دعائے خیر

1.6

میلاد النبی کی محفل میں اجتماعی دعا کو بہت باعث برکت اور مقبول سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ وہ محفل ہے جس میں اللہ تبارک و تعالی کی حمد و ثناء  ،  ذکر و عبادت ،  اللہ کے حضور توبہ استغفار ،  اس کی تسبیح  کے ساتھ ساتھ  اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی  مدح سرائی اورآپ پرصلوٰۃ و سلام  کا خاص اہتمام ہوتا ہے۔     بےشک یہایسے اعمال صالحہ ہیں جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت پاتے ہیں۔

بلاشبہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ،اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق میں کامل ترین ،  سب پر فائق اور  اللہ  کے حبیب  ہیں     اسی لئے افضل المخلوقات اوراشرف الکائنات ہیں۔  چونکہ ہم مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو  اللہ تعالی کی  ایک عظیم نعمت مانتے ہیں اور اسی نعمت کا  شکر ادا کرنے کے لئے محافل میلاد النبی منعقد کرتے ہیں۔ جس میں وہ اپنی دعائیں اور التجائیں اللہ رب العزت کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اللہ تعالی کی نعمتوں کی معارفت حاصل کرنا  اور پھر ان نعمتوں پر شکر  ادا کرتے ہوئے دعا  مانگنا  قرآن پاک سے ثابت  ہے جس کی ہم  نےمندرجہ ذیل  حصےمیں وضاحت کی ہے ۔

قرآن مجید میں نعمتوں پر دعاوں کا تذکرہ

1.6.1

دعاکو عبادت کامغزاور جوہر کہا گیا ہے اور دعا کرنا انبیائے کرام کی سنت ہے ۔ہر نبی نے ہر حال میں دعا کی ہے قرآن مجید میں انبیائے کرام کی بہت سی دعائوں کو محفوظ کیا گیا ہے۔

ہم قرآن مجید  کی چند منتخب آیات بیان کر یں گے  ورنہ قرآن مجید میں بے شمار ایسے مقامات ہیں جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب اور مقرب بندوں کے تذکروں کے ساتھ ساتھ ان کی دعاؤں اور مناجات کے کلمات۔ جن سے وہ اللہ کو پکارتے تھے ۔ بھی من و عن بیان کر دیے، ان کی عبادت گاہوں اور ان کے خاص اَوقاتِ دعا، اَندازِ دعا اور مقاماتِ دعا و گریہ تک بیان فرما دیئے۔

قابل غور واقعہ:

 حضرت مریم علیھا السلام  کو  اللہ رب العزت  کا بے موسم پھل عطا فرمانا  اور پھر حضرت زکریا علیہ السلام کا  اللہ رب العزت سے اولادِ نرینہ کی دعا کرنا اور اور اللہ تبارک و تعالیٰ  کا  انہیں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی بشارت عطا فرمانا۔  یہ حسین  تذکرہ  قرآن مجید   میں اللہ رب العزت نے بیان فرما کر،  امتِ مسلمہ کو کو بتایا کہ یہ واقعہ کتنی اہمیت کا حامل ہے۔

 ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقاً قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنَّى لَكِ هَـذَا قَالَتْ هُوَ مِنْ عِندِ اللّهِ إِنَّ اللّهَ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍO

’’سو اس کے رب نے اس (مریم) کو اچھی قبولیت کے ساتھ قبول فرما لیا اور اسے اچھی پرورش کے ساتھ پروان چڑھایا، اور اس کی نگہبانی زکریا کے سپرد کردی، جب بھی زکریا اس کے پاس عبادت گاہ میں داخل ہوتے تو وہ اس کے پاس (نئی سے نئی) کھانے کی چیزیں موجود پاتے، انہوں نے پوچھا: اے مریم! یہ چیزیں تمہارے لیے کہاں سے آتی ہیں؟ اس نے کہا : یہ (رزق) اللہ کے پاس سے آتا ہے، بے شک اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق عطا کرتا ہے

اس پر حضرت زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم علیھا السلام کےحجرۂ  میں کھڑے کھڑے  ایک دعا فرمائی ۔  اس منظر  کو بیان کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهُ قَالَ رَبِّ هَبْ لِي مِن لَّدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِO فَنَادَتْهُ الْمَلآئِكَةُ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمِحْرَابِ أَنَّ اللّهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيَـى مُصَدِّقًا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّهِ وَسَيِّدًا وَحَصُورًا وَنَبِيًّا مِّنَ الصَّالِحِينَO قَالَ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلاَمٌ وَقَدْ بَلَغَنِيَ الْكِبَرُ وَامْرَأَتِي عَاقِرٌ قَالَ كَذَلِكَ اللّهُ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُO قَالَ رَبِّ اجْعَل لِّي آيَةً قَالَ آيَتُكَ أَلاَّ تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ إِلاَّ رَمْزًا وَاذْكُر رَّبَّكَ كَثِيرًا وَسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِO

’’اسی جگہ زکریا نے اپنے رب سے دعا کی، عرض کیا: میرے مولا! مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بے شک تو ہی دعا کا سننے والا ہےo ابھی وہ حجرے میں کھڑے نماز ہی پڑھ رہے تھے (یا دعا ہی کر رہے تھے) کہ انہیں فرشتوں نے آواز دی : بے شک اللہ آپ کو (فرزند) یحییٰ کی بشارت دیتا ہے جو کلمۃ اﷲ (یعنی عیسیٰ) کی تصدیق کرنے والا ہوگا اور سردار ہوگا اور عورتوں (کی رغبت) سے بہت محفوظ ہو گا اور (ہمارے) خاص نیکوکار بندوں میں سے نبی ہوگاo (زکریا نے) عرض کیا : اے میرے رب! میرے ہاں لڑکا کیسے ہوگا درآنحالیکہ مجھے بڑھاپا پہنچ چکا ہے اور میری بیوی (بھی) بانجھ ہے؟ فرمایا : اسی طرح اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہےo عرض کیا : اے میرے رب! میرے لیے کوئی نشانی مقرر فرما؟ فرمایا : تمہارے لیے نشانی یہ ہے کہ تم تین دن تک لوگوں سے سوائے اشارے کے بات نہیں کر سکو گے اور اپنے رب کو کثرت سے یاد کرو اور شام اور صبح اس کی تسبیح کرتے رہو‘‘

آل عمران، 3 : 38 – 41

اس  قرآنی واقعہ میں غور طلب بات یہ ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام کو  جیسے ہی  اللہ تعالی کی طرف سے حضرت مریم  علیہ السلام کو بے موسمی  پھلوں جیسی نعمت عطا کرنے کی معرفت حاصل ہوئی تو فوراً  حضرت زکریا علیہ السلام نے اللہ تعالی سے اولاد نرینہ کی دعا مانگی۔

اسلئےہم مسلمانوں کو چاہیے کہہم  اللہ تعالی کی عظیم نعمت  جو ذات رسول  کی صورت میں ہم کو ملی، جس سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں اس نعمت کے شکرانے کے لئے ہم محفل منعقد کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی معرفت حاصل کریں  ۔

اور  ساتھ ساتھ حضرت زکریا علیہ السلام  کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اس محفل میں نعمت  کی معرفت  پر اللہ پاک کی رحمت کی امید رکھتے ہوئے    خلوص دل سے دعا بھی کریں۔

 اس  خلوص دل  سے جیسے درج ذیل  آیات میں اللہ پاک نے فرمایا کہ   اللہ  کو پکارو  ، اللہ سے ڈرتے ہوئے اور  اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہوئے ۔  بے شک ہمارا  رب دعا خوب سننے والا ہے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَ ادْعُوْهُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا-اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ

“اسی کو پکارو اُس سے ڈرتے ہوئے بھی اور اس کی رحمت کی امید رکھتے ہوئے بھی، یقینا اللہ کی رحمت نیکوکاروں کے قریب تر ہے۔”

(الأعراف،56:7)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْ۔ اَسْتَجِبْ لَكُمْ۔

“تمہارے رب نے فرمایاہے: مجھ سے دعائیں کرو ، میں تمہار ی دعاؤں کو قبول کروں گا۔”

(المومن،60:40)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الْحَمْدُ لِلّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَقَ إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِ۔

’’سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحق (دو فرزند) عطا فرمائے، بے شک میرا رب دعا خوب سننے والا ہے ‘‘

(ابراهيم، 14: 39)

اس محفل میں خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی  معرفت، محبت اور قربت   پانے کی دعائیں کی جاتی ہیں  ۔ یہ دعائیں نہ صرف محفل میں موجود مسلمانوں کے لیے بلکہ پوری امت کے  لیے کی جاتی ہیں تاکہ  اللہ کریم   ان پر سے تمام مصائب و غم کو دور کرے ۔  نعمت  کی معرفت  کے موقع پر یہ   دعائیں اس یقین کے ساتھ   کی جاتی  ہیں  کہ اللہ پاک انہیں ضرور قبول فرمائے گا ۔

احا دیث   مبارکہ میں   دعاوں کی اہمیت

1.6.2

سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے زندگی کے ہر عمل میں دعا کرنے کا حکم دیا ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ ذَرِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْهَمْدَانِيِّ عَنْ يُسَيْعٍ الْكِنْدِيِّ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الدُّعَاءَ هُوَ الْعِبَادَةُ ثُمَّ قَرَأَ وَقَالَ رَبُّكُمْ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ(غافر:60)

حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دعا ہی عبادت ہے۔ پھر نبی ﷺ نے یہ آیت پڑھی(وَقَالَ رَبُّکُمُ ادعُونِی اَستَجِب لَکُم) اور تمہارے رب نے فرمایا:مجھے پکارو،میں تمہاری پکار قبول کروں گا۔

حوالاجات

آقا علیہ السلام نے فرمایا: فَعَلَيْکُمْ عِبَادَ اﷲِ بِالدُّعَاء  بس اللہ کے بندو! اپنے اوپر دعا کرنا لازم کر لو یعنی ہمہ وقت اپنا معمول بنالو اور اللہ کے حضور دعا کرتے رہا کرو۔،

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا عِمْرَانُ الْقَطَّانُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيْسَ شَيْءٌ أَكْرَمَ عَلَى اللَّهِ سُبْحَانَهُ مِنْ الدُّعَاءِ

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے ، نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ہاں دعا سے بڑھ کر کوئی چیز عزت والی نہیں۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ الْجَرْجَرَائِيُّ وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ الْمَعْنَى أَنَّ عَبْدَةَ بْنَ سُلَيْمَانَ أَخْبَرَهُمْ عَنِ الْحَجَّاجِ ابْنِ ديِنَارٍ، عَنْ أَبِي هَاشِمٍ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةَ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ بِأَخَرَةٍ- إِذَا أَرَادَ أَنْ يَقُومَ مِنَ الْمَجْلِسِ-: >سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ<. فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّكَ لَتَقُولُ قَوْلًا مَا كُنْتَ تَقُولُهُ فِيمَا مَضَى؟! فَقَالَ: >كَفَّارَةٌ لِمَا يَكُونُ فِي الْمَجْلِسِ

سیدنا ابوبرزہ اسلمی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے آخری ایام میں جب کسی مجلس سے اٹھتے تو یہ کلمات کہتے تھے «سبحانك اللهم وبحمدك أشهد أن لا إله إلا أنت أستغفرك وأتوب إليك» ایک آدمی نے آپ ﷺ سے پوچھ لیا کہ اے اﷲ کے رسول ! آپ یہ کلمات کہتے ہیں جو پہلے نہیں کہا کرتے تھے ( اس کی کیا وجہ ہے ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا ” یہ اس چیز کے کفارے کے لیے ہے جو مجلس میں ہو جاتی ہے ۔ “

حوالاجات

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کے یہاں دعا سے زیادہ کوئی عمل عزیز نہیں ہے (ابن ماجہ ۔ باب فضَل الدُعاء)

ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دعا موجودہ اور آئندہ آنے والی ہر قسم کی مصیبت میں فائدہ دیتی ہے، اس لیے اللہ کے بندو! دعا  لازمی کیا کرو) ترمذی، حاکم(

دُعا کے شروع میں اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کرنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پردرود بھیجنا۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے جب کوئی دُعا مانگے توپہلے اللہ تعالیٰ کی بزرگی وثنا سے دُعا کا آغاز کرے پھر مجھ پردرود بھیجے، پھر جو چاہے مانگے۔ (ترمذی) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دعا آسمان وزمین کے درمیان معلق رہتی ہے یعنی درجۂ قبولیت کو نہیں پہنچتی جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود نہ بھیجے۔ (ترمذی)

حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے بارگاہِ رِسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ کی نبوتِ مبارکہ کی شروعات کیسے ہوئی؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

دعوة أبي إبراهيمَ، وبُشري عيسي، ورأت أمي أنه يخْرُجُ منها نور أضاءت منه قصور الشام.

’’میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا اور عیسیٰ کی بشارت ہوں۔ او-ر (میری ولادت کے وقت) میری والدہ ماجدہ نے دیکھا کہ اُن کے جسم اَطہر سے ایک نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ولادت کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا بتایا ہے اور حضرت عیسی علیہ السلام کی بشارت یعنی خوشخبری، جیسا کہ تمام انبیاء نے اپنی اپنی امت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی ہمیشہ خوشخبری سنائی ہے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ  اللہ کی نعمتوں اور دعاؤں کا آپس میں بہت گہرا  تعلق ہے ، دعا مظہر عبدیت اور ایک اہم عبادت ہے۔ دعا مضطرب قلوب کے لئے سامان سکون، گمراہوں کے لئے ذریعۂ ہدایت، متقیوں کے لئے قرب الٰہی کا وسیلہ اور گناہگاروں کے لئے اللہ کی بخشش ومغفرت کی بادِ بہار ہے۔ اس لئے ہمیں اللہ تعالی کی اس عظیم نعمت کی معارفت حاصل کرنا  اور پھر اس نعمت پر شکر  ادا کرتے ہوئے دعا  مانگنے میں ہرگز کاہلی وسستی نہیں کرنی چاہئے، ورنہ یہ بڑی محرومی کی بات  ہوگی۔

تاریخ اسلام میں میلاد شریف میں دعاوں کا تذکرہ

1.6.3

مسلمانوں کا دینی  مجالس اور محفل میں دعا کرنا  ہمیشہ سے رائج رہا ہے ، میلاد النبی کی محافل میں بھی دعا کرنا کئی سو سال سے ثابت ہے۔ یہاں پر اختصار کے ساتھ صرف ایک واقعہ بیان  کیا گیا ہے کیونکہ کہ میلاد شریف کا تاریخی پس منظر الگ سیکشن میں آگےچل کرآئے  گا ۔انشاءاللہ

اِمام محمد جار اﷲ بن ظہیرہ حنفی (م 986ھ) اہلِ مکہ کے جشنِ میلاد کے بارے میں لکھتے ہیں :

وجرت العادة بمکة ليلة الثاني عشر من ربيع الأول في کل عام أن قاضي مکة الشافعي يتهيّ. أ لزيارة هذا المحل الشريف بعد صلاة المغرب في جمع عظيم، منهم الثلاثة القضاة وأکثر الأعيان من الفقهاء والفضلاء، وذوي البيوت بفوانيس کثيرة وشموع عظيمة وزحام عظيم. ويدعي فيه للسلطان ولأمير مکة، وللقاضي الشافعي بعد تقدم خطبة مناسبة للمقام، ثم يعود منه إلي المسجد الحرام قبيل العشاء، ويجلس خلف مقام الخليل عليه السلام بأزاء قبة الفراشين، ويدعو الداعي لمن ذکر آنفاً بحضور القضاة وأکثر الفقهاء. ثم يصلّون العشاء وينصرفون، ولم أقف علي أول من سن ذالک، سألت مؤرخي العصر فلم أجد عندهم علماً بذلک.

’’ہر سال مکہ مکرمہ میں بارہ ربیع الاول کی رات اہلِ مکہ کا یہ معمول ہے کہ قاضی مکہ۔ جو کہ شافعی ہیں۔ مغرب کی نماز کے بعد لوگوں کے ایک جم غفیر کے ساتھ مولد شریف کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ ان لوگوں میں تینوں مذاہبِ فقہ کے قاضی، اکثر فقہاء، فضلاء اور اہل شہر ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں میں فانوس اور بڑی بڑی شمعیں ہوتی ہیں۔ وہاں جا کر مولد شریف کے موضوع پر خطبہ دینے کے بعد بادشاہِ وقت، امیرِ مکہ اور شافعی قاضی کے لیے (منتظم ہونے کی وجہ سے) دعا  کی جاتی ہے۔ پھر وہ وہاں سے عشاء سے تھوڑا پہلے مسجد حرام میں آجاتے ہیں اور صفائی کرنے والوں کے قبہ کے مقابل مقامِ ابراہیم کے پیچھے بیٹھتے ہیں۔ بعد ازاں دعا کرنے والا کثیر فقہاء اور قضاۃ کی موجودگی میں دعا  کا کہنے والوں کے لیے خصوصی دعا  کرتا ہے اور پھر عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد سارے الوداع ہو جاتے ہیں۔ (مصنف فرماتے ہیں کہ) مجھے علم نہیں کہ یہ سلسلہ کس نے شروع کیا تھا اور بہت سے ہم عصر مؤرّخین سے پوچھنے کے باوُجود اس کا پتہ نہیں چل سکا۔‘‘

حوالاجات

پھر ایک عالم دین وہاں خطاب کرتا ہے اور اس سلطنتِ شریفہ کے لیے دعا کرتا ہے


Scroll to Top