تعظیم رسولﷺ

2.5

حقیقی اَدب و اِحترام اور اِنتہائی تعظیم کی حق دار و سزا وار صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس عظیم ہستی کی تعظیم و تکریم کا اظہار صرف عبادت کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ عبادت ایک ایسا عمل ہے جو سراسر اللہ بزرگ و برتر کے لئے دل کی گہرائیوں سے تعظیم و تکریم اور ادب واحترام کے اعلیٰ ترین درجے سے عبارت ہے۔ کسی اور کے لئے تعظیم اور ادب و احترام کے جتنے بھی درجے ہوسکتے ہیں وہ اس درجہ سے کم تر اور فروتر ہوں گے اور ان کی نوعیت بھی عمومی درجہ کی ہو گی۔

اسلامی تعلیمات اور معاشرتی آداب میں یہ بات شامل ہے کہ افرادِ اُمت درجہ بدرجہ ایک دوسرے کی عزت و تعظیم کریں۔ اولاد والدین کی تعظیم کرے، شاگرد استاد کی اور چھوٹا بڑے کی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جو بڑا چھوٹے پر شفقت نہ کرے اور چھوٹا بڑے کی توقیر نہ کرے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘

ترمذی، السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی رحمۃ الصبیان، 4: 321، رقم: 1919

گویا توقیر اور تعظیم کے ساتھ ایک دوسرے سے پیش آنا معاشرتی تقاضا ہے جسے شائستگی اور تہذیب کی حدود میں رہتے ہوئے پورا کرنا ہر ایک کے لئے لازمی ہے۔

تعظیم و توقیرِ نبی ﷺاور توحیدِ باری تعالیٰ

اس باب میں دو امور ایسے ہیں جن کا لحاظ ضروری ہے:

اوّل اس بات کا عقیدہ رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات اور افعال میں اپنی تمام مخلوق سے منفرد اور یکتا و یگانہ ہے۔ جو شخص ذات و صفات و افعالِ باری تعالیٰ میں سے کسی میں بھی باری تعالیٰ کے ساتھ اس جیسا مخلوق کی مشارکت کا عقیدہ رکھے گا  تو وہ بلا شبہ مشرک ہو جائے گا۔

دوم یہ کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم واجب ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام و مرتبہ باقی تمام مخلوق سے اونچا ہے۔ جو شخص بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرتبہ کے بارے میں کچھ بھی تقصیر و کمی کرے گا وہ شخص گنہگار ہو گا یا پھر بعض صورتوں میں کافر ہو جائے گا۔ جو شخص تمام انواعِ تعظیم سے بڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم کرے اور صفاتِ ربوبیت میں سے کسی کے ساتھ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو متصف نہ کرے تو وہ شخص حق کو پانے والا ہے اور دونوں پہلوؤں (توحید و رسالت) کی حفاظت کرنے والا ہے۔ اس قول میں کوئی افراط و تفریط نہیں۔

تعظیم کا شرعی معنی و مفہوم2.5.1
تعظیم کے اِطلاقات2.5.2
تعظیم کی اَقسام2.5.3
اِ نتہائی تعظیم حضور ﷺکا حق ہے2.5.4
تعظیمِ رسول ﷺتوحیدِ باری تعالیٰ سے متصادم نہیں2.5.5
تعظیمِ خداوندی اور تعظیمِ رسول ﷺحقیقتِ واحدہ ہیں2.5.6
ذکرِ الٰہی کی قبولیت بھی تعظیمِ رسول ﷺسے مشروط ہے2.5.7
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی حضور ﷺسے تعظیم بالمحبت کی مثالیں2.5.8
حضور ﷺسے منسوب اَشیاء کی تعظیم2.5.9
تعظیمِ رسول ﷺاِستغراق فی التوحید کے منافی نہیں2.5.10
ادب و تعظیمِ رسول ﷺ. .. ایک نازک ایمانی اِمتحان2.5.11
خلاصہِ کلام2.5.12

تعظیم کا شرعی معنی و مفہوم

2.5.1

اَنبیائے کرام، صالحینِ عظام، والدین، شیوخ، اساتذہ یا کسی اور معزز ہستی کی عزت و توقیر، ان کا ادب و احترام، ان کی فرمان برداری، تعمیلِ ارشاد اور ان سے منسوب اشیاء کی حرمت وتکریم ان کی تعظیم ہے۔ چونکہ یہ عمل درجہِ عبادت یعنی عاجزی و تذلّل اور عجز و انکساری کی آخری حد سے کم تر اور فروتر ہوتا ہے اور اس کی نوعیت بھی عمومی ہوتی ہے اس لئے عبادت کے زمرے میں نہیں آتا اور شرعی حوالے سے یہ ایک جائز امر ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کو ئی بھی راسخ العقیدہ مسلمان اللہ تعا لیٰ کے سوا کسی اور کی تعظیم عبادت کی نیت سے ہر گز نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے افعال جو بزرگوں کی تعظیم پر مبنی ہوں وہ اسلامی تعلیمات کی تعمیل ہے۔ یہ شرک کے دائرے میں ہرگز نہیں آتے اِس لئے کہ وہ توحید سے کسی طرح بھی متعارض و متصادم نہیں۔ ایک دوسرے کی عزت و توقیر اور ادب و احترام کے حوالے سے چند احادیث ملاحظہ کریں:

چھوٹوں پر رحمت و شفقت اور بڑوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور احترام کا تعلق اسلام کی بنیادی تعلیمات کا حصہ ہے۔  حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ بواسطہ اپنے والد اور اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيْرَنَا، وَيَعْرِفْ شَرَفَ کَبِيْرِنَا.

’’وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی قدر و منزلت نہ پہچانے۔‘‘

حوالاجات

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

مَنْ کَانَ يَوْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَـلَا يُؤْذِ جَارَهُ، وَمَنْ کَانَ يُوْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الاٰخِرِ فَلْيُکْرِمْ ضَيْفَهُ، وَمَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الاٰخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ۔

’’جو شخص اللہ تعالیٰ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے، اور جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کی عزت کرے اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اچھی بات زبان سے نکالے یا پھر خاموش رہے۔‘‘

حوالاجات

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشادِ مبارک کے مطابق تعظیم حکمِ شریعت ہے۔ اگر یہ صرف اور صرف اللہ کا حق ہوتا تو کسی فرد کو کسی دوسرے کی تعظیم کرنے کا حکم نہ دیا جاتا۔ لہٰذا تعظیم نہ صرف شرعی واجبات میں سے ہے بلکہ مطلقاً مطلوب و مقبول عمل ہے جسے ترک کرنے والا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق اُمت سے خارج ہے۔ تعظیم کسی کی بھی ہو سکتی ہے۔ آپ اپنے استاد، بزرگ، والد یا کسی اور معزز ہستی کی تعظیم بجا لاتے ہیں جو بالکل جائز اور صائب عمل ہے جس کی شریعتِ مطہرہ نے تعلیم و تلقین کی ہے۔ لیکن ان میں سے کسی کے لئے بھی ایسی تعظیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جو عبادت کے درجے کو پہنچ جائے اور نہ ہی کوئی مؤمن شخص عبادت کی نیت سے کسی کی تعظیم کرنے کا تصور کرسکتا ہے۔ تعظیم کے ان دونوں انتہائی درجوں میں تمیز کرنا اور فرق روا رکھنا لازمی ہے۔ اس لیے ہر تعظیم کو عبادت نہیں کہا جا سکتا۔ ایک وحدہ لاشریک ہستی کے لئے بجا لائی جانے والی بلند ترین تعظیم ہی کو عبادت سے موسوم کیا جائے گا۔

تعظیم کے اِطلاقات

2.5.2

عبادت صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے جبکہ تعظیم کے اطلاقات بہت سے ہیں۔ اس بنیادی فرق اور واضح امتیاز کو سمجھے بغیر اکثر لوگ تعظیم کو عبادت کے زمرے میں ڈال دیتے ہیں اور یہیں سے مغالطوں کا لا متناعی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ توحید اور تعظیم کی بحث میں ہم تعظیم کی مختلف شکلوں پر الگ الگ روشنی ڈالیں۔ کیونکہ یہی شکلیں تعظیم کی اَقسام بھی ہیں اور اس کے مختلف اطلاقات بھی۔ اس کی انہی حالتوں اور صورتوں کو سمجھے بغیر سطح بِین لوگ تعظیم کو اوّلاً عبادت سمجھ لیتے ہیں اور پھر اس عبادت پر شرک کو چسپاں کر دیا جاتا ہے، آئندہ صفحات میں ہم بالترتیب تعظیم کے ان جملہ پہلوؤں پر تفصیلاً روشنی ڈالیں گے اور تعظیم کے اطلاقات پر بھی تفصیلی بحث کی جائے گی تاہم اس کا اجمالاً ذکر درج ذیل ہے:

محترم و معزز شخصیات کی تعظیم

(1)

اَنبیاء کرام علیہم السلام

1

یہ بات ذہن نشین رہے کہ اس کائنات میں انتہائی تعظیم کی حق دار صرف اللہ رب العزت کی ذات بابرکات ہے اور اس کی تعظیم فقط عبادت سے ممکن ہے، وہی اس لائق ہے کہ مخلوق سراپا اطاعت بن کر اپنی جبینِ نیاز اس کے سامنے خم کریں۔ انتہائی تعظیم کا یہ حق مخلوق میں سے کسی اور کے لئے روا نہیں۔ مخلوق کی تعظیم یہ ہے کہ شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے ان کا ادب و احترام کیا جائے ان کی عزت و تکریم کی جائے پس تعظیم کا اطلاق سب سے پہلے انبیاء علیہم السلام پر ہوتا ہے۔ بالخصوص حضور علیہ السلام کی تعظیم میں تو اَز روئے قرآن خوب مبالغہ کرنا چاہیے جس کے لئے وَتُعَزِّرُوْهُ وَتُوَقِّرُوْهُ کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔

تعظیمِ اہلِ بیت و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم

2

انبیاء علیہم السلام بالعموم اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد تعظیم کی حقدار وہ محترم و معزز ہستیاں ہیں جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایمانی قربت کے علاوہ نسبی تعلق بھی ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى.

’’فرما دیجئے: میں اِس (تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (اپنی اور اللہ کی) قرابت و قربت سے محبت (چاہتا ہوں)۔‘‘

الشوری، 42: 23

جب کہ متعدد احادیثِ مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہلِ نسبت سے محبت اور ادب واحترام کے بارے میں بیان ہوا ہے۔

پھر تعظیم کا اطلاق ان محترم و مکرم شخصیات پر بھی ہوتا ہے جن کو حالتِ ایمان میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دیدار کا شرف حاصل ہوا اور وہ ااسی حالت میں دنیا سے تشریف لے گئے۔ قرآن میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت وارد ہوئی ہے اور احادیث مبارکہ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے فضائل کا بیان فرمایا ہے۔

تعظیمِ والدین

3

اسلام  میں والدین کے ادب و احترام کی بڑی اہمیت ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن میں متعدد مقامات پر اپنی عبادت بیان کرنے کے بعد والدین کے ساتھ بھلائی و احسان کا حکم دیا ہے، ان کی نافرمانی کو شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ قرار دیا گیا لہٰذا واجب تعظیم کا اطلاق والدین پر بھی ہوتا ہے۔

تعظیمِ اَولیاء و صالحین

4

اسی طرح تعظیم کا اطلاق اللہ رب العزت کے نیک صالح بندوں پر بھی ہوتا ہے۔ قصہ موسیٰ و خضر علیہم السلام میں حضرت خضر علیہ السلام نے دو یتیم بچوں کی دیوار مرمت کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا.

’’اور ان کا باپ صالح (شخص) تھا۔‘‘

الکہف، 18: 82

گویا صالحین کی نسبت کا احترام بھی واجب ہے۔ جبکہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام نے ایک حدیثِ قدسی میں اولیاء و صالحین کی تعظیم کو بیان فرمایا جس میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے کہ

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

مَنْ عَادَ لِيْ وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ.

’’جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے میں اس سے اعلانِ جنگ کرتاہوں۔‘‘

بخاری، الصحیح، کتاب الرقاق، باب التواضع، 5: 2384، رقم: 6137

بزرگ اور مہمان کی تعظیم

5

عام معاشرے میں جو عمر کے لحاظ سے بزرگ لوگ ہوں ان کی تعظیم کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ اسی طرح مہمان کے اکرام کا بھی حکم وارد ہوا ہے۔

شعائر اللہ کی تعظیم

(2)

تعظیم کا اطلاق شعائر اللہ پر بھی ہوتا ہے جس کا حکم خود اللہ رب العزت نے قرآن حکیم میں دیا ہے۔ اور اس تعظیم کو دلوں کا تقویٰ قرار دیا ہے۔ اس کی درج ذیل مثالیں ہیں:

صفا و مروہ کی تعظیم

1

صفا و مروہ دو پہاڑ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ایک صالح بندی سیدہ ہاجرہ اور ان کے بیٹے اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت اسماعیل علیہما السلام کی نسبت سے شعائر اللہ قرار پائے ان کی تعظیم بھی واجب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی حجاج کرام ان کے درمیان سعی کرتے ہیں جو ان کی تعظیم ہے۔

قربانی کے جانور کی تعظیم

2

قرآن مجید میں قربانی کے جانوروں کو بھی شعائر اللہ قرار دیا گیا ہے، پس ان کی تعظیم بھی واجب ہے۔

اَیام و شہورِ مقدّسہ کی تعظیم

3

تعظیم کا اطلاق مخصوص ایام اور بعض مقدس شہور پر بھی ہوتا ہے۔ مثلا یوم جمعہ، پیر، عیدین، شبِ قدر، شبِ برات اور یوم عاشورہ کی تعظیم و احترام۔

اسی طرح چار مہینوں کی حرمت نصِ قطعی سے ثابت ہے جو یہ ہیں: رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم۔

اَماکنِ مقدسہ کی تعظیم

4

تعظیم کا اطلاق بعض مقدّس مقامات پر بھی ہوتا ہے جن کی حرمت و تکریم قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ مثلاً مکہ مکرّمہ، مدینہ منورہ، مسجدِ حرام، مسجدِ نبوی، مسجدِ اَقصیٰ، شام اور مقدس وادی طویٰ۔

تعظیم کی اَقسام

2.5.3

قرآن حکیم کی متعدد آیات سے ثابت ہے کہ اللہ رب العزت نے صحابہ کرامث کو تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آداب سکھائے۔ مثلاً یہ بتایا کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلانا ہو تو ایسے نہ بلاؤ جیسے تم ایک دوسرے کو بلاتے ہو بلکہ اس سے اعلیٰ تعظیم کے ساتھ بلایا کرو۔ گویا حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم مخلوق کی حد سے اعلیٰ و ارفع اور خالق کی حد سے نیچی ہو، جو آپٍ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ

بعد اَز خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

کی آئینہ دار ہو۔ اس لحاظ سے تعظیم کی تین اقسام ہیں:

 (1) تعظیم

(2) تعزیر

 (3)توقیر

تعظیم

(1)

تعلیماتِ اسلام کی رو سے اسلامی معاشرے میں ہر چھوٹا بڑے کی تعظیم کرتا ہے۔ اپنے بڑوں، بزرگوں کی زیادہ سے زیادہ ادب و تعظیم کرنا ایک معاشرتی تقاضا سمجھا جاتا ہے لیکن جب تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات ہو تو لازمی ہے کہ معمول کی تعظیم کے عام طریقے ختم ہو جائیں اور تعظیم کا بلند ترین درجہ اختیار کیا جائے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم از روئے قرآن واجب ہے۔ ادب و تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ کرنا کفر ہے۔ سورۃ الاعراف میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کی باقاعدہ طور پر چار خصوصیات بیان فرمائیں جو تعظیم و توقیرِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مشتمل ہیں اور دنیا و آخرت میں کامیابی کی شرط ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَo

’’پس جو لوگ اس(برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نور (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘

الاعراف، 7: 157

ایک اور آیتِ مبارکہ میں اسی مضمون کو مزید زور دے کر بیان فرمایا گیا ہے:

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًاo لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًاo

’’بیشک ہم نے آپ کو (روزِ قیامت گواہی دینے کے لئے اعمال و احوالِ امت کا) مشاہدہ فرمانے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تاکہ (اے لوگو!) تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائو اور ان (کے دین) کی مدد کرو اور ان کی بے حد تعظیم و تکریم کرو، اور (ساتھ) اللہ کی صبح و شام تسبیح کرو۔‘‘

الفتح، 48: 8، 9

وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ کا معنی حضور رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے انتہا درجے کی تعظیم و توقیر اور حد سے زیادہ ادب و احترام ہے۔ جس کا حکم اس طرح دیا گیا ہے جیسے فرشتوں کو حضرت آدم علیہ السلام کے آگے سجدہِ تعظیمی بجا لانے کا حکم دیا گیا تھا۔

دوسرا اہم نکتہ اس آیتِ مبارکہ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں اہلِ ایمان کو صبح شام اپنی تسبیح کی تاکید فرمائی اسی لہجے اور اسی پیرائے میں اپنے محبوب پیغمبر کی تعظیم و تکریم کا حکم فرمایا۔ گویا تعظیم و تکریمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دین میں وہی درجہ اور اہمیت ہے جو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور عبادت کی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ عبادت اللہ تعالیٰ کے لئے ہی مختص ہے اور اس کی ادائیگی کا ایک خاص طریقہ ہے لیکن تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دائمی اور باطنی عمل ہے جس پر جملہ عبادات کی قبولیت کا انحصار ہے۔ ان آیاتِ مبارکہ میں مجموعی طور پر ایمان بالرسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درج ذیل چار تقاضے بیان ہوئے ہیں:

تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم1
توقیرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم2
نصرتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم3
اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم4

اس واضح ترتیب میں ایمان کے بعد اوّلیت تعظیم و توقیر کو دی گئی ہے۔ یہ بڑا اہم اور ایمان افروز نکتہ ہے کہ نصرت و اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دو تقاضوں کے بعد مذکور ہیں۔ اس اُلوہی ترتیب سے یہ حقیقت بھی سمجھ لینی چاہیے کہ دعوت و تبلیغِ دین کا فریضہ جو فی الحقیقت نصرتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، قرآنی منشاء کے مطابق اس وقت تک مؤثر، نتیجہ خیز اور موجبِ ثمرات نہیں بنتا جب تک پہلے دین لے کر آنے والے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعظیم و توقیرکے دو تعلق استوار نہ ہوجائیں۔ نصرت و اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں کا تعلق عقائد، نظریات اور جذبات سے زیادہ اعمال و افعال کے ساتھ ہے۔ جبکہ اوّل الذکر دونوں تقاضے ایمانی کیفیت، تعلق کی نوعیت اور عقیدے کی طہارت کے معیار کو ظاہر کرتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر تعظیم و توقیرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شجرِ ایمان کی جڑیں اور تنا ہیں جبکہ موِخر الذکر دو تقاضے اس شجر کی شاخیں اور پھل ہیں۔ ایمان کی توثیق و تصدیق تبھی ہوتی ہے جب تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایمان کو پرکھا جاتا ہے کیونکہ تعظیم، ایمان پر گواہی کا درجہ رکھتی ہے۔ جب تک کوئی شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب اور تعظیم کو بدرجہ اتم اپنے دل میں جاگزیں نہ کرے اس کا ایمان کامل نہیں ہوتا۔ ایمان کی تکمیل کے بعد ہی اطاعت و نصرت کی کاوشیں مقبول اور باثمر ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا فرد کا اوّلین فریضہ ہے اور اس کے بعد ہر مسلمان کا پہلا فریضہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت، ادب اور تعظیم و تکریم پر مبنی انتہائی درجے کا تعلق اُستوار کرنا ہے۔

تعزیر

(2)

قرآن حکیم میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم کے بیان میں اللہ رب العزت نے جو الفاظ ارشاد فرمائے ہیں وہ بھی اپنے اندر بڑی معنویت اور جامعیت رکھتے ہیں چنانچہ حضور علیہ السلام کی تعظیم کے لئے ایک لفظ تُعَزِّرُوْہُ کا بیان سورہ الفتح کی آیت نمبر 48 میں آیا ہے۔ جس کا معنی ہے کہ حضور علیہ السلام کی تعظیم میں خوب مبالغہ کرو۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے عظموہ بیان نہیں ہوا تو پتہ چلا کہ وہ تعظیم جو ہم اپنے والدین، بڑے، بزرگ اور اساتذہ و مشائخ کی کرتے ہیں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم اس سے بہ درجہ ہا بڑھ کر کرنا واجب ہے یعنی عام مخلوق کے لئے تعظیم کی جو حد مقرر ہے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم ان حدود سے بڑھ کر کی جائے تو ایمان ہے۔ فقط اتنا فرق رہے کہ ذات باری تعالیٰ معبود ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے برگزیدہ بندے۔ وہ خالق ہے اور یہ مخلوق۔ پس تعظیم کا وہ بلند درجہ جو حد عبادت سے نیچے ہو وہ تعزیر ہے جو مخلوق میں سے صرف رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حق ہے جبکہ عبادت فقط اللہ رب العزت کا حق ہے۔ اس حق میں کوئی نبی رسول یا برگزیدہ بندہ ہرگز اس کا شریک نہیں۔

امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ تعزیر کا معنی یوں بیان کرتے ہیں:

التَّعْزيرُ: النُّصْرَهُ مَعَ التَعْظِيْمِ، قَال {وَتُعَزِّرُوْهُ؛ وَعَزَّرْتُمُوْهُمْ} والتَّعْزِيْرُ ضَرْبٌ دُوْنَ الْحَدِّ وَ ذَالِک يَرْجعُ الی الْاوّل فاِنّ ذٰلِکَ تأديبٌ، والتّأديبُ نُصْرَةٌ مَّا. لٰـکن الْاوّل نُصْرَةٌ بِقَمْعِ مَا يَضُرُّه عَنْه، وَالثَّانِيْ نُصْرَةٌ بِقَمْعِة عَمَّا يَضُرُّهُ. فَمَنْ قَمَعتهُ عَمَّا يَضُرّه فَقَدْ نَصَرْتهُ.

’’تعزیر سے مراد ایسی مدد ہے جس میں تعظیم بھی شامل ہو۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے (اور ان (کے دین) کی مدد کرو. .. اور (تم ان کی مدد کرتے رہے) اسی طرح التعزیر کا ایک معنی ہے کسی کو حدِ شرعی سے کم سزا دینا۔ دراصل یہ معنی بھی پہلے معنی کی مناسبت سے لیا جاتا ہے کیونکہ یہ سزا تادیباً ہے اور یہ کسی شخص کی اصلاح کے لئے ایک طرح کی مدد ہوتی ہے۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ پہلے معنی میں تعزیر کا مطلب کسی شخص سے نقصان پہنچانے والی چیز کو روکنا جبکہ دوسرے معنی کے لحاظ سے تعزیر کا مطلب ہے کسی شخص کو مضر چیز سے باز رکھنا۔ پس تو نے کسی شخص کو مضر چیز سے روکا تو، تُو نے اس کی مدد کی۔‘‘

(1) راغب اصفہانی، المفردات، 333

حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے تعزیر کی تشریح یوں کی ہے:

والتعزير يأتی بمعنی التعظيم والاعانة و المنع من الاعداء ومن هنا يجئی التعزير بمعنی التأديب لأنه يمنع الجانی من الوقوع فی الجناية.

’’تعزیر، تعظیم مدد و نصرت اور دشمنوں سے تحفظ کے معنی میں آتا ہے اسی لئے تعزیر بمعنی تادیب اصلاح یا سزا استعمال ہوتا ہے کیونکہ یہ مجرم کو معصیت کے ارتکاب سے باز رکھتا ہے۔‘‘

(2) عسقلانی، فتح الباری، 8: 582

علامہ ابنِ منظور نے تعزیر پر تفصیلی بحث کی ہے، وہ لکھتے ہیں:

’’تعزیر کا اصل معنی تادیب ہے اسی لئے شرعی حد سے کم سزا کو تعزیر کہا جاتا ہے۔ دراصل یہ بھی اصلاح اور اخلاقی تربیت ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے میں نے فلاں شخص کی سرزنش کی۔ اسی طرح عزرتہ متضاد معانی میں استعمال ہوتا ہے اور عزرہ کا معنی ہے فلاں شخص کی تعظیم اور تکریم کی یہ معنی متضاد کی طرح ہے اور العزر کامعنی ہے تلوار کے ذریعہ مدد اور عزرہ عزرا و عزرہ کا معنی ہے فلاں شخص کی پشت پناہی کی اس کو تقویت پہنچائی اور مدد کی ۔ ارشادِ باری تعالیٰ، وَتُعَزِّرُوْہُ۔ اور. .. وَعَزَّرْتُمُوْھُمْ. .. کی تفسیر ہے یعنی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد تلوار کے ساتھ کرتے رہو پس جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کی گویا اس نے اللہ گ کی مدد کی۔‘‘

مزید انہوں نے لکھا ہے:

’’انبیاء علیہم السلام کی مدد و نصرت سے مراد ان کی حمایت کرنا اور ان کے دین کے دشمنوں کو باز رکھنا اور ان کی تعظیم و تکریم کرنا ہے۔‘‘

تعزیر کا اصل معنی روکنا باز رکھنا ہے گویا کہ جس نے کسی کی مدد کی تو اس نے اس سے دشمن کو روکا اور ان کی سختی سے بچایا پس اس وجہ سے وہ تادیب جو حد شرعی سے کم ہو اسے تعزیر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ مجرم کو دوبارہ ارتکابِ معصیت سے روکتی ہے۔

ابن منظور، لسان العرب، 4: 562

مذکورہ بحث سے معلوم ہوا کہ تعظیم کا وہ درجہ جہاں کسی کی تعظیم اس حد تک کی جائے کہ اس میں محض ادب و احترام نہ ہو بلکہ اگر ضرورت پڑے تو اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کر دیا جائے اور تلوار کے ذریعہ دشمنوں کا مقابلہ کرکے ان کو ایذا رسانی سے روکا جائے، تعزیر کہلاتا ہے۔ قرآن حکیم میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعزیر سے مراد بھی ایسی نصرت ہے جس میں تعظیم بہر حال شامل ہو۔ ائمہ تفسیر نے بھی اس کا معنی کچھ اس طرح بیان کیا ہے۔

1۔ امام ابنِ کثیر نے لکھا ہے:

{لِّتُؤْمِنُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِهُ وَتُعَزِّرُوْهُ} قال ابن عباس رضی اللہ عنهما وغير واحد: تعظموه.

’’{لِّتُؤْمِنُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِهُ وَتُعَزِّرُوْهُ} کی تفسیر میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما اور دیگر اہلِ علم نے کہا ہے کہ تعزروہ سے مراد ہے: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوب تعظیم کرو۔‘‘

ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 4: 16

2۔ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:

قال ابن عباس: {تُعَزِّرُوْهُ}: أی تجلوه. وقال المبرد: {تُعَزِّرُوْهُ}: تبالغوا فی تعظيمه.

’’حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تعزروہ کا مطلب ہے ان کی تعظیم کرو، اور مبرد نے کہا: تعزروہ کا معنی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوب تعظیم کرو۔‘‘

قاضی عیاض، الشفا بتعریف حقوق المصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: 512

3۔ امام بغوی نے لکھا ہے:

{وَتُعَزِّرُوْهُ} أی تعينوه و تنصروه.

’’{وَتُعَزِّرُوْہُ} کا معنی ہے کہ ان کی مدد و اعانت کرو۔‘‘

بغوی، معالم التنزیل، 4: 190

4۔ امام بیضاوی نے لکھا ہے:

{وَتُعَزِّرُوْهُ} وتقووه بتقوية دينه و رسوله.

’’{وَتُعَزِّرُوْہُ} کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے دین اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کے ذریعہ کرو۔‘‘

بیضاوی، أنوار التنزیل، 5: 201

5۔ امام طبری نے لکھا ہے:

وکان الفراء يقول العزر الرد. عزرته رددته إذا رأيته يظلم.

’’فراء کہتے تھے کہ عزر کا معنی روکنا ہے۔ عزرتہ کا معنی ہوگا میں نے جب اس کو ظلم کرتے ہوئے پایا تو اسے روکا۔‘‘

طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن، 6: 152

6۔ امام قرطبی نے لکھا ہے:

{وَتُعَزِّرُوْهُ} أی تعظموه وتفضموه قاله الحسن والکلبی، والتعزير التعظيم والتوقير وقال قتادة: تنصروه وتمنعوا منه. ومنه التعزير فی الحد لأنه مانع.

’’و تعزروہ کا معنی حضرت حسن اور کلبی کے مطابق یہ ہے کہ ان کی تعظیم و تکریم کرو، اور تعزیر سے مراد تعظیم و توقیر ہے۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اس سے مراد ہے کہ ان کی مدد کرو اور ان سے دشمن کو روکو اسی سے تعزیر (جس کا معنی سزا) ہے کیونکہ وہ مجرم کو ارتکاب معصیت سے روکتی ہے۔‘‘

قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 16: 266

7۔ امام نحاس نے لکھا ہے:

و أصل التعزير فی اللغة المنع، ومنه عزرت فلانًا أي أنزلت به ما يمتنع من أجله من المعاودة کما تقول نکلت به أی أنزلت به ما ينکل به عن العودة.

’’لغت میں تعزیر کا معنی روکنا ہے اسی سے ہے عزرت فلاناً یعنی میں نے فلاں شخص کو اس چیز سے روکا جس کی وجہ سے وہ بار بار جرم کا ارتکاب کرتا تھا جیسے کہا جاتا ہے میں نے فلاں کو روکا یعنی اس عادت سے روکا جس کی بناء پر وہ بار بار جرم کرتا تھا۔‘‘

نحاس، معانی القرآن، 2: 385

توقیر

(3)

لغت کے اعتبار سے توقیر میں سنجیدگی، متانت، وقار اور حلم و بردباری کا معنی پایا جاتا ہے۔ یہ لفظ و۔ ق ۔ ر سے بنا ہے۔ اسی سے ایک لفظ وقار ہے۔ ابنِ منظور لکھتے ہیں:

الوقار: الحلم والرزانة.

’’وقار کا معنی ہے بردباری اور سنجیدگی۔ ‘‘

ابن منظور، لسان العرب، 5: 290

وقر سے توقیر کا معنی ہوتا ہے: کسی کی عظمت بیان کرنا۔

ووقرت الرجل اذا عظمته وفی التنزيل العزير {وَتُعَزِّرُوْهُ وَتُوَقِّرُوْهُ}.

’’وقرت الرجل اس وقت کہا جاتا ہے جب اس شخص کی عظمت شان کو بیان کیا جائے، قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالی ہے: (اور (ان کے دین) کی مدد کرو اور ان کی بے حد تعظیم و تکریم کرو۔‘‘

ابن منظور، لسان العرب، 5: 290

تعظیم و توقیر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شجرِ ایمان کی جڑ ہے۔ ایمان کی تکمیل اور اس میں بہار کاانحصار تعظیم و توقیر کے ساتھ مشروط ہے۔ قرآنِ حکیم میں ادب و احترام رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باب میں تعظیم کے ساتھ توقیر کا لفظ بھی استعمال ہواہے جسکا معنی اہلِ علم کے نزدیک ادب واحترام کی وہ کیفیت ہے جہاں تعظیم کرنے والا ممدوح کی عظمت و شان کا خوب چرچا کرے۔

لغوی اعتبار سے ’وقر‘ کے معانی میں سے ایک معنی ’کان کا بہرا ہونا‘ بھی ہے اور ’سنجیدگی‘ کا معنی بھی اس کے اندر پایا جاتا ہے تو گویا اس اعتبار سے توقیر، تعظیم کا ایسا بلند درجہ ہے جہاں کوئی شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم میں اس قدر سنجیدہ ہو جائے کہ اس کی زبان پر ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہی تعریف ہو، اس کے دل و دماغ میں کسی بھی قسم کی بے ادبی و گستاخی کا شائبہ تک نہ ہو اور اس کے کان ہر عیب سننے سے بہرہ ہو جائیں۔

توقیر بھی تعظیم سے ہے لیکن باعتبار مخلوق یہ ادب و احترام کا وہ بلند درجہ ہے جو شرعاً حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاحق ہے۔ مفسرین نے بھی توقیر کا معنی بلند درجہ تعظیم و تکریم ہی بیان کیا ہے۔

1۔ امام ابنِ کثیر نے لکھا ہے:

{وَتُوَقِّرُوْهُ} من التوقير وهو الاحترام والإجلال و الإعظام.

’’وتوقروہ یہ لفظ توقیر سے ماخوذ ہے اور اس سے مراد ادب و احترام، بلند مرتبہ اور عظمت ہے۔‘‘

ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 4: 186

2۔ امام بغوی نے لکھا ہے:

{وَتُوَقِّرُوْهُ} تعظموه وتفخموه.

’’{وَتُوَقِّرُوْہُ} کا معنی ہے ان کی تعظیم کرو اور خوب شان و شوکت بیان کرو۔‘‘

بغوی، معالم التنزیل، 4: 190

3۔ امام قرطبی لکھتے ہیں:

{وَتُوَقِّرُوْهُ} أی تسودوه.

’’وتوقروہ یعنی ان کی خوب شان و شوکت بیان کرو۔‘‘

قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 16: 267

اِ نتہائی تعظیم حضور ﷺکا حق ہے

2.5.4

مخلوق میں سب سے زیادہ تعظیم اور بزرگی کی حقدار حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ ستودہ صفات ہے۔ مترجمین نے لفظ تَعْزِیر کا ترجمہ فقط ’’مدد اور تکریم‘‘ کیا ہے۔ اس ضمن میں یہ بات ذہن نشین کرنے والی ہے کہ صرف تعزیر ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اختصاص اور حق نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حق تعزیر سے شروع ہو کر توقیر کے اعلیٰ و ارفع درجے کو پہنچتا ہے۔ پہلا حق تعظیم ہے، دوسرا حق تعزیر اور تیسرا حق توقیر ہے جو کہ بلند ترین سطح کا حق ہے۔ اس لئے بہتر اور زیادہ مناسب ترجمہ یہ ہے کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و توقیر اور ادب و احترام کا بلند ترین درجہ اختیار کیا جائے۔‘‘

سورۃ الفتح کی آیت نمبر 9 میں اہلِ ایمان سے ارشاد ہوا: وَتُسَبِّحُوْهُ بُکْرَةً وَّاَصِيْلًا (تم اللہ تعالیٰ کی تسبیح صبح و شام بیان کرو) یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و بزرگی بھی اس طرح بیان کرو جیسے تم اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہو۔ گویا قرآن کا پیغام ہے کہ لوگو! اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان پختہ تر کر لو۔ یہ تفسیر القرآن بالقرآن ہے۔ جہاں تک ایمان کو مستحکم کرنے کا تعلق ہے یہ استحکام اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق استوار کرنے سے آئے گا۔ اس وقت تک کوئی شخص مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جب تک اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اس کا ایمان مضبوط و مستحکم نہ ہو جائے۔ مسلمان ہونے کے بعد قرآن حکیم ہم سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ایمان کے زبانی اقرار اور قلبی تصدیق کے بعد ہمیں بحیثیت مسلمان صبح و شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرنا ہے اور رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و توقیر کو جہاں تک ممکن ہو بلند سے بلند درجے تک پہنچانا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس حق کو ادا کرنا امت پر فرض ہے۔

تعظیمِ رسول ﷺتوحیدِ باری تعالیٰ سے متصادم نہیں

2.5.5

محولہ بالا آیتِ قرآنی میں ادب و تعظیمِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم دی گئی ہے اور ادبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرینے سکھائے گئے ہیں۔ ذرا غور کریں کہ کوئی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر کے یہ کہنے کی جسارت کر سکتا ہے کہ مولا! میں ادب و مقامِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے آگاہ و واقف ہی نہیں تھا؟ کیونکہ تو نے تعظیم کو ’’حرام اور ممنوع‘‘ قرار دیا تھا۔ کس میں اتنی مجال ہو گی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے روبرو اس دعوے کے ساتھ پیش ہو سکے؟

حقیقت یہ ہے کہ توحیدِ باری تعالیٰ، تعظیمِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعارض و متصادم نہیں۔تعظیم و تکریمِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم قرآن مجید میں اس حد تک ہے کہ کوئی شخص حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بلند آواز میں بات نہ کرے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ تعلیم دی گئی تھی کہ:

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے کوئی کلام نہ کرے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی بات مکمل کر لیں تو تب کوئی سوال کرے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قربانی سے پہلے کوئی اپنا جانور قربان نہ کرے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارادہ پر اپنا کوئی ارادہ پیش نہ کرے۔
جنگی امور کا فیصلہ کرنے میں کوئی بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیش قدمی نہ کرے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان آداب سے بخوبی واقف تھے اس لئے وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روزے، عید الفطر اور قربانی جیسے امور میں بھی سبقت اور پیش قدمی نہیں کرتے تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم کے بارے میں قرآن مجید کے ان واضح احکام و فرامین کے پیشِ نظر منکرین کے پاس اعتراض و انکار کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟ ارشادِ ربانی ہے:

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ

’’ایمان والو! (کسی بھی معاملے میں) اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے آگے نہ بڑھا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو (کہ کہیں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی نہ ہو جائے)۔‘‘

الحجرات، 49: 1

مذکورہ آیتِ کریمہ کا خاص شانِ نزول تھا۔ جس میں امت کو آدابِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم دی گئی ہے۔ائمہ تفسیر کے مطابق یہ آیت عام ہے لہٰذا ہر معاملے پر اس کا اطلاق ہوگا، چاہے ان معاملات کا تعلق ارکانِ اسلام نماز، روزہ، قربانی اور حج وغیرہ کے ساتھ ہو یا دنیاوی امور جنگ، قضاء اور روزمرہ کے دیگر معمولات کے ساتھ ہو ۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام فرائض کی ادائیگی پر تکریم و تعظیمِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقدم رکھا ہے۔ اس لئے اس آیتِ کریمہ میں صحابہ کو بنیادی طور پر دو باتوں کی ممانعت کی گئی:

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی عمل سے پہلے پیش قدمی نہ کریں۔
اپنے آپ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مقدم نہ رکھیں۔

یہ بنیادی نکتہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس امر کا متقاضی تھا کہ وہ اپنے ہر عمل کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل سے مربوط کریں کہ رسولِ معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غائت درجہ تعظیم بجا لانا دراصل اللہ ل کی تعظیم بجا لانا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب و احترام درحقیقت اللہ تعالیٰ کا ادب و احترام ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اللہ تعالیٰ سے محبت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اللہگ کی اطاعت ہے۔ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دوئی کے تصور کو ختم کرنے کے لئے اللہ ل نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ کہا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا اپنی رضا قرار دیا اور تمام امور اور معاملات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا قائم مقام اور نائب بنایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک طرف اللہ تعالیٰ سے قرآن کا نور لیتے ہیں تو دوسری طرف مخلوق کو پہنچاتے ہیں۔ صرف ایک بات میں استثنیٰ رکھا گیا ہے کہ کسی کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عبادت کرنے کی اجازت نہیں دی گئی باقی تمام امور میں اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دوئی نہیں۔ اس نکتے کی وضاحت شیخ ابنِ تیمیہ نے بھی کی ہے جس کا ذکر ذیل میں آ رہا ہے۔

تعظیمِ خداوندی اور تعظیمِ رسول ﷺحقیقتِ واحدہ ہیں

2.5.6

نصوصِ قرآنی سے ثابت ہے کہ جو کوئی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے حرمتی کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی بے حرمتی کرتا ہے، جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت سے منہ موڑتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے منہ موڑتا ہے اور جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آزردہ کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کو آزردہ کرتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دینے سے اللہ رب العزت کو اذیت پہنچتی ہے۔ قابل ِ غور بات یہ ہے کہ اذیت دینے سے جسمانی اور ذہنی تکلیف توحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہنچتی ہے لیکن اللہ جل شانہ تو جسمانیت سے پاک ہے اسے کوئی کیسے کوئی تکلیف پہنچا سکتا ہے؟ پس اس کا یہ فرمانا کہ اگر تم میرے پیغمبر کو تکلیف دیتے ہو تو گویا مجھے تکلیف دیتے ہو، کا معنی اس کے غضب اور ناراضگی کو دعوت دینا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًاo

’’بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو اذیت دیتے ہیں اللہ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت بھیجتا ہے اور اُس نے ان کے لئے ذِلّت انگیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘

الاحزاب، 33: 57

اس آیت ِکریمہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہانت اور بے ادبی پر اس قدر غضب کا اظہار دراصل اللہ تعالیٰ کی اپنے محبوب سے محبت کی دلیل ہے۔

قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر اللہ تعالیٰ نے ایک ہی نوعیت کا اعلان فرمایا ہے جس میں اپنے اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں کے حقوق کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ دونوں حقوق برابر ہیں اور ان دونوں کا ایک دوسرے پر انحصار ہے۔ یہ دونوں حقوق، حقوق اللہ ہیں۔ علامہ ابنِ تیمیہ کے نزدیک اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔ اس آیت کے ذیل میں انہوں نے بجا طور پر لکھا ہے:

وجعل شقاق اللہ ورسوله ومحادة اللہ ورسوله وأذی اللہ ورسوله ومعصية اللہ ورسوله شيئًا واحدًا.

’’اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت و اذیت اور معصیت و نافرمانی کو (قرآن حکیم میں) ایک ہی چیز قرار دیا گیا ہے۔‘‘

ابن تیمیۃ، الصارم المسلول علی شاتم الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: 40، 41

بعد ازاں علامہ ابنِ تیمیہ نے اپنے اس مؤقف کی تائید میں درج آیاتِ قرآنی کا بالترتیب تذکرہ کیاہے:

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ شَآقُّواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَمَن يُشَاقِقِ اللّهَ وَرَسُولَهُ {الانفال، 8: 13}

إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ {المجادلہ، 58: 20}

أَلَمْ يَعْلَمُواْ أَنَّهُ مَن يُحَادِدِ اللّهَ وَرَسُولَهُ {التوبہ، 9: 63}

وَمَن يَعْصِ اللّهَ وَرَسُولَهُ {النسائ، 4: 14}

علامہ ابنِ تیمیہ کا یہ بیان اس امر پر دلالت کرتاہے کہ اللہ تعالیٰ کی تعظیم دراصل پیغمبر اعظم و آخر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم ہے اور یہ دونوں تعظیمیں در حقیقت ایک ہی نوعیت کی حامل ہیں۔ حقیقتِ واحدہ ہونے کے ناطے تعظیمِ خداوندی اور تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کوئی فرق نہیں۔وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اللہ د کے حقوق کی ترتیب ظاہر کرنے کے لئے مزید لکھتے ہیں:

وفی هذا وغيره بيانٌ لتلازم الحقين، وأن جهة حرمة اللہ تعالی ورسوله جهة واحدة، فمن أذی الرسول فقد أذی اللہ، ومن أطاعه فقد أطاع اللہ.

’’مذکورہ آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ جل مجدہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حق باہم لازم و ملزوم ہیں نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت کی جہت ایک ہی ہے لہٰذا جس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذا دی اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذا دی اور جس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔‘‘

ابن تیمیۃ، الصارم المسلول علی شاتم الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: 41

بعض لوگوں کا اصرار ہوتا ہے کہ وہ وسیلے اور ذریعے کے قائل نہیں۔ ان کا دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے براہِ راست تعلق چاہتے ہیں جب کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس لیے مبعوث کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کا پیغام بذریعہ وحی نازل ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ پیغام آگے نوعِ انسانی تک پہنچائیں۔ گویا رسالت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فریضہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ڈیوٹی تھی سو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ادا فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا مقصد فقط اللہ تعالیٰ کے پیغام کو انسانیت تک پہنچانا ہے۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رسول کے منصب پر فائز کیا گیا لیکن علامہ ابنِ تیمیہ کا نقطئہ نظر ان لوگوں سے مختلف ہے، وہ لکھتے ہیں:

لأن الأمة لا يصلون ما بينهم وبين ربّهم إلا بواسطة الرّسول، ليس لأحدٍ منهم طريق غيره ولا سبب سواه.

’’اس لئے کہ امت کا اپنے رب سے تعلق صرف رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطہ سے استوار ہو سکتا ہے کسی کے پاس بھی اس کے سوا کوئی دوسرا طریقہ یا سبب نہیں ہے۔‘‘

ابن تیمیۃ، الصارم المسلول علی شاتم الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: 41

ان آیات اور اس طرح کی دیگر آیات میں اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں کے حقوق کے باہم لازم و ملزوم ہونے کا بیان ہے۔ اللہ رب العزت کی عزت و توقیر اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و توقیر ایک ہے اگر کسی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف پہنچائی اس نے گویا اللہ کو تکلیف پہنچائی اور جس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی اس نے درحقیقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔

ذکرِ الٰہی کی قبولیت بھی تعظیمِ رسول ﷺسے مشروط ہے

2.5.7

جیسا کہ گزشتہ صفحات میں ذکر گزر چکا ہے کہ قرآن حکیم نے سورۃ الفتح کی آیت میں تعظیم و تکریمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر اپنی تسبیح سے پہلے فرمایا یعنی اللہ تعالیٰ نے ایمان کی ترجیحی ترتیب کو بدل دیا ہے۔ اس کا اپنے بندوں سے ارشاد ہے کہ ’’لِتُوْمِنُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِهِ‘‘ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کے بعد سب سے پہلا کام اللہ تعالیٰ کی بزرگی و تقدیس بیان کرنے سے بھی پہلے اس کے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت اور توقیر کا عَلَم بلند کرنا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و توقیر کے بغیر اللہ تعالیٰ کی تسبیح بھی قبول نہیں۔ یہی ایمان کی پرکھ کا معیار اور کسوٹی ہے جس پر پورا اترنے سے عبادت، ذکر و فکر اور تسبیح و تقدیس قابلِ قبول ہوگی۔

یاد رکھیں! اللہ تعالیٰ کو ہمارے سجود اور تسبیحات کی ضرورت نہیں، اصلاً اسے اپنی بندگی مطلوب ہے اور اس کی بندگی تقاضا کرتی ہے کہ جس ذاتِ رسالت نے تمہیں مجھ سے شناسا کرایا پہلے اس کی تعظیم و تکریم کرو۔ لہٰذا تعظیمِ رسالت ہوگی تو عبادت بھی قبول ہو گی، تکریمِ رسالت ہو گی تو ذکر و تسبیح بھی وجہِ شرف ہوگی ورنہ یہ سب منافقانہ اور کافرانہ عمل قرار پائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے تو اپنے نبی سیدنا آدم علیہ السلام کی عدمِ تعظیم کی وجہ سے بڑے عابد ابلیس کو بھی راندہِ درگاہ ٹھہرایا تھا ورنہ ابلیس نے بارگاہِ الٰہی میں نبی کی اہانت اور گستاخی کے علاوہ کوئی اور غلطی نہیں کی تھی۔ اپنے تئیں اس نے توحیدِ خالص کا مظاہرہ کیا تھا کہ میں توحید پرست ہوں اس لئے آدم (علیہ السلام) کو سجدہ میری عبادت و بندگی کو داغدار کر دے گا۔ یہ تو آدم علیہ السلام کی عدمِ تعظیم پر ملنے والی سزا کامعاملہ ہے جس نے ایک مقرب اور عابد کو شیطان اور ابلیس بنا دیا۔ جبکہ ہم تو کائنات کی سب سے بڑی ہستی جو اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ تعظیم و تکریم کی مستحق ہے اس کے ساتھ تعلق کی بات کر رہے ہیں۔

قارئین خود سوچ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عزازیل جیسے عبادت گزار ناری فرشتے کو حضرت آدم علیہ السلام کی بے ادبی کی بناء پر شیطان بنا دیا تو اس کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہانت اسے کس قدر ناپسند ہوگی؟ اسی طرح یہ اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم اللہ تعالیٰ کو کس قدر عزیز ہوگی۔ جن کے ایمان و نصرت کے لئے عالمِ ارواح میں انبیاء علیہم السلام کی ارواحِ مقدسہ سے اللہ تعالیٰ نے پختہ وعدہ لیا تھا۔ اب اگر کوئی اس کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و توقیر سے روگردانی کرتے ہوئے تکبرانہ رویہ اختیار کرے گا تو اس کا حشر بھی نہ صرف ابلیس کے ساتھ ہوگا بلکہ اس سے کہیں بدتر ہوگا۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی حضور ﷺسے تعظیم بالمحبت کی مثالیں

2.5.8

توحید اور تعظیم بالمحبت عبادت اور شرک کا فرق واضح کرنے کے حوالے سے ایک انتہائی اہم موضوع ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے حد تعظیم کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ انتہا درجے کی محبت کا اظہار سنتِ صحابہ رضی اللہ عنہم ہے۔ اس کے باوجود اس عمل کو ہرگز عبادت کے درجے پر نہیں رکھا جا سکتا اور نہ یہ منافیِ توحید ہے۔

ذاتِ رسول ﷺکی تعظیم کے عملی مظاہر

عہدِ نبوی کی پوری اسلامی تاریخ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کردار اور طرزِ عمل پر نگاہ دوڑایئے، اَدب و تعظیم اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جو مثال انہوں نے علی التواتر ہر مقام اور ہر موقع پر قائم کی وہ قابلِ تقلید نمونہ ہے۔ حدیبیہ کے مقام پر تقریباً ڈیڑھ ہزار صحابہ کا اجتماع ہو یا فتحِ مکہ اور دیگر مواقع پر ان کا جمِ غفیر، سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر فاروق، سیدنا عثمان غنی اور سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ سے لے کر عام صحابی تک ہرکوئی ادب و توقیرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عملی نمونہ پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ کوئی کسی سے اس امر میں پیچھے نہیں۔ سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احترام میں ایک دوسرے سے بڑھ کر دیدہ و دل فرشِ راہ کئے سراپا ادب بنے رہے۔ اس عمل میں ان کا اِجماع قطعی تھا جس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاموش رضامندی نے اسے سنت کادرجہ دے دیا تھا۔ذیل میں اس طرح کی چند ایمان افروز مثالیں ملاحظہ کریں:

صلح حدیبیہ کے موقع پر بے اِنتہا تعظیم کے مختلف مظاہر

(1)

6ھ کو جب کفارِ مکہ نے حدیبیہ کے مقام پر مسلمانوں کو عمرہ کرنے سے روک دیا تو اس وقت مسلمانوں اور کافروں کے درمیان صلح نامہ طے پایا۔ اس موقع پر عروہ بن مسعود بارگاہِ رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کفار کا وکیل بن کر آیا۔ اس نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے حد تعظیم کرتے ہوئے دیکھا۔ اس نے محبت و ادبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جو حیران کن مناظر دیکھے اور واپس جا کر اپنے ساتھیوں کے سامنے ان کی منظر کشی کی، ان تفصیلات کو حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور مروان نے درج ذیل الفاظ میں روایت کیا ہے:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

إِنَّ عُرْوَةَ جَعَلَ يَرْمُقُ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم بِعَيْنَيْهِ. قَالَ: فَوَ اللهِ مَا تَنَخَّمَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي کَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ، فَدَلَکَ بِهَا وَجْهَهُ وَ جِلْدَهُ، وَإِذَا أَمَرَهُمُ ابْتَدَرُوْا أَمْرَهُ، وَ إِذَا تَوَضَّأَ کَادُوْا يَقْتَتِلُوْنَ عَلَی وَضُوْئِهِ وَإِذَا تَکَلَّمَ خَفَضُوا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ، وَ مَا يُحِدُّونَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيْمًا لَهُ. فَرَجَعَ عُرْوَةُ إِلَی أَصْحَابِهِ فَقَالَ: أَيْ قَوْمِ، وَاللهِ لَقَدْ وَفَدْتُ عَلَی الْمُلُوْکِ، وَ وَفَدْتُ عَلَی قَيْصَرَ وَ کِسْرَی وَ النَّجَاشِيِّ، وَ اللهِ إِنْ رَأَيْتُ مَلِکًا قَطُّ يُعَظِّمُهُ أَصْحَابُهُ مَا يُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم مُحَمَّدًا. وَاللهِ إِنْ تَنَخَّمَ نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي کَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ، فَدَلَکَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ، وَإِذَا أَمَرَهُمُ ابْتَدَرُوْا أَمْرَهُ، وَ إِذَا تَوَضَّأَ کَادُوْا يَقْتَتِلُوْنَ عَلَی وَضُوْئِهِ وَإِذَا تَکَلَّمَ خَفَضُوْا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ، وَمَا يُحِدُّونَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيْمًا لَهُ.

’’عروہ بن مسعود صحابہ کرام کو غور سے دیکھتا رہا۔ راوی کہتے ہیں: اللہ رب العزت کی قسم! جب بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا لعاب مبارک پھینکتے تو کوئی نہ کوئی صحابی اسے اپنے ہاتھ میں لے لیتا اور اسے اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں کسی بات کا حکم دیتے تو وہ اس حکم کی فوراً تعمیل میں لگ جاتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضو فرماتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استعمال شدہ پانی کو حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گفتگو کرتے تو صحابہ ہمہ تن گوش ہو کر اپنی آوازوں کو پست کر لیتے تھے اور انتہائی تعظیم کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نظر جما کر بھی نہیں دیکھتے تھے۔ اس کے بعد عروہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ گیا اور ان سے کہنے لگا: اے قوم! خدا کی قسم! میں (بڑے بڑے) بادشاہوں کے درباروں میں وفد لے کر گیا ہوں، میں قیصر و کسریٰ اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے درباروں میں حاضر ہوا ہوں لیکن خدا کی قسم! میں نے کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا جس کے درباری اس کی اس طرح دل سے تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے اصحاب ان کی تعظیم کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم! جب وہ اپنا لعاب پھینکتے تو کوئی نہ کوئی صحابی اسے اپنے ہاتھ میں لے لیتا اور اسے اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا، جب وہ انہیں کسی بات کا حکم دیتے تو وہ فوراً اس کی تعمیل میں لگ جاتے، جب وہ وضو فرماتے تو وہ ان کے استعمال شدہ پانی کو حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے، جب وہ گفتگو کرتے تو صحابہ ہمہ تن گوش ہو کر اپنی آوازوں کو پست کر لیتے اور انتہائی تعظیم کے باعث وہ ان کی طرف نظر جما کر بھی نہیں دیکھتے تھے۔‘‘

حوالاجات

عروہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بے پناہ اورغیر مشروط محبت کے مظاہر دیکھ کر کہا:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

وَلَقَدْ رَأَيْتُ قَوْمًا لَا يُسَلِّمُوْنَهُ لِشَيْئٍ أَبَدًا.

’’میں نے ایسی قوم کو دیکھا ہے جو کبھی بھی انہیں تمہارے سپرد نہ کرے گی۔‘‘

حوالاجات

دورانِ نماز اِنتہاء درجہ کی محبت و تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

(2)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حد درجہ تعظیم بجا لاتے تھے اس پر وہ واقعہ شاہد ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی علالت کے آخری ایام میں صحابہ کے ساتھ اُس وقت پیش آیا جب وہ حالتِ نماز میں تھے۔ علالت کے ان ایام میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ باجماعت نماز کی امامت کا فریضہ سرانجام دیتے تھے۔ تمام صحابہ صف بستہ نماز میں مشغول تھے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجرہ مبارک کا پردہ اٹھا کر مسجد میں تشریف لے آئے۔ حضرت انس بن مالکص اس واقعہ کو یوں بیان کرتے ہیں:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

أَنَّ أَبَا بَکْرٍ کَانَ يُصَلِّي لَهُمْ فِي وَجَعِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم الَّذِي تُوُفِّيَ فِيْهِ، حَتَّی إِذَا کَانَ يَوْمُ الْإِثْنَيْنِ وَهُمْ صُفُوفٌ فِي الصَّلَاةِ، فَکَشَفَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم سِتْرَ الْحُجْرَةِ، يَنْظُرُ إِلَيْنَا وَهُوَ قَائِمٌ، کَأَنَّ وَجْهَهُ وَرَقَةُ مُصْحَفٍِ، ثُمَّ تَبَسَّمَ يَضْحَکُ فَهَمَمْنَا أَنْ نَفْتَتِنَ مِنَ الْفَرَحِ بِرُؤْيَةِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، فَنَکَصَ أَبُوبَکْرٍ عَلَی عَقِبَيْهِ لِيَصِلَ الصَّفَّ، وَ ظَنَّ أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم خَارِجٌ إِلَی الصَّلَاةِ، فَأَشَارَ إِلَيْنَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: أَنْ أَتِمُّوا صَلَاتَکُمْ. وَ أَرْخَی السِّتْرَ، فَتُوُفِّيَ مِنْ يَوْمِهِ.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرض الموت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نمازپڑھاتے تھے، چنانچہ پیر کے روز لوگ صفیں بنائے نماز ادا کر رہے تھے کہ اتنے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجرہ مبارک کا پردہ اٹھایا اور کھڑے کھڑے ہم کو دیکھنے لگے۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہِ انور قرآن کے اوراق کی طرح روشن معلوم ہوتا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (جماعت کو دیکھ کر) مسکرانے لگے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار پُرانوار کی خوشی میں قریب تھا کہ ہم نماز توڑ دیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خیال ہوا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز میں تشریف لا رہے ہیں، اس لئے انہوں نے ایڑیوں کے بل پیچھے ہٹ کر مقتدیوں میں مل جانا چاہا، لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشارہ سے فرمایا کہ تم لوگ نماز پوری کرو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پردہ گرا دیا اور اسی روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہو گیا۔‘‘

حوالاجات

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری میں چار بار اس حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اپنے حد درجہ ادب و احترام پر مبنی عقیدہ کا اظہار کیا ہے، اور امام مسلم نے بھی حضور علیہ السلام سے اسی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔

حدیثِ مبارکہ سے تین حُبی اور اِعتقادی اِستدلال

مذکورہ حدیثِ مبارکہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے محبت بھرے جذبات کے باعث درج ذیل علمی نوعیت کے تین اہم حبّی اور اعتقادی استدلال ثابت ہوتے ہیں:

حدیث کے کلمات وَهُمْ صُفُوفٌ فِي الصَّلَاةِ (وہ صفوں میں بحالتِ نماز کھڑے تھے) قابلِ غور ہیں۔ اگر حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے وَہُمْ صُفُوفٌ لِلصَّلَاۃِ فرمایا ہوتا تو کہا جاسکتا تھا کہ وہ نماز کے لئے کھڑے ہونے کی تیاری میں تھے یا ابھی انہوں نے نماز شروع نہیں کی تھی، لیکن روایت کے الفاظ صاف کہہ رہے ہیں کہ وہ نماز میں مشغول تھے۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجرہ کے دروازے سے باہر آئے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ رہے تھے۔ اس لئے انہوں نے بیان کیا کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ مبارک کو ’’قرآن کے اوراق کی طرح چمکتا ہوا دیکھا‘‘، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخِ مبارک پر ایک دل نواز تبسم تھا۔ اس کیفیت میں ہم اتنے محو ہوگئے کہ ہم اپنی نمازیں توڑ بیٹھتے۔ یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مسرت و انبساط کا یہ عالم تھا کہ انہیں اپنی نمازیں بھول گئیں۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت میں اس قدر کھوگئے کہ قریب تھا حالتِ نماز سے باہر آجاتے۔

یہ تو مقتدیوں کا حال تھا جن کے امام حضرت ابوبکرص تھے ان کا حال یہ تھا کہ جب انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو یہ سوچ کر کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز میں شریک ہونے کے لئے تشریف لے آئے ہیں مصلیٰ امامت چھوڑ دیا اور پیچھے ہٹ کر صف میں کھڑے ہونے لگے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شوق و اضطراب کا یہ منظر ملاحظہ فرما رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر صدیقِ اکبرص پر پڑی جو پیچھے پہلی صف میں آ رہے تھے تو اشارے سے انہیں نماز مکمل کرنے کا حکم دیا اور پردہ گرا کر حجرہِ مبارک میں واپس تشریف لے گئے۔

تیسرا استدلال حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نماز مکمل کرنے کا اشارہ ہے کہ: أَتِمُّوا صَلَا تَکُمْ (اپنی نماز مکمل کرو)۔ اگر صحابہص نے اپنی نماز شروع نہ کی ہوتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکمیلِ صلاۃ کا اشارہ دینے کی ضرورت نہ تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں نماز شروع کرنے کا حکم دیتے۔ اس سے پتہ چلا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پہلے ہی حالتِ نماز میں تھے بلکہ اس بات کا بھی امکان ہے کہ دوسری رکعت میں ہوں گے جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پردہ اٹھا کر مسجدِ نبوی میں داخل ہوئے اور اپنے ساتھ اُن کا اتنا گہرا قلبی اور حبّی منظر دیکھ کر انہیں اپنی نماز مکمل کرنے کی تلقین فرمائی۔

صحابہ رضی اللہ عنہم نے تعظیمِ نبی ﷺمیں عبادتِ الٰہی سے توجہ ہٹا لی

یہ بات ذہن میں رہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ مبارک کے جس دروازے پر کھڑے اپنے غلاموں کو دیکھ رہے تھے وہ قبلہ سے انتہائی مشرق کی جانب ہے، اور بحالتِ نماز ان کا رخ کعبہ کی طرف تھا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس حال میں انہوں نے اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متبسم چہرے کو جو کھلے ہوئے قرآن کی مانندتھا کیسے دیکھ لیا؟ یہ عمل سوائے نماز سے توجہ ہٹانے اور اپنا رُخ کعبہ سے حجرے کی طرف موڑنے کے ممکن نہ تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ دورانِ نماز بھی ان کا دھیان اور گیان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہی ہوتا تھا اس لئے وہ اِس زیارتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اتنے محو ہوئے کہ قریب تھا ان کی نمازیں ٹوٹ جاتیں۔

اِس واقعہ سے یہ سوال ذہن میں اُبھرتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مبنی یہ عمل کیا محض ادب و احترام تھا یا ادب و احترام کا آخری نقطہ اور آخری حد؟ ظاہر ہے کہ اسے محض احترام یا ادب نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ اس سے بہت آگے کا عمل ہے۔ تاہم یہ بات مسلمہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف سے تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ بدرجہِ اتم عمل نہ صرف جائز ہے بلکہ یہ صحابہص کی سنت بن گیا اور خود سرکارِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت بھی۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر گرفت نہ کی اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس سے منع نہ فرمایا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی رضامندی کا اظہار فرمایا اور انہیں اپنی نمازیں توڑنے سے روکتے ہوئے نماز مکمل کرنے کی ہدایت فرمائی۔ اس سے یہ نکتہ مترشح ہوتا ہے کہ دورانِ نماز تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہ نماز ٹوٹتی ہے اور نہ ہی عبادت میں کوئی خلل واقع ہوتا ہے جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے ثابت ہوا، یہ وہ حضرات تھے جن کی عبادت میں یکسوئی مثالی تھی۔

تعظیمِ مصطفی ﷺمیں کعبہ سے توجہ ہٹانا ناقضِ صلوٰۃ نہیں

(3)

ایک اور محبت و تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معمور واقعہ کو حضرت سہل بن سعدص نے روایت کیا ہے، وہ بیان کرتے ہیں:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم ذَهَبَ إِلَی بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ، فَحَانَتِ الصَّلَاةُ، فَجَاءَ الْمُؤَذِّنُ إِلَی أَبِي بَکْرٍ، فَقَالَ: أَتُصَلِّي لِلنَّاسِ فَأُقِيمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَصَلَّی أَبُوبَکْرٍ، فَجَاءَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَالنَّاسُ فِي الصَّلَاةِ، فَتَخَلَّصَ حَتَّی وَقَفَ فِي الصَّفِّ فَصَفَّقَ النَّاسُ، وَکَانَ أَبُوبَکْرٍ لَا يَلْتَفِتُ فِي صَلَا تِهِ، فَلَمَّا أَکْثَرَ النَّاسُ التَّصْفِيقَ، الْتَفَتَ، فَرَأَی رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: أَنِ امْکُثْ مَکَانَکَ. فَرَفَعَ أَبُوبَکْرٍص يَدَيْهِ، فَحَمِدَ اللهَ عَلَی مَا أَمَرَهُ بِهِ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم مِنْ ذٰلِکَ، ثُمَّ اسْتَأْخَرَ أَبُوبَکْرٍ حَتَّی اسْتَوَی فِي الصَّفِّ، وَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَصَلَّی، فَلَمَّا انْصَرَفَ. قَالَ: يَا أَبَا بَکْرٍ! مَا مَنَعَکَ أَنْ تَثْبُتَ إِذْ أَمَرْتُکَ؟ فَقَالَ أَبُوبَکْرٍ: مَا کَانَ لِاِبْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يُصَلِّيَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: مَا لِي رَأَيْتُکُمْ أَکْثَرْتُمُ التَّصْفِيقَ، مَنْ رَابَهُ شَيئٌٌ فِي صَلَا تِهِ فَلْيُسَبِّحْ، فَإِنَّهُ إِذَا سَبَّحَ الْتُفِتَ إِلَيْهِ، وَإِنَّمَا التَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ.

’’ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبیلہ بنی عمرو بن عوف میں صلح کرانے کے لئے تشریف لے گئے تو اس دوران نماز کا وقت ہو گیا۔ مؤذن نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں گے تاکہ میں اقامت کہوں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں! چنانچہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز پڑھانا شروع کر دی۔ دورانِ نماز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تشریف لے آئے اور صفوں کو چیرتے ہوئے صف اوّل میں جاکر کھڑے ہو گئے۔ (حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو متوجہ کرنے کے لیے ) لوگوں نے تالیاں بجائیں، حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نماز میں کسی اور جانب متوجہ نہیں ہوتے تھے۔ جب لوگوں نے زیادہ تالیاں بجائیں تو انہوں نے پیچھے مڑ کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا (اور پیچھے ہٹنے کا ارادہ کیا)، پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنی جگہ پر قائم رہنے کا اشارہ فرمایا۔ سو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں امامت کا حکم دیا ہے، پھر پیچھے ہٹ کر صفِ اوّل کے برابر آگئے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آگے بڑھ کر امامت کرائی۔ نماز سے فراغت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: ابوبکر! جب میں نے حکم دیا تھا تو تم مصلیٰ پر کیوں نہیں ٹھہرے رہے؟ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ابو قحافہ کے بیٹے کی کیا مجال کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے امامت کرے۔ اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: کیا وجہ ہے کہ میں نے تمہیں تالیاں بجاتے دیکھا؟ اگر کسی کو نماز میں کوئی حادثہ پیش آئے تو (بلند آواز سے) سبحان اللہ کہے، چنانچہ جب وہ سبحان اللہ کہے تو دوسرے کو اس کی طرف دھیان دینا چاہیے، اور نماز میں تالیاں بجانا (یعنی ہاتھ پر ہاتھ مارنا) صرف عورتوں کے لئے مخصوص ہے۔‘‘

حوالاجات

حدیثِ مبارکہ سے یہ نکتہ مستنبط ہوتا ہے کہ دورانِ نماز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف متوجہ ہونا ناقصِ صلوٰۃ نہیں۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد ہوئی تو لوگ نماز میں مشغول تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نمازیوں کی صفوں میں سے گزر کر پہلی صف میں پہنچ گئے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے جگہ چھوڑ دی اور تالیاں بجانے لگے۔ حضرت ابوبکر صدیقص حالتِ نماز میں اس قدر مستغرق و منہمک تھے کہ انہوں نے اپنے دائیں بائیں نہ دیکھا اور بدستور نماز میں محو رہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کی بکثرت تالیوں کے باعث وہ سمجھ گئے کہ یقینا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شریکِ نماز ہونے کے لئے تشریف لے آئے ہیں پھر حضرت ابوبکر صدیقص نے نماز کی امامت کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ لیا۔

حدیث کے الفاظ ’’فَرَأَی رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم ‘‘ سے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر امام مصلیٰ پر تھا تو اس نے امامت کراتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہلی صف میں قیام فرما کیسے دیکھ لیا؟ حدیث کے الفاظ ہیں کہ الْتَفَتَ یعنی مصلیٰ اِمامت سے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے اپنا رخ موڑ لیا۔ حضرت ابوبکر صدیقص کے اس عمل پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ فرمایا کہ تم نے یہ کیا کر دیا؟ تمہاری تو نماز ہی ٹوٹ گئی ہے۔ اس وقت حالت یہ تھی کہ کعبہ سامنے تھا اور صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ پچھلی طرف دیکھ رہے تھے۔ اس کی توجیہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ بشمول صدیقِ اکبرتمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا عقیدہ تھا کہ کعبہ ایک طرف ہے تو کعبے کا کعبہ دوسری طرف ہے، جن کی طرف متوجہ ہونے سے نماز ٹوٹتی نہیں بلکہ اس کی تکمیل ہوتی ہے۔ بقول ریاض الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ

جس طرف وہ نظر نہیں آتے

ہم وہ رستہ ہی چھوڑ دیتے ہیں

کعبہ بنتا ہے اُس طرف ہی ریاض

رُخ جدھر کو وہ موڑ دیتے ہیں

(ریاض الدین سہروردی)

.

ایمان اَفروز نکتہ

فقہ کی رو سے اگر کوئی کسی کو دورانِ نماز اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ کہے اور نمازی جواب میں وَعَلَيْکُمُ السَّلَامُ کہے تو نماز ٹوٹ جائے گی یعنی سلام کہنا اور اس کا جواب دینا دونوں ناقضِ نماز ہیں۔ لیکن جب ہم دورانِ تشہد التحیات کے لئے بیٹھتے ہیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کرکے اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَيُھَا النَّبِیُّ (اے نبی محترم! آپ پر سلام ہو) کہتے ہیں۔ اس سے نہ صرف یہ کہ نماز نہیں ٹوٹتی بلکہ ہمیں اس کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر یہ نہ کہیں تو نماز نہیں ہوتی جبکہ کسی اور کو حالتِ نماز میں سلام کہنا نماز کو توڑ دیتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ آپ دورانِ نمازاپنے نبی پر سلام بھیجیں اور اس حکم کی تعمیل سے نماز کی تکمیل ہوتی ہے۔ اگر دورانِ نماز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام بھیجنے سے نماز نہیں ٹوٹتی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ حالتِ نماز میں سمتِ کعبہ سے منہ پھیر کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب متوجہ ہونے سے نماز ٹوٹ جائے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جانتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف متوجہ ہونے سے نماز ٹوٹتی نہیں، بلکہ کامل ہوتی ہے۔

لہٰذا صدیقِ اکبررضی اللہ عنہ اللہ کا شکر بجا لاتے ہوئے پہلی صف میں آگئے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مصلیٰ پر آکر نماز مکمل کرائی۔ یہ نکتہ اہم ہے کہ نماز کا نہ تو اعادہ کیا گیا اور نہ اس کو از سرِ نو شروع کیا گیا ہر چیز جوں کی توں رہی اور نماز کو بدستور جاری رکھا گیا۔

یہاں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فقہی حوالے سے امت کو یہ تعلیم بھی دے دی کہ اگر آئندہ ایسی کوئی صور تحال پیش ہو تو نمازیوں کو تالیاں بجانے کی بجائے سبحان اللہ کہنا چاہئے اور اگر عورتوں کے ساتھ ایسا معاملہ ہو تو وہ تالیاں بجا کر امام کو متوجہ کریں۔

حضور ﷺکو اپنی جان سے عزیز جاننا تکمیلِ ایمان کی سند

(4)

حضرت عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللهِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ کُلِّ شَيئٍ إِلاَّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: لَا، وَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، حَتَّی أَکُونَ أَحَبَّ إِلَيْکَ مِنْ نَفْسِکَ. فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: فَإِنَّهُ الآنَ، وَاللهِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: الآنَ يَا عُمَرُ.

’’ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ مجھے اپنی جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہِ قدرت میں میری جان ہے! جب تک میں تمہیں اپنی جان سے بھی محبوب تر نہ ہو جائوں (تم اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہو سکتے)۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ رب العزت کی قسم! اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں، چنانچہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عمر! اب (تمہارا ایمان کامل ہوا) ہے۔‘‘

حوالاجات

حضور ﷺکے بغیر طوافِ کعبہ بھی گوارا نہیں

(5)

حضرت موسیٰ بن عقبہ رضی اللہ عنہ سے طویل واقعہ مروی ہے کہ جب صلح حدیبیہ کے موقع پر سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو کفارکی طرف سفیربنا کر روانہ کیا گیا، اور کفار نے مذاکرات کے بعد انہیں طوافِ کعبہ کی دعوت دی تو آپ صنے فوراً انکار کرتے ہوئے کہا:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

مَا کُنْتُ لأَطُوْفَ بِهِ حَتَّی يَطُوْفَ بِهِ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم.

’’اللہ کی قسم! میں اس وقت تک کعبہ کا طواف نہیں کروں گا جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کا طواف نہیں کر لیتے۔‘‘

حوالاجات

یہی مشہور واقعہ بیعتِ رضوان کا سبب بنا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے اصلِ ایمان اور روحِ دین سے آگاہ تھے اس لئے فرمایا کہ طوافِ کعبہ وہی مقبول اور عبادت کے زمرے میں آئے گا جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و محبت بھی شامل ہو۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اس محبت کا ثمر اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ اس بیعتِ رضوان کے واقعہ کو قرآن کا موضوع بنایا۔ جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ فرمایا اسی طرح اللہ رب العزت نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیا۔ ارشادِ ربانی ہے ’’يَدُ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيْهِمْ‘‘ ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ تھا۔

اِطاعتِ علی رضی اللہ عنہ اور معجزہِ رَدّ شمس

(6)

حضرت اسماء بنتِ عمیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

کَانَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يُوحَی إِلَيْهِ وَ رَأْسُهُ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ، فَلَمْ يُصَلِّ الْعَصْرَ حَتَّی غَرَبَتِ الشَّمْسُ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: اَللَّهُمَّ إِنَّ عَلِيًّا کَانَ فِي طَاعَتِکَ وَطَاعَةِ رَسُولِکَ فَارْدُدْ عَلَيْهِ الشَّمْسَ. قَالَتْ أَسْمَائُ: فَرَأَيْتُهَا غَرَبَتْ وَ رَأَيْتُهَا طَلَعَتْ بَعْدَ مَا غَرَبَتْ.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہو رہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سرِ اقدس حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ عصر کی نماز نہ پڑھ سکے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی: اے اللہ! علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھا لہٰذا اس پر سورج واپس لوٹا دے۔ حضرت اسماء فرماتی ہیں: میں نے اسے غروب ہوتے ہوئے دیکھا تھا اور اسی کو دیکھا کہ وہ غروب ہونے کے بعد دوبارہ طلوع ہوا۔‘‘

حوالاجات

اس روایت میں ڈوبے ہوئے سورج کو واپس لانے کا معجزہ ذکر ہوا لیکن حقیقت میں یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِمتحان تھا۔ ایک طرف توحید و رسالت کے بعد ارکانِ اسلام اور اعمال میں سب سے افضل عمل نماز کو رکھا اور دوسری طرف محبت و غلامیِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکھی تاکہ دیکھیں علی رضی اللہ عنہ کدھر جاتے ہیں۔ پھر وہی ہوا جس کی مولا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے توقع تھی۔ آپ کی نماز تو قضاء ہوگئی لیکن آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آرام میں خلل واقع نہ ہونے دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس عمل کو خدا کی اطاعت قرار دیا، حالانکہ حضرت علی خدمت تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کر رہے تھے، ان کی گود میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سرِ انور تھا، پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہی گردانا۔ دراصل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی امت کو یہ پیغام دینا مطلوب تھا کہ میری فرمانبرداری و محبت میں زندگی گزارنے کو معمولی ہر گز نہ سمجھنا یہ نماز جیسے عمل سے بھی برتر اور اعلیٰ ہے کیونکہ میری محبت و غلامی میں براہِ راست ذاتِ لا شریک کی محبت و بندگی پوشیدہ ہے۔

حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کی تعظیمِ رسولﷺ

(7)

حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کا گھر دو منزلہ تھا اوپر والی منزل کو خالی کر دیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں قیام پذیر ہوں ‘ لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نیچے والی منزل کو ترجیح دی اور حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے آپ کے حکم کی تکمیل کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں رہنا پسند کیا وہاں پر ہی آپ کا انتظام کیا ۔

پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آرام کی غرض سے لیٹ گئے تو آپ رضی اللہ عنہ اور آپ کی اہلیہ اوپر والی منزل میں تشریف لے گئے لیکن دل میں خیال آیا کہ یہ ہم نے کیا کر دیا؟

ہمارے آقا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیچے آرام کریں گے اور ہم اوپر ؟

کیا ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر چلیں پھریں گے؟

کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور وحی کے درمیان حائل ہو ں گے ؟

یہ تو آپ کی خدمت اقدس میں گستاخی ہے   ہم تو برباد ہوں جائیں گے ۔ دونوں میاں بیوی انتہائی حیران و پریشان تھے ۔ کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا کہ اب کیا کریں ۔ دلی سکون جاتا رہا !

پریشانی کے عالم میں دیوار کے ساتھ لگا کر بیٹھے رہے اور اس بات کا خیال رکھا  کمرے کے درمیان میں نہ چلیں۔

جب صبح ہوئی تو حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کی :

یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بخدا آج رات ہم دونوں جاگتے رہے اور ایک لمحہ بھی نہیں سوئے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کیوں؟

عرض کیا’ ہمارے دل۔میں احساس پیدا ہوا کہ ہم چھت کے اوپر ہیں اور آپ نیچے۔ ہم دیوار کے ساتھ چمٹ کر بیٹھے رہے کہ اگر ہم چھت پر چلیں گے تو چھت کی مٹی آپ پر پڑے گی ۔

جو آپ کے لئے ناگوار گزرے گی اور دوسری بات یہ کہ ہم آپ اور وحی کے درمیان حائل ہو گئے ہیں ۔

یہ باتیں سن کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ابو ایوب(رضی اللہ عنہ ) غم نہ کرو نیچے رہنا میرے لیے آسان اور آرام کا باعث ہے کیونکہ لوگ ملاقات کی غرض سے کثرت سے تشریف لاتے ہیں ۔

ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

ہم نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مان لیا لیکن ایک رات خشک رات ہمارا پانی کا مٹکا ٹوٹ گیا اور پانی چھت پر بہہ گیا ۔ میں اور میری بیوی جلدی جلدی سے لحاف سے پانی صاف کرنے لگے ۔کہ کہیں یہ پانی نیچے ٹپک کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک نہ پہنچ جائے ۔

جب صبح ہوئی تو میں اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا ۔

میں نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم:

میرے ماں باپ آپ ہر قربان ہوں’ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ ہم اوپر رہیں اور آپ نیچے اور میں نے مٹکا ٹوٹنے کا واقعہ بھی سنایا ۔ آپ نے میری التجا کو قبول فرمایا اور آپ بالائے منزل پر چلے گئے اور ہم نیچے منتقل ہو گئے

معیارِ نجات محض اَعمال نہیں

(8)

1۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ حدیث بیان کرتے ہیں:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

أنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم: مَتَی السَّاعَةُ يَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: مَا أَعْدَدْتَ لَهَا؟ قَالَ: مَا أَعْدَدْتُ لَهَا مِنْ کَثِيْرِ صَلَاةٍ وَلَا صَوْمٍ وَلَا صَدَقَةٍ، وَلَکِنِّي أُحِبُّ اللهَ وَ رَسُوْلَهُ، قَالَ: أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ.

’’ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! قیامت کب آئے گی؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم نے اس کے لئے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ اس نے عرض کیا: میں نے اس کیلئے زیادہ نمازیں، روزے، اور صدقہ وغیرہ (اعمال) کی تیاری تو نہیں کی لیکن میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم جس سے محبت رکھتے ہو اسی کے ساتھ ہو گے۔‘‘

حوالاجات

2۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایک آدمی کچھ لوگوں سے محبت کرتا ہے لیکن ان جیسے عمل نہیں کر سکتا (اس کا معاملہ کیسا ہوگا)؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

أَنْتَ يَا أَبَا ذَرٍّ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ. قَالَ: فَإِنِّي أُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ. قَالَ: فَإِنَّکَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ. (قَالَ: فَأَعََادَهَا أبُوْ ذَرٍّ فَأَعََادَهَا رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم ).

’’ابوذر! تو اس کے ساتھ ہوگا جس سے تجھے محبت ہے۔ انہوں نے پھر عرض کیا: میں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ابوذر! تو یقینا اس کے ساتھ ہوگا جس سے تجھے محبت ہے۔ (راوی کا بیان ہے کہ حضرت ابوذَر نے دوسری مرتبہ یہی سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی کلمات دہرائے)۔‘‘

حوالاجات

خلفائے راشدین اور اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے احوال و واقعات پر مشتمل درج بالا احادیثِ مبارکہ سے صرف اور صرف ایک ہی درس ملتا ہے کہ حبیبِ خدا سے تن من دھن سے بڑھ کر محبت کرنا ہر امتی پر لازم ہے، اور یہی تکمیلِ ایمان کی شرط ہے۔ طوافِ کعبہ کرنے کو دل مچلتا ہو، نماز کی شکل میں رب سے کلام کرنے کو جی چاہ رہا ہو، والدین، اولاد اور دوست احباب سے محبت کا معاملہ ہو، کیسی بھی صورت ہو مؤمن کو فقط ایک ہی تربیت دی جا رہی ہے کہ ان اعمالِ صالحہ کے کرنے میں کوتاہی نہیں ہونی چاہئے لیکن ان میں سے کسی ایک کو بھی ایمان اور اسلام کی روح، جڑ اور اصل نہ سمجھنا، ان کی اصل ایک ہی ذات ہے اور وہ ہے محبوبِ رب العالمین، رحمۃ للعالمین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلقِ محبت۔ اگر نامہِ اعمال میں کثرتِ صلاۃ، صوم اور صدقہ نہ بھی ہوئے اور صرف اسی ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محبت ہوئی تو اعمال پر ناز کرنے والے سب ایک طرف رہ جائیں گے جبکہ اپنے دل کو عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فروزاں رکھنے والا معیت و قربت پالے گا۔

حضور ﷺسے منسوب اَشیاء کی تعظیم

2.5.9

حضور ﷺکے اِسمِ مبارک کی تعظیم

(1)

1۔ حضرت عبدالرحمن بن سعد فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کی مجلس میں بیٹھا تھا کہ ان کاپائوں سُن ہو گیا۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ ابوعبدالرحمن آپ کے پاؤں کو کیا ہوگیا ہے؟ انہوں نے کہا: پٹھے اکڑا گئے ہیں۔ اس پر میں نے عرض کیا:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

اُدع أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْکَ. قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، فَانْبَسَطَتْ.

’’جو ہستی آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہے اُس کا نام لیجئے۔ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے حضورں کو بلند آواز سے پکارا: يَا مُحَمَّدُ! (صلی اللہ علیک وسلم!) دوسرے ہی لمحے ان کا پائوں ٹھیک ہو چکا تھا۔‘‘

حوالاجات

علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اسی حقیقت کو یوں بیان فرمایا ہے:

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

دہر میں اسمِ محمدﷺ سے اجالا کر دے

(علامہ محمد اقبال)

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:

آبروئے ما ز نامِ مصطفیٰﷺ است

در دلِ مسلم مقامِ مصطفیٰﷺ است

(علامہ محمد اقبال)

2۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

يُوْقَفُ عَبْدَانِ بَيْنَ يَدَيِ اللهِ ل، فَيَقُوْلُ اللهُ لَهُمَا: اُدْخُـلَا الْجَنَّةَ، فَإِنِّی آلَيْتُ عَلَی نَفْسِي أَنْ لَا يَدْخُلَ النَّارَ مَنِ اسْمُهُ مُحَمَّدٌ وَ لَا أَحْمَدُ.

’’(یومِ قیامت احمد اور محمد نامی ) دو آدمی اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اُنہیں فرمائے گا: تم جنت میں داخل ہو جاؤ کیونکہ میں نے اپنے اوپر لازم کیا ہے کہ وہ شخص دوزخ میں داخل نہیں ہو گا جس کا نام ’محمد‘ یا ’احمد‘ ہو۔‘‘

حوالاجات

3۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

إِذَا سَمَّيْتُمْ مُحَمَّدًا فَـلَا تَضْرِبُوْهُ وَ لَا تُقَبِّحُوْهُ، وَأَکْرِمُوْهُ وَأَوْسِعُوا لَهُ فِي الْمَجْلِسِ.

’’جب تم کسی کا نام محمد رکھو تو نہ اس کو مارو اور نہ ہی اس کو برا سمجھو (بلکہ) اس کی عزت کرو اور مجلس میں اس کے لیے جگہ بناؤ۔‘‘

حوالاجات

4۔ حضرت ابو اُمامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

مَنْ وُلِدَ لَهُ مَوْلُوْدٌ فَسَمَّاهُ مُحَمَّدًا تَبَرُّکًا بِهِ، کَانَ هُوَ وَ مَوْلُوْدُهُ فِی الْجَنَّةِ.

’’جس نے میرے نام سے برکت حاصل کرنے کی نیت سے اپنے بچے کا نام محمد رکھا تو وہ اور اُس کا بیٹا دونوں جنت میں داخل ہوں گے۔‘‘

حوالاجات

5۔ علامہ قزوینی نے ’’التدوین فی إخبار قزوین (2: 343)‘‘ میں حضرت ابواُسامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

مَنْ وُلِدَ لَهُ مَوْلُوْدٌ، فَسَمَّاهُ مُحَمَّدًا حُبًّا لِي وَتَبَرُّکًا بِاسْمِي هُوَ وَمَوْلُوْدٌ فِی الْجَنَّةِ.

’’جس نے میری محبت کے باعث اور میرے اسم سے برکت حاصل کرنے کی نیت سے اپنے پیدا ہونے والے بچے کا نام محمد رکھا تو وہ اور بچہ دونوں جنت میں داخل ہوں گے۔‘‘

حوالاجات

حضور ﷺکے ذکرِ مبارک کی تعظیم

(2)

1۔ کتبِ احادیث و سیر میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے حوالے سے روایت ہے:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

مَا ذَکَرَ ابْنُ عُمَرَ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم إِلاَّ بَکَی، وَ لَا مَرَّ عَلَی رَبْعِهِمْ إِلَّا غَمَّضَ عَيْنَيْهِ.

’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرتے رو پڑتے، اور جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکان کے پاس سے گزرتے تو (فرطِ محبت و فراق کے باعث) آنکھیں بند کر لیتے۔‘‘

حوالاجات

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ عمل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ اُن کی شدید محبت کی غمازی کرتا ہے، تب ہی تو وہ حضور علیہ السلام کا ذکر کرنے پر آنسو بہاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقامت گاہ کے اردگرد سے گزرنے پر فراقِ محبوب میں آنکھیں بند کر لیتے۔

2۔ حضرت ابو ہریر ہ  روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

مَنْ صَلَّی عَلَيَّ فِي کِتَابٍ لَمْ تَزَلِ الْمَلَا ئِکَةُ تَسْتَغْفِرُ لَهُ مَا دَامَ اسْمِي فِي ذَلِکَ الْکِتَابِ.

’’جو شخص کسی کتاب میں (لکھ کر) مجھ پہ درود بھیجتا ہے تو فرشتے اس کے لئے اس وقت تک بخشش کی دعا کرتے رہتے ہیں جب تک میرا نام اس کتاب میں موجود رہتا ہے۔‘‘

حوالاجات

3۔ حضرت عجلان سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

مَنْ صَلَّی عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمَ الْجُمُعَةِ مِائَةَ مَرَّةٍ، جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَعَلَی وَجْهِهِ مِنَ النُّوْرِ نُوْرٌ. يَقُوْلُ النَّاسُ: أَيُّ شَيْئٍ کَانَ يَعْمَلُ هَذَا.

’’جو شخص جمعہ کے دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سو (100) مرتبہ درود بھیجتا ہے وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کے چہرے پر بہت زیادہ نور ہوگا۔ (اس کے چہرے کے نور کو دیکھ کر حیرت سے) لوگ کہیں گے: یہ شخص دنیا میں کونسا عمل کرتا تھا (جس کی بدولت آج اس کو یہ نور میسر آیا ہے)۔‘‘

حوالاجات

حضورﷺ کی سنتِ طیبہ اور حدیثِ مبارکہ کی تعظیم

(3)

قرآن حکیم کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک اقوال و افعال جنہیں وحی خفی کا درجہ حاصل ہے اہلِ اسلام کے نزدیک حد درجہ قابلِ احترام ہیں۔ صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، ائمہ کرام رضی اللہ عنہم بالاتفاق قرآن حکیم کے بعد حدیثِ مبارکہ کو سرچشمہِ ہدایت قرار دیتے ہیں۔ اس لئے احادیث کی تعظیم و تکریم بھی دل و جان سے بجا لاتے رہے۔ قرآن کی طرح حدیث نبوی کی تعظیم کی اصل شکل اس کی تعلیمات کو حرزِ جاں بنانا ہے۔ بڑے بڑے ائمہِ دین نے حدیث نبوی کی تعظیم کو پوری زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔

 امام مالک رضی اللہ عنہ کا یہ معمول تھا کہ آپ درس حدیث سے پہلے غسل کرتے، عمدہ اور بیش قیمت لباس زیب تن کرتے، خوشبو لگاتے اور پھر ایک تخت پر نہایت عجز و انکساری سے بیٹھتے اور جب تک درس جاری رہتا انگیٹھی میں عود اور لوبان ڈالتے رہتے تھے۔

ابن فرحون، الدیباج المذھب، 1: 23

1۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اس درجہ حدیث کا احترام کرتے کہ درسِ حدیث کے درمیان کبھی پہلو نہیں بدلتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں:

کنت عند مالک وهو يحدّثنا حديث رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم، فلدغته عقرب بست عشرة مرّة، و مالک يتغير لونه و يصفر ولا يقطع حديث رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم فلما فرغ من المجلس و تفرّق الناس، قلت: يا أبا عبد اللہ، لقد رأيت اليوم منک عجباً فقال: نعم! إنما صبرت إجلالًا لحديث رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم.

’’میں امام مالک کے ہاں حاضر تھا اور وہ ہمیں احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان فرما رہے تھے۔ اس اثناء ایک بچھو نے انہیں سولہ (16) بار ڈنگ مارا۔ امام مالک کا رنگ متغیرہوکر زرد ہوگیا لیکن انہوں نے حدیث مبارکہ کے بیان میں انقطاع نہ کیا۔ جب وہ مجلس سے اٹھے اور لوگ چلے گئے تو میں نے کہا: ابو عبد اللہ! آج میں نے آپ کے ساتھ عجیب معاملہ دیکھا ہے۔ انہوں نے فرمایا: ہاں! میرا اس تکلیف پر صبر کرنا (اپنی طاقت کی بناء پر نہ تھا بلکہ) محض حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کی تعظیم کی وجہ سے تھا۔‘‘

ابن فرحون، الدیباج المذھب، 1: 23

2۔ باوضو طہارت کے ساتھ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان ائمہِ اسلاف کا معمول تھا۔

(1) حضرت ابن ابی اویس بیان کرتے ہیں:

کان مالک إذا أراد أن يحدّث توضّأ و جلس علی فراشه، و سرّح لحيته، و تمکّن فی الجلوس بوقار وهيبة ثم حدّث، فقيل له فی ذلک فقال: أحبّ أن أعظّم حديث رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم، ولا أحدّث به إلا علی طهارة متمکناً، و کان يکره أن يحدّث فی الطريق وهو قائم أو يستعجل، فقال: أحبّ أن أتفهم ما أحدّث به عن رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم.

’’امام مالک رحمۃ اللہ علیہ جب حدیث بیان کرنے کا ارادہ فرماتے تو وضو کرتے اور مسند پر بیٹھ جاتے۔ اپنی داڑھی کو کنگھی کر کے سنوارتے اور مسند پر باوقار انداز کے ساتھ بیٹھ جاتے پھر حدیث بیان کرتے۔ اس اہتمام کے بارے میں اُن سے پوچھا گیا تو فرمایا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث مبارکہ کی تعظیم کو پسند کرتا ہوں اسی لئے بحالتِ وضو بیان کرتا ہوں۔ امام مالک راستے میں کھڑے کھڑے اور عجلت میں حدیث بیان کرنا بھی ناپسند کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث سمجھ کر بیان کروں۔‘‘

    أبو نعیم، حلیۃ الاولیائ، 6: 318

    ابن جوزی، صفوۃ الصفوۃ، 2: 178

(2) حضرت ضریر بن مرۃ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:

کانوا يکرهون أن يحدّثوا عن رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم وهم علی غير وضوئ.

’’ائمہ اسلاف حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بغیر وضو کے بیان کرنا ناپسند کرتے تھے۔‘‘

رامھرمزی، المحدث الفاصل، 1: 586

(3) حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے:

يستحب أن لا تقرأ أحاديث رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم إلا علی طهارة.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث کو طہارت کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے۔‘‘

    أبو نعیم أصبہانی، حلیة الاولیائ، 2: 335

    ذہبی، سیر أعلام النبلائ، 5: 274

(4) حضرت ابو معصب سے روایت ہے:

کان مالک لا يحدّث بحديث رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم إلا وهو علی الطهارة إجلالًا لحديث رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم.

’’امام مالک رحمۃ اللہ علیہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم کی وجہ سے طہارت کے بغیر کبھی بھی بیان نہیں کرتے تھے۔‘‘

    أبو نعیم أصبہانی، حلیۃ الأولیائ، 6: 318

    ذھبی، سیر أعلام النبلائ، 8: 96

3۔ محمد بن سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ المطلب بن حنظب، سعید بن المسیب کی بیماری میں ان کے پاس آئے جبکہ آپ لیٹے ہوئے تھے۔ انہوں نے آپ سے حدیث کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:

أقعدونی، فأقعدوه قال: إنی أکره ان أحدّث حديث رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم وأنا مضطجع.

’’مجھے اٹھا کر بٹھاؤ پس انہوں نے آپ کو اٹھا کر بٹھایا، آپ نے کہا: میں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لیٹے ہوئے بیان کرنا ناپسند کرتا ہوں۔‘‘

    أبو نعیم أصبہانی، حلیۃ الأولیائ، 2: 169

    ابن جوزی، صفوۃ الصفوۃ، 2: 80

مذکورہ بالا احادیث اور ائمہ محدثین کی تصریحات سے یہ امر مترشح ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی احادیث مبارکہ کی فی نفسہ تعظیم و احترام بجا لانا منشائِ شریعت ہے، اس کے خلاف عقیدہ رکھنا باطل اور کذب ہے۔

حضور ﷺکے موئے مبارک کی تعظیم

(4)

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، وَ الْحَلَّاقُ يَحلِقُهُ، وَ أَطَافَ بِهِ أَصْحَابُهُ، فَمَا يُرِيْدُوْنَ أَنْ تَقَعَ شَعْرَةٌ إِلَّا فِيْ يَدِ رَجُلٍ.

’’میں نے دیکھا کہ حجام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر مبارک مونڈ رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد گھوم رہے تھے، وہ چاہتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی بال بھی زمین پر گرنے کی بجائے ان میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ میں گرے۔‘‘

حوالاجات

حضورﷺ کے پسینہ مبارک کی تعظیم

(5)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسدِ اطہر سے ہمیشہ پاکیزہ خوشبو آتی تھی، صحابہ کرامث نے اس خوشبو کو مشک و عنبر اور پھول کی خوشبو سے بھی بڑھ کر پایا۔ صحابہ کرامث اپنے لئے، اپنے بچوں کے لئے اور شادی بیاہ کے موقع پر اپنی بیٹیوں کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینہ مبارک کو حاصل کرتے۔ اس سے برکت کی امید رکھتے اور بڑے اہتمام کے ساتھ اس متاعِ عزیز کو سنبھال کر رکھتے۔

1۔ حضرت ثمامہ، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے چمڑے کا ایک گدا بچھایا کرتیں جس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیلولہ فرمایا کرتے تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سونے سے بیدار ہوکر اٹھ کھڑے ہوتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پسینہ مبارک اور موئے مبارک کو ایک شیشی میں جمع کرتیں پھر ان کو خوشبو کے برتن میں ڈال دیتیں۔ حضرت ثمامہ فرماتے ہیں:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

فَلَمَّا حَضَرَ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ الْوَفَاةُ، أَوْصٰی إِلَيَّ أَنْ يُجْعَلَ فِيْ حَنُوْطِهِ مِنْ ذَالِکَ السُّکِ، قَالَ: فَجُعِلَ فِی حَنُوْطِهِ.

’’جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے مجھے وصیت فرمائی کہ ان کے حنوط(2)

(2) حنوط: وہ خوشبو جو کافور اور صندل ملا کر میت اور کفن کے لئے تیار کی جاتی ہے۔

میں اس خوشبو کو ملایا جائے۔ حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے حنوط میں وہ خوشبو ملائی گئی۔‘‘

حوالاجات

2۔ حضرت حمید سے روایت ہے:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

تُوُفِّيَ أَنَسُ بْنُ مَاِلکٍ فَجُعِلَ فِي حَنُوطِهِ سُکَّةٌ أَوْ سُکٌّ وَ مَسَکَّةٌ فِيْهَا مِنْ عَرْقِ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم.

’’جب حضرت انس رضی اللہ عنہ نے وفات پائی تو ان کے حنوط میں ایسی خوشبو ملائی گئی جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینے کی خوشبو تھی۔‘‘

حوالاجات

حضور ﷺکے نعلینِ مبارک کی تعظیم

(6)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو نعلین استعمال فرمائے وہ بھی بڑے بابرکت ہو گئے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان نعلین مبارک کو تبرکاً محفوظ رکھا اور ان کے فیوض و برکات سے مستفید ہوتے رہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین مبارک اور ایک پیالہ بھی محفوظ تھا جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پانی نوش فرماتے تھے۔ نعلین پاک کے حوالے سے حضرت عیسیٰ بن طہمان سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

أَخْرَجَ إِلَيْنَا أَنَسٌ نَعْلَيْنِ جَرْدَاوَيْنِ، لَهُمَا قِبَالَانِ، فَحَدَّثَنِي ثَابِتٌ البُنَانِيُّ بَعْدُ عَنْ أَنَسٍ: أَنَّهُمَا نَعْلَا النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ہمیں بغیر بال کے چمڑے کے دو نعلین مبارک نکال کر دکھائے جن کے دو تسمے تھے۔ بعد میں ثابت بُنانی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے مجھ سے بیان کیا کہ یہ دونوں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک نعلین ہیں۔‘‘

حوالاجات

حضور ﷺکے منبر مبارک کی تعظیم

(7)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس منبر شریف پر جلوہ افروز ہو کر صحابہ کرامث کو دین سکھاتے تھے، عشاقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس منبر شریف کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوسرے آثار کی طرح دل و جاں سے حصولِ برکت کا ذریعہ بنا لیا۔ وہ اسے جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے اوراس سے برکت حاصل کرتے۔

امام ابنِ حبان، ابنِ سعد اور قاضی عیاض جیسے معتبر ائمہ حدیث نے روایت کیا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھوں سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منبر مبارک کو تبرکاً مسح کرکے اپنے چہرہ پر ہاتھ مَل لیتے۔ ابراہیم بن عبدالرحمن بن عبدالقاری بیان کرتے ہیں:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

رأيت ابن عمر وضع يدَه علی مَقْعَدِ النبيِ صلی الله عليه وآله وسلم من المِنبَر، ثم وضعها علی وَجْهه.

’’میں نے حضرت ابنِ عمرص کو دیکھا کہ انہوں نے منبر (نبوی) کی وہ جگہ جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہوتے، اسے اپنے ہاتھ سے مس کیا اور پھر اسے اپنے چہرہ پر مل لیا۔‘‘

حوالاجات

حضور ﷺکے آثارِ مبارک کی تعظیم

(8)

حضرت عبداللہ بن اُنَیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں گستاخِ رسول خالد بن سفیان بن الھذلی کا کام تمام کر کے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارا چہرہ فلاح پائے۔ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے اس (خالد بن سفیان) کو قتل کردیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو نے سچ کہا۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اپنے ساتھ لئے اپنے کاشانہِ اقدس میں تشریف لے گئے اور مجھے ایک عصا عطا کرکے فرمایا: عبداللہ بن اُنیس! اسے اپنے پاس رکھنا، پس جب میں یہ عصاء لے کر لوگوں کے پاس آیا توانہوں نے کہا کہ یہ عصا (ڈنڈا) کیا ہے؟ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: یہ مجھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عنایت فرمایا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ اسے پاس رکھنا۔ لوگوں نے (مجھے) کہا: کیا تم اسے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو واپس نہیں کروگے؟ اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کرو۔ عبداللہ بن انیس کہتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ عصا مبارک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے کس لیے عطا کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

آيَةٌ بَيْنِی وَ بَيْنَکَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِنَّ أَقَلَّ النَّاسِ الْمُتَخَصِّرُوْنَ يَوْمَئِذٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ. فَقَرَنَهَا عَبْدُاللهِ بِسَيْفِهِ فَلَمْ تَزَلْ مَعَهُ حَتَّی إِذَا مَاتَ، أَمَرَ بِهَا فَصُبَّتْ مَعَهُ فِی کَفَنِهِ ثُمَّ دُفِنَا جَمِيْعًا.

’’قیامت کے روز یہ تیرے اور میرے درمیان ایک نشانی ہوگی، بے شک قیامت کے دن بہت کم لوگ ہاتھوں میں عصاء لئے ہوں گے۔ (راوی بیان کرتے ہیں کہ) حضرت عبداللہ بن اُنیس نے اس عصا کو اپنی تلوار کے ساتھ باندھ لیا اور وہ ہمیشہ ان کے پاس رہتا یہاں تک کہ ان کا وصال ہوگیا۔ انہوں نے عصا کے متعلق وصیت کی تھی کہ اس کو ان کے کفن میں رکھ دیا جائے، پس ان کے کفن میں اسے رکھ دیا گیا پھر دونوں کو دفن کر دیا گیا۔‘‘

حوالاجات

حضور ﷺکے مقدس شہرِ اِقامت کی تعظیم

(9)

1۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

لِکُلِّ نَبِيٍّ حَرَمٌ، وَ حَرَمِي الْمَدِيْنَةُ.

’’ہر نبی کے لئے کوئی نہ کوئی حرم ہے، اور میرا حرم مدینہ ہے۔‘‘

حوالاجات

2۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

إِنَّ إِبْرَاهِيْمَ حَرَّمَ مَکَّةَ وَإِنِّي حَرَّمْتُ الْمَدِيْنَةَ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا، لَا يُقْطَعُ عِضَاهُهَا وَ لَا يُصَادُ صَيْدُهَا.

’’بلا شبہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ مکرمہ کو حرم قرار دیا تھا اور میں مدینہ منورہ کی لَابَتَین (دونوں پتھریلی اطراف) کے درمیان والی جگہ کو حرم قرار دیتا ہوں، اس کے کسی درخت کو نہ کاٹا جائے اور نہ کسی جانور کا شکار کیا جائے۔‘‘

حوالاجات

3۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما ہی سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

لَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ يَحْمِلُ فِيْهَا السِّلَاحَ لِقِتَالٍ.

’’کسی فردِ بشر کے لئے جائز نہیں کہ مدینہ میں لڑنے کے لئے ہتھیار اُٹھائے۔‘‘

حوالاجات

اِن احادیثِ مبارکہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہرِ مدینہ کو کس طرح امن کا گہوارہ بنا دیا اور ایسا کیوں نہ ہوتا! اسی زمین سے افقِ عالم پر دائمی امن کے سورج کو طلوع ہونا اور احترامِ انسانیت کا درس ملنا تھا۔ اسی شہر سے انسان دوستی کی روایت کو منشورِ زندگی ٹھہرنا تھا اور اسی شہرِ بے مثال سے حقوقِ انسانی کی توثیق ہونا تھی۔

4۔ جو شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کی پابندی نہیں کرتا، مثلاً حدودِ حرم میں درختوں کو کاٹتا، جانوروں کا شکار کرتا یا لڑائی جھگڑا کرتا ہے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے، ایسے شخص کے لئے سخت وعید آئی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِرشاد گرامی ہے:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

الْمَدِيْنَةُ حَرَمٌ مِنْ کَذَا إِلَی کَذَا، لَا يُقْطَعُ شَجَرُهَا، وَلَا يُحْدَثُ فِيْهَا حَدَثٌ، مَنْ أَحْدَثَ فِيْهَا حَدَثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ وَالْمَـلَائِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ.

’’مدینہ یہاں سے لے کر وہاں تک حرم ہے، نہ اس کے درختوں کو کاٹا جائے اور نہ اس میں ( خلافِ سنت ) کوئی نئی بات پیدا کی جائے، جو شخص اس میں کوئی نئی بات نکالے اس پر اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہو۔‘‘

حوالاجات

حضور ﷺکی قبرِ انور کی تعظیم

(10)

جب حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے خط پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ کے لوگوں کو شام کی طرف کوچ کرنے کے لیے کہا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے مسجد نبوی میں حاضر ہوکر چار رکعت نماز ادا کی، پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہِ اقدس پر حاضری دی اور (بارگاہِ نبوت میں) سلام عرض کیا۔

(1) واقدی، فتوح الشام، 1: 306، 307

اس روایت سے معلوم ہوا کہ کسی نیک کام کے آغاز کے لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اور آپ کی اتباع میں اولیاء و صالحین کے مزارات پر حاضری دینا خلیفہِ راشد ثانی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سنت ہے۔

نوٹ:

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی حد درجہ تعظیم کے مزید مظاہر دیکھنے کے لئے کتاب ہذا کے ابواب ’توحید اور تبرک‘ اور ’توحید اور زیارت‘ مطالعہ فرمائیں۔

تعظیمِ رسول ﷺاِستغراق فی التوحید کے منافی نہیں

2.5.10

خوارج کا یہ باطل نظریہ ہے کہ محبت و تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی ذات میں کامل استغراق اور اس کی معرفت کے حصول میں انہماک سے مانع ہے۔ امام محمود آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے ہی نظریات کے حامل لوگوں کا محاکمہ کیا ہے، ایسے باطل نظریے کے حامل بعض زندقہ اور ملحد لوگوں نے اپنے آپ کو مستغرق فی التوحید قرار دیتے ہوئے یہ کہا:

الرُّسُلُ سِوَی اللهِ تَعَالَی وَ کُلُّ مَا سِوَاهُ سُبْحَانَهُ حِجَابٌ عَنْهُ جَلّ شَأْنُهُ. فَالرُّسُلُ حِجَابٌ عَنْهُ وَ کُلُّ مَا هُوَ حِجَابٌ لَا حَاجَةَ لِلْخَلْقِ إِلَيْهِ. فَالرُّسُلُ لَا حَاجَةَ لِلْخَلْقِ إِلَيْهِمْ. وَ هَذَا جَهْلٌ ظَاهِرٌ.

’’انبیا، اللہ رب العزت کا غیر اور اس کا ما سوا ہیں اور ہر ما سوی اللہ سبحانہ کو اس سے حجاب ہے۔ اس لئے انبیاء اور رسل کو بھی اس سے حجاب ہیں، اور ہر وہ چیز جو اللہ جل شانہ سے حجاب میں ہو مخلوق کو اس کی حاجت و ضرورت نہیں۔ پس مخلوق کو انبیاء و رسل کی کوئی حاجت اور ضرورت نہیں ہے (معاذ اللہ)۔ (علامہ آلوسی فرماتے ہیں: ) ایسا کہنا کھلی جہالت ہے۔‘‘

(1) آلوسی، روح المعانی، 14: 94

انبیائے کرام علیہم السلام کے خلاف خوارج نے یہ عقیدہ استغراق فی التوحید کے نام پر پیش کیا، حالانکہ ایسا عقیدہ الحاد اور زندقہ ہے۔ اس لئے کہ انبیاء و رسلِ عظام، اللہ تعالیٰ تک براہِ راست رسائی اور اس کے وصال و وصول کا واحد ذریعہ اور وسیلہ ہیں۔ صحیح معرفتِ ربانی کے لئے آئینہ حق نما ہیں۔ رسالت و نبوت کو حجاب سمجھنا اور معرفتِ الٰہی سے مانع قرار دے کر اسے شرک بنا ڈالنا پرلے درجے کی حماقت اور گمراہی ہے۔

قرآن و سنت کی بے شمار نصوصِ قطعیہ سے یہ امر ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے امر اور اذن سے انبیاء و رسلِ عظام علیہم السلام کی اطاعت اور ان کے احکام کی تعمیل فرض ہے۔ بالخصوص اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اعلیٰ ترین اختیارات اور تصرفات کے ساتھ مبعوث فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کو اپنا حکم، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلہ کو اپنا فیصلہ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کو اپنی اطاعت، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عصیان کو اپنا عصیان، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مارنے کو اپنا مارنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب و احترام کو اپنی عبادت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم کو اپنی توحید اور تقوی کا لازمی تقاضا قرار دیا ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری کو اپنی بارگاہ میں حاضری، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہجرت کو اپنی ہجرت قرار دیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنی مغفرت و بخشش کے حتمی حصول کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کو ضروری اور لازمی قرار دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا کو اپنی عطا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی منع کو اپنی منع ٹھہرایا۔ اللہ رب العالمین نے مالک و مولا ہو کر بھی اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ کے خود آداب سکھائے، اونچا بولنے سے منع کیا اور لاپرواہی سے پکارنے کو حرام ٹھہرایا۔ خلاف ورزی پر تمام اعمال برباد کر دینے اور ساری محنت و کمائی پر پانی پھیر دینے کی وعید سنائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ، اہلِ بیت اور ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہم کے مرتبہ و مقام کو ملحوظ رکھنے اور انہیں ایذا پہنچانے سے اجتناب و احتراز کا حکم دیا اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ چلنے کا ادب اور سلیقہ سکھلایا۔ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی طرف متوجہ کرانے کی کیفیتِ خطاب و نداء سے آگاہ فرمایا اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلاوے کی اہمیت اور فوری حاضری کے وجوب کو بیان کیا اور تغافل و لاپرواہی کے امکانات کا سد باب کیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں اسی نسبتِ مطہرہ کا حق ادا کر دیا۔ انہوں نے صرف ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک اپنی بلند درجہ عقیدت و احترام کو محدود نہیں رکھا بلکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب ہر شئے حرزِ جاں بنائے رکھی اور حد درجہ تعظیم و تکریم کی۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک لعابِ دہن، پسینہ مبارک، مستعمل پانی، موئے مبارک، نعلینِ مقدسہ، منبر مبارک، جائے عبادت، بلدِ مقدس، قبرِ انور، حدیثِ مبارکہ، ذکرِ مبارک، اور اسمِ مبارک سے بھی اپنی والہانہ محبت کا ثبوت دیا۔

قرآن و سنت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے احوال پر مشتمل ان تعلیمات کا مقصد یہ ہے کہ قیامت تک آنے والے لوگ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و رفعت اور بلندیِ مقام کو ذہن نشین کر لینے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کما حقہ مستفید ہوسکیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و اتباع اور معیت و محبت کو شرک اور منافیِ توحید نہ سمجھنے لگیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں واضح فرما دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد انبیاء و رسل کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و اتباع کے بغیر چارہ نہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

ثُمَّ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ.

’’پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور ان کی مدد کرو گے۔‘‘

آل عمران، 3: 81

ادب و تعظیمِ رسول ﷺ. .. ایک نازک ایمانی اِمتحان

2.5.11

اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں اِس انداز میں حضور ﷺ کی عزت و تعظیم اورادب و احترام سکھایا کہ :

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

یٰآَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْآ اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوْا لَہ، بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْن

’’اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو حضور اکرم ﷺ کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو (ایسا نہ ہو)  کہ تمہارے سارے اعمال ہی غارت ہو جائیں اور تمہیں شعور تک بھی نہ ہو‘‘-

(الحجرات،۲)

بعض لوگ جو دن رات توحید اور رب ذوالجلال کی عظمت و تمکنت کا ذکر کرتے نہیں تھکتے۔ بدقسمتی سے انہیں اللہ تعالیٰ کے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام و مرتبہ کی عظمت کا کوئی احساس اور ادراک نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توقیر کی نسبت ان کی زبانیں گنگ اور مہر بہ لب رہتی ہیں۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا رسول تو مانتے ہیں لیکن محض عمومی اور اعتقادی طور پر۔ وہ دل سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیغمبرانہ عظمت اور شانِ محبوبیت کو تسلیم کرنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ وہ اللہ رب العزت کی توحید کی رٹ لگاتے رہتے ہیں لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم، تعزیر اور توقیر کے بارے میں ان ارشاداتِ قرآنی سے کوئی اثر قبول نہیں کرتے ۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ ایسے لوگوں کا تعلق عام طور پر باعمل مذہبی طبقے سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی ’’توحید پرستی‘‘ اور ’’عبادت‘‘ کے نشے میں اتنے غرق ہو جاتے ہیں کہ بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی آنکھوں میں غیر اہم ہو جاتی ہے۔ نہ صرف وہ خود تعظیمِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شرف سے محروم ہو جاتے ہیں بلکہ وہ اسے اپنا مشن سمجھ کر دوسروں کو بھی یہی وطیرہ اختیار کرنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ ایسے ’’توحید پرست‘‘ اور ’’عبادت گزار‘‘ لوگ ہر دور میں موجود رہے ہیں اور آج بھی بکثرت موجود ہیں۔ وہ توحید پرستی اور کثرتِ عبادت کے دھوکے میں آکر تعظیم و تکریمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منکر ہو جاتے ہیں اور اپنی اس ناپاک جسارت کے طفیل اپنی متاعِ ایمان ضائع کر کے رشکِ ابلیس بن جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس نازک امتحان میں ہر مسلمان کو سرخرو فرمائے اور ہم سب کو ابلیسی توحید کی بجائے نبوی اور ایمانی توحید کا فیض عطا فرمائے۔ آمین! یا رب العالمین۔

خلاصہِ کلام

2.5.12

قرآن کریم میں ادب و تعظیمِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم دی گئی ہے اور ادبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرینے سکھائے گئے ہیں۔ ذرا غور کریں کہ کوئی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر کے یہ کہنے کی جسارت کر سکتا ہے کہ مولا! میں ادب و مقامِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے آگاہ و واقف ہی نہیں تھا؟ کیونکہ تو نے تعظیم کو ’’حرام اور ممنوع‘‘ قرار دیا تھا۔ کس میں اتنی مجال ہو گی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے روبرو اس دعوے کے ساتھ پیش ہو سکے؟

اگر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور سے تعظیم شرک ہوتی تو وہ عبادت کی طرح تعظیم کو بھی بلا شرکتِ غیرے اپنا اختصاصی و امتیازی حق قرار دے دیتا لیکن اس نے ایسا حکم کہیں بھی نہیں دیا بلکہ تعظیم کے باب میں صراحت کے ساتھ تینوں یعنی اللہ تعالیٰ، ذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مؤمنین کو تعظیم کا حق دار ٹھہرایا۔ اس کا اعلان ہے کہ اگر اہلِ ایمان میں کوئی مجھ سے محبت کرنا چاہتا ہے تو وہ میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو اپنا منتہائے مقصود بنا لے، اسے میری محبت حاصل ہوجائے گی۔ اس سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل اللہ سب کے ساتھ تعظیم، محبت، چاہت اور اپنائیت کے تعلقات و روابط استوار کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ حکمِ الٰہی کے مطابق اس تعلق کی استواری خلقِ خدا کی ضرورت بھی ہے۔

.

Scroll to Top