میلادالنبی کا اَحادیث سے اِستدلال
2.2
گزشتہ باب میں قرآن حکیم کی آیات اور ان کی تفاسیر کی روشنی میں میلادالنبی ﷺ منانے کے حوالہ سے مفصل گفتگو ہوچکی ہے۔ باب ہٰذا میں میلادالنبی ﷺ کی مشروعیت اَحادیثِ مبارکہ کی روشنی میں بیان کی جائے گی، اور کتبِ اَحادیث کی رُو سے حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادتِ باسعادت پر خوشی و مسرت منانے کے شرعی پہلو کا جائزہ لیا جائے گا۔
رسول اللہ ﷺ نے خود بھی اپنے یومِ ولادت کی تعظیم و تکریم فرماتے اور اِس کائنات میں اپنے ظہور وجود پر شکرگزار ہوتے ہوئے اس کا اظہار بھی فرمایا، اسلئیے رسول اللہ ﷺ کےامتی بھی آپﷺ کی محبت میں میلادالنبی ﷺ کی خوشی مناتے ہیں۔
تحدیثِ نعمت اور شکر کی ایک عظیم مثال:
آپﷺ کی حیاتِ مبارکہ ہی میں مسلم بچیوں نے آپﷺ کی مدینہ شریف آمد پر خوشی منانے اور شکرِ اِلٰہی بجا لانے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا اور یہ مشہور زمانہ نعت پڑھ کر قیامت تک آنے والی اُمتِ مسلمہ کو بتا دیا کہ اللہ تعالی کی سب سے بڑی نعمت کا شکر ادا کرنا ہم پر واجب کا درجہ رکھتا ہے۔
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا
مِنْ ثَنِيّاتِ الْودَاعِ
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَيْنَا
مَا دَعَاِﷲِ دَاعٍ
أيّهَا الْمَبْعُوْثُ فِيْنَا
جِئْتَ بِالْأمْرِ الْمُطَاعِ
(ہم پروداع کی چوٹیوں سے چودھویں رات کا چاند طلوع ہوا، جب تک لوگ اللہ کو پکارتے رہیں گے ہم پر اس کا شکر واجب ہے۔ اے ہم میں مبعوث ہونے والے نبی! آپﷺ ایسے اَمر کے ساتھ تشریف لائے ہیں جس کی اِطاعت کی جائے گی)
آئیے ان تین اشعار پر غور کریں:
پہلے شعر میں آپ کو چودھویں رات کے روشن چاند سے تشبیہ دے کر آپ کی تعریف کی ، پھر آپﷺ کی مبارک آمد کا ذکر کیا۔
دوسرے شعر میں آپﷺ کی آمد کا شکر ادا کرنے کو مسلمانوں پر فرض قرار دیااور اِس شکر کی مدت بھی بتا دی کہ جب تک اللہ کا نام لیا جائے (یعنی قیامت تک) یہ ہم پر فرض ہے۔
تیسرے شعر میں آپﷺ کی آمد کا مقصد بتایا اور مسلمانوں کو آگاہ کیا کہ آپ جس اَمر کے ساتھ تشریف لائے ہیں اس کی اِطاعت ہم کو لازمی کرنی چاہیئے۔
غور طلب نکتہ:
الحمد لله یہ مشہور زمانہ نعت ہر جگہ پڑھی جاتی ہے مگر کاش کہ امتِ مسلمہ اس کے الفاظ پر بھی غور کرے اور اس میں دیئے گئے میسج کو سمجھے!
مدینہ منورہ اِن چھوٹی بچیوں کی تحدیثِ نعمت اور شکر کی ایک عظیم مثال کے بعد، آیئے احادیث مبارکہ ﷺ کی روشنی میں ان شرعی پہلو کو تفصیلی طور پر درجہ بہ درجہ مندرجہ ذیل نکات کی روشنی میں سمجھتے ہیں۔
اللہ کا اپنےحبیب ﷺ کے میلادکا چرچا کرنا
2.2.1
ذکر ِمصطفی ﷺ ازل تا ابد جاری و ساری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو وجود میں لانے سے قبل ہی آپ کی آمد کا چرچا شروع کردیا تھا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کا جیسا چرچا فرمایا اس کی کوئی اور مثال نہیں ہے۔ تمام آسمانوں پر کوئی جگہ ایسی نہیں پائی جاتی جس میں حضرت محمد مصطفی ﷺ کا اسمِ مبارک ﷺ لکھا ہوا نہ ہو ۔ در اصل حضرت آدم کی تخلیق سے قبل یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ ایک ایسی ذاتِ مبارک کی آمد ابھی باقی ہے جو عظمت و رفعت میں سب سے بڑھ کر ہیں۔ آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے سابقہ آسمانی کتابوں میں بھی آپ ﷺ کی آمد ِمبارک کا چرچا جاری رہا جس کا تذکرہ مندرجہ ذیل احادیثِ مبارکہ میں ملتا ہے۔
آسمانوں پر اسمِ محمد ﷺ کا چرچا
(1)
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
عَنْ کَعْبٍ الْأَحْبَارِ رضي الله عنه قَالَ: أَي بُنَيَّ، فَکُلَّمَا ذَکَرْتَ اللهَ فَاذْکُرْ إِلٰی جَنْبِهِ اسْمَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم، فَإِنِّي رَأَيْتُ اسْمَه مَکْتُوْبًا عَلٰی سَاقِ الْعَرْشِ، وَأَنَا بَيْنَ الرُّوْحِ وَالطِّيْنِ، کَمَا أَنِّي طُفْتُ السَّمَاوَاتِ فَلَمْ أَرَ فِي السَّمَاوَاتِ مَوْضِعًا إِلَّا رَأَيْتُ اسْمَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم مَکْتُوْبًا عَلَيْهِ، وَأَنَّ رَبِّي أَسْکَنَنِيَ الْجَنَّةَ، فَلَمْ أَرَ فِي الْجَنَّةِ قَصْرًا وَلَا غُرْفَةً إِلَّا اسْمَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم مَکْتُوْبًا عَلَيْهِ، وَلَقَدْ رَأَيْتُ اسْمَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم مَکْتُوْبًا عَلٰی نُحُوْرِ الْعِيْنِ، وَعَلٰی وَرَقِ قَصَبِ آجَامِ الْجَنَّةِ، وَعَلٰی وَرَقِ شَجَرَةِ طُوْبٰی، وَعَلٰی وَرَقِ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰی، وَعَلٰی أَطْرَافِ الْحُجُبِ، وَبَيْنَ أَعْيُنِ الْمَـلَائِکَةِ، فَأَکْثِرْ ذِکْرَه، فَإِنَّ الْمَـلَائِکَةَ تَذْکُرُه فِي کُلِّ سَاعَاتِهَا.
رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ وَالسُّيُوْطِيُّ.
’’حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام نے (اپنے بیٹوں سے) فرمایا: اے میرے بیٹے، تو جب کبھی اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے تو اس کے ذکر کے ساتھ (اس کے حبیب) محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کا بھی ذکر کیا کرو، پس بے شک میں نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسمِ گرامی عرش کے پایوں پر لکھا ہوا پایا، درآنحالیکہ میں روح اور مٹی کے درمیانی مرحلہ میں تھا، جیسا کہ میں نے تمام آسمانوں کا طواف کیا اور کوئی جگہ ان آسمانوں میں ایسی نہ پائی جس میں، میں نے اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھا ہوا نہ دیکھا ہو، بے شک میں نے حور عین کے گلوں پر، جنت کے محلات کے بانسوں کے پتوں پر، طوبی درخت کے پتوں پر، سدرۃ المنتھی کے پتوں پر، دربانوں کی آنکھوں پر، اور فرشتوں کی آنکھوں کے درمیان اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھا ہوا دیکھا، پس تم بھی کثرت سے ان کا ذکر کیا کرو، بے شک ملائکہ بھی ہر گھڑی ان کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔‘‘ اِسے امام ابن عساکر اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔
حوالاجات
أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 23 / 281، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 12. | 1 |
سابقہ آسمانی کتابوں میں محمد مصطفی ﷺ کے نام کے چرچے
(2)
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
-(1)عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يُسَمَّی فِي الْکُتُبِ الْقَدِيْمَةِ: أَحْمَدُ، وَمُحَمَّدٌ، وَالْمَاحِي، وَالْمُقَفِّي، وَنَبِيُّ الْمَـلَاحِمِ، وَحَمَطَايَا، وَفَارْ قَلِيْطَا وَمَاذِمَاذَ.
رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ کَمَا قَالَ السُّيُوْطِيُّ.
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سابقہ کتب میں اَحمد، محمد، ماحی، مقفِی، نبی الملاحم، حمطایا، فارقلیط اور ماذماذ کا اسمِ گرامی عطا کیا گیا تھا۔‘‘
امام سیوطی نے اسے بیان کیا اور فرمایا: اسے امام ابو نعیم نے بھی روایت کیا ہے۔
حوالاجات
أخرجه السيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 133، وقال: أخرجه أبو نعيم. | 1 |
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
-(2)عَنْ کَعْبٍ رضي الله عنه قَالَ: فِي التَّوْرَاةِ مَکْتُوْبٌ: قَالَ اللهُ تَعَالٰی لِمُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم: عَبْدِي (سَمَّيْتُکَ) الْمُتَوَکِّلَ الْمُخْتَارَ.
رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْبَيْهَقِيُّ.
’’حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تورات میں لکھا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا: اے میرے (کامل) بندے میں نے تیرا نام متوکل اور مختار رکھا ہے۔‘‘
اِسے امام ابو نعیم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
حوالاجات
أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء، 5 / 387، والبيهقي في دلائل النبوة، 1 / 160، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4 / 360. | 1 |
سابقہ آسمانی کتابوں میں محمد مصطفی ﷺ کی آمد کےچرچے
(3)
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
-(1)أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ عَوْفٍ قَالَ وَحَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ ذَكْوَانَ أَبِي صَالِحٍ عَنْ كَعْبٍ فِي السَّطْرِ الْأَوَّلِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ عَبْدِي الْمُخْتَارُ لَا فَظٌّ وَلَا غَلِيظٌ وَلَا صَخَّابٌ فِي الْأَسْوَاقِ وَلَا يَجْزِي بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَةَ وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَغْفِرُ مَوْلِدُهُ بِمَكَّةَ وَهِجْرَتُهُ بِطَيْبَةَ وَمُلْكُهُ بِالشَّامِ وَفِي السَّطْرِ الثَّانِي مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ أُمَّتُهُ الْحَمَّادُونَ يَحْمَدُونَ اللَّهَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ يَحْمَدُونَ اللَّهَ فِي كُلِّ مَنْزِلَةٍ وَيُكَبِّرُونَ عَلَى كُلِّ شَرَفٍ رُعَاةُ الشَّمْسِ يُصَلُّونَ الصَّلَاةَ إِذَا جَاءَ وَقْتُهَا وَلَوْ كَانُوا عَلَى رَأْسِ كُنَاسَةٍ وَيَأْتَزِرُونَ عَلَى أَوْسَاطِهِمْ وَيُوَضِّئُونَ أَطْرَافَهُمْ وَأَصْوَاتُهُمْ بِاللَّيْلِ فِي جَوِّ السَّمَاءِ كَأَصْوَاتِ النَّحْلِ
حضرت کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں(تورات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں ) پہلی لائن میں یہ تحریر ہے ” محمد اللہ کے رسول ہیں۔ میرے اختیار کردہ بندے ہیں وہ سخت مزاج نہیں اور سخت دل نہیں ہیں اور بازار میں بلند آواز سے چیخنے والے نہیں ہیں وہ برائی کا بدلہ برائی کے ذریعے نہیں دے گا بلکہ معاف کردے گا بخش دے گا اس کی جائے پیدائش مکہ ہوگی اور وہ ہجرت کرکے طیبہ آئے گا اور اس کی بادشاہی شام میں ہوگی۔ دوسری سطر میں یہ تحریر ” محمد اللہ کے رسول ہیں ان کی امت بکثرت اللہ کی حمد کرنے والی ہے وہ تنگی اور خوشحالی ہر حال میں اللہ کی حمد بیان کریں گے۔ جب نماز کا وقت آجائے گا تو نماز ضرور ادا کریں گے اگرچہ وہ کسی کناسہ پر ہوں ان کے تہبند نصف پندلی تک ہوں گے وہ اپنے مخصوص اعضاء پر وضو کریں گے رات کے وقت کھلی فضا میں ان کی آواز یوں ہوگی جیسے کسی شہد کی مکھی کی آواز ہوتی ہے۔
حوالاجات
سنن دارمی ۔ جلد اول ۔ مقدمہ دارمی ۔ حدیث 7 | 1 |
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
-(2)أَخْبَرَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ أَبِي فَرْوَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ سَأَلَ كَعْبَ الْأَحْبَارِ كَيْفَ تَجِدُ نَعْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي التَّوْرَاةِ فَقَالَ كَعْبٌ نَجِدُهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ يُولَدُ بِمَكَّةَ وَيُهَاجِرُ إِلَى طَابَةَ وَيَكُونُ مُلْكُهُ بِالشَّامِ وَلَيْسَ بِفَحَّاشٍ وَلَا صَخَّابٍ فِي الْأَسْوَاقِ وَلَا يُكَافِئُ بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَةَ وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَغْفِرُ أُمَّتُهُ الْحَمَّادُونَ يَحْمَدُونَ اللَّهَ فِي كُلِّ سَرَّاءَ وَضَرَّاءَ وَيُكَبِّرُونَ اللَّهَ عَلَى كُلِّ نَجْدٍ يُوَضِّئُونَ أَطْرَافَهُمْ وَيَأْتَزِرُونَ فِي أَوْسَاطِهِمْ يُصَفُّونَ فِي صَلَوَاتِهِمْ كَمَا يُصَفُّونَ فِي قِتَالِهِمْ دَوِيُّهُمْ فِي مَسَاجِدِهِمْ كَدَوِيِّ النَّحْلِ يُسْمَعُ مُنَادِيهِمْ فِي جَوِّ السَّمَاءِ
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت کعب سے دریافت کیا آپ حضرات نے تورات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کن الفاظ میں پایا ہے؟ تو حضرت کعب نے جواب دیا ہم نے ان الفاظ میں پایا ہے محمد بن عبداللہ رضی اللہ عنہ مکہ میں پیدا ہوں گے وہ ہجرت کر کے طابہ میں جائیں گے ان کی حکومت شام میں بھی ہوگی وہ فحش گفتگو کرنے والے نہیں ہوں گے اور بازار میں چیخ کر نہیں بولیں گے برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیں گے بلکہ معاف کر دیں گے بخش دیں گے۔ ان کی امت بکثرت حمد بیان کرنے والی ہوگی۔ وہ ہر پریشانی کے عالم میں بھی اللہ کی حمد بیان کریں گے اور ہر مقام پر اللہ کی کبریائی کا تذکرہ کریں گے وہ اپنے مخصوص اعضاء پر وضو کریں گے وہ اپنی نصف پنڈلی تک تہبند باندھیں گے۔ نماز میں ان کی صف اسی طرح ہوگی جیسے جنگ کے دوران ان کی صف ہوگی۔ ان کی مساجد میں ان کی آواز شہد کی مکھی کی آواز جیسی ان کے اذان دینے والے کی آواز کھلی فضا میں سنی جاسکے گی۔
حوالاجات
سنن دارمی ۔ جلد اول ۔ مقدمہ دارمی ۔ حدیث 8 | 1 |
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
-(3)حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ حَدَّثَنِي خَالِدٌ هُوَ ابْنُ يَزِيدَ عَنْ سَعِيدٍ هُوَ ابْنُ أَبِي هِلَالٍ عَنْ هِلَالِ بْنِ أُسَامَةَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ ابْنِ سَلَامٍ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ إِنَّا لَنَجِدُ صِفَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا وَحِرْزًا لِلْأُمِّيِّينَ أَنْتَ عَبْدِي وَرَسُولِي سَمَّيْتُهُ الْمُتَوَكِّلَ لَيْسَ بِفَظٍّ وَلَا غَلِيظٍ وَلَا صَخَّابٍ بِالْأَسْوَاقِ وَلَا يَجْزِي بِالسَّيِّئَةِ مِثْلَهَا وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَتَجَاوَزُ وَلَنْ أَقْبِضَهُ حَتَّى نُقِيمَ الْمِلَّةَ الْمُتَعَوِّجَةَ بِأَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَفْتَحُ بِهِ أَعْيُنًا عُمْيًا وَآذَانًا صُمًّا وَقُلُوبًا غُلْفًا قَالَ عَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ وَأَخْبَرَنِي أَبُو وَاقِدٍ اللَّيْثِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ كَعْبًا يَقُولُ مِثْلَ مَا قَالَ ابْنُ سَلَامٍ
حضرت ابن سلام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ہم نے اپنی آسمانی کتاب تورات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ ان الفاظ میں پایا ہے۔
بے شک ہم نے تمہیں گواہ خوشخبری دینے والا،ڈرانے والا پناہ گاہ بنا کر بھیجا ہے اس قوم کے لئے جوان پڑھ ہے (اے محمد) تو میرا بندہ اور رسول ہے۔ میں نے اس یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام متوکل رکھا ہے وہ سخت دل اور سخت مزاج نہیں ہوگا اور نہ ہی بازار میں اونچی آواز سے چیخے گا اور برائی کا بدلہ برائی کی صورت میں نہیں دے گا بلکہ معاف کرے گا اور درگزر کرے گا اور میں اس وقت تک اس کی روح قبض نہیں کروں گا جب تک وہ بگڑی ہوئی قوم یعنی کفر میں مبتلا قوم کو یہ اعتراف نہ کروا دے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ہم اس کے ذریعے اندھی آنکھوں بہرے کانوں اور پردے میں چھپے ہوئے دلوں کو کشادگی عطا کریں گے۔ عطاء بن یسار بیان کرتے ہیں کہ مجھے ابو واقد لیثی نے یہ بات بتائی کہ انہوں نے حضرت کعب رضی اللہ عنہ کو بھی یہی بات بیان کرتے ہوئے سنا ہے جو حضرت ابن سلام رضی اللہ عنہ نے بیان کی ہے۔
حوالاجات
سنن دارمی ۔ جلد اول ۔ مقدمہ دارمی ۔ حدیث 6 | 1 |
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
-(4)حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ حَدَّثَنِي أَبُو مَوْدُودٍ الْمَدَنِيُّ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ الضَّحَّاکِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ مَکْتُوبٌ فِي التَّوْرَاةِ صِفَةُ مُحَمَّدٍ وَصِفَةُ عِيسَی ابْنِ مَرْيَمَ يُدْفَنُ مَعَهُ فَقَالَ أَبُو مَوْدُودٍ وَقَدْ بَقِيَ فِي الْبَيْتِ مَوْضِعُ قَبْرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ هَکَذَا قَالَ عُثْمَانُ بْنُ الضَّحَّاکِ وَالْمَعْرُوفُ الضَّحَّاکُ بْنُ عُثْمَانَ الْمَدَنِيُّ
زید بن اخزم طائی بصری، ابوقتیبہ سلم بن قتیبہ، ابومودود مدنی، عثمان بن ضحاک، محمد بن یوسف بن عبداللہ بن سلام، حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ تورات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات مذکور ہیں یہ کہ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ان (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دفن ہوگے۔ ابومودود کہتے ہی کہ حجرہ مبارک میں ایک قبر کی جگہ باقی ہے۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ عثمان بن ضحاک بھی اسی طرح کہتے ہیں۔ انکا معروف نام ضحاک بن عثمان مدینی ہے۔
حوالاجات
جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ مناقب کا بیان ۔ حدیث 1583 | 1 |
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
-(5)عَنْ عَائِشَة قَالَتْ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مَكْتُوب فِي الْإِنْجِيْل: لَا فَظٌّ وَلَا غَلِيظٌ وَلَا سَخَّابٌ بِالْأَسْوَاق، وَلَا يَجْزِي بِالسَّيِّئَة مِثْلَهَا بَل يَعْفُو وَيَصْفَح
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں انجیل میں لکھا ہوا تھا :نہ بدزبان ،نہ سخت، نہ بازاروں میں شور کرنے والے، نہ برائی کا بدلہ برائی سے دینے والے بلکہ وہ معاف کرتے ہیں اور درگزرکرتے ہیں۔
حوالاجات
الصحیححہ رقم 2458، المستدرک علی الصحیحین للحاکم رقم 4190 | 1 |
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
-(6)عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُتْبَۃَ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ: بَعَثَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِلَی النَّجَاشِیْ وَنَحْنُ نَحْوٌ مِنْ ثَمَانِیْنَ رَجُلًا، فِیْھِمْ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ، وَجَعْفَرٌ، وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُرْفُطَۃَ، وَعُثْمَانُ بْنُ مَظْعُوْنٍ، وَأَبُوْ مُوْسٰی فَأَتَوُا النَّجَاشِیَّ، وَبَعَثَتْ قُرَیْشٌ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ وَعُمَارَۃَ بْنَ الْوَلِیْدِ بِھَدِیَّۃٍ، فَلَمَّا دَخَلَا عَلَی النَّجَاشِیِّ سَجَدَا لَہُ، ثُمَّّ ابْتَدَرَاہُ عَنْ یَمِیْنِہِ وَعَنْ شِمَالِہِ، ثُمَّّ قَالَا لَہُ: اِنَّ نَفَرًا مِنْ بَنِیْ عَمِّنَا نَزَلُوْا أَرْضَکَ وَرَغِبُوا عَنَّا وَعَنْ مِلَّتِنَا، قَالَ: فَأَیْنَ ھُمْ؟ قَالُوْا: ھُمْ فِیْ أَرْضِکَ فابْعَثْ اِلَیْھِمْ، فَبَعَثَ اِلَیْھِمْ، فَقَالَ جَعْفَرٌ: أَنَا خَطِیْبُکُمُ الْیَوْمَ، فَاتَّبَعُوْہُ، فَسَلَّمَ وَلَمْ یَسْجُدْ، فَقَالُوْا لَہُ: مَا لَکَ؟ لَا تَسْجُدُ لِلْمَلِکِ! قَالَ: إِنَّا لَا نَسْجُدُ إِلَّا لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ، قَالَ: وَمَا ذٰلِکَ؟ قَالَ: اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ بَعَثَ اِلَیْنَا رَسُوْلَہُ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَأَمَرَنَا أَنْ لَا نَسْجُدَ لِأَحَدٍ اِلَّا اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ وَأَمَرَناَ بِالصَّلَاۃِ وَالزَّکَاۃِ، قَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ: فَاِنَّھُمْ یُخَالِفُوْنَکَ فِیْ عِیْسَی بْنِ مَرْیَمَ، قَالَ: مَا تَقُوْلُوْنَ فِیْ عِیْسَی بْنِ مَرْیَمَ وَأُمِّہِ؟ قَالُوْا: نَقُوْلُ کَمَا قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ، ھُوَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ وَرُوْحُہُ، اَلْقَاھَا اِلَی الْعَذْرَائِ الْبَتُوْلِ الَّتِیْ لَمْ یَمَسَّھَا بَشَرٌ وَلَمْ یَفْرِضْھَا وَلَدٌ، قَالَ: فَرَفَعَ عُوْدًا مِنَ الْأَرْضِ، ثُمَّّ قَالَ: یَا مَعْشَرَ الْحَبَشَۃِ وَالْقِسِّیْسِیْنَ وَالرُّھْبَانِ، وَاللّٰہِ! مَا یَزِیْدُوْنَ عَلَی الَّذِیْ نَقُوْلُ فِیْہِ مَا یَسْوِیْ ھٰذَا، مَرْحَبًا بِکُمْ وَبِمَنْ جِئْتُمْ مِنْ عِنْدِہِ، اَشْھَدُ اَنَّہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ، فَاِنَّہُ الَّذِیْ نَجِدُ فِی الْاِنْجِیْلِ، وَاِنَّہُ الرَّسُوْلُ الَّذِیْ بَشَّرَ بِہٖعِیْسَی بْنُ مَرْیَمَ، اَنْزِلُوْا حَیْثُ شِئْتُمْ، وَاللّٰہِ! لَوْ لَا مَا أَنَا فِیْہِ مِنَ الْمُلْکِ لَأَتَیْتُہُ حَتَّی أَکُوْنَ أَنَا أَحْمِلُ نَعْلَیْہِ وَأُوَضِّئُہُ، وَأَمَرَ بِھَدِیَّۃِ الْآخَرِیْنَ فَرُدَّتْ اِلَیْھِمَا، ثُمَّّ تَعَجَّلَ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ حَتّٰی أَدْرَکَ بِدْرًا،وَزَعَمَ أَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِسْتَغْفَرَ لَہُ حِیْنَ بَلَغَہُ مَوْتُہُ ۔
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم کو نجاشی کی طرف بھیج دیا، ہم تقریباً اسی افراد تھے، ان میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود، سیدنا جعفر، سیدنا عبد اللہ بن عرفطہ، سیدنا عثمان بن مظعون اور سیدنا ابو موسی شامل تھے، پس یہ لوگ نجاشی کی مملکت میں پہنچ گئے، اُدھر قریش نے عمرو بن عاص اور عمارہ بن ولید کو تحائف کے ساتھ روانہ کر دیا، جب یہ دوافراد نجاشی کے پاس پہنچے تو انھوں نے اس کو سجدہ کیا اور پھر جلدی جلدی ایک اس کی دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب بیٹھ گیا، پھر ان دونوں نے کہا: ہمارے چچے کے بیٹوں کا ایک گروہ آپ کے علاقے میں آیا ہوا ہے، انھوں نے ہم سے اور ہمارے دین سے بے رغبتی اختیار کر رکھی ہے۔ بادشاہ نے کہا: وہ اس وقت کہاں ہیں؟ انھوں نے کہا: وہ آپ کے علاقے میں ہیں، آپ ان کو پیغام بھیجیں، پس اس نے ان کی طرف پیغام بھیجا، سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: آج میں تمہاری طرف سے خطاب کروں گا، سب نے ان کی بات مان لی، پس انھوں نے نجاشی کو سلام کہا اور سجدہ نہیں کیا، لوگوں نے کہا: تجھے کیا ہو گیا ہے، تو بادشاہ کو سجدہ نہیں کر رہا؟ انھوں نے کہا: ہم صرف اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں، اس نے کہا: کیا معاملہ ہے؟ سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا: بیشک اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف اپنا ایک رسول بھیجا ہے اور ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم صرف اللہ تعالیٰ کو سجدہ کریں، نیز ہمیں نماز اور زکوۃ کا بھی حکم دیا ہے، عمرو بن عاص نے کہا: بادشاہ سلامت! یہ لوگ عیسی بن مریم کے معاملے میں آپ کے مخالف ہیں، پس بادشاہ نے کہا: تم لوگ عیسی بن مریم اور ان کی ماں کے بارے میںکیا نظریہ رکھتے ہو؟ صحابہ نے کہا: ہم ان کے بارے میں وہی کچھ کہتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ نے کہا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں، اس نے ان کو کنواری بتول کی طرف ڈالا، جس کنواری کو نہ کسی بشر نے چھوا اور جس پر (عیسی علیہ السلام سے پہلے) کسی بچے کا نشان نہیں تھا۔ یہ تبصرہ سن کر نجاشی نے زمین سے ایک لکڑی اٹھائی اور کہا: اے حبشیو! پادریو اور راہبو! اللہ کی قسم ہے، جو کچھ ہم کہتے ہیں، ان مسلمانوں نے اس سے اس لکڑی کے برابر بھی ہمارے نظریے سے زیادہ بات نہیں کی ہے، اے مسلمانو! خوش آمدید تم کو اور اس کو جس کے پاس سے تم آئے ہو، میں شہادت دیتا ہوں کہ وہ واقعی اللہ کا رسول ہے، بلکہ یہ وہی ہے، جس کا ذکر ہم انجیل میں پاتے ہیں اور یہ وہی رسول ہے کہ جس کی بشارت عیسی بن مریم علیہ السلام نے دی تھی، میرے ملک میں جہاں چاہو، رہ سکتے ہو، اللہ کی قسم! اگر میں اس بادشاہت میں مبتلا نہ ہوتا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جوتے اٹھاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وضو کرواتا، پھر نجاشی نے حکم دیا کہ قریشیوں کے تحائف ان کو واپس کر دیئے جائیں، پھر سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حبشہ سے مدینہ منورہ کی طرف لوٹ آئے اور غزوۂ بدر میں شریک ہوئے، نیز انھوں نے کہا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نجاشی کی وفات کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے لیے بخشش طلب کی۔
حوالاجات
مسند احمد 10539 | 1 |
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
-(7)حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَنْطَلِقَ إِلَی أَرْضِ النَّجَاشِيِّ فَذَکَرَ حَدِيثَهُ قَالَ النَّجَاشِيُّ أَشْهَدُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَّهُ الَّذِي بَشَّرَ بِهِ عِيسَی ابْنُ مَرْيَمَ وَلَوْلَا مَا أَنَا فِيهِ مِنْ الْمُلْکِ لَأَتَيْتُهُ حَتَّی أَحْمِلَ نَعْلَيْهِ
عباد بن موسی، اسماعیل ابن جعفر، اسرائیل، ابواسحاق ، ابوبردہ، حضرت ابوہریرہ کے والد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم کو نجاشی کے ملک میں چلنے جانے کا حکم فرمایا (یعنی جب مکہ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم ہونے لگا تو آپ نے لوگوں کو حبشی کی طرف ہجرت کا حکم فرمایا) پھر اس کا قصہ بیان کرنے ہوئے کہا کہ نجاشی نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور محمد وہ شخص ہیں جن کی بشارت حضرت عیسیٰ علیہ السلام بن مریم علیھما السلام نے دی ہے اگر میں امور سلطنت میں مشغول نہ ہوتا تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور آپ کی جوتیاں اٹھاتا۔
حوالاجات
سنن ابوداؤد ۔ جلد دوم ۔ جنازوں کا بیان ۔ حدیث 1437 | 1 |
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
-(8)حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا قَالَتْ کَانَ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةَ فِي النَّوْمِ فَکَانَ لَا يَرَی رُؤْيَا إِلَّا جَائَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلَائُ فَکَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَائٍ يَتَحَنَّثُ فِيهِ وَهُوَ التَّعَبُّدُ اللَّيَالِيَ أُوْلَاتِ الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَرْجِعَ إِلَی أَهْلِهِ وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِکَ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَی خَدِيجَةَ فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا حَتَّی فَجِئَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَائٍ فَجَائَهُ الْمَلَکُ فَقَالَ اقْرَأْ قَالَ مَا أَنَا بِقَارِئٍ قَالَ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّی بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ قَالَ قُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ قَالَ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّی بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ أَقْرَأْ فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ حَتَّی بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرْجُفُ بَوَادِرُهُ حَتَّی دَخَلَ عَلَی خَدِيجَةَ فَقَالَ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَزَمَّلُوهُ حَتَّی ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ ثُمَّ قَالَ لِخَدِيجَةَ أَيْ خَدِيجَةُ مَا لِي وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ قَالَ لَقَدْ خَشِيتُ عَلَی نَفْسِي قَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ کَلَّا أَبْشِرْ فَوَاللَّهِ لَا يُخْزِيکَ اللَّهُ أَبَدًا وَاللَّهِ إِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَصْدُقُ الْحَدِيثَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَقْرِي الضَّيْفَ وَتُعِينُ عَلَی نَوَائِبِ الْحَقِّ فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّی أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّی وَهُوَ ابْنُ عَمِّ خَدِيجَةَ أَخِي أَبِيهَا وَکَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَکَانَ يَکْتُبُ الْکِتَابَ الْعَرَبِيَّ وَيَکْتُبُ مِنْ الْإِنْجِيلِ بِالْعَرَبِيَّةِ مَا شَائَ اللَّهُ أَنْ يَکْتُبَ وَکَانَ شَيْخًا کَبِيرًا قَدْ عَمِيَ فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ أَيْ عَمِّ اسْمَعْ مِنْ ابْنِ أَخِيکَ قَالَ وَرَقَةُ بْنُ نَوْفَلٍ يَا ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَی فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرَ مَا رَآهُ فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَی مُوسَی صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا يَا لَيْتَنِي أَکُونُ حَيًّا حِينَ يُخْرِجُکَ قَوْمُکَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَ مُخْرِجِيَّ هُمْ قَالَ وَرَقَةُ نَعَمْ لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا عُودِيَ وَإِنْ يُدْرِکْنِي يَوْمُکَ أَنْصُرْکَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا
ابوطاہر، احمد بن عمرو بن عبداللہ بن عمرو بن سرح، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کا آغاز اس طرح سے ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خواب سچے ہونے لگے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو بھی خواب دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح ظاہر ہوتا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تنہائی پسند ہونے لگی، غار حرا میں تنہا تشریف لے جاتے کئی کئی رات گھر میں تشریف نہ لاتے اور عبادت کرتے رہتے (دین ابراہیمی کے مطابق) اپنے ساتھ کھانے پینے کا سامان رکھتے پھر ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس واپس تشریف لاتے، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پھر اسی طرح کھانے پینے کا سامان پکا دیتیں یہاں تک کہ اچانک غار حرا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی اتری فرشتہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آکر کہا پڑھئے! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتہ نے مجھے پکڑ کر اتنا دبایا کہ میں تھک گیا پھر مجھے چھوڑ کر فرمایا پڑھیے! میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتہ نے دوبارہ مجھے پکڑ کر اتنا دبایا کہ میں تھک گیا اس کے بعد مجھے چھوڑ دیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا فرشتہ نے پھر تیسری دفعہ مجھے پکڑ کر اتنا دبایا کہ میں تھک گیا پھر مجھے چھوڑ کر کہا (اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ) پڑھئے اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا انسان کو گوشت کے لوتھڑے سے، پڑھ! تیرا پروردگار بڑی عزت والا ہے جس نے قلم سے سکھایا اور انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس گھر تشریف لائے تو وحی کے جلال سے آپ کے شانہ مبارک اور گردن کے درمیان کا گوشت کانپ رہا تھا، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تشریف لا کر فرمایا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو مجھے کپڑا اوڑھا دو! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کپڑا اوڑھا دیا گیا یہاں تک کہ جب گھبراہٹ ختم ہوگئی تو فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرمانے لگیں کہ ہرگز نہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش رہیں، اللہ کی قسم اللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی رسو انہیں کرے گا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو صلہ رحمی کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں، یتیموں مسکینوں اور کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور ناداروں کو دینے کی خاطر کماتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور پریشان لوگوں کی پریشانی میں لوگوں کے کام آتے ہیں، اس کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزی کے پاس لے گئیں، ورقہ دور جاہلیت میں اسلام سے قبل نصرانی ہوگئے تھے، وہ عربی لکھنا جانتے تھے اور انجیل کو عربی زبان میں جتنا اللہ کو منظور ہوتا لکھتے تھے یہ بہت بوڑھے اور نابینا ہوگئے تھے، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ورقہ سے کہا اے چچا! (ان کی بزرگی کی وجہ سے اس طرح خطاب کیا اصل میں وہ چچا زاد بھائی تھے) اپنے بھتیجے کی بات سنئے ورقہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کرکے کہا اے بھتیجے تم کیا دیکھتے ہو؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کچھ دیکھا تھا اس سے آگاہ کیا، ورقہ کہنے لگا یہ تو وہ ناموس ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا تھا کاش میں اس وقت جوان ہوتا اور اس وقت تک زندہ رہتا جب تیری قوم تجھے نکالے گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا وہ مجھے نکال دیں گے ورقہ نے کہا ہاں جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا نبی بن کر دنیا میں آیا لوگ اس کے دشمن ہو گئے اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو میں تمہاری بھرپور مدد کروں گا۔
حوالاجات
صحیح مسلم ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 403 | 1 |
رسول اللہ ﷺ کا اپنا میلاد منانا
2.2.2
حضور سرورِ کائنات ﷺ خود بھی اپنے یومِ ولادت کی تعظیم فرماتے اور اِس کائنات میں اپنے ظہور وجود پر سپاس گزار ہوتے ہوئے اس کا اِظہار بھی فرمایا۔ آپ ﷺ کا اپنے یوم ولادت کی تعظیم و تکریم فرماتے ہوئے تحدیثِ نعمت کا شکر بجا لانا حکم خداوندی تھا کیوں کہ حضور نبی اکرم ﷺ ہی کے وجودِ مسعود کے تصدق و توسل سے ہر وجود کو سعادت ملی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے یومِ میلاد پر روزہ رکھ کر خود خوشی کا اِظہار فرمایا
(1)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اپنے میلاد کے دن روزہ رکھ کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اِظہارِ تشکر و اِمتنان فرماتے اور صحابہ کرام کو اپنے یومِ میلاد پر اﷲ تعالیٰ کا شکر بجا لانے کی تلقین فرمائی اور ترغیب دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل مبارک درج ذیل روایات سے ثابت ہے :
اِمام مسلم (206- 261ھ) اپنی الصحیح میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم سُئل عن صوم يوم الإثنين؟ قال : ذاک يوم ولدت فيه ويوم بعثت أو أنزل عليّ فيه.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسی روز میری ولادت ہوئی اور اسی روز میری بعثت ہوئی اور اسی روز میرے اوپر قرآن نازل کیا گیا۔‘‘
حوالاجات
مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب استحبابِ صيام ثلٰثة أيام من کل شهر، 2 : 819، رقم : 1162 | 1 |
بيهقي، السنن الکبري، 4 : 286، رقم : 38182 | 2 |
درج ذیل کتب میں ’’انزلت عليّ فیہ النبوۃ (اسی روز مجھے نبوت سے سرفراز کیا گیا)‘‘ کے الفاظ ہیں | |
نسائی، السنن الکبری، 2 : 146، رقم : 2777 | 3 |
أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 296، 297، رقم : 22590، 22594 | 4 |
عبد الرزاق، المصنف، 4 : 296، رقم : 7865 | 5 |
أبويعلي، المسند، 1 : 134، رقم : 144 | 6 |
بيهقي، السنن الکبري، 4 : 300، رقم : 8259 | 7 |
پیر کے دن کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کا دن ہے۔ بنا بریں یہ دن شرعی طور پر خصوصی اَہمیت و فضیلت اور معنویت کا حامل ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود روزہ رکھ کر اس دن اظہارِ تشکر فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل امت کے لیے اِظہارِ مسرت کی سنت کا درجہ رکھتا ہے۔ آج بھی حرمین شریفین میں بالخصوص اور دنیا بھر میں بالعموم اہلِ محبت پیر کے دن روزہ رکھنے کی سنت پر باقاعدگی سے عمل کرتے ہیں۔
اِسلام میں ولادت کے دن کو خاص اَہمیت حاصل ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ اسلام میں یومِ ولادت کا کوئی تصور نہیں، انہیں علمِ شریعت سے صحیح آگہی نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان . کہ ’’یہ میری ولادت کا دن ہے‘‘. اِسلام میں یوم ولادت کے تصور کی نشان دہی کرتا ہے۔ قرآنِ حکیم انبیاء علیھم السلام کے ایامِ میلاد بیان کرتا ہے۔ اِس کی تفصیل گزشتہ اَبواب میں بیان ہوچکی ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اپنے پیغمبر کے یوم ولادت کی کیا قدر و منزلت ہے۔ اگر اِس تناظر میں دیکھا جائے تو یومِ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام و مرتبہ سب سے اَرفع و اَعلیٰ ہے۔ یہ دن منانے کے مختلف طریقے ہیں جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں۔ جیسے مذکورہ بالا حدیث سے عبادات کی ایک قسم روزہ رکھنا ثابت ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کے حصول کے لیے صدقہ و خیرات کرنا، کھانا کھلانا، شکر بجا لانا اور خوشی منانا میلاد منانے کی مختلف صورتیں ہیں۔ ہم گزشتہ باب میں شکر بجا لانے کی مختلف صورتوں کے ذیل میں اس پر بیان کر چکے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنا میلاد بکرے ذبح کر کے منایا
(2)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنا میلاد منایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا شکر بجالاتے ہوئے اپنی ولادت کی خوشی میں بکرے ذبح کیے اور ضیافت کا اہتمام فرمایا۔
1۔ بیہقی (384۔ 458ھ) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
إن النبي صلي الله عليه وآله وسلم عقّ عن نفسه بعد النبوة.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِعلانِ نبوت کے بعد اپنا عقیقہ کیا۔‘‘
حوالاجات
بيهقي، السنن الکبري، 9 : 300، رقم : 43 | 1 |
مقدسي، الأحاديث المختارة، 5 : 205، رقم : 1833 | 2 |
نووي، تهذيب الأسماء واللغات، 2 : 557، رقم : 962 | 3 |
عسقلاني، فتح الباري، 9 : 595 | 4 |
عسقلاني، تهذيب التهذيب، 5 : 340، رقم : 661 | 5 |
مزي، تهذيب الکمال في أسماء الرجال، 16 : 32، رقم : 3523 | 6 |
2۔ ضیاء مقدسی (569۔ 643ھ) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم عق عن نفسه بعد ما بُعِثَ نببًاَ
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعد اَز بعثت اپنا عقیقہ کیا۔‘‘
حوالاجات
مقدسي، الأحاديث المختارة، 5 : 205، رقم : 1832 | 1 |
طبراني، المعجم الأوسط، 1 : 298، رقم : 994 | 2 |
روياني، مسند الصحابة، 2 : 386، رقم : 1371 | 3 |
3۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
لمّا ولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم عقّ عنه عبد المطلب بکبش.
’’جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی تو حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے آپ کی طرف سے ایک مینڈھے کا عقیقہ کیا۔‘‘
حوالاجات
ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 3 : 32 | 1 |
حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 1 : 128 | 2 |
سيوطي، کفاية الطالب اللبيب في خصائص الحبيب، 1 : 134 | 3 |
4۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما ہی سے روایت ہے :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
أن عبد المطلب جعل له مأدبة يوم سابعة.
’’بے شک حضرت عبد المطلب نے ساتویں روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کے عقیقہ) کی دعوت کی۔‘‘
حوالاجات
ابن عبد البر، التمهيد لما في الموطا من المعاني والأسانيد، 21 : 61 | 1 |
ابن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 1 : 51 | 2 |
ابن حبان، الثقات، 1 : 42 | 3 |
قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 2 : 100 | 4 |
ابن قيم، زاد المعاد في هدي خير العباد، 1 : 81 | 5 |
اِس میں تو اَئمہ کا اختلاف ہی نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عقیقہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے ساتویں دن کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چالیس سال تک اپنا عقیقہ کیسے مؤخر کر سکتے تھے، کیوں کہ حدیث مبارکہ کی رُو سے جب تک عقیقہ نہ کر دیا جائے بچہ گروی رہتا ہے۔ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
الغلام مُرْتَهَنٌ بعقيقته يُذبَحُ عنه يوم السابع.
’’بچہ اپنے عقیقہ کے باعث گروی رہتا ہے، اس کی طرف سے ساتویں دن ذبح کیا جائے۔‘‘
حوالاجات
ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 101، کتاب الأضاحي، باب من العقيقة، رقم : 1522 | 1 |
أبوداؤد، السنن، 3 : 106، کتاب الضحايا، باب في العقيقة، رقم : 2837 | 2 |
ابن ماجه، السنن، 2 : 1056، کتاب الذبائح، باب العقيقة، رقم : 3165 | 3 |
سوال پیدا ہوتا ہے کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بعثتِ مبارکہ کے بعد کون سا عقیقہ کیا تھا؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعثت کے بعد اپنی ولادت اور میلاد کی خوشی و مسرت اور شکرانے میں بکرے ذبح کیے اور اِہتمامِ ضیافت کیا تھا کیونکہ عقیقہ دو (2) بار نہیں ہوتا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ صرف عقیقہ ہی تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اعلانِ نبوت کے بعد کیا۔ اگر ہم اسے عقیقہ ہی تصور کریں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ’’عقیقہ‘‘ کیا ہے؟ عقیقہ فی نفسہ ولادت پر اِظہار تشکر و اِمتنان ہے۔ اسے ولادت کی خوشی کی تقریب کہہ لیں یا تقریبِ میلاد، مفہوم ایک ہی ہے کہ ولادت کے موقع پر خوشی منائی جاتی ہے۔
اِمام جلال الدین سیوطی (849۔ 911ھ) نے اپنی کتاب ’’حسن المقصد فی عمل المولد (ص : 64، 65)‘‘ میں حافظ ابن حجر عسقلانی (773. 852ھ) کے دلائل کی تائید میں ایک اور استدلال پیش کیا ہے جو جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
وظهر لي تخريجه علي أصلٍ آخر، وهو ما أخرجه البيهقي، عن أنس رضي الله عنه أن النبي عق عن نفسه بعد النبوة. مع أنه قد ورد أن جده عبد المطلب عق عنه في سابع ولادته، والعقيقة لا تعاد مرة ثانية، فيحمل ذلک علي أن الذي فعله النبي صلي الله عليه وآله وسلم إظهارًا للشکر علي إيجاد اﷲ تعالي إياه، رحمة للعالمين وتشريفًا لأمته، کما کان يصلي علي نفسه، لذلک فيستحب لنا أيضًا إظهار الشکر بمولده باجتماع الإخوان، وإطعام الطعام، ونحو ذلک من وجوه القربات، وإظهار المسرات.
’’یوم میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کے حوالہ سے ایک اور دلیل مجھ پر ظاہر ہوئی ہے۔ وہ ہے جو امام بیہقی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِعلانِ نبوت کے بعدخود اپنا عقیقہ کیا باوُجود اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا عبد المطلب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کے ساتویں روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عقیقہ کر چکے تھے۔ اورعقیقہ دو (2) بار نہیں کیا جاتا۔ پس یہ واقعہ اِسی پر محمول کیا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آپ کو اﷲ کی طرف سے رحمۃً للعالمین اور اپنی اُمت کے مشرف ہونے کی وجہ سے اپنی ولادت کی خوشی کے اظہار کے لیے خود عقیقہ کیا۔ اسی طرح ہمارے لیے مستحب ہے کہ ہم بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یومِ ولادت پر خوشی کا اِظہار کریں اور کھانا کھلائیں اور دیگر عبادات بجا لائیں اور خوشی کا اظہار کریں۔‘‘
حوالاجات
سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 64، 65 | 1 |
سيوطي، الحاوي للفتاوي : 206 | 2 |
صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 367 | 3 |
زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 263، 264 | 4 |
نبهاني، حجة اﷲ علي العٰلمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 237 | 5 |
اِمام سیوطی خود ہی سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا وہ حقیقتاً ایک عقیقہ ہی تھا، اور پھر خود ہی جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دراصل وہ عقیقہ نہیں تھا۔ اگرچہ ’’عق عن نفسہ‘‘ کے الفاظ جو ولادت کی خوشی میں شکرانے کے طور پر جانور کی قربانی دینے سے عبارت ہیں۔ تکنیکی اِعتبار سے عقیقہ کے آئینہ دار ہیں تاہم وہ معروف معنوں میں روایتی طور پر عقیقہ نہیں تھا کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عقیقہ آپ کے دادا حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ آپ کی ولادت کے ایک ہفتہ بعد ہی کر چکے تھے۔ پھر امام سیوطی اپنا شرعی موقف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عقیقہ زندگی میں صرف ایک بار ہوتا ہے اور اسے دہرایا نہیں جاتا۔
اگر کوئی کہے کہ ٹھیک ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عقیقہ آپ کے دادا حضرت عبد المطلب کر چکے تھے لیکن عقیقہ کی وہ رسم دورِ جاہلیت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ سے پہلے ادا کی گئی تھی اس لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عقیقہ کا اِعادہ مناسب خیال کیا ہوگا۔ یہ سوچ جاہلانہ ہے۔ اگر دورِ جاہلیت سے متعلق اس نقطہ نظر کو درست مان لیا جائے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بعثت کے بعد اُم المومنین حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا سے اپنے نکاح کی بھی تجدید کرنی چاہیے تھی۔ عقیقہ تو محض ایک صدقہ ہے جب کہ نکاح عقدِ ازدواج ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح پر مہر کی ادائیگی بھی حضرت ابو طالب نے اپنی جیب سے کی تھی۔ اگر یہ بات درست ہوتی تو نکاح اور مہر کا اعادہ بھی ہونا چاہئے تھا۔ اِس لیے یہ نقطہ نظر درست نہیں کیوں کہ شریعتِ مطہرہ نے دورِ جاہلیت میں کیے گئے جائز کاموں کو سندِ قبولیت عطا کی ہے اور شرعی اَحکام نزولِ وحی کے بعد نافذ کیے گئے۔ جیسے ’’اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ (سوائے اس کے کہ جو دورِ جہالت میں گزر چکا)‘‘(1) کے تحت تو قبولِ اسلام کے بعد دورِ جاہلیت کے تمام گناہ بھی معاف ہوتے ہیں، ہر ہر گناہ کی الگ الگ توبہ درکار نہیں ہوتی، چہ جائے کہ اُمورِ صالحہ اور اُمورِ مستحسنہ، نکاح، عقیقہ، معاہدے اور ایسے تمام اُمورِ خیر برقرار رہتے ہیں۔ اس لیے امام سیوطی فرماتے ہیں کہ دوبارہ عقیقہ کرنے کی کوئی ضرورت تھی نہ کوئی شرعی تقاضا تھا۔ پس اس پوری تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعثت کے بعد خود اپنا میلاد مناتے ہوئے بکرے ذبح کیے۔
“الیوم اکملت لکم دینکم” کا یومِ نزولِ عید کے طور پر منانا
(3)
جب سورۃ المائدہ کی تیسری آیت. (الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ)۔ نازل ہوئی تو یہودی اِسے عام طور پر زیرِبحث لاتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ مکالمہ کرتے تھے۔ درج ذیل حدیث میں اسی حوالہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ایک یہودی کا مکالمہ بیان کیا گیا ہے اور اِس سے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دن بہ طورِ عید منانے پر اِستشہاد کیا گیا ہے :
1۔ اِمام بخاری (194۔ 256ھ) الصحیح میں روایت کرتے ہیں :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه : إن رجلا من اليهود قال له : يا أمير المومنين! آية في کتابکم تقرؤونها، لو علينا معشر اليهود نزلت، لاتّخذنا ذلک اليوم عيدًا، قال : أي آية؟ قال : (اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِيْناً) قال عمر : قد عرفنا ذلک اليوم، والمکان الذي نزلت فيه علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، وهو قائم بعرفة يوم جمعة.
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : ایک یہودی نے اُن سے کہا : اے امیر المومنین! آپ اپنی کتاب میں ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں کہ اگر وہ آیت ہم گروہِ یہود پر اُترتی تو ہم اس کے نزول کا دن عید بنا لیتے۔ آپ نے پوچھا : کون سی آیت؟ اس نے کہا : (آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بہ طورِ) دین پسند کر لیا)۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جس دن اور جس جگہ یہ آیت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی ہم اس کو پہچانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس وقت جمعہ کے دن عرفات کے مقام پر کھڑے تھے۔‘‘
حوالاجات
بخاري، الصحيح، کتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان ونقصانه، 1 : 25، رقم : 45 | 1 |
بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب حجة الوداع، 4 : 1600، رقم : 4145 | 2 |
بخاري، الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب قوله : اليوم أکملت لکم دينکم، 4 : 1683، رقم : 4330 | 3 |
بخاري، الصحيح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، 6 : 2653، رقم : 6840 | 4 |
مسلم، الصحيح، کتاب التفسير، 4 : 2313، رقم : 3017 | 5 |
ترمذي، الجامع الصحيح، أبواب تفسير القرآن، باب من سورة المائدة، 5 : 250، رقم : 3043 | 6 |
نسائي، السنن، کتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان، 8 : 114، رقم : 5012 | 7 |
اِس حدیث میں قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ یہودی نے سوال کیا کہ اگر تکمیلِ دین کی یہ آیت ہم پر اترتی تو ہم اس کے نزول کا دن عید کے طور پر مناتے، آپ ایسا کیوں نہیں کرتے؟ اُنہیں مغالطہ تھا کہ شاید مسلمان اِسے عام دن کے طور پر ہی لیتے ہیں۔ یہاں جواب بھی اسی نوعیت کا ہونا چاہیے تھا، مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے :
قد عرفنا ذلک اليوم، والمکان الذي نزلت فيه.
’’ہم اُس دن اور مقام کو خوب پہچانتے ہیں جہاں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔‘‘
وہ دن جمعہ اور حج کا تھا اور وہ جگہ جہاں آیت کا نزول ہوا عرفات کا میدان تھا۔ ظاہراً سوال اور جواب کے مابین کوئی ربط اور مطابقت دکھائی نہیں دیتی لیکن درحقیقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جواب سوال کے عین مطابق ہے۔ آپ نے عرفہ اور یوم الجمعہ کے الفاظ سے ہی اس کا مکمل جواب دے دیا اور اشارۃً بتا دیا کہ یومِ حج اور یوم جمعہ دونوں ہمارے ہاں عید کے دن ہیں۔ ہم انہیں سالانہ اور ہفتہ وار عید کے طور پر مناتے ہیں۔ پس یہودی کا اس جواب سے خاموش رہنا اور دوبارہ سوال نہ کرنا بھی اس اَمر پر دلالت کرتا ہے کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وضاحت کے بعد لاجواب ہو کر رہ گیا تھا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جواب کو مکمل وضاحت قرار دیتے ہوئے حافظ ابنِ حجر عسقلانی (773- 852ھ) تبصرہ کرتے ہیں :
عندي أن هذه الرواية اکتفي فيها بالإشارة.
’’میرے نزدیک اس روایت میں اِشارہ کرنے پر ہی اِکتفا کیا گیا ہے۔‘‘
حوالاجات
عسقلاني، فتح الباري، 1 : 105، رقم : 45 | 1 |
2۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جواب کی تصریح حضرت کعب اَحبار رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی ہوتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں ایسی قوم کو جانتا ہوں کہ اگر ان پر یہ آیت نازل ہوتی تو وہ اسے عید کے طور پر مناتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کون سی آیت ؟ میں نے کہا :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنا.
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اِسلام کو (بہ طور) دین پسند کر لیا۔‘‘
المائدة، 5 : 3
اِس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
إني لأعرف في أي يوم أنزلت : (اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ)، يوم جمعة ويوم عرفة، وهما لنا عيدان.
’’میں پہچانتاہوں کہ کس دن الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ نازل ہوئی : جمعہ اور عرفات کے دن، اور وہ دونوں دن (پہلے سے) ہی ہمارے عید کے دن ہیں۔‘‘
حوالاجات
طبراني، المعجم الأوسط، 1 : 253، رقم : 830 | 1 |
عسقلاني، فتح الباري، 1 : 105، رقم : 45 | 2 |
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 14 | 3 |
مذکورہ بالا روایات ثابت کرتی ہیں کہ یہودی کا نظریہ درست تھا۔ اِسی لیے اُس کی توثیق کی گئی ورنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اُسی وقت اس کی تردید کر دیتے اور فرماتے کہ شریعت نے ہمارے لیے عید کے دن مقرر کر کھے ہیں، لہٰذا ہم اس دن کو بہ طورِ عید نہیں منا سکتے۔ بہ اَلفاظِ دیگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہودی کو باور کرایا کہ اگر یہ دن تمہارے نصیب میں ہوتا تو تم اس دن ایک عید مناتے مگر ہم تو یومِ عرفہ اور یومِ جمعہ دو عیدیں مناتے ہیں۔
3. اس معنی کی تائید کتب حدیث میں مذکور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما کے اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے جسے حضرت عمار بن اَبی عمار رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے آیت۔ (الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلاَمَ دِينًا)۔ تلاوت کی تو آپ کے پاس ایک یہودی کھڑا تھا۔ اس نے کہا :
لو أنزلت هذه علينا لاتّخذنا يومها عيدًا.
’’اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس کے نزول کا دن عید کے طور پر مناتے۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا :
فإنها نزلت في يوم عيدين : في يوم الجمعة ويوم عرفة.
’’بے شک یہ آیت دو عیدوں یعنی جمعہ اور عرفہ (حج) کے دن نازل ہوئی۔‘‘
حوالاجات
ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب من سورة المائدة، 5 : 250، رقم : 3044 | 1 |
طبراني، المعجم الکبير، 12 : 184، رقم : 12835 | 2 |
طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 6 : 82 | 3 |
مروزي، تعظيم قدر الصلاة، 1 : 352، رقم : 354 | 4 |
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 14 | 5 |
ابن موسي حنفي، معتصر المختصر، 2 : 169 | 6 |
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنھما نے یہودی کا قول ردّ نہیں کیا بلکہ اس کی تائید کرتے ہوئے فرمایا کہ اس آیت کا نزول جمعہ اور عرفہ (حج) کے دن ہوا جنہیں مسلمان پہلے ہی عیدوں کے طور پر مناتے ہیں۔
اِن اَحادیث سے اِس اَمر کی تائید ہوتی ہے کہ نزولِ نعمت کے دن کو بطور عید منانا جائز ہے۔ جس طرح تکمیلِ دین کی آیت کا یومِ نزول روزِ عید ٹھہرا، اسی طرح وہ دن جب حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود دنیا میں تشریف لائے اور جن کے صدقے ہمیں صرف یہ آیت نہیں بلکہ مکمل قرآن جیسی نعمت عطا ہوئی اس دن کو بطور عید کیوں نہیں منایا جا سکتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عید میلاد منانا اَصل حلاوتِ ایمان ہے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ حبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایمان کی بنیاد تسلیم کیا جائے ورنہ یہ حقیقت سمجھ میں نہیں آسکتی۔ وہ ذات اقدس جن کے صدقے تمام عالم کو عیدیں نصیب ہوئیں، ان کا جشنِ میلاد منانے کے لیے دل میں گنجائش نہ ہونا کون سی کیفیتِ ایمان کی نشان دہی کرتا ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہونے والی سورۃ المائدۃ کی یہ آیت بہت بڑی خوش خبری اور بشارت کی آئینہ دار تھی۔ جس دن اس آیت کا نزول ہوا وہ دن عید الجمعہ اور عید الحج کی خوشیاں لے کر طلوع ہوا۔ لہٰذا اہلِ ایمان کے لیے یہ نکتہ سمجھ لینا کچھ مشکل نہیں کہ جس مبارک دن نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ ہوئی وہ سب عیدوں سے بڑی عید کا دن ہے۔ جمہور اہلِ اِسلام محافلِ میلاد کے ذریعے اپنی دلی مسرت کا اظہار اور بارگاہ ایزدی میں اس نعمتِ اَبدی کے حصول پر ہدیۂ شکر بجا لاتے ہیں۔ اس دن اظہارِ مسرت و انبساط عینِ ایمان ہے۔ جمہور اُمتِ مسلمہ مداومت سے اس معمول پر عمل پیرا ہے اور رسول محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یومِ ولادت ’’12 ربیع الاول‘‘ ہر سال بڑے تزک و احتشام سے عید کے طور پر مناتی ہے۔
بعض لوگ اِعتراض کرتے ہیں کہ عید الفطر اور عید الاضحی کے سوا کسی دن کے لیے عید کا لفظ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ہم یہی سوال حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنھما کی طرف لے جاتے ہیں کہ کیا عید الفطر اور عید الاضحی کے سوا کسی دن کے لیے عید کا لفظ استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں؟ ان کی طرف سے جواب آتا ہے :
فإنها نزلت في يوم عيدين : في يوم الجمعة ويوم عرفة.
’’بے شک یہ آیت دو عیدوں یعنی جمعہ اور عرفہ (حج) کے دن نازل ہوئی۔‘‘
اِس جواب پر یہ اعتراض بھی کیا جا سکتا ہے کہ یومِ عرفہ تو عید الاضحی کا دن ہے۔ ہمارا جواب یہ ہے کہ حضرت عمر اور حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنھم نے یوم جمعہ کو بھی یومِ عید قرار دیا ہے۔ اور اگر ان اَجل صحابہ کے قول کے مطابق جمعہ کا دن عید ہو سکتا ہے تو پھر میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دن عید کیوں نہیں ہو سکتا؟ بلکہ وہ تو عید الاعیاد (عیدوں کی عید) ہے کہ اُن صاحبِ لولاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقہ اور وسیلہ سے پوری نسلِ اِنسانی کو قرآن حکیم جیسے بے مثل صحیفۂ آسمانی اور ہدایتِ ربانی سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔
فضیلتِ جمعہ کا سبب یومِ تخلیقِ آدم علیہ السلام ہے
(4)
جمعہ کے دن کی خاص اَہمیت اور فضیلت کی بناء پر اسے سید الایام کہا گیا ہے۔ اس دن غسل کرنا، صاف ستھرے یا نئے کپڑے پہننا، خوشبو لگانا اور کاروبارِ زندگی چھوڑتے ہوئے مسجد میں اِجتماع عام میں شریک ہونا اُمورِ مسنونہ ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دن زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھنے کا بھی حکم دیا ہے۔
حضرت اَوس بن اَوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
إن من أفضل أيامکم يوم الجمعة، فيه خلق آدم، وفيه قبض، وفيه النفخة، وفيه الصعقة، فأکثروا عليّ من الصلاة فيه، فإن صلاتکم معروضة علي.
’’تمہارے دنوں ميں سب سے افضل دن جمعہ کا ہے، اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی ولادت ہوئی (یعنی اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت ہوئی اور آپ کو لباسِ بشریت سے سرفراز کیا گیا)، اس روز اُن کی روح قبض کی گئی، اور اِسی روز صور پھونکا جائے گا۔ پس اس روز کثرت سے مجھ پر درود شریف بھیجا کرو، بے شک تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔‘‘
حوالاجات
أبو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب تفريع أبواب الجمعة وفضل يوم الجمعة وليلة الجمعة، 1 : 275، رقم : 1047 | 1 |
أبو داؤد، السنن، أبواب الوتر، باب في الاستغفار، 2 : 88، رقم : 1531 | 2 |
ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب في فضل الجمعة، 1 : 345، رقم : 1085 | 3 |
نسائي، السنن، کتاب الجمعة، باب إکثار الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم يوم الجمعة، 3 : 91، رقم : 1375 | 4 |
نسائي، السنن الکبري، باب الأمر بإکثار الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم يوم الجمعة، 1 : 519، رقم : 1666 | 5 |
دارمي، السنن، 1 : 445، رقم : 1572 | 6 |
ابن ابي شيبة، المصنف، 2 : 253، رقم : 8697 | 7 |
طبراني، المعجم الکبير، 1 : 216، رقم : 589 | 8 |
بيهقي، السنن الکبري، 3 : 248، رقم : 5789 | 9 |
بيهقي، السنن الصغري، 1 : 372، رقم : 634 | 10 |
هيثمي، موارد الظمان إلي زوائد ابن حبان، 1 : 146، رقم : 550 | 11 |
جمعۃ المبارک عید کا دن ہے، اِس پر کبار محدثین کرام نے اپنی کتب میں درج ذیل احادیث بیان کی ہیں :
1۔ اِبن ماجہ (209۔ 273ھ) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
إن هذا يوم عيد، جعله اﷲ للمسلمين، فمن جاء إلي الجمعة فليغتسل، وإن کان طيب فليمس منه، وعليکم بالسواک.
’’بے شک یہ عید کا دن ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے بنایا ہے۔ پس جو کوئی جمعہ کی نماز کے لیے آئے تو غسل کر کے آئے، اور اگر ہوسکے تو خوشبو لگا کر آئے۔ اور تم پر مسواک کرنا لازمی ہے۔‘‘
حوالاجات
ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلٰوة، باب في الزينة يوم الجمعة، 1 : 349، رقم : 1098 | 1 |
طبراني، المعجم الأوسط، 7 : 230، رقم : 7355 | 2 |
منذري، الترغيب والترهيب من الحديث الشريف، 1 : 286، رقم : 1058 | 3 |
2۔ احمد بن حنبل (164۔ 241ھ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
إن يوم الجمعة يوم عيد، فلا تجعلوا يوم عيدکم يوم صيامکم إلا أن تصوموا قبله أو بعده.
’’بے شک یومِ جمعہ عید کا دن ہے، پس تم اپنے عید کے دن کو یومِ صیام (روزوں کا دن) مت بناؤ مگر یہ کہ تم اس سے قبل (جمعرات) یا اس کے بعد (ہفتہ) کے دن کا روزہ رکھو (پھر جمعہ کے دن روزہ رکھنے کی اجازت ہے ورنہ نہیں)۔‘‘
حوالاجات
أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 303، 532، رقم : 8012، 10903 | 1 |
ابن خزيمه، الصحيح، 3 : 315، 318، رقم : 2161، 2166 | 2 |
ابن راهويه، المسند، 1 : 451، رقم : 524 | 3 |
حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 1 : 603، رقم : 1595 | 4 |
4. اِبن حبان (270۔ 354ھ) روایت کرتے ہیں کہ ابو اوبر بیان کرتے ہیں :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
کنت قاعدًا عند أبي هريرة إذ جاء ه رجل فقال : إنک نهيت الناس عن صيام يوم الجمعة؟ قال : ما نهيت الناس أن يصوموا يوم الجمعة، ولکني سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : لاتصوموا يوم الجمعة، فإنه يوم عيد إلا أن تصلوه بأيام.
’’میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص نے اُن کے پاس آ کر کہا : آپ نے لوگوں کو جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے؟ آپ نے فرمایا : میں نے لوگوں کو جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے نہیں روکا بلکہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : تم جمعہ کے دن روزہ نہ رکھو کیوں کہ یہ عید کا دن ہے، سوائے اس کے کہ تم اس کو اور دنوں کے ساتھ ملا کر (روزہ) رکھو۔‘‘
حوالاجات
ابن حبان، الصحيح، 8 : 375، رقم : 3610 | 1 |
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ فضیلتِ جمعہ کا سبب کیا ہے اور اسے کس لیے سب دنوں کا سردار اور یومِ عید قرار دیا گیا؟ اس سوال کا جواب گزشتہ صفحات میں بیان کی گئی حدیث مبارکہ میں موجود ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دن کی فضیلت کا سبب بیان کرتے ہوئے فرمایا :
فيه خلق آدم.
’’(یوم جمعہ) آدم کے میلاد کا دن ہے۔‘‘
جمعہ کے دن ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی جس کی بناء پر اِسے یوم عید کہا گیا ہے اور اس دن کی تکریم کی جاتی ہے۔ اگر یوم الجمعہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کے باعث عزت و اِحترام کے ساتھ منائے جانے کا حق دار ہو سکتا ہے تو یومِ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کی بناء پر عید الاعیاد (تمام عیدوں کی عید) کے طور پر اسلامی کیلنڈر کی زینت کیوں نہیں بن سکتا۔ اب کوئی کہے کے میلادِ آدم علیہ السلام کی تقریب کا اہتمام اس لیے کیا گیا کہ ان کی تخلیق معروف طریقے سے عمل میں نہیں آئی۔ لیکن اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیوں کہ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق جمعہ کے دن ہوئی۔ لہذا یوم الجمعہ کو یوم العید بنا دیا گیا کہ یہ بنی نوع انسان کے جد اَمجد اور پہلے نبی کا یومِ تخلیق ہے۔ اِسی بناء پر وجہ تخلیقِ کائنات اور تمام انبیاء کے سردار سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یومِ ولادت تمام عیدوں کی عید ہے۔
روزِ جمعہ کا اِہتمام برائے محفلِ درود و سلام
(5)
جمعۃ المبارک کے سلسلہ میں کیے جانے والے تمام تر اِنتظامات وہ ہیں جو میلاد کے حوالہ سے بھی کیے جاتے ہیں، مثلاً غسل کرنا، خوشبو لگانا، ایک جگہ جمع ہونا، کاروبار ترک کرنا اور مسجد میں حاضری دینا۔ ان کے علاوہ بھی بعض امور کا تذکرہ کتب حدیث میں موجود ہے۔ جمعہ کے دن یہ سارا اہتمام درحقیقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر زیادہ سے زیادہ درود و سلام بھیجنے کے حوالہ سے ہے اور اس دن کو کثرتِ درود و سلام کے لیے اس لیے چنا گیا کہ یہ حضرت آدم علیہ السلام کا یومِ میلاد ہے۔ جیسا کہ گزشتہ صفحات میں بیان کیا گیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادگرامی ہے :
فأکثروا عليّ من الصلاة فيه.
’’پس اس روز کثرت سے مجھ پر درود شریف بھیجا کرو۔‘‘
اِس دن عاشقانِ رسول درود شریف کا اِجتماعی ورد کرتے ہیں اور اس دن محفل میلاد اور محفلِ صلوٰۃ و سلام کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے۔ سو یہ دن جہاں ایک طرف میلادِ سیدنا آدم علیہ السلام کے لیے خاص ہے تو دوسری طرف درود و سلام کے ذکر کی نسبت سے میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بھی ہے۔ اس طرح بہ یک وقت یہ دن جدماجد اور فرزند اَمجد دونوں کے لیے اِظہارِ مسرت کا مژدہ بردار بن گیاہے۔
حدیث مبارکہ میں یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
يا رسول اﷲ! وَکيف تعرض صلاتنا عليک وقد أرمت؟
’’یا رسول اللہ! ہمارا درود آپ کے وصال کے بعد کیسے آپ پر پیش کیا جائے گا؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إن اﷲ عزوجل حرّم علي الأرض أن تأکل أجساد الأنبياء.
’’بے شک اللہ عزوجل نے زمین پر حرام قرار دیا ہے کہ وہ انبیاء کرام کے جسموں کو کھائے۔‘‘
حوالاجات
أبو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب تفريع أبواب الجمعة وفضل يوم الجمعة وليلة الجمعة، 1 : 275، رقم : 1047 | 1 |
أبو داؤد، السنن، أبواب الوتر، باب في الاستغفار، 2 : 88، رقم : 1531 | 2 |
ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب في فضل الجمعة، 1 : 345، رقم : 1085 | 3 |
نسائي، السنن، کتاب الجمعة، باب إکثار الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم يوم الجمعة، 3 : 91، رقم : 1375 | 4 |
نسائي، السنن الکبري، باب الأمر بإکثار الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم يوم الجمعة، 1 : 519، رقم : 1666 | 5 |
دارمي، السنن، 1 : 445، رقم : 1572 | 6 |
ابن ابي شيبة، المصنف، 2 : 253، رقم : 8697 | 7 |
طبراني، المعجم الکبير، 1 : 216، رقم : 589 | 8 |
بيهقي، السنن الکبري، 3 : 248، رقم : 5789 | 9 |
بيهقي، السنن الصغري، 1 : 372، رقم : 634 | 10 |
هيثمي، موارد الظمآن إلي زوائد ابن حبان، 1 : 146، رقم : 550 | 11 |
اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ میں اِس دنیا سے ظاہری پردہ فرمانے کے بعد بھی اپنے جسم کے ساتھ زندہ رہوں گا، اور تمہیں چاہیے کہ مجھ پر جمعہ کے دن کثرت کے ساتھ درود و سلام پڑھنا اپنا معمول بنا لو۔
مقامِ میلادِ عیسیٰ علیہ السلام کی زیارت و اَہمیت
(6)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سفرِ معراج بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام نے بیت اللحم کے مقام پر مجھ سے کہا : آپ براق سے اتریے اور نماز پڑھیے۔ میں نے اتر کر نماز ادا کی۔ پس اس نے کہا :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
أتدري أين صليت؟ صليت ببيت لحم حيث ولد عيسي عليه السلام.
’’ کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز ادا کی ہے؟ آپ نے بیت اللحم میں نماز ادا کی ہے جہاں عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی تھی۔‘‘
حوالاجات
نسائي، السنن، کتاب الصلاة، باب فرض الصلاة، 1 : 222، رقم : 450 | 1 |
طبراني، مسند الشاميين، 1 : 194، رقم : 341 | 2 |
درج ذیل کتب میں یہ حدیث حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے | |
بزار، البحر الزخار (المسند)، 8 : 410، رقم : 3484 | 3 |
طبراني، المعجم الکبير، 7 : 283، رقم : 7142 | 4 |
هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 1 : 73 | 5 |
عسقلاني، فتح الباري، 7 : 199 | 6 |
اِس حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جس طرح جمعہ کو فضیلت اور تکریم حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کی وجہ سے ملی۔ جو کہ تعظیمِ زمانی ہے۔ اِسی طرح بیت اللحم کو مولدِ عیسیٰ علیہ السلام ہونے کی وجہ سے تعظیمِ مکانی کا شرف حاصل ہوا۔ اِسی وجہ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہاں نماز ادا کرنے کی گزارش کی گئی۔ اِس حدیث شریف سے نبی کی جائے ولادت کی اَہمیت اور تعظیم ثابت ہوتی ہے۔ اِسی لیے عاشقانِ رسول مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (وہ مکان جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی) کی تعظیم اور زیارت کرتے ہیں۔ اہلِ مکہ کا ایک عرصہ تک معمول رہا ہے کہ وہ اِس مکان سے جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جلوس نکالا کرتے تھے۔ مزید برآں اگر نبی کی ولادت کسی مکان کو متبرک اور یادگار بنا دیتی ہے اور یہ براہِ راست حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے تو وہ دن اور لمحہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی واجب التعظیم، یادگار اور یومِ عید کیوں نہ ہوگا۔
وِلادت کی خوشی میں کعبہ پر جَھنڈا
(7)
عید میلاد النبیﷺ کے موقع پر جھنڈے لگانا ملائکہ (فرشتوں) کا طریقہ ہے۔ عید میلاد النبیﷺ پر جھنڈے لگانے کی اصل دلیل سیدتنا آمنہ رضی اﷲ عنہا کی روایت ہے جس کو محدث جلیل امام جلال الدین عبد الرحمن بن ابو بکر سیوطی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (متوفی:911ھ ) نے الخصائص الکبری میں ، اور شارح بخاری امام احمد بن محمد قسطلانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (متوفی:923ھ ) نے المواہب اللدنیہ میں درج فرمایا ہے۔
فکانت آمنۃ تحدث عن نفسہا وتقول ۔۔۔ ورأیت ثلاثۃ أعلام مضروبات علما فی المشرق وعلما فی المغرب وعلما علی ظہر الکعبۃ-
ترجمہ:سیدہ آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ولادت باسعادت کے وقت تین جھنڈے نصب کے گئے(1) ایک مشرق میں(2) دوسرا مغرب میں(3) اور تیسرا خانۂ کعبہ پر-
(الخصائص الکبری ، باب اخبار الکہان بہ قبل مبعثہ ،ج1،ص57-۔المواہب اللدنیہ،ج1،ص:125)
معلوم ہوا کہ بارہ ربیع الاول کے روز جھنڈے کا انتظام اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے ہوا تھا اور یہ بھی ذہن نشین رہے کہ ہجرت کے موقع پر شان نبویﷺ کی انفرادیت اور امتیازی فضیلت کے اظہار کے لئے حضرت بریدہ اسلمی رضی اﷲ عنہ نے آپﷺ کے سامنے جھنڈا لہرایا تھا۔
قال بریدۃ یارسول اﷲﷺ یاتدخل المدینۃ الا معک لواء فحل عمامۃ ثم شدھا فی رمح ثم مشی بین یدیہ حتیٰ دخلوا المدینہ
(تاریخ الخمیس، الوفا ص 247، زرقانی شرح مواہب / 349/1، مدارج النبوۃ 111/2)
حضرت بریدہ اسلمی رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا، یا رسول اﷲﷺ! آپ مدینہ منورہ میں جھنڈے کے بغیر داخل نہیں ہوں گے۔ پھر انہوں نے اپنا عمامہ کھولا، اسے اپنے نیزے سے باندھا، پھر (لہراتے ہوئے) آپﷺ کے آگے آگے چلنے لگے، حتی کہ وہ تمام (بشکل جلوس) مدینہ شریف میں داخل ہوئے۔ معلوم ہوا کہ جلوس نبویﷺ کے موقع پر جھنڈے لہرانے کا آغاز مدینہ طیبہ سے ہوا تھا اور یہ بھی واضح رہے کہ جنگوں میں آپﷺ کے جھنڈوں کے رنگ مختلف رہے ہیں مثلا سیاہ رنگ اور سفید رنگ (مدارج النبوۃ 975/2) دیگر موقع کے لئے کوئی خاص رنگ مقرر نہیں کیا گیا۔ آج ہم سبز رنگ کا جھنڈا لہراتے ہیں کیونکہ یہ گنبد خضراء کے رنگ کی بھی یاد تازہ کرتا ہے، ویسے بھی اﷲ تعالیٰ اور رسول اﷲﷺ کو سبز رنگ بہت ہی پسند ہے اسی لئے جنتیوں کا لباس سبز رنگ کا ہوگا (سورۃ الکہف آیت 31) اور نبی کریمﷺ نے سبز رنگ کی چادر استعمال فرمائی ہے
(ترمذی 101/2، ابو دائود 206/2، مشکوٰۃ 376)
رسول اللہ ﷺکا خود اپنے میلاد کا چرچا فرمانا
2.2.3
تاجدارِ کائنات ﷺ نے اپنے میلاد کے بیان کے لیے خود بھی مجالس و اِجتماعات کا اہتمام فرمایا۔ اِس ضمن میں متعدد اَحادیث موجود ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
رسول اﷲ ﷺ کا اپنی ولادت سے قبل اپنی تخلیق کا چرچا فرمانا
(1)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
يا رسول اﷲ! متی وجبت لک النبوة؟
’’یا رسول اﷲ! آپ کو شرفِ نبوت سے کب نوازا گیا؟‘‘
یہ ایک معمول سے ہٹا ہوا سوال تھا کیوں کہ صحابہ میں سے کون نہیں جانتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت چالیس سال کی عمر مبارک میں ہوئی۔ لہٰذا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اِس سوال سے واضح ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بارے میں نہیں پوچھ رہے تھے بلکہ وہ عالم بالا میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُس روحانی زندگی کی اِبتداء کی بات کررہے تھے جب اﷲ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خلعتِ نبوت سے سرفراز فرمایا تھا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب عطا کرتے ہوئے فرمایا :
وآدم بين الروح والجسد.
’’(میں اُس وقت بھی نبی تھا) جب آدم کی تخلیق ابھی رُوح اور جسم کے مرحلے میں تھی۔‘‘
حوالاجات
ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في فضل النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 5 : 585، رقم : 3609 | 1 |
ابن مستفاض نے ’’کتاب القدر (ص : 27، رقم : 14)‘‘ میں کہا ہے کہ اِس کے رِجال ثقہ ہیں۔ | 2 |
امام رازي، کتاب الفوائد، 1 : 241، رقم : 581 | 3 |
ابن حبان، کتاب الثقات، 1 : 47 | 4 |
لالکائي، اعتقاد أهل السنة، 1 : 422، رقم : 1403 | 5 |
حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 2 : 665، رقم : 4210 | 6 |
بيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، 2 : 130 | 7 |
سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالمأثور، 6 : 569 | 8 |
ناصر الدین البانی نے اِس حدیث کو صحیح قرار دیتے ہوئے ’’صحیح السیرۃ النبویۃ (ص : 54، رقم : 53)‘‘ میں بیان کیا ہے۔ | 9 |
اِس حدیث سے مراد ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس وقت بھی نبی تھے جب روح اور جسم سے مرکب حضرت آدم علیہ السلام کا خمیر ابھی مکمل طور پر تیار نہیں ہوا تھا۔ اِس طرح حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو اپنی ولادت سے بھی پہلے اپنی تخلیق اور نبوت کے بارے میں آگاہ فرمایا۔
رسول اﷲ ﷺ کا اپنے میلاد کے چرچا کے لیے اِہتمامِ اِجتماع فرمانا
(2)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول مبارک تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اِجتماع سے خطبہ جمعہ کے علاوہ بھی وقتاً فوقتاً دینی و ایمانی، اَخلاقی و روحانی، علمی و فکری، سیاسی و سماجی، معاشی و معاشرتی، قانونی و پارلیمانی، اِنتظامی و اِنصرامی اور تنظیمی و تربیتی موضوعات پر خطبات اِرشاد فرماتے۔ اس کے علاوہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی حسبی و نسبی فضیلت اوربے مثل ولادت پربھی گفتگو فرماتے۔ درج ذیل اَحادیثِ مبارکہ سے واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنی تخلیق و ولادت کی خصوصیت و فضیلت کے بیان کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اِجتماع کا اہتمام فرمایا۔
1۔ حضرت مطلب بن ابی وداعہ سے مروی ہے :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
جاء العباس إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فکأنه سمع شيئاً، فقام النّبي صلي الله عليه وآله وسلم علي المنبر، فقال : من أنا؟ فقالوا : أنت رسول اﷲ، عليک السّلام. قال : أنا محمد بن عبد اﷲ بن عبد المطّلب، إن اﷲ خلق الخلق فجعلني في خيرهم فرقة، ثم جعلهم فرقتين، فجعلني في خيرهم فرقة، ثم جعلهم قبائل، فجعلني في خيرهم قبيلة، ثم جعلهم بيوتاً، فجعلني في خيرهم بيتاً وخيرهم نسباً.
’’حضرت عباس رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے، (اس وقت ان کی کیفیت ایسی تھی) گویا انہوں نے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق کفار سے) کچھ (نازیبا الفاظ) سن رکھے تھے (اور وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتانا چاہتے تھے)۔ (حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے یہ کلمات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتائے یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علمِ نبوت سے جان گئے) تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ اَفروز ہوئے اور فرمایا : میں کون ہوں؟ سب نے عرض کیا : آپ پر سلام ہو، آپ اﷲ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں عبد اللہ کا بیٹا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں۔ اﷲ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور اس مخلوق میں سے بہترین گروہ (انسان) کے اندر مجھے پیدا فرمایا اور پھر اس کو دو گروہوں (عرب و عجم) میں تقسیم کیا اور ان میں سے بہترین گروہ (عرب) میں مجھے پیدا کیا۔ پھر اﷲتعالیٰ نے اس حصے کے قبائل بنائے اور ان میں سے بہترین قبیلہ (قریش) کے اندر مجھے پیدا کیا اور پھر اس بہترین قبیلہ کے گھر بنائے تو مجھے بہترین گھر اور نسب (بنو ہاشم) میں پیدا کیا۔‘‘
حوالاجات
ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الدعوات، 5 : 543، رقم : 3532 | 1 |
ترمذی نے’’الجامع الصحیح (کتاب المناقب، باب فی فضل النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، 5 : 584، رقم : 3608)‘‘ میں وخیرھم نسبا کی جگہ وخیرھم نفسا کے الفاظ بھی بیان کیے ہیں۔ | 2 |
احمدبن حنبل نے ’’المسند (1 : 210، رقم : 1788)‘‘ میں آخر حدیث میں ’’فانا خیرکم بیتا وخیرکم نفسا‘‘ کا اضافہ کیا ہے۔ | 3 |
أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 165 | 4 |
هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 8 : 216 | 5 |
بيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، 1 : 169 | 6 |
اس حدیث مبارکہ میں درج ذیل نکات قابلِ غور ہیں :
(1) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا کہ جب کسی موضوع پر کوئی اَہم اور قابلِ توجہ بات تمام صحابہ کو بتانا مقصود ہوتی توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا خطبہ یا تقریر منبر پر کھڑے ہو کر اِرشاد فرماتے۔ اگر معمول کی کوئی بات ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موقع پر موجود صحابہ کے گوش گزار کر دیتے لیکن منبر پر کھڑے ہو کر خاص نشست کا اہتمام عامۃ المسلمین تک کوئی خاص بات پہنچانے کے لیے ہوتاتھا۔ حدیثِ مذکورہ میں بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر کھڑے ہو کر اِرشاد فرما رہے ہیں، اور یہ اِہتمام اِس اَمر کی طرف اشارہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ سے کوئی اہم بات کرنے والے ہیں۔
(2) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے سوال کیا : ’’میں کون ہوں؟‘‘ سب نے عرض کیا : ’’آپ پر سلام ہو، آپ اﷲ کے رسول ہیں۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا یہ جواب اگرچہ حق و صداقت پر مبنی تھا لیکن مقتضائے حال کے مطابق نہ تھا۔ اس دن اس سوال کا مقصد کچھ اور تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کا جواب بھی مختلف سننا چاہتے تھے۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی طرف سے متعلقہ جواب موصول نہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود ہی فرمایا : ’’میں عبد اﷲ کا بیٹا محمد ہوں۔‘‘ معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں اپنی ولادت اور نسبی فضیلت کے باب میں کچھ ارشاد فرمانا چاہتے تھے۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا وہ گوشہ ہے جس کا تعلق براہِ راست آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد سے ہے۔ اگرچہ یہ وہ معلومات تھیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بہ خوبی جانتے تھے مگر اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِس قدر اِہتمام کے ساتھ اس مضمون کو بیان فرمانے کا مقصد جشنِ میلاد کو اپنی سنت بنانا تھا۔
(3) مذکورہ حدیث میں اَحکامِ اِلٰہی بیان ہوئے ہیں نہ اَعمال و اَخلاق سے متعلق کوئی مضمون بیان ہوا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو اپنی ولادت اور نسبی فضیلت کے بارے آگاہ فرمایا ہے جو موضوعاتِ میلاد میں سے ہے۔
(4) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ بیان انفرادی سطح پر نہیں بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اجتماع سے تھا جو خصوصی اِنتظام و اِنصرام کی طرف واضح اِشارہ ہے۔
کتبِ حدیث اور سیرت و فضائل میں سے امام بخاری (194۔ 256ھ)، امام مسلم (206۔ 261ھ)، امام ترمذی (210۔ 279ھ)، قاضی عیاض (476۔ 544ھ)، علامہ قسطلانی (851۔ 923ھ)، علامہ نبہانی (1265۔ 1350ھ) جیسے نام وَر اَئمہ و محدثین اور شارحین کی تصانیف میں ایسی بے شمار احادیث موجود ہیں جن کا تعلق کسی شرعی مسئلہ سے نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت، حسب و نسب، خاندانی شرافت و نجابت اور ذاتی عظمت و فضیلت سے ہے۔
2۔ حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اﷲ عنھما روایت کرتے ہیں :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
قلت : يارسول اﷲ! إن قريشاً جلسوا فتذاکروا أحسابهم بينهم، فجعلوا مثلک کمثل نخلة في کبوة من الأرض، فقال النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم : إن اﷲ خلق الخلق فجعلني من خيرهم من خير فرقهم وخير الفريقين، ثم تخيّر القبائل فجعلني من خير قبيلة، ثم تخيّر البيوت فجعلني من خير بيوتهم، فأنا خيرهم نفساً وخيرهم بيتا.
’’میں نے عرض کیا : یارسول اﷲ! قریش نے ایک مجلس میں اپنے حسب و نسب کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی مثال کھجور کے اُس درخت سے دی جو کسی ٹیلہ پر ہو۔ اِس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو مجھے ان کی بہترین جماعت میں رکھا اور ان کے بہترین گروہ میں رکھا اور دونوں گروہوں میں سے بہترین گروہ میں بنایا، پھر قبائل کو منتخب فرمایا اور مجھے بہترین قبیلے میں رکھا، پھر اُس نے گھرانے منتخب فرمائے تو مجھے اُن میں سے بہتر گھرانے میں رکھا، پس میں اُن میں سے بہترین فرد اور بہترین خاندان والا ہوں۔‘‘
حوالاجات
ترمذي، الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب في فضل النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 5 : 584، رقم : 3607 | 1 |
أحمد بن حنبل، فضائل الصحابة، 2 : 937، رقم : 1803 | 2 |
أبو يعلي، المسند، 4 : 140، رقم : 1316 | 3 |
3۔ حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
إن اﷲ اصطفي من ولد إبراهيم إسماعيل، واصطفي من ولد إسماعيل بني کنانة، واصطفي من بني کنانة قريشاً، واصطفي من قريش بني هاشم، واصطفاني من بني هاشم.
’’بے شک ربِ کائنات نے اِبراہیم (علیہ السلام) کی اَولاد میں سے اِسماعیل (علیہ السلام) کو منتخب فرمایا، اور اِسماعیل (علیہ السلام) کی اَولاد میں سے بنی کنانہ کو، اور اَولادِ کنانہ میں سے قریش کو، اور قریش میں سے بنی ہاشم کو، اور بنی ہاشم میں سے مجھے شرفِ اِنتخاب سے نوازا اور پسند فرمایا۔‘‘
حوالاجات
ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في فضل النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 5 : 583، رقم : 3605 | 1 |
مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب فضل نسب النبي صلي الله عليه وآله وسلم وتسليم الحجر عليه قبل النبوة، 4 : 1782، رقم : 2276 | 2 |
أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 107 | 3 |
ابن أبي شيبة، المصنف، 6 : 317، رقم : 31731 | 4 |
أبو يعلي، المسند، 13 : 469، 472، رقم : 7485، 7487 | 5 |
طبراني، المعجم الکبير، 22 : 66، رقم : 161 | 6 |
بيهقي، السنن الکبري، 6 : 365، رقم : 12852 | 7 |
بيهقي، شعب الإيمان، 2 : 139، رقم : 1391 | 8 |
اِس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا پورا سلسلۂ نسب بیان فرما دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اصطفی کا لفظ اس لیے بیان کیا کہ صاحبِ نسب، مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (چُنے ہوئے) ہیں اور پورے نسبی سلسلہ کو یہ صفاتی لقب دیا گیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا اپنے شرف و فضیلت کا چرچا فرمانا
2.2.4
رسول اللہ ﷺکا اِجتماع میں اپنے شرف و فضیلت کا چرچا فرمانا
(1)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چرچاء میلاد کے علاوہ اپنی شرف و فضیلت کے چرچا کے لیے بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اِجتماع سے خطاب فرمایا :
1۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
جلس ناس من أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ينتظرونه، قال : فخرج حتي إذا دنا منهم سمعهم يتذاکرون فسمع حديثهم، فقال بعضهم عجباً : إنَ اﷲ عزوجل اتّخذ من خلقه خليلاً، اتّخذ إبراهيم خليلاً، وقال آخر : ماذا بأعجب من کلام موسي کلّمه تکليماً، وقال آخر : فعيسي کلمة اﷲ وروحه، وقال آخر : آدم اصْطفاه اﷲ. فخرج عليهم فسلّم، وقال صلي الله عليه وآله وسلم : قد سمعت کلامکم وعجبکم أن إبراهيم خليل اﷲ وهو کذلک، وموسٰي نجي اﷲ وهو کذالک، وعيسي روح اﷲ وکلمته وهو کذلک، وآدم اصْطفاه اﷲ وهو کذلک، ألا! وأنا حبيب اﷲ ولا فخر، أنا حامل لواء الحمد يوم القيامة ولا فخر، وأنا أول شافعٍ وأول مشفعٍ يوم القيامة ولا فخر، وأنا أول من يحرک حلق الجنة فيفتح اﷲ لي فيدخلنيها، ومعي فقراء المومنين ولا فخر، وأنا أکرم الأوّلين والآخرين ولا فخر.
’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کئی صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتظار میں بیٹھے تھے کہ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لے آئے، جب ان کے قریب ہوئے تو سنا کہ وہ آپس میں کچھ باتیں کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک نے کہا : بڑے تعجب کی بات ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے (ابراہیم علیہ السلام کو اپنا) خلیل بنایا۔ دوسرے نے کہا : یہ اس سے زیادہ تعجب انگیز نہیں ہے کہ خدا نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا۔ تیسرے نے کہا : عیسیٰ علیہ السلام تو اللہ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں۔ چوتھے نے کہا : آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے برگزیدہ کیا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے حلقے میں تشریف لے آئے، سلام کیا اور فرمایا : میں نے تم لوگوں کا کلام اور اِظہارِ تعجب سن لیا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام اللہ کے خلیل ہیں، بے شک وہ ایسے ہی ہیں۔ اور موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے سرگوشی کرنے والے ہیں اور وہ ایسے ہی ہیں۔ اور عیسیٰ علیہ السلام اس کی روح اور اس کا کلمہ ہیں اور وہ ایسے ہی ہیں۔ اور آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے منتخب کیا اور وہ ایسے ہی ہیں۔ آگاہ ہو جاؤ! میں اللہ کا حبیب ہوں لیکن میں فخر نہیں کرتا اور میں قیامت کے دن لواءِ حمد (حمد کا جھنڈا) اٹھانے والا ہوں گا اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں، اور میں قیامت کے دن سب سے پہلا شفیع اور سب سے پہلا مشفع ہوں گا اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں اور میں پہلا شخص ہوں گا جو بہشت کے دروازے کی زنجیر ہلائے گا اور اللہ تعالیٰ اسے میرے لیے کھولے گا اور مجھے اس میں داخل کرے گا اور میرے ساتھ وہ مومنین ہوں گے جو فقیر (غریب و مسکین) تھے لیکن مجھے اس پر بھی کوئی فخر نہیں، اور اَوّلین و آخرین میں سب سے زیادہ مکرّم و محترم میں ہی ہوں اور مجھے اس پر بھی کوئی فخر نہیں۔‘‘
حوالاجات
ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب ما جاء في فضل النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 2 : 202، رقم : 3616 | 1 |
دارمي، السنن 1 : 39، رقم : 47 | 2 |
بغوي، شرح السنة، 13 : 198، 204، رقم : 3617، 3625 | 3 |
رازي، مفاتيح الغيب (التفسير الکبير)، 6 : 167 | 4 |
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 560 | 5 |
سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالمأثور، 2 : 705 | 6 |
2۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
أن النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم خرج يوماً فصلي علي أهل أحد صلا ته علي الميت، ثم انصرف إلي المنبر، فقال : إني فرط لکم وأنا شهيد عليکم، وإني واﷲ! لأنظر إلي حوضي الآن، وإني أعطيت مفاتيح خزائن الأرض أو مفاتيح الأرض، وإني واﷲ! ما أخاف عليکم أن تشرکوا بعدي، ولکن أخاف عليکم أن تنافسوا فيها.
’’ایک روز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر (میدانِ اُحد کی طرف) تشریف لے گئے، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہدائے اُحد پر نمازِ جنازہ کی طرح نماز پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ اَفروز ہوئے اور فرمایا : بے شک میں تمہارا پیش رَو ہوں اور میں تم پر گواہ (یعنی تمہارے اَحوال سے باخبر) ہوں۔ اﷲ کی قسم! میں اِس وقت حوضِ کوثر دیکھ رہا ہوں اور مجھے روئے زمین کے خزانوں کی چابیاں عطا کی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! مجھے یہ خوف نہیں ہے کہ تم میرے بعد شرک میں مبتلا ہو جاؤ گے، البتہ یہ خوف ضرور ہے کہ تم دنیا پرستی میں باہم فخر و مباہات کرنے لگو گے۔‘‘
حوالاجات
بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب الصلاة علي الشهيد، 1 : 451، رقم : 1279 | 1 |
بخاري، الصحيح، کتاب المناقب، باب علامات النبوة، 3 : 1317، رقم : 1401 | 2 |
بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب أحد يحبنا، 4 : 1498، رقم : 3857 | 3 |
بخاري، الصحيح، کتاب الرقاق، باب ما يحذرمن زهرة الدنيا والتنافس فيها، 5 : 2361، رقم : 6062 | 4 |
بخاري، الصحيح، کتاب الحوض، باب في الحوض، 5 : 2408، رقم : 6218 | 5 |
مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب إثبات الحوض، 4 : 1795، رقم : 2296 | 6 |
أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 149، 153 | 7 |
ابن حبان، الصحيح، 7 : 473، رقم : 3168 | 8 |
ابن حبان، الصحيح، 8 : 18، رقم : 3224 | 9 |
اِس حدیثِ مبارکہ کے الفاظ۔ ثم انصرف الی المنبر (پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ اَفروز ہوئے)۔ سے ایک سوال ذہن میں اُبھرتا ہے کہ کیا قبرستان میں بھی منبر ہوتا ہے؟ منبر تو خطبہ دینے کے لیے مساجد میں بنائے جاتے ہیں، وہاں کوئی مسجد نہ تھی، صرف شہدائے اُحد کے مزارات تھے۔ اُس وقت صرف مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی میں منبر ہوتا تھا۔ اس لیے شہدائے احد کی قبور پر منبر کا ہونا بظاہر ایک ناممکن سی بات نظر آتی ہے۔ مگر در حقیقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر شہدائے اُحد کے قبرستان میں منبر نصب کرنے کا اِہتمام کیا گیا، جس کا مطلب ہے کہ منبر شہر مدینہ سے منگوایا گیا یا پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ساتھ ہی لے کر گئے تھے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ اتنا اہتمام کس لیے کیا گیا؟ یہ سارا اِہتمام و اِنتطام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل ومناقب کے بیان کے لیے منعقد ہونے والے اُس اِجتماع کے لیے تھا جسے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود منعقد فرما رہے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اس اجتماع میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تحدیثِ نعمت کے طور پر اپنا شرف اور فضیلت بیان فرمائی جس کے بیان پر پوری حدیث مشتمل ہے۔ اِس طرح یہ حدیث جلسۂ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی واضح دلیل ہے۔
مذکورہ بالا احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شرف و فضیلت کو بیا ن کرنے کے لیے اِجتماع کا اہتمام کرنا خود سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ لہٰذا میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محافل سجانا اور جلسوں کا اِہتمام کرنا مقتضائے سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ آج کے پُر فتن دور میں ایسی محافل و اِجتماعات کے اِنعقاد کی ضرورت پہلے سے کہیں بڑھ کر ہے تاکہ اُمت کے دلوں میں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عشق و محبت نقش ہو اور لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور اُسوۂ حسنہ پر عمل کرنے کی ترغیب دی جائے۔
دوسرے انبیاء پر شرف و فضیلت
(2)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تمام مخلوق پر شرف و فضیلت سے امتِ مسلمہ باخوبی واقف ہے ۔ آپ ﷺکا شرف و فضیلت تمام انبیاء پر بھی ہے کیونکہ آپﷺ کا اللہ کا حبیب ہونا، آپ ﷺکا مقامِ محمود اورحوضِ کوثر پر فائز ہونا، قیامت کے دن تمام انبیاء کا ہرامت کوآپ ﷺ کی طرف بھیجنا، قیامت کے دن آپ ﷺ کوسب سے پہلے اللہ کی حمد بیان کرنے کی اجازت ملنا (جس سے اللہ کا غصہ ختم ہو گا ) اور ان کے علاوہ بہت سے دیگر فضائل ایسے ہیں جن سے آپ کی فضیلت دوسرے انبیاء پر ثابت ہوتی ہے۔
1۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
أنا أوّلهم خروجاً، وأنا قائدهم إذا وفدوا وأنا خطيبهم إذا أنصتوا، وأنا مشفعهم إذا حبسوا، وأنا مبشّرهم إذا أيسوا. الکرامة والمفاتيح يومئذ بيدي، وأنا أکرم ولد آدم علي ربي، يطوف عليّ ألف خادم کأنهم بيض مکنون أو لؤلؤ منثور.
’’(روزِ قیامت) سب سے پہلے میں (اپنی قبرِ اَنور سے) نکلوں گا اور جب لوگ وفد بن کر جائیں گے تو میں ہی ان کا قائد ہوں گا۔ اور جب وہ خاموش ہوں گے تو میں ہی ان کا خطیب ہوں گا۔ میں ہی ان کی شفاعت کرنے والا ہوں گا جب وہ روک دیئے جائیں گے، اور میں ہی انہیں خوش خبری دینے والا ہوں جب وہ مایوس ہو جائیں گے۔ بزرگی اور جنت کی چابیاں اُس روز میرے ہاتھ میں ہوں گی۔ میں اپنے رب کے ہاں اَولادِ آدم میں سب سے زیادہ مکرم ہوں میرے اِرد گرد اُس روز ہزار خادم پھریں گے گویا وہ (گرد و غبار سے محفوظ) سفید (خوبصورت) انڈے (یعنی پوشیدہ حسن) ہیں یا بکھرے ہوئے موتی ہیں۔‘‘
حوالاجات
دارمي، السنن 1 : 39، رقم : 48 | 1 |
ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة بني إسرائيل، 5 : 308، رقم : 3148 | 2 |
ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في فضل النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 5 : 585، رقم : 3610 | 3 |
أبو يعلي، المعجم : 147، رقم : 160 | 4 |
قزويني، التدوين في أخبار قزوين، 1 : 234، 235 | 5 |
ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 1 : 47، رقم : 117 | 6 |
بغوي، شرح السنة، 13 : 203، رقم : 3624 | 7 |
ابن أبي حاتم رازي، تفسير القرآن العظيم، 10 : 3212، رقم : 18189 | 8 |
بيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، 5 : 484 | 9 |
أبو نعيم، دلائل النبوة، 1 : 64، 65، رقم : 24 | 10 |
بغوي، معالم التنزيل، 3 : 131 | 11 |
سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالمأثور، 8 : 376 | 12 |
اِس حدیثِ مبارکہ میں روزِ قیامت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا ہونے والے مراتب و درجات کا ذکر ہے اور یہ بھی موضوعاتِ میلاد میں سے ہیں۔
2۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
أنا سيّد ولد آدم يوم القيامة ولا فخر، وبيدي لواء الحمد ولا فخر، وما من نبيّ يومئذ آدم فمن سواه إلا تحت لوائي، وأنا أوّل من تنشقّ عنه الأرض ولا فخر.
’’روزِ قیامت میں تمام اَولادِ آدم کا سردار ہوں گا اور مجھے اِس پر کوئی فخر نہیں۔ اور اُس روز لواءِ حمد (حمدِ اِلٰہی کا جھنڈا) میرے ہاتھ میں ہوگا اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔ اور اُس روز آدم سمیت تمام نبی میرے جھنڈے تلے ہوں گے، اور میں سب سے پہلا شخص ہوں گا جس کے (باہر نکلنے کے) لیے زمین کا سینہ کھولا جائے گا اور اس (اَوّلیت) پر مجھے فخر نہیں۔‘‘
حوالاجات
ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في فضل النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 5 : 587، رقم : 3615 | 1 |
مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب تفضيل نبيّنا علي جميع الخلائق، 4 : 1782، رقم : 2278 | 2 |
ابن حبان، الصحيح، 14 : 398، رقم : 6478 | 3 |
أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 281 | 4 |
أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 2 | 5 |
أبو يعلي، المسند، 13 : 480، رقم : 7493 | 6 |
مقدسي، الأحاديث المختارة، 9 : 455، رقم : 428 | 7 |
3۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
أنا أوّل من تنشقّ عنه الأرض، فأکسَي الحُلة من حُلل الجنة، ثم أقوم عن يمين العرش ليس أحد من الخلائق يقوم ذالک المقام غيري.
’’(روزِ قیامت) میں سب سے پہلا شخص ہوں گا جس کے (باہر نکلنے کے) لیے زمین کا سینہ کھولا جائے گا، مجھے جنت کی پوشاکوں میں سے ایک پوشاک پہنائی جائے گی، پھر میں عرشِ الٰہی کے دائیں جانب اُس مقام پر کھڑا ہوں گا جہاں میرے علاوہ مخلوقات میں سے کوئی ایک (فرد) بھی کھڑا نہیں ہوگا۔‘‘
حوالاجات
ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في فضل النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 5 : 585، رقم : 3611 | 1 |
ابن کثير، البداية والنهاية، 10 : 263 | 2 |
ہم اِن اَحادیث کو بہ طور حوالہ اس لیے لا رہے ہیں تاکہ یہ اَمر واضح ہو جائے کہ ان میں کسی قسم کے اَحکامِ شریعت یا حلال و حرام اور تبلیغ و دعوت یا سیرت وغیرہ کے کوئی پہلو بیان ہوئے ہیں نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلقِ عظیم کا کوئی ذکر ہوا ہے بلکہ ان میں تواتر کے ساتھ جو چیزیں بیان ہوئی ہیں وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و خصائص اور اَولادِ آدم علیہ السلام میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام و مرتبہ، بے مثال عظمت و رِفعت اور روحانی مدارج کا ذکر ہے۔ کتبِ اَحادیث میں فضائل و مناقب کے ذیل میں صرف یہی خاص مضمون بیان ہوئے ہیں اور اَصلاً یہ میلاد شریف کے مضامین ہیں۔
صحیح احادیث میں یہ بھی ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس میں تمام انبیائے کرام کی امامت کروائی تھی، جس سے آپ ﷺ کی دوسرےانبیاء پر شان و مرتبہ ظاہر ہوتا ہے ۔
شب معراج میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء کرام علیہم السلام کی جو امامت فرمائی اس سے متعلق تفسیر خازن میں بھی مذکور ہے کہ اللہ تعالی نے حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خاطر انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کو جمع فرمایا تاکہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم ان کی امامت فرمائیں اور تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام آپ کی عظمت و فضیلت اور آپ کی برتری کو جان لیں- واقعۂ معراج کی تفصیلی روایات صحیح بخاری و صحیح مسلم اور دیگر کتب حدیث میں موجود ہے، امامت کے بارے میں صحیح حدیث میں ارشاد ہے:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ وَهُوَ ابْنُ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي الْحِجْرِ وَقُرَيْشٌ تَسْأَلُنِي عَنْ مَسْرَايَ فَسَأَلَتْنِي عَنْ أَشْيَائَ مِنْ بَيْتِ الْمَقْدِسِ لَمْ أُثْبِتْهَا فَکُرِبْتُ کُرْبَةً مَا کُرِبْتُ مِثْلَهُ قَطُّ قَالَ فَرَفَعَهُ اللَّهُ لِي أَنْظُرُ إِلَيْهِ مَا يَسْأَلُونِي عَنْ شَيْئٍ إِلَّا أَنْبَأْتُهُمْ بِهِ وَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي جَمَاعَةٍ مِنْ الْأَنْبِيَائِ فَإِذَا مُوسَی قَائِمٌ يُصَلِّي فَإِذَا رَجُلٌ ضَرْبٌ جَعْدٌ کَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوئَةَ وَإِذَا عِيسَی ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَام قَائِمٌ يُصَلِّي أَقْرَبُ النَّاسِ بِهِ شَبَهًا عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ الثَّقَفِيُّ وَإِذَا إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَام قَائِمٌ يُصَلِّي أَشْبَهُ النَّاسِ بِهِ صَاحِبُکُمْ يَعْنِي نَفْسَهُ فَحَانَتْ الصَّلَاةُ فَأَمَمْتُهُمْ فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنْ الصَّلَاةِ قَالَ قَائِلٌ يَا مُحَمَّدُ هَذَا مَالِکٌ صَاحِبُ النَّارِ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَالْتَفَتُّ إِلَيْهِ فَبَدَأَنِي بِالسَّلَامِ
حوالاجات
صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب فی ذکر المسیح ابن مریم والمسیح الدجال، حدیث نمبر: 430 | 1 |
زہیر بن حرب، حجین بن مثنی، عبدالعزیز (ابن ابی سلمہ)، عبداللہ بن فضل، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اپنے آپ کو حطیم میں دیکھا اور قریش مجھ سے میرے معراج پر جانے کے بارے میں سوال کر رہے تھے تو قریش نے مجھ سے بیت المقدس کی چند ایسی چیزوں کے بارے میں پوچھا جن کو میں دوسری اہم چیزوں میں مشغولیت کے باعث محفوظ نہ رکھ سکا تھا، مجھے اس کا اتنا زیادہ افسوس ہوا کہ اتنا اس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کے درمیان پردے اٹھا کر میرے سامنے کردیا میں نے اسے دیکھ کر جس کے بارے میں سوال کرتے وہ انہیں بتلا دیتا اور میں نے اپنے آپ کو انبیاء علیہ السلام کی ایک جماعت میں دیکھا اور حضرت موسیٰ کو کھڑے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا گویا کہ وہ گٹھے ہوئے جسم اور گھنگریالے بالوں والے آدمی ہیں گو یا کہ وہ قبیلہ شنوء کے ایک آدمی ہیں اور حضرت عیسیٰ بن مریم کو کھڑے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا تو لوگوں میں سب سے زیادہ ان سے مشابہ عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اور حضرت ابراہیم کو کھڑے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا لوگوں میں سے زیادہ ان کے مشابہ تمہارے صاحب ہیں اس کے بعد نماز کا وقت آیا تو میں امام بنا ، پھر میرے نماز سے فارغ ہونے پر ایک کہنے والے نے کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ مالک، داروغہ جہنم ہے اس پر سلام کیجئے میں اس کی طرف متوجہ ہوا تو پہلے اس نے مجھے سلام کیا۔
رسول اللہ ﷺ کا اپنی ذاتِ مبارکہ پر خوشی کا اظہار فرمانا
2.2.5
رسول اللہ ﷺ نے خود اپنی ذاتِ مبارکہ کی شان میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سےنعت سنتے اور اس پر خوشی و مسرت کا اظہار فرماتے ہوئے اُن صحابہ کے لیے دعا بھی فرماتے تھے۔ آپ ﷺ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو فرماتے کہ وہ آپ ﷺ کی مدح میں لکھے ہوئے قصائد پڑھ کر سنائیں۔ ان کے علاوہ بعض دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح سرائی کا شرف حاصل ہوا۔
ام المؤ منین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يضع لحسان منبراً في المسجد يقوم عليه قائماً يفاخر عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أو قالت : ينافح عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے لیے مسجد نبوی میں منبر رکھواتے، وہ اس پر کھڑے ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق (کفار و مشرکین کے مقابلہ میں) فخریہ شعر پڑھتے یا فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دفاع کرتے۔‘‘
حدیث شریف میں وارِد لفظ ’’کَانَ‘‘ اس امر کی خبر دیتا ہے کہ یہ واقعہ بار بار ہوا اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو مسجد نبوی میں منبر پر بلاتے اور وہ حضور ﷺ کی شان میں نعت پڑھتے اور کفار کی ہجو میں لکھا ہوا کلام سناتے۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و شوکت اور علو مرتبت کا پتہ چلتا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا آگے بیان کرتی ہیں کہ حضرت حسان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت پڑھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش ہوکر فرماتے :
إن اﷲ تعالي يؤيّد حسان بروح القدس ما يفاخر أو ينافح عن رسول اﷲ.
’’بے شک اللہ تعالیٰ روح القدس کے ذریعے حسان کی مدد فرماتا ہے جب تک وہ اﷲ کے رسول کے متعلق فخریہ اَشعار بیان کرتا ہے یا (اَشعار کی صورت میں) ان کا دفاع کرتا ہے۔‘‘
حوالاجات
ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الأدب، باب في إنشاد الشعر، 5 : 138، رقم : 2846 | 1 |
احمد بن حنبل، المسند، 6 : 72، رقم : 24481 | 2 |
حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3 : 554، رقم : 6058 | 3 |
ابو يعلي، المسند، 8 : 189، رقم : 4746 | 4 |
اُم المؤ منین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہے کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت حسان رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہوئے سنا :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
إن روح القدس لا يزال يؤيّدک ما نافحت عن اﷲ ورسوله. . . . هجاهم حسان فشفي واشتفي.
’’بے شک روح القدس (جبرئیل امین) تمہاری مدد میں رہتے ہیں جب تک تم اللہ اور اُس کے رسول کا دفاع کرتے ہو۔ ۔ ۔ ۔ حسان نے کافروں کی ہجو کی، (مسلمانوں کو) تشفی دی اور خود بھی تشفی پائی۔‘‘
حوالاجات
مسلم، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل حسان بن ثابت، 4 : 1936، رقم : 2490 | 1 |
بيهقي، السنن الکبري، 10 : 238 | 2 |
طبراني، المعجم الکبير، 4 : 38، رقم : 3582 | 3 |
حسان بن ثابت، ديوان : 20، 21 | 4 |
یہاں اِس ضمن میں وارِد چند اور روایات کا مختصرذکر کریں گے کیونکہ ” مدحت ونعت ِ رسول ﷺ ” کے باب میں اس کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے۔
حضرت اسود بن سریع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے بارگاہِ رِسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا : ’’یا رسول اﷲ! بے شک میں نے ایک قصیدہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی ہے اور دوسرے قصیدہ میں آپ کی نعت بیان کی ہے۔‘‘ اِس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’آؤ اور اللہ تعالیٰ کی حمد سے اِبتداء کرو۔‘‘ | 1 |
حضرت عبد اللہ بن رَوَاحہ رضی اللہ عنہ سے نعت سن کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا بھائی عبد اللہ بن رواحہ بالکل لغویات نہیں کہتا۔ | 2 |
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ حضرت عامر بن اَکوع رضی اللہ عنہ قافلہ میں سفر کر تے ہوئے رسول اللہ کی شان میں کچھ شعر پڑھ رہے تھے۔ جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سن کر فرمایا : ’’یہ اونٹنی چلانے والا (اور میری نعت کہنے والا) کون ہے؟‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! یہ عامر بن اَکوع ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوش ہوکر دعا دیتے ہوئے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ اُس پر رحمت نازل فرمائے۔‘‘ | 3 |
غزوۂ تبوک سے واپسی پر حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے آپ سے فرمایا: یا رسول اللہ! میں آپ کی مدح کرنا چاہتا ہوں۔ اُن کے اِظہارِ خواہش پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’کہیں، اللہ تعالیٰ آپ کے منہ کی مہر نہ توڑے (یعنی آپ کے دانت سلامت رہیں)۔‘‘ | 4 |
ایک مرتبہ رسول اللہ کی خدمت میں حضرت کعب بن زہیر بن ابو سلمیٰ نے قصیدہ بانت سعاد پڑھنے کا شرف حاصل کیا۔ اس دوران جب حضرت کعب نے یہ شعر پڑھا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنی چادر مبارک عنایت فرمائی ۔ إن الرسول لنور يستضاء به وصارم من سيوف اﷲ مسلول (بے شک یہ رسول نور ہیں جن سے روشنی اَخذ کی جاتی ہے، اور اللہ کی شمشیروں میں سے برہنہ شمشیر ہیں۔) | 5 |
حضرت نابغہ جعدی رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر دو سو (200) اَشعار پر مشتمل طویل قصیدہ پڑھا۔ جب انہوں نے درج ذیل اَشعار پڑھے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے دعا دیتے ہوئے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ تمہارے منہ کی مہر نہ توڑے (یعنی تمہارے دانت سلامت رہیں)۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں : ’’ان کے دانت سب لوگوں سے اچھے تھے اور جب اُن کا کوئی دانت گرتا تو اس کی جگہ دوسرا نکل آتا۔‘‘ | 6 |
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو اِنصارِ مدینہ کی بچیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے موقع پر دف بجا کرایک قصیدہ گایا جس کے درج ذیل اَشعار شہرتِ دوام پا گئے ہیں : طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا مِنْ ثَنِيّاتِ الْودَاعِ وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَيْنَا مَا دَعَاِﷲِ دَاعٍ (ہم پروداع کی چوٹیوں سے چودھویں رات کا چاند طلوع ہوا، جب تک لوگ اللہ کو پکارتے رہیں گے ہم پر اس کا شکر واجب ہے۔) | 7 |
ان احادیث سے واضح ہوا کہ
(1)رسول اللہ ﷺ خود بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو حکم فرماتے کہ آپ ﷺ کی شان میں نعت پڑھیں۔
(2)صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بھی آپ ﷺ سے اجازت طلب کر تے اور آپ ﷺ کے سامنے آپ ﷺ کی نعت پڑھتے۔
(3)بعض اوقات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم خود سے آپﷺ کی شان میں نعت پڑھتے (جیسے انصار کی بچیوں نے پڑھی)۔
ان تمام صورتوں میں رسول اللہ ﷺ محبت وتوجہ سےنعت سنتے اور اس پر خوشی و مسرت کا اظہار فرماتے ۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ مبارکہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نعت سن کر اپنے ثناء خواں کے حق میں دعا بھی کرتے اور انہیں اپنی توجہات اور فیوضات سے مالا مال کرتے۔ انشاءاللہ قیامت تک آپ ﷺ اپنے ثناء خواں کے حق میں اسی طرح دعا کرتے رہیں گے۔
صحابہ کرام کا میلادالنبی ﷺ کی خوشی پر چرچا فرمانا
2.2.6
کائنات میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑی نعمتِ اِلٰہیہ کا تصور بھی محال ہے۔ اس پر جو غیر معمولی خوشی اور سرور و اِنبساط کا اظہار کیا گیا اس کا کچھ اندازہ کتبِ سیر و تاریخ کے مطالعہ سے ہوتا ہے۔ ان کتابوں میں فضائل و شمائل اور خصائص کے حوالے سے بہت سی روایات ملتی ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صحابہ کرام نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ِمبارکہ پر خوشی منائی۔ روایات شاہد ہیں کہ ولادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غیر معمولی و مبارک واقعات کے تذکرے صحابہ کرام تک پہنچے اور پھر صحابہ کرام نے ان واقعات کوخوشی و مسرت کے ساتھ دوسرے صحابہ کرام تک پہنچاِئے۔ حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُن کی والدہ نے اُن سے بیان کیا :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
شهدت آمنة لمَّا وُلِدَ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، فلمَّا ضربها المَخَاض نَظَرْتُ إلي النجوم تدلي حتي إني لأقول : إنها لتقعن عليّ. فلما ولدت خرج منها نور أضاء له البيت الذي نحن فيه والدَّار، فما شيء أنظر إليه إلا نور.
’’جب ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وقت آیا تو میں سیدہ آمنہ سلام اﷲ علیھا کے پاس تھی۔ میں دیکھ رہی تھی کہ ستارے آسمان سے نیچے ڈھلک کر قریب ہو رہے ہیں یہاں تک کہ میں نے محسوس کیا کہ وہ میرے اوپر گرپڑیں گے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی تو سیدہ آمنہ سے ایسا نور نکلا جس سے پورا گھر جس میں ہم تھے اور حویلی جگمگ کرنے لگی اور مجھے ہر ایک شے میں نور ہی نور نظر آیا۔‘‘
حوالاجات
شيباني، الآحاد والمثاني : 631، رقم : 1094 (أم عثمان بنت أبي العاص رضي اﷲ عنها) | 1 |
طبراني، المعجم الکبير، 25 : 147، 186، رقم : 355، 457 | 2 |
ماوردي، أعلام النبوة : 247 | 3 |
طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1 : 454 | 4 |
بيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، 1 : 111 | 5 |
أبونعيم، دلائل النبوة : 135، رقم : 76 | 6 |
ابن جوزي، المنتظم في تاريخ الأمم والملوک، 2 : 247 | 7 |
ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 3 : 79 | 8 |
ابن عساکر، السيرة النبوية، 3 : 46 | 9 |
ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 264 | 10 |
هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 8 : 220 | 11 |
ابن رجب حنبلي، لطائف المعارف فيما لمواسم العام من الوظائف : 173 | 12 |
عسقلاني، فتح الباري، 6 : 583 | 13 |
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے بارگاہِ رِسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ کی نبوتِ مبارکہ کی شروعات کیسے ہوئی؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
دعوة أبي إبراهيمَ، وبُشري عيسي، ورأت أمي أنه يخْرُجُ منها نور أضاءت منه قصور الشام.
’’میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا اور عیسیٰ کی بشارت ہوں۔ اور (میری ولادت کے وقت) میری والدہ ماجدہ نے دیکھا کہ اُن کے جسم اَطہر سے ایک نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے۔‘‘
حوالاجات
أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 262، رقم : 22315 | 1 |
ابن حبان نے ’’الصحیح (14 : 313، رقم : 6404)‘‘ میں ایک اور سند سے انہی الفاظ پر مشتمل طویل روایت بیان کی ہے۔ | 2 |
بخاری نے ’’التاریخ الکبیر (5 : 342، رقم : 7807 ! 1736)‘‘ میں مختلف سند سے انہی الفاظ پر مشتمل طویل روایت بیان کی ہے۔ | 3 |
بخاری نے ’’التاریخ الاوسط (1 : 13، رقم : 33)‘‘ میں مختلف سند سے انہی الفاظ پر مشتمل طویل روایت بیان کی ہے۔ | 4 |
ابن أبي أسامه، المسند، 2 : 867، رقم : 927 | 5 |
روياني، المسند، 2 : 209، رقم : 1267 | 6 |
ابن الجعد، المسند : 492، رقم : 3428 | 7 |
طيالسي، المسند : 155، رقم : 1140 | 8 |
طبراني، المعجم الکبير، 8 : 175، رقم : 7729 | 9 |
طبراني، مسند الشاميين، 2 : 402، رقم : 1582 | 10 |
ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 1 : 46، رقم : 113 | 11 |
لالکائي، اعتقاد أهل السنة والجماعة، 1 : 422، 423، رقم : 1404 | 12 |
أبو نعيم، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، 6 : 90 | 13 |
ابن جوزي، المنتظم في تاريخ الأمم والملوک، 2 : 248 | 14 |
ابن عساکر، السيرة النبوية، 1 : 127 | 15 |
ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 275، 306، 322 | 16 |
ہیثمي نے ’’مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (8 : 222)‘‘ میں کہا ہے کہ اسے احمد نے روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے۔ | 17 |
سيوطي، کفايۃ الطالب اللبيب في خصائص الحبيب، 1 : 79 | 18 |
حضرت آمنہ اپنے عظیم نونہال کے واقعاتِ ولادت بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
لما فصل منّي خرج معه نور أضاء له ما بين المشرق إلي المغرب.
’’جب سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور ہوا تو ساتھ ہی ایسا نور نکلا جس سے شرق تا غرب سب آفاق روشن ہوگئے۔‘‘
حوالاجات
ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 102 | 1 |
ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1 : 52 | 2 |
ابن عساکر، السيرة النبوية، 3 : 46 | 3 |
ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 264 | 4 |
ابن رجب حنبلي، لطائف المعارف فيما لمواسم العام من الوظائف : 172 | 5 |
سيوطي، کفاية الطالب اللبيب في خصائص الحبيب، 1 : 79 | 6 |
حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 1 : 83 | 7 |
ایک روایت میں سیدہ آمنہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ وقتِ ولادت اُن سے ایسا نور خارِج ہوا جس کی ضوء پاشیوں سے اُن کی نگاہوں پر شام میں بصریٰ کے محلات اور بازار روشن ہوگئے یہاں تک اُنہوں نے بصریٰ میں چلنے والے اونٹوں کی گردنیں بھی دیکھ لیں۔
حوالاجات
ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 102 | 1 |
طبراني، المعجم الکبير، 24 : 214، رقم : 545 | 2 |
ابن حبان، الصحيح، 14 : 313، رقم : 6404 | 3 |
عبد الرزاق، المصنف، 5 : 318 | 4 |
دارمي، السنن، 1 : 20، رقم : 13 | 5 |
شيباني، الآحاد والمثاني، 3 : 56، رقم : 1369 | 6 |
شيباني، الآحاد والمثاني، 4 : 397، رقم : 2446 | 7 |
حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 2 : 673، رقم : 4230 | 8 |
ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (8 : 222)‘‘ میں کہا ہے کہ اِسے احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے، اور احمد کی بیان کردہ روایت کی اسناد حسن ہیں۔ | 9 |
هيثمي، موارد الظمآن إلي زوائد ابن حبان : 512، رقم : 2093 | 10 |
ابن إسحاق، السيرة النبوية، 1 : 97، 103 | 11 |
ابن هشام، السيرة النبوية : 160 | 12 |
ابن أثير، الکامل في التاريخ، 1 : 459 | 13 |
طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1 : 455 | 14 |
ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 1 : 171، 172 | 15 |
ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 3 : 466 | 16 |
ابن عساکر، السيرة النبوية، 3 : 46 | 17 |
ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 264، 275 | 18 |
ابن رجب حنبلي، لطائف المعارف فيما لمواسم العام من الوظائف : 173 | 19 |
سيوطي، کفاية الطالب اللبيب في خصائص الحبيب، 1 : 78 | 20 |
حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 1 : 83 | 21 |
أحمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1 : 46 | 22 |
احادیثِ یومِ عاشورہ سے میلاد النبی ﷺ پر اِستدلال
2.2.7
احادیث میں یوم عاشورہ کے حوالے سے جشنِ میلاد کو عید مسرت کے طور پر منانے پر محدثین نے استدلال کیا ہے۔ یوم عاشورہ وہ دن ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے جبر و استبداد سے نجات ملی۔ اس طرح یہ دن ان کے لیے یوم فتح اور آزادی کا دن ہے جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بطور شکرانہ روزہ رکھتے ہیں اور خوشی مناتے ہیں۔ ہجرت کے بعد جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود مدینہ کا یہ عمل دیکھا تو فرمایا کہ موسیٰ پر میرا حق نبی ہونے کے ناتے ان سے زیادہ ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عاشورا کے دن خود بھی روزہ رکھا اور اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ اس پر بھی بہت سی روایات ہیں جس سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ اگر یہود اپنے پیغمبر کی فتح اور اپنی آزادی کا دن جشن عید کے طور پر منا سکتے ہیں تو ہم مسلمانوں کو بدرجہ اولیٰ اس کا حق پہنچتا ہے کہ ہم حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا جشن مثالی جوش و خروش سے منائیں جو اﷲ کا فضل اور رحمت بن کر پوری نسل انسانیت کو ہر قسم کے مظالم اور ناانصافیوں سے نجات دلانے کے لیے اس دنیا میں تشریف لائے۔ [نوٹ: اِس کی تفصیلات اگلے حصہ (یومِ انبیا منانے سے اِستدلال) میں آئیں گی۔یہاں یوم عاشورہ کے روزہ کے حوالے سے ایک روایت درج ذیل ہے ۔]
حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھمابیان کرتے ہیں :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
قدم النبي صلي الله عليه وآله وسلم المدينة، فرأي اليهود تصوم يوم عاشوراء، فقال : ما هذا؟ قالوا : هذا يوم صالح، هذا يوم نَجَّي اﷲ بني إسرائيل من عدوهم، فصامه موسي. قال : فأنا أحق بموسي منکم. فصامه وأمر بصيامه.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ یہودی یوم عاشورہ (دس محرم) کا روزہ رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے اس دن روزہ رکھنے کا سبب دریافت فرمایا تو انہوں نے جواب دیا : یہ دن (ہمارے لیے) متبرک ہے۔ یہ وہ مبارک دن ہے جس دن اﷲ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون) سے نجات دلائی (یہ ہمارا یوم آزادی اور یوم نجات ہے)۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس دن روزہ رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم سے زیادہ موسیٰ کا حق دار میں ہوں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور (صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی) اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔‘‘
حوالاجات
بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 704، رقم : 1900 | 1 |
احمد بن حنبل، المسند، 1 : 291، رقم : 2644 | 2 |
ابو يعليٰ، المسند، 4 : 441، رقم : 2567 | 3 |
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 92 | 4 |
یومِ انبیا منانے سے اِستدلال
2.2.8
قرآن پاک میں اللہ سبحان و تعالی نے پچھلے انبیاء کے حالات کو بیان کرنے کی وجہ بیان فرماتے ہوئے ہم کو بتایا کہ یہ کفار کے ظلم و مظالم پر رسول اللہ کے دل کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ مومنین کے لیے نصیحت اور درس بھی ہیں یعنی مومنین اپنے عقیدوں کو ان سے مضبوط کرتے ہیں۔
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَكُلًّا نَّقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ اَنْبَآءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهٖ فُؤَادَكَ ۚ وَجَآءَكَ فِىْ هٰذِهِ الْحَقُّ وَمَوْعِظَةٌ وَّذِكْرٰى لِلْمُؤْمِنِيْنَ
اور ہم رسولوں کے حالات تیرے پاس اس لیے بیان کرتے ہیں کہ ان سے تیرے دل کو مضبوط کر دیں، اور ان واقعات میں تیرے پاس حق بات پہنچ جائے گی اور مومنین کے لیے نصیحت اور یاد دہانی ہے۔
(سورۃ ھود،11:120)
یومِ موسیٰ علیہ السلام منانے سے اِستدلال
(1)
یوم عاشورہ وہ ہے جس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فتح عطا کی اور فرعون کو اس کے لاؤ لشکر سمیت غرقِ نیل کر دیا۔ یوں بنی اِسرائیل کو فرعون کے جبر و استبداد سے نجات ملی۔ چناں چہ یہ دن حضرت موسی علیہ السلام کی فتح کا دن بھی تھا اور قوم بنی اسرائیل کی آزادی کاد ن بھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہوئے اس دن روزہ رکھا۔
جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودِ مدینہ کو یومِ عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ رکھنے کی وجہ دریافت فرما ئی تو انہوں نے مذکورہ بالا وجہ بیان کی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (ایک نبی ہونے کی حیثیت سے) میرا موسیٰ پر زیادہ حق ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا ہونے والی نعمتِ خداوندی پر اِظہارِ تشکر کے طور پر خود بھی روزہ رکھا اور اپنے تمام صحابہ کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ یوم عاشورہ کے روزہ کے حوالے سے چند روایات درج ذیل ہیں :
1۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
قدم النبي صلي الله عليه وآله وسلم المدينة، فرأي اليهود تصوم يوم عاشوراء، فقال : ما هذا؟ قالوا : هذا يوم صالح، هذا يوم نَجَّي اﷲ بني إسرائيل من عدوهم، فصامه موسي. قال : فأنا أحق بموسي منکم. فصامه وأمر بصيامه.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ یہودی یوم عاشورہ (دس محرم) کا روزہ رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے اس دن روزہ رکھنے کا سبب دریافت فرمایا تو انہوں نے جواب دیا : یہ دن (ہمارے لیے) متبرک ہے۔ یہ وہ مبارک دن ہے جس دن اﷲ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون) سے نجات دلائی (یہ ہمارا یوم آزادی اور یوم نجات ہے)۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس دن روزہ رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم سے زیادہ موسیٰ کا حق دار میں ہوں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور (صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی) اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔‘‘
حوالاجات
بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 704، رقم : 1900 | 1 |
احمد بن حنبل، المسند، 1 : 291، رقم : 2644 | 2 |
ابو يعليٰ، المسند، 4 : 441، رقم : 2567 | 3 |
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 92 | 4 |
2۔ ایک اور طرُق سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی اسی حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
لما قدم النبي صلي الله عليه وآله وسلم المدينة. وجد اليهود يصومون عاشوراء، فَسُئِلوا عن ذلک، فقالوا : هذا اليوم الذي أظفر اﷲ فيه موسي وبني إسرائيل علي فرعون، ونحن نصومه تعظيما له، فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : نحن أولي بموسي منکم. ثم أمر بصومه.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ یہودی یوم عاشورہ (دس محرم) کا روزہ رکھتے ہیں۔ پس ان سے اس کی بابت دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا : اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ ونصرت عطا فرمائی تو ہم اس عظیم کامیابی کی تعظیم و تکریم بجا لانے کے لیے اس دن روزہ رکھتے ہیں، (یہ ہمارا یومِ فتح ہے)۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہم تم سے زیادہ موسیٰ کے حق دار ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ رکھنے کا حکم دیا۔‘‘
حوالاجات
بخاري، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب إتيان اليهود النبي صلي الله عليه وآله وسلم حين قدم المدينة، 3 : 1434، رقم : 3727 | 1 |
مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 795، رقم : 1130 | 2 |
ابوداؤد، السنن، کتاب الصوم، باب في صوم يوم عاشوراء، 2 : 326، رقم : 2444 | 3 |
3۔ ایک روایت میں یہودیوں کا جواب اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان اِس طرح منقول ہے :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
فقالوا : هذا يوم عظيم، أنجي اﷲ فيه موسي وقومه، وغرق فرعون وقومه. فصامه موسي شکرا، فنحن نصومه. فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : فنحن أحق وأولي بموسي منکم. فصامه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، وأمر بصيامه.
’’انہوں نے کہا : یہ بہت عظیم دن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات عطا کی جب کہ فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شکرانے کے طور پر اُسی دن روزہ رکھا، لہٰذا ہم بھی روزہ رکھتے ہیں۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہاری نسبت ہم موسیٰ کے زیادہ حق دار اور قریبی ہیں۔ پس اس دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور (صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی) اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔‘‘
حوالاجات
مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 796، رقم : 1130 | 1 |
بخاري، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول اﷲ تعالي : وهل أتاک حديث موسي، 3 : 1244، رقم : 3216 | 2 |
ابن ماجة، السنن، کتاب الصيام، باب صيام يوم عاشوراء، 1 : 552، رقم : 1734 | 3 |
أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 336، رقم : 3112 | 4 |
مذکورہ بالاروایات سے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل فرعون کے جبر و اِستبداد کا شکار تھے جس کی وجہ سے اﷲ کے دین کی پیروی ان کے لیے مشکل تھی۔ لیکن سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی جہدِ مسلسل کے نتیجے میں وہ حسین دن بھی طلوع ہوا جب بنی اسرائیل دریائے نیل پار کر گئے اور ان کے تعاقب میں آنے والا فرعون اپنے لشکر سمیت اِسی دریا میں غرق ہوگیا۔ اس طرح بنی اسرائیل کو ظلم و استبداد سے نجات اور آزادی ملی۔ فتح و آزادی کی یہ نعمت اﷲ کا فضل اور اس کی رحمت تھی۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اﷲ کا شکر ادا کرتے ہوئے روزہ رکھا اور بنی اسرائیل نے بھی روزہ رکھا۔ وہ اس دن کو یوم نجات اور یوم آزادی کے طور پر آج تک منا رہے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت سے اس دن کو روزہ رکھ کر منایا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا۔ اِمام طحاوی (229. 321ھ) فرماتے ہیں کہ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے موسی علیہ السلام کے فرعون پر غلبہ پا لینے پر اﷲ تعالیٰ کا شکر بجا لانے کے لیے روزہ رکھا۔
(طحاوي، شرح معاني الآثار، کتاب الصوم، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 132، رقم : 3209)
یہاں قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اگر یہود اپنے پیغمبر کی فتح اور اپنی آزادی و نجات کا دن قابلِ تعظیم سمجھ کر اسے منانے کا حق رکھتے ہیں تو مسلمان اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یومِ میلاد قابلِ تعظیم سمجھ کر اُسے منانے کا بہ درجہ اَتم حق رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم الانبیاء اور سید المرسلین و الانبیاء ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کا فضل اور رحمت بن کر پوری انسانیت کو آزادی عطا کرنے اور ہر ظلم و نااِنصافی سے نجات دلانے کے لیے تشریف لائے۔ ارشادِ ربانی ہے :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ.
’’اور (یہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اُن سے اُن کے بارِ گراں اور طوقِ (قیود) جو اُن پر (نافرمانیوں کے باعث مسلط) تھے، ساقط فرماتے ( اور اُنہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔‘‘
الأعراف، 7 : 157
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری مظلوم انسانیت کے لیے نجات اور آزادی کی نوید تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت وہ حسین ترین لمحہ تھا جس کی خوشی پوری کائنات میں منائی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ایک مومن کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہے۔ اﷲ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کو امت کے لیے بہت بڑے احسان سے تعبیر فرمایا ہے۔ وہ دن جس میں سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ سے عالم انسانیت کو نواز گیا سب کے لیے تعظیم و تکریم کامستحق ہے۔ ظہورِ قدسی کا وہ عظیم ترین دن اس قابل ہے کہ ہم اس دن عطائے نعمتِ عظمی پر سراپا تشکر بن جائیں، اس کی تعظیم کے لیے اپنے دیدہ و دل فرش راہ کر دیں اور اِسے ہر ممکن جائز طریقے سے والہانہ احترام اور عقیدت و محبت کے جذبات میں ڈوب کرجشن کی صورت میں خوب دھوم دھام سے منائیں۔
حضورﷺ کا خود نسبتِ موسیٰ علیہ السلام کے سبب سے دن منانا
(2)
مذکورہ بالا اَحادیث سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد منانے کی ایک اور دلیل بھی اَخذ ہوتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت سے اِس دن کو منایا اور روزہ رکھا۔ اس سے کسی عظیم دن کو منانے کا جواز خود سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مل رہا ہے۔ اور اہلِ ایمان کے لیے یومِ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر اور کون سا دن عظیم ہوسکتا ہے! لہٰذا یومِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا بھی اِتباعِ سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمرے میں آتا ہے۔
یہود یومِ عاشورہ یومِ عید کے طور پر مناتے تھے
(3)
بعض ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ یہود اپنا یومِ آزادی یعنی عاشورہ کا دن روزہ رکھ کر مناتے تھے، جب کہ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دن یومِ عید کے طور پر منایا جاتا ہے، لیکن اس دن روزہ نہیں رکھا جاتا؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ کسی مبارک دن کو یومِ مسرت کے طور پر منانا سنت ہے اور اس کو دائرۂ شریعت میں رہتے ہوئے کسی بھی شکل میں منایا جا سکتا ہے۔ اگر یہود یومِ عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یوم شکرانہ منانے کو صرف روزہ رکھنے کے عمل تک محدود کرلیا جائے اور اس دن کو روزہ رکھنے کے سوا کسی اور طریقے سے نہ منایا جائے۔ احادیثِ مذکورہ میں اس امر کی طرف کوئی اشارہ موجود نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہود اس خوشی کے موقع پر روزہ ایک اضافی نیک عمل کے طور پر رکھتے تھے اور وہ یہ دن بہ طور عید مناتے تھے۔
قبل اَز اِسلام عرب معاشرہ میں یومِ عاشورہ کے موقع پر عید منائی جاتی تھی۔ اگرچہ عربوں کا اس دن عید منانا مختلف وجوہات کی بنا پر تھا۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کے بعدمدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ یہودی بھی اس دن صرف روزہ نہیں رکھتے بلکہ عید بھی مناتے تھے، جیسا کہ درج ذیل احادیث سے ثابت ہے :
1۔ اِمام بخاری (194۔ 256ھ) الصحیح میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
کان يوم عاشوراء تَعُدُّه اليهود عيدًا، قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : فصوموه أنتم.
’’یوم عاشورہ کو یہود یومِ عید شمار کرتے تھے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (مسلمانوں کو حکم دیتے ہوئے) فرمایا : تم ضرور اس دن روزہ رکھا کرو۔‘‘
حوالاجات
بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 704، 705، رقم : 1901 | 1 |
2۔ اِمام مسلم (206۔ 261ھ) نے بھی الصحیح میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے حدیث روایت کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
کان يوم عاشوراء يوما تعظّمه اليهود، وتتّخذه عيدًا، فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : صوموه أنتم.
’’یہود یوم عاشورہ کی تعظیم کرتے تھے اور اسے عید کے طور پر مناتے تھے۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (مسلمانوں کو) حکم دیا کہ تم بھی اس دن روزہ رکھو۔‘‘
حوالاجات
مسلم، الصحيح، 2، 796، کتاب الصيام، باب صيام يوم عاشوراء، رقم : 1131 | 1 |
نسائي، السنن الکبري، 2 : 159، رقم : 2848 | 2 |
طحاوي، شرح معاني الآثار، کتاب الصوم، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 133، رقم : 3217 | 3 |
بيهقي، السنن الکبري، 4 : 289، رقم : 8197 | 4 |
اِمام طحاوی (229۔ 321ھ) اِس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یومِ عاشورہ کا روزہ رکھنے کا حکم صرف اِس لیے دیا تھا کہ یہود اس دن روزہ رکھتے تھے۔
3۔ اِمام مسلم (206. 261ھ) نے الصحیح میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے درج ذیل الفاظ کے ساتھ ایک اور حدیث بھی روایت کی ہے :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
کان أهل خيبر يصومون يوم عاشوراء، يتّخذونه عيدًا، ويُلْبِسُوْنَ نساء هم فيه حُلِيَّهمْ وشَارَتَهُمْ. فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : فصوموه أنتم.
’’اہلِ خیبر یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے اور اسے عید کے طور پر مناتے تھے۔ اس دن وہ اپنی عورتوں کو خوب زیورات پہناتے اور ان کا بناؤ سنگھار کرتے۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (مسلمانوں سے) فرمایا : تم بھی اس دن روزہ رکھا کرو۔‘‘
حوالاجات
مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 796، رقم : 1131 | 1 |
ابو نعيم، المسند المستخرج علي صحيح الإمام مسلم، 3 : 212، رقم : 2575 | 2 |
إسماعيلي، معجم شيوخ أبي بکر الإسماعيلي، 3 : 722، رقم : 337 | 3 |
عسقلاني، فتح الباري، 4 : 248 | 4 |
اِمام بخاری (194۔ 256ھ) اور اِمام مسلم (206۔ 261ھ) کی مذکورہ بالا روایات سے مستنبط ہوتا ہے کہ :
یومِ عاشورہ یہودیوں کے لیے یومِ نجات اور یومِ کامیابی تھا۔ وہ عرصہ قدیم سے من حیث القوم اِسے یومِ عید کے طور پر شایانِ شان طریقے سے مناتے چلے آرہے تھے۔ | 1 |
عید کا دن اُن کے لیے یومِ تعظیم تھا، وہ اس کا احترام کرتے اور بطور شکر و اِمتنان ایک اِضافی عمل کے طور پر اس دن روزہ بھی رکھتے تھے۔ | 2 |
یہ دن صرف روزہ رکھنے پر ہی موقوف نہ تھا بلکہ روزہ رکھنا محض ایک اِضافی عمل تھا جو اس دن انجام دیا جاتا تھا۔ | 3 |
اِس حوالے سے اگر آج کوئی عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں اِعتراض کرے اور کہے کہ روزہ کے بغیر عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جشن منانا جائز نہیں، تو یہ درست نہیں اور نہ ہی ایسا اِستدلال احادیث کی روشنی میں ممکن ہے۔ | 4 |
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بخوبی جانتے تھے کہ یومِ عاشورہ یہودیوں کے نزدیک یومِ عید ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے عید منانے پر کوئی سوال نہیں کیا بلکہ ان کے روزہ رکھنے کے بارے میں اِستفسار فرمایا تو انہوں نے۔ ’’تعظیماً لہ‘‘ اور ’’شکراً لہ‘‘ کہہ کر بہ طور تعظیم و تشکر روزہ رکھنے کی توجیہ بیان کی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی اس دن روزہ رکھا اور اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی اس کی تلقین فرمائی۔
یومِ نوح علیہ السلام کی یاد منانا
(4)
امام احمد بن حنبل (164۔ 241ھ) اور حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث روایت کی ہے جس میں یومِ عاشورہ منانے کا یہ پہلو بھی بیان ہوا ہے کہ عاشورہ حضرت نوح علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں پر اﷲ تعالیٰ کے فضل و انعام کا دن تھا۔ اس روز وہ بہ حفاظت جودی پہاڑ پر لنگر انداز ہوئے تھے۔ اِس پر حضرت نوح علیہ السلام کی جماعت اس دن کو یوم تشکر کے طور پر منانے لگی، اور یہ دن بعد میں آنے والوں کے لیے باعثِ اِحترام بن گیا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہود سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوم عاشورہ کا روزہ رکھنے کے بارے میں دریافت فرمایا تو انہوں نے بنی اسرائیل کی آزادی اور فرعون کی غرقابی کا ذکر کرنے کے بعد کہا :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
وهذا يوم استَوَتْ فيه السفينة علي الجُودِي، فصامه نوح وموسي شکرًا ﷲ تعالي.
’’اور یہ وہ دن ہے جس میں جودی پہاڑ پر کشتی ٹھہری تو حضرت نوح اورموسی علیھما السلام نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے روزہ رکھا۔‘‘
اِس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
أنا أحق بموسي، وأحق بصوم هذا اليوم.
’’میں موسیٰ کا زیادہ حق دار ہوں اور میں اس دن روزہ رکھنے کا زیادہ حق رکھتا ہوں۔‘‘
حوالاجات
أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 359، 360، رقم : 8702 | 1 |
عسقلاني، فتح الباري، 4 : 247 | 2 |
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی اُس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
آدمِ ثانی حضرت نوح علیہ السلام کے حوالے سے یوم عاشورہ کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی جماعتِ مومنین کی بقاء دراصل عالم انسانیت کی بقاء اور فروغِ نسلِ اِنسانی کی بنیاد کا درجہ رکھتی ہے۔ اس دن کو آپ کی قوم نے یاد رکھا اور بارگاہِ خداوندی میں ہمیشہ اس کا شکر ادا کیا۔ اس سے یہ اصول سامنے آیا کہ ہر وہ واقعہ جس سے مومنین کی اِجتماعی نجات، آزادی اور بقاء وابستہ ہے اس پر اِظہارِ تشکر اور اِظہارِ مسرت و اِنبساط اِسلامی تہذیب کی علامت رہی ہے۔ لہٰذا سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کا مبارک دن بھی اَبد تک اہلِ ایمان کے لیے یومِ عید ہے۔
عید میلادالنبیﷺ پر حافظ عسقلانی کا اِستدلال
2.2.9
حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) نے مذکورہ بالا اَحادیثِ مبارکہ سے عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اِستدلال کرتے ہوئے اُس دن کی شرعی حیثیت کو واضح طور پر متحقق کیا ہے اور اس سے یوم میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کی اِباحت پر دلیل قائم کی ہے۔ حافظ اِبن حجر عسقلانی کا اِستدلال نقل کرتے ہوئے اِمام جلال الدین سیوطی (849۔ 911ھ) لکھتے ہیں :
وقد سئل شيخ الإسلام حافظ العصر أبوالفضل ابن حجر عن عمل المولد، فأجاب بما نصه : قال :
وقد ظهر لي تخريجها علي أصل ثابت، وهو ما ثبت في الصحيحين من : ’’أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قدم المدينة، فوجد اليهود يصومون يوم عاشوراء، فسألهم، فقالوا : هو يوم أغرق اﷲ فيه فرعون، ونجّي موسي، فنحن نصومه شکرًا ﷲ تعالي.
فيستفاد منه فعل الشکر ﷲ تعالي علي ما منَّ به في يوم معيّن من إسداء نعمة، أو دفع نقمة، ويعاد ذلک في نظير ذلک اليوم من کل سنة.
والشکر ﷲ تعالي يحصل بأنواع العبادات کالسجود والصيام والصدقة والتلاوة، وأيّ نعمة أعظم من النعمة ببروز هذا النبي صلي الله عليه وآله وسلم الذي هو نبي الرحمة في ذلک اليوم.
حوالاجات
سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 63 | 1 |
سيوطي، الحاوي للفتاوي : 205، 206 | 2 |
صالحي، سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 366 | 3 |
زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 263 | 4 |
احمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1 : 54 | 5 |
نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 237 | 6 |
’’شیخ الاسلام حافظ العصر ابو الفضل ابن حجر سے میلاد شریف کے عمل کے حوالہ سے پوچھا گیا تو آپ نے اس کا جواب کچھ یوں دیا :
’’مجھے میلاد شریف کے بارے میں اصل تخریج کا پتہ چلا ہے۔ ’’صحیحین‘‘ سے ثابت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا : ایسا کیوں کرتے ہو؟ اس پر وہ عرض کناں ہوئے کہ اس دن اﷲ تعالیٰ نے فرعون کو غرق کیا اور موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی، سو ہم اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر بجا لانے کے لیے اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔
’’اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کسی اِحسان و اِنعام کے عطا ہونے یا کسی مصیبت کے ٹل جانے پر کسی معین دن میں اﷲ تعالیٰ کا شکر بجا لانا اور ہر سال اس دن کی یاد تازہ کرنا مناسب تر ہے۔
’’اﷲ تعالیٰ کا شکر نماز و سجدہ، روزہ، صدقہ اور تلاوتِ قرآن و دیگر عبادات کے ذریعہ بجا لایا جا سکتا ہے اور حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے بڑھ کر اﷲ کی نعمتوں میں سے کون سی نعمت ہے؟ اس لیے اس دن ضرور شکرانہ بجا لانا چاہیے۔‘‘
جشنِ میلاد کی بابت پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے حافظ عسقلانی (773۔ 852ھ) نے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کی بنیاد ان اَحادیث کو بنایا ہے جو ’’صحیحین‘‘ میں متفقہ طور پر روایت ہوئیں۔ ان احادیث میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو ملنے والی عظیم نعمت اور فتح پر اِظہارِ تشکر کرنے اور اس دن کو عید کے طور پر منانے کی تائید و توثیق فرماتے ہوئے اس عمل کو اپنی سنت کا درجہ دے دیا۔ جب رسولِ معظم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے، کیا اس دن سے زیادہ کوئی اور بڑی نعمت ہوسکتی ہے؟ پھر کیا وجہ ہے کہ یومِ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عید کے طور پر نہ منایا جائے! حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) کے موقف کی تائید اِمام سیوطی (849۔ 911ھ) نے ’’الحاوی للفتاوی (ص : 205، 206)‘‘ میں کی ہے۔ حافظ عسقلانی نے صومِ عاشورہ سے جو اِستدلال کیا ہے اس میں باوجود اس کے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کامیابی گزشتہ زمانہ کے معین یومِ عاشورہ کو ہوئی تھی مگر پورے سال میں صرف اسی روز کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اس نعمت کا شکر ہر سال اسی روز ادا کیا جائے۔ اس سے ثابت ہے کہ گو یہ واقعہ کا اعادہ نہیں مگر اس کی برکت کا اِعادہ ضرور ہوتا ہے جس پر دلیل یہ ہے کہ ہر پیر کے روز ابو لہب کے لیے میلاد کی برکت کا اعادہ ہوتا ہے۔
ماہِ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت سے قبل عاشورہ کے روزے مسلمانوں پر واجب تھے۔ (1) جب ماہ رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو ان کا وجوب منسوخ ہوگیا۔ (2) بعض ذہنوں میں یہ اِشکال پیدا ہوتا ہے کہ صومِ عاشورہ کا وجوب تو منسوخ ہوگیا ہے اس لیے اس کی فضیلت باقی نہیں رہی۔ اس کا پہلاجواب یہ ہے کہ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کے بعد اب کسی روزہ کی فرضیت نہیں، لیکن اس سے صومِ عاشورہ کی حِلّت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اس لیے کہ اس روزہ کے حکم وجوبیت کی منسوخی کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ نحن لسنا احق بموسیٰ منکم (ہم تم سے زیادہ موسیٰ علیہ السلام کے حق دار نہیں) جس طرح روزہ رکھتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نحن احق بموسیٰ منکم (ہم تم سے زیادہ موسیٰ علیہ السلام کے حق دار ہیں) فرمایا تھا، حالاں کہ موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ گزرے ایک زمانہ بیت چکا تھا۔
حوالاجات
طحاوي، شرح معاني الآثار، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 129. 132 | 1 |
عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 11 : 120 | 2 |
اِمام بخاری (194۔ 256ھ) الصحیح میں روایت کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا فرماتی ہیں :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أمر بصيام يوم عاشوراء، فلما فُرض رمضان، کان من شاء صام ومن شاء أفطر.
’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یومِ عاشورہ کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا کرتے تھے، تاہم جب ماہِ رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو جو چاہتا یہ روزہ رکھ لیتا اور جو چاہتا نہ رکھتا۔‘‘
حوالاجات
بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 704، رقم : 1897، 1898 | 1 |
صومِ عاشورہ کا وجوب منسوخ ہونے کے باوجود اَحادیث میں اس کے فضائل وارد ہیں۔ اس دن کے روزے کی جو فضیلت پہلے تھی وہ اب بھی ہے، اور یہ بات مسلمہ ہے کہ فضائل منسوخ نہیں ہو سکتے۔ اس لیے صومِ عاشورہ کی منسوخی کا حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) کے اِستدلال پر کوئی اثر نہیں۔ اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ اس روزہ کی فضیلت بھی منسوخ ہوگئی تو پھر بھی جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اِس سے اِستدلال پر فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زیادہ خوشی لامحالہ اُن لوگوں کو ہوگی جنہیں اُمتِ موسوی کے افراد ہونے کا دعویٰ تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس روزہ سے صرف اُمت کو یہ توجہ دلانا مقصود معلوم ہوتا ہے کہ جب ہم ایک نبی کی فتح پر شکر ادا کرتے ہیں تو تمہیں بھی ہماری ولادت کی بے حد خوشی کرنی چاہیے۔ مگر طبعِ غیور کو صراحتاً یہ فرمانا گوارا نہ تھا کہ ہمارے میلاد کے روز تم لوگ روزہ رکھا کرو، بلکہ خود ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیر کے روز ہمیشہ روزہ رکھا کرتے تھے۔ اور اس کی وجہ اس وقت تک نہیں بتائی جب تک کسی نے پوچھا نہیں۔ اس لیے کہ بغیر اِستفسار کے بیان کرنا بھی طبعِ غیور کے مناسبِ حال نہ تھا۔
غلافِ کعبہ کا دن عید کے طور پر منائے جانے سے اِستدلال
2.2.10
دورِ جاہلیت میں قریشِ مکہ یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے اور اس دن کو عید کے طور پر مناتے تھے۔ ہجرت سے قبل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اِس دن روزہ رکھا۔ وہ اس دن کو اس وجہ سے مناتے اور اس کا احترام و تعظیم کرتے کہ اس دن کعبۃ اللہ پر پہلی مرتبہ غلاف چڑھایا گیا تھا۔ یہی وہ خاص پس منظر تھا جس کی وجہ سے ہجرت کے بعد آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہودیوں سے عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کی وجہ دریافت فرمائی۔
1۔ اِمام بخاری (194۔ 256ھ) الصحیح میں روایت کرتے ہیں کہ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا فرماتی ہیں :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
کان يوم عاشوراء تصومه قريش في الجاهلية، وکان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يصومه.
’’زمانۂ جاہلیت میں قریش عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی یہ روزہ رکھتے تھے۔‘‘
حوالاجات
بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 704، رقم : 1898 | 1 |
بخاري، الصحيح، کتاب المناقب، باب أيام الجاهلية، 3 : 1393، رقم : 3619 | 2 |
مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 792، رقم : 1125 | 3 |
ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الصوم، باب ما جاء في الرخصة في ترک صوم يوم عاشوراء، 3 : 127، رقم : 753 | 4 |
جب پہلی دفعہ زمانۂ جاہلیت میں کعبہ کو غلاف سے ڈھانپا گیا تو یہ دس محرم کا دن تھا۔ اُس وقت سے مکہ کے لوگوں کا یہ معمول رہا کہ وہ ہر سال اسی دن روزہ رکھتے اور یہ ان کے لیے عید کا دن ہوتا تھا۔ ان کا یہ معمول حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سعیدہ کے بعد بھی جاری رہا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی کعبہ پر غلاف چڑھانے کے دن روزہ رکھنے کا معمول اپنایا۔ کعبہ پر غلاف چڑھانے کو ’’کسوۃ الکعبۃ‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
2۔ اِمام بخاری (194. 256ھ) الصحیح میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا سے ہی روایت کرتے ہیں :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
کانوا يصومون عاشوراء قبل أن يُفرض رمضان، وکان يوما تستر فيه الکعبة، فلما فرض اﷲ رمضان، قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : من شاء أن يصومه فليصمه، ومن شاء أن يترکه فليترکه.
’’اہلِ عرب رمضان کے روزے فرض ہونے سے قبل یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور (اس کی وجہ یہ ہے کہ) اس دن کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کر دیے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے جو اس دن روزہ رکھنا چاہے وہ روزہ رکھ لے، اور جو ترک کرنا چاہے وہ ترک کر دے۔‘‘
حوالاجات
بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب قول اﷲ : جعل اﷲ الکعبة البيت الحرام، 2 : 578، رقم : 1515 | 1 |
طبراني، المعجم الأوسط، 7 : 278، رقم : 7495 | 2 |
بيهقي، السنن الکبري، 5 : 159، رقم 9513 | 3 |
ابن عبد البر، التمهيد لما في الموطا من المعاني والأسانيد، 7 : 204 | 4 |
حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) درج بالا حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
فإنه يفيد أن الجاهلية کانوا يعظّمون الکعبة قديمًا بالستور ويقومون بها.
’’اس سے ثابت ہوتا ہے کہ زمانۂ جاہلیت سے ہی وہ کعبہ پر غلاف چڑھا کر اس کی تعظیم کرتے تھے، اور یہ معمول وہ قائم رکھے ہوئے تھے۔‘‘
عسقلاني، فتح الباري، 3 : 455
حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) ایک اور مقام پر قریش کے اس دن روزہ رکھنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
أما صيام قريش لعاشوراء فلعلهم تلقّوه من الشرع السالف، ولهذا کانوا يعظّمونه بکسوة الکعبة فيه.
’’یومِ عاشورہ کو قریش کا روزہ رکھنے کا سبب یہ تھا کہ شاید اُنہوں نے گزشتہ شریعت سے اس کو پایا ہو، اور اِسی لیے وہ اس دن کی تعظیم کعبہ پر غلاف چڑھا کر کیا کرتے تھے۔‘‘
عسقلاني، فتح الباري، 4 : 246
ہر سال کعبہ پر غلاف چڑھانے کا دن منانے پر امام طبرانی (260۔ 360ھ) ’’المعجم الکبیر (5 : 138، رقم : 4876)‘‘ میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے درجِ ذیل قول نقل کر تے ہیں :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
ليس يوم عاشوراء باليوم الذي يقوله الناس، إنما کان يوم تستر فيه الکعبة وکان يدور في السنة.
’’یومِ عاشورہ سے مراد وہ دن نہیں جو عام طور پر لیا جاتا ہے، بلکہ یہ وہ دن ہے جس میں کعبہ کو غلاف چڑھانے کی رسم کا آغاز ہوا۔ اسی سبب ہر سال اس کی تجدید ہوتی ہے اور اس دن کو منانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔‘‘
حوالاجات
هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 3 : 187 | 1 |
عسقلاني، فتح الباري، 4 : 248 | 2 |
عسقلاني، فتح الباري، 7 : 276 | 3 |
کعبہ پر غلاف چڑھانے کے دن کا اِحترام بعض لوگوں کے لیے باعثِ خلجان بنتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کعبہ کو غلاف چڑھا دینے کے بعد معاملہ اپنے انجام کو پہنچا۔ لیکن ہر سال اس دن کی تعظیم اور خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس دن کا احترام کرنا چہ معنیٰ دارد؟ اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت چودہ سو سال قبل ہوئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بحیثیتِ رسولِ خدا لوگوں کو قرآن و سنت کی تعلیم دی۔ یہ معاملہ بہ خیر انجام پایا۔ اب ہر سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یومِ ولادت کے موقع پر محافل میلاد کے اِنعقاد اور جشنِ عید کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا اتنا کافی نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور تعلیمات کی پیروی کی جائے؟
یہ اور اس قبیل کے دوسرے سوالات کے جواب سے پہلے ہر اہل ایمان پر لازم ہے کہ وہ رسول معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقامِ رسالت سے آگاہ رہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقصدِ بعثت سے اپنے ذہن کو روشن رکھے۔ نزولِ قرآن اور تشکیلِ اُسوئہ حسنہ کی اَہمیت سے اپنے زاویۂ نگاہ کو منور کرے اور عالم اسلام کے وجود میں آنے کے مراحل کو اپنی سوچوں کا محور بنائے۔ پھر اسے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریبات کے بارے میں تمام سوالوں کا جواب مل جائے گا۔ کعبہ کو غلاف چڑھانے کا دن ہر سال آتا تو اہلِ عرب ہمیشہ اس دن کا کعبہ کی وجہ سے اِکرام کرتے جس کے باعث یہ باقاعدہ سالانہ تعظیم و تکریم کا دن بن گیا اور اسے مستقلاً منایا جانے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ ولادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اگرچہ ایک عرصہ گزر گیا ہے لیکن اس دن کے بار بار آنے سے اس کی تعظیم یا اس پر فرحت کا اظہار ایسے ہی ضروری ہے جیسے کہ ابو لہب نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کر دیا تھا اور ہر پیر کو اس کے عذاب میں تخفیف ہوتی ہے۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اِس عمل کو جاری رکھا۔ پس ولادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک عرصہ گزر جانے کے بعد بھی یومِ ولادت کو منانا اور اس پر اِظہارِ مسرت و فرحت کرنا نہ صرف درست ہے بلکہ یہ عمل کسی دن کو منانے کی سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی ولادت کی خوشی پر کافر کے عذاب میں تخفیف
2.2.11
مندرجہ بالا دلائل سے یہ واضح ہوا کہ جشن میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا اﷲ تعالیٰ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی سنت ہے، اس لیے محدثین و اَئمہ کرام اور بزرگانِ دین نے کثیر تعداد میں اس کے فضائل و برکات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ تمام کتبِ فضائل و سیرت اور تاریخ اس پر شاہد ہیں۔ اِس ضمن میں ایک مشہور واقعہ درج ہے جو اِمام بخاری (194۔ 256ھ) نے الصحیح کی کتاب النکاح میں نقل کیا ہے۔ اس واقعہ کو زیربحث لانے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ قرآن و حدیث کا مسلمہ اُصول اور اِجماعِ اُمت ہے کہ کافر کی کوئی نیکی اُسے آخرت میں فائدہ نہیں پہنچائے گی۔
اُس کے اُمورِ خیر کے صلہ میں اُسے جنت دی جائے گی نہ اُس کے عذاب میں تخفیف کی جائے گی۔ بلکہ اُس کے اچھے اَعمال کے صلہ میں اُسے دنیا میں ہی کشادگی عطا کر دی جاتی ہے۔ (ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 9 : 145)
آخرت میں نیک کاموں پر جزا کے مستحق صرف مسلمان ہیں کیوں کہ عند اﷲ اَعمال کے اَجر کا باعث اِیمان ہے۔ (عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 20 : 95)
اِس بابت قرآن حکیم فرماتا ہے :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لاَ يُبْخَسُونَO أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلاَّ النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُواْ فِيهَا وَبَاطِلٌ مَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَO
’’جو لوگ (فقط) دنیوی زندگی اور اُس کی زینت (و آرائش) کے طالب ہیں ہم اُن کے اَعمال کا پورا پورا بدلہ اِسی دنیا میں دے دیتے ہیں اور اُنہیں اِس (دنیا کے صلہ) میں کوئی کمی نہیں دی جاتی۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں کچھ (حصہ) نہیں سوائے آتشِ (دوزخ) کے، اور وہ سب (اَعمال اپنے اُخروی اَجر کے حساب سے) اَکارت ہوگئے جو اُنہوں نے دنیا میں اَنجام دیے تھے اور وہ (سب کچھ) باطل و بے کار ہوگیا جو وہ کرتے رہے تھے (کیوں کہ ان کا حساب پورے اَجر کے ساتھ دنیا میں ہی چکا دیا گیا ہے، اور آخرت کے لئے کچھ نہیں بچا)۔ ‘‘
هود، 11 : 15، 16
اب ہم اِمام بخاری کی بیان کردہ اُس روایت کی طرف آتے جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک کافر چچا ابولہب کا ذکر ہے کہ اُسے بھی اﷲ تعالیٰ نے آمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانے پر اَجر سے محروم نہیں رکھا، حالاں کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخالفین میں سرِفہرست تھا۔ یہ ایسا بدبخت شخص تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اس کی مذمت میں پوری سورت نازل فرمائی۔ اِرشاد فرمایا :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّO مَا أَغْنَى عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَO سَيَصْلَى نَارًا ذَاتَ لَهَبٍO
’’ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ ہو جائے (اُس نے ہمارے حبیب پر ہاتھ اُٹھانے کی کوشش کی ہے)۔ اُسے اُس کے (موروثی) مال نے کچھ فائدہ نہ پہنچایا اور نہ ہی اُس کی کمائی نے۔ عنقریب وہ شعلوں والی آگ میں جا پڑے گا۔‘‘
اللهب، 111 : 1 – 3
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ کے حوالہ سے مشہور واقعہ کتبِ اَحادیث میں مذکور ہے کہ ابو لہب نے اپنی ایک لونڈی ثویبہ کو وقتِ ولادت حضرت سیدہ آمنہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت کے لیے بھیجا۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی تو ثویبہ دوڑتی ہوئے ابولہب کے پاس پہنچی اور اسے بھتیجا پیدا ہونے کی خوش خبری سنائی۔ بھتیجے کی پیدائش کی خبر سن کر ابولہب اتنا خوش ہوا کہ اُس نے وہیں اپنے ہاتھ کی دو انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہا : ’’ثویبہ! جا میں نے تجھے نومولود (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیدائش کی خوشی میں آزاد کیا۔‘‘
ابو لہب جب حالت کفر پر ہی مر گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اسے خواب میں دیکھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا کہ مرنے کے بعد تجھ پر کیا گزر رہی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں دن رات سخت عذاب میں جلتا ہوں لیکن جب پیر کا دن آتا ہے تو میرے عذاب میں کمی کر دی جاتی ہے اور میری انگلیوں سے پانی جاری ہو جاتا ہے جسے پی کر مجھے سکون ملتا ہے۔ اِس تخفیف کا باعث یہ ہے کہ میں نے پیر کے دن اپنے بھتیجے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کی خوش خبری سن کر اپنی خادمہ ثویبہ کو ان انگلیوں کا اشارہ کرتے ہوئے آزاد کر دیا تھا۔
یہ واقعہ حضرت زینب بنت اَبی سلمہ سے مروی ہے جسے محدثین کی کثیر تعدادنے واقعہ میلاد کے تناظر میں نقل کیا ہے۔ اِمام بخاری (194۔ 256ھ) کی الصحیح میں مروی حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
فلما مات أبولهب أريه بعض أهله بشرّ حيبة، قال له : ما ذا لقيت؟ قال أبولهب : لم ألق بعدکم غير أني سقيت في هذه بعتاقتي ثويبة.
’’جب ابولہب مر گیا تو اس کے اہل خانہ میں سے کسی کو اُسے خواب میں دکھایا گیا۔ وہ برے حال میں تھا۔ (دیکھنے والے نے) اس سے پوچھا : کیسے ہو؟ ابولہب نے کہا : میں بہت سخت عذاب میں ہوں، اس سے کبھی چھٹکارا نہیں ملتا۔ ہاں مجھے (اس عمل کی جزا کے طور پر) اس (انگلی) سے قدرے سیراب کر دیا جاتا ہے جس سے میں نے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں) ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔‘‘
حوالاجات
بخاري، الصحيح، کتاب النکاح، باب وأمهاتکم اللاتي أرضعنکم، 5 : 1961، رقم : 4813 | 1 |
عبد الرزاق، المصنف، 7 : 478، رقم : 13955 | 2 |
عبد الرزاق، المصنف، 9 : 26، رقم : 16350 | 3 |
مروزي، السنة : 82، رقم : 290 | 4 |
بيهقي، السنن الکبري، 7 : 162، رقم : 13701 | 5 |
بيهقي، شعب الإيمان، 1 : 261، رقم : 281 | 6 |
بيهقي، دلائل النبوة و معرفة أحوال صاحب الشريعة، 1 : 149 | 7 |
ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 108 | 8 |
ابن ابی دنیا نے ’’کتاب المنامات (ص : 154، رقم : 263)‘‘ میں اسے حسن اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے۔ | 9 |
بغوي، شرح السنة، 9 : 76، رقم : 2282 | 10 |
ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1 : 62 | 11 |
سهيلي، الروض الأنف في تفسير السيرة النبوية لابن هشام، 3 : 98، 99 | 12 |
. زيلعي، نصب الراية لأحاديث الهداية، 3 : 168 | 13 |
ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 67 : 171، 172 | 14 |
ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 229، 230 | 15 |
عسقلاني، فتح الباري، 9 : 145 | 16 |
عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 20 : 95 | 17 |
شيباني، حدائق الأنوار، 1 : 134 | 18 |
عامري، شرح بهجة المحافل، 1 : 41 | 19 |
انور شاه کشميري، فيض الباري علي صحيح البخاري، 4 : 278 | 20 |
یہ روایت اگرچہ مُرسَل(1) ہے لیکن مقبول ہے، اِس لیے کہ اِمام بخاری (194۔ 256ھ) نے اسے اپنی ’’الصحیح‘‘ میں نقل کیا ہے اور اَجل علماء و حفاظِ حدیث نے اِس پر اِعتماد کرتے ہوئے اِس سے اِستشہاد و اِستناد کیا ہے۔ ثانیاً یہ روایت فضائل و مناقب کے باب میں ہے نہ کہ حلال و حرام میں؛ اور مناقب و اَحکام کے مابین حدیث کے اِستدلال میں فرق کو علماء خوب جانتے ہیں۔
اُصولِ حدیث میں مرسل اُس حدیث کو کہا جاتا ہے جس کی سند کا آخری حصہ یعنی تابعی سے اوپر کا کوئی راوی ساقط ہو۔
(1) اِس کا حکم یہ ہے کہ جب اَجل تابعی تک یہ روایت صحیح ثابت ہوجائے تو قابلِ حجت ہوگی۔ (2) تین فقہی مذاہب کے بانیان. اِمام اَعظم ابو حنیفہ (80۔ 150ھ)، اِمام مالک (93۔ 179ھ) اور اِمام اَحمد بن حنبل (164۔ 241ھ)۔ اور محدّثین کی کثیر جماعت کے نزدیک مرسل روایت قابلِ حجت ہوتی ہے بشرطیکہ ارسال کرنے والا ثقہ ہو اور وہ ثقہ ہی سے ارسال کرتا ہو۔ (3) ان کی دلیل یہ ہے کہ ثقہ تابعی کے متعلق یقینی ہے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق ’’قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کذا او فعل کذا او فعل بحضرتہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا، یا یہ کیا یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے یہ کیا گیا)‘‘ تب ہی کہے گا جب وہ ثقہ راوی سے سنے گا۔
حوالاجات
۔1۔ذهبي، الموقظة في علم مصطلح الحديث : 38 | (1) |
۔2۔ابن کثير، الباعث الحثيث شرح اختصار علوم الحديث : 48 | |
۔3۔ابن حجر عسقلاني، نزهة النظر بشرح نخبة الفکر في مصطلح حديث أهل الأثر : 36، 37 | |
۔4۔سخاوي، کتاب الغاية في شرح الهداية في علم الرواية، 1 : 272 | |
ذهبي، الموقظة في علم مصطلح الحديث : 39 | (2) |
۔1۔سخاوي، کتاب الغاية في شرح الهداية في علم الرواية، 1 : 273 | (3) |
۔2۔ابن کثير، الباعث الحثيث شرح اختصار علوم الحديث : 48 | |
۔3۔عبد الحق محدث دهلوي، مقدمة في أصول الحديث : 42، 43 |
حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) ’’نزھۃ النظر بشرح نخبۃ الفکر فی مصطلح حدیث اھل الاثر (ص : 37)‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’اِمام اَحمد کے ایک قول اور مالکی و حنفی فقہاء کے مطابق حدیثِ مرسل مطلقاً مقبول ہوتی ہے، اور امام شافعی یہ کہتے ہیں کہ اگر کسی اور سند (خواہ وہ سند متصل ہو یا مرسل) سے مرسل روایت کی تائید ہو جائے تو وہ مقبول ہے ورنہ نہیں۔‘‘
ملا علی قاری حنفی (م 1014ھ) شرح شرح نخبۃ الفکر میں لکھتے ہیں کہ ابن جریر نے یہ تصریح کی ہے کہ حدیث مرسل قبول کرنے پر تمام تابعین کا اِجماع ہے اور کسی تابعی سے اس کا انکار منقول نہیں۔ اور نہ اس کے بعد دو سو (200) سال تک اَئمہ میں سے کسی نے اس کا انکار کیا اور یہی وہ قرونِ فاضلہ ہیں جن کے خیر پر برقرار رہنے کی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہادت دی۔
ذیل میں ہم اِس روایت کے بارے میں چند ائمہ کرام کے ملفوظات نقل کریں گے، جنہوں نے اِس واقعہ سے جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِستشہاد و اِستناد کیا ہے :
1۔ حافظ شمس الدین محمد بن عبد اﷲ جزری (م 660ھ) اپنی تصنیف ’’عرف التعریف بالمولد الشریف‘‘ میں لکھتے ہیں :
فإذا کان أبولهب الکافر الذي نزل القران بذمه جوزيَ في النار بفرحه ليلة مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم به، فما حال المسلم الموحد من أمة النبي صلي الله عليه وآله وسلم يسر بمولده، وبذل ما تصل إليه قدرته في محبته صلي الله عليه وآله وسلم ؟ لعمري إنما يکون جزاؤه من اﷲ الکريم أن يدخله بفضله جنات النعيم.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اَجر میں اُس ابولہب کے عذاب میں بھی تخفیف کر دی جاتی ہے جس کی مذمت میں قرآن حکیم میں ایک مکمل سورت نازل ہوئی ہے۔ تو اُمتِ محمدیہ کے اُس مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشی مناتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و عشق میں حسبِ اِستطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی قسم! میرے نزدیک اﷲ تعالیٰ ایسے مسلمان کو اپنے حبیب مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانے کے طفیل اپنی نعمتوں بھری جنت عطا فرمائیں گے۔‘‘
حوالاجات
سيوطي، الحاوي للفتاوي : 206 | 1 |
سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 65، 66 | 2 |
قسطلاني، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 147 | 3 |
زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 260، 261 | 4 |
يوسف صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 366، 367 | 5 |
نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 237، 238 | 6 |
2۔ حافظ شمس الدین محمد بن ناصر الدین دمشقی (777۔ 842ھ) ’’مورد الصادی فی مولد الہادی‘‘ میں فرماتے ہیں :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
قد صح أن أبالهب يخفّف عنه عذاب النار في مثل يوم الإثنين لإعتاقه ثويبة سرورًا بميلاد النبي صلي الله عليه وآله وسلم.
’’یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی میں ثویبہ کو آزاد کرنے کے صلہ میں ہر پیر کے روز ابولہب کے عذاب میں کمی کی جاتی ہے۔‘‘
اِس کے بعد محمد بن ناصر الدین دمشقی نے درج ذیل اَشعار پڑھے :
إذا کان هذا کافر جاء ذمه
وتبت يداه في الجحيم مخلَّدا
أتي أنه في يوم الاثنين دائما
يخفّف عنه للسّرور بأحمدا
فما الظن بالعبد الذي طولُ عمره
بأحمد مسروراً ومات موحدا
’’جب ابولہب جیسے کافر کے لیے۔ جس کی مذمت قرآن حکیم میں کی گئی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں اُس کے ہاتھ ٹوٹتے رہیں گے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشی منانے کی وجہ سے ہر سوموار کو اُس کے عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے۔ تو کتنا خوش نصیب ہوگا وہ مسلمان جس کی ساری زندگی عبادتِ الٰہی اور میلاد کی خوشیوں میں بسر ہوئی اور وہ حالتِ اِیمان پر فوت ہوا۔‘‘
حوالاجات
سيوطي، الحاوي للفتاوي : 206 | 1 |
سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 66 | 2 |
نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 238 | 3 |
3۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی (958۔ 1052ھ) اِسی روایت کا تذکرہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
در اینجا سند است مراہل موالید را کہ در شبِ میلاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرور کنند و بذل اموال نمایند یعنی ابولہب کہ کافر بود، و قرآن بمذمت وے نازل شدہ، چوں بسرور میلاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و بذل شیر جاریہ وے بجہت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جزا دادہ شد تا حال مسلمان کہ مملوست بمحبت و سرور و بذل مال در وے چہ باشد۔ ولیکن باید کہ از بدعتہا کہ عوام احداث کردہ انداز تغنی وآلات محرمہ ومنکرات خالی باشد تا موجب حرمان اَز طریقہ اِتباع نگردد۔
’’یہ روایت موقعِ میلاد پر خوشی منانے اور مال صدقہ کرنے والوں کے لیے دلیل اور سند ہے۔ ابولہب جس کی مذمت میں ایک مکمل سورتِ قرآنی نازل ہوئی جب وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں لونڈی آزاد کر کے عذاب میں تخفیف حاصل کر لیتا ہے تو اس مسلمان کی خوش نصیبی کا کیا عالم ہوگا جو اپنے دل میں موجزن محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے ولادتِ مصطفیٰ کے دن مسرت اور عقیدت کا اظہار کرے۔ ہاں بدعات مثلاً رقص اور غیر اسلامی اعمال وغیرہ سے اجتناب ضروری ہے کیوں کہ انسان اس کے باعث میلاد کی برکات سے محروم ہو جاتا ہے۔‘‘
عبد الحق، مدارج النبوة، 2 : 19
صحیح بخاری کی اس روایت کے تحت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:”اس حدیث میں میلاد شریف والوں کے لیے حجت ہے کہ جو تاجدار رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شبِ ولادت میں خوشیاں مناتے اور مال خرچ کرتے ہیں۔مطلب یہ کہ باوجودیکہ ابولہب کافر تھا اور اس کی مذمت قرآن میں نازل ہوچکی ہے ، جب اس نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی میلاد کی خوشی کی اور اس نے اپنی باندی کودودھ پلانے کی خاطر آزاد کردیا ، تو حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی طرف سے حق تعالیٰ نے اسے اس کا بدلہ عنایت فرمایا۔(مدارج النبوۃجلد2 ص34، مطبوعہ ضیاء القرآن،کراچی)
4۔ مولانا محمد عبد الحئ فرنگی محلی لکھنوی (1264۔ 1304ھ) لکھتے ہیں :
’’پس جب ابولہب ایسے کافر پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی کی وجہ سے عذاب میں تخفیف ہو گئی تو جو کوئی امتی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی کرے اور اپنی قدرت کے موافق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں خرچ کرے کیوں کر اعلیٰ مرتبہ کو نہ پہنچے گا، جیسا کہ ابن جوزی (510۔ 579ھ) اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی (958۔ 1052ھ) نے لکھا ہے۔‘‘
عبد الحئ، مجموعه فتاويٰ، 2 : 282
5۔ مفتی رشید احمد لدھیانوی (و 1341ھ) تحریر کرتے ہیں :
’’جب ابولہب جیسے بدبخت کافر کے لیے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی کی وجہ سے عذاب میں تخفیف ہو گئی تو جو کوئی اُمتی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی کرے اور حسبِ وسعت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں خرچ کرے تو کیوں کر اَعلیٰ مراتب حاصل نہ کرے گا۔‘‘
لدهيانوي، احسن الفتاويٰ، 1 : 347، 348
اِن اَئمہ و علماء کا ثویبہ کے واقعہ سے اِستدلال کرنا اس روایت کی صحت و حقانیت پر بھی دلالت کرتا ہے اور جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جواز کا بھی بيّن ثبوت ہے۔
کافر کے عذاب میں تخفیف کیوں؟
مذکورہ بالا تفصیل سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ابولہب کے عذاب میں تخفیف کیوں کی گئی جب کہ قرآن و حدیث اور اِجماعِ اُمت کی رُو سے کافر کا کوئی عمل بھی قابلِ اَجر نہیں اور آخرت میں اَجر و ثواب کا مستحق صرف صاحبِ ایمان ہی ہے؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ ابولہب کے اِس عمل کا تعلق چوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس سے تھا اور اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کیا تھا، اِس لیے اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کا جشن منانے پر اُس کافر کے عذاب میں بھی تخفیف کردی جس کی مذمت میں پوری ایک سورۃ نازل فرمائی تھی۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کافر کا وہ عمل جس کا تعلق رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے رائیگاں نہیں جائے گا۔
ابولہب سے ہفتہ وار تخفیفِ عذاب اِس سبب سے نہیں ہوئی کہ اُس نے اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔ بلکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت پر خوشی منانا ہی اِس اِنعام کا باعث ہے اور اُس کا یہی عمل کافر ہوتے ہوئے بھی اُس کے عذاب میں رعایت کا سبب بن گیا۔ اﷲ تعالیٰ یہ نہیں دیکھتا کہ عمل کرنے والا کون ہے بلکہ یہ دیکھتا ہے کہ عمل کس کے لیے کیا گیا ہے۔ اُسے اِس سے غرض نہیں کہ عمل کرنے والا ابو لہب ایک کافر تھا کیوں کہ اُس کی ساری شفقتیں تو اپنے حبیبِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ خاص ہیں۔
وضاحت کے لیے محدثین کی چندمزید تصریحات درج ذیل ہیں :
1۔ اِمام بیہقی (384۔ 458ھ) شعب الایمان میں لکھتے ہیں کہ یہ خصائص محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے ہے کہ کفار کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کا صلہ عطا کیا جاتا ہے :
وهذا أيضا لأن الإحسان کان مرجعه إلي صاحب النبوة، فلم يضع.
’’اور یہ اِس لیے ہے کہ ابو لہب کے اِحسان کا مرجع صاحبِ نبوت ذات تھی، اس لیے اُس کا عمل ضائع نہیں کیا گیا۔‘‘
بيهقي، شعب الإيمان، 1 : 261، رقم : 281
2۔ اِمام بغوی (436۔ 516ھ) لکھتے ہیں :
هذا خاص به إکرامًا له صلي الله عليه وآله وسلم.
’’ابو لہب کے عذاب میں تخفیف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِکرام کی وجہ سے ہے۔‘‘
بغوي، شرح السنة، 9 : 76
3۔ اِمام سہیلی (508۔ 581ھ) نے بھی یہی نقطہ نظر اِختیار کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک روایت میں ہے :
قال : مالقيت بعدکم راحة، غير أني سُقيت في مثل هذه، وأشار إلي النقرة بين السبابة والإبهام، بعِتقي ثويبة، وفي غير البخاري إن الذي رآه من أهله هو أخوه العباس، قال : مکثت حولا بعد موت أبي لهب لا أراه في نوم، ثم رأيته في شر حال، فقال : ما لقيت بعدکم راحة إلا أن العذاب يخفّف عني کل يوم اثنين. وذلک أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ولد يوم الإثنين، وکانت ثويبة قد بشّرته بمولده، فقالت له : أشعرت أن آمنة ولدت غلامًا لأخيک عبد اﷲ؟ فقل لها : اذهبي، فأنت حرة، فنفعه ذلک.
’’ابو لہب نے کہا : میں نے تمہارے بعد آرام نہیں پایا سوائے اس کے کہ ثویبہ لونڈی کے آزاد کرنے پر مجھے اتنا پانی پلایا جاتا ہے، اور (یہ کہتے ہوئے) اُس نے سبابہ (انگشتِ شہادت) اور انگوٹھے کے درمیانی فاصلے کی طرف اشارہ کیا۔ صحیح بخاری کے علاوہ دیگر روایات میں ہے کہ اُس کے اہلِ خانہ میں سے جس فرد نے اُسے دیکھا وہ اُس کے بھائی حضرت عباس رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ نے فرمایا : میں ابولہب کی موت کے بعد ایک سال تک اُسے خواب میں دیکھتا رہا، پھر میں نے اُسے بہت بری حالت میں دیکھا تو اُس نے کہا : میں نے تمہارے بعد کوئی آرام نہیں پایا سوائے اِس کے کہ ہر پیر کے روز میرے عذاب میں کمی کر دی جاتی ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت پیر کے دن ہوئی اور ثویبہ نے ابولہب کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوش خبری سنائی تھی، اور اسے کہا تھا : کیا تجھے پتہ چلا ہے کہ آمنہ (رضی اﷲ عنھا) کے ہاں تیرے بھائی عبد اﷲ (رضی اللہ عنہ) کا بیٹا پیدا ہوا ہے؟ (اِس پر خوش ہوکر) ابو لہب نے اُس سے کہا : جا، تو آزاد ہے۔ اِس (خوشی منانے) نے اُسے دوزخ کی آگ میں فائدہ پہنچایا۔‘‘
سهيلي، الروض الأنف في تفسير السيرة النبوية لابن هشام، 3 : 98، 99
4۔ رئیس المفسرین اِمام قرطبی (م 671 ھ) فرماتے ہیں :
هذا التخفيف خاص بهذا وبمن ورد النص فيه.
’’جب نصِ صحیح میں آچکا ہے کہ کافر کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کے صلہ میں اَجر ملتا ہے تو ایسے مقام پر اُسے مانا جائے گا۔‘‘
عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 20 : 95
5۔ شارِحِ صحیح بخاری اِمام کرمانی (717۔ 786ھ) لکھتے ہیں :
يحتمل أن يکون العمل الصالح والخير الذي يتعلق بالرسول صلي الله عليه وآله وسلم مخصوصا من ذالک.
’’اِس واقعہ کو اِس پر محمول کیا جائے گا کہ کافر کے اُس عمل اور بھلائی پر اَجر و ثواب دیا جاتا ہے جس کا تعلق اﷲ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہو۔‘‘
کرماني، الکواکب الدراري في شرح صحيح البخاري، 19 : 79
6۔ شارِحِ صحیح بخاری اِمام بدر الدین عینی (762۔ 855ھ) بیان کرتے ہیں :
يحتمل أن يکون ما يتعلق بالنبي صلي الله عليه وآله وسلم مخصوصا من ذلک.
’’اِس واقعہ کو اِس پر محمول کیا جائے گا کہ وہ اَعمال جن کا تعلق ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہو اُن کے ذریعے کافر کے عذاب میں تخفیف ہو جاتی ہے۔‘‘
عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 20 : 95
7۔ اِمام جلال الدین سیوطی (849۔ 911ھ) نے یہ موقف بالصراحت بیان کیا ہے، جیسا کہ ہم نے گزشتہ صفحات میں اُن کی کتب الحاوی للفتاوی اور حسن المقصد فی عمل المولد سے مختلف عبارات نقل کی ہیں۔
8۔ اِمام عبد الرحمن بن دبیع شیبانی (866۔ 944ھ) لکھتے ہیں :
فتخفيف العذاب عنه إنما هو کرامة النبي صلي الله عليه وآله وسلم.
’’ابولہب کے عذاب میں یہ تخفیف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِکرام کی وجہ سے ہوئی۔‘‘
شيباني، حدائق الأنوار، 1 : 134
اِن تصریحات سے ثابت ہوتا ہے کہ نادانستہ طور پر آمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانے والے بدترین کافر کو بھی اﷲ تعالیٰ اِس عمل کی جزا دے رہا ہے اور قیامت تک دیتا رہے گا۔ اور یہ صرف اور صرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے کیے جانے والے اَعمال کی خصوصیت ہے کہ اگر کافر بھی کوئی عمل کرے گا تو اس کو جزا دی جائے گی۔
ایک اِعتراض اور اُس کا جواب
بعض لوگ اِس روایت پر اِعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ معاملہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ خواب میں پیش آیا اور وہ اُس وقت تک ایمان بھی نہیں لائے تھے۔ لہٰذا اِسے شرعی ضابطہ کیوں کر بنایا جا سکتا ہے؟
اِس اِعتراض کا جواب یہ ہے کہ :
جب ہم اِس واقعہ کو اپنے موقف میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خوشی منانا باعثِ اَجر و ثواب ہے۔ کی تائید میں بطور دلیل لیتے ہیں تو ہم ابو لہب کا بیان اپنی دلیل کی بنیاد نہیں بناتے۔ ہمارے اِستدلال کی بنیاد حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی روایت پر ہوتی ہے۔ | 1 |
اگرچہ یہ واقعہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے اِسلام لانے سے پہلے کا ہے لیکن اِسے روایت کرتے وقت اُن کا مشرف بہ اِسلام ہونا شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ یہ روایت اُنہوں نے شرفِ صحابیت حاصل کرنے کے بعد مدینہ منورہ میں بیان کی تھی۔ لہٰذا آپ کی یہ روایت نورِ اِسلام حاصل ہوجانے کے بعد کی ہے اور ہر طرح سے قابلِ لحاظ و لائق اِستناد ہے۔ | 2 |
اس حدیث کی ثقاہت اور قبولیت کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے کہ اِس روایت پر اِعتماد کرتے ہوئے اِمام بخاری (194۔ 256ھ) نے اسے الصحیح میں روایت کیا ہے۔ اگر اِمام بخاری کی نظر میں یہ حدیث قابلِ اِستناد نہ ہوتی تو وہ ہرگز اسے اپنی الصحیح میں شامل نہ کرتے بلکہ اِسے مسترد کر دیتے۔ ان کے علاوہ اِمام بخاری کے اُستاد اِمام عبد الرزاق بن ہمام صنعانی (126۔ 211ھ) نے اِسے المصنف میں روایت کیا ہے۔ اِمام مروزی (202۔ 294ھ) نے السنۃ میں درج کیا ہے۔ اِمام بیہقی (384۔ 458ھ) نے یہ روایت اپنی تین کتب. السنن الکبری، شعب الایمان، دلائل النبوۃ و معرفۃ احوال صاحب الشریعۃ. میں بیان کی ہے۔ اِمام ابن کثیر (701۔ 774ھ) نے یہ روایت البدایۃ والنہایۃ میں درج کی ہے۔ ابن سعد (168۔ 230ھ) نے الطبقات الکبری میں، اِمام بغوی (436۔ 516ھ) نے شرح السنۃ میں، ابن جوزی (510۔ 579ھ) نے صفوۃ الصفوۃ میں، سہیلی (508۔ 581ھ) نے الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ہشام میں اور ابن عساکر (499۔ 571ھ) نے تاریخ دمشق الکبیر میں اِسے روایت کیا ہے۔ اگر یہ روایت صحیح نہ ہوتی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خوشی منانے کے صلہ میں ابولہب کے عذاب میں تخفیف کا واقعہ درست نہ ہوتا تو مذکورہ بالا اَجل علماء و محدثین سمیت دیگر ائمہ کرام یہ روایت اپنی اپنی کتب میں کیوں بیان فرماتے؟ اِن اَجل ائمہ و محدثین نے نہ صرف اِسے روایت کیا ہے بلکہ اِس سے اِستنباط کرتے ہوئے اِس کی شرح بیان کی ہے جس پر کسی حاشیہ آرائی کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ | 3 |
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہماری نظر میں اِس حدیث کے قابلِ اِستناد و اِستدلال ہونے کی دلیل حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا اِسے بیان کرنا، اِمام بخاری کا بطورِ حدیث اِسے قبول کرنا اور درجنوں ائمہ حدیث کا اپنی اپنی کتب میں اِسے شرعی قواعد و ضوابط کے طور پر درج کرکے اس سے میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کی شرعی اِباحت کا اِستدلال و اِستنباط کرنا ہے۔
عبرت آموز حقیقت
مذکورہ بالا واقعہ سے ایک طرف تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر کیا جانے والا معمولی سا عمل بھی بارگاہِ ایزدی میں باعثِ اَجر ہے خواہ وہ کسی کافر کا ہی کیوں نہ ہو۔ دوسری طرف مومنین کے لیے وعید ہے کہ مومن زندگی بھر کروڑوں نیک عمل کرتا رہے لیکن اگر اس سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی ایک معمولی سی بے ادبی سرزد ہو جائے تو مومن ہوتے ہوئے بھی اُس کے سارے اَعمال غارت کردیے جاتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ.
’’اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کونبیء مکرّم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ بات کرتے ہو۔‘‘
الحجرات، 49 : 2
یہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو حکم دیا جا رہا ہے کہ اِحتیاط سے اپنی آوازوں کو پست رکھا کریں اور آپس میں بات کرتے ہوئے اپنی آواز اتنی بلند نہ کیا کریں کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تبسم شعار لبوں سے نکلی ہوئی شیریں آواز سے اونچی ہو جائے۔ بارگاہِ نبوت کا یہ ادب خود اﷲ رب العزت سکھا رہا ہے۔ بصورتِ دیگر واضح الفاظ میں حکم فرما رہا ہے کہ میرے باز رکھنے کے باوجود اگر نہیں سمجھو گے اور بے احتیاطی سے کام لو گے تو سن لو :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَO
’’(ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اَعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہو جائیں اور تمہیں (ایمان اور اَعمال کے برباد ہو جانے کا) شعور تک بھی نہ ہوo‘‘
الحجرات، 49 : 2
یہاں توحید کے اِنکار کا ذکر ہے نہ سنت کے انکار کا، نبوت و رسالت کے انکار کا ذکر ہے نہ آخرت کے اِنکار کا، نماز روزے سے اِنحراف کا ذکر ہے نہ حج و زکوٰۃ کے اِنکار کا ذکر ہے۔ صرف آواز ہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سے بلند ہوگئی تو نتیجتاً پوری زندگی کے نیک اَعمال برباد ہو جانے کی کڑی وعید سنائی جا رہی ہے۔
اِس بحث کی روشنی میں یہ تصور ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ اگر ایک طرف کروڑوں عمل ہوں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں معمولی سی بے ادبی ہو جائے تو آخرت میں ان تمام اَعمال کی جزا سے محروم کر دیا جائے گا، اور دوسری طرف اگر کافر و دشمنِ اِسلام اور توحید و رسالت کا منکر شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد اور تعظیم میں ایک عمل بھی کر دے تو اسے اس عمل کی جزا عالمِ برزخ اور آخرت دونوں میں دی جائے گی۔
تمام اِنسانی اَعمال کی عظمت و قبولیت اُسی عمل کے سبب سے ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں کیا جائے اور اگر دل محبتِ رسول سے خالی ہے تو کوئی بھی نیک عمل بارگاہِ خداوندی میں باعثِ اَجر و ثواب نہیں ہوگا۔ اِسی لیے اہلِ دل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اَقدس میں عرض کرتے ہوئے کہتے ہیں :
ای کریمی کہ اَز خزانہ غیب
گبر و ترسا وظیفہ خور داری
دوستاں را کجا کنی محروم
تو کہ با دشمناں نظر داری
سعدی، کلیات (گلستان) : 66
(اے جود و سخا کے پیکرِ اَتم! آپ کی کرم نوازیوں کا یہ عالم ہے کہ اِس خرمنِ جود و سخا سے کوئی بت پرست و آتش پرست بھی محروم نہیں۔ آپ اپنے عاشقوں کو کیسے اپنے کرم سے محروم رکھ سکتے ہیں جب کہ آپ کی نظرِ شفقت تو دشمنوں پر بھی ہے۔)
اِس باب میں دی گئی روایات و اَبحاث سے واضح ہوجاتا ہے کہ آمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول و فعل دونوں سے ثابت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خوشی منانا کوئی غیر شرعی فعل نہیں بلکہ منشائے خدا و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عین مطابق اور تقاضائے اِسلام ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کا جشن منانے پر کفار بھی اَجر سے محروم نہیں رہتے۔ لہٰذا جب گنہگار اُمتی ایسا کریں گے تو وہ کیسے اُخروی نعمتوں سے محروم رہ سکتے ہیں۔
خلاصہ میلادِ مصطفٰی ﷺ فی ثبوتِ حدیث نبویؐ
2.2.12
سابقہ باب میں قرآن مجید میں موجود میلادالنبی ﷺ کی جزئیات سے متعلقہ اصول وکلیات پر غور و فکر کرنے کے بعد اس باب میں ہم نے حیاتِ نبویؐ میں اس کے عملی نمونے بیان کیے ہیں۔ کیونکہ قرآن کریم میں اصول وکلیات بیان کیے گئےہے جس کی جزئیات ہمیں ترجمان القرآن‘ رسول کریم ﷺ کی احادیث سے ملتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں:
’’ہم نے آپ پر قرآن نازل کیا تا کہ اسے لوگوں کے لیے واضح کریں۔‘‘
یعنی رسول اللہ ﷺ نے خود قرآن پر عمل کر کے قرآن کے ضابطہ حیات کو ہمارے لئے واضح فرمایا دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
’’ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا تم ہی میں سے کہ پڑھتا ہے تم پر ہماری آیتیں اور پاک کرتا ہے تم کو اور سکھاتا ہے کتاب اور حکمت کی باتیں جو تم نہیں جانتے۔‘‘
اس آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے تعلیمِ رسول کریم ﷺ کے لیے حکمت کا لفظ منتخب کیا ہے جو قرآن کے علاوہ ہے۔ یہی سنت نبوی ﷺ ہے جس پرآپ ﷺ نے خود عمل کرکے دکھایا اور اِسکی تعلیم آپ ﷺ نے صحابہ کرام کو بھی دی ۔
ماخوذِ احادیثِ مبارکہ:
اس باب میں بیان کردہ احادیثِ مبارکہ پر غور و فکر کرنے کے بعد بِلا شک و شبہ یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کا جیسا چرچا فرمایا اس کی کوئی اور مثال نہیں ہے۔ تمام آسمانوں پر کوئی جگہ ایسی نہیں پائی جاتی جس میں حضرت محمد مصطفی ﷺ کا اسمِ مبارک ﷺ لکھا ہوا نہ ہو۔ | 1 |
آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے سابقہ آسمانی کتابوں میں بھی آپ ﷺ کی آمد ِمبارک کا چرچا جاری رہا اور سابقہ امتیں آپ کی آمد کے انتظار میں رہیں۔ | 2 |
آپ ﷺ کی ولادت کے وقت اللہ سبحانہ وتعالیٰ پوری دنیا کو نور سے روشن کر دیا۔آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اﷲ عنہا نےاس وقت زمین کے مشرق و مغرب کو دیکھ لیا، آپ نے تین جھنڈے نصب کئے ہوئے دیکھے، ایک مشرق میں، ایک مغرب میں اورایک کعبہ کی چھت پر۔ | 3 |
آپ ﷺ کی ولادت عام الفیل میں ہوئی جو قریش والوں کے لئے بڑی خوشی کا سال تھا کیونکہ اس سال ہاتھی والوں کو اللہ تعالی نے تباہ کیا اورقریش اور کعبہ کو اپنی امان میں رکھا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس سال کو کیسے غم کا سال بننے دینا تھا جس سال اپنے حبیب ﷺ کوپیدا فرمانا تھا۔ | 4 |
آپ ﷺ خود بھی اپنے یومِ ولادت کی تعظیم فرماتے ۔ اِس کائنات میں اپنے ظہور وجود پر سپاس گزار ہوتے ہوئے اپنے میلاد کے دن روزہ رکھ کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اِظہارِ تشکر و اِمتنان فرماتے۔ | 5 |
آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کا شکر بجالاتے ہوئے اپنی ولادت کی خوشی میں بکرے ذبح کیے اور ضیافت کا اہتمام فرمایا۔ | 6 |
آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے سامنے اپنی ولادت سے بھی پہلے اپنی تخلیق اور نبوت کے بارے میں چرچا فرماتے۔ | 7 |
آپ ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اِجتماع کا اہتمام فرما کر اپنی حسبی و نسبی فضیلت اوربے مثل ولادت کابھی چرچا فرماتے۔ | 8 |
آپ ﷺکا شرف و فضیلت تمام انبیاء پر احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کیونکہ آپﷺ کا اللہ کا حبیب ہونا، آپ ﷺکا مقامِ محمود اورحوضِ کوثر پر فائز ہونا، قیامت کے دن تمام انبیاء کا ہرامت کوآپ ﷺ کی طرف بھیجنا، قیامت کے دن آپ ﷺ کوسب سے پہلے اللہ کی حمد بیان کرنے کی اجازت ملنا (جس سے اللہ کا غصہ ختم ہو گا ) اور ان کے علاوہ بہت سے دیگر فضائل ایسے ہیں جن سے آپ کی فضیلت دوسرے انبیاء پر ثابت ہوتی ہے۔ | 9 |
آپ ﷺ نے خود اپنی ذاتِ مبارکہ کی شان میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے نعت سنتے اور اس پر خوشی و مسرت کا اظہار فرماتے ہوئے اُن صحابہ کے لیے دعا بھی فرماتے تھے۔ | 10 |
اِنصارِ مدینہ کی بچیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے موقع پر درج ذیل اَشعار ہمیں سکھا دیا کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ اتنی عظیم نعمت ہیں کہ قیامت تک ہم پر اس کا شکر واجب ہے: طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا مِنْ ثَنِيّاتِ الْودَاعِ وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَيْنَا مَا دَعَاِﷲِ دَاعٍ (ہم پروداع کی چوٹیوں سے چودھویں رات کا چاند طلوع ہوا، جب تک لوگ اللہ کو پکارتے رہیں گے ہم پر اس کا شکر واجب ہے۔) | 11 |
آپ ﷺ کی ولادت ِمبارکہ پر صحابہ کرام نے بھی خوشی منائی۔ روایات شاہد ہیں کہ ولادتِ مصطفیٰ ﷺ کے غیر معمولی و مبارک واقعات کے تذکرے صحابہ کرام تک پہنچے اور پھر صحابہ کرام نے ان واقعات کوخوشی و مسرت کے ساتھ دوسرے صحابہ کرام تک پہنچاِئے۔ [ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جب یہ واقعات ان تک پہنچےوہ دینِ ابراھیم پر تھے یا کسی اور دین پر تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ جب صحابہ کرام دینِ اسلام میں داخل ہوئے تو انہوں نے ان واقعات کا بڑی خوشی سے ایک دوسرے کے سامنے چرچا کیا اسی لیے آج ان واقعات کا تذکرہ احادیث کی کتابوں کے ذریعے ہم تک پہنچا]۔ | 12 |
قرآن حکیم میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ • رسولوں کی خبریں عقل مندوں کیلئے سبق ہیں • رسولوں کی خبروں سے دلوں کو قوت ملتی ہے یعنی ایمان و یقین بڑھتا ہے • رسولوں کی خبروں میں مسلمانوں کے لئے وعظ و نصیحت ہے حدیثِ یومِ عاشورہ میں ہم پر واضح ہوا حضور ﷺ نے خود حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت سے اِس دن کو منایا اور روزہ رکھا، گویا کہ ان آیات پر رسول اللہ ﷺ نے خود بھی عمل کر کے دیکھادیا۔ یعنی کہ ایک نبی کی سنت کو اپنا یا ۔ جس سے کسی عظیم دن کو منانے کا جواز خود سنتِ مصطفیٰ ﷺ سے مل رہا ہے۔ اسی لیے محدثین نے احادیث میں یوم عاشورہ کے حوالے سے میلادالنبی کو عید مسرت کے طور پر منانے پر استدلال کیا ہے۔ | 13 |
یومِ عاشورہ منانے کا یہ پہلو بھی بیان ہوا ہے کہ عاشورہ حضرت نوح علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں پر اﷲ تعالیٰ کے فضل و انعام کا دن تھا۔ اس روز وہ کشتی ِ نوع بہ حفاظت جودی پہاڑ پر ٹھہری تو حضرت نوح نےبھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے روزہ رکھا۔ | 14 |
ظ ابن حجر عسقلانی نے احادیثِ یومِ عاشورہ سے عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اِستدلال کرتے ہوئے اُس دن کی شرعی حیثیت کو واضح طور پر متحقق کیا ہے اور اس سے یوم میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کی اِباحت پر دلیل قائم کی ہے۔ شیخ الاسلام حافظ ابن حجر سے میلاد شریف کے عمل کے حوالہ سے پوچھا گیا تو آپ نے اس کا جواب کچھ یوں دیا : ’’مجھے میلاد شریف کے بارے میں اصل تخریج کا پتہ چلا ہے۔ ’’صحیحین‘‘ سے ثابت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا : ایسا کیوں کرتے ہو؟ اس پر وہ عرض کناں ہوئے کہ اس دن ﷲ تعالیٰ نے فرعون کو غرق کیا اور موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی، سو ہم ﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر بجا لانے کے لیے اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔ ’’اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہاﷲ تعالیٰ کی طرف سے کسی اِحسان و اِنعام کے عطا ہونے یا کسی مصیبت کے ٹل جانے پر کسی معین دن میںاﷲ تعالیٰ کا شکر بجا لانا اور ہر سال اس دن کی یاد تازہ کرنا مناسب تر ہے۔ ’’ﷲ تعالیٰ کا شکر نماز و سجدہ، روزہ، صدقہ اور تلاوتِ قرآن و دیگر عبادات کے ذریعہ بجا لایا جا سکتا ہے اور حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے بڑھ کر ﷲ کی نعمتوں میں سے کون سی نعمت ہے؟ اس لیے اس دن ضرور شکرانہ بجا لانا چاہیے۔‘‘ | 15 |
حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت ہوئی تو آپ ﷺ کے چچا ابولہب اتنا خوش ہوا کہ اُس نے اپنی خادمہ ثویبہ کوآپ ﷺ کی ولادت کی خوشی میں آزاد کیا۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو اُس نے خواب میں بتایا کہ اس کے عذاب میں پیر کا دن کمی کر دی جاتی ہے ۔اس کی انگلیوں سے پانی جاری ہو تا ہے جسے پی کراسے سکون ملتا ہے۔ کیونکہ میں نے پیر کے دن اپنے بھتیجے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کی خوش خبری سن کر اپنی خادمہ ثویبہ کو ان انگلیوں کا اشارہ کرتے ہوئے آزاد کر دیا تھا۔ اس حدیث مبارکہ سےبہت سے جید محدثین نے استدلال کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اَجر میں اُس ابولہب کے عذاب میں بھی تخفیف کر دی جاتی ہے جس کی مذمت میں قرآن حکیم میں ایک مکمل سورت نازل ہوئی ہے۔ تو اُمتِ محمدیہ کے اُس مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشی مناتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و عشق میں حسبِ اِستطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی قسم! ہمارے نزدیک اﷲ تعالیٰ ایسے مسلمان کو اپنے حبیب مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانے کے طفیل اپنی نعمتوں بھری جنت عطا فرمائیں گے۔ | 16 |
قرآن کے مطابق اللہ کی [ایک بار]عطا کی گئ نعمت پر ہر سال عید منانا مرادِ نبی ہے۔یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مائدہ کے نزول کو اپنی قوم کے لیے ہر سال عید قرار دیا۔ حدیث نبوی ﷺ کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کی نجات جیسی عظیم نعمت کے دن پر ہر سال اُسی دن خوشی مناتے ہوئے روزہ رکھتے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی ایک نبی کی خوشی اور سنت کو اپنایا اور ہر سال روزہ رکھا۔ اسی لیےآپﷺ کے امتی انبیاء کی اِسی سنت کو جاری رکھتے ہوئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی سب سے عظیم نعمت میلادالنبی کی خوشی کو عید مسرت کے طور پرمناتےہیں۔ قرآن کے مطابق انبیاء کی ولادت کا دن خاص اہمیت رکھتا ہے اسی لیے اللہ تعالی انبیاء پراس دن سلام بھجتا ہے۔ | 17 |
احادیث ِمبارکہ کا فیصلہ
ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ذکر ِمصطفی ﷺ ازل تا ابد جاری و ساری ہے۔ قرآن کی طرح احادیث ِمبارکہ نے بھی فیصلہ کردیا کہ نبیﷺ سے بڑھ کر کائنات میں کوئی رحمت و نعمت نہیں اور ساتھ میں سنتِ رسول اور سنتِ صحابہ سے ہمیں یہ بھی درس ملتا ہے کہ اس کا چرچا کرو اور خوشیاں مناؤ ۔ اس لئیے مسلمان اگر رحمتہ للعالمین کی آمد کی خوشی نہیں منائیں گے تو اور کون سی رحمت پر منائیں گے۔ لازم ہے کہ مسلمان رحمت دوعالمﷺ کی آمد کی خوشیاں منائیں۔
قرآن حکیم میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ
۔1۔رسولوں کی خبریں عقل مندوں کیلئے سبق ہیں
۔2۔رسولوں کی خبروں سے دلوں کو قوت ملتی ہے یعنی ایمان و یقین بڑھتا ہے
۔3۔رسولوں کی خبروں میں مسلمانوں کے لئے وعظ و نصیحت ہے
رسول اللہ ﷺ نے قرآن حکیم کی ان آیات پر خود عمل کر کے حدیثِ یومِ عاشورہ میں ہمیں عملی نمونہ دیکھادیا ۔ حضور ﷺ نے خود حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت سے اِس دن کو منایا اور روزہ رکھا، یعنی ایک نبی کی سنت کو اپنا کر ہم پرواضح کر دیا کہ قرآن حکیم میں بیان کردہ انبیاء کی دعائوں اور عملوں کو اپنانا منشاء ربی ہے۔ کیونکہ قرآن حکیم میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سورۃ انبیاء میں 16 انبیاء اور حضرت مریم کے واقعات کا ذکر بیان کرنے کے فوراَ بعد ارشاد فرمایا کہ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اِنَّ هٰذِهٖ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً ﳲ وَّ اَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْنِ
بےشک تمہارا یہ دین ایک ہی دین ہے اور میں تمہارا رب ہوں تو میری عبادت کرو
النبیاء ، 92 : 21
قرآن حکیم کی اس آیت میں بھی اللہ تعالی نے واضح کر دیا کہ انبیاء کی دعائوں اور عملوں کو اپنانا منشاء حق ہے۔ جس طرح میلاد النبی ﷺ کاہر جزء قرآن پاک کی نص سے ثابت ہے ، اِسی طرح میلاد النبی ﷺ کاہر جزء حدیث نبویؐ کی نص سے بھی ثابت ہے ۔ میلاد النبی ﷺ کاہر جزء اتباہِ مصطفی اور اتباہِ صحابہ اکرام ہے اور بیشک مجموعی طور پربھی محفلِ میلاد النبی ﷺ کی صورت میں اِسے شرعی جواز حاصل ہے۔ کیونکہ یہ تو ممکن نہیں کہ قرآن وحدیث میں بیان کردہ احسن احکام انفرادی طور پر جائز اور باعثِ ثواب ہوں اور جب ان کو اکٹھا کریں تو یہ ناجائز اور خلافِ شرح ہو جائیں۔ لہٰذا یومِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا بھی اِتباعِ سنتِ مصطفیٰ ﷺ کے زمرے میں آتا ہے۔
اسلئےاِن احادیثِ مبارکہ میں بیان کی گئ سنتِمصطفی اور سنتِ صحابہ اکرام پر عمل پیرا ہوتے ہوئے امتِ محمدیﷺ صدیوں سے رسول اللہ کا ذکرِ رحمت کرتی چلی آرہی ہے اور اِسے باقی محافل سے منفرد کرنے کے لیے میلاد النبی ﷺ کا نام دیا گیا ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت و بعثت کو یاد کرنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت و سیرت، فضائل و کمالات اورخصائص و معجزات کا ذکر کرنا بارگاہِ خداوندی میں اس نعمت عظمیٰ کا شکر ادا کرنے کی ہی ایک صور ت ہے۔ اس نعمت جلیلہ کا ذکر کر کے ہم خود کو بلند کرتے ہیں ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر تو وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ کے فرمودۂ خداوندی کے مطابق ہر روز افزوں ہی رہے گا۔ اور ہر آنے والی ساعت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کی رفعتوں کو بلند سے بلند تر ہوتا دیکھے گی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْأُولَى
’’اور بے شک (ہر) بعد کی گھڑی آپ کے لیے پہلی سے بہتر (یعنی باعثِ عظمت و رفعت) ہےo‘‘
الضحیٰ، 93 : 4
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ
’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیاo‘‘
الإنشراح، 94 : 4
اس سے پتہ چلتا ہے کہ اب کوئی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرے گا تو اس سے اس کی اپنی ذات کو فائدہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد مبارک کے موقع پر اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں بطور شکرانہ خوشی منائے گا تو یہ بھی اس کے اپنے مفاد میں ہے، ایسا کرنے والا کسی پر احسان نہیں کر رہا بلکہ اپنا ہی توشۂ آخرت جمع کر رہا ہے۔
اس لیے محفلِ میلاد روحانی طور پر ایک قابلِ تحسین، قابلِ قبول اور پسندیدہ عمل ہے۔ ایسی مستحسن اور مبارک محافل کے بارے میں جواز! عدمِ جواز کا سوال اٹھانا یقیناً حقائق سے لا علمی، ضد اور ہٹ دھرمی ہے۔
قرآن و حدیث کی تنبیع
مسلمانوں یاد رکھو کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ متکبرین کو اپنی آیات سے دور کر دیتاہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالی نےقرآن میں اُن کی یہی سزا تجویز کی ہے۔ فرمانِ باری تعالی ہے:
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِیَ الَّذِیْنَ یَتَكَبَّرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّؕ-وَ اِنْ یَّرَوْا كُلَّ اٰیَةٍ لَّا یُؤْمِنُوْا بِهَاۚ-وَ اِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الرُّشْدِ لَا یَتَّخِذُوْهُ سَبِیْلًاۚ-وَ اِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الْغَیِّ یَتَّخِذُوْهُ سَبِیْلًاؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ كَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِیْنَ۔وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ لِقَآءِ الْاٰخِرَةِ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْؕ-هَلْ یُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۠
اور میں اپنی آیتوں سے ان لوگوں کوپھیردوں گا جو زمین میں ناحق تکبر کرتے ہیں اور اگر وہ سب نشانیاں دیکھ لیں تو بھی ان پر ایمان نہیں لاتے اور اگر وہ ہدایت کی راہ دیکھ لیں تواسے اپنا راستہ نہیں بناتے اور اگر گمراہی کا راستہ دیکھ لیں تو اسے اپنا راستہ بنالیتے ہیں ۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے غافل رہے۔اور جنہوں نے ہماری آیتوں اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا تو ان کے تمام اعمال برباد ہوئے، انہیں ان کے اعمال ہی کا بدلہ دیا جائے گا۔
[الأعراف7،146-147]
حسن بصری رحمہ اللہ اس کی تفسیر میں کہتے ہیں: “اللہ تعالی انہیں غور و فکر کرنے سے روک دیتا ہے۔
یعنی اپنی انا کی وجہ سے حق بات کو رد کردے
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ۔ قَالَ رَجُلٌ: إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَكُونَ ثَوْبُهُ حَسَنًا وَنَعْلُهُ حَسَنَةً، قَالَ: إِنَّ اللهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ، الْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ، وَغَمْطُ النَّاسِ
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کے دل میں رتی برابر بھی غرور اور گھمنڈ ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ ایک شخص نے عرض کیا ہر انسان چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے عمدہ ہوں اس کا جوتا بھی اچھا ہو تو کیا یہ غرور اور گھمنڈ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یقینا اللہ تعالی خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے۔ غرور اور گھمنڈ یہ ہے کہ انسان حق کو ناحق بنائے (یعنی اپنی انا کی وجہ سے حق بات کو رد کردے) اور لوگوں کو حقیر سمجھے۔
حوالاجات
ٖ (جامع ترمذی، جلد اول باب البر والصلۃ :1999) (مسلم ، کتاب الایمان) | 1 |
الحمدللہ میلاد النبی ﷺ منانے والوں کو اللہ کریم نے قرآن پاک میں غور و فکر کی توفیق کے ساتھ ساتھ سنتِ مصطفی اور سنتِ صحابہ اکرام پر عمل پیرا ہونے کی بھی توفیق عطا کی ہے۔ میلاد النبی ﷺ سے متعلقہ آیات اور احا دیث نبوی پر غور وفکر کرنے کے بعد میلاد النبی ﷺ کےانکار کا کوئی جواز نہیں رہا ۔ اب بھی اگر کوئی میلاد النبی ﷺ کی خوشی منانے میں حیلہ بہانہ کرتا ہے تو وہ ان آیات اور احا دیث نبوی کا منکر ہے ۔ اللہ کی آیات کے منکر کو اللہ نے مندرجہ بالا آیت میں متکبر کہا ہے۔
مسلمانوں اس سے پہلے کہ اوپر کی آیت کے ضمن میں ہمیں بھی متکبر یں میں شامل کر دیا جائے ہم کو توبہ کر لینی چائیے اور میلاد النبی ﷺ بھر پور خوشی سے منانا چایئے۔
عبرت آموز حقیقت
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
لَوْ لَا اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَیْرًا-وَّ قَالُوْا هٰذَا اِفْكٌ مُّبِیْنٌ
’’ایسا کیوں نہ ہواکہ جب تم نے یہ بہتان سنا تو مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اپنے لوگوں پر نیک گمان کرتے اور کہتے: یہ کھلا بہتان ہے۔‘‘
(24:12)
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَ لَوْ لَا اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ قُلْتُمْ مَّا یَكُوْنُ لَنَا اَنْ نَّتَكَلَّمَ بِهٰذَا سُبْحٰنَكَ هٰذَا بُهْتَانٌ عَظِیْمٌ
’’ اور کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے اُسے سنا تھا تو تم کہہ دیتے کہ ہمارے لئے جائز نہیں کہ یہ بات کہیں۔(اے اللہ!) تو پاک ہے،یہ بڑا بہتان ہے ۔‘‘
(24:16)
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی گواہی:
یہ بات ذہن نشین رہے کہ ان آیات میں اللہ تعالٰی نے خود گواہی دی کہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا پر لگائی گئی تہمت ایک واضح بہتان تھی۔ اس کو بہتان نہ کہنے والوں اور توقف کرنے والوں پر عِتاب ہوا، البتہ چونکہ یہ حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے گھر کا معاملہ تھا اس لئے آپ نے خاموشی اختیار فرمائی۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خاموشی حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا کے معاملے کو نہ جاننے کی وجہ سے نہ تھی بلکہ وحی کے انتظار کی وجہ سے تھی کیونکہ اگر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے علم کی بناء پر اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا کی عِصمَت کی خبر دیتے تو منافق کہتے کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے اہلِ بیت کی طرف داری کی۔ اسی لئے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بھی خاموش رہے بلکہ خود اُمُّ المؤمنین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے بھی لوگوں سے نہ کہا کہ میں بے قصور ہوں حالانکہ آپ تو سارے معاملے سے مکمل باخبر تھیں۔
مومنین کا امتحان و تنبیع!
اللہ تعالٰی نےارشاد فرمایا {وَ لَوْ لَا: اور کیوں نہ ہوا} کہ جب تم نے بہتان سنا تھا تو اس وقت یہ کیوں نہ ہوا کہ تم ایک دوسرے پر نیک گمان کرتے، اور تم فوراً کہہ دیتے یہ بہتان والی بات درست ہوہی نہیں سکتی۔
ان آیات کا دیر سے نازل ہونے کا صرف ایک ہی وجہ تھی کہ اُمتِ مسلمہ کے ردِعمل کا امتحان لیا جائے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے اس واقعہ پر اُمتِ مسلمہ نے کوئی ردِعمل نہ کیا جس کی وجہ سے ہمارے پیارے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ تکلیف اٹھائی۔
بالآخر اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل فرمائیں اور دو مرتبہ اُمتِ مسلمہ کو مخاطب کر کے فرمایا {وَ لَوْ لَا: اور کیوں نہ ہوا} یعنی اے مسلمانو تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و تکریم کے معاملہ میں کیوںسوچ میں پڑ گئے اور فوراً کیوں نہ کہا کہ یہ سراسر بہتان اور جھوٹ ہے ۔
یہ اِس اُمتِ مسلمہ کے لئے کڑی تنبیع تھی کہ جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و تکریم کی سر بلندی کا معاملہ ہو وہاں اُمتِ مسلمہ کو کسی چیز کا انتظار نہیں کرنا چاہئے حتی کہ وحی کا بھی نہیں ۔ اسی لیے آج بھی اُمتِ مسلمہ کسی کی مزمت کی پروا کئے بغیر ان آیات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و تکریم کو سر بلند کرتے ہیں۔ الحمد للہ ربّ العالمین
وَ مَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰهِ-عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ وَ اِلَیْهِ اُنِیْبُ
اور میری توفیق اللہ ہی کی مدد سے ہے میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں