے سچ کہا۔ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک کہ درندے انسان سے کلام نہ کریں اور انسان سے اس کے چابک کی رسی اور جوتے کے تسمے کلام نہ کریں۔ اس کی ران اسے خبر دے گی کہ اس کے بعد اس کے گھر والے کیا کرتے رہے ہیں۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام احمد اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام بیہقی نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس کی سند صحیح کی شرط کے مطابق (صحیح) ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

2۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : جَاءَ ذِئْبٌ إِلَی رَاعِي غَنَمٍ فَأَخَذَ مِنْهَا شَاةً۔ فَطَلَبَهُ الرَّاعِي حَتَّی انْتَزَعَهَا مِنْهُ۔ قَالَ : فَصَعِدَ الذِّئْبُ عَلَی تَلٍّ، فَأَقْعَی وَاسْتَذْفَرَ فَقَالَ : عَمَدْتَ إِلَی رِزْقٍ رَزَقَنِيْهِ اللهُ عزوجل انْتَزَعْتَهُ مِنِّي۔ فَقَالَ الرَّجُلُ : تَاللهِ، إِنْ رَأَيْتُ کَالْیَوْمِ ذِئْبًا یَتَکَلَّمُ۔ قَالَ الذِّئْبُ : أَعْجَبُ مِنْ ھَذَا رَجُلٌ فِي النَّخَلَاتِ بَيْنَ الْحَرَّتَيْنِ یُخْبِرُکُمْ بِمَا مَضَی وَبِمَا هُوَ کَائِنٌ بَعْدَکُمْ۔ وَکَانَ الرَّجُلُ یَهُوْدِیًّا۔ فَجَائَ الرَّجُلُ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَأَسْلَمَ وَخَبَّرَهُ۔ فَصَدَّقَهُ النَّبِيُّ ﷺ ، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : إِنَّهَا أَمَارَةٌ مِنْ أَمَارَاتٍ بَيْنَ یَدَيِ السَّاعَةِ۔ قَدْ أَوْشَکَ الرَّجُلُ أَنْ یَخْرُجَ فَـلَا یَرْجِعُ حَتَّی تُحَدِّثَهُ نَعْلَاهُ وَسَوْطُهُ مَا أَحْدَثَ أَهْلُهُ بَعْدَهُ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ رَاهَوَيْهِ۔ وَقَالَ ابْنُ کَثِيْرٍ : تَفَرَّدَ بِهِ أَحْمَدُ وَهُوَ عَلَی شَرْطِ السُّنَنِ۔

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک بھیڑیا کسی چرواہے کی بکریوں کے پاس آیا اور اُن میں سے ایک بکری اٹھا کر لے گیا۔ چرواہے نے اس کا پیچھا کیا یہاں تک کہ اس کے منہ سے بکری نکلوا لی۔ بھیڑیا ایک ٹیلے پر چڑھ گیا اور وہاں اپنی پشت کے بل گھٹنے اوپر اٹھا کر بیٹھ گیا اور اپنی دم اوپر اٹھا کر کہنے لگا : تم نے میرے منہ سے وہ رزق چھین لیا ہے جو اللہ عزوجل نے مجھے عطا کیا تھا۔ اس چرواہے نے کہا : بخدا میں نے آج سا دن پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا کہ بھیڑیا باتیں کر رہا ہے۔ بھیڑئیے نے جواب دیا : اس سے بھی عجیب تر بات یہ ہے کہ ایک آدمی ( یعنی حضور نبی اکرم ﷺ ) دو میدانوں کے درمیان واقع نخلستانوں (مدینہ) میں بیٹھا جو کچھ ہوچکا اور جو ہونے والا ہے اُس کی خبریں لوگوں کو دے رہا ہے۔ وہ آدمی ( یعنی چرواہا) یہودی تھا۔ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوگیا اور پھر اس نے آپ ﷺ کو اس واقعہ کی خبر دی۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس کی تصدیق کی اور پھر فرمایا : یہ قیامت سے قبل واقع ہونے والی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ وہ وقت قریب ہے کہ ایک آدمی اپنے گھر سے نکلے گا اس کی واپسی پر اس کے جوتے اور اس کا چابک اسے بتائیں گے کہ اس کے گھر والوں نے اس کے بعد کیاکیا۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام احمد اور ابن راہویہ نے روایت کیا ہے اور امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو تنہا امام احمد نے روایت کیا ہے اور یہ سنن کی شرائط پر ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

3۔ عَنْ أُھْبَانَ بْنِ أَوْسٍ : کُنْتُ فِي غَنَمٍ لِي، فَکَلَّمَهُ الذِّئْبُ، فَأَتَی النَّبِيَّ ﷺ فَأَسْلَمَ۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ۔

’’حضرت اُھبان بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں اپنی بکریوں کے پاس تھا کہ ایک بھیڑیا آیا اور اس نے مجھ سے (حضور نبی اکرم ﷺ کی نبوت کے متعلق) کلام کیا۔ پس وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کر لیا۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام بخاری نے ’’التاریخ الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

4۔ عَنْ شِمْرِ بْنِ عَطِيَّةَ عَنْ رَجُلٍ مِنْ مُزَيْنَةَ أَوْ جُھَيْنَةَ قَالَ : صَلَّی رَسُوْلُ اللهِ ﷺ الْفَجْرَ فَإِذَا ھُوَ بِقَرِيْبٍ مِنْ مِائَةِ ذِئْبٍ قَدْ أَقْعَيْنَ وَفُوْدُ الذِّئَابِ۔ فَقَالَ لَھُمْ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : تَرْضَخُوْا لَھُمْ شَيْئًا مِنْ طَعَامِکُمْ وَتَأْمَنُوْنَ عَلَی مَا سِوَی ذَلِکَ؟ فَشَکَوْا إِلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ الْحَاجَةَ۔ قَالَ : فَآذِنُوْھُنَّ۔ قَالَ : فَآذَنُوْھُنَّ فَخَرَجْنَ وَلَھُنَّ عُوَاءٌ۔ رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ۔

’’حضرت شمر بن عطیہ، مزینہ یا جہینہ کے ایک آدمی سے روایت بیان کرتے ہیں : حضور نبی اکرم ﷺ نے نمازِ فجر ادا فرمائی۔ اچانک تقریباً ایک سو بھیڑئیے پچھلی ٹانگوں کو زمین پر پھیلا کر اور اگلی ٹانگوں کو اٹھائے ہوئے اپنی سرینوں پر بیٹھے ہوئے (باقی) بھیڑیوں کے قاصد بن کر حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے تھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : (اے گروہ صحابہ!) تم اپنے کھانے پینے کی اشیاء میں سے تھوڑا بہت ان کا حصہ بھی نکالا کرو اور باقی ماندہ کھانے کو (ان بھیڑیوں سے) محفوظ کر لیا کرو۔ پھر انہوں (بھیڑیوں) نے حضور نبی اکرم ﷺ سے اپنی کسی حاجت کی شکایت کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا : انہیں اجازت دو۔ راوی بیان کرتے ہیں انہوں نے ان (بھیڑیوں) کو اجازت دی پھر وہ تھوڑی دیر بعد اپنی مخصوص آواز نکالتے ہوئے چل دیے۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام دارمی نے روایت کیا ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

5۔ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : جَاءَ الذِّئْبُ فَأَقْعَی بَيْنَ یَدَيِ النَّبِيِّ ﷺ ثُمَّ بَصْبَصَ بِذَنَبِهِ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : ھَذَا الذِّئْبُ وَھُوَ وَافِدُ الذِّئَابِ۔ فَھَلْ تَرَوْنَ أَنْ تَجْعَلُوْا لَهُ مِنْ أَمْوَالِکُمْ شَيْئًا؟ قَالَ : فَقَالُوْا بَأَجْمَعِھِمْ : لَا وَاللهِ، مَا نَجْعَلُ لَهُ شَيْئًا۔ قَالَ : وَأَخَذَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ حَجَرًا فَرَمَاهُ، فَأَدْبَرَ الذِئْبُ وَلَهُ عُوَاءٌ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : الذِّئْبُ وَمَا الذِّئْبُ۔ رَوَاهُ ابْنُ رَاھَوَيْهِ۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک بھیڑیا آیا اور حضور نبی اکرم ﷺ کے سامنے بیٹھ گیا اور اپنی دم ہلانے لگا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یہ بھیڑیا دیگر بھیڑیوں کا نمائندہ بن کر تمہارے پاس آیا ہے۔ کیا تم ان کے لئے اپنے مال سے کچھ حصہ مقرر کرتے ہو؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیک زبان کہا : خدا کی قسم! ہم ایسا نہیں کریں گے۔ ایک شخص نے پتھر اٹھایا اور اس بھیڑئیے کو دے مارا۔ بھیڑیا مڑا اور غراتا ہوا بھاگ گیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : واہ کیا بھیڑیا تھا، واہ کیا بھیڑیا تھا۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام ابن راہویہ نے روایت کیا ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

6۔ عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ حَنْطَبٍ رضی الله عنه قَالَ : بَيْنَمَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ جَالِسٌ بِالْمَدِيْنَةِ فِي أَصْحَابِهِ إِذْ أَقْبَلَ ذِئْبٌ فَوَقَفَ بَيْنَ یَدَي رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَعَوَی بَيْنَ یَدَيْهِ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : ھَذَا وَافِدُ السِّبَاعِ إِلَيْکُمْ۔ فَإِنْ أَحْبَبْتُمْ أَنْ تَفْرِضُوْا لَهُ شَيْئًا لَا یَعْدُوْهُ إِلَی غَيْرِهِ، وَإِنْ أَحْبَبْتُمْ تَرَکْتُمُوْهُ وَتحَرَّزْتُمْ مِنْهُ۔ فَمَا أَخذَ فَھُوَ رِزْقُهُ۔ فَقَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا تَطِيْبُ أَنْفُسُنَا لَهُ بِشَيئٍ۔ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ ﷺ بِأَصَابِعِهِ أَيْ خَالِسْھُمْ۔ فَوَلَّی وَلَهُ عَسَلَانُ۔ رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ۔

’’حضرت مطلب بن عبد اللہ بن حنطب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : حضور نبی اکرم ﷺ مدینہ منورہ میں اپنے اصحاب کے درمیان جلوہ افروز تھے کہ اچانک ایک بھیڑیا ادھر آیا اور حضور نبی اکرم ﷺ کے سامنے کھڑا ہو گیا اور اپنی مخصوص آواز میں کچھ کہنے لگا۔ پس حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یہ تمہاری طرف درندوں کا نمائندہ بن کر آیا ہے۔ اگر تم پسند کرو تو (اپنے مویشیوں میں سے) ان کے لیے کوئی حصہ مقرر کر دو تاکہ یہ اس (مقرر کردہ) حصے کے علاوہ کسی اور(مویشی) کی طرف نہ بڑھیں، اور اگر تم چاہو تو تم انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو اور اس سے کنارہ کشی کر لو۔ پھر یہ جو جانور پکڑ لیں گے وہ ان کا رزق ہو گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! اس (بھیڑیے کو) کچھ دینے پر ہمارے دل رضامند نہیں ہوتے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنی مبارک انگلیوں سے اس کی طرف اشارہ فرمایا کہ وہ ان سے اپنا حصہ چھین لیا کرے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ غصہ سے پیچ و تاب کھاتا ہوا واپس چلا گیا۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو ابن سعد نے روایت کیا ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

7۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي غَزْوَةِ تَبُوْکَ فَشَدَدْتُ عَلَی غَنَمِي۔ فَجَاءَ الذِّئْبُ فَأَخَذَ مِنْهَا شَاةً۔ فَاشْتَدَّ الرِّعَاءُ خَلْفَهُ۔ فَقَالَ : طُعْمَةٌ أَطْعَمَنِيْهَا اللهُ تَنْزِعُوْنَهَا مِنِّي؟ قَالَ : فَبُهِتَ الْقَوْمُ۔ فَقَالَ : مَا تَعْجَبُوْنَ مِنْ کَلَامِ الذِّئْبِ، وَقَدْ نَزَلَ الْوَحْيُ عَلَی مُحَمَّدٍ، فَمَنْ مُصَدِّقٌ وَمُکَذِّبٌ۔

رَوَاهُ أَبُو نُعَيْمٍ کَمَا قَالَ ابْنُ کَثِیرٍ۔

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں غزوہ تبوک میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ تھا۔ میں اپنی بکریوں کی رکھوالی کر رہا تھا کہ ایک بھیڑیا آیا اور ان میں سے ایک بکری کو اٹھا کرلے گیا۔ چرواہوں نے اس کا پیچھا کیا۔ اس نے کہا : یہ میرا کھانا ہے جو مجھے اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہے۔ تم مجھ سے یہ چھین رہے ہو؟ راوی بیان کرتے ہیں کہ یہ سن کر لوگ مبہوت ہو گئے۔ اس نے کہا : تم بھیڑئیے کے کلام کرنے پر تعجب کا اظہار کر رہے ہو جبکہ محمد ﷺ پر وحی کا نزول ہوا ہے تو کون ہے جو ان کی تصدیق کرتا ہے اور کون ہے جو انہیں جھٹلاتا ہے۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام ابو نعیم نے روایت کیا ہے جیسا کہ امام ابن کثیر نے فرمایا ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

8۔ عَنْ حَمَزَةَ بْنِ أَبِي أُسَيْدٍ رضی الله عنه قَالَ : خَرَجَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فِي جِنَازَةِ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ بِالْبَقِيْعِ، فَإِذَا الذِّئْبُ مُفْتَرِشًا ذِرَاعَيْهِ عَلَی الطَّرِيْقِ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : ھَذَا أُوَيْسٌ یَسْتَفْرِضُ فَافْرِضُوْا لَهُ۔ قَالُوْا : نَرَی رَأْیَکَ، یَارَسُوْلَ اللهِ۔ قَالَ : مِنْ کُلِّ سَائِمَةٍ شَاةٌ فِي کُلِّ عَامٍ۔ قَالُوْا : کَثِيْرٌ۔ قَالَ : فَأَشَارَ إِلَی الذِّئْبِ أَنْ خَالِسْھُمْ۔ فَانْطَلَقَ الذِّئْبُ۔ رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ۔

قَالَ الْحَافِظُ ابْنُ عَدِيٍّ : قَالَ لَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنِ أَبِي دَاوُدَ : وَلَدُ ھَذَا الرَّاعِي یُقَالُ لَھُمْ : بَنُوْ مُکَلِّمِ الذِّئْبِ۔ وَلَھُمْ أَمْوَالٌ وَنَعَمٌ، وَھُمْ مِنْ خَزَاعَةَ۔ وَاسْمُ مُکَلِّمِ الذِّئْبِ أُھْبَانُ۔ قَالَ : وَمُحَمَّدُ بْنُ أَشْعَثَ الْخَزَاعِيُّ مِنْ وَلَدِهِ۔

’’حضرت حمزہ بن ابی عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : حضور نبی اکرم ﷺ انصار میں سے کسی آدمی کے جنازہ کے لیے جنت البقیع کی طرف تشریف لے گئے۔ پس آپ ﷺ نے اچانک دیکھا کہ ایک بھیڑیا اپنے بازو پھیلائے راستے میں بیٹھا ہوا ہے۔ (اسے دیکھ کر) حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یہ بھیڑیا (تم سے اپنا) حصہ مانگ رہا ہے پس اسے اس کا حصہ دو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! (اس کے حصہ کے بارے میں) ہم آپ کی رائے جاننا چاہتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ہر سال ہر چرنے والے جانور کے بدلہ میں ایک بھیڑ۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! یہ زیادہ ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے بھیڑئیے کی طرف اشارہ فرمایا کہ وہ ان سے اپنا حصہ چھین لیا کرے۔ پس (یہ سننے کے بعد) بھیڑیا چل دیا۔‘‘ اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

حافظ ابن عدی کہتے ہیں : ’’ہمیں ابو بکر بن ابی داود نے بتایا کہ اس چرواہے کی اولاد کو ’’مکلم الذئب‘‘ (بھیڑئیے سے کلام کرنے والا) کی اولاد کہا جاتا تھا۔ ان کے پاس بہت سا مال و اسباب تھا۔ اور ان کا تعلق خزاعہ قبیلہ سے تھا اور بھیڑئیے سے کلام کرنے والے شخص کا نام أُھْبَان تھا۔ اور انہوں نے کہا کہ محمد بن أشعث خزاعی ان کی اولاد میں سے تھے۔‘‘

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

9۔ رَوَی ابْنُ وَھْبٍ مِثْلَ ھَذَا أَنَّهُ جَرَی لِأَبِي سُفْیَانَ بْنِ حَرْبٍ وَصَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ مَعَ ذِئْبٍ وَجَدَاهُ أَخَذَ ظَبْیاً۔ فَدَخَلَ الظَّبْيُ الْحَرَمَ، فَانْصَرَفَ الذِّئْبُ، فَعَجِبَا مِنْ ذَلِکَ۔ فَقَالَ الذِّئْبُ : أَعْجَبُ مِنْ ذَلِکَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بِالْمَدِيْنَةِ یَدْعُوْکُمْ إِلَی الْجَنَّةِ وَتَدْعُوْنَهُ إِلَی النَّارِ۔ فَقَالَ أَبُوْ سُفْیَانَ : وَاللَّاتِ وَالْعُزَّی! لَئِنْ ذَکَرْتَ ھَذَا بِمَکَّةَ لَتَتْرُکَنَّھَاخُلُوْفًا۔ رَوَاهُ الْقَاضِي عِیَاضٌ۔

’’ابن وہب نے بھی اسی کی مثل حدیث روایت کی ہے کہ ابو سفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ کا بھی بھیڑیے کے ساتھ اسی طرح کا واقعہ پیش آیا۔ ان دونوں نے دیکھا کہ ایک بھیڑیا ایک ہرن کو پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ پس ہرن حرم میں داخل ہو گیا تو بھیڑیا واپس مڑ گیا (اور حرم میں داخل نہیں ہوا)۔ اس پر ان دونوں نے اس سے بڑا تعجب کیا۔ بھیڑیے نے کہا اس سے بھی عجیب تر بات یہ ہے کہ محمد بن عبد اللہ( ﷺ ) مدینہ میں تمہیں جنت کی طرف بلا رہے ہیں اور تم انہیں دوزخ کی طرف بلاتے ہو۔ اس پر ابو سفیان نے کہا : لات و عزّی کی قسم، اگر تویہ بات مکہ میں کہتا تو ضرور مکہ والوں کو خالی گھروں والا کردیتا (یعنی وہ یہ معجزہ دیکھ کر مدینہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں چلے جاتے)۔‘‘ اس حدیث کو قاضی عیاض نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

حضور ﷺ کے ساتھ جنگلی بیل کی محبت کا بیان

8

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

1۔ عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ : کَانَ ِلآلِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَحْشٌ۔ فَإِذَا خَرَجَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ لَعِبَ وَاشْتَدَّ وَأَقْبَلَ وَأَدْبَرَ۔فَإِذَا أَحَسَّ بِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ قَدْ دَخَلَ، رَبَضَ فَلَمْ یَتَرَمْرَمْ، مَا دَامَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فِي الْبَيْتِ، کَرَاھِیَةَ أَنْ یُؤْذِیَهُ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْیَعْلَی۔

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی آل (یعنی اہلِ بیت) کے لئے ایک بیل رکھا گیا۔ جب حضور نبی اکرم ﷺ باہر تشریف لاتے تو وہ کھیلتا کودتا اور (خوشی سے) جوش میں آجاتا اور (حالتِ وجد میں) کبھی آگے بڑھتا اور کبھی پیچھے آتا۔ اور جب وہ یہ محسوس کرتا کہ حضور نبی اکرم ﷺ اندر تشریف لے گئے ہیں تو پھر ساکت کھڑا ہو جاتا اور کوئی حرکت نہ کرتا جب تک کہ آپ ﷺ گھر میں موجود رہتے اس ڈر سے کہ کہیں آپ ﷺ کو تکلیف نہ ہو۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام احمد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

2۔ عَنْ مُجاهِدٍ عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ : کَانَ لِآلِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَحْشٌ۔ فَکانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إذا خَرَجَ لَعِبَ وَاشْتَدَّ وَأَقْبَلَ وَأَدْبَرَ۔ فَإِذَا أَحَسَّ أنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَدْ دَخَلَ، رَبَضَ فَلَمْ یَتَرَمْرَمْ، مَا دَامَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فِي الْبَيْتِ، مَخَافَةَ أَنْ یُؤْذِیَهُ۔ رَوَاهُ أَبُوْ یَعْلَی۔

’’حضرت مجاہد سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : حضور نبی اکرم ﷺ کی اہلِ بیت کے لئے ایک بیل تھا۔ حضور نبی اکرم ﷺ جب باہر تشریف لاتے تو وہ کھیلتا اور (فرحتِ دیدار سے) جوش میں آجاتا اور(وجد کرتا ہوا) کبھی آگے بڑھتا اور کبھی پیچھے آتا ۔ جب وہ یہ محسوس کرتا کہ حضور نبی اکرم ﷺ اندر تشریف لے گئے ہیں تو پھر اس ڈر سے کہ کہیں آپ ﷺ کو تکلیف نہ ہو سکون سے کھڑا ہوجاتا اور کوئی حرکت نہ کرتا جب تک کہ آپ ﷺ گھر میں موجود رہتے ۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

حضور ﷺ کے ساتھ پرندوں کی محبت کا بیان

9

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

1۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قاَلَ : کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي سَفَرٍ فَمَرَرْنَا بِشَجَرَةٍ فِيْھَا فَرْخَا حُمَّرَةٍ، فَأَخَذْنَاھُمَا۔ قَالَ : فَجَاءَتِ الْحُمَّرَةُ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ وَھِيَ تَعَرَّضُ، فَقَالَ : مَنْ فَجَعَ ھَذِهِ بِفَرْخَيْھَا؟ قَالَ : قُلْنَا : نَحْنُ۔ قَالَ : رُدُّوْھُمَا قَالَ : فَرَدَدْنَاھُمَا إِلَی مَوَاضِعِھِمَا۔ رَوَاهُ الْبَيْھَقِيُّ۔

’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں حضورنبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے ہم ایک درخت کے پاس سے گزرے جس میں چَنڈُول (ایک خوش آواز چڑیا) کے دو بچے تھے۔ ہم نے وہ دوبچے اُٹھا لئے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ چَنڈُول حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں شکایت کرتے ہوئے حاضر ہوئی۔ پس آپ ﷺ نے فرمایا : کس نے اس چَنڈُول کو اس کے بچوں کی وجہ سے تکلیف دی ہے؟ راوی بیان کرتے ہیں : ہم نے عرض کیا : ہم نے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اس کے بچے اسے لوٹا دو۔ راوی بیان کرتے ہیں : پس ہم نے وہ دو بچے جہاں سے لئے تھے وہیں رکھ دیے۔‘‘ اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

2۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِذَا أَرَادَ الْحَاجَةَ أَبْعَدَ الْمَشْيَ فَانْطَلَقَ ذَاتَ یَوْمٍ لِحَاجَتِهِ ثُمَّ تَوَضَّأَ وَلَبِسَ أَحَدَ خَفَّيْهِ فَجَاءَ طَائِرٌ أَخْضَرُ فَأَخَذَ الْخُفَّ الْآخَرَ فَارْتَفَعَ بِهِ ثُمَّ أَلْقَاهُ فَخَرَجَ مِنْهُ أَسْوَدُ سَابِحٌ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : ھَذِهِ کَرَامَةٌ أَکْرَمَنِيَ اللهُ بِھَا ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اَللَّھُمَّ، إِنِّي أَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَنْ یَمْشِي عَلَی بَطْنِهِ وَمِنْ شَرِّ مَنْ یَمْشِي عَلَی رِجْلَيْنِ وَمِنْ شَرِّ مَنْ یَمْشِي عَلَی أَرْبَعٍ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ۔

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضي اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب قضائے حاجت کا ارادہ فرماتے تو آبادی سے دور تشریف لے جاتے۔ آپ ﷺ ایک دن قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے پھر وضو فرمایا اور اپنے دو موزوں میں سے ایک موزہ پہنا کہ اچانک ایک سبز پرندہ آیا اور آپ ﷺ کا دوسرا موزہ لے اڑا، پھر اسے نیچے پھینکا تو اس میں سے ایک سیاہ سانپ نکلا (اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم ﷺ کی اس موذی جانور سے حفاظت فرمائی) آپ ﷺ نے فرمایا : یہ وہ چیز ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے میری تکریم فرمائی ہے۔ پھر حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں ہر اس (موذی جانور) سے جو پیٹ کے بل چلتاہے اور ہر اس کے شر سے جو دو ٹانگوں پر چلتا ہے اور اس کے شر سے جو چار ٹانگوں پر چلتاہے۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام طبرانی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

3۔ عَنْ أَبِيأُمَامَةَ قَالَ : دَعَا رَسُولُ الله ﷺ بِخُفَّيْهِ، یَلْبَسُهُمَا فَلَبِسَ أَحَدَھُمَا، ثُمَّ جَاءَ غُرَابٌ فَاحْتَمَلَ الآخَرَ فَرَمَی بَهِ، فَخَرَجَتْ مِنْهُ حَيَّةٌ، فَقَالَ رَسُوْلُ الله ﷺ : مَنْ کَانَ یُؤمِنُ بِاللهِ وَالیَوْمِ الآخِرِ فَـلَا یَلْبَسْ خُفَّيْهِ حَتّی یَنْفُضَھُمَا۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔

’’حضرت ابو اُمامہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے دونوں موزے پہننے کے لیے منگوائے۔ آپ ﷺ نے ایک موزہ پہنا تھا کہ ایک کوا آیا اور دوسرا موزہ اُٹھا کر لے گیا اور اُوپر جا کر پھینک دیا۔ اس موزے میں سے ایک سانپ نکلا، حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص اللہ تعالیٰ اور یومِ آخرت پراِیمان رکھتا ہے تو وہ اپنے موزے جھاڑے بغیر نہ پہنے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ گوہ کی محبت کا بیان

10

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

1۔ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه قَالَ : إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ کَانَ فِي مَحْفَلٍ مِنْ أَصْحَابِهِ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ أَعْرَابِيٌّ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ قَدْ صَادَ ضَبًّا وَجَعَلَهُ فِي کُمِّهِ فَذَھَبَ بِهِ إِلَی رَحْلِهِ۔ فَرَأَی جَمَاعَةً فَقَالَ : عَلَی مَنْ ھَذِهِ الْجَمَاعَةُ؟ فَقَالُوْا : عَلَی ھَذَا الَّذِي یَزْعَمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ۔ فَشَقَّ النَّاسَ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ، مَا اشْتَمَلَتِ النِّسَاءُ عَلَی ذِي لَھْجَةٍ أَکْذَبَ مِنْکَ وَلاَ أَبْغَضَ۔ وَلَوْ لَا أَنْ یُّسَمِّیَنِي قَوْمِي عَجُوْلاً لَعَجِلْتُ عَلَيْکَ فَقَتَلْتُکَ، فَسَرَرْتُ بِقَتْلِکَ النَّاسَ جَمِيْعًا۔ فَقَالَ عُمَرُ رضی الله عنه : یَارَسُوْلَ اللهِ، دَعْنِي أَقْتُلْهُ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْحَلِيْمَ کَادَ أَنْ یَکُوْنَ نَبِیًّا ثُمَّ أَقْبَلَ ]الْأَعْرَابِيُّ[ عَلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَالَ : وَاللاَّتِ وَالْعُزَّی، لَا آمَنْتُ بِکَ۔ وَقَدْ قَالَ لَهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : یَا أَعْرَابِيُّ، مَاحَمَلَکَ عَلَی أَنْ قُلْتَ مَا قُلْتَ، وَقُلْتَ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَمْ تُکْرِمْ مَجْلِسِي؟ فَقَالَ : وَتُکَلِّمُنِي أَيْضًا! اِسْتِخْفَافًا بِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ ، وَاللاَّتِ وَالْعُزَّی، لَا آمَنْتُ بِکَ أَوْ یُؤْمِنُ بِکَ ھَذَا الضَّبُ۔ فَأَخْرَجَ ضَبًّا مِنْ کُمِّهِ وَطَرَحَهُ بَيْنَ یَدَيْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَالَ : إِنْ آمَنَ بِکَ ھَذَا الضَّبُ آمَنْتُ بِکَ۔

فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : یَاضَبُّ۔ فَتَکَلَّمَ الضَّبُ بِکَلاَمٍ عَرَبِيٍّ مُبِيْنٍ فَھِمَهُ الْقَوْمُ جَمِيْعًا : لَبَّيْکَ وَسَعْدَيْکَ، یَارَسُوْلَ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ تَعْبُدُ؟ قَالَ : الَّذِي فِي السَّمَائِ عَرْشُهُ وَفِي الْأَرْضِ سُلْطَانُهُ وَفِي الْبَحْرِ سَبِيْلُهُ وَفِي الْجَنَّةِ رَحْمَتُهُ وَفِي النَّارِ عَذَابُهُ۔ قَالَ : فَمَنْ أَنَا، یَا ضَبُّ؟ قَالَ : أَنْتَ رَسُوْلُ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ، قَدْ أَفْلَحَ مَنْ صَدَّقَکَ، وَقَدْ خَابَ مَنْ کَذَّبَکَ۔

فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ : أَشْھَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَأَنَّکَ رَسُوْلُ اللهِ حَقًّا۔ لَقَدْ أَتَيْتُکَ وَمَا عَلَی وَجْهِ الْأَرْضِ أَحَدٌ ھُوَ أَبْغَضُ إِلَيَّ مِنْکَ، وَاللهِ، لَأَنْتَ السَّاعَةَ أَحَبُّ إِلَيَّ مَنْ نَفْسِي وَمِنْ وَالِدِي۔ وَقَدْ آمَنَتْ بِکَ شَعَرِي وَبَشَرِي وَدَاخِلِي وَخَارِجِي وَسِرِّي وَعَـلَانِیَتِي۔ فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اَلْحَمْدُ ِللهِ الَّذِي ھَدَاکَ إِلَی ھَذَا الدِّيْنِ الَّذِي یَعْلُوْ وَلاَ یُعْلَی۔ لَا یَقْبَلُهُ اللهُ إِلاَّ بِصَلَاةٍ وَلاَ یُقْبَلُ الصَّلَاةُ إِلاَّ بِقِرَائَ ةٍ۔ فَعَلَّمَهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ ’’اَلْحَمْدُ‘‘ وَ ’’قُلْ ھُوَاللهُ أَحَدٌ‘‘۔ فَقَالَ : یَارَسُوْلَ اللهِ، مَا سَمِعْتُ فِي الْبَسِيْطِ وَلاَ فِي الرَّجَزِ أَحْسَنَ مِنْ ھَذَا۔ فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّ ھَذَا کَلَامُ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ وَلَيْسَ بِشِعْرٍ۔ إِذَا قَرَأْتَ ’’قُلْ ھُوَ اللهُ أَحَدٌ‘‘ مَرَّةً فَکَأَنَّمَا قَرَأْتَ ثُلُثَ الْقُرْآنِ وَإِذَا قَرَأْتَ ’’قُلْ ھُوَ اللهُ أَحَدٌ‘‘ مَرَّتَيْنِ فَکَأَنَّمَا قَرَأْتَ ثُلُثَيِ الْقُرْآنِ، وَإِذَا قَرَأْتَ ’’قُلْ ھُوَ اللهُ أَحَدٌ‘‘ ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ فَکَأَنَّمَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ کُلَّهُ۔ فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ وَنِعْمَ الْإِلٓهُ إِلٓھُنَا، یَقْبَلُ الْیَسِيْرَ وَیُعْطِي الْجَزِيْلَ۔

فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَعْطُوْا الْأَعْرَابِيَّ۔ فَأَعْطُوْهُ حَتَّی أَبْطَرُوْهُ۔ فَقَامَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ فَقَالَ : یَارَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي أُرِيْدُ أَنْ أُعْطِیَهُ نَاقَةً أَتَقَرَّبُ بِھَا إِلَی اللهِ دُوْنَ الْبُخْتِي وَفَوْقَ الْأَعْرَابِيِّ وَھِيَ عُشَرَاءُ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : قَدْ وَصَفْتَ مَا تُعْطِي، فَأَصِفُ لَکَ مَا یُعْطِيْکَ اللهُ جَزَاءً؟ قَالَ : نَعَمْ۔ قَالَ : لَکَ نَاقَةٌ مِنْ دُرَّةٍ جَوْفَاءَ، قَوَائِمُھَا مِنْ زَبَرْجَدٍ أَخْضَرَ وَعُنُقُھَا مِنْ زَبَرْجَدٍ أَصْفَرَ۔ عَلَيْھَا ھَوْدَجٌ، وَعَلَی الْھَوْدَجِ السُّنْدُسُ وَالإِسْتَبْرَقُ تَمُرُّ بِکَ عَلَی الصِّرَاطِ کَالْبَرْقِ الْخَاطِفِ۔ فَخَرَجَ الْأَعْرَابِيُّ مِنْ عِنْدِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ، فَلَقِیَهُ أَلْفُ أَعْرَابِيٍ عَلَی أَلْفِ دَابَةٍ بِأَلْفِ رُمْحٍ وَأَلْفِ سَيْفٍ۔ فَقَالَ لَھُمْ : أَيْنَ تُرِيْدُوْنَ؟ فَقَالُوْا : نُقَاتِلُ ھَذَا الَّذِي یَکْذِبُ وَیَزْعَمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ۔ فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ : أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ۔ فَقَالُوْا لَهُ : صَبَوْتَ؟ قَالَ : مَا صَبَوْتُ وَحَدَّثَهُمُ الْحَدِيْثَ۔ فَقَالُوْا بِأَجْمِعِهِمْ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ۔ فَبَلَغَ ذَلِکَ النَّبِيَّ ﷺ ، فَتَلَقَّاهُمْ بِلَا رِدَاءٍ فَنَزَلُوْا عَنْ رِکَابِهِمْ یُقَبِّلُوْنَ مَا وَلَّوْا مِنْهُ وَهُمْ یَقَوْلُوْنَ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ۔ فَقَالُوْا : مُرْنَا بِأَمْرٍ تُحِبُّهُ، یَا رَسُوْلَ اللهِ۔ قَالَ : تَکُوْنُوْنَ تَحْتَ رَایَةِ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيْدِ۔ قَالَ : فَلَيْسَ أَحَدٌ مِنَ الْعَرَبِ آمَنَ مِنْهُمْ أَلْفُ رَجُلٍ جَمِيْعًا غَيْرَ بَنِي سُلَيْمٍ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْبَيْھَقِيُّ۔

’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم ﷺ اپنے صحابہ کی محفل میں تشریف فرما تھے کہ بنو سلیم کا ایک آیا۔ اس نے ایک گوہ کا شکار کیا تھا اور اسے اپنی آستین میں چھپا کر اپنی قیام گاہ کی طرف لے جارہا تھا۔ اس نے جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت کو دیکھا تو اس نے کہا : یہ لوگ کس کے گرد جمع ہیں؟ لوگوں نے کہا : اس کے گرد جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ وہ لوگوں کے درمیان سے گزرتا ہوا حضور نبی اکرم ﷺ کے سامنے آ کھڑا ہوا اور کہنے لگا : اے محمد ( ﷺ )! کسی عورت کا بیٹا تم سے بڑھ کر جھوٹا اور مجھے ناپسند نہیں ہو گا۔ اگر مجھے اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ میری قوم مجھے جلد باز کہے گی تو تمہیں قتل کرنے میں جلدی کرتا اور تمہارے قتل سے تمام لوگوں کو خوش کرتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ سے عرض کیا : یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیں کہ میں اس (گستاخ) کو قتل کر دوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اے عمر! کیا تم جانتے نہیں کہ حلیم و بردبار آدمی ہی نبوت کے لائق ہوتا ہے۔ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا : مجھے لات و عزیٰ کی قسم! میں تم پر ایمان نہیں رکھتا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس سے پوچھا : اے اعرابی! کس چیز نے تمہیں اس بات پر ابھارا ہے کہ تم میری مجلس کی تکریم کو بالائے طاق رکھ کر ناحق گفتگو کرو؟ اس نے بے ادبی سے رسول اللہ ﷺ سے کہا : کیا آپ بھی میرے ساتھ ایسے ہی گفتگو کریں گے؟ اور کہا : مجھے لات و عزیٰ کی قسم! میں آپ پر اس وقت تک ایمان نہیں لاؤں گا جب تک یہ گوہ آپ پر ایمان نہیں لاتی۔ اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی آستین سے گوہ نکال کر حضور نبی اکرم ﷺ کے سامنے پھینک دی اور کہا : اگر یہ گوہ آپ پر ایمان لے آئے تو میں بھی ایمان لے آؤں گا۔

’’پس حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے گوہ (کلام کر)! پس گوہ نے ایسی واضح اورفصیح عربی میں کلام کیا کہ جسے تمام لوگوں نے سمجھا۔ اس گوہ نے عرض کیا : اے دوجہانوں کے رب کے رسول! میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس سے پوچھا : تم کس کی عبادت کرتی ہو؟ اس نے عرض کیا : میں اس کی عبادت کرتی ہوں جس کا عرش آسمانوں میں ہے، زمین پر جس کی حکمرانی ہے اور سمندر پر جس کا قبضہ ہے، جنت میں جس کی رحمت ہے اور دوزخ میں جس کا عذاب ہے۔ آپ ﷺ نے پھر پوچھا : اے گوہ! میں کون ہوں؟ اس نے عرض کیا : آپ دو جہانوں کے رب کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں۔ جس نے آپ کی تصدیق کی وہ فلاح پاگیا اور جس نے آپ کی تکذیب کی وہ ذلیل و خوار ہوگیا۔

’’اعرابی یہ دیکھ کر بول اٹھا : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ جب میں آپ کے پاس آیا تھا تو روئے زمین پر آپ سے بڑھ کر کوئی شخص مجھے ناپسند نہ تھا، اور بخدا! اِس وقت آپ مجھے اپنی جان اور اولاد سے بھی بڑھ کر محبوب ہیں۔ میرے جسم کا ہر بال اور ہر رونگٹا، میرا عیاں و نہاں اور میرا ظاہر و باطن آپ پر ایمان لاچکا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس اللہ جل مجدهٗ کے لئے ہی ہر تعریف ہے جس نے تجھے اس دین کی طرف ہدایت دی جو ہمیشہ غالب رہے گا اور کبھی مغلوب نہیں ہوگا۔ اس دین کو اللہ تعالیٰ صرف نماز کے ساتھ قبول کرتا ہے اور نماز قرآن پڑھنے سے ہی قبول ہوتی ہے۔ پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے اسے سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص سکھائیں۔ وہ عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! میں نے بسیط اور رجز (عربی شاعری کے سولہ اوزان میں سے دو وزن) میں اس سے حسین کلام کبھی نہیں سنا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس سے فرمایا : یہ رب دوجہاں کا کلام ہے، شاعری نہیں۔ جب تم نے سورہ اخلاص کو ایک مرتبہ پڑھ لیا تو گویا تم نے ایک تہائی قرآن پڑھنے کا ثواب پالیا اور اگر اسے دو مرتبہ پڑھا تو سمجھو کہ تم نے دو تہائی قرآن پڑھنے کا ثواب پالیا۔ اور تم نے اسے تین مرتبہ پڑھ لیا تو گویا تم نے پورے قرآن کا ثواب پالیا۔ پھر اعرابی نے کہا ہمارا معبود تمام معبودوں سے بہتر ہے جو تھوڑے عمل کو قبول فرماتا ہے اور بے حد و حساب عطا فرماتا ہے۔

’’پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا : اس اعرابی کی کچھ مدد کرو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے اتنا دیا کہ اسے (کثرتِ مال کی وجہ سے) بے نیاز کر دیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میں انہیں ایک اونٹنی دے کر قربِ الٰہی حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ یہ فارسی النسل اونٹنی سے چھوٹی اور عربی النسل اونٹوں سے تھوڑی بڑی ہے اور یہ دس ماہ کی حاملہ ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم جو اونٹنی اسے دوگے اس کی تم نے صفات بیان کردی ہیں، اب میں تمہارے لئے اس اونٹنی کی صفات بیان کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ تمہیں اس کی جزاء میں عطا فرمائے گا؟ انہوں نے عرض کیا : ہاں (ضرور بیان فرمائیے)۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تمہیں سوراخ دار موتیوں کی اونٹنی ملے گی جس کے پاؤں سبز زمرد کے ہوں گے اور جس کی گردن زرد زبرجد کی ہوگی اور اس پر کجاوہ ہوگا جو کہ کریب اور ریشم کا بنا ہوگا۔ وہ پل صراط سے تمہیں بجلی کے کوندے کی طرح گزار دے گی۔ پھر وہ اعرابی حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ سے باہر نکلا۔ راستے میں اسے ایک ہزار اعرابی ملے جو ہزار سواریوں پر سوار تھے اور ہزار تیروں اور ہزار تلواروں سے مسلح تھے۔ اس نے ان سے پوچھا : تم کہاں جا رہے ہو؟ انہوں نے کہا : ہم اس سے لڑنے جا رہے ہیں جو کذب بیانی سے کام لیتا ہے اور یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ نبی ہے۔ اس اعرابی نے ان سے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ انہوں نے کہا : تم نے بھی نیا دین اختیار کرلیا ہے؟ اس نے کہا : میں نے نیا دین اختیار نہیں کیا (بلکہ دین حق اختیار کیا ہے)۔ پھر اس نے انہیں (گوہ سے متعلق) تمام بات سنائی۔ یہ سن کر ہر کوئی کہنے لگا : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ تک جب یہ خبر پہنچی تو آپ ﷺ انہیں ملنے کے لئے (تیزی سے) بغیر چادر کے باہر تشریف لائے۔ وہ آپ ﷺ کو دیکھ کر اپنی سواریوں سے کود پڑے اور حضور نبی اکرم ﷺ کے جس حصہ تک ان کی رسائی ہوئی اسے چومنے لگے اور ساتھ ساتھ کہنے لگے : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ پھر انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ ہمیں اس چیز کا حکم دیں جو آپ کو پسند ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تم خالد بن ولید کے جھنڈے تلے ہوگے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ سارے عرب میں صرف بنو سلیم کے ہی ایک ہزار لوگ بیک وقت ایمان لائے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی، ابو نعیم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ شیر کی محبت کا بیان

11

شیر کے متعلق کئی مختلف احادیث مبارکہ ہیں اُن میں سے صرف ایک روایت پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں جسے امام طبرانیؒ ’’المعجم الکبیر‘‘، امام حاکمؒ ’’المستدرک علی الصحیحین‘‘، امام ابو بکر بیہقیؒ ’’دلائل النبوۃ‘‘ اور حافظ ابن کثیر ؒ ’’السیرۃ النبویہ‘‘ میں رقم فرماتے ہیں کہ:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

’’حضرت سفینہ (رضی اللہ عنہا) فرماتے ہیں کہ میں سمندر میں کشتی پہ سوار ہوا پس وہ ٹوٹ گئی تو میں اس کے ایک تختے پہ سوار ہو گیا اور اس نے مجھے جنگل میں ڈال دیا جس میں شیر تھا، مجھے اس سے ڈر نہیں لگا-میں نے ا س سے کہا:

يَا أَبَا الْحَارِثِ، أَنَا مَوْلَى رَسُوْلِ اللّهِ ﷺ فَطَأْطَأَ رَأْسَهٗ، وَغَمَزَ بِمَنْكِبِهٖ

اے ابو حارث!مَیں رسول اللہ ﷺ کا غلام ہوں تو اس نے اپناسر جھکا دیا اور کندھوں سے اشارہ کیا –

وہ مجھے اشارہ کرتا رہا اور راستے کی طرف رہنمائی کرتا رہا، یہاں تک کہ اس نے مجھے راستے تک پہنچا دیا،پس جب اس نے مجھےراستے پہ پہنچادیا ، تو وہ کچھ بولا،

فَظَنَنْتُ أَنَّهٗ يُوَدِّعُنِيْ

میرے گمان کے مطابق وہ مجھے الوداع کہ رہاتھا-

امام حاکمؒ اس حدیت پا ک کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ

’السيرة النبویۃ – ابن کثیر‘کی روایت کے آخر ی الفاظ یہ ہیں:

فَظَنَنْتُ أَنَّهُ السَّلَامُ.

میرے گمان کے مطابق وہ شیر مجھے سلام کر رہاتھا۔

حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ جمادات کی محبت کا بیان

(4)

حضور ﷺ کے ساتھ پہاڑوں کی محبت

1

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

1۔ عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ رضی الله عنه قَالَ : أَقْبَلْنَا مَعَ النَّبِيِ ﷺ مِنْ غَزْوَةِ تَبُوْکَ حَتَّی إِذَا أَشْرَفْنَا عَلَی الْمَدِيْنَةِ قَالَ : ھَذِهِ طَابَةُ وَھَذَا أُحُدٌ جَبَلٌ یُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

’’حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ہم غزوہ تبوک سے واپسی کے دوران حضورنبی اکرم ﷺ کے ہمراہ تھے۔ جب ہم مدینہ منورہ کے نزدیک پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ طابہ (یعنی مدینہ منورہ) ہے اور یہ اُحد پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘

حوالاجات

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

2۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : صَعِدَ النَّبِيُّ ﷺ إِلَی أُحُدٍ وَمَعَهُ أَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ۔ فَرَجَفَ بِهِمْ فَضَرَبَهُ بِرِجْلِهِ وَقَالَ : اثْبُتْ أُحُدُ۔ فَمَا عَلَيْکَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيْقٌ أَوْ شَهِيْدَانِ۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ یَعْلَی۔

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز حضور نبی اکرم ﷺ کوهِ اُحد پر چڑھے اور آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم تھے۔ پہاڑ کو وجد آیا تو آپ ﷺ نے اسے اپنے پاؤں کے ساتھ ٹھوکر مارتے ہوئے فرمایا : اُحد ٹھہر جا! تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا اور کوئی نہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری، ابن حبان اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

3۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ کَانَ عَلَی حِرَاءٍ ھُوَ وَأَبُوْبَکْرِ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَطَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ فَتَحَرَّکَتِ الصَّخْرَةُ۔ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : اھْدَأْ، فَمَا عَلَيْکَ إلاَّ نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيْقٌ أَوْ شَھِيْدٌ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ۔

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ حرا پہاڑ پر تشریف فرما تھے۔ آپ ﷺ کے ساتھ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم بھی تھے۔ اتنے میں پہاڑ نے حرکت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا : ٹھہر جا، کیونکہ تیرے اوپر نبی، صدیق اور شہید کے سوا کوئی نہیں ہے۔‘‘

حوالاجات

اسے امام مسلم اور امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

4۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ کَانَ عَلَی جَبَلِ حِرَاء فَتَحَرَّکَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اسْکُنْ حِرَاءُ، فَمَا عَلَيْکَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيْقٌ أَوْ شَهِيْدٌ وَعَلَيْهِ النَّبِيُّ ﷺ وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَطَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ رضی الله عنهم ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ حرا پہاڑ پر تھے، وہ ہلنے لگا، حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے حرا ٹھہر جا! تجھ پر صرف نبی ہے، یا صدیق ہے، یا شہید ہے۔ اس پہاڑ پر حضور نبی اکرم ﷺ تھے اور حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم تھے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم، ابو داود اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

5۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَلَی حِرَاءٍ فَتَزَلْزَلَ الْجَبَلُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اثْبُتْ حِرَاءُ، مَا عَلَيْکَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيْقٌ أَوْ شَهِيْدٌ۔ وَعَلَيْهِ النَّبِيُّ ﷺ وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَطَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ وَسَعِيْدُ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ رضی الله عنهم ۔

رَوَاهُ أَبُوْ یَعْلَی وَالطَّبَرَانِيُّ۔

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ جبلِ حراء پر تھے کہ وہ کانپنے لگا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے حراء ٹھہر جا، تجھ پر سوائے نبی، صدیق یا شہید کے کوئی نہیں۔ اور اس پر حضور نبی اکرم ﷺ ، ابو بکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر عبد الرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص اور سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہم تھے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابو یعلی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

6۔ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ سَالِمِ الْمَازِنِيِّ قَالَ : سَمِعْتُ سَعِيْدَ بْنَ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ قَالَ : لَمَّا قَدِمَ فُـلَانٌ إِلَی الْکُوْفَةِ أَقَامَ فُـلَانٌ خَطِيْبًا فَأَخَذَ بِیَدِي سَعِيْدُ بْنُ زَيْدٍ فَقَالَ : أَلَا تَرَی إِلَی هَذَا الظَّالِمِ فَأَشْهَدُ عَلَی التِّسْعَةِ إِنَّهُمْ فِي الْجَنَّةِ وَلَوْ شَهِدْتُ عَلَی الْعَاشِرِ لَمْ إِيْثَمْ قَالَ ابْنُ إِدْرِيْسَ : وَالْعَرَبُ تَقُوْلُ آثَمُ قُلْتُ : وَمَنْ التِّسْعَةُ؟ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ وَهُوَ عَلَی حِرَاءٍ : اثْبُتْ حِرَاءُ، إِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْکَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيْقٌ أَوْ شَهِيْدٌ قُلْتُ : وَمَنْ التِّسْعَةُ؟ قَالَ : رَسُوْلُ اللهِ ﷺ وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَطَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ قُلْتُ وَمَنِ الْعَاشِرُ؟ فَتَلَکَّأَ هُنَيَّةً ثُمَّ قَالَ : أَنَا۔

رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَحْمَدُ۔

’’عبد اللہ بن سالم مازنی کا بیان ہے کہ میں نے حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے سنا۔ عبد اللہ کا بیان ہے کہ جب فلاں کوفے میں آیا اور اُس نے فلاں کو خطبہ دینے کے لیے کھڑا کیا تو حضرت سعید بن زید نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : کیا تم اس ظالم کو نہیں دیکھتے۔ نو (9) حضرات کے متعلق تو میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ جنتی ہیں اور اگر دسویں کے متعلق بھی گواہی دوں تو گنہگار نہیں ہوں گا۔ میں عرض گزار ہوا کہ وہ نو حضرات کون ہیں؟ ارشاد ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جبکہ آپ حراء کے اوپر تھے : اے حراء ٹھہر جا کیونکہ تیرے اوپر نبی، صدیق اور شہیدوں کے سوا کوئی نہیں ہے۔ نو حضرات کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وہ ابو بکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر، سعد بن ابی وقاص اور عبد الرحمن بن عوف ہیں۔ میں عرض گزار ہوا کہ دسواں کون ہے؟ وہ کچھ دیر خاموش رہے اور پھر فرمایا کہ میں ہوں۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام ابوداود، ابن ابی شیبہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

7۔ عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ حَزْنٍ الْقُشَيْرِيِّ قَالَ : شَهِدْتُ الدَّارَ حِيْنَ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ عُثْمَانُ فَقَالَ۔۔۔۔أَنْشُدُکُمْ بِاللهِ وَالْإِسْلَامِ هَلْ تَعْلَمُوْنَ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ کَانَ عَلَی ثَبِيْرِ مَکَّةَ وَمَعَهُ أَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَأَنَا فَتَحَرَّکَ الْجَبَلُ حَتَّی تَسَاقَطَتْ حِجَارَتُهُ بِالْحَضِيْضِ قَالَ : فَرَکَضَهُ بِرِجْلِهِ وَقَالَ : اسْکُنْ ثَبِيْرُ، فَإِنَّمَا عَلَيْکَ نَبِيٌّ وَصِدِّیقٌ وَشَهِيْدَانِ قَالُوْا : اَللّٰھُمَّ، نَعَمْ۔ قَالَ : اللهُ أَکْبَرُ شَهِدُوْا لِي وَرَبِّ الْکَعْبَةِ أَنِّي شَهِيْدٌ ثَـلَاثًا۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ۔ وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ۔

حوالاجات

قال القاضي أبو بکر بن العربي رحمه الله تعالی في العارضۃ : … إنما اضطربت الصخرۃ ورجف الجبل استعظاماً لما کان علیه من الشرف، وبمن کان علیه من الأشراف۔(1)

حوالاجات

قال ابن المنیر – فیما نقله القسطلاني – رحمهما الله تعالی، في الإرشاد : الحکمۃ في ذلک أنه لما ارتجف أراد النبي ﷺ أن یبین أن هذه الرجفۃ لیست من جنس رجفۃ الجبل بقوم موسی علیه السلام لَمَّا حرَّفوا الکَلِمَ، فتلک رجفۃ الغضب، وهذه هزۃ الطرب، ولهذا نص علی مقام النبوۃ والصِّدِّیقیۃ والشهادۃ، التي توجب سرور ما اتصلت به، فأقر الجبل بذلک، فاستقر۔(2)

حوالاجات

’’حضرت ثمامہ بن حزم قشیری بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دولت کدہ کے پاس آیا۔ اس وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ گھر کے اوپر سے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرما رہے تھے۔۔۔۔۔میں تمہیں اللہ تعالیٰ اور اسلام کی قسم دیتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ حضور نبی اکرم ﷺ ثبیرِ مکہ پر تھے اور آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر، عمر اور میں (ث) بھی تھا۔ پہاڑ متحرک ہوا یہاں تک کہ اس کے پتھر نیچے گرنے لگے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے پائوں کی ٹھوکر مار کر فرمایا ٹھہر ثبیر! ٹھہر جا، کیونکہ تیرے اُوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔ محاصرین نے کہا ہاں (ٹھیک ہے)۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ اکبر! ان لوگوں نے میرے حق میں گواہی دی۔ رب کعبہ کی قسم میں شہید ہوں، تین مرتبہ فرمایا۔‘‘

’’قاضی ابو بکر بن العربی رحمہ اللہ تعالی ’’عارضۃ الأحوذي‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ بے شک چٹان تھرتھرانے لگی اور پہاڑ لرزاں ہوگئے، اُس شرف کو بڑا جانتے ہوئے جو اشرافِ عرب کاان پر جلوہ افروز ہونے سے انہیں ملا۔‘‘

’’ابن منیر نے – امام قسطلانی رحمہما اللہ تعالی نے جو کچھ نقل کیا ہے – کے بارے میں ’’الارشاد الساري‘‘ میں بیان کیا ہے کہ اس چیز میں جو حکمت پنہاں ہے وہ یہ ہے کہ جب وہ پہاڑ لرزاں ہوا تو حضورنبی اکرم ﷺ نے چاہا کہ وہ یہ بیان فرما دیں کہ یہ وہ لرزہ اور تھرتھراہٹ نہیں ہے جو قوم موسیٰ علیہ السلام پر پہاڑ کی ہوئی تھی جب انہوں نے کلمات میں تحریف کے جرم کا ارتکاب کیا، پس وہ تھرتھراہٹ غضب کی تھی، اور یہ خوشی اور قرب کی تھی، اسی لیے آپ ﷺ نے مقام نبوت، صدیقیت اور شہادت کو بیان فرما دیا، جو موجب سرور و فرحت ہیں، پس پہاڑ نے بھی اس چیز کا اقرار کیا اور پھر استقرار پکڑ لیا۔‘‘

حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ پتھروں کی محبت

2

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

1۔ عَنْ أَبِي مُوْسَی الْأَشْعَرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : خَرَجَ أَبُوْ طَالِبٍ إِلَی الشَّامِ وَخَرَجَ مَعَهُ النَّبِيُّ ﷺ فِي أَشْیَاخٍ مِنْ قُرَيْشٍ۔ فَلَمَّا أَشْرَفُوْا عَلَی الرَّاهِبِ هَبَطَ فَحَلُّوْا رِحَالَهُمْ فَخَرَجَ إِلَيْهِمُ الرَّاهِبُ وَکَانُوْا قَبْلَ ذَلِکَ یَمُرُّوْنَ بِهِ فَـلَا یَخْرُجُ إِلَيْهِمْ وَلَا یَلْتَفِتُ۔ قَالَ : فَهُمْ یَحُلُّوْنَ رِحَالَهُمْ، فَجَعَلَ یَتَخَلَّلُهُمُ الرَّاهِبُ حَتَّی جَائَ فَأَخَذَ بِیَدِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَقَالَ : هَذَا سَيِّدُ الْعَالَمِيْنَ، هَذَا رَسُوْلُ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، یَبْعَثُهُ اللهُ رَحْمَةً لِلْعَالَمِيْنَ۔ فَقَالَ لَهُ أَشْیَاخٌ مِنْ قُرَيْشٍ : مَا عِلْمُکَ؟ فَقَالَ : إِنَّکُمْ حِيْنَ أَشْرَفْتُمْ مِنَ الْعَقَبَةِ لَمْ یَبْقَ شَجَرٌ وَلَا حَجَرٌ إِلَّا خَرَّ سَاجِدًا وَلَا یَسْجُدَاِن إِلَّا لِنَبِيٍّ… الحدیث۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْبَزَّارُ۔ وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ۔

’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں : حضرت ابو طالب روسائے قریش کے ہمراہ شام کی طرف روانہ ہوئے۔ حضور نبی اکرم ﷺ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ راستے میں جب وہ راہب کے پاس پہنچے تو حضرت ابو طالب اپنی سواری سے نیچے اتر آئے۔ باقی لوگوں نے بھی اپنے کجاوے کھول دیئے۔ راہب ان کی طرف نکلا حالانکہ اس سے پہلے وہ اس کے پاس سے گزرا کرتے تھے لیکن وہ ان کے پاس نہیں آیا کرتا تھا اور نہ ہی ان کی طرف متوجہ ہوتا تھا۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ ابھی کجاوے کھول ہی رہے تھے کہ وہ ان کے درمیان چلنے لگا یہاں تک کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے قریب پہنچا اور آپ ﷺ کا ہاتھ پکڑ کر کہا : یہ تمام جہانوں کا سردار اور رب العالمین کا رسول ہے! وہ انہیں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر مبعوث کرے گا۔ روسائے قریش نے اس سے پوچھا : تمہیں کس نے بتایا؟ اس نے کہا : جب تم لوگ عقبہ سے چلے تو تمام درخت اور پتھر ان کو سجدہ کر رہے تھے اور وہ صرف نبی کو ہی سجدہ کرتے ہیں۔…‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام ترمذی، حاکم، ابن ابی شیبہ اور بزار نے روایت کیا ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

2۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّ بِمَکَّةَ حَجَرًا کَانَ یُسَلِّمُ عَلَيَّ لَیَالِيَ بُعِثْتُ؛ إِنِّي لَأَعْرِفُهُ الْآنَ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالطِّیَالِسِيُّ وَأَبُویَعْلَی وَالطَّبَرَانِيُّ۔ وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔

’’حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مکہ مکرمہ میں ایک پتھر ہے جو مجھے بعثت کی راتوں میں سلام کیا کرتا تھا۔ میں اسے اب بھی پہچانتا ہوں۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام ترمذی، احمد، طیالسی، ابو یعلی اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور ابوعیسیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

3۔ عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ : کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ بِمَکَّةَ۔ فَخَرَجَ فِي بَعْضِ نَوَاحِيْهَا فَمَا اسْتَقْبَلَهُ شَجَرٌ وَلَا جَبَلٌ إِلَّا قَالَ : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ، یَا رَسُوْلَ اللهِ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ والْحَاکِمُ وَاللَّفْظُ لَهُ۔ وَقَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ۔

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ہم مکہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ تھے۔ آپ ﷺ مکہ کے گرد و نواح میں گئے تو راستے میں جو پتھر اور درخت آپ ﷺ کے سامنے آتا تو وہ کہتا : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ، یَا رَسُولَ اللهِ ’یا رسول اللہ! آپ پر سلام ہو۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ الفاظ حاکم کے ہیں اور امام حاکم فرماتے ہیں : یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

4۔ عَنْ عِبَادٍ قَالَ : سَمِعْتُ عَلِیًّا رضی الله عنه یَقُوْلُ : لَقَدْ رَأَيْتُنِي أَدْخُلُ مَعَهُ یَعْنِي النَّبِيَّ ﷺ الْوَادِيَّ۔ فَـلَا یَمُرُّ بِحَجَرٍ وَلَا شَجَرٍ إِلَّا قَالَ : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ، یَا رَسُوْلَ اللهِ، وَأَنَا أَسْمَعُهُ۔ رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ۔

’’حضرت عباد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا : میں نے دیکھا کہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ فلاں فلاں وادی میں داخل ہوا۔ آپ ﷺ جس بھی پتھر یا درخت کے پاس سے گزرتے تو وہ کہتا : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ، یَا رَسُوْلَ اللهِ ’یا رسول اللہ! آپ پر سلام ہو‘ اور میں یہ تمام سن رہا تھا۔‘‘ اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

5۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : قَدِمَ وَفْدُ الْیَمَنِ عَلَی رَسُوْلِ اللهِ، ﷺ فَقَالُوْا : … یَا أَبَا الْقَاسِمِ، إِنَّا قَدْ خَبَأْنَا لَکَ خَبِيْئًا۔ فَقَالَ : سُبْحَانَ اللهِ، إِنَّمَا یُفْعَلُ ھَذَا بِالْکَاھِنِ؛ وَالْکَاھِنُ وَالْمُتَکَھِّنُ وَالْکَھَانَةُ فِي النَّارِ۔ فَقَالَ لَهُ أَحَدُھُمْ : فَمَنْ یَشْھَدُ لَکَ أَنَّکَ رَسُوْلُ اللهِ؟ قَالَ : فَضَرَبَ بِیَدِهِ إِلَی حَفْنَةِ حَصْبَائَ فَأَخَذَھَا فَقَالَ : ھَذَا یَشْھَدُ أَنِّي رَسُوْلُ اللهِ۔ قَالَ : فَسَبَّحْنَ فِي یَدِهِ وَقُلْنَ : نَشْھَدُ أَنَّکَ رَسُوْلُ اللهِ۔ رَوَاهُ الْحَکِيْمُ التِّرْمِذِيُّ۔

’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے : یمن سے ایک وفد حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا : … اے ابو القاسم! ہم نے آزمائش کے طور پر آپ سے ایک چیز چھپا رکھی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : سبحان اللہ، ایسا تو کاہنوں سے کیا جاتاہے۔ اور کاہن (اٹکل سے آئندہ کی باتیں بتانے والا) اور متکہن (اپنے آپ کو کاہن ظاہر کرنے والا) اور کہانت جہنم میں ہوں گے۔ اُن میں سے کسی نے کہا : اس بات کی کون گواہی دیتا ہے کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں؟ راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے تھوڑی سی کنکریوں کی طرف ہاتھ بڑھایا ور انہیں مٹھی میں لے کر فرمایا : یہ گواہی دیں گی کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ کنکریوں نے تسبیح پڑھی اور پکار اٹھیں کہ ہم گواہی دیتی ہیں کہ آپ ﷺ بلا شبہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے رسول ہیں۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام حکیم ترمذی نے روایت کیا ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

6۔ عَنْ عَبَّاسٍ قَالَ : شَهِدْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ یَوْمَ حُنَيْنٍ فَلَزِمْتُ أَنَا وَأَبُوْ سُفْیَانَ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فَلَمْ نُفَارِقْهُ وَرَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَلَی بَغْلَةٍ لَهُ بَيْضَاءَ أَهْدَاهَا لَهُ فَرْوَةُ بْنُ نُفَاثَةَ الْجُذَامِيُّ فَلَمَّا الْتَقَی الْمُسْلِمُوْنَ وَالْکُفَّارُ وَلَّی الْمُسْلِمُوْنَ مُدْبِرِيْنَ فَطَفِقَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَرْکُضُ بَغْلَتَهُ قِبَلَ الْکُفَّارِ ۔۔۔۔ أَخَذَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ حَصَیَاتٍ فَرَمَی بِهِنَّ وُجُوْهَ الْکُفَّارِ ثُمَّ قَالَ : انْهَزَمُوْا وَرَبِّ مُحَمَّدٍ قَالَ : فَذَهَبْتُ أَنْظُرُ فَإِذَا الْقِتَالُ عَلَی هَيْئَتِهِ فِيْمَا أَرَی قَالَ : فَوَاللهِ، مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَمَاهُمْ بِحَصَیَاتِهِ فَمَا زِلْتُ أَرَی حَدَّهُمْ کَلِيْلًا وَأَمْرَهُمْ مُدْبِرًا۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَأَحْمَدُ۔

’’حضرت عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ حنین میں، میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھا، میں اور حضرت ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ساتھ رہے، اور آپ سے بالکل الگ نہیں ہوئے۔ حضور نبی اکرم ﷺ اس سفید رنگ کی خچر پر سوار تھے جو آپ کو فروہ بن نفاثہ جذامی نے ہدیہ کی تھی، جب مسلمانوں اور کفار کا مقابلہ ہوا تو مسلمان پیٹھ پھیر کر بھاگے۔ حضور نبی اکرم ﷺ اپنے خچر کو کفار کی جانب دوڑا رہے تھے … پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے چند کنکریاں اُٹھائیں اور کفار کے چہروں کی طرف پھینکیں اور فرمایا : رب محمد کی قسم! یہ ہار گئے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں دیکھ رہا تھا لڑائی اسی تیزی کے ساتھ جاری تھی، میں اسی طرح دیکھ رہا تھا کہ اچانک آپ نے کنکریاں پھینکیں بخدا میں نے دیکھا کہ ان کا زور ٹوٹ گیا اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگنے لگے۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام مسلم، عبدالرزاق اور احمد نے روایت کیا ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

7۔ عَنْ جَابِرٍ قَالَ : دَخَلْنَا مَعَ النَّبَيِّ ﷺ مَکَّةَ فِي الْبَيْتِ وَحَوْلَ الْبَيْتِ ثَـلَاثُمِائَةٍ وَسِتُّوْنَ صَنَمًا تُعْبَدُ مِنْ دُوْنِ اللهِ۔ قَالَ : فَأَمَرَ بِھَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَکَبَّتْ کُلُّھَا لِوَجْهِهَا ثُمَّ قَالَ : {جَآءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَهُوْقًاo} [الإسراء، 17 : 81]۔ رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ۔

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کی معیت میں مکہ مکرمہ میں بیت اللہ میں داخل ہوئے اور خانہ کعبہ میں اس وقت تین سو ساٹھ بت تھے، جن کی اللہ کے مقابلہ میں عبادت کی جاتی تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے انہیں حکم دیا تو وہ سارے کے ساے منہ کے بل گر پڑے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا : {حق آگیا اور باطل بھاگ گیا، بے شک باطل نے زائل و نابود ہی ہو جانا ہےo}۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

8۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : دَخَلَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَوْمَ الْفَتْحِ وَعَلَی الْکَعْبَةِ ثَـلَاثُ مِائَةِ صَنَمٍ وَسِتُّوْنَ صَنَمًا، قَدْ شَدَّ لَھُمْ إِبْلِيْسُ أَقْدَامَھُمْ بِالرَّصَاصِ، فَجَاءَ وَمَعَهُ قَضِيْبُهُ، فَجَعَلَ یَهْوِي بِهِ إِلَی کُلِّ صَنَمٍ مِنْھَا، فَیَخِرُّ لِوَجْهِهِ وَیَقُوْلُ : {جَآءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَهُوْقًاo} [الإسراء، 17 : 81] حَتَّی أَمَّرَ بِهِ عَلَيْھَا کُلِّھَا۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ فتح مکہ والے دن کعبہ میں داخل ہوئے، اور (اس وقت) اس میں تین سو ساٹھ بت پڑے ہوئے تھے، شیطان نے جن کے پاؤں آہنی زنجیروں سے جکڑ رکھے تھے، پس حضور نبی اکرم ﷺ ادھر تشریف لائے اور آپ ﷺ کے دست اقدس میں اپنا عصا مبارک بھی تھا۔ آپ ﷺ اس عصا کے ساتھ ان بتوںمیں سے ہر بت کی طرف آئے تو ہر بت اوندھے منہ گرتا جاتا اور آپ ﷺ اس وقت یہ آیہ کریمہ پڑھ رہے تھے : {حق آگیا اور باطل بھاگ گیا، بے شک باطل نے زائل و نابود ہی ہو جانا ہےo} یہاں تک کہ آپ ﷺ نے اپنے اس عصا کے ذریعے سارے بت گرا دیے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ زمینی اشیا کی محبت کا بیان

(5)

حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ پانی کی محبت

1

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

1۔ عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : أُتِيَ النَّبِيُّ ﷺ بِإِنَاءٍ، وَھُوَ بِالزَّوْرَاءِ، فَوَضَعَ یَدَهُ فِي الإِنَاءِ، فَجَعَلَ الْمَاءُ یَنْبُعُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ، فَتَوَضَّأَ الْقَوْمُ۔ قَالَ قَتَادَةُ : قُلْتُ لِأَنَسٍ : کَمْ کُنْتُمْ؟ قَالَ : ثَـلَاثَ مِائَةٍ، أَوْ زُھَاءَ ثَـلَاثِ مِائَةٍ۔ وفي روایۃ : لَوْ کُنَّا مِائَةَ أَلْفٍ لَکَفَانَا کُنَّا خَمْسَ عَشْرَةَ مِائَةً۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں پانی کا ایک برتن پیش کیا گیا اور آپ ﷺ زوراء کے مقام پر تھے۔ آپ ﷺ نے برتن کے اندر اپنا دستِ مبارک رکھ دیا تو آپ ﷺ کی مبارک انگلیوں کے درمیان سے پانی کے چشمے پھوٹ نکلے اور تمام لوگوں نے وضو کر لیا۔ حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا : آپ کتنے (لوگ) تھے؟ انہوں نے جواب دیا : تین سو یا تین سو کے لگ بھگ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ہم اگر ایک لاکھ بھی ہوتے تو وہ پانی سب کے لئے کافی ہوتا لیکن ہم پندرہ سو تھے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

2۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ رضی الله عنه قَالَ : کُنَّا نَعُدُّ الآیَاتِ بَرَکَةً، وَأَنْتُمْ تَعُدُّوْنَھَا تَخْوِيْفًا، کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فِي سَفَرٍ، فَقَلَّ الْمَاءُ، فَقَالَ : اطْلُبُوْا فَضْلَةً مِنْ مَاءٍ۔ فَجَاؤُوْا بِإِنَاءٍ فِيْهِ مَاءٌ قَلِيْلٌ، فَأَدْخَلَ یَدَهُ فِي الْإِنَاءِ ثُمَّ قَالَ : حَيَّ عَلَی الطَّھُوْرِ الْمُبَارَکِ، وَالْبَرَکَةُ مِنَ اللهِ۔ فَلَقَدْ رَأَيْتُ الْمَائَ یَنْبُعُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ، وَلَقَدْ کُنَّا نَسْمَعُ تَسْبِيْحَ الطَّعَامِ وَھُوَ یُؤْکَلُ۔

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ۔ وَقَالَ أَبُوْعِيْسَی : ھَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔

’’حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم تو معجزات کو برکت شمار کرتے تھے تم انہیں خوف دلانے والے شمار کرتے ہو۔ ہم ایک سفر میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ تھے کہ پانی کی قلت ہو گئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کچھ بچا ہوا پانی لے آؤ، لوگوں نے ایک برتن آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں پیش کیا جس میں تھوڑا سا پانی تھا۔ آپ ﷺ نے اپنا دستِ اقدس اس برتن میں ڈالا اور فرمایا : پاک برکت والے پانی کی طرف آؤ اور برکت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ میں نے دیکھا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی مبارک انگلیوں سے (چشمہ کی طرح) پانی ابل رہا تھا۔ علاوہ ازیں ہم کھانا کھاتے وقت کھانے سے تسبیح کی آواز سنا کرتے تھے۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام بخاری اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

3۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ : عَطِشَ النَّاسُ یَوْمَ الْحُدَيْبِیَةِ، وَالنَّبِيُّ ﷺ بَيْنَ یَدَيْهِ رِکْوَةٌ فَتَوَضَّأَ، فَجَھِشَ النَّاسُ نَحْوَهُ، فَقَالَ : مَا لَکُمْ؟ قَالُوْا : لَيْسَ عِنْدَنَا مَاءٌ نَتَوَضَّأُ وَلَا نَشْرَبُ إِلَّا مَا بَيْنَ یَدَيْکَ، فَوَضَعَ یَدَهُ فِي الرِّکْوَةِ، فَجَعَلَ الْمَاءُ یَثُوْرُ بَيْنَ أَصَابِعِهِ کَأَمْثَالِ الْعُیُوْنِ، فَشَرِبْنَا وَتَوَضَّأْنَا قُلْتُ : کَمْ کُنْتُمْ؟ قَالَ : لَوْکُنَّا مِائَةَ أَلْفٍ لَکَفَانَا‘ کُنَّا خَمْسَ عَشْرَةَ مِائَةً۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ۔

’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حدیبیہ کے دن لوگوں کو پیاس لگی۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے سامنے پانی کی ایک چھاگل رکھی ہوئی تھی آپ ﷺ نے اس سے وضو فرمایا : لوگ آپ ﷺ کی طرف جھپٹے تو آپ ﷺ نے فرمایا : تمہیں کیا ہوا ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہمارے پاس وضو کے لئے پانی ہے نہ پینے کے لئے۔ صرف یہی پانی ہے جو آپ کے سامنے رکھا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے (یہ سن کر) دستِ مبارک چھاگل کے اندر رکھا تو فوراً چشموں کی طرح پانی انگلیوں کے درمیان سے جوش مار کر نکلنے لگا، ہم سب نے (خوب پانی) پیا اور وضو بھی کر لیا۔ (سالم راوی کہتے ہیں : ) میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا : اس وقت آپ کتنے آدمی تھے؟ انہوں نے کہا : اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تب بھی وہ پانی سب کے لئے کافی ہو جاتا، جبکہ ہم تو پندرہ سو تھے۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام بخاری اور احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

4۔ عَنِ الْبَرَاءِ رضی الله عنه قَالَ : کُنَّا یَوْمَ الْحُدَيْبِیَةِ أَرْبَعَ عَشْرَةَ مِائَةً وَالْحُدَيْبِیَةُ بِئْرٌ، فَنَزَحْنَاھَا حَتَّی لَمْ نَتْرُکْ فِيْھَا قَطْرَةً، فَجَلَسَ النَّبِيُّ ﷺ عَلَی شَفِيْرِ الْبِئْرِ فَدَعَا بِمَاءٍ، فَمَضْمَضَ وَمَجَّ فِي الْبِئْرِ، فَمَکَثْنَا غَيْرَ بَعِيْدٍ، ثُمَّ اسْتَقَيْنَا حَتَّی رَوِيْنَا، وَرَوَتْ أَوْ صَدَرَتْ رَکَائِبُنَا۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ۔

(1) الإمام القسطلاني في المواهِب اللّدنّیّۃ بِالْمنحِ الْمحمّدیّۃ، 2 / 227۔

’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ واقعہ حدیبیہ کے روز ہماری تعداد چودہ سو تھی۔ ہم حدیبیہ کے کنویں سے پانی نکالتے رہے یہاں تک کہ ہم نے اس میں پانی کا ایک قطرہ بھی نہ چھوڑا۔ (صحابہ کرام پانی ختم ہو جانے سے پریشان ہو کر بارگاهِ رسالت ﷺ میں حاضر ہوئے) سو حضور نبی اکرم ﷺ کنویں کے منڈیر پر آ بیٹھے اور پانی طلب فرمایا : اس سے کلی فرمائی اور وہ پانی کنویں میں ڈال دیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد (پانی اس قدر اوپر آ گیا کہ) ہم اس سے پانی پینے لگے، یہاں تک کہ خوب سیراب ہوئے اور ہمارے سواریوں کے جانور بھی سیراب ہو گئے۔‘‘ اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

’’امام قسطلانیؒ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا ایک معجزہ آپ کی انگلیوں کے درمیان سے پانی کا جاری ہونا ہے اور یہ سب سے معزز پانی تھا۔ امام قرطبیؒ فرماتے ہیں : آپ ﷺ کی انگلیوں کے درمیان سے پانی نکلنے کا واقعہ مختلف مقامات میں متعدد بار ہوا ہے اور یہ بہت سے طرق کے ساتھ مروی ہے جن کا جمع ہونا علم قطعی یقینی کا فائدہ دیتا ہے جو تواتر معنوی سے حاصل ہوتی ہے اور اس قسم کا معجزہ ہمارے نبی اکرم ﷺ کے علاوہ کسی سے نہیں سنا گیا۔ آپ ﷺ کی مبارک ہڈیوں، پٹھوں، گوشت اور خون کے درمیان سے پانی نکلا۔ ابن عبد البر نے (اسماعیل بن یحییٰ بن اسماعیل امام جلیل متوفی 264ھ) مزنی ؒ سے نقل کیا وہ فرماتے ہیں : رسول اکرم ﷺ کی انگلیوں کے درمیان سے پانی کا نکلنا پتھر سے پانی کے نکلنے کے مقابلے میںزیادہ بلیغ (مؤثر) بات ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پتھر پر عصا مارا تو اس سے چشمے پھوٹ نکلے اور پـتھرسے پانی کا نکلنا معروف بات ہے جبکہ گوشت اور خون سے پانی کے نکلنے میں یہ بات نہیں ہے۔‘‘

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

5۔ عَنْ زِیَادِ بْنِ الْحَارِثِ الصُّدَائِيِّ رضی الله عنه قَالَ۔۔۔۔ قَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّ لَنَا بِئْرًا، إِذَا کَانَ الشِّتَا وَسِعَنَا مَاؤُھَا فَاجْتَمَعْنَا عَلَيْهِ وَإِذَا کَانَ الصَّيْفُ قَلَّ وَتَفَرَّقْنَا عَلَی مِیَاهٍ حَوْلَنَا، وَإِنَّا لَا نَسْتَطِيْعُ الْیَوْمَ أَنْ نَتَفَرَّقَ۔ کُلُّ مَنْ حَوْلَنَا عَدُوٌّ، فَادْعُ اللهَ یَسَعْنَا مَاؤُهَا، فَدَعَا بِسَبْعِ حَصَیَاتٍ فَنَقَدَهُنَّ فِي کَفِّهِ ثُمَّ قَالَ : إِذَنِ اسْتَمَوْهَا فَالْقُوْا وَاحِدَةً وَاحِدَةً، وَاذْکُرُوا اسْمَ اللهِ، فَمَا اسْتَطَاعُوْا أَنْ یَنْظُرُوْا إِلَی قَعْرِهَا بَعْدُ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْأَصْبَهَانِيُّ وَالْفَرْیَابِيُّ۔

’’صحابی رسول حضرت زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ (میرے قبیلے کے) لوگوں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہمارا ایک کنواں ہے، جب سردیوں کا موسم ہو تو اس کا پانی ہمارے لیے کافی ہوتا ہے اور وہ ہماری ضرورت پوری کرتا ہے لیکن جب گرمی آتی ہے تو اس کا پانی کم ہو جاتا ہے اور ہمیں پانی پینے کے لئے اردگرد جانا پڑتا ہے، جبکہ ہم مسلمان ہو چکے ہیں اور ہمارے اردگرد سب ہمارے دشمن ہیں۔ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ ا للہ تعالیٰ ہمارے کنویں کا پانی بڑھا دے تاکہ ہم اس کو جمع کر لیں اور ہمیں پانی کے لئے ادھر ادھر نہ جانا پڑے۔ آپ ﷺ نے سات کنکریاں منگوائیں اور انہیں اپنے ہاتھ میں گھمایا اور دعا فرمائی، پھر فرمایا : ان کنکریوں کو لے جائو اور جب تم اپنے کنویں پر پہنچو تو ایک ایک کر کے ان کنکریوں کو اس میں ڈالتے جانا اور ان پر اللہ تعالیٰ کا نام لینا۔ حضرت حارث صدائی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے ایسا ہی کیا جیسا کہ آپ ﷺ نے ہمیں حکم دیا تھا تو اس کے بعد (کنویں کا پانی اتنا بڑھ گیا کہ) ہم کنویں کی تہہ کو کبھی نہ دیکھ سکے۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام طبرانی، اصبہانی اور فریابی نے روایت کیا ہے۔

حضور ﷺ کے ساتھ کھانے کی محبت

2

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

1۔ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ : کَانَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ یُحَدِّثُ أَنَّ یَھُوْدِيَّةً مِنْ أَھْلِ خَيْبَرَ سَمَّتْ شَاةً مَصْلِیَةً ثُمَّ أَھْدَتْھَا لِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَأَخَذَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ الذِّرَاعَ فَأَکَلَ مِنْھَا وَأَکَلَ رَھْطٌ مِنْ أَصْحَابِهِ مَعَهُ، ثُمّ قَالَ لَھُمْ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : ارْفَعُوْا أَيْدِیَکُمْ وَأَرْسَلَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِلَی الْیَهُوْدِيَّةِ فَدَعَاھَا فَقَالَ لَهَا : أَسَمَمْتِ ھَذِهِ الشَّاةَ؟ قَالَتِ الْیَهُوْدِيَّةُ : مَنْ أَخْبَرَکَ؟ قَالَ : أَخْبَرَتْنِي ھَذَهِ فِي یَدِي الذِّرَاعُ۔ قَالَتْ : نَعَمْ۔ قَالَ : فَمَا أَرَدْتِ إِلَی ذَلِکَ؟ قَالَتْ : قُلْتُ : إِنْ کَانَ نَبِیًّا فَلَمْ یَضُرَّهُ، وَإِنْ لَمْ یَکُنْ نَبِیًّا اِسْتَرَحْنَا مِنْهُ۔ رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالدَّارِمِيُّ۔

’’ابن شہاب نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ خیبر والوں میں ایک یہودیہ عورت نے بکری کے بھنے ہوئے گوشت میں زہر ملایا اور پھر وہ گوشت حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس تحفے کے طور پر بھیج دیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اُس کی دستی لی اور اُس سے کھایا اور آپ کے صحابہ میں سے چند اور نے بھی کھایا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام کو فرمایا : اپنے ہاتھ روک لو۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اُس عورت کے پاس ایک آدمی بھیجا جو اُسے بلا کر لایا۔ آپ ﷺ نے اُسے فرمایا : کیا تم نے اس گوشت میں زہر ملایا ہے؟ یہودیہ عورت نے کہا : آپ کو کس نے بتایا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اسی دستی(گوشت) نے بتایا ہے جو میرے ہاتھ میں ہے۔ اس پر اُس عورت نے کہا : ہاں (میں نے زہر ملایا ہے)۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس سے تمہارا کیا ارادہ تھا؟ اس نے کہا کہ اگر آپ نبی ہیں تو یہ زہر آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا اور اگر نبی نہیں ہیں تو ہمیں آپ سے نجات مل جائے گی۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام ابو داود اور دارمی نے روایت کیا ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

2۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ : لَمَّا حُفِرَ الْخَنْدَقُ رَأَيْتُ بِالنَّبِيِّ ﷺ خَمَصًا شَدِيْدًا فَانْکَفَأْتُ إِلَی امْرَأَتِي فَقُلْتُ : هَلْ عِنْدَکِ شَیئٌ فَإِنِّي رَأَيْتُ بِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ خَمَصًا شَدِيْدًا فَأَخْرَجَتْ إِلَيَّ جِرَابًا فِیهِ صَاعٌ مِنْ شَعِيْرٍ وَلَنَا بُهَيْمَةٌ دَاجِنٌ فَذَبَحْتُهَا وَطَحَنَتِ الشَّعِيْرَ فَفَرَغَتْ إِلَی فَرَاغِي وَقَطَّعْتُهَا فِي بُرْمَتِهَا ثُمَّ وَلَّيْتُ إِلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَالَتْ : لَا تَفْضَحْنِي بِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَبِمَنْ مَعَهُ فَجِئْتُهُ فَسَارَرْتُهُ فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، ذَبَحْنَا بُهَيْمَةً لَنَا وَطَحَنَّا صَاعًا مِنْ شَعِيْرٍ کَانَ عِنْدَنَا فَتَعَالَ أَنْتَ وَنَفَرٌ مَعَکَ فَصَاحَ النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ : یَا أَهْلَ الْخَنْدَقِ، إِنَّ جَابِرًا قَدْ صَنَعَ سُوْرًا فَحَيَّ هَلًا بِکُمْ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَا تُنْزِلُنَّ بُرْمَتَکُمْ وَلَا تَخْبِزُنَّ عَجِيْنَکُمْ حَتَّی أَجِیئَ فَجِئْتُ وَجَاء رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَقْدُمُ النَّاسَ حَتَّی جِئْتُ امْرَأَتِي فَقَالَتْ : بِکَ وَبِکَ فَقُلْتُ : قَدْ فَعَلْتُ الَّذِي قُلْتِ فَأَخْرَجَتْ لَهُ عَجِيْنًا فَبَصَقَ فِيْهِ وَبَارَکَ ثُمَّ عَمَدَ إِلَی بُرْمَتِنَا فَبَصَقَ وَبَارَکَ ثُمَّ قَالَ ادْعُ خَابِزَةً فَلْتَخْبِزْ مَعِي وَاقْدَحِي مِنْ بُرْمَتِکُمْ وَلَا تُنْزِلُوْهَا وَهُمْ أَلْفٌ فَأُقْسِمُ بِاللهِ لَقَدْ أَکَلُوْا حَتَّی تَرَکُوْهُ وَانْحَرَفُوْا وَإِنَّ بُرْمَتَنَا لَتَغِطُّ کَمَا هِيَ وَإِنَّ عَجِيْنَنَا لَیُخْبَزُ کَمَا هُوَ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

’’سعید بن میناء کا بیان ہے کہ میں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب خندق کھودی جارہی تھی تو میں نے دیکھا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کو سخت بھوک لگی ہے۔ میں اپنی بیوی کے پاس آکر کہنے لگا کہ کھانے کی کوئی چیز ہے؟ کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سخت بھوک کی ہالت میں دیکھا ہے۔ اس نے بوری نکالی تو اس میں ایک صاع جو تھے اور ہمارے پاس بکری کا ایک بچہ تھا۔ میں نے بکری کا بچہ ذبح کیا اور بیوی نے جو پیس لئے۔ میں نے گوشت کی بوٹیاں بناکر انہیں ہانڈی میں ڈال دیا۔ جب میں بارگاہ رسالت میں حاضر ہونے کی خاطر جانے لگا تو بیوی نے کہا : کہیں مجھے رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کے سامنے شرمسار نہ کرنا۔ میں نے حاضرِ خدمت ہو کر سرگوشی کے انداز میں عرض کی : یا رسول اللہ! ہم نے بکری کا ایک بچہ ذبح کیا ہے اور ہمارے پاس ایک صاع جو کا آٹا ہے پس آپ ﷺ چند حضرات کو ساتھ لے کر تشریف لے چلیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے بآواز بلند فرمایا کہ اے خندق والو! جابر نے تمہارے لئے ضیافت کا بندوبست کیا ہے لهٰذا آؤ چلو۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ میرے آنے تک ہانڈی نہ اتارنا اور روٹیاں نہ پکوانا۔ حضور نبی اکرم ﷺ تشریف لے آئے اور آپ ﷺ لوگوں کے آگے آگے تھے۔ جب میں گھر گیا تو بیوی نے گھبرا کر مجھ سے کہا کہ آپ نے تو میرے ساتھ وہی بات کر دی جس کا خدشہ تھا۔ میں نے کہا کہ تم نے جو کچھ کہا وہ میں نے عرض کر دیا تھا پس حضور نبی اکرم ﷺ نے آٹے میں لعاب دہن ڈالا اور برکت کی دعا مانگی۔ پھر ہنڈیا میں لعاب دہن ڈالا اور دعائے برکت کی۔ اس کے بعد فرمایا کہ روٹی پکانے والی ایک اور بلا لو تاکہ میرے سامنے روٹیاں پکائے اور تمہاری ہانڈی سے گوشت نکال کر دیتی جائے اور فرمایا کہ ہانڈی کو نیچے نہ اتارنا۔ کھانے والوں کی تعداد ایک ہزار تھی۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم! سب نے کھانا کھا لیا یہاں تک کہ سارے شکم سیر ہو کر چلے گئے اور کھانا پیچھے بھی چھوڑ گئے۔ دیکھا گیا تو ہانڈی میں اتنا ہی گوشت موجود تھا جتنا پکنے کے لئے رکھا تھا اور ہمارا آٹا بھی اتنا ہی تھا جتنا کہ پکانے سے پہلے تھا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

3۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ یَقُوْلُ : قَالَ أَبُوْ طَلْحَةَ لِأُمِّ سُلَيْمٍ : لَقَدْ سَمِعْتُ صَوْتَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ضَعِيْفًا أَعْرِفُ فِيْهِ الْجُوْعَ فَهَلْ عِنْدَکِ مِنْ شَیئٍ قَالَتْ : نَعَمْ، فَأَخْرَجَتْ أَقْرَاصًا مِنْ شَعِيْرٍ ثُمَّ أَخْرَجَتْ خِمَارًا لَهَا فَلَفَّتِ الْخُبْزَ بِبَعْضِهِ ثُمَّ دَسَّتْهُ تَحْتَ یَدِي وَلَاثَتْنِي بِبَعْضِهِ ثُمَّ أَرْسَلَتْنِي إِلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ قَالَ : فَذَهَبْتُ بِهِ فَوَجَدْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فِي الْمَسْجِدِ وَمَعَهُ النَّاسُ فَقُمْتُ عَلَيْهِمْ فَقَالَ لِي رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : آرْسَلَکَ أَبُوْ طَلْحَةَ؟ فَقُلْتُ : نَعَمْ قَالَ : بِطَعَامٍ فَقُلْتُ : نَعَمْ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ لِمَنْ مَعَهُ : قُوْمُوْا فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقْتُ بَيْنَ أَيْدِيْهِمْ حَتَّی جِئْتُ أَبَا طَلْحَةَ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ أَبُوْ طَلْحَةَ : یَا أُمَّ سُلَيْمٍ، قَدْ جَائَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِالنَّاسِ وَلَيْسَ عِنْدَنَا مَا نُطْعِمُهُمْ فَقَالَتْ : اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ فَانْطَلَقَ أَبُوْ طَلْحَةَ حَتَّی لَقِيَ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فَأَقْبَلَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ وَأَبُوْ طَلْحَةَ مَعَهُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : هَلُمِّي یَا أُمَّ سُلَيْمٍ، مَا عِنْدَکِ فَأَتَتْ بِذَلِکَ الْخُبْزِ فَأَمَرَ بِهِ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَفُتَّ وَعَصَرَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ عُکَّةً فَأَدَمَتْهُ ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فِيْهِ مَا شَائَ اللهُ أَنْ یَقُوْلَ ثُمَّ قَالَ : ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَکَلُوْا حَتَّی شَبِعُوْا ثُمَّ خَرَجُوْا ثُمَّ قَالَ : ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَکَلُوْا حَتَّی شَبِعُوْا ثُمَّ خَرَجُوْا ثُمَّ قَالَ : ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَکَلُوْا حَتَّی شَبِعُوْا ثُمَّ خَرَجُوْا ثُمَّ قَالَ : ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَکَلَ الْقَوْمُ کُلُّهُمْ وَشَبِعُوْا وَالْقَوْمُ سَبْعُوْنَ أَوْ ثَمَانُوْنَ رَجُلًا۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ام سلیم رضي اللہ عنہا (والدۂ حضرت انس) سے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کی آواز سنی ہے جس میں ضعف محسوس ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ بھوکے ہیں۔ کیا تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا اور چند جو کی روٹیاں نکال لائیں۔ پھر اپنا ایک دوپٹہ نکالا اور اس کے ایک پلے روٹیاں لپیٹ دیں پھر روٹیاں میرے سپرد کر کے باقی دوپٹہ مجھے اُڑھا دیا اور مجھے رسول اللہ ﷺ کی جانب روانہ کر دیا۔ میں روٹیاں لے کر گیا تو رسول اللہ ﷺ کو مسجد میں پایا شمع رسالت کے گرد چند پروانے بھی موجود تھے۔ میں ان کے پاس کھڑا ہوگیا تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کیا تمہیں ابو طلحہ نے کھانا دے کر بھیجا ہے؟ میں عرض گزار ہوا : ہاں۔ پس حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا : کھڑے ہو جاؤ۔ پھر آپ ﷺ چل پڑے میں ان سے آگے چل دیا اور جاکر حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو بتا دیا۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے ام سلیم! رسول اللہ ﷺ لوگوں کو لے کر غریب خانے پر تشریف لا رہے ہیں اور ہمارے پاس انہیں کھلانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ عرض گزار ہوئیں : اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ پس حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ فوراً رسول اللہ ﷺ کے استقبال کو نکل کھڑے ہوئے، یہاں تک کہ رسول خدا کے پاس جاپہنچے۔ پس رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو ساتھ لیا اور ان کے گھر جلوہ فرما ہو گئے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے ام سلیم! جو کچھ تمہارے پاس ہے لے آو۔ انہوں نے وہی روٹیاں حاضر خدمت کر دیں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ان کے ٹکڑے کرنے کا حکم فرمایا اور حضرت ام سلیم رضي اللہ عنہا نے سالن کی جگہ کپی سے سارا گھی نکال لیا۔ پھر رسول خدا نے اس پر وہی کچھ پڑھا جو خدا نے چاہا۔ پھر فرمایا کہ دس آدمیوں کو کھانے کے لیے بلا لو۔ پس انہوں نے سیر ہو کر کھانا کھا لیا اور چلے گئے۔ پھر فرمایا : دس آدمی کھانے کے لیے اور بلا لو۔ چنانچہ وہ بھی سیر ہو کر چلے گئے۔ پھر کھانے کے لیے دس اور آدمیوں کو بلا لو۔ پس انہیں بلایا گیا۔ وہ بھی شکم سیر ہو کر کھاچکے اور چلے گئے۔ پھر دس آدمیوں کو بلانے کے لیے فرمایا گیا اور اسی طرح جملہ حضرات نے شکم سیر ہو کر کھانا کھا لیا۔ جملہ مہمان ستر یا اسی افراد تھے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

4۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَکْرٍ رضي الله عنهما قَالَ : کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ ثَـلَاثِيْنَ وَمِائَةً فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : هَلْ مَعَ أَحَدٍ مِنْکُمْ طَعَامٌ فَإِذَا مَعَ رَجُلٍ صَاعٌ مِنْ طَعَامٍ أَوْ نَحْوُهُ فَعُجِنَ ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ مُشْرِکٌ مُشْعَانٌّ طَوِيْلٌ بِغَنَمٍ یَسُوْقُهَا فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : بَيْعًا أَمْ عَطِيَّةً أَوْ قَالَ أَمْ هِبَةً قَالَ : لَا بَلْ بَيْعٌ فَاشْتَرَی مِنْهُ شَاةً فَصُنِعَتْ وَأَمَرَ النَّبِيُّ ﷺ بِسَوَادِ الْبَطْنِ أَنْ یُشْوَی وَايْمُ اللهِ، مَا فِي الثَّــلَاثِيْنَ وَالْمِائَةِ إِلَّا قَدْ حَزَّ النَّبِيُّ ﷺ لَهُ حُزَّةً مِنْ سَوَادِ بَطْنِهَا إِنْ کَانَ شَاهِدًا أَعْطَاهَا إِيَّاهُ وَإِنْ کَانَ غَائِبًا خَبَأَ لَهُ فَجَعَلَ مِنْهَا قَصْعَتَيْنِ فَأَکَلُوْا أَجْمَعُوْنَ وَشَبِعْنَا فَفَضَلَتْ الْقَصْعَتَانِ فَحَمَلْنَاهُ عَلَی الْبَعِيْرِ أَوْ کَمَا قَالَ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

’’حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہم ایک سو تیس افراد حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ تھے۔ حضور نبی ا کرم ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم میں سے کسی کے پاس کھانا ہے؟ ایک آدمی کے پاس صاع کے لگ بھگ آٹا تھا، اسے وہ گوندھا گیا۔ پھر ایک مشرک، بکھرے ہوئے بالوں والا، دراز قد ریوڑ کو ہانکتا ہوا آ گیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس سے بکری بیچنے یا عطیہ دینے کے لیے پوچھا، یا فرمایا کہ ہبہ۔ اس نے کہا : نہیں بلکہ بیچتا ہوں، تو اس سے ایک بکری خرید لی۔ پھر اسے بنایا گیا اور حضور نبی اکرم ﷺ نے کلیجی بھوننے کا حکم فرمایا۔ خدا کی قسم ایک سو تیس افراد میں سے ایک بھی نہ بچا جس کو حضور نبی اکرم ﷺ نے کلیجی میں سے حصہ نہ دیا ہو۔ اگر کوئی حاضر تھا تو اسے حصہ دے دیا گیا اور جو موجود نہ تھا اس کے لیے حصہ رکھ دیا گیا۔ پھر اسے دو برتنوں میں ڈال لیا۔ پس تمام لوگوں نے شکم سیر ہو کر کھا لیا اور دو برتنوں میں گوشت بچ رہا جو ہم نے اونٹ پر لاد لیا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

5۔ عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه أَنَّ أَبَاهُ تُوُفِّيَ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَقُلْتُ : إِنَّ أَبِي تَرَکَ عَلَيْهِ دَيْنًا، وَلَيْسَ عِنْدِي إِلَّا مَا یُخْرِجُ نَخْلُهُ، وَلَا یَبْلُغُ مَا یُخْرِجُ سِنِيْنَ مَا عَلَيْهِ، فَانْطَلِقْ مَعِي لِکَي لَا یُفْحِشَ عَلَيَّ الْغُرَمَاءُ، فَمَشَی حَوْلَ بَيْدَرٍ مِنْ بَیَادِرِ التَّمْرِ فَدَعَا، ثُمَّ آخَرَ، ثُمَّ جَلَسَ عَلَيْهِ، فَقَالَ : انْزِعُوْهُ فَأَوْفَاھُمُ الَّذِي لَھُمْ، وَبَقِيَ مِثْلُ مَا أَعْطَاھُمْ۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ۔

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے والد محترم (حضرت عبد اللہص) وفات پا گئے اور اُن کے اوپر قرض تھا۔ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : (یا رسول اللہ!) میرے والد نے (وفات کے بعد) پیچھے قرضہ چھوڑا ہے اور میرے پاس (اس کی ادائیگی کے لئے) کچھ بھی نہیں، ماسوائے اس پیداوار کے جو کھجور کے (چند) درختوں سے حاصل ہوتی ہے۔ ان سے کئی سالوں میں بھی قرض ادا نہیں ہو گا۔ آپ ﷺ میرے ساتھ تشریف لے چلیں تاکہ قرض خواہ مجھ پر سختی نہ کریں۔ آپ ﷺ (ان کے ساتھ تشریف لے گئے اور ان کے) کھجوروں کے ڈھیروں میں سے ایک ڈھیر کے گرد چند چکر لگائے اور دعا فرمائی، پھر دوسرے ڈھیر (کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا)، اس کے بعد آپ ﷺ ایک ڈھیر پر بیٹھ گئے اور فرمایا : قرض خواہوں کو ماپ کر دیتے جاؤ۔ (آپ ﷺ کی برکت سے) سب قرض خواہوں کا پورا پورا قرض ادا کر دیا گیا اور اتنی ہی کھجوریں بچ بھی گئیں جتنی کہ قرض میں دی تھیں۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام بخاری اور احمد نے روایت کیا ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

6۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ : لَقَدْ کُنَّا نَأکُلُ مَعَ النَّبِيّ ﷺ الطَّعَام، وَنَحْنُ نَسْمَعُ تَسْبِيْح الطَّعَامِ۔

رَوَاهُ البُخَارِيُّ والتِّرْمِذِيُّ واللَّفْظُ لَهُ۔ قَالَ أَبُوْعِيْسَی : هَذا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔

’’حضرت (عبد اللہ) ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں : ہم حضورنبی اکرم ﷺ کے ہمراہ کھانا کھار رہے تھے اور کھانے کی تسبیح بھی سن رہے تھے۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

7۔ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ ، بِتَمَرَاتٍ، فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، ادْعُ اللهَ فِيْھِنَّ بِالْبَرَکَةِ فَضَمَّھُنَّ ثُمَّ دَعَا لِي فِيْھِنَّ بِالْبَرَکَةِ، فَقَالَ : خُذْھُنَّ وَاجْعَلْھُنَّ فِي مِزْوَدِکَ ھَذَا أَوْ فِي ھَذَا الْمِزْوَدِ، کُلَّمَا أَرَدْتَ أَنْ تَأْخُذَ مِنْهُ شَيْئًا فَأَدْخِلْ فِيْهِ یَدَکَ فَخُذْهُ وَلَا تَنْثُرْهُ نَثْرًا، فَقَدْ حَمَلْتُ مِنْ ذَلِکَ التَّمْرِ کَذَا وَ کَذَا مِنْ وَسْقٍ فِي سَبِيْلِ اللهِ، فَکُنَّا نَأْکُلُ مِنْهُ وَنُطْعِمُ، وَکَانَ لاَ یُفَارِقُ حِقْوِي حَتَّی کَانَ یَوْمُ قَتْلِ عُثْمَانَ رضی الله عنه فَإِنَّهُ انْقَطَعَ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ، وَقَالَ أَبُوْعِيْسَی : ھَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں کچھ کھجوریں لے کر حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! ان میں اللہ تعالیٰ سے برکت کی دعا فرمائیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے انہیں اکٹھا کیا اور میرے لیے ان میں دعائے برکت فرمائی پھر مجھے فرمایا : انہیں لے لو اور اپنے اس توشہ دان میں رکھ دو اور جب انہیں لینا چاہو تو اپنا ہاتھ اس میں ڈال کر لے لیا کرو اسے جھاڑنا نہیں۔ سو میں نے ان میں سے اتنے اتنے (یعنی کئی) وسق (ایک وسق دو سو چالیس کلو گرام کے برابر ہوتا ہے) کھجوریں اللہ تعالیٰ کے راستہ میں خرچ کیں ہم خود اس میں سے کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے۔ کبھی وہ توشہ دان میری کمر سے جدا نہ ہوا (یعنی کھجوریں ختم نہ ہوئیں) حتیٰ کہ جس دن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو وہ مجھ سے کہیں گر گیا۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام ترمذی، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اس کو حسن کہا ہے۔

حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ مٹی کی محبت

3

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

1۔ عَنْ إِیَاسَ بْنِ سَلَمَةَ قَالَ : حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ : غَزَوْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ حُنَيْنًا فَلَمَّا وَاجَهْنَا الْعَدُوَّ تَقَدَّمْتُ فَأَعْلُوْ ثَنِيَّةً فَاسْتَقْبَلَنِي رَجُلٌ مِنَ الْعَدُوِّ فَأَرْمِيْهِ بِسَهْمٍ فَتَوَارَی عَنِّي فَمَا دَرَيْتُ مَا صَنَعَ وَنَظَرْتُ إِلَی الْقَوْمِ فَإِذَا هُمْ قَدْ طَلَعُوْا مِنْ ثَنِيَّةٍ أُخْرَی فَالْتَقَوْا هُمْ وَصَحَابَةُ النَّبِيِّ ﷺ فَوَلَّی صَحَابَةُ النَّبِيِّ ﷺ وَأَرْجِعُ مُنْهَزِمًا وَعَلَيَّ بُرْدَتَانِ مُتَّزِرًا بِإِحْدَاهُمَا مُرْتَدِیًا بِالْأُخْرَی فَاسْتَطْلَقَ إِزَارِي فَجَمَعْتُهُمَا جَمِيْعًا وَمَرَرْتُ عَلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ مُنْهَزِمًا وَهُوَ عَلَی بَغْلَتِهِ الشَّهْبَائِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَقَدْ رَأَی ابْنُ الْأَکْوَعِ فَزَعًا فَلَمَّا غَشُوْا رَسُوْلَ اللهِ ﷺ نَزَلَ عَنْ الْبَغْلَةِ ثُمَّ قَبَضَ قَبْضَةً مِنْ تُرَابٍ مِنَ الْأَرْضِ ثُمَّ اسْتَقْبَلَ بِهِ وُجُوْهَهُمْ فَقَالَ : شَاهَتِ الْوُجُوْهُ فَمَا خَلَقَ اللهُ مِنْهُمْ إِنْسَانًا إِلَّا مَلَأَ عَيْنَيْهِ تُرَابًا بِتِلْکَ الْقَبْضَةِ فَوَلَّوْا مُدْبِرِيْنَ فَهَزَمَهُمْ اللهُ عزوجل وَقَسَمَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ غَنَائِمَهُمْ بَيْنَ الْمُسْلِمِيْنَ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ حِبَّانَ۔

’’ایاس بن سلمہ کہتے ہیں کہ میرے والد رضی اللہ عنہ نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ غزوہ حنین میں گئے، جب ہمارا دشمن کے ساتھ مقابلہ ہوا تو میں آگے بڑھ کر ایک گھاٹی پر چڑھ گیا، دشمن کا ایک شخص سامنے سے آیا، میں نے اس کے تیر مارا، وہ چھپ گیا اور مجھ کو پتا نہ چل سکا اس نے کیا کیا، میں نے قوم کی طرف دیکھا تو وہ دوسری گھاٹی سے چڑھ رہے تھے، ان کا اور حضور نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کا مقابلہ ہوا، حضور نبی اکرم ﷺ کے صحابہ پشت پھیر کر بھاگے، میں بھی شکست خوردہ لوٹا، درآنحالیکہ مجھ پر دو چادریں تھیں، ایک میں نے باندھی ہوئی تھی اور دوسری اوڑھی ہوئی تھی، میرا تہبند کھل گیا تو میں نے دونوں چادروں کو اکٹھا کر لیا اور میں حضور نبی اکرم ﷺ کے سامنے شکست خوردہ لوٹا درآنحالیکہ آپ اپنے خچر شہباء پر سوار تھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ابن الاکوع خوف زدہ ہو کر دیکھ رہا ہے، جب دشمنوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو گھیر لیا تو آپ ﷺ خچر سے اترے اور زمین سے خاک کی ایک مٹھی اٹھا کر دشمن کے چہروں کی طرف پھینکی اور فرمایا : ان کے چہرے قبیح ہو گئے، پھر اللہ تعالیٰ نے اس مٹھی سے ان کے ہر انسان کی آنکھ میں مٹی بھر دی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگے، سو اللہ تعالیٰ عزوجل نے ان کو شکست دی اور حضور نبی اکرم ﷺ نے ان کا مال غنیمت مسلمانوں میں تقسیم کر دیا۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

2۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه في روایۃ طویلۃ قَالَ : إِنَّ رَجُـلًا کَانَ یَکْتُبُ لِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَارْتَدَّ عَنِ الإِسْلَامِ، وَلَحِقَ بِالْمُشْرِکِيْنَ، وَقَالَ : أَنَا أَعْلَمُکُمْ بِمُحَمَّدٍ إِنْ کُنْتُ لَأَکْتُبُ مَاشِئْتُ فَمَاتَ ذَلِکَ الرَّجُلُ فَقَالَ النَّبِيّ ﷺ : إِنَّ الْأَرْضَ لَمْ تَقْبَلْهُ وَقَالَ أَنَسٌ : فَأَخْبَرَنِي أَبُوْطَلْحَةَ : أَنَّهُ أَتَی الْأَرْضَ الَّتِي مَاتَ فِيْھَا فَوَجَدَهُ مَنْـبُوْذًا، فَقَالَ : مَا شَأْنُ ھَذَا؟ فَقَالُوْا : دَفَنَّاهُ مِرَارًا فَلَمْ تَقْبَلْهُ الْأَرْضُ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَاللَّفْظُ لَهُ وَالْبَيْهَقِيُّ۔

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی جو حضور نبی اکرم ﷺ کے لئے کتابت کیا کرتا تھا وہ اسلام سے مرتد ہو گیا اور مشرکوں سے جا کر مل گیا اور کہنے لگا : میں تم میں سب سے زیادہ محمد مصطفی کو جاننے والا ہوں۔ میں ان کے لئے جو چاہتا تھا لکھتا تھا سو وہ شخص جب مر گیا تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اسے زمین قبول نہیں کرے گی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہیں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ وہ اس جگہ آئے جہاں وہ مرا تھا تو دیکھا اس کی لاش قبر سے باہر پڑی تھی۔ پوچھا کہ اس (لاش) کا کیا معاملہ ہے؟ لوگوں نے کہا : ہم نے اسے کئی بار دفن کیا مگر زمین نے اسے قبول نہیں کیا۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام مسلم اور احمد بن حنبل نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

رسولﷺ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے

2.6.7

اَلْآیَاتُ الْقُرْآنِيَّةُ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

1۔ یٰٓایُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا اَطِيْعُوْا اللهَ وَاَطِيْعُوْا الرَّسُوْلَ وَاُوْلِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْئٍ فَرُدُّوْهُ اِلَی اللهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ذٰلِکَ خَيْرٌ وَاَحْسَنُ تَاْوِيْلاًo

’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول( ﷺ ) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی، پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لئے) اللہ اور رسول( ﷺ ) کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، (تو) یہی (تمہارے حق میں) بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہےo‘‘

(النساء، 4 : 59)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

2۔ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللهَ ج وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَآ اَرْسَلْنَاکَ عَلَيْهِمْ حَفِيْظًاo

’’جس نے رسول( ﷺ ) کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا اور جس نے روگردانی کی تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجاo‘‘

(النساء، 4 : 80)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

3۔ قُلْ اَطِيْعُوا اللهَ وَ الرَّسُوْلَ ج فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللهَ لاَ یُحِبُّ الْکٰـفِرِيْنَo

’’آپ فرما دیں کہ اللہ اور رسول ( ﷺ ) کی اطاعت کرو پھر اگر وہ روگردانی کریں تو اللہ کافروں کو پسند نہیں کرتاo‘‘

(آل عمران، 3 : 22)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

4۔ وَاَطِيْعُوا اللهَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَo

’’اور اللہ کی اور رسول ( ﷺ ) کی فرمانبرداری کرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائےo‘‘

(آل عمران، 3 : 22)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

5۔ وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللهُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَيْتَ الْمُنٰـفِقِيْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًاo

’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ (قرآن) کی طرف اور رسول( ﷺ ) کی طرف آجاؤ تو آپ منافقوں کو دیکھیں گے کہ وہ آپ (کی طرف رجوع کرنے) سے گریزاں رہتے ہیںo‘‘

(النساء، 4 : 61)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

6۔ وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ الِاَّ لِیُطَاعَ بِاذْنِ اللهِ۔

’’اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔‘‘

(النساء، 4 : 64)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

7۔ وَمَنْ یُّطِعِ اللهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّيْقِيْنَ وَ الشُّھَدَآء وَ الصّٰلِحِيْنَ ج وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِيْقًاo

’’اور جو کوئی اللہ اور رسول ( ﷺ ) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) ان (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیائ، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیںo‘‘

(النساء، 4 : 69)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

8۔ وَاَطِيْعُوا اللهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاحْذَرُوْا ج فَاِنْ تَوَ لَّيْتُمْ فَاعْلَمُوْآ اَنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُo

’’اور تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ( ﷺ ) کی اطاعت کرو اور (خدا اور رسول ﷺ کی مخالفت سے) بچتے رہو، پھر اگر تم نے روگردانی کی تو جان لو کہ ہمارے رسول ( ﷺ ) پر صرف (اَحکام کا) واضح طور پر پہنچا دینا ہی ہے (اور وہ یہ فریضہ ادا فرما چکے ہیں)o‘‘

(المائده، 5 : 92)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

9۔ قُلْ اَطِيْعُوااللهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ ج فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْکُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ ط وَاِنْ تُطِيْعُوْهُ تَهْتَدُوْا ط وَمَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُo

’’فرما دیجئے : تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ( ﷺ ) کی اطاعت کرو، پھر اگر تم نے (اطاعت) سے رُوگردانی کی تو (جان لو) رسول ( ﷺ ) کے ذمہ وہی کچھ ہے جو ان پر لازم کیا گیا اور تمہارے ذمہ وہ ہے جو تم پر لازم کیا گیا ہے، اور اگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پا جائو گے، اور رسول ( ﷺ ) پر (احکام کو) صریحاً پہنچا دینے کے سوا (کچھ لازم) نہیں ہےo‘‘

(النور، 24 : 54)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

10۔ یٰٓاَیُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَکُمْo

’’اے ایمان والو! تم اللہ کی اطاعت کیا کرو اور رسول ( ﷺ ) کی اطاعت کیا کرو اور اپنے اعمال برباد مت کروo‘‘

(محمد، 47 : 33)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

11۔ اِنَّ الَّذِيْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللهَ ط یَدُ اللهِ فَوْقَ اَيْدِيْھِمْ ج فَمَنْ نَّکَثَ فَاِنَّمَا یَنْکُثُ عَلٰی نَفْسِهٖ ج وَ مَنْ اَوْفٰی بِمَا عٰـھَدَ عَلَيْهُ اللهَ فَسَیُؤْتِيْهِ اَجْرًا عَظِيْمًاo

’’(اے حبیب!) بے شک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اللہ کا ہاتھ ہے۔ پھر جس شخص نے بیعت کو توڑا تو اس کے توڑنے کا وبال اس کی اپنی جان پر ہو گا اور جس نے (اس) بات کو پورا کیا جس (کے پورا کرنے) پر اس نے اللہ سے عہد کیا تھا تو وہ عنقریب اسے بہت بڑا اجر عطا فرمائے گاo‘‘

(الفتح، 48 : 10)

اَلْأَحَادِيْثُ النَّبَوِيَّةُ

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

1۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللهَ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَی اللهَ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے میری اطاعت کی سو اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی، اور جس نے میری نافرمانی کی سو اس نے اللہ عزوجل کی نافرمانی کی۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

2۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ : جَاءَتْ مَـلَائِکَةٌ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ وَهُوَ نَائِمٌ… فَقَالَ بَعْضُهُمْ : إِنَّهُ نَائِمٌ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ : إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَةٌ وَالْقَلْبَ یَقْظَانُ، فَقَالُوْا : فَالدَّارُ الْجَنَّةُ، وَالدَّاعِي مُحَمَّدٌ ﷺ ، فَمَنْ أَطَاعَ مُحَمَّدًا، فَقَدْ أَطَاعَ اللهَ، وَمَنْ عَصَی مُحَمَّدًا، فَقَدْ عَصَی اللهَ، وَمُحَمَّدٌ فَرَّقَ بَيْنَ النَّاسِ۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ۔

’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کچھ فرشتے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے جبکہ آپ ﷺ سوئے ہوئے تھے۔ تو ان میں سے ایک نے کہا : یہ تو سوئے ہوئے ہیں۔ دوسرے نے کہا : (ان کی) آنکھ سوتی ہے مگر دل بیدار رہتا ہے۔ پھر انہوں نے کہا : حقیقی گھر جنت ہی ہے اور محمد ﷺ (حق کی طرف) بلانے والے ہیں۔ جس نے محمد ﷺ کی اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے محمد ﷺ کی نافرمانی کی اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی، محمد ﷺ اچھے اور برے لوگوں میں فرق کرنے والے ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

3۔ عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللهَ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَی اللهَ، وَمَنْ أَطَاعَ عَلِیًّا فَقَدْ أَطَاعَنِي وَمَنْ عَصَی عَلِیًّا فَقَدْ عَصَانِي۔ رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَقَالَ : هَذَا الْحَدِيْثُ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ۔

’’حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ عزوجل کی نافرمانی کی اور جس نے علی کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے علی کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔‘‘ امام حاکم نے فرمایا کہ اس حدیث کے اسناد صحیح ہیں۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

4۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ حَدَّثَّهُ، أَنَّهُ کَانَ ذَاتَ یَوْمٍ عِنْدَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ مَعَ نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَأَقْبَلَ عَلَيْهِمْ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَقَالَ : یَا هَؤُلَاءِ أَلَسْتُمْ تَعْلَمُوْنَ أَنِّي رَسُوْلُ اللهِ إلَيْکُمْ؟ قَالُوْا : بَلَی، نَشْهَدُ أَنَّکَ رَسُوْلُ اللهِ، قَالَ : أَلَسْتُمْ تَعْلَمُوْنَ أَنَّ اللهَ أَنْزَلَ فِي کِتَابِهِ : مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللهَ قَالُوْا : بَلَی، نَشْهَدُ أَنَّهُ مَنْ أَطَاعَکَ فَقَدْ أَطَاعَ اللهَ وَأَنَّ مِنْ طَاعةِ اللهِ طَاعَتَکَ، قَالَ : فَإنَّ مِنْ طَاعَةِ اللهِ أَنْ تُطِيْعُوْنِي، وَإِنَّ مِنْ طَاعَتِي أَنْ تُطِيْعُوْا أَئِمَّتَکُمْ، أَطِيْعُوْا أَئِمَّتَکُمْ، فَإِنْ صَلُّوْا قُعُوْدًا فَصَلُّوْا قُعُوْدًا۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ یَعْلَی۔

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک دن صحابہ کے ایک گروہ کے ساتھ حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں موجود تھے، پس حضور نبی اکرم ﷺ ان کی طرف تشریف لائے اور فرمایا : اے لوگو! کیا تم نہیں جانتے کہ میں تمہاری طرف مبعوث کیا ہوا اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : کیوں نہیں، ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ جس شخص نے آپ کی اطاعت کی تو اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور بے شک آپ کی اطاعت، اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں سے یہ بھی ہے کہ تم میری اطاعت کرو، اور میری اطاعت میں سے یہ ہے کہ تم اپنے ائمہ کی اطاعت کرو۔ اپنے ائمہ کی اطاعت کرو پس اگر وہ بیٹھ کر نماز ادا کریں تو تم بھی بیٹھ کر ادا کرو۔‘‘ اس حدیث کو امام اَحمد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

5۔ عَنْ أَبِي مُوْسَی رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُ مَا بَعَثَنِي اللهُ بِهِ کَمَثَلِ رَجُلٍ أَتَی قَوْمًا فَقَالَ : یَا قَوْمِ، إِنِّي رَأَيْتُ الْجَيْشَ بِعَيْنَيَّ۔ وَإِنِّي أَنَا النَّذِيْرُ الْعُرْیَانُ، فَالنَّجَائَ، فَأَطَاعَهُ طَائِفَةٌ مِنْ قَوْمِهِ، فَأَدْلَجُوْا، فَانْطَلَقُوْا عَلَی مَهَلِهِمْ، فَنَجَوْا۔ وَکَذَّبَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ فَأَصْبَحُوْا مَکَانَهُمْ، فَصَبَّحَهُمْ الْجَيْشُ فَأَهْلَکَهُمْ وَاجْتَاحَهُمْ۔ فَذَلِکَ مَثَلُ مَنْ أَطَاعَنِي فَاتَّبَعَ مَا جِئتُ بِهِ۔ وَمَثَلُ مَنْ عَصَانِي وَکَذَّبَ مَا جِئْتُ بِهِ مِنَ الْحَقِّ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

’’حضرت ابو موسیٰ (اشعری) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بے شک میری اور اس (دین حق) کی جس کے ساتھ مجھے مبعوث کیا گیا ہے مثال اس شخص کی سی ہے جس نے اپنی قوم کے پاس آکر کہا : اے میری قوم! میں نے اپنی آنکھوں سے ایک فوج دیکھی ہے میں تمہیں واضح طور پر اس سے ڈرانے والا ہوں لهٰذا اپنی حفاظت کا سامان کر لو چنانچہ اس کی قوم سے ایک جماعت نے اس کی بات مانی، راتوں رات نکل کر اپنی پناہ گاہ میں جا چھپے اور بچ گئے جبکہ ایک جماعت نے اسے جھٹلایا اور صبح تک اپنے اپنے مقامات پر ہی (بے فکری سے پڑے) رہے۔ منہ اندھیرے ایک لشکر نے ان پر حملہ کردیا انہیں ہلاک کر کے غارت گری کا بازار گرم کردیا۔ سو یہ مثال ہے اس کی جس نے میری اطاعت کی اور جو (دین حق) میں لے کر آیا ہوں اس کی پیروی کی اور اس شخص کی مثال جس نے میری نافرمانی کی اور جو حق میں لے کر آیا ہوں اسے جھٹلایا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

6۔ عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، أَلَمْ آتِکُمْ ضُلَّالًا فَهَدَاکُمُ اللهُ عزوجل بِي؟ أَلَمْ آتِکُمْ مُتَفَرِّقِيْنَ فَجَمَعَکُمُ اللهُ بِي؟ أَلَمْ آتِکُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ اللهُ بَيْنَ قُلُوْبِکُمْ بِي؟ قَالُوْا : بَلَی یَا رَسُوْلَ اللهِ، قَالَ : أَفَـلَا تَقُوْلُوْنَ جِئْتَنَا خَائِفًا فَآمَنَّاکَ، وَطَرِيْدًا فآوَيْنَاکَ، وَمَخْذُوْلًا فَنَصَرْنَاکَ۔ فَقَالُوْا : بَلْ ِللهِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی الْمَنُّ بِهِ عَلَيْنَا وَلِرَسُوْلِهِ ﷺ ۔

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَمُسْلِمٌ نَحْوَهُ فِي حَدِيْثٍ طَوِيْلٍ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ زَيْدٍ، وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ حِبَّانَ۔

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے گروهِ انصار! کیا میں تمہارے پاس اس وقت نہیں آیا جب تم راهِ راست سے بھٹکے ہوئے تھے، پس اللہ تعالیٰ نے میرے سبب تمہیں ہدایت عطا فرمائی؟ کیا میں تمہارے پاس اس وقت نہیں آیا جب تم مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے تھے، پس اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے تمہیں جمع فرما دیا؟ کیا میں تمہارے پاس اس وقت نہیں آیا جب تم باہم (جانی) دشمن تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے تمہارے دلوں میں محبت و الفت پیدا فرما دی؟ انہوں نے عرض کیا : کیوں نہیں، یا رسول اللہ! پھر آپ ﷺ نے فرمایا : تم یہ کیوں نہیں کہتے کہ آپ ہمارے پاس حالتِ خوف میں تشریف لائے، پس ہم نے آپ کو امان دی، اور آپ ہمارے پاس اس وقت تشریف لائے جب آپ کی قوم نے آپ کو ملک بدر کر دیا تو ہم نے آپ کو پناہ دی، اور آپ ہمارے پاس حالتِ شکست میں تشریف لائے، تو ہم نے آپ کی مدد و نصرت کی۔ انہوں نے عرض کیا : (یہ آپ پر ہمارا کوئی احسان نہیں) بلکہ (آپ کا ہمارے پاس تشریف لانا) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا ہم پر احسان ہے۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام بخاری و مسلم نے طویل روایت میں حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کے طریق سے روایت کیا ہے اور امام نسائی، احمد نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

7۔ عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي کَرِبَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَلاَ، هَلْ عَسَی رَجُلٌ یَبْلُغُهُ الْحَدِيْثُ عَنِّي وَهُوَ مُتَّکِیئٌ عَلَی أَرِيْکَتِهِ فَیَقُوْلُ : بَيْنَنَا وَبَيْنَکُمْ کِتَابُ اللهِ فَمَا وَجَدْنَا فِيْهِ حَـلَالًا اسْتَحْلَلْنَاهُ وَمَا وَجَدْنَا فِیهِ حَرَامًا حَرَّمْنَاهُ وَإِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ کَمَا حَرَّمَ اللهُ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ وَالدَّارُ قُطْنِيُّ۔ وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : ھَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔

’’حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سن لو! عنقریب ایک آدمی کے پاس میری حدیث پہنچے گی، وہ اپنی مسہری پر ٹیک لگائے بیٹھا ہوا کہے گا : ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ تعالیٰ کی کتاب (ہی کافی ہے)، ہم جو چیز اس میں حلال پائیں گے اسے حلال سمجھیں گے اورجو اس میں حرام پائیں گے اسے حرام سمجھیں گے، جبکہ (خبردار جان لو !) رسول اللہ ﷺ کا کسی شے کو حرام قرار دینا بھی اللہ تعالیٰ کے حرام قرار دینے کی طرح ہی ہے۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام ترمذی، ابن ماجہ، احمد، دارمی اور دارقطنی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

8۔ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ رضي الله عنها قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یُوْحَی إِلَيْهِ وَرَأْسُهُ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ رضی الله عنه۔ فَلَمْ یُصَلِّ الْعَصْرَ حَتَّی غَرَبَتِ الشَّمْسُ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اَللَّھُمَّ، إِنَّ عَلِیًّا کَانَ فِي طَاعَتِکَ وَطَاعَةِ رَسُوْلِکَ، فَارْدُدْ عَلَيْهِ الشَّمْسَ۔ قَالَتْ أَسْمَاءُ رضي الله عنها : فَرَأَيْتُھَا غَرَبَتْ وَرَأَيْتُھَا طَلَعَتْ بَعْدَ مَا غَرَبَتْ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔

’’حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے : حضور نبی اکرم ﷺ پر وحی نازل ہو رہی تھی اور آپ ﷺ کا سرِ اقدس حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا۔ وہ عصر کی نماز نہ پڑھ سکے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے دعا کی : اے اللہ! علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھا اس پر سورج واپس لوٹا دے۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : میں نے اسے غروب ہوتے ہوئے بھی دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ وہ غروب ہونے کے بعد دوبارہ طلوع ہوا۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

رسولﷺ سے محبت اللہ سے محبت ہے

2.6.8

قرآن و حدیث میں بہت سے  مقامات پر دونوں محبتوں کا یکجا بیان ہوا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ محبتِ الٰہی اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ہے اور دیگر تمام محبتوں کے مراتب سے اعلیٰ و ارفع ہیں۔ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ایمان والوں کے دنیا میں آٹھ (8) خصوصی تعلقات اور معاملات کا ذکر کرنے کے بعد محبتِ الٰہی، محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اپنی راہ میں جدوجہد کو سب سے برتر اور فوق قرار دیا ہے۔ ارشاد فرمایا:

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّى يَأْتِيَ اللّهُ بِأَمْرِهِ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَo

’’(اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں: اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے۔ اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔‘‘

(1) التوبۃ، 9: 24

اللہ تبارک و تعالیٰ کی محبت اور اس کے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت، قربت اور اطاعت کے اعتبار سے افضل اور اَجل ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت بیان کرتے ہیں:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم عَنِ السَّاعَةِ، فَقَالَ: مَتَی السَّاعَةُ؟ قَالَ: وَ مَاذَا أَعْدَدْتَ لَهَا؟ قَالَ: لَا شَيئَ (وَفِي رِوَايَةِ أَحْمَدَ: قَالَ: مَا أَعْدَدْتُ لَهَا مِنْ کَثِيْرِ عَمَلٍ، لَا صَلَاةٍ وَ لَا صِيَامٍ) إِلَّا أَنِّي أُحِبُّ اللهَ وَ رَسُوْلَهُ صلی الله عليه وآله وسلم. فَقَالَ: أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ. قَالَ أَنَسٌ: فَمَا فَرِحْنَا بِشَيئٍ فَرَحَنَا بِقَولِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم: أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ. قَالَ أَنَسٌ: فَأَنَا أُحِبُّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم وَأَبَابَکْرٍ وَعُمَرَ وَأَرْجُوْ أَنْ أَکُوْنَ مَعَهُمْ بِحُبِّي إِيَاهُمْ وَ إِنْ لَمْ أَعْمَلْ بِمِثْلِ أَعْمَالِهِمْ.

’’کسی آدمی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا کہ قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: تم نے اس کے لئے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ اس نے عرض کیا: میرے پاس تو کوئی عمل نہیں۔ (امام احمد کی روایت میں ہے کہ اس نے عرض کیا: میں نے تو اس کے لئے بہت سے اعمال تیار نہیں کیے، نہ بہت سی نمازیں اور نہ بہت سے روزے) سوائے اس کے کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم (قیامت کے روز) اس کے ساتھ ہو گے جس سے محبت رکھتے ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں (تمام صحابہ کرام کو) کبھی کسی خبر سے اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی خوشی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان اقدس سے ہوئی کہ تم اس کے ساتھ ہو گے جس سے محبت کرتے ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے، لہٰذا امید کرتا ہوں کہ ان کی محبت کے باعث میں بھی ان حضرات کے ساتھ ہی رہوں گا اگرچہ میرے اعمال ان کے اعمال جیسے نہ ہوں۔‘‘

حوالاجات

اَلْآثَارُ وَالْأَقْوَالُ

1۔ قال أبوالحسین الوراق : علامۃ محبۃ الله تعالی متابعۃ حبیبه۔

1۔ قال أبوالحسین الوراق : علامۃ محبۃ الله تعالی متابعۃ حبیبه۔

’’حضرت ابو الحسین وراق رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کی علامت اس کے رسول ﷺ کی اتباع ہے۔‘‘

1 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 299۔

2۔ سئل ذو النون المصري عن المحبَّۃ – قال : أن تُحبَّ ما أحَبَّ اللهُ؛ وتبْغضَ ما أبغض اللهُ … واتِّباع رسولِ الله ﷺ في الدِّین۔

’’حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ سے محبت کے متعلق پوچھا گیا، تو انہوں نے فرمایا کہ تو اس چیز سے محبت کرے جس سے اللہ تعالیٰ محبت کرتاہے، اور اس چیز کو ناپسند کرے جسے اللہ تعالیٰ نا پسند کرتا ہے … اور دین کے معاملہ میں حضورنبی اکرم ﷺ کی اتباع و پیروی کرلے(تو یہ حقیقی محبت ہے)۔‘‘

2 : أخرجه السُّلمي في طبقات الصّوفیه : 18۔

3۔ قال ذو النون المصري : من علاماتِ المحبِّ ﷲ، متابعةُ حبیبِ الله في أخلاقه، وأفعاله، أمره وسُنَنهِ۔

’’حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والے کی علامات میں سے ایک علامت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب حضرت محمد ﷺ کے اخلاق، افعال اور آپ ﷺ کے حکم اور سنن میں اتباع و پیروی کرے۔‘‘

3 : أخرجه السُّلمي في طبقات الصّوفیه : 21۔

4۔ قال سفیان : المحبۃ اتباع الرسول ں، کأنه التفت إلی قوله تعالی : {قُلْ إِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمُ اللهُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِیمٌ} [آل عمران، 3 : 31]۔

’’حضرت سفیان رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : محبت اتباعِ رسول ﷺ کا نام ہے۔ گویا کہ انہوں نے اللہ عزوجل کے اس فرمان کی طرف اشارہ کیا : ’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں : ’’اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لیے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اللہ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘

4 : أخرجه القاضي عیاض في الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ : 505۔

محبتِ الٰہی اور محبتِ رسولﷺ اصلِ اعمال ہے:

(1)

تمام اِنسانی اَعمال کی عظمت و قبولیت اُسی عمل کے سبب سے ہے جو محبتِ الٰہی کے ساتھ ساتھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں کیا جائے اور اگر دل محبتِ رسول سے خالی ہے تو کوئی بھی نیک عمل بارگاہِ خداوندی میں باعثِ اَجر و ثواب نہیں ہوگا۔

قرآن کریم اور احادیثِ مبارکہ سے ہم بیان کرچکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت تمام اعمال کی بنیاد ہے، اس پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے حتی کہ شیخ ابنِ تیمیہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ وہ اپنی تصنیف ’’قاعدۃ فی المحبۃ (1: 49)‘‘ ميں الحب أصل کل عمل والتصديق بالمحبة هو أصل الإيمان (محبت دراصل ہر عمل کی اصل ہے اور محبت کے ساتھ تصدیق ہی اصلِ ایمان ہے) کے تحت لکھتے ہیں:

إذا کان الحب أصل کل عمل من حق وباطل، وهو أصل الأعمال الدينية وغيرها، وأصل الأعمال الدينية حب اللہ ورسوله کما أن أصل الأقوال الدينية تصديق اللہ ورسوله.

’’یہ طے شدہ امر ہے کہ ہر عمل خواہ حق ہو یا باطل اس کی اصل محبت ہے اور یہی محبت اعمالِ دینیہ وغیرہ کی بھی اصل ہے، اعمالِ دینیہ کی اصل اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہے جس طرح کہ اقوالِ دینیہ کی اصل اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق ہے۔‘‘

محبتِ الٰہی اور محبتِ  رسولﷺ نجات کا باعث

2.6.9

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہِ مبارکہ میں ایک شخص جس کا نام عبداللہ اور لقب حمار تھا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظرافتِ طبع کا باعث بنتا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے شراب پینے کے باعث مارا تھا، ایک دن اسے پھر (حالتِ نشہ میں) لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے مارنے کا حکم دیا پس اسے مارا گیا۔ موقع پر لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا۔ یا اللہ جتنی مرتبہ اسے مارنے کے لئے لایا گیا تو اس سے زیادہ اس پر لعنت بھیج۔ اس پر حضور رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

لَا تَلْعَنُوْهُ، فَوَاللهِ مَا عَلِمْتُ إنَّهُ يُحِبُّ اللهَ وَ رَسُوْلَهُ.

’’اسے لعنت نہ کرو، اللہ رب العزت کی قسم! میں اس کے سوا کچھ نہیں جانتا کہ یہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔‘‘

حوالاجات

اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت تمام انواع و اقسام کی محبت سے بلند ہے جس کی خبر حضور رضی اللہ عنہ کے مندرجہ بالا فرمانِ مبارک سے روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ شرابی ہے اور اس کا عمل گھٹیا  ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے ہیچ ترین عمل کو اپنی اور اپنے رب کی محبت دل میں رکھنے کی بناء پر نظر انداز فرما دیا۔ کسی نے خوب کہا ہے:

محمد کی محبت دینِ حق کی شرطِ اَوّل ہے

اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایک آدمی کچھ لوگوں سے محبت کرتا ہے لیکن ان جیسے عمل نہیں کر سکتا (اس کا معاملہ کیسا ہوگا)؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

أَنْتَ يَا أَبَا ذَرٍّ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ. قَالَ: فَإِنِّي أُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ. قَالَ: فَإِنَّکَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ. (قَالَ: فَأَعََادَهَا أبُوْ ذَرٍّ فَأَعََادَهَا رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم ).

’’ابوذر! تو اس کے ساتھ ہوگا جس سے تجھے محبت ہے۔ انہوں نے پھر عرض کیا: میں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ابوذر! تو یقینا اس کے ساتھ ہوگا جس سے تجھے محبت ہے۔ (راوی کا بیان ہے کہ حضرت ابوذَر نے دوسری مرتبہ یہی سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی کلمات دہرائے)۔‘‘

حوالاجات

اللہ تبارک و تعالیٰ کی محبت اور اس کے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت، قربت اور اطاعت کے اعتبار سے افضل اور اَجل ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت بیان کرتے ہیں:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم عَنِ السَّاعَةِ، فَقَالَ: مَتَی السَّاعَةُ؟ قَالَ: وَ مَاذَا أَعْدَدْتَ لَهَا؟ قَالَ: لَا شَيئَ (وَفِي رِوَايَةِ أَحْمَدَ: قَالَ: مَا أَعْدَدْتُ لَهَا مِنْ کَثِيْرِ عَمَلٍ، لَا صَلَاةٍ وَ لَا صِيَامٍ) إِلَّا أَنِّي أُحِبُّ اللهَ وَ رَسُوْلَهُ صلی الله عليه وآله وسلم. فَقَالَ: أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ. قَالَ أَنَسٌ: فَمَا فَرِحْنَا بِشَيئٍ فَرَحَنَا بِقَولِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم: أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ. قَالَ أَنَسٌ: فَأَنَا أُحِبُّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم وَأَبَابَکْرٍ وَعُمَرَ وَأَرْجُوْ أَنْ أَکُوْنَ مَعَهُمْ بِحُبِّي إِيَاهُمْ وَ إِنْ لَمْ أَعْمَلْ بِمِثْلِ أَعْمَالِهِمْ.

’’کسی آدمی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا کہ قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: تم نے اس کے لئے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ اس نے عرض کیا: میرے پاس تو کوئی عمل نہیں۔ (امام احمد کی روایت میں ہے کہ اس نے عرض کیا: میں نے تو اس کے لئے بہت سے اعمال تیار نہیں کیے، نہ بہت سی نمازیں اور نہ بہت سے روزے) سوائے اس کے کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم (قیامت کے روز) اس کے ساتھ ہو گے جس سے محبت رکھتے ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں (تمام صحابہ کرام کو) کبھی کسی خبر سے اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی خوشی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان اقدس سے ہوئی کہ تم اس کے ساتھ ہو گے جس سے محبت کرتے ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے، لہٰذا امید کرتا ہوں کہ ان کی محبت کے باعث میں بھی ان حضرات کے ساتھ ہی رہوں گا اگرچہ میرے اعمال ان کے اعمال جیسے نہ ہوں۔‘‘

حوالاجات

اسلام کا مطالبہ ہے کہ ہرمؤمن کے نزدیک تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ محبوب ترین ذات ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہونی چاہے ، حتی کہ اسے اپنی جان سے بھی زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہونی چاہے اگرایسانہیں ہے تواس کاایمان خطرہ میں ہے اور اس کی آخرت بھی خطرہ میں ہے۔

نعت ِ رسولﷺ حُبِ رسولﷺ ہے 

2.6.10

نعتِ رسول کیا ہے ؟ نعتِ رسول آپ ﷺ کی تعریف ، مدح سرائی، عظمت و شوکت ، آپ ﷺ کی  علو مرتبت اور آپ ﷺ کی وصف و صفات  کا بیان ہے۔ جو صرف وہی بیان کرتا ہے جوآپ ﷺ سے محبت و عقیدت رکھتا ہے۔

نعتِ رسول ﷺ خواہ  اشعار کی صورت میں ہو یا نثر کی، یہ محبت ہی محبت ہے۔

لکھنے والا بھی محبت میں ڈوب کر  لکھتا ہے، پڑھنے والا بھی محبت میں ڈوب کر پڑھتاہے، سننےوالا بھی محبت میں ڈوب کر  سنتا ہے اور ان سب کو دیکھنے والا  ان کو محبت سے ہی دیکھتا ہے۔ یہ تو بس محبت ہی محبت ہے۔

 چونکہ اللہ تعالی نے قران پاک کو آیات کی صورت میں نازل فرمایا اس لیے قران میں موجود آپ ﷺ کی نعت  آیات ہی کی صورت میں موجود ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالی نے کسی جگہ آپ ﷺ کی  عظمت و مرتبہ کو بیان کیا ،توکبھی طہ  اوریاسین کے القاب سے نوازا ، کبھی آپ ﷺ کی چادر کی قسم کھائی تو  کبھی زلفوں کی ،کبھی اس جگہ کی جہاں آپ ﷺ پیدا ہوئے توکبھی آپ ﷺ کے والد کی۔ یوں تو قرآن کریم  میں آپ ﷺ کی تعریف   ہی تعریف ہے لیکن یہاں پر فقط  چند آیات کا ذکر ہیں۔

اَلْآیَاتُ الْقُرْآنِيَّةُ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

1۔ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ بِالْحَقِّ بَشِيْراً وَّنَذِيْراً وَّلَا تُسْئَلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِيْمِo

’’(اے محبوبِ مکرّم!) بے شک ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے اور اہلِ دوزخ کے بارے میں آپ سے پرسش نہیں کی جائے گیo‘‘

(البقرۃ، 2 : 119)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

2۔ فَکَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّةٍ م بِشَھِيْدٍ وَّ جِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآءِ شَھِيْدًاo

’’پھر اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے حبیب!) ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گےo‘‘

(النساء، 4 : 41)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

3۔ لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْکُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌo

’’بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول ( ﷺ ) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزومند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیںo‘‘

(التوبۃ، 9 : 128)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

4۔ لَعَمْرُکَ اِنَّهُمْ لَفِيْ سَکْرَتِهِمْ یَعْمَهُوْنَo

’’(اے حبیبِ مکرّم!) آپ کی عمرِ مبارک کی قَسم، بے شک یہ لوگ (بھی قومِ لوط کی طرح) اپنی بدمستی میں سرگرداں پھر رہے ہیںo‘‘

(الحجر، 15 : 72)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

5۔ سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰـرَکْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰـتِنَا ط اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُo

’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂِ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہےo‘‘

(الإسرائ، 17 : 1)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

6۔ عَسٰٓی اَنْ يَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاo

’’یقینا آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا (یعنی وہ مقامِ شفاعتِ عظمیٰ جہاں جملہ اوّلین و آخرین آپ کی طرف رجوع اور آپ کی حمد کریں گے)o‘‘

(الإسرائ، 17 : 79)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

7۔ طٰهٰo مَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰٓیo

’’طاہا، (حقیقی معنی اللہ اور رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں)o

(اے محبوبِ مکرّم!) ہم نے آپ پر قرآن (اس لیے) نازل نہیں فرمایا کہ آپ مشقت میں پڑجائیںo‘‘

(طه، 20 : 1، 2)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

8۔ وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَo

’’اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کرo‘‘

(الأنبیاء، 21 : 107)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

9۔ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ۔

’’فی الحقیقت تمہارے لئے رسول اللہ ( ﷺ کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے۔‘‘

(الأحزاب، 33 : 21)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

10۔ یٰٓـاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰـکَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِيْرًاo وَّ دَاعِیًا اِلَی اللهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِيْرًاo

’’اے نبِیّ (مکرّم) بے شک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہےo اور اس کے اِذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور منوّر کرنے والا آفتاب (بنا کر بھیجا ہے)o‘‘

(الأحزاب، 33 : 45، 46)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

11۔ اِنَّ اللهَ وَمَلٰـئِکَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِيِّ ط یٰاَیُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيْمًاo

’’بے شک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبيِّ (مکرمّ ﷺ ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کروo‘‘

(الأحزاب، 33 : 56)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

12۔ یٰسٓo وَالْقُرْاٰنِ الْحَکِيْمِoاِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَo

’’یا سین (حقیقی معنی اللہ اور رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں)o حکمت سے معمور قرآن کی قَسمo بے شک آپ ضرور رسولوں میں سے ہیںo‘‘

(یٰس، 36 : 1-3)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

13۔ وَالنَّجْمِ اِذَا هَوٰیo مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰیo

’’قسم ہے روشن ستارے (محمد ﷺ ) کی جب وہ (چشم زدن میں شبِ معراج اوپر جا کر) نیچے اترےo تمہیں (اپنی) صحبت سے نوازنے والے (یعنی تمہیںاپنے فیضِ صحبت سے صحابی بنانے والے رسول ﷺ ) نہ (کبھی) راہ بھولے اور نہ (کبھی) راہ سے بھٹکےo‘‘

(النجم، 53 : 1-2)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

14۔ وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍo

’’اور بے شک آپ عظیم الشان خُلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)o‘‘

(القلم، 68 : 4)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

15۔ یٰـٓاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُo قُمِ الَّيْلَ اِلاَّ قَلِيْلاًo

’’اے کملی کی جھرمٹ والے(حبیب!)o آپ رات کو (نماز میں) قیام فرمایا کریں مگر تھوڑی دیر (کے لیے)o‘‘

(المزمل، 73 : 1-2)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

16۔ لَآ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِo وَ اَنْتَ حِلٌّم بِهٰذَا الْبَلَدِo وَوَالِدٍ وَّمَا وَلَدَo

’’میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوںo(اے حبیبِ مکرّم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیںo(اے حبیبِ مکرّم! آپ کے) والد (آدم یا ابراہیم علیہما السلام) کی قَسم اور (ان کی) قَسم جن کی ولادت ہوئیo‘‘

(البلد، 90 : 1-3)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

17۔ وَالضُّحٰیo وَالَّيْلِ اِذَا سَجٰیo مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَ مَا قَلٰیo وَ لَـلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰیo وَلَسَوْفَ یُعْطِيْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰیo

’’قَسم ہے چاشت کے وقت کی (جب آفتاب بلند ہو کر اپنا نور پھیلاتا ہے)o اور قَسم ہے رات کی جب وہ چھا جائےo آپ کے رب نے (جب سے آپ کو منتخب فرمایا ہے) آپ کو نہیں چھوڑا اور نہ ہی (جب سے آپ کو محبوب بنایا ہے) ناراض ہوا ہےo اور بے شک (ہر) بعد کی گھڑی آپ کے لیے پہلی سے بہتر (یعنی باعثِ عظمت و رفعت) ہےo اور آپ کا رب عنقریب آپ کو (اتنا کچھ) عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گےo‘‘

(الضحی، 93 : 1-5)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

18۔ اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَo وَوَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَo الَّذِيْٓ اَنْقَضَ ظَهْرَکَo وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَo

’’کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا سینہ (انوارِ علم و حکمت اور معرفت کے لیے) کشادہ نہیں فرما دیاo اور ہم نے آپ کا (غمِ امت کا وہ) بار آپ سے اتار دیاo جو آپ کی پشتِ (مبارک) پر گراں ہو رہا تھاo اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیاo‘‘

(الم نشرح، 94 : 1-4)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

19۔ اِنَّآ اَعْطَيْنٰـکَ الْکَوْثَرَo فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْo اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُo

’’بے شک ہم نے آپ کو (ہر خیر و فضیلت میں) بے انتہا کثرت بخشی ہےo پس آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھا کریں اور قربانی دیا کریں (یہ ہدیۂ  تشکرّہے)o بے شک آپ کا دشمن ہی بے نسل اور بے نام و نشاں ہو گاo‘‘

(الکوثر، 108 : 1-3)

اَلْأَحَادِيْثُ النَّبَوِيَّةُ:

قران کریم  میں تو  اللہ  تعالی نے  نعتِ رسول آیات کی صورت میں نازل فرمائی۔ تو پھر  سوال اٹھتا ہے کہ کیا  اشعار کی صورت میں بھی نعتِ رسول جائز ہے؟ اس کا جواب احا دیث مبارکہ میں ملتا ہے کہ ہاں بالکل  جائز ہے۔ کیونکہ  جب آپ ﷺ کے صحابی حضرت حسان رضی اللہ عنہ اشعار کی صورت میں نعت پڑھتے تو  اللہ نے اس کی تائید اُسی روح القدس (جبرائیل امین) سے فرمائی جوآپ ﷺ پر قران کی آیات نازل کر تا تھا۔اسی طرح  آپ ﷺ کے سامنے  جو کوئی بھی آپ ﷺ کی شان میں اشعار پڑھتا تو آپ ﷺ خوش ہو کر ان سے شفقت و محبت کا اظہار فرماتے۔

 اس سے واضح  ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کو اشعار کی صورت میں بھی اپنے حبیبﷺ کی نعت محبوب ہےاور  اسی لیے اللہ تعالی نے اس پر اپنی  خوشی کا اظہار جبرائیل امین کو بھیج کر فرمایا۔  ہمیشہ  سےنعت  ِ  رسول ﷺ   آپ ﷺ کی محبت میں ہی لکھی گئیں ہیں لیکن ان نعتہ اشعار کے بہت سے فوائد  بھی ہیں  جن میں سے چند درجہ ذیل ہیں۔

نعت  ِ  رسول ﷺ  سے مومنین کی  دل جوئی

(1)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ لِحَسَّانَ : إِنَّ رُوْحَ الْقُدُسِ لَا یَزَالُ یُؤَيِّدُکَ مَا نَافَحْتَ عَنِ اللهِ وَرَسُوْلِهِ، وَقَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ ، یَقُوْلُ : ھَجَاھُمْ حَسَّانُ، فَشَفَی وَاشْتَفَی۔ قَالَ حَسَّانُ :

ھَجَوْتَ مُحَمَّدًا فَأَجَبْتُ عَنْهُ

وَعِنْدَ اللهِ فِي ذَاکَ الْجَزَاءُ

ھَجَوْتَ مُحَمَّدًا بَرًّا حَنِيْفًا

رَسُوْلَ اللهِ شِيْمَتُهُ الْوَفَاءُ

فَإِنَّ أَبِي وَوَالِدَهُ وَعِرْضِي

لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْکُمْ وِقَاءُ

مَتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَھَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ۔

’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو (حضرت حسان سے) یہ فرماتے سنا : (اے حسان) جب تک تم اللہ عزوجل اور رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ان کا دفاع کرتے رہو گے روح القدس (جبرائیل ) تمہاری تائید کرتے رہیں گے، نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ حسان نے کفارِ قریش کی ہجو کرکے مسلمانوں کو شفا دی (یعنی ان کا دل ٹھنڈا کردیا) اور اپنے آپ کو شفا دی (یعنی اپنا دل ٹھنڈا کیا) حضرت حسان نے (کفار کی ہجو میں) کہا :

’’تم نے محمد مصطفی ﷺ کی ہجو کی، تو میں نے آپ ﷺ کی طرف سے جواب دیا ہے اور اس کی اصل جزا اللہ عزوجل ہی کے پاس ہے۔ تم نے محمد مصطفی ﷺ کی ہجو کی، جو نیک اور ادیانِ باطلہ سے اعراض کرنے والے ہیں، وہ اللہ عزوجل کے (سچے) رسول ہیں اور ان کی خصلت وفا کرنا ہے۔ بلا شبہ میرا باپ، میرے اجداد اور میری عزت (ہمارا سب کچھ)، محمد مصطفی ﷺ کی عزت و ناموس کے دفاع کے لئے تمہارے خلاف ڈھال ہیں۔‘‘

حوالاجات

یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

ایک صحابی کا دوسرے صحابی سے نعت  پڑھنے کی درخواست

(2)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَکْوَعِ رضی الله عنه قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ إِلَی خَيْبَرَ فَسِرْنَا لَيْـلًا، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ لِعَامِرٍ : یَا عَامِرُ، أَلَا تُسْمِعُنَا مِنْ هُنَيْهَاتِکَ، وَکَانَ عَامِرٌ رَجُـلًا شَاعِرًا، فَنَزَلَ یَحْدُوْ بِالْقَوْمِ یَقُوْلُ :

اَللَّهُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا

وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا

فَاغْفِرْ فِدَآءً لَکَ مَا أَبْقَيْنَا

وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا

وَأَلْقِیَنْ سَکِيْنَةً عَلَيْنَا

إِنَّا إِذَا صِيْحَ بِنَا أَبَيْنَا

وَبِالصِّیَاحِ عَوَّلُوْا عَلَيْنَا

فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ هَذَا السَّائِقُ؟ قَالُوْا : عَامِرُ بْنُ الْأَکْوَعِ قَالَ : یَرْحَمُهُ اللهُ۔ قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : وَجَبَتْ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

’’حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ خیبر کی جانب نکلے۔ ہم رات کے وقت سفر کر رہے تھے کہ ہم میں سے ایک آدمی نے حضرت عامر رضی اللہ عنہ سے کہا : اے عامر! آپ ہمیں اپنے شعر کیوں نہیں سناتے؟ حضرت عامر شاعر تھے۔ چنانچہ وہ نیچے اتر آئے اور لوگوں کے سامنے یوں حدی خوانی کرنے لگے :

’’اے اللہ تعالیٰ! اگر تیری مدد و نصرت ہمارے شاملِ حال نہ ہوتی تو نہ ہم ہدایت یافتہ ہوتے، اور نہ ہی صدقہ کرتے اور نہ ہی نماز ادا کرتے۔ پس تو ہم پر سکینہ نازل فرما اور جب دشمنوں سے ہمارا سامنا ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھ، اور ہم پر سکینہ نازل فرما، اور اگر دشمن ہم پر چلائے یا ہم پر حملہ آور ہو تو ہم اس کا انکار کریں (اور اس کا مقابلہ کریں نہ کہ اس کے آگے ہتھیار پھینک دیں)۔‘‘

تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یہ حدی خوانی کرنے والا کون ہے؟ لوگوں نے عرض کیا : عامر بن اکوع ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے۔ ہم میں سے ایک شخص (حضرت عمر) کہنے لگے کہ ان کے لئے (شہادت اور جنت) واجب ہو گئی۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

حوالاجات

رسول اللہ  کا اپنی نعت خود پڑھنا

(3)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنِ الْبَرَاءِ رضی الله عنه قَالَ لهُ رَجُلٌ : یَا أَبَا عُمَارَةَ، وَلَّيْتُمْ یَوْمَ حُنَيْنٍ؟ قَالَ : لاَ وَاللهِ، مَا وَلَّی النَّبِيُّ ﷺ ، وَلَـکِنْ وَلَّی سَرَعَانُ النَّاسِ، فَلَقِیَھُمْ ھَوَازِنُ بِالنَّبْلِ، وَالنَّبِيُّ ﷺ عَلَی بَغْلَتِهِ الْبَيْضَاءِ، وَأَبُوْ سُفْیَانَ بْنُ الْحَارِثِ رضی الله عنه آخِذٌ بِلِجَامِھَا، وَالنَّبِيُّ ﷺ یَقُوْلُ :

أَنَا النَّبِيُّ لاَ کَذِبْ

أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے کسی شخص نے دریافت کیا : اے ابو عمارہ! کیا غزوہ حنین میں آپ لوگوں نے پیٹھ دکھائی؟ انہوں نے فرمایا : نہیں، خدا کی قسم! حضور نبی اکرم ﷺ نے پیٹھ نہیں دکھائی، ہاں بعض جلدباز لوگ بھاگ نکلے تو اہلِ ہوازن نے انہیں تیروں کی باڑ پر رکھ لیا جبکہ اس موقع پر حضور نبی اکرم ﷺ اپنے سفید خچر پر جلوہ افروز تھے جس کی لگام حضرت ابو سفیان بن حارث نے تھام رکھی تھی اور حضور نبی اکرم ﷺ فرما رہے تھے :

’’میں نبی برحق ہوں اس میں کوئی جھوٹ نہیں اور میں عبد المطلب (جیسے سردار) کا لختِ جگر ہوں۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

حوالاجات

نعت خواں  کی روح القدس کے ذریعہ سے تائید

(4)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنِ الْبَرَاءِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ ﷺ لِحَسَّانَ : اهْجُھُمْ أَوْ ھَاجِھِمْ وَجِبْرِيْلُ مَعَکَ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

وفي روایۃ للبخاري : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : یَوْمَ قُرَيْظَةَ لِحَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ رضی الله عنه : اھْجُ الْمُشْرِکِيْنَ، فَإِنَّ جِبْرِيْلَ مَعَکَ۔

’’حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ سے فرمایا : مشرکین کی ہجو کرو (یعنی ان کی مذمت میں اشعار پڑھو) اور حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی (اس کام میں) تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

’’اور بخاری کی ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے قریظہ کے روز حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ’’ مشرکین کی ہجو (یعنی مذمت) کرو یقینا جبرائیل علیہ السلام بھی (میری ناموس کے دفاع میں) تمہارے ساتھ شریک ہیں۔‘‘

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَضَعُ لِحَسَّانَ مِنْبَرًا فِي الْمَسْجِدِ، یَقُوْمُ عَلَيْهِ قَائِمًا، یُفَاخِرُ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ أَوْ قَالَ : یُنَافِحُ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ۔ وَ یَقُوْلُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّ اللهَ یُؤَيِّدُ حَسَّانَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ مَا یُفَاخِرُ أَوْ یُنَافِحُ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ، وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا : حضور نبی اکرم ﷺ مسجد نبوی میں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لئے منبر رکھتے تھے جس پر وہ کھڑے ہو کر حضور نبی اکرم ﷺ کی طرف سے (مشرکین کے مقابلہ میں) فخر یا دفاع کرتے تھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ فرماتے : بے شک اللہ تعالیٰ روح القدس کے ذریعے حسان کی مدد فرماتا رہے گا۔ جب تک وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے فخر یا دفاع کرتا رہے گا۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام ترمذی، احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام ابو عیسٰی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنِ ابْنِ الْمُسَيَّبِ رضی الله عنه أَنَّ حَسَّانَ رضی الله عنه قَالَ فِي حَلْقَةٍ فِيْھِمْ أَبُوْ هُرَيْرَةَ رضی الله عنه : أَنْشُدُکَ اللهَ یَا أَبَا ھُرَيْرَةَ، أَسَمِعْتَ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : أَجِبْ عَنِّي أَيَّدَکَ اللهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ؟ فَقَالَ : اَللَّھُمَّ، نَعَمْ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالطَّبَرَانِيُّ۔

’’حضرت ابن مسیّب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے ایک ایسے حلقہ میں جہاں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، ان سے دریافت کیا : اے ابوہریرہ! میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا آپ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : (اے حسان! ) میری طرف سے (کفار و مشرکین کو) جواب دو، اللہ تعالیٰ روح القدس (یعنی حضرت جبرائیل ں) کے ذریعے تمہاری مدد فرمائے گا؟ تو انہوں نے جواب دیا : ہاں، اللہ کی قسم! میں نے سنا ہے۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام مسلم، احمد، عبد الرزاق اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ عُمَرَ رضی الله عنه مَرَّ بِحَسَّانَ رضی الله عنه وَھُوَ یُنْشِدُ الشِّعْرَ فِي الْمَسْجِدِ فَلَحَظَ إِلَيْهِ فَقَالَ : قَدْ کُنْتُ أُنْشِدُ وَفِيْهِ مَنْ ھُوَ خَيْرٌ مِنْکَ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَی أَبِي ھُرَيْرَةَ رضی الله عنه فَقَالَ : أَنْشُدُکَ اللهَ أَسَمِعْتَ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : أَجِبْ عَنِّي، اَللَّھُمَّ أَيِّدْهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ قَالَ : اَللَّھُمَّ، نَعَمْ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، درآنحالیکہ وہ مسجد میں شعر پڑھ رہے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گھور کر ان کی طرف دیکھا تو حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے کہا : میں مسجد میں اس وقت بھی شعر پڑھتا تھا جب مسجد میں آپ سے افضل شخص (یعنی حضور نبی اکرم ﷺ خود ظاہرًا بھی) موجود تھے، پھر انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف مڑ کر دیکھا (جو کہ وہاں موجود تھے) اور کہا : (اے ابوہریرہ!) میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر سوال کرتا ہوں کہ کیا تم نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : (اے حسان!) میری طرف سے (مشرکین کو) جواب دو۔ اے اللہ! اس کی روح القدس (حضرت جبرائیل علیہ السلام) کے ذریعہ سے تائید فرما؟ تو انہوں نے کہا : ہاں اللہ کی قسم! سنا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم، ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنْ بَرِيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : أَعَانَ جِبْرِيْلُ علیه السلام حَسَّانَ بْنَ ثَابِتٍ رضی الله عنه عَلَی مَدْحِهِ النَّبِيَّ ﷺ بِسَبْعِيْنَ بَيْتًا۔

رَوَاهُ الْفَاکِھِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَالْمِزِّيُّ۔ وَقَالَ ابْنُ عَسَاکِرَ : ھَذَا الْإِسْنَادُ وَھُوَ الصَّحِيْحُ۔

’’حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی حضور نبی اکرم ﷺ کی مدح کے سلسلہ میں ستر اشعار کے ساتھ مدد فرمائی۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام فاکہی، ابن عساکر اور مزی نے روایت کیا ہے۔ امام ابن عساکر نے فرمایا کہ اس کی اسناد صحیح ہے۔

نعت  سے کفار کی ہجو

(5)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنھا أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : اھْجُوْا قُرَيْشًا فَإِنَّهُ أَشَدُّ عَلَيْھَا مِنْ رَشْقٍ بِالنَّبْلِ، فَأَرْسَلَ إِلَی ابْنِ رَوَاحَةَ فَقَالَ : اھْجُھُمْ فَھَجَاھُمْ، فَلَمْ یُرْضِ، فَأَرْسَلَ إِلَی کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَی حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ رضی الله عنه، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ، قَالَ حَسَّانُ رضی الله عنه : قَدْ آنَ لَکُمْ أَنْ تُرْسِلُوْا إِلَی ھَذَا الْأَسَدِ الضَّارِبِ بِذَنْبِهِ، ثُمَّ أَدْلَعَ لِسَانَهُ، فَجَعَلَ یُحَرِّکُهُ، فَقَالَ : وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ لَأَفْرِیَنَّھُمْ بِلِسَانِي فَرْيَ الْأَدِيْمِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَا تَعْجَلْ، فَإِنَّ أَبَا بَکْرٍ أَعْلَمُ قُرَيْشٍ بِأَنْسَابِھَا، وَإِنَّ لِي فِيْھِمْ نَسَبًا حَتَّی یُلَخِّصَ لَکَ نَسَبِي، فَأَتَاهُ حَسَّانُ ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، قَدْ لَخَّصَ لِي نَسَبَکَ۔ وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ، لَأَسُلَّنَّکَ مِنْھُمْ کَمَا تُسَلُّ الشَّعَرَةُ مِنَ الْعَجِيْنِ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالطَّبَرِيُّ۔

’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قریش کی ہجو کرو، کیونکہ ان (گستاخوں ) پر ہجو تیروں کی بوچھاڑ سے زیادہ شاق گزرتی ہے پھر آپ ﷺ نے حضرت ابن رواحہ کی طرف پیغام بھیجا کہ کفار قریش کی ہجو کرو، انہوں نے کفار قریش کی ہجو کی، وہ آپ کو پسند نہیں آئی، پھر آپ نے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا، پھر حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا جب حضرت حسان آپ ﷺ کی خدمت میں آئے تو انہوں نے عرض کیا : اب وقت آگیا ہے آپ نے اس شیر کی طرف پیغام بھیجا ہے جو اپنی دم سے مارتا ہے پھر اپنی زبان نکال کر اس کو ہلانے لگے پھر عرض کیا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے! میں اپنی زبان سے انہیں اس طرح چیر پھاڑ کر رکھ دوں گا جس طرح چمڑے کو پھاڑتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جلدی نہ کرو، یقینا ابو بکر قریش کے نسب کو سب سے زیادہ جاننے والے ہیں اور ان میں میرا نسب بھی ہے (تم ان کے پاس جاؤ) تاکہ ابو بکر میرا نسب ان سے الگ کردیں۔ حضرت حسان رضی اللہ عنہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے پھر واپس لوٹے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! ابو بکر نے میرے لئے آپ کا نسب الگ کر دیاہے اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے میں (ان کی ھجو کرتے ہوئے)آپ کو ان میں سے اس طرح نکال لوں گا جس طرح گندھے ہوئے آٹے سے بال نکال لیا جاتا ہے۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام مسلم، طبرانی اور طبری نے روایت کیا ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنھا قَالَتْ : اِسْتَأْذَنَ حَسَّانُ النَّبِيَّ ﷺ فِي ھِجَائِ الْمُشْرِکِيْنَ قَالَ : کَيْفَ بِنَسَبِي؟ فَقَالَ حَسَّانُ لَأَسُلَّنَّکَ مِنْھُمْ کَمَا تُسَلُّ الشَّعَرَةُ مِنَ الْعَجِيْنِ۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ۔

وفي روایۃ : عن الشَّعْبِيِّ قال : اسْتَأْذَنَ حَسَّانُ النَّبِيَّ ﷺ فِي قُرَيْشٍ قَالَ : کَيْفَ تَصْنَعُ بِنَسَبِي فِيْھِمْ؟ قَالَ : أَسُلُّکَ مِنْھُمْ کَمَا تُسَلُّ الشَّعَرَةُ مِنَ الْعَجِيْنِ۔

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ۔

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم ﷺ سے مشرکین کی ہجو کرنے کی اجازت طلب کی، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ میرے نسب کا کیا ہو گا؟‘‘ تو انہوں نے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) ’’میں آپ کے نسب مبارک کو ان (مشرکین) سے ایسے نکال لوں گا، جیسے آٹے سے بال نکالا جاتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

’’اور امام شعبی کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم ﷺ سے قریش (کی مذمت) بیان کرنے کی اجازت طلب کی تو آپ ﷺ نے فرمایا : ان میں موجود میرے نسب کا کیا کرو گے؟ تو انہوں نے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) میں آپ کے نسب کو ان سے ایسے نکال لوں گا جیسے آٹے سے بال نکالا جاتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

نعت  کو  رسول اللہ نے اسلام کا دفاع  قرار دیا

(6)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ دَخَلَ مَکَّةَ فِي عُمْرَةِ الْقَضَاءِ وَعَبْدُ اللهِ بْنُ رَوَاحَةَ رضی الله عنه بَيْنَ یَدَيْهِ یَمْشِي وَھُوَ یَقُوْلُ :

خَلُّوْا بَنِي الْکُفَّارِ عَنْ سَبِيْلِهِ

الْیَوْمَ نَضْرِبْکُمْ عَلَی تَنْزِيْلِهِ

ضَرْبًا یَزِيْلُ الْھَامَ عَنْ مَقِيْلِهِ

وَیُذْھِلُ الْخَلِيْلَ عَنْ خَلِيْلِهِ

فَقَالَ لَهُ عُمَرُ : یَا ابْنَ رَوَاحَةَ، بَيْنَ یَدَي رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَفِي حَرَمِ اللهِ تَقُوْلُ الشِّعْرَ؟ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ : خَلِّ عَنْهُ یَا عُمَرُ، فَلَھِيَ أَسْرَعُ فِيْھِمْ مِنْ نَضْحِ النَّبْلِ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَالْبَغَوِيُّ، وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : ھَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔ وَقَالَ الْبَغَوِيُّ : إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ۔

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عمرہ قضاء کے موقع پر حضورنبی اکرم ﷺ مکہ مکرمہ میں اس شان سے داخل ہوئے کہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے آگے آگے چل رہے تھے اور یہ اشعار پڑھ رہے تھے :

’’کافروں کے بیٹو! حضور نبی اکرم ﷺ کے راستہ سے ہٹ جاؤ۔ آج ان کے آنے پر ہم تمہاری گردنیں ماریں گے۔ ایسی ضرب جو کھوپڑیوں کو گردن سے جدا کردے اور دوست کو دوست سے الگ کردے۔‘‘

’’اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اے عبد اللہ بن رواحہ! رسول اللہ ﷺ کے سامنے اور اللہ تعالیٰ کے حرم میں شعر کہتے ہو؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے عمر! اسے چھوڑ دو! یہ اشعار اِن (دشمنوں) کے حق میں تیروں سے تیز تر اثر کرتے ہیں۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام ترمذی، نسائی اور بغوی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ امام بغوی نے فرمایا کہ اس کی سند صحیح ہے۔

نعت خواں  کو  رسول اللہ کی دعا اور  جنت کی بشارت

(7)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنْ عُمَرَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ لِعَبْدِ اللهِ بْنِ رَوَاحَةَ : لَوْحَرَکْتَ بِنَا الرِّکَابَ فَقَالَ : قَدْ تَرَکْتُ قَوْلِي۔ قَالَ لَهُ عُمَرُ رضی الله عنه : أَسْمِعْ وَأَطِعْ قَالَ :

اَللَّھُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اھْتَدَيْنَا

وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلاَ صَلَّيْنَا

فَأَنْزِلَنْ سَکِيْنَةً عَلَيْنَا

وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا

فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اَللَّھُمَّ ارْحَمْهُ، فَقَالَ عُمَرُ رضی الله عنه : وَجَبَتْ۔

رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ سَعْدٍ۔

’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا : کاش! (حدی خوانی کرکے) تو ہمارے ساتھ ہماری سواری میں تحرک پیدا کرے! انہوں نے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) میں نے شعر کہنا چھوڑ دیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں کہا : شعر سناؤ اور حضور نبی اکرم ﷺ کی اطاعت بجا لاؤ تو انہوں نے یہ شعر پڑھے :

’’اے اللہ تعالیٰ! اگر تیری مدد و نصرت ہمارے شاملِ حال نہ ہوتی تو نہ ہم ہدایت یافتہ ہوتے، اور نہ ہی صدقہ کرتے اور نہ ہی نماز ادا کرتے۔ پس تو ہم پر سکینہ نازل فرما اور جب دشمنوں سے ہمارا سامنا ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔‘‘

’’پس حضور نبی اکرم ﷺ نے یہ اشعار سن کر فرمایا : اے اللہ! اس پر رحم فرما، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : (حضور نبی اکرم ﷺ کے اس قول کی بدولت اس پر) جنت واجب ہوگئی ہے۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام نسائی، ابن ابی شیبہ اور ابن سعد سے روایت کیا ہے۔

نعت خواں سے  رسول اللہ کا محبت کرنا

(8)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مَرَّ بِبَعْضِ الْمَدِيْنَةِ، فَإِذَا ھُوَ بِجَوَارٍ یَضْرِبْنَ بِدُفِّھِنَّ وَیَتَغَنَّيْنَ وَیَقُلْنَ :

نَحْنُ جَوَارٍ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ

یَا حَبَّذَا مُحَمَّدٌ مِنْ جَارٍ

فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : یَعْلَمُ اللهُ إِنِّي لَأُحِبُّکُنَّ۔ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه۔

وفي روایۃ : فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : اَللَّھُمَّ بَارِکْ فِيْھِنَّ۔

رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَأَبُوْ یَعْلَی وَالنَّسَائِيُّ۔

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ مدینہ منورہ کی گلیوں سے گزرے تو چند لڑکیاں دف بجا رہی تھیں اور گا کر کہہ رہی تھیں :

’’ہم بنو نجار کی بچیاں کتنی خوش نصیب ہیں کہ محمد مصطفی ﷺ (جیسی ہستی) ہماری پڑوسی ہے۔‘‘

تو حضور نبی اکرم ﷺ نے (ان کی نعت سن کر) فرمایا : (میرا ) اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بھی تم سے بے حد محبت رکھتا ہوں۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

’’اور ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے اللہ! انہیں برکت عطا فرما۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام ابو نعیم، ابو یعلی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

رسول اللہ  کا  نعت غور سے سننے کا حکم اور نعت خواں کو انعام  عطا کرنا

(9)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنْ مُوْسَی بْنِ عُقْبَةَ رضی الله عنه قَالَ : أَنْشَدَ النَّبِيَّ ﷺ کَعْبُ بْنُ زُھَيْرٍ ’’بَانَتْ سُعَادُ‘‘ فِي مَسْجِدِهِ بِالْمَدِيْنَةِ فَلَمَّا بَلَغَ قَوْلَهُ :

إِنَّ الرَّسُوْلَ لَنُوْرٌ یُسْتَضَاء بِهِ

وَصَارِمٌ مِنْ سُیُوْفِ اللهِ مَسْلُوْلُ

أَشَارَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِکُمِّهِ إِلَی الْخَلْقِ لِیَسْمَعُوْا مِنْهُ … الحدیث۔

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَيْھَقِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ۔

وفي روایۃ : عَنْ سَعِيْدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا انْتَھَی خَبَرُ قَتْلِ ابْنِ خَطْلٍ إِلَی کَعْبِ بْنِ زُھَيْرِ بْنِ أَبِي سَلْمَی وَکَانَ بَلَغَهُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَوْعَدَهُ بِمَا أَوْعَدَهُ ابْنَ خَطْلٍ فَقِيْلَ لِکَعْبٍ إِنْ لَمْ تُدْرِکْ نَفْسَکَ قُتِلْتَ، فَقَدِمَ الْمَدِيْنَةَ فَسَأَلَ عَنْ أَرَقِّ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَدُلَّ عَلَی أَبِي بَکْرٍ رضی الله عنه وَأَخْبَرَهُ خَبَرَهُ فَمَشَی أَبُوْ بَکْرٍ وَکَعْبٌ عَلَی إِثْرِهِ حَتَّی صَارَ بَيْنَ یَدَي رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَالَ یَعْنِي أَبَا بَکْرٍ : اَلرَّجُلُ یُبَایِعُکَ فَمَدَّ النَّبِيُّ ﷺ یَدَهَ فَمَدَّ کَعْبٌ یَدَهُ فَبَایَعَهُ وَسَفَرَ عَنْ وَجْھِهِ فَأَنْشَدَهُ :

نُبِّئْتُ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ أَوْعَدَنِي

وَالْعَفْوُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللهِ مَأْمُوْلُ

إِنَّ الرَّسُوْلَ لَنُوْرٌ یُسْتَضَاءُ بِهِ

مُھَنَّدٌ مِنْ سُیُوْفِ اللهِ مَسْلُوْلُ

فَکَسَاهُ النَّبِيُّ ﷺ بُرْدَةً لَهُ فَاشْتَرَاھَا مُعَاوِیَةُ رضی الله عنه مِنْ وَلَدِهِ بِمَالٍ فَھِيَ الَّتِي تَلْبَسُھَا الْخُلَفَاء فِي الْأَعْیَادِ۔

رَوَاهُ ابْنُ قَانِعٍ وَالْعَسْقَـلَانِيُّ وَابْنُ کَثِيْرٍ فِي الْبَدَایَةِ، وَقَالَ : قُلْتُ : وَرَدَ فِي بَعْضِ الرِّوَایَاتِ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ أَعْطَی بُرْدَتَهُ حِيْنَ أَنْشَدَهُ الْقَصِيْدَةَ … وَھَکَذَا الْحَافِظُ أَبُو الْحَسَنِ ابْنُ اْلأَثِيْرِ فِي الْغَابَةِ قَالَ : ھِيَ الْبُرْدَةُ الَّتِي عِنْدَ الْخُلَفَاءِ، قُلْتُ : وَھَذَا مِنَ الْأُمُوْرِ الْمَشْھُوْرَةِ جِدًّا۔

’’حضرت موسیٰ بن عقبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ عنہ نے اپنے مشہور قصیدے ’’بانت سعاد‘‘ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی مسجد نبوی میں مدح کی اور جب اپنے اس شعر پر پہنچا :

’’بیشک (یہ) رسولِ مکرم ﷺ وہ نور ہیں جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے اور آپ ﷺ (کفر و ظلمت کے علمبرداروں کے خلاف) اللہ تعالیٰ کی تیزدھار تلواروں میں سے ایک عظیم تیغِ آبدار ہیں۔‘‘

’’حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے دستِ اقدس سے لوگوں کی طرف اشارہ کیا کہ وہ انہیں (یعنی کعب بن زہیر) کو (غور سے) سنیں۔‘‘ اسے امام حاکم، بیہقی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

’’اور حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ جب حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ عنہ کے پاس (قبول اسلام سے قبل،گستاخِ رسول) ابن خطل کے قتل کی خبر پہنچی اور اسے یہ خبر بھی پہنچ چکی تھی کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اسے بھی وہی دھمکی دی ہے جو آپ ﷺ نے ابن خطل کو دی تھی تو کعب سے کہا گیا کہ اگر تو بھی حضور نبی اکرم ﷺ کی ہجو سے باز نہیں آئے گا تو قتل کر دیا جائے گا۔ اس نے حضور نبی اکرم ﷺ کے سب سے زیادہ نرم دل صحابی کے بارے میں معلومات کیں، تو اسے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں بتایا گیا۔ وہ ان کے پاس گیا اور انہیں اپنی (ندامت و توبہ کی) ساری بات بتا دی، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ عنہ چپکے سے چلے (تاکہ کوئی صحابی راستے میں ہی اسے پہچان کر قتل نہ کر دے) یہاں تک کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے سامنے پہنچ گئے، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) یہ ایک آدمی ہے جو آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہے سو حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنا دستِ اقدس آگے بڑھایا تو حضرت کعب بن زہیر نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر آپ ﷺ کی بیعت کر لی پھر اپنے چہرے سے نقاب ہٹا لیا اور اپنا وہ قصیدہ پڑھا جس میں ہے :

’’مجھے خبر دی گئی کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے دھمکی دی ہے اور رسول اللہ ﷺ کے ہاں عفو و درگزر کی (زیادہ) امید کی جاتی ہے۔

’’بیشک (یہ) رسولِ مکرم ﷺ وہ نور ہیں جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے اور آپ ﷺ (کفر و ظلمت کے علمبرداروں کے خلاف) اللہ تعالیٰ کی تیزدھار تلواروں میں سے ایک عظیم تیغِ آبدار ہیں۔‘‘

’’پس حضور نبی اکرم ﷺ نے (خوش ہو کر) اسے اپنی چادر پہنائی جسے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کی اولاد سے مال کے بدلہ میں خرید لیا اور یہی وہ چادر ہے جسے (بعد میں) خلفاء عیدوں (اور اہم تہواروں کے موقع) پر پہنا کرتے تھے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن قانع اور امام عسقلانی نے روایت کیا ہے اور امام ابن کثیر نے ’’البدایہ‘‘ میں روایت کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ میں کہتا ہوں کہ بعض روایات میں آیا ہے کہ ’’حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنی چادر مبارک ان کو اس وقت عطا فرمائی جب انہوں نے اپنے قصیدے کے ذریعے آپ ﷺ کی مدح فرمائی … اور اسی طرح حافظ ابو الحسن ابن الاثیر نے ’’أُسُد الغابۃ‘‘ میں بیان کیا ہے کہ یہ وہی چادر ہے جو خلفا کے پاس رہی اور یہ بہت ہی مشہور واقعہ ہے۔‘‘

حوالاجات

صحابی کا نعت لکھ کر آپ کو خوشی سے بتانا

(10)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ سَرِيْعٍ رضی الله عنه قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي قَدْ مَدَحْتُ بِمَدْحَةٍ وَمَدَحْتُکَ بِأُخْرَی۔ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : ھَاتِ وَابْدَأْ بِمَدْحَةِ اللهِ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْھَقِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ۔

’’حضرت اسود بن سریع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا : یا رسول اللہ! بے شک میں نے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی ہے اور آپ ﷺ کی نعت بیان کی ہے۔ پس آپ ﷺ نے فرمایا لائو (مجھے بھی سناؤ) اور ابتداء اللہ تعالیٰ کی حمد سے کرو۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام احمد، طبرانی، بیہقی اور بخاری نے ’’الأدب المفرد‘‘ میں روایت کیا ہے۔

رسول اللہ   نے نعت  کو جہاد قرار دیا

(11)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنْ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّهُ قَالَ لِلنَّبِيِّ ﷺ : إِنَّ اللهَ عزوجل قَدْ أَنْزَلَ فِي الشِّعْرِ مَا أَنْزَلَ، فَقَالَ : إِنَّ الْمُؤْمِنَ یُجَاھِدُ بِسَيْفِهِ وَلِسَانِهِ وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِهِ، لَکَأَنَّ مَا تَرْمُوْنَھُمْ بِهِ نَضْحُ النَّبْلِ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْبَغَوِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ۔

’’حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا : بیشک اللہ تبارک و تعالیٰ نے شعر کے بارے میں نازل کیا جو نازل کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : بیشک مومن اپنی تلوار اور زبان دونوں کے ساتھ جہاد کرتا ہے اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! گویا جو الفاظ تم ان (کفار و مشرکین)کی مذمت میں کہتے ہو وہ (ان کے لئے) بمنزلہ تیر برسانے کے ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد، ابن حبان، بغوی اور بخاری نے ’التاریخ الکبیر‘ میں روایت کیا ہے۔

حوالاجات

صحابی کا نعت پڑھنے کے شوق  پرآپ سے دعا لینا

(12)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنْ خُرَيْمِ بْنِ أَوْسِ بْنِ حَارِثَةَ بْنِ لَامٍ رضی الله عنه قَالَ : کُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ لَهُ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي الله عنهما : یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي أُرِيْدُ أَنْ أَمْدَحَکَ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : هَاتِ لَا یَفْضُضِ اللهُ فَاکَ فَأَنْشَأَ الْعَبَّاسُ رضی الله عنه یَقُوْلُ :

وَأَنْتَ لَمَّا وُلِدْتَ أَشْرَقَتِ

الْأَرْضُ وَضَاءَتْ بِنُوْرِکَ الْأُفُقُ

فَنَحْنُ فِي الضِّیَاءِ وَفِي

النُّوْرِ وَسُبُلُ الرَّشَادِ نَخْتَرِقُ

رَوَاهُ الطَّبَرَانِي وَالْحَاکِمُ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ۔

’’حضرت خریم بن اوس بن حارثہ بن لام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے خدمتِ اقدس میں موجود تھے تو حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہما نے آپ ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا : یا رسول اللہ! میں آپ کی مدح و نعت پڑھنا چاہتا ہوں تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : لاؤ مجھے سناؤ اللہ تعالیٰ تمہارے دانت صحیح و سالم رکھے (یعنی تم اسی طرح کا عمدہ کلام پڑھتے رہو) تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے یہ پڑھنا شروع کیا :

’’اور آپ وہ ذات ہیں کہ جب آپ کی ولادت باسعادت ہوئی تو (آپ کے نور سے) ساری زمین چمک اٹھی اور آپ کے نور سے اُفقِ عالم روشن ہو گیا پس ہم ہیں اور ہدایت کے راستے ہیں اور ہم آپ کی عطا کردہ روشنی اور آپ ہی کے نور میں ان (ہدایت کی راہوں) پر گامزن ہیں۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام طبرانی، حاکم اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔

رسول اللہ  نے نعت  پڑھنے کو  عملِ صالح قرار دیا

(13)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الْبَرَّادِ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآیَةُ : {وَالشُّعَرَاءُ یَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُوْنَ} [الشعراء، 26 : 224] جَاءَ عَبْدُ اللهِ بْنُ رَوَاحَةَ وَکَعْبُ بْنُ مَالِکٍ وَحَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ رضی الله عنهم إِلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَهُمْ یَبْکُوْنَ فَقَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَنْزَلَ اللهُ هَذِهِ الآیَةَ وَهُوَ یَعْلَمُ أَنَّا شُعَرَاءُ فَقَالَ : إِقْرَأُوْا مَا بَعْدَهَا : {إِلَّا الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ} [الشعراء، 26 : 227] أَنْتُمْ {وَانْتَصَرُوْا} أَنْتُمْ۔

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ أَبِي حَاتِمٍ وَالطَّبَرِيُّ۔

’’حضرت حسن براد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ جب قرآن پاک کی یہ آیت نازل ہوئی : ’’اور شاعروں کی پیروی بہکے ہوئے لوگ ہی کرتے ہیں۔‘‘ تو حضرت عبد اللہ بن ابی رواحہ، حضرت کعب بن مالک اور حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہم تینوں حضورنبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اس حال میں کہ وہ گریہ کناں تھے اور عرض کرنے لگے : یارسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے (شعراء کے بارے میں) یہ آیت نازل فرمائی ہے اور وہ جانتا ہے کہ ہم بھی شاعر ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا : اسکے بعد والی آیت پڑھو کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’سوائے ان (شعراء) کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا : اس آیت سے مراد تم لوگ ہو اور پھر (آیت کے اگلے حصہ) : ’’اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد (ظالموں سے بزبانِ شعر) انتقام لیا۔‘‘ تلاوت کر کے فرمایا : اس سے مراد بھی تم لوگ ہی ہو۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ، ابن ابی حاتم اور طبری نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما {وَالشُّعَرَاءُ} قَالَ : اَلْمُشْرِکُوْنَ مِنْهُمُ الَّذِيْنَ کَانُوْا یَهْجُوْنَ النَّبِيَّ ﷺ {یَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُوْنَ} غُوَاةُ الْجِنِّ {فِي کُلِّ وَادٍ يَّهِيْمُوْنَ} فِي کُلِّ فَنٍّ مِنَ الْکَـلَامِ، یَأْخُذُوْنَ ثُمَّ اسْتُثْنِيَ فَقَالَ : {إِلَّا الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ} یَعْنِي حَسَّانَ بْنَ ثَابِتٍ وَعَبْدَ اللهِ بْنَ رَوَاحَةَ وَکَعَبَ بْنَ مَالِکٍ رضی الله عنهم کَانُوْا یَذُبُّوْنَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَأَصْحَابِهِ هَجَاءَ الْمُشْرِکِيْنَ۔

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ وَالسَّیُوْطِيُّ۔

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آیت (وَالشُّعَرَاءُ۔۔۔) سے وہ مشرک شاعر مقصود ہیں جو حضور نبی اکرم ﷺ اور آپ ﷺ رفقائے کار کی مذمت کرنے اور (ہجو کرنے) میں مصروف رہتے تھے، اور آیت مبارکہ – {شاعروں کی پیروی بہکے ہوئے لوگ ہی کرتے ہیں} – سے یہ مراد ہے کہ جن لوگوں کو جنات نے بہکایا ہو {اور وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہوں} اسی طرح وہ اپنی تاویلیں ہر فن اور کلام میں گھڑتے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں استثناء کرتے ہوئے فرمایا : {سوائے ان (شعراء) کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے} اور اِس سے مراد حضرت حسان بن ثابت، حضرت عبد اللہ بن رواحہ، اور حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہم (و دیگر نعت خواں شامل) ہیں جو کہ مشرکین مکہ کے خلاف حضور نبی اکرم ﷺ اور انکے اصحاب کا دفاع کیا کرتے تھے۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام ابن ابی حاتم اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔

رسول اللہ   نے نعت خوان کو مقابلتاً   سید الشعراء کا خطاب دیا

(14)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لَهُ : وَإِيَّاکَ یَا سَيِّدَ الشُّعَرَاءِ۔ رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا۔

’’حضرت ہشام بن حسان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے (حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا : اور (سنو!) اے شاعروں کے سردار!‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام ابن ابی دنیا نے روایت کیا ہے۔

رسول اللہ  کا  نعت خوان کی عزت افزائی کرنا

(15)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ یَحْمِي أَعْرَاضَ الْمُؤْمِنِيْنَ؟ قَالَ کَعْبٌ : أَنَا، قَالَ ابْنُ رَوَاحَةَ : أَنَا، قَالَ : إِنَّکَ لَتُحْسِنُ الشِّعْرَ۔ قَالَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ رضی الله عنه : أَنَا۔ إِذْ قَالَ : أُھْجُھُمْ، فَإِنَّهُ سَیُعِيْنُکَ عَلَيْھِمْ رُوْحُ الْقُدُسِ۔ رَوَاهُ الطَّحَاوِيُّ۔

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مومنوں کی عزتوں کی حفاظت کون کرے گا؟ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : (یا رسول اللہ!)، میں، اور حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنہ نے بھی عرض کیا : (یا رسول اللہ!) میں (حفاظت کروں گا)۔ آپ ﷺ نے فرمایا : بے شک تو عمدہ شعر کہنے والا ہے۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) میں (بھی حفاظت کروں گا)۔ تو حضور نبی اکرم ﷺ نے انہیں فرمایا : تم مشرکین کی ہجو کرو اور اس کام میں روح القدس (حضرت جبرائیل) علیہ السلام تمہاری مدد کرے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام طحاوی نے بیان کیا ہے۔

حوالاجات

رسول اللہ  کے حسن کو  دیکھتے ہی  نعت کہنا

(16)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنْ عُرْوَةَ أَنَّ حَکِيْمَ بْنَ حِزَامٍ خَرَجَ إِلَی الْیَمَنِ فَاشْتَرَی حُلَّةً ذِي یَزَنٍ، فَقَدِمَ بِھَا الْمَدِيْنَةَ عَلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَأَھْدَاھَا لَهُ فَرَدَّھَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ وَقَالَ : إِنَّا لَا نَقْبَلُ هَدْیَةَ مُشْرِکٍ فَبَاعَھَا حَکِيْمٌ فَأَمَرَ بِھَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَاشْتُرِیَتْ لَهُ فَلَبِسَھَا ثُمَّ دَخَلَ فِيْھَا الْمَسْجِدَ فَقَالَ حَکِيْمٌ : فَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا قَطُّ أَحْسَنَ مِنْهُ فِيْھَا لَکَأَنَّهُ الْقَمَرُ لَيْلَةَ الْبَدْرِ فَمَا مَلَکْتُ نَفْسِي حِيْنَ رَأَيْتُهُ کَذَلِکَ أَنْ قُلْتُ :

مَا یَنْظُرُ الْحُکَّامُ بِالْحُکْمِ بَعْدَ مَا

بَدَا وَاضِحٌ ذُوْ غُرَّةٍ وَحَجُوْلُ

إِذَا وَاضَخُوْهُ الْمَجْدَ أَرْبَی عَلَيْهِمْ

بِمُسْتَفْرَغِ مَاء الذِّنَابِ سَجِيْلُ

فَضَحِکَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ ۔

رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْحَاکِمُ نَحْوَهُ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ۔

’’حضرت عروہ سے روایت ہے کہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ (قبولِ اسلام سے پہلے بغرض تجارت) یمن کی طرف گئے۔ وہاں سے انہوں نے ایک نہایت دلربا اور جاذب نظر لباس خریدا۔ مدینہ منورہ واپس آکر وہ لباس حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں تحفتاً پیش کیا۔ آپ ﷺ نے یہ لباس قبول کرنے سے انکار فرمایا اور یہ کہہ کر لوٹا دیا کہ ہم مشرک کا تحفہ قبول نہیں کرتے۔ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے اسے فروخت کرنے کا (عندیہ دیا) تو آپ ﷺ نے اسے اپنے لئے خریدنے کا حکم فرمایا۔ وہ لباس آپ ﷺ کے لئے خرید لیا گیا۔ جب آپ ﷺ نے اُسے زیبِ تن فرما کر مسجد میں تشریف لائے اور حضرت حکیم نے آپ ﷺ کو اس لباس میں دیکھا تو وہ بے ساختہ کہہ اٹھے : میں نے اس لباس میں آپ ﷺ سے زیادہ حسین جچتا ہوا انسان کبھی نہیں دیکھا، آپ تو چودھویں کا چاند دکھائی دیتے ہیں اور بے قابو ہو کر بے ساختہ یہ اشعار پڑھنے لگے :

’’جب روشن، چمکتے دمکتے اور گورے مکھڑے والے (محمد مصطفی ﷺ ) جلوہ افروز ہوتے ہیں تو (حسن و قبح کا) حکم لگانے والے (حسن مصطفی ﷺ میں کھو کر) اپنا (منصب) حکم بھول جاتے ہیں۔ جب لوگوں نے ان کے ساتھ عظمت اور بزرگی میں مقابلہ کرنا چاہا تو وہ ان سب پر (عطاؤں اور کرم نوازیوں سے بھرے) بڑے بڑے ڈولوں کے ساتھ سبقت لے گئے۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کو امام طبری، طبرانی اور اسی طرح حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔

نعت خواں کی بے ادبی کی مزمت

(17)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

قَالَ عُرْوَةَ رضی الله عنه : کَانَتْ عَائِشَةُ رضي الله عنها تَکْرَهُ أَنْ یُّسَبَّ عِنْدَھَا حَسَّانُ وَتَقُوْلُ : فَإِنَّهُ قَالَ :

فَإِنَّ أَبِي وَوَالِدَهُ وَعِرْضِي

لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْکُمْ وِقَاءُ

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

’’حضرت عروہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس بات کو (سخت) ناپسند فرماتی تھیں کہ ان کے سامنے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہا جائے۔ فرماتی تھیں (انہیں برا بھلا مت کہو) انہوں نے (حضور نبی اکرم ﷺ کی شان میں) یہ نعت پڑھی ہے :

’’بلاشبہ میرا باپ، میرے اجداد اور میری عزت (ہمارا سب کچھ)، محمد مصطفی ﷺ کی عزت و ناموس کے دفاع کے لئے تمہارے خلاف ڈھال ہیں۔‘‘

حوالاجات

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

نعت خواں  کی عزت کرنے کی ترغیب

(18)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنْ ھِشَامٍ رضی الله عنه عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : ذَھَبْتُ أَسُبُّ حَسَّانَ عِنْدَ عَائِشَةَ رضي الله عنها، فَقَالَتْ : لَا تَسُبَّهُ، فَإِنَّهُ کَانَ یُنَافِحُ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

’’حضرت ہشام رضی اللہ عنہ نے اپنے والد (حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما) سے راویت کیا کہ انہوں نے فرمایا : میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے لگا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : انہیں برا بھلا نہ کہو وہ (اپنی شاعری کے ذریعے) رسول اللہ ﷺ کا کفار کے مقابلہ میں دفاع کیا کرتے تھے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عَنْ مَسْرُوْقٍ قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ عَائِشَةَ رضي الله عنها فَدَخَلَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ رضی الله عنه فَأَمَرَتْ فَأُلْقِيَ لَهُ وِسَادَةٌ … الحدیث۔ رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ وَابْنُ کَثِيْرٍ۔

’’حضرت مسروق سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں موجود تھا تو اتنے میں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے (ان کی تکریم کے لئے) حکم دیا کے اُن کے لئے تکیہ رکھا جائے (حضرت حسان رضی اللہ عنہ چونکہ اشعار کے ذریعے حضور نبی اکرم ﷺ کا دفاع کرتے تھے، اس لئے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے انہیں یہ عزت و تکریم بخشی)۔‘‘اس روایت کو امام طبری اور ابن کثیر نے بیان کیا ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

وفي روایۃ : عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيْرِيْنَ أَنَّ عَائِشَةَ رضي الله عنها کَانَتْ تَأْذَنُ لِحَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ رضی الله عنه وَتَدْعُوْ لَهُ بِالْوِسَادَةِ وَتَقُوْلُ : لَا تُؤْذُوْا حَسَّانَ فَإِنَّهُ کَانَ یَنْصُرُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ بِلِسَانِهِ۔ ذَکَرَهُ السَّیُوْطِيُّ۔

’’ایک اور روایت میں امام محمد بن سیرین علیہ الرحمہ سے مروی ہے کہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا گھر میں آنے کی (خصوصی) اجازت دے دیتی تھیں اور ان کے لئے تکیہ لگانے کا اہتمام کرتی تھیں اور تاکیداً فرماتیں کہ انہیں تنگ نہ کیا جائے کیونکہ وہ اپنی زبان سے (شان مصطفی ﷺ میں اشعار کہہ کر) حضور نبی اکرم ﷺ کی مدد کیا کرتے تھے۔‘‘ اسے امام سیوطی نے ذکر کیا ہے۔

میلاد النبیﷺ حُبِ رسولﷺ ہے

2.6.11

وہ تمام اَعمالِ صالحہ اور اِطاعات و عبادات جو ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِتباع اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبتِ مبارکہ کی پیروی میں ادا کرتے ہیں اَعمال کی ظاہری شکل ہے۔ یہ سب کچھ جو بادی النظر میں دکھائی دیتا ہے دراَصل وجودِ اَعمال ہے جس میں ایک حقیقی رُوح کار فرما ہے جو ان کو درجۂ قبولیت تک پہنچاتی ہے، اور وہ نظر نہ آنے والی لطیف حقیقت محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

1۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

لا يؤمن أحدکم حتي أکون أحب إليه من والده وولده والناس أجمعين.

’’تم میں سے کوئی شخص مومن ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ میں اسے اس کے ماں باپ، اس کی اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘

حوالاجات

2۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

فو الذي نفسي بيده! لا يؤمن أحدکم حتي أکون أحب إليه من والده وولده.

’’اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اس کے والدین اور اولاد سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘

حوالاجات

ان احادیثِ مبارکہ سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ ہمارے اَعمال میں محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روح کا درجہ رکھتی ہے، اگر یہ مفقود ہو تو روح سے عاری اَعمال بے اَجر، بے ثمر اور بے کار ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اﷲ رب العزت کے نزدیک ان کی حیثیت پرِکاہ کے برابر بھی نہیں رہتی۔ اِس لحاظ سے محافلِ میلاد محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِحیاء کا مؤثر ترین ذریعہ ہیں۔ ان محافل و مجالس میں نعت اور صلوٰۃ و سلام کا جو اہتمام کیا جاتا ہے اس کے پیچھے کار فرما محرک یہی جذبہ ہوتا ہے کہ اصلِ ایماں محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماند پڑ جانے والی حرارت کو پھر سے شعلہ بنایا جائے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا چراغ پھر سے مومنوں کے دلوں میں روشن کیا جائے۔ اِسی طرح فرمودۂ اقبال رحمۃ اللہ علیہ

در دلِ مسلم مقامِ مصطفیٰ است

آبروی ما ز نامِ مصطفیٰ است

اِقبال، کليات (فارسي)، اَسرار و رُموز : 38

(مسلمان کے دِل میں مقامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گھر کر رکھا ہے، ہماری عزت و آبرو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے ہی ہے۔)

کا منشاء پورا ہو سکتا ہے ورنہ ہماری دین داری تو محض ایک رسم بن کر رہ گئی ہے۔ جب کہ عہد صحابہ و تابعین و تبع تابعین میں ایسی کوئی صورتِ حال کار فرما نہ تھی۔ انہیں اپنی کشتِ ایمان کو حوادثِ زمانہ کی دست برد سے بچانے کی ایسی ضرورت نہ تھی جس طرح آج ہمیں درپیش ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اَحوالِ محبت جو کتبِ حدیث میں محفوظ ہیں وہ ان عاشقانِ زار کی وارفتگیء محبت پر شاہد عادل ہیں۔ اَربابِ سیرت نے لکھا ہے کہ ان عشاقانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسی متاعِ گراں بہا تھی کہ اگر اسے ساری کائنات میں تقسیم کر دیا جائے تو پھر بھی قیامت تک کم نہ پڑے۔

لہٰذا آج کے دورِ فتن میں ہمارے ایمان کو ہر جہت سے خطرات لاحق ہیں اور طاغوتی یلغار کئی محاذوں پر سرگرم عمل ہے۔ آج ایمان کی حفاطت کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم شعوری کوشش کے ذریعے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اپنی اولادوں کو منتقل کریں۔

منتقلی کا یہ عمل جو سال کے گیارہ مہینے تعلیماتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دروسِ قرآن کی شکل میں جاری رہتا ہے اس سلسلے کو ربیع الاول کے ماہِ مبارک میں خصوصی توجہ سے مہمیز کر کے آگے بڑھائیں تاکہ عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نقش ہمارے قلوب پر ’’کالنقش فی الحجر‘‘ کی طرح ثبت ہو جائے۔

خلاصہِ کلام

2.6.12

قال الإمام القسطلاني : من علامات محبته ﷺ کثرۃ ذکره، فمن أحب شیئاً أکثر من ذکره۔وقیل : للمحب ثلاث علامات : أن یکون کلامه ذکر المحبوب، وصمته فکراً فیه، وعمله طاعۃ له۔

’’امام قسطلانی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ محبت کی ایک علامت آپ ﷺ کا بکثرت ذکر کرنا ہے۔ کیوں کہ جو شخص جس چیز سے محبت کرتا ہے اس کا ذکر بھی زیادہ کرتا ہے اور یہ بھی مذکور ہے : محب کی تین علامات ہیں : ایک یہ کہ اس کا کلام محبوب کا ذکر ہو، اس کی خاموشی محبوب کی فکر ہو اور اس کا عمل اُس کی فرمانبرداری ہو۔‘‘

القسطلاني في المواھب اللّدنّیّۃ بِالْمنحِ الْمحمّدیّۃ، 2 / 495۔

قال القاضي عیاض رَحِمَهُ الله : من علامۃ حبِّ الرجلِ للنبي ﷺ شفقته علی أمته، ونصحه لهم، وسعیه في مصالحهم، ورفع المضار عنهم۔

’’قاضی عیاض رَحِمَهُ اللہ فرماتے ہیں کہ کسی کی آپ ﷺ کے ساتھ محبت کی علامت یہ ہے کہ آپ ﷺ کی امت کے ساتھ شفقت و مہربانی سے پیش آئے، ان کو اچھی بات بتائے اور ان کی خیر خواہی کی کوشش کرے۔ ‘‘

القاضي عیاض في الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ : 504۔

محبت اور متابعت کا باہمی تعلق

محبت کے معنی کو اگر حقیقی طور پر سمجھ لیا جائے تو یہ بندے کو متابعت کی طرف لے کر جاتی ہے کہ جب بندے نے محبوب کے قدموں تلے بچھ جانا ہے۔ ۔ ۔ اپنی ترجیحات کو آقا علیہ السلام کی ترجیحات میں فناکرنا ہے۔ ۔ ۔ اپنی سیرت کو حضور علیہ السلام کی سیرت کے مطابق ڈھالنا ہے۔ ۔ ۔ اپنی زندگی کی پسند و ناپسند کو حضور نبی اکرم ﷺ کی پسند و ناپسند میں فنا کرنا ہے۔ ۔ ۔ اپنی زندگی کی ساری سمتیں حضور علیہ السلام سے متعین کرنی ہیں تو پھر ایسا کون سا محب ہوگا جو محبوب کے تابع نہ ہو۔ محبت ہو اور متابعت نہ ہو، ایسا ناممکن ہے۔ ہم نے زندگی میں محبت اور متابعت دونوں کے ساتھ بھی دھوکہ کیا ہے۔ یاد رکھیں! محبت بغیر متابعت کے رہ نہیں سکتی اور متابعت بغیر محبت کے مقبول نہیں ہوسکتی۔ ۔ ۔ محبت کے بغیر متابعت کا دعویٰ دھوکہ ہے اور متابعت کے بغیر محبت کا دعویٰ  بھی دھوکہ دہی ہے۔

میلادمیلاد میلاد میلاد میلاد میلاد میلاد میلاد

Scroll to Top