صدقات وخیرات

1.10

اﷲ کی نعمتوں کا شکر اُس کی عبادت و بندگی کے ذریعے بھی ادا کیا جاتا ہے۔ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ جیسی فرض عبادات کے علاوہ دیگر نفلی عبادات  مثلاً  صدقات و خیرات دے کر غریب، بے سہارا اور یتیم لوگوں کی پرورش و نگہداشت کر کے بھی اﷲ تعالیٰ کی دی گئی نعمت پر شکر بجا لانا اَمرِ مستحب ہے۔

اسلام نے ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرنے کے لئے  صَدَقَہ و خیرات کابھی  ذِہن دیا ہے۔ اس کی برکت سے معاشرے کےمُفْلِس اور نادار افراد اپنی ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنےکے قابل ہو جاتے ہیں۔دوسروں کی مالی مُعَاوَنَت کرنے والوں کورضائے الٰہی جیسی عظیم دولت  ملنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں بھی پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

اللہ تعالی نے صدقات و خیرات میں امت مسلمہ کی  دلی خوشی اور تسکین رکھی ہے اسی لئے میلاد النبی کے  خاص موقع پر عاشقان رسول صدقہ و خیرات کرکے اپنی خوشی میں اور  بھی اضافہ کرتے ہیں ۔قرآن و احادیث میں  واجبہ اور نافلہ صدقات و خیرات کرنے والوں کے فضائل کا ذکر کئی مقامات پر آیا ہے جن میں سےچند  یہاں بیان کی گئیں  ہیں۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

یٰاَیُّہَا  الَّذِینَ  اٰمَنُوا  اِذَا  نَاجَیتُمُ الرَّسُولَ  فَقَدِّمُوا بَینَ یَدَی نَجوٰىکُم صَدَقَۃً ؕ ذٰلِکَ خَیرٌ لَّکُم وَ اَطہَرُ ؕ فَاِن لَّم تَجِدُوا فَاِنَّ اللّٰہَ  غَفُورٌ  رَّحِیمٌ

اے ایمان والو جب تم رسول سے کوئی بات آہستہ عرض کرنا چاہو تو اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقہ دے لو  یہ تمہارے لیے بہت بہتر اور بہت ستھرا ہے ،  پھر اگر تمہیں مقدور نہ ہو تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے ،   

المجادلہ 12:58

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اٰمِنُوا بِاللّٰہِ وَ رَسُولِہٖ  وَ اَنفِقُوا مِمَّا جَعَلَکُم  مُّستَخلَفِینَ فِیہِ ؕ فَالَّذِینَ اٰمَنُوا مِنکُم وَ اَنفَقُوا لَہُم  اَجرٌ کَبِیرٌ

اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی راہ میں کچھ وہ خرچ کرو جس میں تمہیں اَوروں کا جانشین کیا     تو جو تم میں ایمان لائے اور اس کی راہ میں خرچ کیا ان کے لیے بڑا ثواب ہے ،

الحدید 7:57

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

لَن تَنَالُوا البِرَّ حَتّٰی تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَؕ وَ مَا تُنفِقُوا مِن شَیءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ  عَلِیمٌ

تم ہرگز بھلائی کو نہ پہنچو گے جب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز نہ خرچ کرو     اور تم جو کچھ خرچ کرو اللہ کو معلوم ہے ،

العمران3:92

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَ اَنفِقُوا مِن مَّا  رَزَقنٰکُم مِّن  قَبلِ اَن یَّاتِیَ  اَحَدَکُمُ  المَوتُ فَیَقُولَ  رَبِّ لَو لَا  اَخَّرتَنِی  اِلٰی  اَجَلٍ قَرِیبٍ ۙ فَاَصَّدَّقَ وَ  اَکُن  مِّنَ  الصّٰلِحِینَ

اور ہمارے دیے میں سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرو  قبل اس کے کہ تم میں کسی کو موت آئے پھر کہنے لگے ،  اے میرے رب تو نے مجھے تھوڑی مدت تک کیوں مہلت نہ دی کہ میں صدقہ دیتا اور نیکوں میں ہوتا ،

المنافقون10:63

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلَّذِینَ یُنفِقُونَ اَموَالَہُم بِالَّیلِ وَ النَّہَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً فَلَہُم اَجرُہُم عِندَ رَبِّہِم ۚ وَ لَا خَوفٌ عَلَیہِم وَ لَا ہُم یَحزَنُونَ

وہ جو اپنے مال خیرات کرتے ہیں رات میں اور دن میں چھپے اور ظاہر،ان کے لئے ان کا نیگ  ( انعام ،  حصہ )  ہے ان کے رب کے پاس ان کو نہ کچھ اندیشہ ہو نہ کچھ غم ،

البقرہ 2:274

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَ مَا  اٰتَیتُم  مِّن زَکٰوۃٍ  تُرِیدُونَ وَجہَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ  ہُمُ  المُضعِفُونَ

اور جو تم خیرات دو اللہ کی رضا چاہتے ہوئے  تو انھیں کے دُونے ہیں

روم 39:30

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

تَتَجَافٰی جُنُوبُہُم عَنِ المَضَاجِعِ یَدعُونَ رَبَّہُم خَوفًا وَّ طَمَعًا  وَّ مِمَّا رَزَقنٰہُم  یُنفِقُونَ

ان کی کروٹیں جدا ہوتی ہیں خوابگاہوں سے  اور اپنے رب کو پکارتے ہیں ڈرتے اور امید کرتے  اور ہمارے دیے ہوئے سے کچھ خیرات کرتے ہیں ،

السجدہ 32:16

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

حَدَّثَنَا عَبْدَانُ ، أَخْبَرَنَا أَبِي ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَتَى السَّاعَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ :    مَا أَعْدَدْتَ لَهَا ؟    قَالَ : مَا أَعْدَدْتُ لَهَا مِنْ كَثِيرِ صَلَاةٍ وَلَا صَوْمٍ وَلَا صَدَقَةٍ وَلَكِنِّي أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ، قَالَ :    أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ

ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ! قیامت کب قائم ہو گی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تم نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے اس کے لیے بہت ساری نمازیں، روزے اور صدقے نہیں تیار کر رکھے ہیں، لیکن میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اس کے ساتھ ہو جس سے تم محبت رکھتے ہو۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

وَعَنْ عَبْدُ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَتَاهُ قَوْمٌ بِصَدَقَتِهِمْ قَالَ: «اللَّهُمَّ صلى على آل فلَان» . فَأَتَاهُ أبي بِصَدَقَتِهِ فَقَالَ: «اللَّهُمَّ صلى الله على آل أبي أوفى»

وَفِي رِوَايَة: إِذا أَتَى الرجل النَّبِي بِصَدَقَتِهِ قَالَ: «اللَّهُمَّ صلي عَلَيْهِ»

عبداللہ بن ابی اوفی    ؓ بیان کرتے ہیں ، جب کوئی قوم نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس صدقہ لے کر آتی تو آپ دعا فرماتے :’’ اے اللہ ! فلاں کی آل پر رحمت فرما ۔‘‘ جب میرے والد صدقہ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اے اللہ ! ابو اوفی کی آل پر رحمت فرما ۔‘‘ بخاری ، مسلم ۔ ایک روایت میں ہے : جب کوئی آدمی اپنا صدقہ لے کر نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرماتے :’’ اے اللہ ! اس پر رحمت فرما ۔‘‘   

حوالاجات

فائدہ : اس حدیث  سےہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ کہ جب کبھی کوئی صدقہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیا جائے تو نہ صرف صدقے کا ثواب ملتا ہےبلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا بھی ملتی ہے

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا نقصت صَدَقَة من مَال شَيْئا وَمَا زَادَ اللَّهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ» . رَوَاهُ مُسلم

ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا ، درگزر کرنے اور معاف کر دینے سے اللہ بندے کی عزت میں اضافہ فرماتا ہے ، اور جو کوئی اللہ کی خاطر تواضع اختیار کرتا ہے تو اللہ اس کو رفعت عطا فرماتا ہے ۔‘‘

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

وَعَنْ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي بَعْضِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ ظِلَّ الْمُؤْمِنِ يَوْمَ الْقِيَامَة صدقته» . رَوَاهُ أَحْمد

مرثد بن عبداللہ ؒ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے کسی صحابی نے مجھے حدیث بیان کی کہ اس نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :’’ روز قیامت مومن کا صدقہ ہی اس کے لیے باعث سایہ ہو گا ۔‘‘    

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو: أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الْإِسْلَامِ خَيْرٌ؟ قَالَ: «تُطْعِمُ الطَّعَامَ وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لم تعرف»

عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دریافت کیا ، کون سا (آداب) اسلام بہتر ہے ؟ فرمایا :’’ (یہ کہ) تم کھانا کھلاؤ اور تم جسے جانتے ہو اسے بھی اور جسے نہیں جانتے اسے بھی سلام کرو ۔‘‘    

حوالاجات

تاریخی تناظر میں میلادالنبیﷺ کے موقع  پر صدقات وخیرات

1.10.1

کئی صدیوں سے اہلِ اسلام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے مہینے میں محافلِ میلاد منعقد کرتے آئے ہیں۔ وہ دعوتوں کا اِہتمام کرتے ہیں اور ربیع الاول کی راتوں میں صدقات و خیرات سےاِظہارِ مسرت اور نیکیوں میں کثرت کرتے ہیں ۔

تاریخی تناظر میں میں بہت سے اَئمہ کرام کے حوالہ جات ملتے ہیں جنہوں نے اِنعقادِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَحوال بیان کیے ہیں۔ ان کے یہ تذکرے متعدد اسلامی اَدوار اور بلادِ اِسلامیہ سے متعلق ہیں۔

امام شمس الدین السخاوی (831۔ 902ھ)

امام شمس الدین محمد بن عبد الرحمان سخاوی (1428۔ 1497ء) اپنے فتاوی میں میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کے بارے میں فرماتے ہیں :

قول

وإنما حدث بعدها بالمقاصد الحسنة، والنية التي للإخلاص شاملة، ثم لا زال أهل الإسلام في سائر الأقطار والمدن العظام يحتفلون في شهر مولده صلي الله عليه وآله وسلم وشرف وکرم بعمل الولائم البديعة، والمطاعم المشتملة علي الأمور البهية والبديعة، ويتصدقون في لياليه بأنواع الصدقات، ويظهرون المسرات ويزيدون في المبرات، بل يعتنون بقرابة مولده الکريم، ويظهر عليهم من برکاته کل فضل عظيم عميم، بحيث کان مما جرب کما قال الإمام شمس الدين بن الجزري المقري، أنه أمان تام في ذالک العام وبشري تعجل بنيل ما ينبغي ويرام.

’’(محفلِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرونِ ثلاثہ کے بعد صرف نیک مقاصد کے لیے شروع ہوئی اور جہاں تک اس کے انعقاد میں نیت کا تعلق ہے تو وہ اخلاص پر مبنی تھی۔ پھر ہمیشہ سے جملہ اہلِ اسلام تمام ممالک اور بڑے بڑے شہروں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے مہینے میں محافل میلاد منعقد کرتے چلے آرہے ہیں اور اس کے معیار اور عزت و شرف کو عمدہ ضیافتوں اور خوبصورت طعام گاہوں (دستر خوانوں) کے ذریعے برقرار رکھا۔ اب بھی ماہِ میلاد کی راتوں میں طرح طرح کے صدقات و خیرات دیتے ہیں اور خوشیوں کا اظہار کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرتے ہیں۔ بلکہ جونہی ماہِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قریب آتا ہے خصوصی اہتمام شروع کر دیتے ہیں اور نتیجتاً اس ماہِ مقدس کی برکات اﷲ تعالیٰ کے بہت بڑے فضلِ عظیم کی صورت میں ان پر ظاہر ہوتی ہیں۔ یہ بات تجرباتی عمل سے ثابت ہے جیسا کہ امام شمس الدین بن جزری مقری نے بیان کیا ہے کہ ماہِ میلاد کے اس سال مکمل طور پر حفظ و امان اور سلامتی رہتی ہے اور بہت جلد تمنائیں پوری ہونے کی بشارت ملتی ہے۔‘‘

حوالاجات

امام شہاب الدین ابو العباس قسطلانی (851۔ 923ھ)

صاحبِ ’’ارشاد الساری لشرح صحیح البخاری‘‘ امام شہاب الدین ابو العباس احمد بن ابی بکر قسطلانی (1448۔ 1517ء) میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کے متعلق لکھتے ہیں :

قول

وقد رؤي أبولهب بعد موته في النوم، فقيل له : ما حالک؟ فقال : في النار، إلا أنه خُفّف عنّي کل ليلة اثنين، وأمصّ من بين أصبعي هاتين ماء. وأشار برأس أصبعه. وأن ذلک بإعتاقي لثويبة عندما بشّرتني بولادة النبي (صلي الله عليه وآله وسلم ) وبإرضاعها له.

قال ابن الجوزي : فإذا کان هذا أبولهب الکافر الذي نزل القران بذمّه جُوزيَ في النار بفرحه ليلة مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم به، فما حال المسلم الموحّد من أمته يسر بمولده، ويبذل ما تَصل إليه قدرته في محبّته صلي الله عليه وآله وسلم ؟ لعمري! إنما يکون جزاؤه من اﷲ الکريم أن يدخله بفضله العميم جنات النعيم.

ولا زال أهل الإسلام يحتفلون بشهر مولده عليه السلام، ويعملون الولائم، ويتصدقون في لياليه بأنواع الصدقات، ويظهرون السرور ويزيدون في المبرات. ويعتنون بقراء ة مولده الکريم، ويظهر عليهم من برکاته کل فضل عظيم.

ومما جُرّب من خواصه أنه أمان في ذالک العام، وبشري عاجلة بنيل البغية والمرام، فرحم اﷲ امرءًا اتّخذ ليالي شهر مولده المبارک أعيادًا، ليکون أشد علة علي من في قلبه مرض وأعيا داء.

’’اور ابولہب کو مرنے کے بعد خواب میں دیکھا گیا تو اس سے پوچھا گیا: اب تیرا کیا حال ہے؟ پس اُس نے کہا : آگ میں جل رہا ہوں، تاہم ہر پیر کے دن (میرے عذاب میں) تخفیف کر دی جاتی ہے اور اُنگلی کے اشارہ سے کہنے لگا کہ میری ان دو انگلیوں کے درمیان سے پانی (کا چشمہ) نکلتا ہے (جسے میں پی لیتا ہوں) اور یہ (تخفیفِ عذاب میرے لیے) اس وجہ سے ہے کہ میں نے ثویبہ کو آزاد کیا تھا جب اس نے مجھے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کی خوش خبری دی اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ بھی پلایا تھا۔

’’ابن جزری کہتے ہیں : پس جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اَجر میں اُس ابولہب کے عذاب میں بھی تخفیف کر دی جاتی ہے جس کی مذمت (میں) قرآن حکیم میں (ایک مکمل سورت) نازل ہوئی ہے، تو اُمت محمدیہ کے اُس توحید پرست مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشی مناتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و عشق میں حسبِ اِستطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی قسم! میرے نزدیک اﷲ تعالیٰ ایسے مسلمان کو (اپنے حبیب مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانے کے طفیل) اپنے بے پناہ فضل کے ساتھ اپنی نعمتوں بھری جنت عطا فرمائیں گے۔

’’ہمیشہ سے اہلِ اسلام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے مہینے میں محافلِ میلاد منعقد کرتے آئے ہیں۔ وہ دعوتوں کا اِہتمام کرتے ہیں اور اِس ماہِ (ربیع الاول) کی راتوں میں صدقات و خیرات کی تمام ممکنہ صورتیں بروئے کار لاتے ہیں۔ اِظہارِ مسرت اور نیکیوں میں کثرت کرتے ہیں اور میلاد شریف کے چرچے کیے جاتے ہیں۔ ہر مسلمان میلاد شریف کی برکات سے بہر طور فیض یاب ہوتا ہے۔

’’محافلِ میلاد شریف کے مجربات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جس سال میلاد منایا جائے اُس سال امن قائم رہتا ہے، نیز (یہ عمل) نیک مقاصد اور دلی خواہشات کی فوری تکمیل میں بشارت ہے۔ پس اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جس نے ماہِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راتوں کو (بھی) بہ طور عید منا کر اس کی شدتِ مرض میں اضافہ کیا جس کے دل میں (بغضِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سبب پہلے ہی خطرناک) بیماری ہے۔‘‘

حوالاجات

اِمام قسطلانی کی مذکورہ عبارت سے وا ضح ہوتا ہے کہ ماہِ ربیع الاوّل میں محافلِ میلاد منعقد کرنا، واقعاتِ میلاد پڑھنا، دعوتیں کرنا اور کثرت کے ساتھ صدقہ و خیرات کرنا، اَعمالِ صالحہ میں زیادتی کرنا اور خوشی و مسرت کا اِظہار کرنا ہمیشہ سے سلف صالحین کا شیوہ رہا ہے۔ اور ان اُمور کے وسیلہ سے اﷲ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی رحمتوں و برکتوں کا نزول ہوتا ہے۔

اللہ تعالی اپنی رحمت سے اور اپنے محبوب اعظم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہمیں نیک اعمال کی توفیق دے  اور ہمیں عاشقانِ رسول   کی صف میں شامل فرمائے ۔ آمین

Scroll to Top