ذکرِ رسولﷺ
2.4
رفعتِ ذکرِ مصطفیٰ ﷺیہ ہے کہ ذکر ِ خدا کے ساتھ ذکر ِ مصطفیٰ ﷺکیا جاتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے اَذان میں،اِقامت میں، نماز میں، تشہّد میں ، خطبے میں اور ان کے علاوہ کثیر مقامات پر اپنے ذکر کے ساتھ آپﷺ کا ذکرشامل کردیا ہے۔ اس حوالے سے قرآن پاک میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا کہ: آپﷺ کی اطاعت خُدا کی اطاعت ہے(النساء:80) ، آپﷺ کی نافرمانی خدا کی نافرمانی ہے(النساء: 14) ، آپﷺ کی مخالفت خدا کی مخالفت ہے(انفال:13) ، آپﷺ سے جنگ خدا سے جنگ ہے(بقرہ: 278 ،279) ۔
ذکرِ مصطفیٰ ﷺ کی رفعت پر یہ اُمور بھی دلالت کرتے ہیں: آپ ﷺ کا ذکر زمین پر بھی ہے اور آسمانوں پر بھی ، آپ ﷺ کا ذکر انسان بھی ، فرشتے بھی، جنّات بھی اور دیگر مخلوقات بھی کرتے ہیں ۔ آپ ﷺ کا ذکر پتّھروں نے بھی اور درختوں نے بھی کیا ، دنیا کے ہر کونے میں آپ ﷺ کے ذکر کرنے والے موجود ہیں۔چنانچہ دنیا کے ایک کنارے سے فَجْر کی اَذانیں شُروع ہوتی ہیں اوردنیا کے آخری کنارے تک دی جاتی ہیں اور ابھی اگلی جگہوں پر فجر کی اَذان نہیں ہوتی کہ پہلی جگہ ظہر کی اذانیں شروع ہوجاتی ہیں اور ہر اذان میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ذکر کے ساتھ آپ ﷺ کانام اور رسا لت کی گواہی پڑھی جاتی ہے اور یوں دنیا کا کوئی ملک اور خطہ ایسا نہیں جہاں ہر وَقْت آپ ﷺ کا نامِ مبارک نہ لیا جارہا ہو۔ یہی حال قرآنِ مجید کی تلاوت کا ہے کہ دنیا کے ہر خطے میں ہر وقت تلاوتِ قرآن جاری رہتی ہے اور لاکھوں مسلمان ہروقت تلاوت میں مشغول ہوتے ہیں اور قرآن ذکرِ مصطفیٰ ﷺ سے معمور ہے تو ہر وقت آپ ﷺ کا ذکر تلاوتِ قرآن کی صورت میں بھی جاری ہے۔
آپﷺ کانام ِ مبارَک عرش وکرسی پر لکھا ہوا ہے، سِدْرَۃُ المُنتہیٰ اور جنّتی درختوں کے پتّوں پر نقش ہے اور جنّت کے محلّات پر کندہ ہے۔ تمام انبیا و رسول علیھم الصلوٰۃ والسلام آپﷺ کا ذکر کرتے رہےاور آپ ﷺ پر ایمان لانے کا اپنی اپنی امّت سے وعدہ لیتے رہے۔ہر آسمانی کتاب میں آپ ﷺ کا ذکر موجود ہے۔سوانح نگاری کی دنیا میں سب سے زیادہ کتابیں آپ ﷺ کی سیرت پر لکھی گئیں اور بیانِ فضائل میں بھی دنیا میں سب سے زیادہ کتابیں آپ ﷺ کے فضائل کے متعلّق تحریر کی گئیں، نظم کی صورت میں دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ کلام یعنی نعتیں آپ ﷺ کے بارے میں لکھی گئیں اور سب سے زیادہ زَبانوں میں آپ ﷺ ہی کا تذکرہ ملتا ہے۔
اے رضاؔ خود صاحبِ قرآں ہے مدّاح ِحضور
تجھ سے کب ممکن ہے پھر مدحت رسولُ اللہ کی
(امام احمد رضا خانؒ)
میلاد شریف بھی ذکر ِ ذاتِ رسولﷺ اور چرچا ِ شانِ رسولﷺ کی ہی ایک کڑی ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں کی ذکر ِ ذاتِ رسولﷺ کب سے جاری و ساری ہے ، کون کون کرتا ہے ،کس کس جگہ ہوتا ہے ،کس کس انداز میں ہوتا ہے اور پھر ہم واضح کریں گے کہ میلاد شریف منانا کس طرح ذکر ِ ذاتِ رسولﷺ ہی ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ذکرِ شانِ رسولﷺ
2.4.1
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قران مجید میں ذکرِ رسولﷺ کے متعلق بیان فرمایا:
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ
’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا ‘‘
الإنشراح، 94 : 4
مفسرین نے سیّد المرسَلین ﷺ کا چرچا یعنی ذکر بلندہونے کی مختلف تَوجیہات بیان کی ہیں۔
(1)…حضور پُر نور ﷺکے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ پر ایمان لانا اور ان کی اطاعت کرنا مخلوق پر لازم کر دیا ہے حتّٰی کہ کسی کا اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لانا،اس کی وحدانیّت کا اقرار کرنا اوراس کی عبادت کرنا اس وقت تک مقبول نہیں جب تک وہ تاجدارِ رسالت ﷺپر ایمان نہ لے آئے اور ان کی اطاعت نہ کرنے لگے۔ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ
جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللّٰہ کا حکم مانا۔
(النساء:۸۰)
اور ارشاد فرمایا:
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
تو اے حبیب!تمہارے رب کی قسم،یہ لوگ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنالیں پھر جو کچھ تم حکم فرما دو اپنے دلوں میں اس سے کوئی رکاوٹ نہ پائیں اوراچھی طرح دل سے مان لیں۔
(النساء:۶۵)
حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ اگر کوئی اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کرے ،ہر بات میں اس کی تصدیق کرے اورسرورِ عالَم ﷺ کی رسالت کی گواہی نہ دے تو یہ سب بے کار ہے اور وہ کافر ہی رہے گا۔
(2)…حضورِ اَقدس ﷺکے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ آپ ﷺ کا ذکر کیا جاتا ہے اور اللّٰہ تعالیٰ نے اذان میں ،اقامت میں ،نماز میں ،تشہد میں ،خطبے میں اور کثیر مقامات پر اپنے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر کیا ہے۔
حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم ﷺنے حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام سے اس آیت کے بارے میں دریافت فرمایا تو اُنہوں نے عرض کی:اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپ کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ جب میرا ذکر کیا جائے تو میرے ساتھ آپ کا بھی ذکر کیا جائے۔
اورحضرت قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کا ذکر دنیا و آخرت میں بلند کیا، ہر خطیب اورہر تشہد پڑھنے والا ’’اَشْھَدُ اَنْ لَّا ٓاِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ ‘‘ کے ساتھ ’’ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہ ‘‘ پکارتا ہے۔
(3)…رسولِ کریم ﷺکے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے نام کی طرف آپ ﷺ کے نام کی نسبت کی ہے اور نبوت و رسالت کے وصف کے ساتھ آپ ﷺ کا ذکر کیا جبکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے علاوہ دیگر انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر ان کے اَسماء کے ساتھ کیا ہے۔
(4)… سرکارِ دو عالَم ﷺکے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام سے آپ ﷺپر ایمان لانے کا عہد لیا۔( تاویلات اہل السنہ، الشرح، تحت الآیۃ: ۴، ۵ / ۴۸۲، تفسیر بغوی، الشرح، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۴۶۹، ملتقطاً)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت سے متعلق فرماتے ہیں :یعنی ارشاد ہوتا ہے اے محبوب ہمارے !ہم نے تمہارے لئے تمہارا ذکر بلند کیا کہ جہاں ہماری یا دہوگی تمہارا بھی چرچاہوگا اور ایمان تمہاری یاد کے بغیر ہرگز پورا نہ ہوگا، آسمانوں کے طبقے اورزمینوں کے پردے تمہارے نامِ نامی سے گونجیں گے ، مؤذن اذانوں اور خطیب خطبوں اورذاکرین اپنی مجالس اور واعظین اپنے مَنابر پر ہمارے ذکر کے ساتھ تمہاری یا د کریں گے ۔ اشجار واَحجار، آہُو وسوسمار(یعنی ہرن اور گوہ)ودیگر جاندار واطفالِ شیرخوار ومعبودانِ کفار جس طرح ہماری توحید بتائیں گے ویسا ہی بہ زبان فصیح وبیان صحیح تمہارامنشورِ رسالت پڑھ کر سنائیں گے ، چار اَکنافِ عالَم میں لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کا غلغلہ ہوگا، جز (سوائے)اشقیائے ازل ہر ذرہ کلمۂ شہادت پڑھتا ہوگا، مسبحانِ ملاء اعلیٰ کو ادھر اپنی تسبیح وتقدیس میں مصروف کروں گا اُدھر تمہارے محمود، درودِ مسعود کا حکم دوں گا ۔عرش وکرسی، ہفت اوراقِ سدرہ ، قصورِجناں ، جہاں پر اللّٰہ لکھوں گا، مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ بھی تحریر فرماؤں گا ، اپنے پیغمبروں اور اولُوا الْعزم رسولوں کو ارشاد کروں گا کہ ہر وقت تمہار ادم بھریں اورتمہاری یاد سے اپنی آنکھوں کو روشنی اورجگر کو ٹھنڈک اورقلب کو تسکین اور بزم کو تزئین دیں۔ جو کتاب نازل کروں گا اس میں تمہاری مدح وستائش اورجمالِ صورت وکمالِ سیرت ایسی تشریح وتوضیح سے بیان کروں گا کہ سننے والوں کے دل بے اختیار تمہاری طرف جھک جائیں اورنادیدہ تمہارے عشق کی شمع ان کے کانوں ، سینوں میں بھڑک اٹھے گی ۔ ایک عالَم اگر تمہارادشمن ہوکر تمہاری تنقیصِ شان اورمحوِ فضائل میں مشغول ہوتو میں قادرِ مُطلق ہوں ، میرے ساتھ کسی کا کیا بس چلے گا۔ آخر اسی وعدے کا اثر تھا کہ یہود صدہا برس سے اپنی کتابوں سے ان کا ذکر نکالتے اورچاند پر خاک ڈالتے ہیں تو اہلِ ایمان اس بلند آواز سے ان کی نعت سناتے ہیں کہ سامع اگر انصاف کرے بے ساختہ پکار اٹھے ۔ لاکھوں بے دینوں نے ان کے محوِ فضائل پر کمر باندھی ، مگر مٹانے والے خود مٹ گئے اور ان کی خوبی روز بروز مترقی رہی ۔( فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۷۱۸-۷۱۹)
رفعتِ ذکر ہے تیرا حصّہ دونوں عالَم میں ہے تیرا چرچا
مرغِ فردوس پس از حمد ِخدا تیری ہی مدح و ثنا کرتے ہیں
(امام احمد رضا خانؒ)
اور فرماتے ہیں :
وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ کا ہے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے ترا ذِکر ہے اُونچا تیرا
مِٹ گئے مٹتے ہیں مٹ جائیں گے اعدا تیرے
نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا
تو گھٹائے سے کسی کے نہ گھٹا ہے نہ گھٹے
جب بڑھائے تجھے اللّٰہ تعالیٰ تیرا
(امام احمد رضا خانؒ)
میثاقِ عالم اَرواح کے دوران اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یہ واضح فرما دیا کہ پوری کائناتِ نبوت میں سب سے بلند رتبہ رسالتِ محمدیﷺ کا ہے جس کے متعلق فرمایا :
قول
وخيرهم محمد أجمعين.
’’اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سب سے اعلی رتبے میں ہیں۔‘‘
بزار، المسند، 8 : 255، رقم : 2368
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
عَنْ أَبِي سَعِیْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: أَتَانِي جِبْرِیْلُ، فَقَالَ: إِنَّ رَبِّي وَرَبَّکَ یَقُوْلُ لَکَ: کَیْفَ رَفَعْتُ ذِکْرَکَ؟ قَالَ: ﷲُ أَعْلَمُ. قَالَ: إِذَا ذُکِرْتُ ذُکِرْتَ مَعِي.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ یَعْلَی وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جبرائیل میرے پاس آئے اور عرض کیا: تحقیق میرے اور آپ کے رب نے آپ کے لئے پیغام بھیجا ہے کہ میں نے آپ کا ذکر کیسے بلند کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے تو جبرائیل نے عرض کیا: (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے حبیب!) جب بھی میرا ذکر ہو گا تو (ہمیشہ) میرے ساتھ آپ کا بھی ذکر ہو گا۔‘‘
أخرجه ابن حبان في الصحیح، 8/175، الرقم: 3382، وأبو یعلی في المسند، 2/522، الرقم: 1380، والخلال في السنة، 1/262، الرقم: 318، والدیلمي في مسند الفردوس، 4/405، الرقم: 7176، والطبري في جامع البیان، 30/235، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 4/525، والهیثمي في موارد الظمآن، 1/439، وفي مجمع الزوائد، 8/254، والعسقلاني في فتح الباري، 8/712، والمناوي في فیض القدیر، 1/98، والأندلسي في تحفة المحتاج، 1/306، والخطیب البغدادي في الجامع لأخلاق الراوي، 2/70، الرقم: 1211، والسمعاني في أدب الإملا والاستملاء، 1/52، والهندي في کنز العمال، 1/2278، الرقم: 31891.
اس حدیث کوامام ابن حبان اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے اس کی اسناد حسن ہیں۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: اتَّخَذَ ﷲُ إِبْرَاهِیْمَ خَلِیْـلًا وَمُوْسَی نَجِیًّا وَاتَّخَذَنِي حَبِیْبًا، ثُمَّ قَالَ: وَعِزَّتِي وَجَـلَالِي لَأُوْثِرَنَّ حَبِیْبِي عَلَی خَلِیْلِي وَنَجِیْبِي.
رَوَاهُ الْبَیْهَقِيُّ وَالدَّیْلَمِيُّ وَالسُّیُوْطِيُّ وَالْهِنْدِيُّ.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو (اپنا) خلیل بنایا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے ساتھ کلام و سرگوشی کرنے والا بنایا اور مجھے اپنا حبیب بنایا اور پھر (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا: قسم ہے مجھے اپنے عزت و جلال کی! میں ضرور اپنے حبیب کو اپنے خلیل و کلیم پر ترجیح و فوقیت دوں گا۔‘‘
أخرجه البیهقي في شعب الإیمان، 2/185، الرقم: 1494، والدیلمي في مسند الفردوس، 1/422، الرقم: 1716، والسیوطي في الفتح الکبیر، 1/29، وفي جامع الأحادیث، 1/29، الرقم:169، والهندي في کنز العمال، 1/2278، الرقم: 31893، والمناوي في فیض القدیر، 1/109.
اس حدیث کوامام ابن حبان اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے اس کی اسناد حسن ہیں۔
ذکرِ الٰہی اور ذکرِ رسولﷺ ساتھ ساتھ
2.4.2
قرآنِ کریم اور احادیث ِ مبارکہ میں بہت سے مقامات پر ذکرِ الٰہی کے ساتھ ذکرِ مصطفی ﷺ کا یکجا بیان کیا گیا ہے
اَلْآیَاتُ الْقُرْآنِيَّةُ
(1)
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
1۔ وَ اَطِيْعُوا اللهَ وَ الرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ
’’اور اللہ کی اور رسول ( ﷺ ) کی فرمانبرداری کرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘
(آل عمران، 3 : 22)
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
2۔ فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًاo
’’پس (اے حبیب!) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ کو حاکم بنالیں پھر اس فیصلہ سے جو آپ صادر فرما دیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور (آپ کے حکم کو) بخوشی پوری فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیںo‘‘
(النساء، 4 : 65)
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
3۔ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللهَ ج وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَآ اَرْسَلْنَاکَ عَلَيْهِمْ حَفِيْظًاo
’’جس نے رسول( ﷺ ) کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا اور جس نے روگردانی کی تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجاo‘‘
(النسآئ، 4 : 80)
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
4۔ یَحْلِفُوْنَ بِاللهِ لَکُمْ لِیُرْضُوْکُمْ وَ اللهُ وَ رَسُوْلُهٗٓ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْهُ اِنْ کَانُوْا مُؤْمِنِيْنَo
’’مسلمانو! (یہ منافقین) تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تمہیں راضی رکھیں حالاں کہ اللہ اور اس کا رسول ( ﷺ ) زیادہ حقدار ہے کہ اسے راضی کیا جائے اگر یہ لوگ ایمان والے ہوتے (تو یہ حقیقت جان لیتے اور رسول ﷺ کو راضی کرتے، رسول ﷺ کے راضی ہونے سے ہی اللہ راضی ہو جاتا ہے کیوں کہ دونوں کی رضا ایک ہے)o‘‘
(التوبۃ، 9 : 62)
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
5۔ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللهَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللهَ کَثِيْرًاo
’’فی الحقیقت تمہارے لئے رسول اللہ ( ﷺ کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے ہر شخص کے لئے جو اللہ (سے ملنے) کی اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرتا ہےo‘‘
(الأحزاب، 33 : 21)
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
6۔ وَمَنْ یُّطِعِ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيْمًاo
’’اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) کی فرمانبرداری کرتا ہے تو بے شک وہ بڑی کامیابی سے سرفراز ہواo‘‘
(الأحزاب، 33 : 71)
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
7۔ اِنَّ الَّذِيْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللهَ ط یَدُ اللهِ فَوْقَ اَيْدِيْھِمْ ج فَمَنْ نَّکَثَ فَاِنَّمَا یَنْکُثُ عَلٰی نَفْسِهٖ ج وَ مَنْ اَوْفٰی بِمَا عٰـھَدَ عَلَيْهُ اللهَ فَسَیُؤْتِيْهِ اَجْرًا عَظِيْمًاo
’’(اے حبیب!) بے شک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اللہ کا ہاتھ ہے۔ پھر جس شخص نے بیعت کو توڑا تو اس کے توڑنے کا وبال اس کی اپنی جان پر ہو گا اور جس نے (اس) بات کو پورا کیا جس (کے پورا کرنے) پر اس نے اللہ سے عہد کیا تھا تو وہ عنقریب اسے بہت بڑا اجر عطا فرمائے گاo‘‘
(الفتح، 48 : 10)
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
8۔ یٰٓـاَیُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَيْنَ یَدَیِ اللهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللهَ ط اِنَّ اللهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌo
’’اے ایمان والو! (کسی بھی معاملے میں) اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) سے آگے نہ بڑھا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو (کہ کہیں رسول ﷺ کی بے ادبی نہ ہوجائے)، بے شک اللہ (سب کچھ) سننے والا خوب جاننے والا ہےo‘‘
(الحجرات، 49 : 1)
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
9۔ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَo
’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیاo‘‘
(الم نشرح، 94 : 4)
اَلْأَحَادِيْثُ النَّبَوِيَّةُ
(2)
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
1۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضي الله عنهما أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ ﷺ یَقُولُ : إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ فَقُوْلُوْا مِثْلَ مَا یَقُوْلُ ثُمَّ صَلُّوْا عَلَيَّ فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّی عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا ثُمَّ سَلُوا اللهَ لِيَ الْوَسِيْلَةَ فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ لَا تَنْبَغِي إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللهِ وَأَرْجُو أَنْ أَکُوْنَ أَنَا هُوَ فَمَنْ سَأَلَ لِيَ الْوَسِيْلَةَ حَلَّتْ لَهُ الشَّفَاعَةُ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ۔
’’حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم مؤذن کو اذان دیتے ہوئے سنو تو اسی طرح کہو جس طرح وہ کہتا ہے پھر مجھ پر درود بھیجو پس جو بھی شخص مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے پھر اللہ تعالیٰ سے وسیلہ طلب کرو بے شک وسیلہ جنت میں ایک منزل ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے صرف ایک کوملے گی اور مجھے امیدہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں گا پس جس نے اس وسیلہ کو میرے لئے طلب کیا اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو جائے گی۔‘‘
1 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الصلاۃ، باب : استحباب القول مثل قول المؤذن لمن سمعه ثم یصلي علی النبي ﷺ ثم یسأل الله له الوسیلۃ، 1 / 288، الرقم : 384، والترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : في فضل النبي ﷺ ، 5 / 586، الرقم : 3614، وأبو داود في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : مایقول إذا سمع المؤذن، 1 / 144، الرقم : 523، والنسائي في السنن، کتاب : الأذان، باب : الصلاۃ علی النبي ﷺ بعد الأذان، 2 / 25، الرقم : 678، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 168، الرقم : 6568۔
اس حدیث کوامام ابن حبان اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے اس کی اسناد حسن ہیں۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
2۔ عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ رضی الله عنه یَقُوْلُ : سَمِعَ النَّبِيُّ ﷺ رَجُـلًا یَدْعُوْ فِي صَـلَاتِهِ، فَلَمْ یُصَلِّ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : عَجِلَ هَذَا، ثُمَّ دَعَاهُ فَقَالَ لَهُ أَوْ لِغَيْرِهِ : إِذَا صَلَّی أَحَدُکُمْ، فَلْیَبْدَأْ بِتَحْمِيْدِ اللهِ وَالثَّنَاء عَلَيْهِ ثُمَّ لِیُصَلِّ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ ثُمَّ لِیَدْعُ بَعْدُ بِمَا شَاءَ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ۔ وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلَی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَا نَعْرِفُ لَهُ عِلَّةً۔
’’حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ایک آدمی کو دورانِ نماز اس طرح دعا مانگتے ہوئے سنا کہ اس نے اپنی دعا میں حضور نبی اکرم ﷺ پر درود نہ بھیجا، اس پر حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس شخص نے عجلت سے کام لیا پھر آپ ﷺ نے اسے اپنے پاس بلایا اور اسے یا اس کے علاوہ کسی اور کو (ازرهِ تلقین) فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اسے چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بزرگی بیان کرے پھر نبی اکرم ﷺ (یعنی مجھ)پر درود بھیجے پھر اس کے بعد جو چاہے دعا مانگے، تو اس کی دعا قبول ہو گی۔‘‘
2 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الدعوات، باب : ما جاء في جامع الدعوات، 5 / 517، الرقم : 3477، وأبو داود في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : الدعائ، 2 / 76، الرقم : 1481، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 18، الرقم : 23982، وابن حبان في الصحیح، 5 / 290، الرقم : 1960، والحاکم في المستدرک، 1 / 401، الرقم : 989، وابن خزیمۃ في الصحیح، 1 / 351، الرقم : 709۔710۔
اس حدیث کو امام ترمذی، ابو داود، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام ابو عیسیٰ نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے اور ہم نے اس حدیث کی سند میں کوئی علت نہیں دیکھی۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
3۔ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : أَتَانِي جِبْرِيْلُ، فَقَالَ : إِنَّ رَبِّي وَرَبَّکَ یَقُوْلُ لَکَ : کَيْفَ رَفَعْتُ ذِکْرَکَ؟ قَالَ : اَللهُ أَعْلَمُ۔ قَالَ : إِذَا ذُکِرْتُ ذُکِرْتَ مَعِي۔ رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ یَعْلَی وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ۔
’’حضرت ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جبرائیل میرے پاس آئے اور عرض کیا : میرے اور آپ کے رب نے آپ کے لئے پیغام بھیجا ہے کہ میں نے آپ کا ذکر کیسے بلند کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، جبرائیل نے عرض کیا : (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے حبیب!) جب بھی میرا ذکر ہو گا تو (ہمیشہ) میرے ساتھ آپ کا بھی ذکر ہو گا۔‘‘ اسے امام ابن حبان اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے اس کی اسناد حسن ہیں۔
3 : أخرجه ابن حبان في الصحیح، 8 / 175، الرقم : 3382، وأبو یعلی في المسند، 2 / 522، الرقم : 1380، والخلال في السنۃ، 1 / 262، الرقم : 318، والدیلمي في مسند الفردوس، 4 / 405، الرقم : 7176، والطبري في جامع البیان، 30 / 235، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 4 / 525، والھیثمي في موارد الظمآن، 1 / 439، وفي مجمع الزوائد، 8 / 254۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
4۔ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَمَّا اقْتَرَفَ ٰآدَمُ الْخَطِيْئَةَ قَالَ : یَا رَبِّ، أَسْأَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ لِمَا غَفَرْتَ لِي فَقَالَ اللهُ : یَا آدَمُ، وَکَيْفَ عَرَفْتَ مُحَمَّدًا وَلَمْ أَخْلُقْهُ؟ قَالَ : یَا رَبِّ، لِأَنَّکَ لَمَّا خَلَقْتَنِي بِیَدِکَ، وَنَفَخْتَ فِيَّ مِنْ رُوْحِکَ، رَفَعْتُ رَأْسِي فَرَأَيْتُ عَلَی قَوَائِمِ الْعَرْشِ مَکْتُوْبًا : لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ فَعَلِمْتُ أَنَّکَ لَمْ تُضِفْ إِلَی اسْمِکَ إِلَّا أَحَبَّ الْخَلْقِ إِلَيْکَ، فَقَالَ اللهُ : صَدَقْتَ یَا آدَمُ، إِنَّهُ لَأَحَبُّ الْخَلْقِ إِلَيَّ، اُدْعُنِي بِحَقِّهِ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکَ، وَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُکَ۔
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ۔
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب حضرت آدم علیہ السلام سے خطا سرزد ہوئی، تو انہوں نے (بارگاہ الٰہی میں ) عرض کیا : اے پروردگار! میں تجھ سے محمد( ﷺ ) کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں کہ میری مغفرت فرما، اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے آدم! تو نے محمد ﷺ کو کس طرح پہچان لیا حالانکہ ابھی تک تو میں نے انہیں (ظاہراً) پیدا بھی نہیں کیا؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا : اے پروردگار! جب تو نے اپنے دستِ قدرت سے مجھے تخلیق کیا اور اپنی روح میرے اندر پھونکی، میں نے اپنا سر اٹھایا تو عرش کے ہر ستون پر ’’ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ‘‘ لکھا ہوا دیکھا۔ تو میں نے جان لیا کہ تیرے نام کے ساتھ اسی کا نام ہوسکتا ہے جو تمام مخلوق میں سب سے زیادہ تجھے محبوب ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے آدم تو نے سچ کہا ہے کہ مجھے ساری مخلوق میں سے سب سے زیادہ محبوب وہی ہیں، اب جبکہ تم نے ان کے وسیلہ سے مجھ سے دعا کی ہے تو میں نے تجھے معاف فرما دیا اور اگر محمد ﷺ نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم، بیہقی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
’’علامہ ابن تیمیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت میسرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : میں نے حضورنبی اکرم ﷺ سے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) آپ کو نبوت کب ملی؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : (میں اس وقت بھی نبی تھا) جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا اور پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے اسے سات آسمانوں میں تقسیم کر دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے عرش کو تخلیق کیا اور اس کی پیشانی پر لکھا : مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ خَاتَمُ الْأَنْبِیَائِ، ’’محمد مصطفی ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول اور آخری نبی ہیں۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے جنت کو تخلیق کیا کہ جہاں اس نے حضرت آدم و حوا (علیہما السلام) کوبسایا تھا، تو جنت کے دروازوں، درختوں کے پتوں، خیموں اور محلات پر میرا نام لکھا۔ اس وقت تک حضرت آدم علیہ السلام ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا فرمایا تو انہوں نے عرش پر میرا نام لکھا ہوا دیکھا، تب اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی کہ (اے آدم!) محمد ( ﷺ ) تیری اولاد کے سردار ہیں۔ اس لیے جب شیطان نے انہیں بہکایا تو انہوں نے توبہ کی اور میرے نام سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ اختیار کیا۔‘‘
وذکر العـلامۃ ابن تیمیۃ : عَنْ مَيْسَرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، مَتَی کُنْتَ نَبِیًّا؟ قَالَ : لَمَّا خَلَقَ اللهُ الْأَرْضَ، وَاسْتَوَی إِلَی السَّمَاء فَسَوَّاھُنَّ سَبْعَ سَمَوَاتٍ، وَخَلَقَ الْعَرْشَ، کَتَبَ عَلَی سَاقِ الْعَرْشِ : مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ خَاتَمُ الْأَنْبِیَاءِ۔ وَخَلَقَ اللهُ الْجَنَّةَ الَّتِي أَسْکَنَھَا آدَمَ وَحَوَّاءَ، فَکَتَبَ اسْمِي عَلَی الْأَبْوَابِ وَالْأَوْرَاقِ وَالْقِبَابِ وَالْخِیَامِ وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ، فَلَمَّا أَحْیَاهُ اللهُ تَعَالَی، نَظَرَ إِلَی الْعَرْشِ، فَرَأَی اسْمِي، فَأَخْبَرَهُ اللهُ أَنَّهُ سَيِّدُ وَلَدِکَ، فَلَمَّا غَرَّھُمَا الشَّيْطَانُ تَابَا وَاسْتَشْفَعَا بِاسْمِي إِلَيْهِ۔
4 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 672، الرقم : 4228، والبیهقي في دلائل النبوۃ، 5 / 489، والقاضي عیاض في الشفا، 1 / 227، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 7 / 437، وابن تیمیۃ في مجموع الفتاوی، 2 / 150، وفي قاعدۃ جلیلۃ في التوسل والوسیلۃ : 84، وابن کثیر في البدایۃ والنهایۃ، 1 / 131، 2 / 291، 1 / 6، والسیوطي في الخصائص الکبری، 1 / 6، وابن سرایا في سلاح المؤمن في الدعائ، 1 / 130، الرقم : 206۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
5۔ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَمَّا أَذْنَبَ آدَمُ علیه السلام الذَّنْبَ الَّذِي أَذْنَبَهُ، رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَی الْعَرْشِ فَقَالَ : أَسْأَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ ﷺ إِلَّا غَفَرْتَ لِي، فَأَوْحَی اللهُ إِلَيْهِ : وَمَا مُحَمَّدٌ؟ وَمَنْ مُحَمَّدٌ؟ فَقَالَ : تَبَارَکَ اسْمُکَ، لَمَّا خَلَقْتَنِي، رَفَعْتُ رَأْسِي إِلَی عَرْشِکَ، فَرَأَيْتُ فِيْهِ مَکْتُوْبًا : لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ، فَعَلِمْتُ أَنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ أَعْظَمَ عِنْدَکَ قَدْرًا مِمَّنْ جَعَلْتَ اسْمَهُ مَعَ اسْمِکَ، فَأَوْحَی اللهُ عزوجل إِلَيْهِ : یَا آدَمُ، إِنَّهُ آخِرُ النَّبِيِّيْنَ مِنْ ذُرِّيَّتِکَ، وَإِنَّ أُمَّتَهُ آخِرُ الْأُمَمِ مِنْ ذُرِّيَّتِکَ، وَلَوْلَاهُ، یَا آدَمُ، مَا خَلَقْتُکَ۔
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب حضرت آدم علیہ السلام سے (بغیر ارادہ کے) لغزش سرزد ہوئی تو انہوں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور عرض گزار ہوئے : (یا اللہ!) اگر تو نے مجھے معاف نہیں کیا تو میں (تیرے محبوب) محمد مصطفی ﷺ کے وسیلہ سے تجھ سے سوال کرتا ہوں (کہ تو مجھے معاف فرما دے) تو اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی : (اے آدم!) محمد مصطفی کون ہیں؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا : (اے مولا!) تیرا نام پاک ہے، جب تو نے مجھے پیدا کیا تو میں نے اپنا سر تیرے عرش کی طرف اٹھایا وہاں میں نے ’’لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ‘‘ لکھا ہوا دیکھا، لهٰذا میں جان گیا کہ یہ ضرور کوئی بڑی عظیم المرتبت ہستی ہے، جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ ملایا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی : ’’اے آدم! وہ (محمد ﷺ ) تمہاری نسل میں سے آخری نبی ہیں، اور ان کی امت بھی تمہاری نسل کی آخری امت ہو گی، اور اگر وہ نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
’’علامہ ابن تیمیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب حضرت آدم علیہ السلام سے (نادانستگی میں) خطا سرزد ہو گئی، تو انہوں نے (توبہ کے لئے) اپنا سر اٹھایا اور عرض کیا : اے میرے رب! میں محمد ﷺ کے توسل سے تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ تو میری خطاء معاف کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی طرف وحی کی : محمد ﷺ کیا ہیں؟ محمد ﷺ کون ہیں؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کی : مولا! جب تو نے میری تخلیق کو مکمل کیا تو میں نے اپنا سر تیرے عرش کی طرف اٹھایا تو اس پر لکھا ہوا تھا : ’’لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ‘‘ تو میں جان گیا بے شک وہ تیری مخلوق میں سب سے بڑھ کر عزت و مرتبہ والے ہیں۔ تبھی تو، تو نے ان کا نام اپنے نام کے ساتھ جوڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہاں اور میں نے (ان کے توسّل سے بخشش مانگنے پر) تمہاری مغفرت فرما دی ہے اور وہ تمہاری نسل سے آخری نبی ہوں گے، اور اگر وہ نہ ہوتے تو میں تمہیں بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘
وذکر العـلامۃ ابن تیمیۃ : عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : وَلَمَّا أَصَابَ آدَمَ الْخَطِيْئَةُ، رَفَعَ رَأْسَهَ فَقَالَ : یَا رَبِّ، بِحَقِّ مُحَمَّدٍ إِلاَّ غَفَرْتَ لِي، فَأُوْحِيَ إِلَيْهِ : وَمَا مُحَمَّدٌ؟ وَمَنْ مُحَمَّدٌ؟ فَقَالَ : یَارَبِّ، إِنَّکَ لَمَّا أَتْمَمْتَ خَلْقِي، رَفَعْتُ رَأْسِي إِلَی عَرْشِکَ، فَإِذَا عَلَيْهِ مَکْتُوْبٌ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ، فَعَلِمْتُ أَنَّهُ أَکْرَمُ خَلْقِکَ عَلَيْکَ، إِذْ قَرَنْتَ اسْمَهُ مَعَ اسْمِکَ، فَقَالَ : نَعَمْ، قَدْ غَفَرْتُ لَکَ، وَھُوَ آخِرُ الأَنْبِیَاء مِنْ ذُرِّيَّتِکَ، وَلَوْلَاهُ مَا خَلَقْتُکَ۔
5 : أخرجه الطبراني في المعجم الصغیر، 2 / 182، الرقم : 992، وفي المعجم الأوسط، 6 / 313، الرقم : 6502، ابن تیمیۃ في مجموع الفتاوی، 2 / 151، والهیثمي في مجمع الزوائد، 8 / 253، والسیوطي في جامع الأحادیث، 11 / 94۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
6۔ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : نَزَلَ آدَمُ بِالْھِنْدِ وَاسْتَوْحَشَ فَنَزَلَ جِبْرِيْلُ فَنَادَی بِالْأَذَانِ : اَللهُ أَکْبَرُ اَللهُ أَکْبَرُ، أَشْھَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مَرَّتَيْنِ، أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ مَرَّتَيْنِ، قَالَ آدَمُ : مَنْ مُحَمَّدٌ؟ قَالَ : آخِرُ وَلَدِکَ مِنَ الْأَنْبِیَاءِ۔ رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَالدَّيْلَمِيُّ۔
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : حضرت آدم ہند میں نازل ہوئے اور (زمین پر نزول کے بعد) انہوں نے وحشت محسوس کی تو (ان کی وحشت و تنہائی دور کرنے کے لئے) جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور اذان دی : اَللهُ أَکْبَرُ، اَللهُ أَکْبَرُ، أَشْھَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ دو مرتبہ کہا، أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ دو مرتبہ کہا تو حضرت آدمں نے دریافت کیا : محمد ( ﷺ ) کون ہیں؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا : آپ کی اولاد میں سے آخری نبی ﷺ ۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو نعیم، ابن عساکر اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔
6 : أخرجه أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 5 / 107، والدیلمي في مسند الفردوس، 4 / 271، الرقم : 6798، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 7 / 437۔
اَلْآثَارُ وَالْأَقْوَالُ
(3)
قول
1۔ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ أَبُوْ طَالِبٍ إِذَا رَأَی رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ :
وَشَقَّ لَهُ مِنِ اسْمِهِ لِیُجِلَّهُ
فَذُو الْعَرْشِ مَحْمُوْدٌ وَھَذَا مُحَمَّدٌ
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الصَّغِيْرِ وَابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْبَيْھَقِيُّ۔
’’حضرت علی بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو طالب جب حضور نبی اکرم ﷺ کو تکتے تو یہ شعر گنگناتے : ’’اور اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی تکریم کی خاطر آپ کا نام اپنے نام سے نکالا ہے، پس عرش والا(اللہ تعالیٰ) محمود اور یہ (حبیب) محمد مصطفی ہیں۔‘‘
1 : أخرجه البخاري في التاریخ الصغیر، 1 / 13، الرقم : 31، وابن حبان في الثقات، 1 / 42، وأبو نعیم في دلائل النبوۃ، 1 / 41، والبیھقي في دلائل النبوۃ، 1 / 160، وابن عبد البر في الاستیعاب، 9 / 154، والعسقلاني في الإصابۃ، 7 / 235، وفي فتح الباري، 6 / 555۔
اس روایت کو امام بخاری نے ’’التاریخ الصغیر‘‘ میں، امام ابن حبان، ابو نعیم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
قول
2۔ قال القاضي عیاض : من علامات محبۃ النبي ﷺ کثرۃ ذکره له، فمن أحب شیئاً أکثر ذکره۔ وقال أیضاً : من علامات حبه ﷺ مع کثرۃ ذکره تعظیمه له وتوقیره عند ذکره وإظهار الخشوع والانکسار مع سماع اسمه۔ قال إسحاق التجیبي : کان أصحاب النبي ﷺ بعده لا یذکرونه إلا خشعوا واقشعرت جلودهم وبکوا۔ وکذلک کثیر من التابعین منهم من یفعل ذلک محبۃ له وشوقاً إلیه، ومنهم من یفعله تهیباً وتوقیراً۔
’’قاضی عیاض فرماتے ہیں علامت محبت میں سے ایک یہ بھی ہے کہ محبت کا دعوی کرنے والا حضور نبی اکرم ﷺ کا ذکر جمیل باکثرت کرے۔ اس لئے کہ جو شخص جس چیز کو زیادہ محبوب رکھتا ہے اس کا ذکر باکثرت کیا کرتا ہے۔ قاضی عیاض مزید فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ سے محبت کرنے کی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ کثرت کے ساتھ آپ ﷺ کا ذکر جمیل کرے گا اور آپ ﷺ کے ذکر کے وقت غایت تعظیم و توقیر بجا لائے گا اور آپ ﷺ کے نام نامی اسم گرامی کے وقت انتہائی عجز و انکسار کا اظہار کرے گا۔ ابن اسحاق تجیبی رَحِمَهُ اللہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ ﷺ کا ذکر جمیل کرتے تو انتہائی عاجزی و فروتنی سے کرتے اور ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے اور وہ رونے لگتے۔ یہی حال اکثر تابعین رحمہم اللہ کا تھا۔ ان میں سے کچھ تو آپ ﷺ سے محبت و شوق کی بنا پر روتے اور کچھ آپ کی ہیبت و عظمت کی وجہ سے۔‘‘
2 : أخرجه القاضي عیاض في الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ : 500۔501۔
قول
3۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما فِي قوْلِهِ تَعَالَی : {وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ}، [ألم نشرح، 94 : 4]، قَالَ : یَقُوْلُ لَهُ : لَا ذُکِرْتُ إِلَّا ذُکِرْتَ مَعِي فِي الْأَذَانِ، وَالإِقَامَةِ، وَالتَّشَهُدِ، وَیَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَی الْمَنَابِرِ، وَیَوْمَ الْفِطْرِ، وَیَوْمَ الْأَضْحَی، وَأَيَّامَ التَّشْرِيْقِ، وَیَوْمَ عَرَفَةَ، وَعِنْدَ الْجِمَارِ، وَعَلَی الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، وَفِي خُطْبَةِ النِّکَاحِ، وَفِي مَشَارِقِ الْأَرْضِ وَمَغَارِبِهَا، وَلَوْ أَنَّ رَجُـلًا عَبَدَ اللهَ جَلَّ ثَنَاؤُهُ، وَصَدَّقَ بِالْجَنَّةِ وَالنَّارِ وَکُلِّ شَيئٍ، وَلَمْ یَشْهَدْ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ، لَمْ یَنْتَفِعْ بِشَيئٍ، وَکَانَ کَافِرًا۔ أَخْرَجَهُ الْقُرْطُبِيُّ وَنَحْوَهُ الْبَغَوِيُّ وَالطَّبَرِيُّ وَغَيْرُهُمْ۔
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان : ’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا۔‘‘ کی تفسیر میں مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ سے فرمایا : (اے حبیب!) اذان میں، اقامت میں، تشہد میں، جمعہ کے دن منبروں پر، عید الفطر کے دن (خطبوں میں) ایام تشریق میں، عرفہ کے دن، مقام جمرہ پر، صفا و مروہ پر، خطبہ نکاح میں (الغرض) مشرق و مغرب میں جب بھی میرا ذکر کیا جائے گا تو تیرا ذکر بھی میرے ذکر کے ساتھ شامل ہو گا اور اللہ تعالیٰ (نے فرمایا کہ اس) کا کوئی بندہ (رات دن) اگر اس کی حمد و ثنا بیان کرے اور جنت و دوزخ کے ساتھ ساتھ (باقی ہر ایک ارکان اسلام کی بھی) گواہی دے مگر یہ اقرار نہ کرے کہ محمد مصطفی ﷺ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ رسول ہیں تو وہ ہرگز ذرہ برابر بھی نفع نہیں پائے گا اور مطلقاً کافر (کا کافر) ہی رہے گا۔‘‘ اسے امام قرطبی اور اسی کی مثل امام بغوی، طبری وغیرہ نے روایت کیا ہے۔
3 : أخرجه القرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 20 / 106، والبغوي في معالم التنزیل، 4 / 502، والطبري في جامع البیان، 30 / 235، والشافعي في أحکام القرآن، 1 / 58، والسیوطي في الدر المنثور، 8 / 547۔549، والصنعاني في تفسیر القرآن، 3 / 380، والثعلبي في الجواھر الحسان، 4 / 424، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 4 / 525، وابن الجوزي في زاد المسیر، 9 / 163، والشوکاني في فتح القدیر، 5 / 463، والواحدي في الوجیز في تفسیر الکتاب العزیز، 2 / 1212۔
قول
4۔ قال ابن الجوزي : قد قرَن الله تعالی اسم نبینا ﷺ باسمه عزوجل عند ذکر الطاعۃ والمعصیۃ، فقال تعالی : {اَطِيْعُوا اللهَ وَ اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ} [النساء، 4 : 59] وقال : {وَیُطِيْعُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ} [التوبۃ، 9 : 71] وقال : {فَرُدُّوْهُ اِلَی اللهِ وَالرَّسُوْلِ} [النساء، 4 : 59] وقال : {فَإِنَّ ِللهِ خُمُسَهٗ وَ لِلرَّسُوْلِ} [الأنفال، 8 : 41] وقال : {وَمَا نَقَمُوْٓا اِلَّآ اَنْ اَغْنٰهُمُ اللهُ وَرَسُوْلُهٗ} [التوبۃ، 9 : 74] وقال : {اِنَّ الَّذِيْنَ یُؤْذُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ} [الأحزاب، 33 : 57] وقال : {اَلَمْ یَعْلَمُوْٓا اَنَّهٗ مَنْ یُّحَادِدِ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ} [التوبۃ، 9 : 63] وقال : {وَلاَ یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللهُ وَ رَسُوْلُهٗ} [التوبۃ، 9 : 29]۔
’’علامہ ابن جوزی بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنا نام نامی اور اسم گرامی ذکر فرمایا ساتھ ہی اپنے حبیب کے نام اقدس کا ذکر فرمایا خواہ اطاعت و اتباع کا مقام ہو یا گناہ اور نافرمانی کا۔ ارشاد باری ہے : {اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ( ﷺ ) کی اطاعت کرو} اور فرمایا : {اور اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) کی اطاعت بجا لاتے ہیں} اور فرمایا : {تو اسے (حتمی فیصلہ کے لیے) اللہ اور رسول ( ﷺ ) کی طرف لوٹا دو} اور فرمایا : {اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اور رسول ( ﷺ ) کے لیے ہے} اور فرمایا : {اور وہ (اسلام اور رسول ﷺ کے عمل میں سے) اور کسی چیز کو ناپسند نہ کر سکے سوائے اس کے کہ انہیں اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) نے غنی کر دیا تھا} اور فرمایا : {بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) کو اذیت دیتے ہیں} اور فرمایا : {کیا وہ نہیں جانتے کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) کی مخالفت کرتا ہے} اور فرمایا : {اور نہ ان چیزوں کو حرام جانتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) نے حرام قرار دیا ہے}۔‘‘
4 : ابن الجوزی في الوفا بأحوال المصطفی ﷺ : 368
قول
5۔ قَالَ أَبُو الْعَبَّاسِ هَارُوْنُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْهَاشِمِيُّ : مَنْ رَدَّ فَضْلَ النَّبِيِّ ﷺ ، فَهُوَ عِنْدِي زِنْدِيْقٌ لَا یُسْتَتَابُ، وَیُقْتَلُ لِأَنَّ اللهَ عزوجل قَدْ فَضَّلَهُ ﷺ عَلَی الْأَنْبِیَاء علیهم السلام وَقَدْ رُوِيَ عَنِ اللهِ عزوجل قَالَ : لَا أُذْکَرُ إِلَّا ذُکِرْتَ مَعِي، وَیَرْوِي فِي قَوْلِهِ : {لَعَمْرُکَ}، [الحجر، 15 : 72]، قَالَ : یَا مُحَمَّدُ، لَوْلَاکَ، مَا خَلَقْتُ آدَمَ۔
رَوَاهُ ابْنُ یَزِيْدَ الْخَـلَالُ (234۔311ھ) وَإِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ۔
’’حضرت ابو عباس ہارون بن العباس الہاشمی نے فرمایا کہ جس شخص نے حضور نبی اکرم ﷺ کی فضیلت کا انکار کیا، میرے نزدیک وہ زندیق (ومرتد) ہے، اس کی توبہ بھی قبول نہیں کی جائے گی، اور اسے قتل کیا جائے گا، کیونکہ بے شک اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو تمام انبیائِ کرام علیہم السلام پر فضیلت عطا فرمائی، اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان : ’’(اے محبوب!) میرا ذکر کبھی آپ کے ذکر کے بغیر نہیں کیا جائے گا۔‘‘ اور اس فرمانِ الٰہی : (اے حبیب مکرم!) آپ کی عمرِ مبارک کی قسم!‘‘ کی تفسیر میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے محمد مصطفی! اگر آپ کو پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو میں حضرت آدم کو بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘
5 : أخرجه الخلال في السنۃ، 1 / 273، الرقم : 273۔
اسے امام ابن یزید خلال (234۔ 311ھ) نے ذکر کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔
عالمِ ارواح میں ذکرِ شانِ رسولﷺ
2.4.3
رب ذوالجلا ل نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کی محفل میں اپنے حبیب لبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد اور فضائل کا ذکر فرمایا ۔ گویا یہ ذکرِ مصطفٰی سب سے پہلی محفل تھی جسے اللہ تعالی نے منعقد فرمایا ۔ اور اس محفل کے شرکاء صرف انبیاء کرام علیہم السلام تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری اور فضائل کا ذکر قرآن کریم کی متعدد آیات کریمہ میں موجود ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ ۚ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِي ۖ قَالُوا أَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُمْ مِنَ الشَّاهِدِينَ (۸۱)فَمَنْ تَوَلّٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ(۸۲)
اور یاد کرو جب اللہ نے نبیوں سے وعدہ لیا کہ میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کروں گا پھر تمہارے پاس وہ عظمت والارسول تشریف لائے گا جو تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو گاتو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا۔ (اللہ نے) فرمایا :(اے انبیاء!) کیا تم نے (اس حکم کا) اقرار کرلیا اور اس (اقرار) پر میرا بھاری ذمہ لے لیا؟ سب نے عرض کی،’’ ہم نے اقرار کرلیا‘‘ (اللہ نے) فرمایا، ’’ تو(اب) ایک دوسرے پر (بھی) گواہ بن جاؤ اور میں خود (بھی) تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں ۔ پھرجو کوئی اس اقرار کے بعدروگردانی کرے گاتو وہی لوگ نافرمان ہوں گے۔
سورہ آل عمران ( 3 :82,81)
قول
حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے بعد جس کسی کو نبوت عطا فرمائی ،ان سے سیدُ الانبیاء، محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے متعلق عہد لیا اور ان انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوموں سے عہد لیا کہ اگر ان کی حیات میں سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ مبعوث ہوں تو وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ایمان لائیں اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی مددو نصرت کریں۔
(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۸۱، ۱ / ۲۶۷-۲۶۸)
پس ثابت ہوا کہ ہمارے آقا و مولا، حبیب ِ خدا، محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں سب سے افضل ہیں۔اس آیت مبارکہ میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے عظیم فضائل بیان ہوئے ہیں۔ علماء کرام نے اس آیت کی تفسیر میں پوری پوری کتابیں تصنیف کی ہیں اور اس سے عظمت ِ مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بے شمار نکات حاصل کئے ہیں۔ چند ایک نکات یہ ہیں :
حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی شان میں اللہ تعالیٰ نے یہ محفل قائم فرمائی۔ | 1 |
خود عظمت ِ مصطفی ﷺ کو بیان کیا۔ | 2 |
عظمت ِ مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے سامعین کیلئے کائنات کے مقدس ترین افراد انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو منتخب فرمایا۔ | 3 |
کائنات وجود میں آنے سے پہلے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا ذکر جاری ہوا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی عظمت کا بیان ہوا۔ | 4 |
آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو تمام نبیوں کا نبی بنایا کہ تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بطورِ خاص آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے اور مدد کرنے کا حکم دیا۔ | 5 |
انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حکم فرمانے کے بعد باقاعدہ اس کا اقرار لیا حالانکہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کسی حکمِ الٰہی سے انکار نہیں کرتے۔ | 6 |
انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس اقرار کا باقاعدہ اعلان کیا۔ | 7 |
اقرار کے بعد انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ایک دوسرے پر گواہ بنایا۔ | 8 |
اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا کہ تمہارے اس اقرار پر میں خود بھی گواہ ہوں۔ | 9 |
انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اقرار کرنے کے بعد پھر جانا مُتَصَوَّر نہیں لیکن پھر بھی فرمایا کہ اس اقرار کے بعد جو پھرے وہ نافرمانوں میں شمار ہوگا۔ | 10 |
فرشتوں کا ذکرِ شانِ رسولﷺ
2.4.4
اِرشاد باری تعالیٰ ہے :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ.
’’وہی ہے جو تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی، تاکہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے جائے۔‘‘
الأحزاب، 33 : 43
دوسرے مقام پر اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
’’بے شک اللہ اور اُس کے (سب) فرشتے نبی (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو‘‘
الأحزاب، 33 : 56
قول
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالی کے درود بھیجنے کے معنی کو بیان کرتے ہوئے امام ابو عالیہ رحمۃ اللہ نے کہا ہے کہ کہ اللہ تعالی فرشتوں کے سامنے آپﷺ کی تعریف کرتا ہے۔
صحیح بخاری کتاب التفسیر ، با ب: ان اللہ و ملائکتہ یصلون علی النبی، الآیت 532/8
نبی کریم ﷺ پر فرشتوں کے درود کے ذکر کے موقع پر ان کی اضافت اللہ تعالی کی طرف سے کی گئی ہے۔ آیت کریمہ میں ہے ” وَمَلَائِكَتَهُ (اور اللہ تعالی کے فرشتے) “، اس آیت کی حکمت بیان کرتے ہوئے علامہ آلوسی رقم طراز ہیں: “اللہ تعالی کی طرف فرشتوں کی اضافت استقراق کے لئے ہے (یعنی سارے کے سارے فرشتے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتے ہیں)”
علامہ آلوسی نے یہ بھی فرمایا کہ “اس میں فرشتوں کی کثرت کے بارے میں تنبیہ ہے کہ ان کی اس قدر کثیر تعداد (جس کا احاطہ ان کی خالق کےسوا کوئی نہیں کر سکتا) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر دوام اور تسلسل کے ساتھ سب دنوں اور زمانوں میں ہر وقت درود پڑھ رہی ہے۔ اور اس میں آنحضرت کی جامع، کامل، پاکیزہ اور انتہائی عظیم عزت و تکریم ہے”۔
روح المعانی 86/22
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
صحابیِ رسول حضرت سیّدنا کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ روزانہ صبح کے وقت 70 ہزار فرشتے نازل ہوتے ہیں جو رسولِ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کی قبرِ انور کو گھیر لیتے، اس کے ساتھ اپنے پَر لگاتے اور بارگاہِ رسالت میں درود شریف کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ جب شام ہوتی ہے تو یہ فرشتے واپس چلے جاتے ہیں اور 70 ہزارمزید فرشتے حاضر ہوکر اسی طرح کرتے ہیں یہاں تک کہ روزِ قیامت رحمتِ عالم ﷺ 70 ہزار فرشتوں کے جُھرمَٹ میں قبرِ انور سے باہر تشریف لائیں گے۔
(مشکوٰۃ المصابیح،ج2،ص401،حدیث:5955ملخصاً)
مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن اس روایت کے تحت فرماتے ہیں: یہ ستر ہزار فرشتے وہ ہیں جن کو عمر میں ایک بار حاضریِ دربار کی اجازت ہوتی ہے، یہ حضرات حضور (صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہ سلَّم) کی برکت حاصل کرنے کو حاضری دیتے ہیں۔ جو فرشتہ ایک بار حاضری دے جاتا ہے اسے دوبارہ حاضری کا شرف نہیں ملتا ساری عمر میں صرف چند گھنٹے یعنی آدھا دن کی حاضری نصیب ہوتی ہے۔
(مراٰۃ المناجیح،ج8،ص282ملخصاً)
ملائک لگاتے ہیں آنکھوں میں اپنی
شب و روز خاکِ مزارِ مدینہ
حدیث پاک میں یہ بھی آیا ہے کہ جب اﷲ تبارک و تعالی نے اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ؟ فرمایا تھا تو اس میں انبیاء و غیر انبیاء سب شریک تھے۔ حدیث پاک میں یہ بھی مذکور ہے کہ سب سے پہلے جس کی زباں سے بَلٰی کا کلمہ نکلا وہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔
آلوسی، روح المعانی، 9 : 111
حدیث مبارکہ میں یہ بھی ہے کہ پھر جب آدم علیہ السلام کے سامنے ملائکہ نورِ محمدیﷺ کی تعظیم میں سجدہ ریز ہوئے تو سب سے پہلے سجدہ آدم کے لئے جس کی جبین زمیں پر جھکی وہ جبرائیل امین تھے۔ پس جنہوں نے نورِ محمدیﷺ کی تعظیم میں سب سے پہلے اپنی جبین حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ تعظیمی میں جھکا دی وہ حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے اور اس امرِ الٰہی کی تعمیل میں تمام ملائکہ کے امام ہو گئے۔
انبیا کا ذکرِ شانِ رسولﷺ
2.4.5
رسول اللہﷺ کی آمد و شان کا ذکر انبیا کی ان بشارتوں اور پیشین گوئیوں کی صورت میں ہم تک پہنچا جو حضور خاتم النبیینﷺ کی اس دنیا میں تشریف آوری سے متعلق سابقہ الہامی کتب میں مذکور ہیں۔ سیدنا آدم سے لے کر سیدنا عیسیٰ تک نسل در نسل اور گروہ در گروہ تمام انبیاء آپ ﷺکی آمد کے تذکرے کرتے رہے یہاں تک کہ یہ سلسلہ آپ ﷺکی ولادت مبارکہ کی صورت میں انجام پذیر ہوا۔
قرآن کریم کی متعدد آیات بینات میں حضور اکرم ﷺکی آمد کا ذکرِ جمیل آیا ہے،اللہ تعالی نے آپﷺ کی آمد کا تذکرہ‘ حسین پیرائے میں کیا،آمد مصطفیﷺ کے بیان کے لئے مختلف اسالیب اختیار کئے۔
قرآن کریم میں ذکرِ آمدِرسولﷺ پانچ طرح سے کیا گیا ہے:
پہلا یہ کہ اللہ تعالی نے اعلان فرمایا کہ میں اپنے رسول کو بھیجنے والا ہوں۔ | 1 |
دوسرا یہ کہ انبیاء کرام سے عہد لیا کہ جب میں اپنے رسول کو بھیجوں تو تم ضرور ان پر ایمان لانا اور ان کی حمایت کرنا۔ | 2 |
تیسرا یہ کہ آپﷺ کے تشریف لانے کے بعد اللہ تعالی نے اعلان فرمایا کہ آپﷺ کی آمد ہوچکی ہے۔ | 3 |
چوتھا یہ کہ انبیاء کرام نے آپﷺ کی آمد کے لئے دعائیں کیں۔ | 4 |
پانچواں یہ کہ انبیاء کرام نے آپﷺ کی آمد کی بشارت دی | 5 |
سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 129 حضرت ابراہیم وحضرت اسماعیل نے بیت اللہ شریف کی تعمیر کے بعد نبی آخر الزماں محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے لئے دعاکی،عرض کیا:پروردگار! اِن میں‘اِن ہی میں سے ایک عظمت والے رسول کو مبعوث فرما،جو اِن پر تیری آیات تلاوت فرمائیں،انہیں کتاب وحکمت کا علم دیں اور انہیں خوب پاک وستھرا کریں۔بیشک تو غالب حکمت والا ہے۔
قرآن کریم میں تمام انبیاء کرام کی دعاؤں کا تذکرہ نہیں کیا گیا،اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بھی تمام دعائیں نہیں بیان کی گئیں لیکن حبیب پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے لئے کی جانے والی دعا کو اہتمام کے ساتھ بیان کیا گیا اور اس دعا کو آیت کی شکل میں قرآن کاحصہ بنادیا گیا؛تاکہ دنیا کو معلوم ہوجائے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جلوہ گری کے لئے نہ صرف انبیاء کرام نے دعائیں کیں اور آمد کی بشارتیں دیں بلکہ آمد مصطفی کے اس بیان کو اللہ تعالی نے قرآن میں انبیاء کرام کی زبانی نقل فرمایا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب اپنی قوم کو دین کی دعوت دی تو آپ نے اپنے بھیجے جانے کے اہم مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خوشخبری دینے والا بناکر بھیجا گیا ہوں؛ سورۂ صف کی آیت نمبر 6 میں ارشاد الہی ہے:
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِن بَعْدِی اسْمُهٗ اَحْمَدُ
’’اور یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اپنے سے پہلی کتاب توریت کی تصدیق کرتا ہوا اور ان رسول کی بشارت سناتا ہوا جو میرے بعد تشریف لائیں گے اُن کا نام احمدہے‘‘
سورۃ اَلصَّفّ، 61 : 6
عربی زبان میں’’ خبر پہنچانے اور اطلاع دینے‘‘ کے لئے مختلف الفاظ مستعمل ہیں،لیکن’’مبشرا‘‘میں بشارت سنانے والے اور خوشخبری دینے والے کا معنی ہے۔
’’اطلاع دینے اور خبر پہنچانے ‘‘کے معنی پر دلالت کرنے والے تمام الفاظ کے مابین’’مبشرا‘‘کا لفظ اس لئے منتخب کیا گیا کیونکہ آمد مصطفیﷺ کی خبر عام اطلاع نہیں بلکہ خوشی ومسرت کی خبر ہے۔
قرآن کریم میں آپ ﷺکی آمد کے تذکرہ کے ساتھ آپﷺ کے اوصاف جمیلہ اور صفات حمیدہ کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔ اسی لیے قرآنی آیات میں کہیں آپﷺ کی آمد کو تمام جہانوں کے لئے رحمت قرار دیا گیا تو کہیں احسانِ عظیم،کہیں آپ کی جلوہ گری کو قدرت کی نشانی کہا گیا تو کہیں نعمت عظمی گردانا گیا۔
یہ سب بشارتیں جو کتبِ سابقہ اور صحائفِ آسمانی میں آپ ﷺ کے بارے میں مرقوم تھیں، میلاد کا موضوع بنتی ہیں۔ اِسی طرح حضور ﷺکا حسب و نسب اور حضرت آدم سے آگے جن پاک پشتوں میں آپ ﷺکا نور منتقل ہوتا ہوا پہلوئے سیدہ آمنہ رضی اﷲ عنہا میں دُرِّ یتیم کی صورت میں ظاہر ہوا اور وہ نوعِ اِنسانی کے لیے اﷲ کے فضل اور نعمت کے طور پر جلوہ گر ہوا، میلاد کا نفسِ مضمون ہیں جن کا ذکر مولد یا میلاد کے موضوع میں ڈھل جاتا ہے۔
سابقہ کتابوں میں میلادِ مصطفٰی ﷺ کا ذکر باب 2 کےحصہ 2.1.11 میں تفصیل سے آ چکا ہے کہ کس طرح سابقہ ا نبیا ء نے حضرت محمد ﷺ کی آمدکی خوشخبری اپنی امتوں کو دی اور وہ کیسے اپنے اپنے دور میں آپ ﷺ کی آمد کے منتظر رہے۔ اس لئے ان کو دہرانے کے بجائے آئیے ہم احادیث ِ مبارکہ میں موجود ان واقعات پر غور کرتے ہیں جس سے واضح ہو جائے گا کہ سابقہ انبیاء کرام نے کس طرح تذکرہِ شانِ رسول ﷺ کیا۔
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے بارگاہِ رِسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپﷺ کی نبوتِ مبارکہ کی شروعات کیسے ہوئی؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
دعوة أبي إبراهيمَ، وبُشري عيسي، ورأت أمي أنه يخْرُجُ منها نور أضاءت منه قصور الشام.
’’میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا اور عیسیٰ کی بشارت ہوں۔ اور (میری ولادت کے وقت) میری والدہ ماجدہ نے دیکھا کہ اُن کے جسم اَطہر سے ایک نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے۔‘‘
حوالاجات
أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 262، رقم : 22315 | 1 |
ابن حبان نے ’’الصحیح (14 : 313، رقم : 6404)‘‘ میں ایک اور سند سے انہی الفاظ پر مشتمل طویل روایت بیان کی ہے۔ | 2 |
بخاری نے ’’التاریخ الکبیر (5 : 342، رقم : 7807 ! 1736)‘‘ میں مختلف سند سے انہی الفاظ پر مشتمل طویل روایت بیان کی ہے۔ | 3 |
بخاری نے ’’التاریخ الاوسط (1 : 13، رقم : 33)‘‘ میں مختلف سند سے انہی الفاظ پر مشتمل طویل روایت بیان کی ہے۔ | 4 |
ابن أبي أسامه، المسند، 2 : 867، رقم : 927 | 5 |
روياني، المسند، 2 : 209، رقم : 1267 | 6 |
ابن الجعد، المسند : 492، رقم : 3428 | 7 |
طيالسي، المسند : 155، رقم : 1140 | 8 |
طبراني، المعجم الکبير، 8 : 175، رقم : 7729 | 9 |
طبراني، مسند الشاميين، 2 : 402، رقم : 1582 | 10 |
ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 1 : 46، رقم : 113 | 11 |
لالکائي، اعتقاد أهل السنة والجماعة، 1 : 422، 423، رقم : 1404 | 12 |
أبو نعيم، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، 6 : 90 | 13 |
ابن جوزي، المنتظم في تاريخ الأمم والملوک، 2 : 248 | 14 |
ابن عساکر، السيرة النبوية، 1 : 127 | 15 |
ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 275، 306، 322 | 16 |
ہیثمي نے ’’مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (8 : 222)‘‘ میں کہا ہے کہ اسے احمد نے روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے۔ | 17 |
سيوطي، کفايۃ الطالب اللبيب في خصائص الحبيب، 1 : 79 | 18 |
آپﷺ کی شانِ والا تو یہ ہے کہ آپ ﷺکی ولادت سے قبل انبیاء کرام نے نہ صرف آپﷺ کی بشارتوں اور پیشین گوئیوں کو بیان کیا بلکہ آپ ﷺ سے توسُّل بھی کیا ۔ ائمہ و محدثین نے اپنی کتابوں میں ثقہ روایات کے ساتھ آپﷺ کے قبل از ولادت فیوض و برکات کو ثابت کیا ہے۔
ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کی اللہ ربّ العزت کی بارگاہ میں اپنی خطا کی معافی کے لیے حضورﷺ کی ذات مبارک سے توسّل کرنا بھی ثابت ہے۔ آپ علیہ السلام نے اپنی خطاء کی معافی کے لیے حضور نبی اکرمﷺ کی ذات مبارکہ کو ربّ کی بارگاہ میں بطور وسیلہ پیش کیا اور ربِ رحیم نے اپنے حبیب ﷺ کے صدقے ان کی بھول چوک کو معاف کردیا۔ یہ (حکم الٰہی) اس لیے تھا کہ حضرت محمدﷺ کی قدر و منزلت پہلے ہی قدم پر حضرت آدم علیہ السلام پر آشکار ہوجائے۔ امام حاکم سے روایت ہے:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
عن عمر بن الخطاب، قال : قال رسول اللہﷺ : لما اقتَرَفَ آدم الخطیئَۃَ قال : یا رب! أسألُکَ بحقِ محمدٍ ﷺ لما غفرت لی۔ فقال اللہ : یا آدم! و کیف عَرَفْتَ محمدًا و لم أخلُقْہ؟ قال : یا رب! لأنک لمّا خلقتنی بیدک و نفختَ فیّ من روحک رفعتُ رأسی فرأیتُ علی قوائمِ العرشِ مکتوباً : لا إلہ إلا اللہ، محمد رسول اللہ، فعلمتُ أنک لم تُضِفْ إلی اسمکَ إلا أحَبَّ الخلقِ إلیک۔ فقال اللہ : صدقتَ یا آدم! إٔنہ لأحَبُّ الخلقِ إلیّ ادعنی بحقہ، فقد غفرتُ لک، و لو لا محمدٌ ما خلقتُکَ۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : جب حضرت آدم علیہ السلام خطاء کے مرتکب ہوئے تو انہوں نے (اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں) عرض کیا : اے پروردگار! میں تجھ سے محمدﷺ کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں کہ میری مغفرت فرما۔ تو اس پر اللہ رب العزت نے فرمایا : اے آدم !تم نے محمدﷺکو کس طرح پہچان لیا حالانکہ ابھی تک میں نے انہیں تخلیق بھی نہیں کیا؟ اس پر حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا : مولا! جب تو نے اپنے دست قدرت سے مجھے تخلیق کیا اور اپنی روح میرے اندر پھونکی، میں نے اپنا سر اوپر اٹھا کر دیکھا تو عرش کے ہر ستون پر لا إلہ إلا اللہ، محمد رسول اللہ لکھا ہوا دیکھا۔ تو میں نے جان لیا کہ تیرے نام کے ساتھ اسی کا نام ہوسکتا ہے جو تمام مخلوق میں سے تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے آدم! تو نے سچ کہا ہے، مجھے ساری مخلوق میں سے سب سے زیادہ محبوب وہی ہیں۔ اب جبکہ تم نے اس کے وسیلہ سےمجھ سے دعا کی ہے تو میں نے تجھے معاف کردیا اور اگر محمدﷺ نہ ہوتے تو میں تجھے بھی تخلیق نہ کرتا۔
حوالاجات
ا لمستدرک، 2 : 615 | |
یہ حدیث مختلف إسناد کے ساتھ مندرجہ ذیل کتب میں بھی روایت کی گئی ہے | |
دلائل النبوہ للبیھقی، 5 : 489 | 1 |
تاریخ ابن عساکر، 2 : 60۔359 | 2 |
المعجم الاوسط للطبرانی، 7 : 259، رقم : 4698 | 3 |
المعجم الصغیر للطبرانی، 2 : 3۔82 | 4 |
مجمع الزوائد، 8 : 253 | 5 |
البدایہ و النھایہ، 1 : 131 | 6 |
الجوہر المنظم : 61 | 7 |
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
عَنْ کَعْبٍ الْأَحْبَارِ رضی الله عنه قَالَ : أَيْ بُنَيَّ، فَکُلَّمَا ذَکَرْتَ اللهَ فَاذْکُرْ إِلَی جَنْبِهِ اسْمَ مُحَمَّدٍ ﷺ ، فَإِنِّي رَأَيْتُ اسْمَهُ مَکْتُوْبًا عَلَی سَاقِ الْعَرْشِ، وَأَنَا بَيْنَ الرُّوْحِ وَالطِّيْنِ، کَمَا أَنِّي طُفْتُ السَّمَاوَاتِ، فَلَمْ أَرَ فِي السَّمَاوَاتِ مَوْضِعًا إِلَّا رَأَيْتُ اسْمَ مُحَمَّدٍ ﷺ مَکْتُوْبًا عَلَيْهِ وَأَنَّ رَبِّي أَسْکَنَنِيَ الْجَنَّةَ، فَلَمْ أَرَ فِي الْجَنَّةِ قَصْرًا وَلَا غُرْفَةً إِلَّا اسْمَ مُحَمَّدٍ ﷺ مَکْتُوْبًا عَلَيْهِ، وَلَقَدْ رَأَيْتُ اسْمَ مُحَمَّدٍ ﷺ مَکْتُوْبًا عَلَی نُحُوْرِ الْعِيْنِ، وَعَلَی وَرَقِ قَصَبِ آجَامِ الْجَنَّةِ، وَعَلَی وَرَقِ شَجَرَةِ طُوْبَی، وَعَلَی وَرَقِ سِدْرَةِ الْمُنْتَھَی، وَعَلَی أَطْرَافِ الْحُجُبِ، وَبَيْنَ أَعْیُنِ الْمَـلَائِکَةِ، فَأَکْثِرْ ذِکْرَهُ، فَإِنَّ الْمَـلَائِکَةَ تَذْکُرُهُ فِي کُلِّ سَاعَاتِھَا۔
رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ وَالسَّیُوْطِيُّ۔
’’حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام نے(اپنی اولاد سے) فرمایا : اے میرے بیٹے، تو جب کبھی اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے تو اس کے ساتھ حضور نبی اکرم ﷺ کے نام کا بھی ذکر کرو، پس بے شک میں نے محمد مصطفی ﷺ کا اسم گرامی عرش کے پایوں پر لکھا ہوا پایا، درآنحالیکہ میں روح اور مٹی کے درمیانی مرحلہ میں تھا، جیسا کہ (روح پھونکے جانے کے بعد) میں نے تمام آسمانوں کا طواف کیا اور کوئی جگہ ان آسمانوں میں ایسی نہ پائی جہاں میں نے اسم ’’محمد ﷺ ‘‘ لکھا ہوا نہ دیکھا ہو، بے شک میں حورعین کے گلوں پر، جنت کے محلات کے بانسوں کے پتوں پر، طوبیٰ درخت کے پتوں پر، سدرۃ المنتہیٰ کے پتوں پر، دربانوں کی آنکھوں پر، اور فرشتوں کی آنکھوں کے درمیان بھی اسم ’’محمد ﷺ ‘‘ لکھا ہوا دیکھا، پس تم بھی کثرت سے ان کا ذکر کیا کرو، بے شک ملائکہ ہر گھڑی ان کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن عساکر اور سیوطی نے نقل کیا ہے۔
حوالاجات
أخرجه ابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 23 / 281، والسیوطي في الخصائص الکبری، 1 / 12 | 1 |
’’حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام نے(اپنی اولاد سے) فرمایا : اے میرے بیٹے، تو جب کبھی اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے تو اس کے ساتھ حضور نبی اکرم ﷺ کے نام کا بھی ذکر کرو، پس بے شک میں نے محمد مصطفی ﷺ کا اسم گرامی عرش کے پایوں پر لکھا ہوا پایا، درآنحالیکہ میں روح اور مٹی کے درمیانی مرحلہ میں تھا، جیسا کہ (روح پھونکے جانے کے بعد) میں نے تمام آسمانوں کا طواف کیا اور کوئی جگہ ان آسمانوں میں ایسی نہ پائی جہاں میں نے اسم ’’محمد ﷺ ‘‘ لکھا ہوا نہ دیکھا ہو، بے شک میں حورعین کے گلوں پر، جنت کے محلات کے بانسوں کے پتوں پر، طوبیٰ درخت کے پتوں پر، سدرۃ المنتہیٰ کے پتوں پر، دربانوں کی آنکھوں پر، اور فرشتوں کی آنکھوں کے درمیان بھی اسم ’’محمد ﷺ ‘‘ لکھا ہوا دیکھا، پس تم بھی کثرت سے ان کا ذکر کیا کرو، بے شک ملائکہ ہر گھڑی ان کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن عساکر اور سیوطی نے نقل کیا ہے۔
پچھلی امتوں کا ذکرِ شانِ رسولﷺ
2.4.6
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جتنے بھی انبیا علیہم السلام مبعوث فرمائے اُن سب سے یہ عہد لیا کہ اگرمحمّد ﷺتمہارے زمانہ میں مبعوث ہو ں تو اُن پر ایمان لانا اور ان کی مدد کرنا اور اپنی اپنی امتوں سے عہد بھی لیناکہ اگرتمہاری زندگی میں آپﷺتشریف لے آئیں تو ان پر ایمان لانا اوران کی مدد واتباع بھی کرنا۔ تمام انبیا علیہم السلام نے اپنی اپنی امتوں کوآپﷺکی بعثت کی بشارت دی اور آپ ﷺکی پیروی کی تلقین فرمائی۔
اس کا ثبوت ہمیں قرآن مجید میں بھی ملتا ہے کہ کس طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سابقہ امتوں کو انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعے رسول اللہ ﷺکے بارے میں خبر دی اور آپ کے اوصاف کا تذکرہ فرمایا، ۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے تورات و انجیل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تذکرئہ اَوصاف کے ضمن میں قرآن میں فرمایا :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَO
’’(یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرتے ہیں جو اُمی نبی ہیں جن (کے اَوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور اِنجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو اُنہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور اُن سے اُن کے بارِ گراں اور طوقِ (قیود) جو اُن پر (نافرمانیوں کے باعث مسلط) تھے ساقط فرماتے ہیں۔ پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اُس نورِ (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں‘‘
الأعراف، 7 : 157
یہود کا حضور نبی اکرمﷺ کو وسیلہ بنانا
(1)
حضور نبی اکرمﷺ کی ولادت سے پہلے یہود اپنے حریف مشرکینِ عرب پر فتح پانے کیلئے آپﷺ کے وسیلہ سے بارگاہ ِربّ العزت میں دعا کرتے جسکے نتیجے میں فتح سے ہمکنار ہوتے۔ اس بات پر نص قرآنی شاھد عادل ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَلَمَّا جَآء هُمْ کِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَھُمْ وَکَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلیَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ج فَلَمَّا جَآء ھُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِہٖ فَلَعْنَۃُ اللہ عَلَی الْکَافِریْنَo
اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے وہ کتاب (قرآن) آئی جو اس کتاب (توراۃ) کی (اصلاً) تصدیق کرنے والی ہے جو ان کے پاس موجود تھی، حالانکہ اس سے پہلے وہ خود (نبی آخر الزمان حضرت محمدﷺ اور ان پر اترنے والی کتاب قرآن کے وسیلے سے) کافروں پر فتحیابی (کی دعا) مانگتے تھے، سو جب ان کے پاس وہی نبی (حضرت محمدﷺ اپنے اوپر نازل ہونے والی کتاب قرآن کے ساتھ ) تشریف لے آیا جسے وہ (پہلے ہی سے) پہچانتے تھے تو اسی کے منکر ہوگئے، پس (ایسے دانستہ) انکار کرنے والوں پر اللہ کی لعنت ہے۔
البقرہ، 2 : 89
آیت کریمہ میں بیان ہو رہا ہے کہ وہ رسول جن کے وسیلہ جلیلہ سے مشرکینِ عرب پر فتح پانے کے لئے یہود بارگاہ الٰہی میں دعا مانگا کرتے تھے جب وہ بزم آراء ہستی ہوئے تو وہ اپنے تعصّب وعناد کی بنا پر آنے والے رسول کی کمال معرفت ہونے کے باوجود جن کوان کی آمد کی علامات سے جانتے پہچانتے بھی تھے …ان کا انکار کر بیٹھے اور وادی کفر میں سرگرداں ہوگئے۔
قرون اولیٰ سے لے کر آج تک مفسرین کی اکثریت نے اس آیت کریمہ کا جو معنی بیان کیا ہے وہ اصلاً حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ (تنویر المقباس : 13)۔ اس آیت کریمہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کے واسطہ و وسیلہ سے دعا کرنے کی برکت کا ذکر ہے کہ خود اہلِ کتاب، حضور نبی اکرمﷺ کی بعثت سے پہلے، کفار و مشرکین عرب سے جنگوں کے دوران اللہ تعالیٰ سے اپنے کامیابی و کامرانی کی دعا، آنحضرت ﷺ کے وسیلے سے مانگا کرتے تھے۔ ان کی دعا کے کلمات یہ تھے :
اللھم! انصرنا بالنبی المبعوث فی آخر الزمان الذی نَجِدُ نعتَہ و صفتَہ فی التوراۃ۔
اے اللہ! زمانہ آخر میں بھیجے جانے والے نبی ﷺ کہ جن کی تعریف اور صفات ہم تورات میں پاتے ہیں، کے وسیلے سے ہماری مدد فرما۔
الکشاف، 1 : 123
سابقہ کتابوں میں تذکرہ ِرسول اللہ ﷺکا تفصیلی بیان باب 2 کےحصہ 2.1.11 آچکا ہے۔ اس لئے ان کو دہرانے کے بجائے آئیے ہم احادیث میں موجود ان واقعات پر غور کرتے ہیں جس سے واضح ہو جائے گا کہ تذکرہِ شانِ رسول ﷺکس طرح سابقہ امتوں میں بھی جاری رہا۔
سیّدناکعب احبار ؓ (جو کہ سابقہ یہودی عالم تھے) بیان کرتے ہیں کہ :
ہم نےتورات میں محمّد ﷺکےبارے پڑھا ہے کہ وہ اللہ کے رسول اور برگزیدہ بندے ہوں گے نہ تیز مزاج اور نہ سخت دل ہوں گے، نہ بازاروں میں شور و غل کرنے والے، نہ برائی کا بدلہ برائی سے دینے والے بلکہ درگزر اور معاف کرنے والے ہوں گے۔ مکہ میں پیدا ہوں گے اور (مدینہ) طیبہ کی طرف ہجرت کریں گے۔ ان کی حکومت شام تک پھیلی ہو گی اور ان کی امت(اللہ عزّوجل کی) خوب حمد و ثنا بیان کرنے والی ہو گی۔ وہ ہر خوشی، غم اور ہر حال میں اللہ عزّوجل کی حمد و ثنا بیان کریں گے ہر بلند مقام پر اللہ کا نام اونچا کریں گے۔
سورج (کے طلوع و غروب) کا خیال رکھیں گے۔ نماز کو وقت پر ادا کریں گے، اپنے ازار(تہبند) پنڈلیوں تک رکھیں گے، اعضائے وضو دھوئیں گے، ان کا مؤذن بلند مقام پراذان کہے گا۔ جنگ اور نماز کی حالت میں ان کی صفیں ایک جیسی ہوں گی۔ رات (کےاوقات) میں (ذکر و تلاوت کے دوران) ان کی آواز پست ہو گی جیسے شہد کی مکھیوں کی آواز ہوتی ہے۔(دارمی)
احادیث میں کچھ ایسے واقعات کا ذکر بھی ہے جن سے واضح ہوتا ہے کہ یمن سے روم تک سابقہ اقوام آپ ﷺکی آمد سے باخبر تھیں۔ جن میں سے چند واقعات کا ذکر کرتے ہیں۔
راہب کا واقعہ:
(2)
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
عن أبي موسى قال : خرج أبو طالب إلى الشام وخرج معه النبي صلى الله عليه و سلم في أشياخ من قريش فلما أشرفوا على الراهب هبطوا فحلوا رحالهم فخرج إليهم الراهب وكانوا قبل ذلك يمرون به فلا يخرج إليهم قال فهم يحلون رحالهم فجعل يتخللهم الراهب حتى جاء فأخذ بيد رسول الله صلى الله عليه و سلم قال هذا سيد العالمين هذا رسول رب العالمين يبعثه الله رحمة للعالمين فقال له أشياخ من قريش ما علمك فقال إنكم حين أشرفتم من العقبة لم يبق شجر ولا حجر إلا خر ساجدا ولا يسجدان إلا لنبي وإني أعرفه بخاتم النبوة أسفل من غضروف كتفه مثل التفاحة ثم رجع فصنع لهم طعاما فلما أتاهم به وكان هو في رعية الإبل فقال أرسلوا إليه فأقبل وعليه غمامة تظله فلما دنا من القوم وجدهم قد سبقوه إلى فيء الشجرة فلما جلس مال فيء الشجرة عليه فقال انظروا إلى فيء الشجرة مال عليه فقال أنشدكم بالله أيكم وليه قالوا أبو طالب فلم يزل يناشده حتى رده أبو طالب وبعث معه أبو بكر بلالا وزوده الراهب من الكعك والزيت۔
( علق الشيخ أن ذكر بلال في الحديث خطأ إذ لم يكن خلق بعد )
” حضرت ابوموسی بیان کرتے ہیں ( کہ ایک مرتبہ ) ابوطالب نے ( تجارت کی غرض ) شام کا سفر کیا تو ان کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی گئے ( جو اس وقت بارہ سال کی عمر کے تھے ، یہ تجارتی قافلہ ( ملک شام کے ایک مقام بصری میں ) ایک راہب یعنی عیسائی پادری ( بحیرا نام ) کے ہاں مقیم ہوا ) اور سب نے اپنے کجاوے کھول لئے ” راہب ان لوگوں سے ملاقات کے لئے خود چلا آیا ، حالانکہ اس سے پہلے جب بھی یہ لوگ ادھر سے گزرے اور اس راہب کے ہاں قیام کیا تو اس نے کبھی باہر آکر ان سے ملاقات نہیں کی تھی ۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے کجاوے کھول رہے تھے اور راہب ان کے درمیان کسی کو ڈہونڈتا پھر رہا تھا ، یہاں تک کہ اس نے آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیا ، اور بولا یہی ہے ، تمام جہانوں کا سردار ، یہی ہے تمام جہانوں کے پروردگار کا رسول ( جو انسانیت عامہ کی ہدایت کے لئے آیا ہے ) یہی وہ شخص ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے تمام جہان ولاوں کے لئے رحمت ورافت کا ذریعہ بنا کر بھیجا ہے ۔ قریش کے شیوخ نے راہب کو یہ کہتے سنا تو ) کسی شیخ نے اس سے پوچھا کہ : تم اس ( نوعمر ) کے بارے میں ( یہ سب باتیں ) کہاں سے جانتے ہو ؟ راہب نے جواب دیا : جب تم دو پہاڑوں کے درمیان والے راستہ سے نکل کر سامنے آئے تو ( میں یہاں سے دیکھ رہا تھا کہ ، کوئی درخت اور کوئی پتھر ایسا نہ تھا جو سجدہ میں نہ گرا ہو اور درخت وپتھر بڑے پیغمبر کے علاوہ اور کسی کو سجدہ نہیں کرتے ، نیز میں نے ایک اس شخص کو اس مہر نبوت کے ذریعہ بھی پہچانا ہے جو اس کے شانہ کی ہڈی کے نیچے سیب کے مانند واقعہ ہے ۔ پھر وہ راہب اپنے گھر میں گیا اور قافلہ والوں کے لئے کھانا تیار کیا اور جب وہ کھانا لے کر ان کے پاس آیا تو ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ چرانے گئے ہوئے تھے ، راہب نے قافلہ والوں سے کہا کہ اس شخص کو بلوا لو ( کیونکہ میرا مہمان خصوصی اصل میں وہی شخص ہے اور اسی کے اعزاز میں میں نے کھانا تیار کرایا ہے ) چنانچہ ( بلابھیجنے پر یا از خود ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آرہے تھے ابر کا ایک ٹکڑا آپ پر سایہ کئے ہوئے تھا ، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ ایسی جگہوں پر کہ جہاں درخت کا سایہ تھا وہ لوگ پہلے ہی قبضہ کر کے پیٹھ گئے تھے تو فوراً ادرخت کی شاخوں نے ایک ٹکڑا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سایہ کر لیا ( یہ ماجرا دیکھ کر ) راہب نے قافلہ والوں سے کہا کہ درخت کے سایہ کو دیکھوں جو اس شخص پر جھک آیا ہے ۔ پھر اس نے کہا ، میں تم لوگوں کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں ) یہ بتاؤ کہ تم میں سے کون شخص اس ( نوعمر ) کا سر پرست ہے ؟ لوگوں نے کہا : ابوطالب ہیں ۔ ( یہ سن کر ) راہب بڑی دیر تک ابوطالب کو اس بات کے لئے سمجھاتا رہا اور قسم دیتا رہا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ واپس بھیج دیں بالآخر ابوطالب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ واپس بھیج دیا ، ینز ابوبکر نے بلال کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کر دیا اور راہب نے کنک اور روغن زیت کا توشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا ۔ ” ( ترمذی )
حوالاجات
مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ معجزوں کا بیان ۔ حدیث 506 | 1 |
جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ مناقب کا بیان ۔ حدیث 1586 | 2 |
ہرقل بادشاہ کا واقعہ:
(3)
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْحَکَمُ بْنُ نَافِعٍ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ حَرْبٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ هِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْهِ فِي رَکْبٍ مِنْ قُرَيْشٍ وَکَانُوا تِجَارًا بِالشَّأْمِ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَادَّ فِيهَا أَبَا سُفْيَانَ وَکُفَّارَ قُرَيْشٍ فَأَتَوْهُ وَهُمْ بِإِيلِيَائَ فَدَعَاهُمْ فِي مَجْلِسِهِ وَحَوْلَهُ عُظَمَائُ الرُّومِ ثُمَّ دَعَاهُمْ وَدَعَاتَرْجُمَانَهِ فَقَالَ أَيُّکُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا بِهَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ فَقُلْتُ أَنَا أَقْرَبُهُمْ نَسَبًا فَقَالَ أَدْنُوهُ مِنِّي وَقَرِّبُوا أَصْحَابَهُ فَاجْعَلُوهُمْ عِنْدَ ظَهْرِهِ ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ قُلْ لَهُمْ إِنِّي سَائِلٌ هَذَا عَنْ هَذَا الرَّجُلِ فَإِنْ کَذَبَنِي فَکَذِّبُوهُ فَوَاللَّهِ لَوْلَا الْحَيَائُ مِنْ أَنْ يَأْثِرُوا عَلَيَّ کَذِبًا لَکَذَبْتُ عَنْهُ ثُمَّ کَانَ أَوَّلَ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ أَنْ قَالَ کَيْفَ نَسَبُهُ فِيکُمْ قُلْتُ هُوَ فِينَا ذُو نَسَبٍ قَالَ فَهَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ مِنْکُمْ أَحَدٌ قَطُّ قَبْلَهُ قُلْتُ لَا قَالَ فَهَلْ کَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِکٍ قُلْتُ لَا قَالَ فَأَشْرَافُ النَّاسِ اتَّبِعُوَهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ قُلْتُ بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ قَالَ أَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ قُلْتُ بَلْ يَزِيدُونَ قَالَ فَهَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ قُلْتُ لَا قَالَ فَهَلْ کُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْکَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ فَهَلْ يَغْدِرُ قُلْتُ لَا وَنَحْنُ مِنْهُ فِي مُدَّةٍ لَا نَدْرِي مَا هُوَ فَاعِلٌ فِيهَا قَالَ وَلَمْ تُمْکِنِّي کَلِمَةٌ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا غَيْرُ هَذِهِ الْکَلِمَةِ قَالَ فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَکَيْفَ کَانَ قِتَالُکُمْ إِيَّاهُ قُلْتُ الْحَرْبُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ سِجَالٌ يَنَالُ مِنَّا وَنَنَالُ مِنْهُ قَالَ مَاذَا يَأْمُرُکُمْ قُلْتُ يَقُولُ اعْبُدُوا اللَّهَ وَحْدَهُ وَلَا تُشْرِکُوا بِهِ شَيْئًا وَاتْرُکُوا مَا يَقُولُ آبَاؤُکُمْ وَيَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ وَالصِّدْقِ وَالْعَفَافِ وَالصِّلَةِ فَقَالَ لِلتَّرْجُمَانِ قُلْ لَهُ سَأَلْتُکَ عَنْ نَسَبِهِ فَذَکَرْتَ أَنَّهُ فِيکُمْ ذُو نَسَبٍ وَکَذَلِکَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي نَسَبِ قَوْمِهَا وَسَأَلْتُکَ هَلْ قَالَ أَحَدٌ مِنْکُمْ هَذَا الْقَوْلَ فَذَکَرْتَ أَنْ لَا قُلْتُ لَوْ کَانَ أَحَدٌ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ قَبْلَهُ لَقُلْتُ رَجُلٌ يَأْتَسِي بِقَوْلٍ قِيلَ قَبْلَهُ وَسَأَلْتُکَ هَلْ کَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِکٍ فَذَکَرْتَ أَنْ لَا فَقُلْتُ فَلَوْ کَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِکٍ قُلْتُ رَجُلٌ يَطْلُبُ مُلْکَ أَبِيهِ وَسَأَلْتُکَ هَلْ کُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْکَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ فَذَکَرْتَ أَنْ لَا فَقَدْ أَعْرِفُ أَنَّهُ لَمْ يَکُنْ لِيَذَرَ الْکَذِبَ عَلَی النَّاسِ وَيَکْذِبَ عَلَی اللَّهِ وَسَأَلْتُکَ أَشْرَافُ النَّاسِ اتَّبَعُوهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ فَذَکَرْتَ أَنَّ ضُعَفَائَهُمْ اتَّبَعُوهُ وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ وَسَأَلْتُکَ أَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ فَذَکَرْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ وَکَذَلِکَ أَمْرُ الْإِيمَانِ حَتَّی يَتِمَّ وَسَأَلْتُکَ أَيَرْتَدُّ أَحَدٌ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ فَذَکَرْتَ أَنْ لَا وَکَذَلِکَ الْإِيمَانُ حِينَ تُخَالِطُ بَشَاشَتُهُ الْقُلُوبَ وَسَأَلْتُکَ هَلْ يَغْدِرُ فَذَکَرْتَ أَنْ لَا وَکَذَلِکَ الرُّسُلُ لَا تَغْدِرُ وَسَأَلْتُکَ بِمَا يَأْمُرُکُمْ فَذَکَرْتَ أَنَّهُ يَأْمُرُکُمْ أَنْ تَعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِکُوا بِهِ شَيْئًا وَيَنْهَاکُمْ عَنْ عِبَادَةِ الْأَوْثَانِ وَيَأْمُرُکُمْ بِالصَّلَاةِ وَالصِّدْقِ وَالْعَفَافِ فَإِنْ کَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا فَسَيَمْلِکُ مَوْضِعَ قَدَمَيَّ هَاتَيْنِ وَقَدْ کُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ وَلَمْ أَکُنْ أَظُنُّ أَنَّهُ مِنْکُمْ فَلَوْ أَنِّي أَعْلَمُ أَنِّي أَخْلُصُ إِلَيْهِ لَتَجَشَّمْتُ لِقَائَهُ وَلَوْ کُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمَيْهِ ثُمَّ دَعَا بِکِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي بَعَثَ بِهِ مَعَ دِحْيَةِ الکَلبْيِّ إِلَی عَظِيمِ بُصْرَی فَدَفَعَهُ عَظِيمُ بُصْرَی إِلَی هِرَقْلَ فَقَرَأَهُ فَإِذَا فِيهِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَی هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ سَلَامٌ عَلَی مَنْ اتَّبَعَ الْهُدَی أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَدْعُوکَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلَامِ أَسْلِمْ تَسْلَمْ يُؤْتِکَ اللَّهُ أَجْرَکَ مَرَّتَيْنِ فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْکَ إِثْمَ الْيَرِيسِيِّينَ وَ يَا أَهْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْا إِلَی کَلِمَةٍ سَوَائٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَکُمْ أَنْ لَا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِکَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ فَلَمَّا قَالَ مَا قَالَ وَفَرَغَ مِنْ قِرَائَةِ الْکِتَابِ کَثُرَ عِنْدَهُ الصَّخَبُ فَارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ وَأُخْرِجْنَا فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي حِينَ أُخْرِجْنَا لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي کَبْشَةَ إِنَّهُ يَخَافُهُ مَلِکُ بَنِي الْأَصْفَرِ فَمَا زِلْتُ مُوقِنًا أَنَّهُ سَيَظْهَرُ حَتَّی أَدْخَلَ اللَّهُ عَلَيَّ الْإِسْلَامَ وَکَانَ ابْنُ النَّاطُورِ صَاحِبُ إِيلِيَائَ وَهِرَقْلَ سُقُفَّ عَلَی نَصَارَی الشَّأْمِ يُحَدِّثُ أَنَّ هِرَقْلَ حِينَ قَدِمَ إِيلِيَائَ أَصْبَحَ يَوْمًا خَبِيثَ النَّفْسِ فَقَالَ بَعْضُ بَطَارِقَتِهِ قَدْ اسْتَنْکَرْنَا هَيَأْتَکَ قَالَ ابْنُ النَّاطُورِ وَکَانَ هِرَقْلُ حَزَّائً يَنْظُرُ فِي النُّجُومِ فَقَالَ لَهُمْ حِينَ سَأَلُوهُ إِنِّي رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ حِينَ نَظَرْتُ فِي النُّجُومِ مَلِکَ الْخِتَانِ قَدْ ظَهَرَ فَمَنْ يَخْتَتِنُ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ قَالُوا لَيْسَ يَخْتَتِنُ إِلَّا الْيَهُودُ فَلَا يُهِمَّنَّکَ شَأْنُهُمْ وَاکْتُبْ إِلَی مَدَايِنِ مُلْکِکَ فَيَقْتُلُوا مَنْ فِيهِمْ مِنْ الْيَهُودِ فَبَيْنَا هُمْ عَلَی أَمْرِهِمْ أُتِيَ هِرَقْلُ بِرَجُلٍ أَرْسَلَ بِهِ مَلِکُ غَسَّانَ يُخْبِرُ عَنْ خَبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا اسْتَخْبَرَهُ هِرَقْلُ قَالَ اذْهَبُوا فَانْظُرُوا أَمُخْتَتِنٌ هُوَ أَمْ لَا فَنَظَرُوا إِلَيْهِ فَحَدَّثُوهُ أَنَّهُ مُخْتَتِنٌ وَسَأَلَهُ عَنْ الْعَرَبِ فَقَالَ هُمْ يَخْتَتِنُونَ فَقَالَ هِرَقْلُ هَذَا مُلْکُ هَذِهِ الْأُمَّةِ قَدْ ظَهَرَ ثُمَّ کَتَبَ هِرَقْلُ إِلَی صَاحِبٍ لَهُ بِرُومِيَةَ وَکَانَ نَظِيرَهُ فِي الْعِلْمِ وَسَارَ هِرَقْلُ إِلَی حِمْصَ فَلَمْ يَرِمْ حِمْصَ حَتَّی أَتَاهُ کِتَابٌ مِنْ صَاحِبِهِ يُوَافِقُ رَأْيَ هِرَقْلَ عَلَی خُرُوجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَّهُ نَبِيٌّ فَأَذِنَ هِرَقْلُ لِعُظَمَائِ الرُّومِ فِي دَسْکَرَةٍ لَهُ بِحِمْصَ ثُمَّ أَمَرَ بِأَبْوَابِهَا فَغُلِّقَتْ ثُمَّ اطَّلَعَ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الرُّومِ هَلْ لَکُمْ فِي الْفَلَاحِ وَالرُّشْدِ وَأَنْ يَثْبُتَ مُلْکُکُمْ فَتُبَايِعُوا هَذَا النَّبِيَّ فَحَاصُوا حَيْصَةَ حُمُرِ الْوَحْشِ إِلَی الْأَبْوَابِ فَوَجَدُوهَا قَدْ غُلِّقَتْ فَلَمَّا رَأَی هِرَقْلُ نَفْرَتَهُمْ وَأَيِسَ مِنْ الْإِيمَانِ قَالَ رُدُّوهُمْ عَلَيَّ وَقَالَ إِنِّي قُلْتُ مَقَالَتِي آنِفًا أَخْتَبِرُ بِهَا شِدَّتَکُمْ عَلَی دِينِکُمْ فَقَدْ رَأَيْتُ فَسَجَدُوا لَهُ وَرَضُوا عَنْهُ فَکَانَ ذَلِکَ آخِرَ شَأْنِ هِرَقْلَ قَالَ أبُوعَبْدِ اللهِ رَوَاهُ صَالِحُ بْنُ کَيْسَانَ وَيُونُسُ وَمَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ
ابوالیمان ، حکم بن نافع، شعیب، زہری، عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ، ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے سفیان بن حرب نے بیان کیا کہ ہرقل نے ان کے پاس ایک شخص کو بھیجا (اور وہ اس وقت قریش کے چند سرداروں میں بیٹھے ہوئے تھے اور وہ لوگ شام میں تاجر کی حیثیت سے گئے تھے (یہ واقعہ اس زمانے میں ہوا) جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوسفیان اور دیگر کفار قریش سے ایک محدود عہد کیا تھا، غرض! سب قریش ہرقل کے پاس آئے، یہ لوگ اس وقت ایلیا میں تھے، تو ہرقل نے ان کو اپنے پاس دربار میں طلب کیا، اور اس کے گرد سرداران روم (بیٹھے ہوئے) تھے، پھر ان (سب قریشیوں) کو اس نے (اپنے قریب بلایا) اپنے ترجمان کو طلب کیا قریشیوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ تم میں سب سے زیادہ اس شخص کا قریب النسب کون ہے، جو اپنے آپ کو نبی کہتا ہے؟ ابوسفیان کہتے ہیں، میں نے کہا میں ان سب سے زیادہ ان کا قریبی رشتہ دار ہوں، یہ سن کر ہرقل نے کہا کہ ابوسفیان کو میرے قریب کردو اور اس کے ساتھیوں کو بھی اس کے قریب رکھو، اور ان کو ابوسفیان کی پس پشت کھڑا کردو، پھر ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے کہو کہ میں ابوسفیان سے اس شخص کا حال پوچھتا ہوں (جو اپنے آپ کو نبی کہتا ہے اگر مجھ سے جھوٹ بیان کرے، تو تم فوراً اس کی تکذیب کر دینا (ابوسفیان کہتے ہیں کہ) اللہ کی قسم اگر مجھے اس بات کی غیرت نہ ہوتی کہ لوگ میرے اوپر جھوٹ بولنے کا الزام لگائیں گے تو یقینا میں آپ کی نسبت غلط باتیں بیان کر دیتا، غرض سب سے پہلے جو ہرقل نے مجھ سے پوچھا، وہ یہ تھا کہ اس نے کہا کہ اس کا نسب تم لوگوں میں کیسا ہے؟ میں نے کہا وہ ہم میں بڑے نسب والے ہیں، پھر ہرقل نے کہا کہ کیا تم میں سے کسی نے اس سے پہلے بھی اس بات (نبوت) کا دعوی کیا ہے؟ میں نے کہا نہیں (پھر ہرقل نے) کہا، کہ کیا ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ گذرا ہے؟ میں نے کہا نہیں (پھر ہرقل نے) کہا کہ امیر لوگ ان کی پیروی کر رہے ہیں یا کمزور؟ میں نے کہا نہیں، بلکہ کمزور (پھر) ہرقل بولا آیا ان کے پیروکار (روزبروز) بڑھتے جاتے ہیں یا گھٹتے جاتے ہیں، میں نے کہا (کم نہیں ہوتے بلکہ) زیادہ ہوتے جاتے ہیں، ہرقل بولا، آیا ان میں سے کوئی شخص ان کے دین میں داخل ہونے کے بعد دین کی شدت کے باعث اس دین سے خارج بھی ہوجاتا ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں (پھر ہرقل نے) کہا کہ کیا وہ کبھی وعدہ خلافی کرتے ہیں؟ میں نے کہا نہیں اور اب ہم ان کی مہلت میں ہیں ہم نہیں جانتے کہ وہ اس (مہلت کے زمانہ) میں کیا کریں گے (وعدہ خلافی یا ایفائے عہد) ، ابوسفیان کہتے ہیں کہ سوائے اس کلمہ کے مجھے اور کوئی موقع نہ ملا کہ میں کوئی بات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات میں داخل کر دیتا، ہرقل نے کہا آیا تم نے (کبھی) اس سے جنگ کی ہے؟ میں نے کہا ہاں، تو بولا تمہاری جنگ ان سے کیسی رہتی ہے، میں نے کہا کہ لڑائی ہمارے اور ان کے درمیان ڈول (کے مثل) رہتی ہے، کہ کبھی وہ ہم سے لے لیتے ہیں اور کبھی ہم ان سے لے لیتے ہیں (کبھی ہم فتح پاتے ہیں اور کبھی وہ) ہرقل نے پوچھا کہ وہ تم کو کیا حکم دیتے ہیں؟ میں نے کہا کہ وہ کہتے ہیں صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور شرک کی باتیں جو تمہارے باپ دادا کیا کرتے تھے چھوڑ دو، اور ہمیں نماز پڑھنے اور سچ بولنے اور پرہیزگاری اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں اس کے بعد ہرقل نے ترجمان سے کہا کہ ابوسفیان سے کہہ دے کہ میں نے تم سے ان کا نسب پوچھا تو تم نے بیان کیا کہ وہ تمہارے درمیان میں اعلی نسب والے ہیں اور تمام پیغمبر اپنی قوم کے نسب میں اسی طرح (عالی نسب) مبعوث ہوا کرتے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا یہ بات (اپنی نبوت کا دعوی) تم میں سے کسی اور نے بھی کیا تھا، تو تم نے بیان کیا کہ نہیں میں نے (اپنے دل میں) سمجھ لیا کہ اگر یہ بات ان سے پہلے کوئی کہہ چکا ہو تو میں کہہ دوں گا کہ وہ ایک شخص ہے جو اس قول کی تقلید کرتے ہیں جو ان سے پہلے کہا جا چکا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ تھا، تو تم نے بیان کیا کہ نہیں، پس میں نے (اپنے دل میں) سمجھ لیا کہ ان کے باپ دادا میں سے کوئی بادشاہ ہوا ہوگا، تو میں کہہ دوں گا کہ وہ ایک شخص ہیں جو اپنے باپ دادا کا ملک حاصل کرنا چاہتے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا اس سے پہلے کہ انہوں نے یہ بات کہی ہے ان پر کبھی جھوٹ کی تہمت لگائی گئی ہے، تو تم نے کہا کہ نہیں، پس (اب) میں یقینا جانتا ہوں کہ (کوئی شخص) ایسا نہیں ہو سکتا کہ لوگوں پر جھوٹ نہ بولے اور اللہ پر جھوٹ بولے اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا بڑے لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے یا کمزور لوگوں نے، تو تم نے کہا کہ کمزور لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے، (دراصل) تمام پیغمبروں کے پیرو یہی لوگ (ہوتے رہے) ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ ان کے پیرو زیادہ ہوتے جاتے ہیں یا کم ہوتے جاتے ہیں، تو تم نے بیان کیا کہ وہ زیادہ ہوتے جاتے ہیں (درحقیقت) ایمان کا کمال کو پہنچنے تک یہی حال ہوتا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ کیا کوئی شخص اس کے بعد ان کے دین میں داخل ہوجائے ان کے دین سے ناخوش ہو کر (دین سے) پھر بھی جاتا ہے؟ تو تم نے بیان کیا کہ نہیں اور ایمان کی یہی صورت ہے، جب کہ اس کی بشاشت دلوں میں بیٹھ جائے، اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا وہ وعدہ خلافی کرتے ہیں تو تم نے بیان کیا کہ نہیں (بات یہ ہے کہ) اسی طرح تمام پیغمبر وعدہ خلافی نہیں کرتے اور میں نے تم سے پوچھا کہ وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتے ہیں تو تم نے بیان کیا کہ وہ تمہیں یہ حکم دیتے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کی شریک نہ کرو اور تمہیں بتوں کی پرستش سے منع کرتے ہیں اور تمہیں نماز پڑھنے اور سچ بولنے اور پرہیزگاری کا حکم دیتے ہیں، پس اگر تمہاری کہی ہوئی بات سچ ہے تو عنقریب وہ میرے ان قدموں کی جگہ کے مالک ہو جائیں گے اور بے شک میں (کتب سابقہ سے) جانتا تھا کہ وہ ظاہر ہونے والے ہیں، مگر میں یہ نہ جانتا تھا کہ وہ تم میں سے ہوں گے، پس اگر میں جانتا کہ ان تک پہنچ سکوں گا، تو یقینا میں ان سے ملنے کا بڑا اہتمام کرتا اور اگر میں ان کے پاس ہوتا تو یقینا میں ان کے پیروں کو دھوتا، پھر ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا (مقدس) خط جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دحیہ کلبی کے ہمراہ امیر بصری کے پاس بھیجا تھا اور امیر بصری نے اس کو ہرقل کے پاس بھیج دیا تھا، منگوایا، اور اس کو پڑھوایا، تو اس میں یہ مضمون تھا اللہ نہایت مہربان رحم کرنے والے کے نام سے (یہ خط ہے) اللہ کے بندے اور اس کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے بادشاہ روم کی طرف، اس شخص پر سلام ہو جو ہدایت کی پیروی کرے، اس کے بعد واضح ہو کہ میں تم کو اسلام کی طرف بلاتا ہوں، اسلام لاؤ گے تو (قہرالہی) سے بچ جاؤ گے اور اللہ تمہیں تمہارا دو گنا ثواب دے گا اگر تم (میری دعوت سے) منہ پھیرو گے تو بلاشبہ تم پر (تمہاری) تمام رعیت (کے ایمان نہ لانے) کا گناہ ہوگا اور اے اہل کتاب ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان میں مشترک ہے یعنی یہ کہ ہم اور تم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اور نہ ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا پروردگار بنائے، اللہ فرماتا ہے کہ پھر اگر اہل کتاب اس سے اعراض کریں تو تم کہہ دنیا کہ اس بات کے گواہ رہو کہ ہم اللہ کی اطاعت کرنے والے ہیں، ابوسفیان کہتے ہیں کہ جب ہرقل نے جو کچھ کہا کہہ چکا اور (آپکا) خط پڑھنے سے فارغ ہوا تو اس کے ہاں شور زیادہ ہوا، آوازیں بلند ہوئیں اور ہم لوگ (وہاں سے) نکال دیئے گئے، تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ (دیکھو تو) ابوکبشہ کے بیٹے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام ایسا بڑھ گیا کہ اس سے بنی اصفر (روم) کا بادشاہ خوف رکھتا ہے، پس اس وقت سے مجھے ہمیشہ کے لئے اس کا یقین ہوگیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ضرور غالب ہوجائیں گے، یہاں تک کہ اللہ نے مجھے اسلام میں داخل فرمایا اور ابن ناطور ایلیا کا حاکم تھا اور ہرقل شام کے نصرانیوں کا سردار تھا، بیان کیا جاتا ہے کہ ہرقل جب ایلیا میں آیا تو ایک دن صبح کو بہت پریشان خاطر اٹھا، تو اس کے بعض خواص نے کہا کہ ہم (اس وقت) آپ کی حالت خراب پاتے ہیں؟ ابن ناطور کہتا ہے کہ ہرقل کاہن تھا، نجوم میں مہارت رکھتا تھا اس نے اپنے خواص سے جب کہ انہوں نے پوچھا، یہ کہا کہ میں نے رات کو جب نجوم میں نظر کی، تو دیکھا کہ ختنہ کرنے والا بادشاہ غالب ہوگیا تو (دیکھو کہ) اس زمانہ کے لوگوں میں ختنہ کون کرتا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ سوائے یہود کے کوئی ختنہ نہیں کرتا، سو یہود کی طرف سے آپ اندیشہ نہ کریں اور اپنے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں لکھ بھیجئے کہ جتنے یہود وہاں ہیں سب قتل کردیئے جائیں، پس وہ لوگ اپنی اس تدبیر میں تھے کہ ہرقل کے پاس ایک آدمی لایا گیا، جسے غسان کے بادشاہ نے بھیجا تھا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خبر بیان کی، جب ہرقل نے اس سے یہ خبر معلوم کی، تو کہا کہ جاؤ اور دیکھو کہ وہ ختنہ کئے ہوئے ہے کہ نہیں، لوگوں نے اس کو دیکھا تو بیان کیا کہ وہ ختنے کئے ہوئے ہیں، اور ہرقل نے اس سے عرب کا حال پوچھا، تو اس نے کہا کہ وہ ختنہ کرتے ہیں، تب ہرقل نے کہا کہ یہی (نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس زمانہ کے لوگوں کا بادشاہ ہے، جو روم پر غالب آئے گا، پھر ہرقل نے اپنے دوست کو رومیہ (یہ حال) لکھ کر بھیجا اور وہ علم (نجوم) میں اسی کا ہم پایہ تھا اور (یہ لکھ کر) ہرقل حمص کی طرف چلا گیا، پھر حمص سے باہر نہیں جانے پایا کہ اس کے دوست کا خط (اسکے جواب میں) آگیا وہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور کے بارے میں ہرقل کی رائے کی موافقت کرتا تھا اور یہ (اس نے لکھا تھا) کہ وہ نبی ہیں اس کے بعد ہرقل نے سرداران روم کو اپنے محل میں جو حمص میں تھا، طلب کیا اور حکم دیا کہ محل کے دروازے بند کر لئے جائیں تو وہ بند کر دئیے گئے اور ہرقل (اپنے گھر سے) باہر آیا تو کہا کہ اے روم والو کیا ہدایت اور کامیابی میں (کچھ حصہ) تمہارا بھی ہے اور (تمہیں) یہ منظور ہے کہ تمہاری سلطنت قائم رہے (اگر ایسا چاہتے ہو) تو اس نبی کی بیعت کر لو، تو (اسکے سنتے ہی) وہ لوگ وحشی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف بھا گے، تو کواڑوں کو بند پایا بالآخر جب ہرقل نے اس درجے ان کی نفرت دیکھی اور (ان کے) ایمان لانے سے مایوس ہوگیا، تو بولا کہ ان لوگوں کو میرے پاس واپس لاؤ (جب وہ آئے تو ان سے) کہا میں نے یہ بات ابھی جو کہی تو اس سے تمہارے دین کی مضبوطی کا امتحان لینا تھا وہ مجھے معلوم ہوگئی تب لوگوں نے اسے سجدہ کیا اور اس سے خوش ہو گئے، ہرقل کی آخری حالت یہی رہی ابوعبداللہ کہتا ہے کہ اس حدیث کو (شعیب کے علاوہ) صالح بن کیسان اور یونس اور معمر نے (بھی) زہری سے روایت کیا ہے۔
حوالاجات
صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ وحی کا بیان ۔ حدیث 6 | 1 |
1000 سال پُرانا خط:
(4)
رسول اللہ ﷺ کی ولادت ِمبارک سے تقریباًایک ہزار سال پہلے ملکِ یمن پر اَسْعَد تُبّان حِمْیَری نامی بادشاہ کی حکومت تھی، چونکہ یمن کی زبان میں بادشاہ کو تُبَّع کہا جاتا تھا اِس لئے تاریخ میں یہ بادشاہ تُبَّع الْاَوَّل (یعنی پہلا بادشاہ) اور تُبَّع حِمْیَری کے نام سے مشہور ہوا۔
ایک مرتبہ تبع اپنے وزیر کے ساتھ سیر پر نکلا، تقریباً ایک لاکھ 13 ہزار پیدل چلنے والے اور ایک لاکھ 30 ہزار گُھڑسوار بھی اس کے ہمراہ تھے۔جس جس شہر میں یہ قافِلہ پہنچتا لوگ ہیبت اور تعجّب کے مارے بہت عزّت و اِحتِرام سے پیش آتے تھے۔اِس سفر کے دوران تبع ہر شہر سے 10عُلَما منتخب کر کے اپنے قافلے میں شامل کررہا تھا، یوں کئی شہروں کی سیر کے بعدتقریباً 4 ہزار عُلَما تبع کے قافِلے میں جمع ہوگئے۔
جب یہ قافلہ شہرِ مکّہ پہنچا تو وہاں کے لوگوں نے اِن کی ذرا بھی آؤ بھگت نہ کی، یہ دیکھ کر تبع کو بہت غصّہ آیا، اُس نے وزیر کو بلا کر اِس کی وجہ پوچھی تو وہ بولا: اس شہر میں ایک گھر ہے جسے بیت اللہ کہتے ہیں، اس کی اور اس کے خادموں کی جو یہاں کے باشندے ہیں تمام لوگ بے حد تعظیم کرتے ہیں اور جتنا آپ کا لشکر ہے اس سے کہیں زیادہ دور اور نزدیک کے لوگ اس گھر کی زیارت کو آتے ہیں اور یہاں کے باشندوں کی خدمت کر کے چلے جاتے ہیں، پھر آپ کا لشکر ان کے خیال میں کیوں آئے۔ یہ سن کر بادشاہ کو غصہ آیا اور قسم کھا کر کہنے لگا کہ میں اس گھر کو کھدوا دوں گا اور یہاں کے باشندوں کو قتل کروا دوں گا، خُدا کا کرنا یہ ہوا کہ یہ خیال آتے ہی تبع کے سَر میں شدید درد شُروع ہوگیا جبکہ اُس کی آنکھ، کان، ناک اور منہ سے بدبودار پانی بہنے لگا، جس کی وجہ سے اِتنی سَڑاند پیدا ہوگئی کہ تبع کے پاس ایک لمحہ ٹھہرنا کسی عذاب سے کم نہ تھا۔ وزیر نے طبیبوں (Doctors) سے مشورہ کیا مگر کوئی بھی تبع کا عِلاج دریافت نہ کرسکا، طبیبوں کا کہنا تھا کہ یہ کوئی آسمانی معاملہ لگتا ہے جس کو ٹالنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔
بیماری نے تبع کی نیند اُڑا کر رکھ دی تھی کہ اچانک رات کے ایک پَہَر ایک عالِم صاحب وزیر کے پاس آئے اور رازداری سے فرمانے لگے: اگر بادشاہ میرے سوال کا سچ سچ جواب دینے کو تیار ہوجائے تو میں اُس کا عِلاج کرسکتا ہوں۔ وزیر نے یہ بات تبع کو بتائی تو وہ فوراً راضی ہوگیا۔ چنانچِہ جب عالِم صاحب تبع کے پاس پہنچ گئے جہاں اُن دونوں کے علاوہ کوئی نہ تھاتو اُنہوں نے پوچھا: بادشاہ! سچ سچ بتاؤ!کعبہ کے متعلّق تمہارے میں دل میں کیا بات ہے؟ تبع جو بیماری کی وجہ سے مکمّل نڈھال تھا فوراً اپنے بُرے ارادے عالِم صاحب کو بیان کرنے لگا جسے سن کر وہ بولے: تمہاری بیماری کی وجہ یہی بری نیّت ہے، یہ بات یاد رکھو کہ کعبہ کا مالِک چُھپی باتوں کو بھی جان لیتا ہے، اِس لئے اپنے دل سے بُرے خیالات نکال دو، اِسی میں تمہارا بھلا ہے۔ تبع مرتا کیا نہ کرتا، فوراً بُرے ارادوں سے تائب ہوگیا اور ابھی عالِم صاحب گئے بھی نہ تھے کہ وہ بِالکل ٹھیک ہوگیا، عالِم صاحب کی بات اپنی آنکھوں سے دُرُست ہوتی دیکھ کر تبع ربِّ پاک پر ایمان لے آیا اور دینِ اِبراہیمی پر قائم ہوگیا، پھر اُس نے کعبہ کی تعظیم کے لئے 7 غلاف بھی تیّار کروائے، اِس سے پہلے کبھی کسی نے کعبہ پر غلاف نہیں چڑھایا تھا۔ اِس کے بعد تبع شہرِ مکّہ کے رہنے والوں کو کعبہ کی حفاظت کا حکم دے کر مدینےشریف کی طرف چل پڑا۔
مدینےشریف میں اُن دنوں آبادی نہ تھی، پانی کے ایک چشمے کے علاوہ یہاں زندگی کے کوئی آثار نہیں تھے۔ تبع کے قافلِے نے وہاں پہنچ کر اِسی چشمے کے پاس پڑاؤ ڈالا، یہاں قیام کے دوران تقریباً 4 ہزار عُلَما کا آپس میں ایک مشورہ ہوا جس کے بعد اُن میں سے 400 عُلَما نےیہ فیصلہ کیا کہ وہ جب تک زندہ ہیں کسی قیمت پراس جگہ (یعنی مدینہ طیبہ کی سرزمین کو) چھوڑ کر نہیں جائیں گے چاہے تبع اُنہیں جلا ڈالے یا مار ڈالے۔ تبع کو یہ بات پتا چلی تو وہ بہت حیران و پریشان ہوا ، اُس نے وجہ معلوم کرنے کے لئے وزیر کو بھیجا تو عُلَما نے فرمایا:
’’ایک نبی علیہ السَّلام تشریف لائیں گے جن کا نام محمّد ہوگا، اُن کی وجہ سے کعبہ اور مدینۂ طیبہ کو عزّت نصیب ہوگی، وہ حق کے اِمام ہوں گے، ذُو الفِقار نامی اُن کی تلوار ہوگی، اُونٹنی پر سُواری فرمائیں گے، مِنْبر پر کھڑے ہو کر لاٹھی ہاتھ میں لئے خطبہ اِرشاد فرمائیں گے، قراٰن عطا کرکے اُن کی شان کو اور بڑھایا جائے گا اور جب قِیامت کا دن ہوگا تو اُن کے سَر پر حَمْد کا تاج اور ہاتھ میں حَمْد کا جھنڈا ہوگا۔ وہ لوگوں کو ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ‘‘ کی دعوت دیں گے، وِلادت شریف شہرِ مکّہ میں ہوگی اور ہجرت سے مدینۂِ منوّرہ کو نوازیں گے۔ وہ شخص یقیناً سعادت مند ہوگا جو اُن کے زمانے میں ہوگا اور اُن پر ایمان لائے گا۔ اِسی لئے ہم اِس اُمّید پر یہاں مرتے دم تک رہنا چاہتے ہیں کہ یا تو ہمیں محمّد مصطفےٰ ﷺ کےدربارِ گوہر بار کی حاضِری نصیب ہوجائے یا ہماری اولاد اِس سعادت سے بہرہ مند ہوجائے۔ ‘‘
وزیر کی زَبانی ماجرا معلوم ہونے کے بعد تبع نے سوچا: کیوں نہ میں بھی اِن 400 عُلَما کے ساتھ ایک سال تک یہیں ٹھہر جاؤں، ہوسکتا ہے اس عرصے میں محمّدمصطفےٰ ﷺ کا دیدار نصیب ہوجائے۔ اِس خیال سے تبع نے بھی وہیں قیام کرلیا اور 400 عُلَما کے رہنے کے لئے 400 گھر بنوائے، اُن کی شادیاں کروائیں اور خوب مال و دولت بھی دیا۔
ایک سال اِنتِظار کے بعد جب تبع کا وہاں سے جانے کا اِرادہ ہوا تو اُس نے بارگاہِ رِسالت میں پیش کرنے کے لئے ایک خط لکھا جس کا عُنوان اور مضمون کچھ یوں تھا:
تبع الاوّل حِمْیَر بن وَرْدَع کی طرف سے دو جہاں کے رب کے رسول، اور سب سے آخِری نبی محمّد بن عبدُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم کی طرف۔ (یہ خط اللہ کی امانت ہے، جس کو ملے وہ اس کے مالک تک پہنچائے)۔
’’یا محمّد! میں آپ پر اور قراٰنِ مجیدپر ایمان لاتا ہوں، آپ کے دین اور سنّت کو اپناتا ہوں، آپ کے اور ہر چیز کے ربّ پر ایمان لاتا ہوں اور جو شریعت آپ لائیں گے اُسے بھی قبول کرتا ہوں۔ اگر میں آپ کی صحبت کا شَرْف پانے میں کامیاب ہوگیا تو یہ مجھ پر ربّ کا اِنعام ہوگااور اگر یہ سعادت مجھے نہ مل سکی تو آپ قِیامت کے دن مجھے بھولئے گا نہیں، ربّ کی بارگاہ میں میری شفاعت کیجئے گا، میں آپ کا فرمانبردار اُمّتی ہوں اور تشریف آوری سے قبل ہی آپ کی پیروی کرنے والا ہوں، میں آپ اور آپ کے والِد اِبراہیم علیہ السَّلام کے دین پر ہوں۔‘‘
یہ خط لکھنے کے بعد تبع نے اِس پر اپنی سنہری مُہر لگائی جس پریہ عبارت نقش تھی: ’’لِلہِ الْاَمْرُ مِنۡ قَبْلُ وَ مِنۡۢ بَعْدُ ؕوَ یَوْمَئِذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوۡنَ بِنَصْرِاللہِ‘‘ (یعنی پہلے اور بعد حکم اللہ ہی کا ہے، اور اس دن ایمان والے اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے)۔
پھر جن عالِم صاحب نے تبع کی اصلاح کی تھی تبع نے یہ خط اُنہی کے سپرد کردیا اور وصیّت کی کہ اگر آپ کی محمّدمصطفےٰ ﷺ سے ملاقات ہو تو یہ خط ان تک پہنچائیں اور اگر ملاقات نہ ہو تو آپ کی اولاد یا اولاد کی اولاد اِس خط کو بحفاظت بارگاہِ رِسالت میں پہنچائیں۔ اس کے بعد تبع مدینۂ منورہ سے ہِنْد کے شہر غَلْسان چلا گیا اور وہاں اُس کا اِنتِقال ہو گیا۔
تبع کے اِنتِقال سے تقریباً 1000 سال بعد مکّی مَدَنی آقا ﷺ کی وِلادتِ باسعادت ہوئی، 53 سال مکّہ مکرّمہ کو نوازنے کے بعد پیارے آقا ﷺ نے مدینۂ منوَّرہ کی طرف ہجرت کرنے کا اِرادہ فرمایا۔ اِس ہجرت میں مسلمانوں کی مدد کرنے والےمدینےشریف کے مسلمانوں کو ’’اَنْصار‘‘ کہا جاتا ہے، یہ اَنصار اُنہی 400 عُلَما کی اولاد سے تھے اور 1000 سال سے نسل دَر نسل خط کی حفاظت کرتے آرہے تھے۔ جب اَنصار کو حضورِ اَنور ﷺ کی مدینہ شریف تشریف آوَری کا اِرادہ معلوم ہوا تو اُن میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، اُنہوں نے بارگاہِ رِسالت میں تبع کا خط پہنچانے کے لئے آپس میں مُشاوَرت کی، اِس مجلسِ مشاورت میں صَحابیِ رسول حضرتِ سیّدناعبدُ الرَّحمٰن بن عَوْف رضی اللہ تعالٰی عنہبھی تھے جو مکّہ سے ہجرت کر کے یہاں پہنچے تھے، اُنہوں نے مشورہ دیا کہ کسی بااِعتِماد آدمی کو یہ خط دیا جائے جو بحفاظت اِسے بارگاہِ رِسالت میں پہنچا سکے، چنانچِہ وہ خط ابو لیلیٰ انصاری کے سِپُرد کر دیا گیاجو بعد میں ایمان لے آئے تھے۔
اس کے بعد ابو لیلیٰ انصاری خط لے کر مکّہ جانے والے راستے پر نکل پڑے، سفر کے دوران جب قبیلۂ بنو سُلَیْم پہنچے تو وہاں پیارے آقا ﷺ جلوہ گر تھے، ابولیلیٰ اَنصاری آپ ﷺ کو نہیں پہچانتے تھے۔ آپ ﷺ نے جیسے ہی ابو لیلیٰ انصاری کو دیکھا تو پکارا: اَنْتَ اَبُوْ لَیْلٰی؟ یعنی تم ابو لیلیٰ ہو؟ عرض کی: جی ہاں۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے غیب کی خبر دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’وَمَعَکَ کِتَابُ تبع الْاَوَّل تمہارے پاس ہی تبع الاوّل کا خط ہے۔ اِتنا سننا تھا کہ ابو لیلیٰ انصاری حیران رہ گئے اور انہیں تعجّب ہوا کہ یہ کون شخصیت ہیں جو میرا نام بھی جانتے ہیں اور میرے یہاں آنے کے مقصد سے بھی واقف ہیں!اس لئے عرض کی: آپ کون ہیں؟ فرمایا: میں ہی محمّد ہوں، خط لاؤ! یہ سُن کر ابو لیلیٰ انصاری نے اپنا تھیلا کھولا اور تبع بادشاہ کاتقریباً ایک ہزار سال پرانا مُہر لگا ہوا خط بارگاہِ رسالت میں پیش کردیا۔ نبیِّ کریم ﷺ نے حضرتِ سیّدُنا صدّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خط پڑھ کر سنانے کا حکم دیا، جب خط سنادیا گیا تو آپ ﷺ نے 3 بار فرمایا: ’’مَرْحَبًا بِالْاَخِ الصَّالِح‘‘یعنی نیک بھائی کو خوش آمدید! نیک بھائی کو خوش آمدید! نیک بھائی کو خوش آمدید! اِس کے بعد آپ ﷺ نے ابولیلیٰ اَنصاری کومدینےشریف کی طرف لوٹ جانے کا حکم دے دیا۔
ابو لیلیٰ انصاری جب مدینۂ منوَّرہ پہنچے تو اُنہوں نے بارگاہِ رِسالت میں خط پہنچانے کی رُوداد سنائی جسے سُن کر لوگوں نے اپنی اِستِطاعت کے مطابق ابو لیلیٰ انصاری کو اِنعام و اِکرام سے نوازا۔ اِس کے بعد جب مَدَنی آقا ﷺ نے ’’طَلَعَ الْبَدْرُعَلَیْنَا‘‘کی صداؤں میں مدینہ کی سرزمین پر قدم رکھ کر اُسے ہمیشہ کےلئے ’’مدینۂ طیّبہ‘‘ بنایا تو ہر قبیلہ چاہتا تھا کہ آپ ﷺ اُن کے ہاں قیام فرمائیں مگر آپ ﷺ نے فرمایا: میری اُونٹنی کو چھوڑد و! جہاں خدا کا حکم ہوگا یہ وہاں رُک جائے گی۔ چنانچہ اونٹنی چلتے چلتے صَحابیِ رسول حضرتِ سیّدُنا ابو ایّوب انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ کے گھر کے آگے رُک گئی، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ اُنہی عالِم صاحب کی اَولاد میں سے تھے جنہوں نے تبع کی اِصلاح کی تھی اور آپ کامکان وہی مکان تھا جو تبع نے خاص پیارے آقا ﷺ کے لئے بنوایا تھا۔
1-ماخوذ ازتاریخ دمشق،ج11،ص3تا14
2-اس واقعے کی تفصیل سیرت النبی ﷺ کے موضوع پر اہم کتاب ’’شرف المصطفیٰ‘‘، از ابی سعد عبد الملک بن ابی عثمان محمد بن ابراہیم الخر کوشی نیشاپوری (متوفی:۴۰۶ھ)مطبوعہ:دار البشائر الاسلامیہ، بیروت، لبنان، جلد اول، صفحات ۹۳ تا ۱۰۵ پر موجود ہے۔ زرقانی علی المواہب کے مطابق یہ بادشاہ الہامی کتاب ’’زبور‘‘ کا پیروکار تھا۔
زبانِ رسولﷺ سے ذکرِ شانِ رسولﷺ
2.4.7
جس طرح سابقہ انبیاء علیہم السلام کی ولادت اور ولادت کے دن کا ذکر قرآن مجید میں جگہ جگہ آیا ہے۔ اسی طرح اللہ سبحان و تعالی نے رسول معظم ﷺکی ولادت سے متعلقہ زمانہ مبارک اور جائے پیدائش (مکہ مکرمہ) کی نہ صرف قسمیں کھائیں بلکہ جس سال آپﷺ کی پیدائشِ مبارکہ ہوئی اُس سال کی یاد مومنوں کے دلوں میں زندہ رکھنے کے لیے سورہ فیل نازل فرمائی۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ اللہ سبحان و تعالی اُس شہر کو برباد ہونے دیتا جہاں رسول معظم ﷺکی آمد(مولد) ہونی تھی، بیشک یہ آپ ﷺ کی آمد ہی کی برکت تھی کہ شہر مکہ سلامت رہا۔بلکہ ابابیل کا آنا آپﷺ ہی کا معجزہ تھا کیونکہ معجزے کسی نبی کے موجود ہونے پر ہی ظہور پذیر ہوتے ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ سبحان و تعالی نے ذکرِ شانِ رسولﷺ آپ ہی کی زبانِ مبارکہ ﷺ سے کہلوانے کے لیےآپ ﷺ سے فرمایا :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ.
’’آپ فرما دیں : اے لوگو! میں تم سب کی طرف اُس اللہ کا رسول (بن کر آیا) ہوں جس کے لیے تمام آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے۔‘‘
الأعراف، 7 : 158
احادیث مبارکہ میں بھی رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ کی محافل کا ذکر کثرت سے آیا ہے۔ آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں منبر شریف پر خود اپنا ذکرِ ولادت فرمایا تو کبھی آپ نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے لیے منبر پر چادر بچھائی اور انہوں نے منبر پر بیٹھ کر نعت شریف پڑھی اور آپ سے دعائیں لیں۔ اسی طرح حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے غزوہ تبوک سے واپسی پر بارگاہ رسالت میں ذکر میلاد پر مبنی اشعار پیش کیے ۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
خرّج الإمام أحمد من حديث العِرْباض بن سَارِيَةَ السُّلَمِي رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم، قال : إنّي عِند اﷲ في أُمّ الکتاب لَخاتمُ النّبِيّين، وإنّ آدم لَمُنجدلٌ في طينتهِ، وَسوف أنبئکم بتأْويل ذلک : دعوة أبي إبراهيم، (1) وبشارة عيسي قومه، (2) ورؤْيا أمّي الّتي رأت أنه خرج منها نورٌ أضاءت له قصور الشام، وکذلک أمهات النببين يَرَيْنَ. (3)
’’اَحمد بن حنبل نے حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کی تخریج کی ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں اللہ تعالیٰ کے ہاں لوحِ محفوظ میں اس وقت بھی خاتم الانبیاء تھا جب کہ حضرت آدم علیہ السلام ابھی اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے۔ اور میں تمہیں ان کی تاویل بتاتا ہوں کہ میں اپنے جدِ امجد ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی اپنی قوم کو دینے والی بشارت کا نتیجہ ہوں، اور اپنی والدہ ماجدہ کے ان خوابوں کی تعبیر ہوں جس میں انہوں نے دیکھا کہ ان کے جسم اَطہر سے ایسا نور پیدا ہوا جس سے شام کے محلات بھی روشن ہو گئے۔ اور اسی طرح کے خواب اَنبیاء کی مائیں دیکھتی تھیں۔‘‘
حوالاجات
أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 127، 128، رقم : 17190، 17191، 17203 | 1 |
ابن حبان، الصحيح، 14 : 312، رقم : 6404 | 2 |
حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 2 : 656، رقم : 4174 | 3 |
طبراني، المعجم الکبير، 18 : 253، رقم : 631 | 4 |
طبراني، مسند الشاميين، 2 : 340، رقم : 1455 | 5 |
ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 149 | 6 |
هيثمي، موارد الظمآن إلي زوائد ابن حبان : 512، الرقم : 2093 | 7 |
هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 8 : 223 | 8 |
عسقلاني، فتح الباري، 6 : 583 | 9 |
ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 321 | 10 |
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے میلاد کے دن روزہ رکھ کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اِظہارِ تشکر و اِمتنان فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل مبارک درج ذیل روایات سے ثابت ہے :
اِمام مسلم (206. 261ھ) اپنی الصحیح میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم سُئل عن صوم يوم الإثنين؟ قال : ذاک يوم ولدت فيه ويوم بعثت أو أنزل عليّ فيه.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسی روز میری ولادت ہوئی اور اسی روز میری بعثت ہوئی اور اسی روز میرے اوپر قرآن نازل کیا گیا۔‘‘
حوالاجات
مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب استحبابِ صيام ثلٰثة أيام من کل شهر، 2 : 819، رقم : 1162 | 1 |
بيهقي، السنن الکبري، 4 : 286، رقم : 38182 | 2 |
درج ذیل کتب میں ’’انزلت عليّ فیہ النبوۃ (اسی روز مجھے نبوت سے سرفراز کیا گیا)‘‘ کے الفاظ ہیں : | |
نسائی، السنن الکبری، 2 : 146، رقم : 2777 | 3 |
أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 296، 297، رقم : 22590، 22594 | 4 |
عبد الرزاق، المصنف، 4 : 296، رقم : 7865 | 5 |
أبويعلي، المسند، 1 : 134، رقم : 144 | 6 |
بيهقي، السنن الکبري، 4 : 300، رقم : 8259 | 7 |
حضرت مطلب بن ابی وداعہ سے مروی ہے :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
جاء العباس إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فکأنه سمع شيئاً، فقام النّبي صلي الله عليه وآله وسلم علي المنبر، فقال : من أنا؟ فقالوا : أنت رسول اﷲ، عليک السّلام. قال : أنا محمد بن عبد اﷲ بن عبد المطّلب، إن اﷲ خلق الخلق فجعلني في خيرهم فرقة، ثم جعلهم فرقتين، فجعلني في خيرهم فرقة، ثم جعلهم قبائل، فجعلني في خيرهم قبيلة، ثم جعلهم بيوتاً، فجعلني في خيرهم بيتاً وخيرهم نسباً.
’’حضرت عباس رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے، (اس وقت ان کی کیفیت ایسی تھی) گویا انہوں نے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق کفار سے) کچھ (نازیبا الفاظ) سن رکھے تھے (اور وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتانا چاہتے تھے)۔ (حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے یہ کلمات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتائے یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علمِ نبوت سے جان گئے) تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ اَفروز ہوئے اور فرمایا : میں کون ہوں؟ سب نے عرض کیا : آپ پر سلام ہو، آپ اﷲ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں عبد اللہ کا بیٹا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں۔ اﷲ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور اس مخلوق میں سے بہترین گروہ (انسان) کے اندر مجھے پیدا فرمایا اور پھر اس کو دو گروہوں (عرب و عجم) میں تقسیم کیا اور ان میں سے بہترین گروہ (عرب) میں مجھے پیدا کیا۔ پھر اﷲتعالیٰ نے اس حصے کے قبائل بنائے اور ان میں سے بہترین قبیلہ (قریش) کے اندر مجھے پیدا کیا اور پھر اس بہترین قبیلہ کے گھر بنائے تو مجھے بہترین گھر اور نسب (بنو ہاشم) میں پیدا کیا۔‘‘
حوالاجات
ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الدعوات، 5 : 543، رقم : 3532 | 1 |
ترمذی نے’’الجامع الصحیح (کتاب المناقب، باب فی فضل النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، 5 : 584، رقم : 3608)‘‘ میں وخیرھم نسبا کی جگہ وخیرھم نفسا کے الفاظ بھی بیان کیے ہیں۔ | 2 |
احمدبن حنبل نے ’’المسند (1 : 210، رقم : 1788)‘‘ میں آخر حدیث میں ’’فانا خیرکم بیتا وخیرکم نفسا‘‘ کا اضافہ کیا ہے۔ | 3 |
أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 165 | 4 |
هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 8 : 216 | 5 |
بيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، 1 : 169 | 6 |
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
أنا أوّل من تنشقّ عنه الأرض، فأکسَي الحُلة من حُلل الجنة، ثم أقوم عن يمين العرش ليس أحد من الخلائق يقوم ذالک المقام غيري.
’’(روزِ قیامت) میں سب سے پہلا شخص ہوں گا جس کے (باہر نکلنے کے) لیے زمین کا سینہ کھولا جائے گا، مجھے جنت کی پوشاکوں میں سے ایک پوشاک پہنائی جائے گی، پھر میں عرشِ الٰہی کے دائیں جانب اُس مقام پر کھڑا ہوں گا جہاں میرے علاوہ مخلوقات میں سے کوئی ایک (فرد) بھی کھڑا نہیں ہوگا۔‘‘
حوالاجات
ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في فضل النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 5 : 585، رقم : 3611 | 1 |
ابن کثير، البداية والنهاية، 10 : 263 | 2 |
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیانِ میلاد کے علاوہ اپنی شرف و فضیلت بیان کرنے کے لیے بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اِجتماع کا اہتمام بھی فرمایا :
1۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
جلس ناس من أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ينتظرونه، قال : فخرج حتي إذا دنا منهم سمعهم يتذاکرون فسمع حديثهم، فقال بعضهم عجباً : إنَ اﷲ عزوجل اتّخذ من خلقه خليلاً، اتّخذ إبراهيم خليلاً، وقال آخر : ماذا بأعجب من کلام موسي کلّمه تکليماً، وقال آخر : فعيسي کلمة اﷲ وروحه، وقال آخر : آدم اصْطفاه اﷲ. فخرج عليهم فسلّم، وقال صلي الله عليه وآله وسلم : قد سمعت کلامکم وعجبکم أن إبراهيم خليل اﷲ وهو کذلک، وموسٰي نجي اﷲ وهو کذالک، وعيسي روح اﷲ وکلمته وهو کذلک، وآدم اصْطفاه اﷲ وهو کذلک، ألا! وأنا حبيب اﷲ ولا فخر، أنا حامل لواء الحمد يوم القيامة ولا فخر، وأنا أول شافعٍ وأول مشفعٍ يوم القيامة ولا فخر، وأنا أول من يحرک حلق الجنة فيفتح اﷲ لي فيدخلنيها، ومعي فقراء المومنين ولا فخر، وأنا أکرم الأوّلين والآخرين ولا فخر.
’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کئی صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتظار میں بیٹھے تھے کہ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لے آئے، جب ان کے قریب ہوئے تو سنا کہ وہ آپس میں کچھ باتیں کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک نے کہا : بڑے تعجب کی بات ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے (ابراہیم علیہ السلام کو اپنا) خلیل بنایا۔ دوسرے نے کہا : یہ اس سے زیادہ تعجب انگیز نہیں ہے کہ خدا نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا۔ تیسرے نے کہا : عیسیٰ علیہ السلام تو اللہ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں۔ چوتھے نے کہا : آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے برگزیدہ کیا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے حلقے میں تشریف لے آئے، سلام کیا اور فرمایا : میں نے تم لوگوں کا کلام اور اِظہارِ تعجب سن لیا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام اللہ کے خلیل ہیں، بے شک وہ ایسے ہی ہیں۔ اور موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے سرگوشی کرنے والے ہیں اور وہ ایسے ہی ہیں۔ اور عیسیٰ علیہ السلام اس کی روح اور اس کا کلمہ ہیں اور وہ ایسے ہی ہیں۔ اور آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے منتخب کیا اور وہ ایسے ہی ہیں۔ آگاہ ہو جاؤ! میں اللہ کا حبیب ہوں لیکن میں فخر نہیں کرتا اور میں قیامت کے دن لواءِ حمد (حمد کا جھنڈا) اٹھانے والا ہوں گا اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں، اور میں قیامت کے دن سب سے پہلا شفیع اور سب سے پہلا مشفع ہوں گا اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں اور میں پہلا شخص ہوں گا جو بہشت کے دروازے کی زنجیر ہلائے گا اور اللہ تعالیٰ اسے میرے لیے کھولے گا اور مجھے اس میں داخل کرے گا اور میرے ساتھ وہ مومنین ہوں گے جو فقیر (غریب و مسکین) تھے لیکن مجھے اس پر بھی کوئی فخر نہیں، اور اَوّلین و آخرین میں سب سے زیادہ مکرّم و محترم میں ہی ہوں اور مجھے اس پر بھی کوئی فخر نہیں۔‘‘
حوالاجات
ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب ما جاء في فضل النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 2 : 202، رقم : 3616 | 1 |
دارمي، السنن 1 : 39، رقم : 47 | 2 |
بغوي، شرح السنة، 13 : 198، 204، رقم : 3617، 3625 | 3 |
رازي، مفاتيح الغيب (التفسير الکبير)، 6 : 167 | 4 |
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 560 | 5 |
سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالمأثور، 2 : 705 | 6 |
2۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
أن النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم خرج يوماً فصلي علي أهل أحد صلا ته علي الميت، ثم انصرف إلي المنبر، فقال : إني فرط لکم وأنا شهيد عليکم، وإني واﷲ! لأنظر إلي حوضي الآن، وإني أعطيت مفاتيح خزائن الأرض أو مفاتيح الأرض، وإني واﷲ! ما أخاف عليکم أن تشرکوا بعدي، ولکن أخاف عليکم أن تنافسوا فيها.
’’ایک روز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر (میدانِ اُحد کی طرف) تشریف لے گئے، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہدائے اُحد پر نمازِ جنازہ کی طرح نماز پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ اَفروز ہوئے اور فرمایا : بے شک میں تمہارا پیش رَو ہوں اور میں تم پر گواہ (یعنی تمہارے اَحوال سے باخبر) ہوں۔ اﷲ کی قسم! میں اِس وقت حوضِ کوثر دیکھ رہا ہوں اور مجھے روئے زمین کے خزانوں کی چابیاں عطا کی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! مجھے یہ خوف نہیں ہے کہ تم میرے بعد شرک میں مبتلا ہو جاؤ گے، البتہ یہ خوف ضرور ہے کہ تم دنیا پرستی میں باہم فخر و مباہات کرنے لگو گے۔‘‘
حوالاجات
بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب الصلاة علي الشهيد، 1 : 451، رقم : 1279 | 1 |
بخاري، الصحيح، کتاب المناقب، باب علامات النبوة، 3 : 1317، رقم : 1401 | 2 |
بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب أحد يحبنا، 4 : 1498، رقم : 3857 | 3 |
بخاري، الصحيح، کتاب الرقاق، باب ما يحذرمن زهرة الدنيا والتنافس فيها، 5 : 2361، رقم : 6062 | 4 |
بخاري، الصحيح، کتاب الحوض، باب في الحوض، 5 : 2408، رقم : 6218 | 5 |
مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب إثبات الحوض، 4 : 1795، رقم : 2296 | 6 |
أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 149، 153 | 7 |
ابن حبان، الصحيح، 7 : 473، رقم : 3168 | 8 |
ابن حبان، الصحيح، 8 : 18، رقم : 3224 | 9 |
اِس حدیثِ مبارکہ کے الفاظ۔ ثم انصرف الی المنبر (پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ اَفروز ہوئے)۔ سے ایک سوال ذہن میں اُبھرتا ہے کہ کیا قبرستان میں بھی منبر ہوتا ہے؟ منبر تو خطبہ دینے کے لیے مساجد میں بنائے جاتے ہیں، وہاں کوئی مسجد نہ تھی، صرف شہدائے اُحد کے مزارات تھے۔ اُس وقت صرف مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی میں منبر ہوتا تھا۔ اس لیے شہدائے احد کی قبور پر منبر کا ہونا بظاہر ایک ناممکن سی بات نظر آتی ہے۔ مگر در حقیقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر شہدائے اُحد کے قبرستان میں منبر نصب کرنے کا اِہتمام کیا گیا، جس کا مطلب ہے کہ منبر شہر مدینہ سے منگوایا گیا یا پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ساتھ ہی لے کر گئے تھے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ اتنا اہتمام کس لیے کیا گیا؟ یہ سارا اِہتمام و اِنتطام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل ومناقب کے بیان کے لیے منعقد ہونے والے اُس اِجتماع کے لیے تھا جسے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود منعقد فرما رہے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اس اجتماع میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تحدیثِ نعمت کے طور پر اپنا شرف اور فضیلت بیان فرمائی جس کے بیان پر پوری حدیث مشتمل ہے۔ اِس طرح یہ حدیث جلسۂ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی واضح دلیل ہے۔
مذکورہ بالا احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شرف و فضیلت کو بیا ن کرنے کے لیے اِجتماع کا اہتمام کرنا خود سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ لہٰذا میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محافل منعقد کرنا اور جلسوں کا اِہتمام کرنا مقتضائے سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ آج کے پُر فتن دور میں ایسی محافل و اِجتماعات کے اِنعقاد کی ضرورت پہلے سے کہیں بڑھ کر ہے تاکہ اُمت کے دلوں میں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عشق و محبت نقش ہو اور لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور اُسوۂ حسنہ پر عمل کرنے کی ترغیب دی جائے۔
صحابہ اکرام کا ذکرِ شانِ رسولﷺ
2.4.8
احادیث مبارکہ میں کثرت سے آتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنا ذکرِ ولادت و خصائل بیان فرمایا اور صحابہ اکرام کو بھی اس کی ترغیب دی۔مثال کے طور پر آپ نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے لیے منبر پر چادر بچھائی اور انہوں نے منبر پر بیٹھ کر نعت شریف پڑھی ۔
یہ سنت صحابہ اکرام نے بھی قا ئم رکھی اور وقتاً فوقتاًایسی محافل و اِجتماعات کے اِنعقاد کیا ۔ مثال کے طور پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے غزوہ تبوک سے واپسی پر بارگاہ رسالت میں ذکر میلاد پر مبنی اشعار پیش کیے ۔
ایک مرتبہ حضرت انس رضی اللہ عنہ تاجدارِ کائنات حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیہ مبارک بیان فرما رہے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمانے لگے :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
ولا مَسِسْتُ خزّة ولا حريرَة ألين من کف رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، ولا شَمِمْتُ مسکة ولا عبيرة أطيب رائحة من رائحة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.
’’اور میں نے آج تک کسی دیباج اور ریشم کو مَس نہیں کیا جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ نرم ہو اور نہ کہیں ایسی خوشبو سونگھی جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اَطہر کی خوشبو سے بڑھ کر ہو۔‘‘
حوالاجات
بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب ما يذکر من صوم النبي صلي الله عليه وآله وسلم وأفطاره، 2 : 696، رقم : 1872 | 1 |
مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب طيب رائحة النبي صلي الله عليه وآله وسلم ولين مسه والتبرک بمسحه، 4 : 1814، رقم : 2330 | 2 |
دارمي، السنن، المقدمة، باب في حسن النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 45، رقم : 61 | 3 |
ابن حبان، الصحيح، 14 : 211، رقم : 6303 | 4 |
أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 107 |
حضرت انس رضی اللہ عنہ کو اکثر خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوتی۔ مثنی بن سعید روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کویہ کہتے سنا :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
ما من ليلة إلاّ وأنا أري فيها حبيبي، ثم يبکي.
’’(آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وِصال کے بعد) کوئی ایک رات بھی ایسی نہیں گزری جس میں میں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نہ کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر آپ رضی اللہ عنہ زار و قطار رونے لگے۔‘‘
حوالاجات
ابن سعد، الطبقات الکبري، 7 : 20 | 1 |
ذهبي، سير أعلام النبلاء، 3 : 403 | 2 |
حضرت انس رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ میں آمد اور وصال کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
لما کان اليوم الذي دخل فيه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم المدينة أضاء منها کل شيء، فلما کان اليوم الذي مات فيه أظلم منها کل شيء.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ میں تشریف آوری پر اُس کی ہر شے روشن ہو گئی، لیکن جس روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا تو مدینہ کی ہر شے (میرے لیے) تاریک ہوگئی۔‘‘
حوالاجات
ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في فضل النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 6 : 13، رقم : 3618 | 1 |
ابن ماجه، السنن، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاته ودفنه صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 522، رقم : 1631 | 2 |
أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 268، رقم : 13857 | 3 |
ابن حبان، الصحيح، 14 : 601، رقم : 6634 | 4 |
أبو يعلي، المسند، 6 : 51، 110، رقم : 3296، 3378 | 5 |
مقدسي، الأحاديث المختارة، 4 : 418، 419، رقم : 1592، 1593 | 6 |
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے یوں محسوس کیا کہ وہ شہر جس میں ہم صبح و شام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوا کرتے تھے، اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نہ ہونے کے باعث تاریک نظر آنے لگا۔
حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اﷲ عنھما روایت کرتے ہیں :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
قلت : يارسول اﷲ! إن قريشاً جلسوا فتذاکروا أحسابهم بينهم، فجعلوا مثلک کمثل نخلة في کبوة من الأرض، فقال النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم : إن اﷲ خلق الخلق فجعلني من خيرهم من خير فرقهم وخير الفريقين، ثم تخيّر القبائل فجعلني من خير قبيلة، ثم تخيّر البيوت فجعلني من خير بيوتهم، فأنا خيرهم نفساً وخيرهم بيتا.
’’میں نے عرض کیا : یارسول اﷲ! قریش نے ایک مجلس میں اپنے حسب و نسب کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی مثال کھجور کے اُس درخت سے دی جو کسی ٹیلہ پر ہو۔ اِس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو مجھے ان کی بہترین جماعت میں رکھا اور ان کے بہترین گروہ میں رکھا اور دونوں گروہوں میں سے بہترین گروہ میں بنایا، پھر قبائل کو منتخب فرمایا اور مجھے بہترین قبیلے میں رکھا، پھر اُس نے گھرانے منتخب فرمائے تو مجھے اُن میں سے بہتر گھرانے میں رکھا، پس میں اُن میں سے بہترین فرد اور بہترین خاندان والا ہوں۔‘‘
حوالاجات
ترمذي، الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب في فضل النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 5 : 584، رقم : 3607 | 1 |
أحمد بن حنبل، فضائل الصحابة، 2 : 937، رقم : 1803 | 2 |
أبو يعلي، المسند، 4 : 140، رقم : 1316 | 3 |
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
وَعَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي لَيْلَةٍ إِضْحِيَانٍ فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِلَى الْقَمَرِ وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ حَمْرَاءُ فَإِذَا هُوَ أَحْسَنُ عِنْدِي مِنَ الْقَمَرِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ والدارمي
روایت ہے حضرت جابر ابن سمرہ رضی اللہ عنہ سےفرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چاندنی رات میں دیکھا تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور چاند کو دیکھنے لگا آپ پر سرخ جوڑا تھا میری نظر میں حضور چاند سے زیادہ حسین تھے ۔
(ترمذی،دارمی)
صحابہ اکرام نہ صرف عام زبان میں بلکہ اشعار کی صورت میں بھی آپ کی شان بیان فرماتے:
حضرت اسود بن سریع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے بارگاہِ رِسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
يا رسول اﷲ! إني قد مدحت اﷲ بمدحة ومدحتک بأخري.
’’یا رسول اﷲ! بے شک میں نے ایک قصیدہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی ہے اور دوسرے قصیدہ میں آپ کی نعت بیان کی ہے۔‘‘
اِس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
هات وابدأ بمدحة اﷲ عزوجل.
’’آؤ اور اللہ تعالیٰ کی حمد سے اِبتداء کرو۔‘‘
حوالاجات
أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 24، رقم : 16300 | 1 |
ابن أبي شيبة، المصنف، 6 : 180 | 2 |
طبراني، المعجم الکبير، 1 : 287، رقم : 842 | 3 |
بيهقي، شعب الإيمان، 4 : 89، رقم : 4365 | 4 |
حضرت ہیثم بن ابی سنان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ وعظ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ تمہارا بھائی عبد اللہ بن رواحہ بالکل لغویات نہیں کہتا۔ پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے درج ذیل اَشعار بیان کیے :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
وفينا رسول اﷲ يتلو کتابه
إذا انشقّ معروف من الفجر ساطع
أرانا الهدي بعد العمي فقلوبنا
به موقنات أن ما قال واقع
يبيت يجافي جنبه عن فراشه
إذا استثقلت بالمشرکين المضاجع
(اور ہمارے درمیان اللہ کے رسول ہیں جو کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں، جب کہ فجر طلوع ہوتی ہے۔ انہوں نے ہمیں ہدایت کا راستہ دکھایا اس کے بعد کہ ہم جہالت کی تاریکی میں تھے، چنانچہ ہمارے دل یقین کرتے ہیں کہ جو کچھ آپ نے کہا وہ ہوکر رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حال میں رات گزارتے ہیں کہ بستر سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پہلو جدا ہوتا ہے، جب کہ مشرکین کے بستر ان کی وجہ سے بوجھل ہوتے ہیں یعنی ان کی نیندیں اڑ جاتی ہیں۔‘‘
حوالاجات
بخاري، الصحيح، کتاب الجمعة، باب فضل من تعار من الليل فصلي، 1 : 387، رقم : 1104 | 1 |
بخاري، الصحيح، کتاب الأدب، باب هجاء المشرکين، 5 : 2278، رقم : 5799 | 2 |
بخاري، التاريخ الکبير، 8 : 212، رقم : 2754 | 3 |
بخاري، التاريخ الصغير : 23، رقم : 71 | 4 |
أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 451 | 5 |
بيهقي، السنن الکبريٰ، 10 : 239 | 6 |
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 3 : 465 | 7 |
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
عَنْ عُبَيْدِ اﷲِ بْنِ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنهما قَالَ: لَمَّا دَخَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم الْمَدِيْنَةَ … فَتَلَقَّی النَّاسَ وَالْعَوَاتِقَ فَوْقَ الْجَاجِيْرِ، وَالصِّبْيَانُ وَالْوَلَائِدُ يَقُوْلُوْنَ:
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَ
مِنْ ثَنِيَّاتِ الْوَدَاعِ
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَيْنَ
مَا دَعَا ِﷲِ دَاعِ
وَأَخَذَتِ الْحَبَشَةُ يَلْعَبُوْنَ بِحِرَابِهِمْ لِقُدُوْمِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَرَحًا بِذَلِکَ.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ فِي الثِّقَاتِ وَابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ وَالْعَسْقَـلَانِيُّ وَمُحِبُّ الدِّيْنِ الطَّبَرِيُّ.
’’حضرت عبید اﷲ بن عائشہ رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے لوگوں اور عورتوں کو (اپنے استقبال کے لیے) مکانوں کی چھتوں پر پایا جبکہ (مدینہ منورہ کے) بچے اور بچیاں یہ پڑھ رہے تھے:
’’ہم پر وداع کی گھاٹیوں سے چودھویں کا چاند (یعنی چہرہ والضحیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) طلوع ہوگیا، اور ہم پر اس وقت تک شکر واجب ہوگیا جب تک کوئی اﷲ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے والا دعوت دے رہا ہے۔ (یعنی جب تک کوئی بھی خدا کا نام لینے والا باقی رہے گا)۔‘‘
أخرجه ابن حبان في الثقات، 1/ 131، وابن عبد البر في التمهيد، 14/ 82، والعسقلاني في فتح الباري، 7/ 261، 8/ 129، والعيني في عمدة القاري، 17/ 60، ومحب الدين الطبري في الرياض النضرة، 1/ 480.
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ثناء خواں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی فہرست:
بہت سے جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت گوئی اور نعت خوانی کا شرف حاصل ہوا۔ اِمام التابعین محمد ابن سیرین (م 110ھ) عہدِ نبوی کے نعت گو شعراء میں سے چند کا ذکر یوں کرتے ہیں :
قول
کان شعراء النبی صلي الله عليه وآله وسلم : حسان بن ثابت، وکعب بن مالک، وعبد اﷲ بن رواحة، فکان کعب بن مالک يخوّفهم الحرب، وکان حسان يقبل علي الأنساب، وکان عبد اﷲ بن رواحة يعيّرهم بالکفر.
’’حضرت حسان بن ثابت، کعب بن مالک اور عبد اﷲ بن رواحہ رضی اللہ عنھم کا شمار حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شعراء میں ہوتا تھا۔ پس حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ دشمنانِ رسول کو جنگ سے ڈراتے، اور حضرت حسان رضی اللہ عنہ اُن کے نسب پر طعن زنی کرتے، اور حضرت عبد اﷲ بن رواحہ رضی اللہ عنہ انہیں کفر کا (طعنہ دے کر) شرم دلاتے تھے۔‘‘
ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة، 4 : 461
علامہ ابن جوزی (510۔ 597ھ) نے بھی شاعر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے چند کا ذِکر کیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں :
قول
وقد أنشده جماعة، منهم العباس وعبد اﷲ بن رواحة، وحسّان، وضمار، وأسد بن زنيم، وعائشة، في خَلْق کثير قد ذکرتهم في کتاب الأشعار.
’’بہت سے لوگوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (نعتیہ) اَشعار سنائے، جن میں حضرت عباس، حضرت عبد اﷲ بن رواحہ، حضرت حسان، حضرت ضمار، حضرت اَسد بن زنیم، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھم اور بہت سے دیگر صحابہ شامل ہیں جو شاعری کے دیوان میں مذکور ہیں۔‘‘
ابن جوزي، الوفا بأحوال المصطفي صلي الله عليه وآله وسلم : 463
ذیل میں ثناء خوانِ مصطفیٰ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اَسمائے گرامی درج کیے جاتے ہیں :
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ (م 32ھ) | 1 |
۔(1)۔حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3 : 369، 370، رقم : 5417 | |
۔(2)۔طبراني، المعجم الکبير، 4 : 213، رقم : 4167 | |
۔(3)۔ابن جوزي، الوفا بأحوال المصطفي صلي الله عليه وآله وسلم : 463 | |
۔(4)۔ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1 : 54 | |
۔(5)۔ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة، 2 : 165، 166 | |
۔(6)۔هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 8 : 218 | |
۔(7)۔أحمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1 : 46 | |
۔(8)۔نبهاني، الأنوار المحمدية من المواهب اللدنية : 25 | |
حضور صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضي اللہ عنہ (م 3ھ) | 2 |
۔(1)۔ابن اسحاق، السيرة النبوية : 212، 213 | |
۔(2)۔ابن هشام، السيرة النبوية : 503، 504 | |
حضور صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت ابو طالب (م 10 نبوي) | 3 |
۔(1)۔بخاري، الصحيح، کتاب الاستسقاء، باب سؤال الناس الامام الاستسقاء إذا قحطوا، 1 : 342، رقم : 963 | |
۔(2)۔ابن ماجه، السنن، کتاب اقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في الدعاء في الاستسقاء، 1 : 405، رقم : 1272 | |
۔(3)۔أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 93 | |
۔(4)۔بيهقي، السنن الکبري، 3 : 352 | |
۔(5)۔ابن هشام، السيرة النبوية : 246. 253 | |
۔(6)۔بيهقي، دلائل النبوة و معرفة أحوال صاحب الشريعة، 6 : 142، 143 | |
۔(7)۔ ابن کثير، البداية والنهاية، 4 : 471، 472 | |
حضرت ابوبکر صديق رضي اللہ عنہ (م 13ھ) | 4 |
أبو زيد قرشي، جمهرة أشعار العرب : 10 | |
حضرت عمر فاروق رضي اللہ عنہ (م 23ھ) | 5 |
أبو زيد قرشي، جمهرة أشعار العرب : 10 | |
حضرت عثمان غني رضي اللہ عنہ (م 35ھ) | 6 |
أبو زيد قرشي، جمهرة أشعار العرب : 10 | |
حضرت علي کرم اﷲ وجہہ (م 40ھ) | 7 |
أبو زيد قرشي، جمهرة أشعار العرب : 10 | |
اُم المؤمنين سيدہ عائشہ صديقہ رضي اﷲ عنہا (م 58ھ) | 8 |
ابن جوزي، الوفا بأحوال المصطفي صلي الله عليه وآله وسلم : 463 | |
سيدہ کائنات فاطمۃ الزہراء سلام اﷲ عليہا (م 11ھ) | 9 |
۔(1)۔بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب مرض النبي صلي الله عليه وآله وسلم ووفاته، 4 : 1619، رقم : 4193 | |
۔(2)۔ابن ماجه، السنن، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاته ودفنه صلي الله عليه وآله وسلم ، 2 : 103، رقم : 1630 | |
۔(3)۔نسائي، السنن، کتاب الجنائز، باب في البکاء علي الميت، 4 : 12، رقم : 1844 | |
۔(4)۔أحمد بن حنبل، 3 : 197، رقم : 13054 | |
۔(5)۔دارمي، السنن : 56، رقم : 88 | |
۔(6)۔ابن حبان، الصحيح، 14 : 591، 592، رقم : 6622 | |
۔(7)۔حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 1 : 537، رقم : 1408 | |
۔(8)۔حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3 : 61، رقم : 4396 | |
۔(9)۔طبراني، المعجم الکبير، 22 : 416، رقم : 1029 | |
۔(10)۔ابن سعد، الطبقات الکبري، 2 : 311 | |
۔(11)۔ذهبي، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام (السيرة النبوية)، 1 : 562 | |
۔(12)۔ابن کثير، البداية والنهاية، 4 : 254 | |
سيدہ صفيہ بنت عبد المطلب رضي اﷲ عنہما (م 20ھ) | 10 |
حافظ شمس الدين بن ناصر دمشقي، مورد الصادي في مولد الهادي | |
شيما بنت حليمہ سعديہ رضي اﷲ عنہا | 11 |
عسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، 7 : 165، 166، رقم : 11378 | |
حضرت ابو سفيان بن الحارث (ابن عم النبي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) | 12 |
۔(1)۔ابن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 4 : 1675 | |
۔(2)۔ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الأصحاب، 6 : 142، 143 | |
حضرت عبد اﷲ بن رَوَاحہ رضي اللہ عنہ (م 8ھ) | 13 |
۔(1)۔بخاري، الصحيح، کتاب الجمعة، باب فضل من تعار من الليل فصلي، 1 : 387، رقم : 1104 | |
۔(2)۔ بخاري، الصحيح، کتاب الأدب، باب هجاء المشرکين، 5 : 2278، رقم : 5799 | |
۔(3)۔ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الأدب، باب ما جاء في إنشاد الشعر، 5 : 139، رقم : 2847 | |
۔(4)۔نسائي، السنن، کتاب مناسک الحج، باب إنشاد الشعر في الحرم، 5 : 202، رقم : 2873 | |
۔(5)۔بخاري، التاريخ الکبير، 8 : 212، رقم : 2754 | |
۔(6)۔بخاري، التاريخ الصغير : 23، رقم : 71 | |
۔(7)۔أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 451 | |
۔(8)۔بيهقي، السنن الکبري، 10 : 239 | |
۔(9)۔ابن جوزي، الوفا بأحوال المصطفي صلي الله عليه وآله وسلم : 463 | |
۔(10)۔ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 3 : 465 | |
۔(11)۔قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 13 : 151 | |
حضرت کعب بن مالک الانصاري رضي اللہ عنہ (م 51ھ) | 14 |
ابن أبي عاصم، الآحاد والمثاني : 663، رقم : 1171 | |
حضرت حسان بن ثابت رضي اللہ عنہ (م 40ھ) | 15 |
۔(1)۔بخاري، الصحيح، کتاب الصلاة، باب الشعر في المسجد، 1 : 173، رقم : 442 | |
۔(2)۔بخاري، الصحيح، کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکة، 3 : 1176، رقم : 3041 | |
۔(3)۔بخاري، الصحيح، کتاب المناقب، باب من أحب أن لا يسب نسبه، 3 : 1299، رقم : 3338 | |
۔(4)۔بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب مرجع النبي من الأحزاب ومخرجه إلي بني قريظة، 4 : 1512، رقم : 3897 | |
۔(5)۔بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب حديث الإفک، 4 : 1518، رقم : 3910 | |
۔(6)۔بخاري، الصحيح، کتاب الأدب، باب هجاء المشرکين، 5 : 2279، رقم : 5800، 5801 | |
۔(7)۔مسلم، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل حسان بن ثابت، 4 : 1933، رقم : 2485، 2486 | |
۔(8)۔مسلم، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل حسان بن ثابت، 4 : 1936، رقم : 2490 | |
۔(9)۔مسلم، الصحيح، کتاب التوبة، باب في حديث الإفک وقبول توبة القاذف، 4 : 2137، رقم : 2770 | |
۔(10)۔ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الأدب، باب في إنشاد الشعر، 5 : 138، رقم : 2846 | |
حضرت زہير بن صُرد الجثمي رضی اللہ عنہ | 16 |
۔(1)۔ابن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 2 : 97، 98، رقم : 723 | |
۔(2)۔ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الأصحاب، 2 : 325، رقم : 1769 | |
حضرت عباس بن مرداس السلمي رضی اللہ عنہ | 17 |
۔(1)۔ ابن هشام، السيرة النبوية : 949، 977 | |
۔(2)۔ابن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 2 : 362. 364، رقم : 1387 | |
۔(3)۔ابن کثير، البداية والنهاية، 3 : 547. 553 | |
حضرت کعب بن زہير رضي اللہ عنہ (صاحبِ قصيدہ بانت سعاد) | 18 |
۔(1)۔حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3 : 670. 673، رقم : 6477 | |
۔(2)۔طبراني، المعجم الکبير، 19 : 157. 159، رقم : 403 | |
۔(3)۔بيهقي، السنن الکبري، 10 : 243 | |
۔(4)۔ابن إسحاق، السيرة النبوية : 591. 594 | |
۔(5)۔ابن هشام، السيرة النبوية : 1011. 1020 | |
۔(6)۔هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 9 : 393 | |
۔(7)۔ابن جوزي، الوفا بأحوال المصطفي صلي الله عليه وآله وسلم : 463، رقم : 813 | |
۔(8)۔ابن کثير، البداية والنهاية، 3 : 582. 588 | |
حضرت عبد اﷲ بن الزَبَعْري رضی اللہ عنہ | 19 |
۔(1)۔ابن إسحاق، السيرة النبوية : 536 | |
۔(2)۔ابن هشام، السيرة النبوية : 942، 943 | |
۔(3)۔ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة، 3 : 239، 240، رقم : 2946 | |
حضرت ابو عزہ الجُمَحي رضی اللہ عنہ | 20 |
ابن هشام، السيرة النبوية : 555 | |
حضرت قتيلہ بنت الحارث القرشيہ رضی اللہ عنہ | 21 |
ابن هشام، السيرة النبوية : 635، 636 | |
حضرت مَالک بن نمط الہمداني رضی اللہ عنہ | 22 |
۔(1)۔ابن هشام، السيرة النبوية : 1089 | |
۔(2)۔ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة، 5 : 46، 47، رقم : 4651 | |
حضرت انس بن زنيم رضي اللہ عنہ (اناس بن زنيم) | 23 |
۔(1)۔ابن اسحاق، السيرة النبوية : 539، 540 | |
۔(2)۔ابن هشام، السيرة النبوية : 947 | |
۔(3)۔ابن جوزي، الوفا بأحوال المصطفي صلي الله عليه وآله وسلم : 463 | |
حضرت اَصيد بن سلمہ السلمي رضی اللہ عنہ | 24 |
۔(1)۔ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة، 1 : 253، 254، رقم : 191 | |
۔(2)۔عسقلاني، الاصابة في تمييز الصحابة، 1 : 85، 86، رقم : 211 | |
رئيسِ ہوازن حضرت مالک بن عوف النصري رضی اللہ عنہ | 25 |
ابن هشام، السيرة النبوية : 1002، 1003 | |
حضرت قَيس بن بحر الاشجعي رضی اللہ عنہ | 26 |
۔(1)۔ابن هشام، السيرة النبوية : 760، 761 | |
۔(2)۔ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة، 4 : 394، رقم : 4327 | |
حضرت عمرو بن سُبَيع الرہاوي رضی اللہ عنہ | 27 |
ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة، 4 : 214، 215، رقم : 3932 | |
حضرت نابغہ الجعدي رضی اللہ عنہ(م 70ھ) | 28 |
۔(1)۔ابن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 4 : 1516، رقم : 2648 | |
۔(2)۔ابن جوزي، الوفا بأحوال المصطفي صلي الله عليه وآله وسلم : 462، 463، رقم : 812 | |
۔(3)۔ ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة، 5 : 276. 278، رقم : 5162 | |
حضرت مازن بن الغضوبہ الطائي رضی اللہ عنہ | 29 |
۔(1)۔ابن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 3 : 1344 | |
۔(2)۔ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة، 5 : 4، رقم : 4553 | |
۔(3)۔عسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، 5 : 21، 22، رقم : 7584 | |
حضرت الاعشي المازِني رضی اللہ عنہ | 30 |
۔(1)۔ابن سعد، الطبقات الکبري، 7 : 53 | |
۔(2)۔ابن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 1 : 229، رقم : 159 | |
۔(3)۔ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة، 1 : 256، 257، رقم : 196 | |
حضرت فَضَالہ اللَّيثي رضی اللہ عنہ | 31 |
۔(1)۔فاکهي، أخبار مکة في قديم الدهر وحديثه، 2 : 222، 223 | |
۔(2)۔ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة، 4 : 347، رقم : 4233 | |
۔(3)۔عسقلاني، الاصابة في تمييز الصحابة، 4 : 346، رقم : 6999 | |
حضرت عمرو بن سالم الخزاعي رضی اللہ عنہ | 32 |
۔(1)۔بيهقي، السنن الکبري، 9 : 233 | |
۔(2)۔ابن هشام، السيرة النبوية : 923 | |
۔(3)۔ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة، 4 : 212، 213، رقم : 3929 | |
حضرت اَسيد بن ابي اُناس الکناني | 33 |
ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة، 1 : 236، رقم : 161 | |
حضرت عمرو بن مُرّہ الجہني رضی اللہ عنہ | 34 |
ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 288، 289، 327 | |
حضرت قيس بن بحر الاشجعي رضی اللہ عنہ | 35 |
ابن هشام، السيرة النبوية : 761 | |
حضرت عبد اﷲ بن حارث بن قيس رضی اللہ عنہ | 36 |
۔(1)۔ابن اسحاق، السيرة النبوية : 254 | |
۔(2)۔ابن هشام، السيرة النبوية : 293 | |
حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ | 37 |
حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، 1 : 104 | |
حضرت ابو احمد بن جحش رضی اللہ عنہ | 38 |
۔(1)۔ابن هشام، السيرة النبوية : 407، 408 | |
۔(2)۔ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 522 | |
حضرت سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ | 39 |
۔(1)۔سهيلي، الروض الأنف في تفسير السيرة النبوية لابن هشام، 2 : 322 | |
۔(2)۔ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 570 | |
حضرت اَسود بن سريع رضی اللہ عنہ | 40 |
۔(1)۔أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 24، رقم : 16300 | |
۔(2)۔ابن أبي شيبة، المصنف، 6 : 180 | |
۔(3)۔طبراني، المعجم الکبير، 1 : 287، رقم : 842 | |
۔(4)۔بيهقي، شعب الإيمان، 4 : 89، رقم : 4365 | |
حضرت عامر بن اَکوع رضی اللہ عنہ | 41 |
۔(1)۔بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب غزوة خيبر، 4 : 1537، رقم : 3960 | |
۔(2)۔بخاري، الصحيح، کتاب الأدب، باب ما يجوز من الشّعر، 5 : 2277، رقم : 5796 | |
۔(3)۔مسلم، الصحيح، کتاب الجهاد، باب غزوة خيبر، 3 : 1428، رقم : 1802 | |
۔(4)۔أبو عوانه، المسند، 4 : 314، رقم : 6830 | |
۔(5)۔بيهقي، السنن الکبري، 10 : 227 | |
۔(6)۔طبراني، المعجم الکبير، 7 : 32، رقم : 6294 | |
حضرت اُم معبد عاتکہ بن خالد الخزاعي رضي اﷲ عنہا | 42 |
ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 230، 231 | |
دخترانِ مدينہ | 43 |
۔(1)۔بن ابي حاتم رازي، الثقات، 1 : 131 | |
۔(2)۔ابن عبد البر، التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد، 14 : 82 | |
۔(3)۔أبو عبيد أندلسي، معجم ما استعجم من أسماء البلاد والمواضع، 4 : 1373 | |
۔(4)۔محب طبري، الرياض النضرة في مناقب العشرة، 1 : 480 | |
۔(5)۔بيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، 2 : 507 | |
۔(6)۔ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 583 | |
۔(7)۔ابن کثير، البداية والنهاية، 3 : 620 | |
۔(8)۔ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 7 : 261 | |
۔(9)۔ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 8 : 129 | |
۔(10)۔قسطلاني، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 634 | |
۔(11)۔زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 4 : 100، 101 | |
۔(12)۔أحمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1 : 323 | |
حبشي وفد | 44 |
۔(1)۔أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 152 | |
۔(2)۔ابن حبان، الصحيح، 13 : 179، رقم : 5870 | |
۔(3)۔مقدسي، الأحاديث المختارة، 5 : 60، رقم : 1681 | |
۔(4)۔هيثمي، موارد الظمآن إلي زوائد ابن حبان : 493، رقم : 2012 | |
حضرت عمرو جنّي (جنّ صحابي) | 45 |
۔(1)۔ابن هشام، السيرة النبوية : 419 | |
۔(2)۔سهيلي، الروض الأنف في تفسير السيرة النبوية لابن هشام، 2 : 324 |
یہ تمام ہستیاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح سرائی نہ صرف شعر گوئی کی صورت میں کرتی تھیں بلکہ مجلس کی صورت میں نعت خوانی بھی کرتی تھیں۔ آج دنیا میں جہاں بھی محافلِ نعت منعقد ہوتی ہیں وہاں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ اور دیگر نعت خواں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا کلام بھی بہ طور تبرک پڑھا جاتا ہے۔
خلاصۂ بحث یہ ہے کہ ممدوحِ خالقِ کائنات رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح خوانی کرنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت پڑھنا، سننا اور محافلِ نعت منعقد کرنا قرآن و سنت کے عین مطابق جائز اور مطلوب اَمر ہے۔ شعراء صحابہ کی کثیر تعداد سے واضح ہے کہ نعت گوئی اور نعت خوانی ان کے معمولات میں شامل تھی۔ اسی طرح ہم جب محفلِ میلاد منعقد کرتے ہیں تو اِنہی جلیل القدر صحابہ و اَکابرینِ اُمت کی سنت پر عمل کرتے ہیں۔ یہ عمل قرونِ اُولیٰ سے لے کر آج تک جاری ہے جو ایک سچے اور کامل مومن کی نشانی ہے۔
تابعین اور تبع تابعین کا ذکرِ شانِ رسولﷺ
2.4.9
تابعین نے اگرچہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شب و روز کا اَز خود مشاہدہ نہ کیا تھا مگر تذکرہ ِ شانِ رسولﷺ براہِ راست صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے سنا اور پھر ان سے تبع تابعین نے سنا۔ اس طرح ذکرِ شانِ رسولﷺ تابعین اور تبع تابعین کے اَدوار میں ان کے جذبے و لگن کی وجہ سے عروج رہا۔
جس طرح علمِ تفسیر کے حوالے سے تابعینؒ کی خدمات مسلم ہیں اسی طرح علم حدیث کے حوالے سے بھی ان حضرات کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ ان حضرات نے صحابہ کرامؓ کی روشِ حیات کو اپنایا اور علوم دینیہ کی خدمت کو اپنی زندگی کا اولین وظیفہ قرار دیا۔ چنانچہ تابعین کرامؒ نے آنحضورﷺکی حیاتِ طیبہ کے حالات و واقعات اور احکام و قضایا کی تعلیم و تبلیغ کا بڑا بلیغ اہتمام کیا۔ انہی انتھک کوششوں کے نتیجے میں آج پیغمبر اسلامﷺکی زندگی کا ایک ایک لمحہ محفوظ ہے اور انسانیت کے لئے باعثِ رحمت و رہنمائی ہے۔
تابعین کرامؒ کا علمِ حدیث سے شغف کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اسے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔ مختلف علاقوں میں صحابہ کرامؓ سے حالاتِ نبویؐ معلوم کرنے کے حوالے سے تابعینؒ کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ جسے جہاں موقع میسر تھا وہیں سے جامِ علم نوش کر لیتا اور اگر کسی دوسرے علاقے میں کسی نئی بات، کسی نئی حدیث اور کسی نئے واقعے کے بارے میں خبر ہوتی تو وہاں کے لئے رختِ سفر باندھ لیتا۔
تابعین اور تبع تابعین کے بعد دیگر علماء اُمت نے ان سے علوم و معارف حاصل کیے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے دین، اپنی کتاب، اپنی شریعت، اپنے علوم و معارف کو سینہ درسینہ اور نسل در نسل محفوظ رکھا ہے۔
ان ہستیوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح سرائی کے اقوال کے ساتھ ساتھ کثیر تعداد میں اشعار بھی محفوظ کیے بلکہ خود بھی آپﷺ کی محبت میں اشعار کہے۔ آج دنیا میں جہاں بھی محافلِ نعت منعقد ہوتی ہیں وہاں صحابہ اکرام، تابعین اور تبع تابعین کے اِن اشعار کو بھی خصوصی طور پر شامل کیا جاتا ہے۔
حضرت خثیمہ سے روایت ہے، وہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک (تابعی) شاعر آےَ اور آپ سے مخاطب ہوکر کہنے لگے: میں آپ کو شعر سنانے کی درخواست کرتا ہو چنانچہ انہوں نے شعر سنانا شروع کیا اور اس ضمن میں انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ذکر کیا اور کہنے لگے:
’’کہ اللہ تعالیٰ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر رحمت فرمائے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسلام کی نشرو اشاعت میں مصیبتوں پر صبر کیا۔‘‘
’’حضرت خیثمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حقیقتاً آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایسا ہی کیا۔ (پھر شاعر نے کہا:) اس کے بعد ان کے رفیق غار حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی یہی وطیرہ اختیار کیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی بلکہ سب جانثارانِ مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا یہی طرہ امتیاز رہا ہے۔ تو اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو اللہ تعالیٰ کی مرضی ہو (یعنی تمام صحابہ منشائِ الٰہی پر ہی راضی رہتے تھے)۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
عَنْ هِشَامٍ قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ مَحَمَّدًا (يعني ابن سيرين) وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ وَالرَّجُلُ يُرِيْدُ أَنْ يُصَلِّيَ أَيَتَوَضَّأُ مَنْ يُنْشِدُ الشِّعْرَ وَيُنْشِدُ الشِّعْرَ فِي الْمَسْجِدِ قَالَ: وَأَنْشَدَهُ أَبْيَاتًا مِنْ شِعْرِ حَسَّانَ ذَلِکَ الدَّقِيْقِ ثُمَّ افْتَتَحَ الصَّـلَاةَ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ نَحْوَهُ.
’’حضرت ہشام سے روایت ہے انہوں نے بیان فرمایا کہ امام محمد بن سیرین علیہ الرحمہ مسجد میں تشریف فرما تھے اس وقت ایک سائل نے جو کہ نماز پڑھنے کا ارادہ رکھتا تھا ان سے سوال کیا کہ جو شخص مسجد میں شعر گنگناتا ہے کیا وہ شخص (نماز پڑھنے سے پہلے دوبارہ) وضو کرے؟ تو راوی بیان کرتے ہیں کہ امام ابن سیرین نے (اس شخص کو مسئلہ سمجھانے کے لئے اسی وقت) حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے اشعار میں سے کچھ (نہایت عمدہ اور) معنی خیز شعر سنائے پھر (بغیر دوبارہ وضو کئے) نماز کا آغاز فوراً کر دیا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ اور ابو نعیم نے بھی اس طرح روایت کیا ہے۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
وفي رواية: عَنْ جَرِيْرِ بْنِ حَازِمٍ قَالَ: رَأَيْتُ مُحَمَّدَ بْنَ سِيْرِيْنَ تَوَضَّأَ ثُمَّ أَتَی الْمَسْجِدَ لِيُصَلِّيَ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ أُخْتِهِ يُوْسُفُ بْنُ عَبْدِ اﷲِ بْنِ الْحَارِثِ: يَا خَالِي، أَنِّي سَمِعْتُ نَاسًا فِي الْمَسْجِدِ يَقُوْلُوْنَ: إِنَّ الشِّعْرَ يَنْقُضُ الْوُضُوْءَ قَالَ: فَأَنْشَدَ مُحَمَّدٌ عَشَرَةَ أَبْيَاتٍ مِنْ شِعْرِ حَسَّانَ ابْنِ ثَابِتٍ رضی الله عنه مِنْ هَجَائِهِ ثُمَّ کَبَّرَ مُحَمَّدٌ لِلصَّـلَاةِ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْيَا.
’’اور ایک روایت میں حضرت جریر بن حازم علیہ الرحمہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے دیکھا کہ امام محمد بن سیرین رضی اللہ عنہ نے وضو کیا پھر نماز ادا کرنے کے لیے مسجد تشریف لائے، تو ان کے بھانجے حضرت یوسف بن عبد اللہ بن حارث نے ان سے دریافت کیا: ماموں جان! میں نے لوگوں کو مسجد میں کہتے ہوئے سنا ہے کہ شعر کہنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟ راوی بیان کرتے ہیں انہوں نے (یعنی امام ابن سیرین نے بھانجے کو مسئلہ سمجھانے کے لئے پہلے) حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے وہ دس اشعار پڑھے جو انہوں نے (نعت مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں اور) کفار و مشرکین کی ہجو میں کہے تھے، پھر انہوں نے (بغیر نیا وضو کیے) نماز کے لیے تکبیر کہی (اور نماز پڑھنا شروع کردی)۔‘‘
27,28: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 279، الرقم: 26064، وفي کتاب الأدب، 1/ 380، الرقم: 412، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 2/ 275، وابن أبي الدنيا في الإشراف في منازل الأشراف، 1/ 149، الرقم: 92.
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
عَنْ شُعْبَةَ قَالَ: کَانَ قَتَادَةُ يَسْتَنْشِدُنِي الشِّعْرَ فَأَقُوْلُ لَهُ: أُنْشِدُکَ بَيْتًا وَتُحَدِّثْنِي بِحَدِيْثٍ.
رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ وَابْنُ أَبِي الدُّنْيَا وَأَبُوْ نُعَيْمٍ.
حضرت شعبہ سے مروی ہے کہ حضرت قتادہ شعر سنا کرتے تھے تو میں اُن سے عرض کیا کرتا کہ میں آپ کو شعر سناؤں گا اور آپ مجھے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی کوئی ایک حدیث بیان فرمائیں۔‘‘
أخرجه الطبري في تهذيب الآثار، 2/ 680، الرقم: 999، وابن أبي الدنيا في الإشراف في منازل الأشراف، 1/ 271، الرقم: 354، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 7/ 154، والتميمي في أدب الإملاء والاستملاء، 1/ 71، والرامهرمزي في المحدث الفاضل، 1/ 593، والذهبي في تذکرة الحفاظ، 1/ 196، وفي سير أعلام النبلاء، 7/ 212.
اس حدیث کو امام طبری، ابن ابی الدنیا اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ نعت شریف تحریر فرمائ جس میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم پر درود و سلام بھیجا، آپ صلى الله تعالى علیہ والہ وسلم کی مدحت فرمائ ۔
اِنْ نَلْتِ يَا رِيْحَ الصَّبَا يَوْمًا اِلٰي اَرْضِ الحَرم
بَلِّغْ سَلاَمِيْ رَوْضَةً فِيْهَا النَّبِيُّ المُحْتَرَم
اے بادِ صبا، اگر تیرا گزر سرزمینِ حرم تک ہو
تو میرا سلام اس روضہ کو پہنچانا جس میں نبیِ محترم تشریف فرما ہیں
مَنْ وَّجْهُهُ شَمْسُ الضُّحٰي مَنْ خّدُّهُ بّدْرُ الدُّجٰي
مَن ذآتُهُ نُورُ الهُديٰ مَنْ كَفُّهُ بّحْرُ الْهَمَمْ
وہ جن کا چہرۂ انور مہرِ نیمروز ہے اور جن کے رخسارتاباں ماہِ کامل
جن کی ذات نورِ ہدایت، جن کی ہتھیلی سخاوت میں دریا
قُرْأنُهُ بُرْهَانُنَا نََسْخاً لاَدْيَانِ مَّضَتْ
اِذْجَاءَنَا اَحْكَامُهُ كُلُّ الصُّحُفِ صَارَ الْعَدَمْ
اُن کا (لایا ہوا) قرآن ہمارے لئے واضح دلیل ہے جس نے ماضی کے تمام دینوں کو منسوخ کر دیا
جب اس کے احکام ہمارے پاس آئے تو (پچھلے) سارے صحیفے معدوم ہو گئے
اَكْبَادُنَا مَجْرُوحَةٌ مِنْ سَيْفِ هِجْرِ الْمُصْطَفٰي
طُوْبيٰ لآهلِ بَلْدَةٍ فِيْهَا النَّبِيُّ المُحْتَشَمْ
ہمارے جگر زخمی ہیں فراقِ مصطفیٰ کی تلوار سے
خوش نصیبی اس شہر کے لوگوں کی ہے جس میں نبیِ محتشم ہیں
عظیم تابعی امام ابو حنیفہ ؒ نے بہت سے نعتیہ اشعار کہے تھے، ’ ’القصیدۃ النعمانیہ‘‘، رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نعت ہے جو امام صاحب سے منسوب کی جاتی ہے۔ امام ابوحنیفہؒ نے اپنے نعتیہ قصیدہ میں آپ کے معجزے کا ذکر یوں کیا ہے:
ترجمہ: اور جب آپﷺ نے درختوں کو بلایا تو وہ فرمان بردار بن کر، دوڑتے ہوئے، آپﷺ کے حکم پر لبیک کہتے، آپﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے۔
مخلوق کا ذکرِ شانِ رسولﷺ
2.4.10
شجر و ہجر کا ذکرِ شانِ رسولﷺ
1
کتب احادیث و سیرت میں شجر و ہجر سے متعلق ایسے متعدد واقعات بیان کیے گےَ ہیں جن سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ روحِ زمین کے تمام شجر و ہجر آپﷺ کو اللہ کے رسول کے طور پر پہنچانتے تھے اس لیے آپ ﷺ کو سلام پیش کرتے اور آپﷺ کو تعزیما ً سجدہ کرتے۔ کنکریاں آپﷺ کے ہاتھ میں تسبیح کرتیں۔ ہرنیاں آپﷺ کو ضامن تسلیم کرتیں، اونٹ آپﷺ سے افسانۂ غم بیان کرتے۔
احادیث مبارکہ میں ایسے متعدد خوش نصیب درختوں کا ذکر بھی ملتا ہے جنھوں نے حضور اکرمﷺ کی تعظیم و تکریم کی اور مقام نبوت کو پہچانا۔ کئی درخت آپؐ کی پکار پر زمین کو چیرتے ہوئے دربار رسالت میں حاضر ہوئے اور اقرار نبوتﷺ کی سعادت حاصل کی۔ امام ابوحنیفہؒ نے اپنے نعتیہ قصیدہ میں اس کا ذکر یوں کیا ہے:
ترجمہ: اور جب آپﷺ نے درختوں کو بلایا تو وہ فرمان بردار بن کر، دوڑتے ہوئے، آپﷺ کے حکم پر لبیک کہتے، آپﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے۔
یہی مضمون امام شرف الدین بوصیریؒ نے قصیدہ بردہ شریف میں یوں بیان کیا ہے:
ترجمہ: ان کی پکار پر اشجار، بغیر قدموں کے، اپنی پنڈلیوں پر چلتے ہوئے، ان کی طرف چل پڑے۔
ان درختوں میں سے سب سے خوش نصیب درخت ’’حنانہ‘‘ ہے، جس کا ذکر بخاری شریف میں اجمالاً اور دیگر کئی کتب احادیث میں تفصیلاً مذکور ہے۔ رسول اکرمﷺ کے لیے ایک صحابی نے لکڑی کا منبر بنا کر مسجد نبویﷺ میں رکھ دیا۔ آپﷺ خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے اس پر رونق افروز ہوئے تو خشک درخت کا بنا ہوا وہ ستون، جس سے ٹیک لگا کر آپﷺ خطبہ ارشاد فرماتے تھے، بلک بلک کر رونے لگا۔
اس کے نالہ وشیون میں اتنا درد تھا کہ مجلس میں موجود تمام صحابہ کرامؓ آبدیدہ ہو گئے۔ آنحضرتﷺ نے جب ستون کی بے قراری ملاحظہ فرمائی تو خطبہ موخر فرما کر اس ستون کے پاس آئے اور اسے سینے سے لپٹا لیا۔ پھر صحابہ کرامؓ سے فرمایا ’’یہ میری جدائی میں گریہ کناں ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، اگر میں اسے سینے سے لپٹا کر دلاسا نہ دیتا تو یہ قیامت تک اسی طرح میری جدائی کے غم میں روتا رہتا۔‘‘
حضور اکرمﷺ نے پھر لکڑی کے اس تنے سے پوچھا ’’کیا تو پسند کرتا ہے کہ میں تجھے واپس اسی باغ میں اگا دوں جہاں سے تجھے کاٹا گیا ہے۔ وہاں تجھے ہرا بھرا کر دیا جائے۔ یہاں تک کہ قیامت تک مشرق و مغرب سے آنے والے اللہ کے دوست حجاج کرام تیرا پھل کھائیں؟‘‘
اس نے عرض کیا: ’’اے پیکرِ رحمتؐ میں تو آپﷺ کی لمحاتی جدائی برداشت نہ کر سکا، قیامت تک کی تنہائی کیسے برداشت کروں گا؟‘‘
آپﷺ نے پوچھا ’’کیا تو یہ چاہتا ہے کہ میں تجھے جنت میں سرسبزوشاداب درخت بنا کر اگادوں اور تو جنت کی بہاروں کے مزے لوٹے؟‘‘
ستون حنانہ نے یہ انعام قبول کر لیا۔ چناںچہ اسے منبر اقدس کے قریب زمین میں دفن کر دیا گیا۔ تدفین کے بعد حضور اکرمﷺ نے فرمایا ’’اس نے دارفنا پر دارِبقا کو ترجیح دی ہے۔‘‘
(بخاری شریف، کتاب الجمعہ، سنن دارمی)
ادبِ رسولﷺ بجا لانے والا ایک ایسا ہی درخت طائف کے مقام پر تھا۔ شفاء شریف میں آیا ہے کہ غزوۂ طائف میں حضور اکرمﷺ غنودگی کی حالت میں تھوڑا سا چلے۔ سامنے ایک بیری کا درخت تھا۔ قریب تھا کہ آپﷺ کا سراقدس اس درخت سے ٹکرا جاتا۔ اچانک وہ پھٹ کر دو ٹکڑے ہوا اور حضورﷺ کو راستہ دے دیا۔ قاضی عیاض مالکیؒ نے فوزک کے حوالے سے لکھا ہے، وہ سعادت مند درخت (۱۰۸۳ء ۔۱۱۴۵ئ)آج بھی دو تنوں پر اسی جگہ موجود ہے۔ اس کے شرفِ صحابیت کی وجہ سے وہ جگہ لوگوں میں مشہور ہے اور قابل تعظیم بھی۔
(شفا شریف، ج اوّل، باب چہارم)
وادیء مکہ میں ایک پتھر پر سے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر ہوتا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوٰۃ و سلام پڑھا کرتا تھا۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
إن بمکة حجرا کان يسلم عليّ ليالي بُعثتُ إني لأعرفه الآن.
’’بے شک مکہ میں ایک پتھر تھا، (جب) مجھے مبعوث کیا گیا تو وہ مجھے سلام کیا کرتا تھا۔ بے شک میں اسے اب بھی پہچانتا ہوں۔‘‘
حوالاجات
ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في آيات إثبات نبوة النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 5 : 592، رقم : 3624 | 1 |
ابو يعلي، المسند، 13 : 459، رقم : 7469 | 2 |
طبراني، المعجم الکبير، 2 : 220، رقم : 1907 | 3 |
طبراني، المعجم الأوسط، 2 : 291، رقم : 2012 | 4 |
سیدنا علی کرم اﷲ وجھہ فرماتے ہیں :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
کنت مع النبي صلي الله عليه وآله وسلم بمکة، فخرجنا في بعض نواحيها فما استقبله جبل ولا شجر إلا وهو يقول : السلام عليک يا رسول اﷲ.
’’میں مکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہم راہ تھا، پس ہم بیرونی مضافات سے گزرے تو جس درخت اور پتھر سے ہمارا گزر ہوتا وہ السلام علیک یا رسول اﷲ کی صدا ضرور بلند کرتا۔‘‘
حوالاجات
ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في آيات إثبات نبوة النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 5 : 593، رقم : 3626 | 1 |
حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 2 : 677، رقم : 4238 | 2 |
مقدسي، الأحاديث المختارة، 2 : 134، رقم : 502 | 3 |
یہ وہی سلام ہے جو ہم محافلِ میلاد میں پڑھتے ہیں۔ اَفسوس! شجر و حجر تو تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام پڑھ رہے ہیں لیکن آج کے بعض نام نہاد مُوَحد، شدت پسند اور بدعتی اِسے کفر و شرک گردانتے ہیں۔ حالاں کہ حدیث شریف کی اَصح کتب جیسے جامع الترمذی اور الصحيح لمسلم کی اِبتدا اِس طرح ہوئی ہے، اور جہاں تک عقیدہ کا تعلق ہے امام مسلم اور امام بخاری اِسی عقیدہ کے حامل ہیں۔ فضائل و مناقب کے مختلف اَبواب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شرف و فضیلت پر وقف ہیں۔ ان میں مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باب بھی ہیں اور میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِصطلاح اِمام ترمذی نے بیان کی ہے۔
اس ضمن میں بہت سے واقعیات بیان کیے جا سکتے ہیں لیکن طوالت کی وجہ سے بحیرا کا مشہور واقعہ پر اکتفا کرتے ہیں۔ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ کی عمر مبارک بارہ برس تھی جب جناب ابوطالب نے رئوسائے قریش کے ہمراہ تجارت کی غرض سے سفر شام کا عزم کیا۔ حضورﷺ نے ساتھ چلنے کی خواہش ظاہر کی۔ چناں آپﷺ کو بھی ساتھ لے لیا گیا۔ مورخین کے نزدیک یہ سفر ۵۸۶ء میں ہوا۔ جب یہ قافلہ بیت المقدس کے شمال میں نزد دمشق واقع مقام بُصریٰ پہنچا، تو ایک گھنے درخت کے قریب جناب ابوطالب سواری سے نیچے اترے۔ باقی اہل قافلہ نے بھی آرام کی غرض سے سواریوں کو کھلا چھوڑ دیا۔ اس زمانے میں یہ علاقہ رومی سلطنت کے زیر انتظام تھا۔ وہاں ایک گرجا میں ایک راہب رہتا تھا۔
راہب کا لقب بحیرا (Bahira) یعنی پارسا او ر نام جرجیس (Georges) یا سرجیس تھا۔ بحیرا اناجیل اربعہ کا بہت بڑا عالم اور کتاب مقدس کا درس دیا کرتا تھا۔ اسی باعث علاقے میں قدر و منزلت کی نظر سے دیکھا جاتا۔ اس کے گرد تحصیل علم کرنے والے عیسائی علما کا ہجوم رہتا۔ حضرت سلمان فارسیؓ نے بھی قبل از اسلام اسی سے علم حاصل کیا تھا۔ شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے مدارج النبوۃ، جلد دوم میں لکھا ہے کہ بحیرا کے اس صومعہ میں مقیم ہونے کی وجہ اسی کی یہ تحقیق تھی کہ اُدھر سے نبی آخر الزماںﷺ کا گزر ہو گا۔ چناںچہ وہ حجاز سے آنے والے ہر قافلے کو اپنی کھڑکی سے دیکھتا رہتا۔ مگر اسے وہ ہستی نظر نہ آتی جس کے لیے وہ سراپا انتظار تھا۔
بحیرا بلا کا تارک الدنیا اور گوشہ نشین بزرگ تھا۔ کبھی گرجا سے باہر آیا تھا اور نہ ہی کبھی قافلے والوں سے ملاقات کرتا۔ لیکن اس مرتبہ وہ خلاف دستور قافلے پر نظریں جمائے گرجا کے دروازے پر کھڑا تھا۔ جب قافلے نے درخت کے نیچے پڑائو ڈالا تو وہ اہل مکہ کے قریب پہنچا اور حضور اکرمﷺ کا دستِ اقدس تھام کر لوگوں سے مخاطب ہو کر بآوازِ بلند کہنے لگا:
’’یہ سرکار دو عالمﷺ ہیں۔ یہ رب العالمین کے رسولﷺ ہیں۔ اللہ انھیں رحمتہ اللعالمینﷺ بنا کر معبوث فرمائے گا۔‘‘ (ترمذی)
اہل قافلہ بحیرا کا یہ عمل دیکھ کر حیرت و استعجاب میں ڈوب گئے۔ روسائے قریش میں سے ایک نے پوچھا: ’’اے بزرگِ محترم! آپ کو یہ بات کیسے معلوم ہوئی؟‘‘
اس نے جواب دیا: ’’جب سبھی لوگ گھاٹی سے اتر کر آ رہے تھے تو میں نے دیکھا کہ تمام درخت اور پتھر آپﷺ کے سامنے سجدہ کر رہے ہیں۔ یہ خصوصیت صرف انبیائے کرام کو حاصل ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں میں آپﷺ کو مہر نبوت سے بھی پہچان سکتا ہوں۔‘‘
بحیرا پھر صومعہ میں واپس چلا گیا تاکہ اہل قافلہ کے لیے ضیافت کا اہتمام کر سکے۔ جب وہ کھانا لے کر اہل قافلہ کے پاس پہنچا تو حضور اکرمﷺ اونٹ چرانے تشریف لے گئے تھے۔ اس نے آپﷺ کے بارے میں پوچھا۔ چنانچہ آپﷺ کو بلایا گیا۔ آپﷺ واپس تشریف لائے تو ایک بدلی آپﷺ کے سر اقدس پر سایہ کناں تھی۔ جب گرجا کے قریب پہنچے تو اہل قافلہ درخت کے سائے میں بیٹھے تھے۔
آپﷺ نے ازراہِ ادب سب سے پیچھے بیٹھنا گوارا کیا، جہاں دھوپ تھی اور درخت کا سایہ ختم ہو جاتا تھا۔ فوراً درخت نے جھک کر آپﷺ کے سر اقدس پر سایہ کر دیا۔ البدایہ والنہایہ اور سیرت ابن ہشام کے مطابق درخت کی شاخیں بے تابانہ آپﷺ کے سراقدس پر جھک گئیں۔ یہ دیکھ کر راہب بے ساختہ پکار اٹھا ’’دیکھو درخت کا سایہ ان کی طرف جھک گیا ہے۔‘‘
امام بیہقی نے اس واقعہ کو قدرے اختلاف کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ان کے مطابق بحیرا نے اہل قریش کو صومعہ کے اندر کھانے پر مدعو کیا۔ تمام اہل قافلہ چلے گئے جب کہ حضورﷺ نوعمری کے باعث اسی درخت کے نیچے تشریف فرما رہے۔ جب بحیرا کو حضورﷺ قافلے میں نظر نہ آئے، تو اس نے آپﷺ کے بارے میں پوچھا۔ چنانچہ ایک قریشی یہ کہتے ہوئے اٹھا کہ لات و عزیٰ کی قسم! ہمارے لیے لائق شرم ہے کہ ہم تو کھانا کھا لیں اور عبداللہ بن عبدالمطلب کا فرزند رہ جائے۔ وہ پھر حضورﷺ کو آغوش میں اٹھا لایا۔
ابونعیم نے حضرت علیؓ سے روایت کیا ہے کہ جب آپﷺ گرجا میں داخل ہوئے تو وہ نُورِ نبوت سے چمک اٹھا۔ یہ دیکھ کر بحیرا کہنے لگا: ’’یہ اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں، جنھیں اللہ عرب میں مبعوث فرمائے گا۔‘‘ بحیرا آپﷺ کو بغور دیکھتا اور اپنی کتب میں مذکور علاماتِ نبوت کی شناخت کرتا رہا۔ جب قافلے والے کھانے سے فارغ ہو کر چلے گئے، تو وہ حضورﷺ کے پاس آ کر بیٹھ گیا اور چند سوال و جواب کیے۔ بحیرا نے کہا: ’’بچے! میں تمھیں لات و عزیٰ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ مجھے میرے سوالوں کے جواب دو۔‘‘ اس نے لات و عزیٰ کا واسطہ اس لیے دیا کیونکہ وہ اہل قافلہ کو ان کی قسمیں کھاتے ہوئے سن چکا تھا۔
حضور اکرمﷺ نے فرمایا: ’’آپ لات و عزیٰ کا نام لے کر مجھ سے کچھ نہ پوچھیں کیونکہ مجھے ان سے جتنی نفرت ہے اتنی کسی اور سے نہیں۔‘‘
بحیرا نے اللہ کا واسطہ دیا تو آپﷺ نے فرمایا : ’’اب جو مرضی ہے پوچھو۔‘‘
بحیرا نے پوچھا کہ کیا آپﷺ کی نیند پوری نہیں ہوتی؟‘‘
آپﷺ نے فرمایا: ’’میری آنکھیں سو جاتی ہیں مگر دل نہیں سوتا۔‘‘
پھر آپؐ کے احوال اور دیگر امور کے بارے میں استفسار کیا۔ حضورﷺ نے اسے آگاہ فرمایا۔ تمام جوابات بحیرا کی معلومات کے مطابق تھے۔ پھر اس نے آپﷺ کی پشت مبارک کی طرف دیکھا تو شانوں کے درمیان سیب سے مشابہ مہرِ نبوت دکھائی دی۔ تمام علامات کی تصدیق کرنے کے بعد بحیرا نے جناب ابوطالب کے پاس آ کر پوچھا: ’’اس بچے سے آپ کا کیا رشتہ ہے؟‘‘
انھوں نے جواب دیا: ’’میرا بیٹا ہے۔‘‘
بحیرا نے کہا: ’’ یہ آپ کا بیٹا نہیں ہو سکتا۔ میرے علم کے مطابق بچے کے والد کو زندہ نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
بحیرا نے کہا: ’’آپ کی بات بالکل درست ہے۔ آپ کے بھتیجے کی بڑی شان ہو گی۔ اس کا چہرہ، نبی کا چہرہ آنکھ نبی کی آنکھ ہے۔‘‘
اب بحیرا نے فرطِ جذبات سے مغلوب ہو کر بآواز بلند قسمیں کھا کھا کر لوگوں سے کہا کہ آپؐ کو اپنے ساتھ روم لے کر نہ جائو۔ رومی جب آپ ﷺ کو دیکھیں گے تو علاماتِ نبوت اور معجزات کی مدد سے پہچان کر آپﷺ کی جان کے درپے ہوں گے۔ ابھی یہ گفتگو جاری تھی کہ دور ایک غبار اڑتا ہوا نظر آیا۔ غور سے دیکھا تو روم کی جانب سے سات آدمی چلے آرہے تھے۔ بحیرا نے ان کا استقبال کیا اور آنے کا سبب پوچھا۔ انھوں نے جواب دیا: ’’ہم اس لیے آئے کہ نبی آخرالزماںﷺ اس مہینے سفرپر نکلنے والے ہیں۔ ہمارے آدمی ہر راستے پر پھیل گئے ہیں۔ ہمیں خبر ملی کہ وہ اس راستے سے آرہے ہیں لہٰذا ہم نے ادھر کا رخ کر لیا۔‘‘
بحیرا نے ان سے کہا: ’’یہ بتائو کہ اللہ تعالیٰ جس معاملے کو تکمیل تک پہنچانا چاہے کیا کوئی آدمی اس میں رکاوٹ بن سکتا ہے؟‘‘
انھوں نے انکار میں جواب دیا تو اس نے انھیں سمجھایا کہ تمھیں چاہیے، نبی ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کر لو اور آپؐ کے ساتھی بن جائو۔ چنانچہ وہ واپس چلے گئے۔ جناب ابو طالب حضور اکرمﷺ کو لے کر مکہ مکرمہ پلٹ آئے یا کسی کے ہمراہ واپس بھیج دیا ۔
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
چرند و پرند کا ذکرِ شانِ رسولﷺ
2
روح ِ زمین کے چرند و پرند بھی آپﷺ کو اللہ کے رسول کے طور پر پہنچانتے تھے اور اسی لیے آپ ﷺ کو سلام پیش کرنے کے ساتھ ساتھ آپﷺ کو تعزیما ً سجدہ کرتےاور آپﷺ سے ہم کلام ہوتے۔
چرند و پرند کا آپ ﷺ کی شان کو پہچاننا، آپ ﷺ کو سلام پیش کرنا ، آپ ﷺ کا اکرام کرنا اور اپنی مصیبت کے وقت آپ ﷺ سے مدد مانگنا بعد میں سیرت و احادیث میں شانِ رسولﷺ کا ذکر بن کر محفوظ ہو گئے۔
اس سلسلے میں چند متعلقہ واقعات ملاحظہ فرما ئے۔ امام سیوطیؒ ’’خصائص الکبریٰ‘‘ میں حدیث پاک نقل فرماتےہیں کہ:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
’’حضرت ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ہم حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے- ہم ایک درخت کے قریب گئے تو اس میں حُمَّرَة (چڑیا کی مانند چھوٹا سا پرندہ ہے) کا گھونسلہ تھا- ہم نے اس کے دونوں بچے پکڑ لیے،(تو پھر ہم نے دیکھا ) کہ :
قَالَ: فَجَاءَتِ الْحُمَّرَةُ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ وَهِيَ تُعَرِّضُ،
تو چڑیا آپ ﷺ کی خدمت میں بار بار آتی اور کچھ بولتی، (عرض کرتی )
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ:
مَنْ فَجَعَ هَذِهِ بِفَرْخَيْهَا؟
کس شخص نے اس کے دونوں بچے پکڑ کر اسے دکھ پہنچایا ہے ؟
ہم نے عرض کی کہ ہم نے پکڑے ہیں-آپ ﷺ نے فرمایا کہ انہیں اس کے گھونسلے میں رکھ دو تو ہم نے انہیں اس کی جگہ پر رکھ دیے‘‘-
امام سیوطیؒ نے’’خصائص الکبریٰ‘‘ میں حدیث پاک نقل فرمائی اور قاضی عیاض مالکیؒ ’’الشفاء بتعریف حقوق المصطفےٰ ﷺ‘‘، امام حاکمؒ ’’المستدرک علی الصحیحین‘‘، امام ابو بکر بیہقیؒ ’’دلائل النبوۃ‘‘، حافظ ابن کثیرؒ ’’البدایہ و النہایہ‘‘ میں۔
سوچئے! کئی لوگ تھے، کئی انسان تھےجن کے لباس ایک جیسے تھے، وضع قطع سب کی ایک طرح کی، مگر عبد اللہ ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ وہ چڑیا سارے قافلے کو چھوڑ کر صرف آقا کریم ﷺ کے گرد منڈلا رہی تھی اس لئے کہ:
نِگاہ عاشِق کی دیکھ لیتی ہے پردۂ میم کو اُٹھا کر
وُہ بزمِ یثرب میں آکے بیٹھیں ہزار مُنہ کو چھُپا چھُپا کر
یعنی عاشق پہچان لیتے ہیں کہ محبوب کون ہے :
کیا حُسن ہے، جمال ہے، کیا رنگ و روپ ہے
وُہ بھیڑ میں بھی جائے تو تنہا دِکھائی دے
لوگوں کے جھرمٹ میں بھی جب پرندے آتے ہیں تو پہچان لیتے ہیں کہ نبوت کی خوشبو کس بدن سے مہک رہی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ پرندوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے آقا کریم ﷺکی معرفت و پہچان عطا فرمائی ہے-
امام سیوطیؒ ’’خصائص الکبریٰ‘‘ میں فرماتےہیں کہ:
قول
’’ابن وہب (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن مکہ مکرمہ کے کبوتروں نے آپ ﷺ پر سایہ کیا تھا آپ ﷺ نے ان کو دعائے برکت دی تھی‘‘-
وہ کبوتربھی جانتے تھےکہ یہی وہ ذات ِ گرامی ہے جس نے کعبۃ اللہ کی حرمت کوقائم کرنا ہے اور اسے بتوں اور شرک سے پاک فرمانا ہے-اس لئے سرکارِ دو عالم ﷺ سے جو پرندوں اور جانوروں کی محبت تھی وہ ہزار ہا لوگوں کے ایمان لانے کا باعث بنی-
امام سیوطیؒ نے’’خصائص الکبریٰ‘‘ میں حدیث پاک نقل فرمائی اور قاضی عیاض مالکی اندلسیؒ ’’الشفاء بتعریف حقوق المصطفےٰ ﷺ‘‘، امام ابو بکر بیہقیؒ ’’دلائل النبوۃ‘‘ میں۔
امام طبرانیؒ لکھتے ہیں کہ:
قول
’’حضرت عمرؒ سے روایت ہے کہ آقا پاک ﷺ اپنے صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) کی مجلس میں تشریف فرما تھے کہ اچانک ایک اعرابی گوہ کا شکار لے کر آیا؛ اور اس نے آپ ﷺ کے بارے میں پوچھا کہ آپ میں سے نبی کون ہے؟ ( صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) نے آپ ﷺ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) فرمایا کہ:یہ ہیں اللہ کے نبی(ﷺ ) – تو اس نے کہا قسم ہے لات و عزٰی کی ، میں آپ ﷺ پر ایمان نہیں لایا، یا نہیں لاؤں گا مگر یہ گوہ ایمان لے آئے اور اس گوہ کو آپ ﷺ کے سامنے پھینک دیا-
فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: يَا ضَبُّ!
تب آقا کریم ﷺ نے فرمایا: اے گوہ! (یعنی اے گوہ ، گواہی دے )
فَأَجَابَهٗ اَلضَّبُّ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِيْنٍ يَسْمَعُهُ الْقَوْمُ جَمِيْعًا: لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ يَا زَيْنَ مَنْ وَافَى الْقِيَامَةَ
پس اس نے ’’واضح عربی زبان‘‘ میں آپ ﷺ کو جواب دیا اور تمام لوگوں نے اس کو سنا- (اُس نے عرض کی)یعنی میں حاضر ہوں موجود ہوں اے زینت ان لوگوں کی جو قیامت کی طرف آنے والے ہیں –
آپ ﷺ نے فرمایا :
مَنْ تَعْبُدُ يَا ضَبُّ؟
اے گوہ!کیا تو کسی کو پوجتی ہے ؟ کس کی عبادت کرتی ہے؟
گوہ نے عرض کیا :
اَلَّذِيْ فِيْ السَّمَاءِ عَرْشِهٖ وَفِي الْأَرْضِ سُلْطَانِهٖ وَفِي الْبَحْرِ سَبِيلِهٖ وَفِي الْجَنَّةِ رَحْمَتِهٖ وَفِيْ النَّارِ عِقَابِهٖ
اُس ذات کو جس کا عرش آسمان میں ہے اور جس کی سلطنت زمین میں ہے اورجس کا راستہ سمندر میں ہے اور جس کی رحمت جنت میں ہے اور جس کا عذاب دوزخ میں ہے-
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
فَمَنْ أَنَا يَا ضَبُّ؟
اے گوہ یہ بتا مَیں کون ہوں ؟ گوہ نے عرض کیا :
رَسُوْلُ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَخَاتَمُ النَّبِيِّينَ، وَ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ صَدَّقَكَ،وَقَدْ خَابَ مَنْ كَذَّبَكَ،
آپ ﷺ رب العالمین کے رسول ہیں اور آپ خاتم النبیینﷺ ہیں-پس تحقیق وہ کامیاب ہو ا جس نے آپ ﷺ کی تصدیق کی- پس تحقیق وہ نامراد ہوا جس نے آپ ﷺ کی تکذیب کی-
اعرابی نے کہا یا رسول اللہ ﷺ!اب سے پہلے آپ ﷺ سے بڑھ کر اس روئے زمین پر میرا دشمن کوئی نہیں تھا لیکن آج آپ ﷺمیرے والدین اور میری ذات سے بھی بڑھ کر محبوب ہیں اور میں آپ ﷺ سےظاہری اور باطنی اعلانیہ اور پوشیدہ محبت کرتا ہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ:
أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَإِنَّكَ رَسُوْلُ اللهِ،
تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اَلْحَمْدُ لِلهِ الَّذِيْ هَدَاكَ بِيْ
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے میری وجہ سے آپ کو ہدایت عطا فرمائی‘‘-
امام طبرانیؒ نے اس حدیث پاک پر پوری کتاب لکھی ہے جس کا نام ’’حَدِيْثُ الضَّبِّ الَّذِیْ تَكَلَّمَ بَيْنَ يَدَیِ النَّبِيِّﷺ لِلطِّبْرَانِيْ‘‘ہے۔
جبکہ امام ابو بکر بیہقیؒ ’’دلائل النبوة ‘‘، حافظ ابن کثیرؒ ’’البدایہ و النہایۃ‘‘، امام ابن عساکرؒ ’’تاریخ دمشق‘‘، امام ہیثمیؒ ’’مجمع الزوائد‘‘، امام ابو نعیم الاصبہانی ’’دلائل النبوة ‘‘، قاضی عیاض مالکیؒ ’’الشفا بتعریف حقوق المصطفےٰ ﷺ اور امام سیوطیؒ ’’الخصائص الكبرى‘‘ میں اس حدیث پاک کو نقل فرمایا ہے۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ جَعْفَرٍ رضي الله عنه قَالَ: فَدَخَلَ حَائِطًا لِرَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ فَإِذَا جَمَلٌ. فَلَمَّا رَأَی النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم حَنَّ وَذَرَفَتْ عَيْنَاهُ. فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَمَسَحَ ذِفْرَاهُ فَسَکَتَ فَقَالَ: مَنْ رَبُّ هٰذَا الْجَمَلِ؟ لِمَنْ هٰذَا الْجَمَلُ؟ فَجَاءَ فَتًی مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَ: لِي، يَا رَسُوْلَ اللهِ. فَقَالَ: أَفَـلَا تَتَّقِي اللهَ فِي هٰذِهِ الْبَهِيْمَةِ الَّتِي مَلَّکَکَ اللهُ إِيَهَا، فَإِنَّه شَکَا إِلَيَّ أَنَّکَ تُجِيْعُهُ وَتُدْئِبُهُ. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُوْ يَعْلٰی.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: فِيْهِ عَبْدُ الْحَکِيْمِ ابْنِ سُفْيَانَ ذَکَرَهُ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ وَلَمْ يَجْرِحْه أَحَدٌ وَبَقِيَةُ رِجَالِه ثِقَاتٌ.
’’حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک انصاری شخص کے باغ میں داخل ہوئے تو وہاں ایک اُونٹ تھا۔ جب اُس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو وہ رو پڑا اور اُس کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کے پاس تشریف لے گئے اور اُس کے سر پر دستِ شفقت پھیرا تو وہ خاموش ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: اِس اُونٹ کا مالک کون ہے، یہ کس کا اُونٹ ہے؟ انصار کا ایک نوجوان حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ میرا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس بے زبان جانور کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے جس کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں مالک بنایا ہے۔ اس نے مجھے شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور اس سے بہت زیادہ کام لیتے ہو۔‘‘
5: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الجهاد، باب ما يومر به من القيام علي الدواب والبهائم، 3 /23، الرقم: 2549، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 /205، الرقم: 1754، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 /322، الرقم: 31756، وأبو يعلي في المسند، 12 /158159، الرقم: 6787، وأبو عوانة فی المسند، 1 /168، الرقم: 497، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 9 /159، الرقم: 135، وابن عبد البر في التمهيد، 22 /9، وأبو المحاسن في معتصر المختصر، 2 /19، والمزي في تهذيب الکمال، 6 /165، الرقم: 1232.
اِس حدیث کو امام ابو داود، احمد، ابن ابی شیبہ اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اِس حدیث کی سند صحیح ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِس کی سند میں عبد الحکیم بن سفیان نامی راوی ہے، امام ابن ابی حاتم نے اُس کا بغیر کسی جرح کے ذکر کیا ہے اور اُس کے علاوہ بھی تمام رجال ثقہ ہیں۔
سلاطین کا ذکرِ شانِ رسولﷺ
2.4.11
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے برسوں پہلے بہت سے سلاطین نےمختلف ادوار میں آپﷺ کی شان کا ذکرِمبارک سن رکھا تھا اور اپنی عقیدت کی وجہ سے وہ آپ ﷺکی آمد کے منتظر تھے۔ اسی طرح احادیث اور تاریخ کی کتب میں آپ ﷺکے دور اور آپ ﷺکے پردہ فرمانے کے بعد کے سلاطین کا ذکر بھی آتا ہے جن کو آپ ﷺسے بےپناہ محبت و عقیدت تھی۔آیَیےان خوش نصیبوں میں سے چند کے بارے میں جانتے ہیں جن کا نام آج بھی اہل اسلام نہایت محبت اور احترام سے لیتے ہیں-
بادشاہ ِیمن اَسْعَد تُبّان حِمْیَری کی حبِ رسولﷺ
1
رسول اللہ ﷺ کی ولادت ِمبارک سے تقریباًایک ہزار سال پہلے ملکِ یمن پر اَسْعَد تُبّان حِمْیَری نامی بادشاہ کی حکومت تھی، چونکہ یمن کی زبان میں بادشاہ کو تُبَّع کہا جاتا تھا اِس لئے تاریخ میں یہ بادشاہ تُبَّع الْاَوَّل (یعنی پہلا بادشاہ) اور تُبَّع حِمْیَری کے نام سے مشہور ہوا۔ اس بادشاہ نے بھی حضورکی آمدو بعثت کا عالموں سے سنا، تو وہ وفور جذبات اور عقیدت ومحبت میں سرشار ہوکر آپ پہ بن دیکھے ایمان لے آیا، آپ کا انتظار کرنا شروع ہوگیا۔ اور پھر ایک خط لکھ کر بند کرادیا ، اور ڈبہ بند کرکے اس وقت کے سب سے بڑے عالم کو دے کر یہ نصیحت کی، اور وصیت بھی لکھ دی کہ اگر میری زندگی میں محمد تشریف لے آئیں، تو یہ خط ان تک پہنچا دیا جائے، بصورت دیگر میرے مرنے کے بعد مدینے شریف کے اس عالم یا اس کی اولاد اور نسل میں جو بھی حضور کے دور کا اعزاز پائے، وہ یہ امانت آقائے دوجہاں تک پہنچا دے، خط میں تحریر کیا گیا تھا ”اللہ کے نبی انبیاءکے خاتم، رب العالمین کے رسول کی طرف ”تبع اول حمیری“ کی جانب سے ”میں آپ اور آپ پر نازل ہونے والی کتاب پہ ایمان لاتا ہوں، آپ کے دین اور طریقے پر ہوں، آپ کے رب پر اور جوکچھ آپ کے رب کی جانب اسلام اور ایمان کے سلسلے میں آیا ہے اس پر ایمان لایا ہوں، اگر آپ کا زمانہ پاﺅں تو بہتر ہے، وگرنہ قیامت میں میری شفاعت فرمانا، اور مجھے بھول نہ جانا کہ میں آپ کا پہلا امتی ہوں، آپپر ایمان لایا، اور بیعت کی ، میں آپ اور آپ کے باپ ابراہیم علیہ السلام کے دین پر ہوں۔ حضورکی ولادت سے ایک ہزار سال قبل شاہ یمن نے آپکے لیے نعتیہ اشعار بھی کہے اشعار کا ترجمہ یہ ہے۔
”میں نے گواہی دی کہ محمد اللہ کے نبی ہیں جو تمام نعمتوں کا خالق ہے اگر آپ کی زندگی تک میری عمر نے وفا کی تو میں آپ کا بھائی اور مددگار ہوں گا، تلوار سے میں آپکے دشمنوں کے خلاف جہاد کروں گا، اور آپ کے دل سے ہرغم کو دور کروں گا آپکی ایک امت ہوگی، جس کا نام زبور میں آیا ہے، آپ کی امت امتوں میں بہترین ہوگی، دوسری لغت میں لکھا کہ
”اس کے بعد ایک عظیم انسان تشریف لائے گا، وہ ایک نبی ہوگا، جو کسی حرام بات کی اجازت نہیں دے گا، ان کا نام احمد ہوگا۔
اے کاش کہ میں ان کی بعثت (آمد) کے بعد ایک آدھ سال ہی زندہ رہتا۔ جس عالم کو شاہ یمن نے آپکے نام یہ خط دیا تھا ، حضرت ابو ایوب انصاریؓ ان کی اولاد میں سے تھے، جب حضور اس دنیا میں تشریف لائے، تو انہوں نے ابویعلیٰ کو خط دے کر شاہ یمن کی وصیت کے مطابق حضورکے پاس بھیجا۔ قارئین کرام، صدقے جائیے ، قربان جائیے اپنے نبی محمد مصطفیٰ نے جنہوں نے قاصد کو دیکھتے ہی اس کا نام لے کر پکارا، وہ شخص حضورکے مبارک منہ سے اپنا نام سن کر بے حد حیران ہوا، اور بولا آپ نے مجھے کیسے پہچانا؟
فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں، آپ نے شاہ یمن کا خط تین بار پڑھا، اور خوشی کا اظہار فرمایا ۔
اپنے کسی امتی کو اپنا بھائی کہنا، دنیا اور آخرت کا ایسا بے بہا خزانہ ہے کہ کوئی امتی اس پر جتنا زیادہ فخر کرے وہ کم ہے، اور شاہ یمن ایسا خوش نصیب ہے کہ جو بن دیکھے اور سینکڑوں اور ہزار سال پہلے ایمان لاکر امتی کا اعزاز پاکر اللہ تعالیٰ کے حضور سرخرو ہوگیا۔
شاہِ حبشہ نجاشی کی حبِ رسولﷺ
2
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فروغِ اسلام کے لیے مختلف ممالک کے بادشاہوں اور مختلف قبائل کے سرداروں کی طرف دعوتِ حق دے کر اپنے سفیروں کو روانہ فرمایا۔ اس سلسلہ میں ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بطور سفیر منتخب کیا گیا جو متعلقہ علاقوں، اقوام کے رسم و رواج، زبان اور کلچر سے بخوبی واقف تھے۔ اس امر کا لحاظ اس لیے رکھا گیا تاکہ وہ اسلام کے پیغام کو بخوبی اُن اقوام اور ممالک تک پہنچاسکیں۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب دنیا کے مختلف بادشاہوں اور امراء و رؤساء کے نام خطوط لکھے تو ان پر مہر ثبت کرنے کے لیے چاندی کی ایک انگوٹھی تیار کی گئی جس پر تین الفاظ درج تھے۔ سب سے اوپر والی سطر میں لفظ ’’اللہ‘‘ لکھا تھا، دوسری سطر میں لفظ ’’رسول‘‘ لکھا تھا اور تیسری سطر میں لفظ ’’محمد‘‘ لکھا گیا تھا۔
نبی اکرم ﷺنے اپنے دور کے تمام بادشاہوں اور حکمرانوں تک اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیے ان کے نام خطوط لکھے۔ ان خطوط کے جواب میں مختلف حکمرانوں نے مختلف رویے اختیار کیے۔ کچھ بدبخت گستاخی پر اتر آئے اور انتہائی برے انجام سے دوچار ہوئے۔ کچھ نیک بخت مہذب طرز عمل اختیار کرکے عذابِ الٰہی سے بچ گئے جبکہ بعض خوش نصیب آنحضورﷺپر ایمان لا کر جنت کے مستحق بن گئے۔
ایک خط شاہِ حبشہ نجاشی کے نام تھا ، اس بادشاہ کا نام اصحمہ بن ابجر تھا اور نجاشی اس کا لقب تھا۔ نبی اکرمؐ کے دور میں حبشہ ایک سرسبز و شاداب اور خوشحال ملک تھا۔ یہاں کا حکمران اور یہاں کے عوام مالی لحاظ سے بھی خوشحال تھے اور امن و امان کی صورتحال بھی دیگر ملکوں کی بہ نسبت بہت بہتر تھی۔ حبشہ کا حکمران عادل اور نیک دل تھا۔ اسی لیے نبی اکرمؐ نے نبوت کے پانچویں سال اپنے صحابہ کو حکم دیا تھا کہ وہ مکہ کو چھوڑ کر حبشہ کی جانب ہجرت کر جائیں۔ چنانچہ آنحضورؐ کے صحابہ نے مکہ سے ہجرت کی اور بحیرہ احمر کو عبور کرتے ہوئے حبشہ کی بندرگاہ مسووہ (مصوّع) پر جا اترے۔ وہاں سے دو سو کلومیٹر جنوب کی طرف دارالحکومت اکسوم تھا ۔صحابہ نے اس شہر میں رہائش اختیار کرلی اور نہایت امن کے ساتھ یہاں وقت گزارا۔ یہ عرصہ تقریباً پندرہ سالوں پر محیط تھا۔ بادشاہ حبشہ کے دربار میں حضرت جعفرؓ کی معرکہ آرا تقریر بھی سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے اور شاہِ حبشہ کا سورۂ مریم کی آیات سن کر رقت سے آبدیدہ ہوجانا بھی ہماری تاریخ میں محفوظ ہے۔
نجاشی کے نام آنحضورؐ نے جو خط لکھا وہ آپؐ کے صحابی حضرت عمرو بن امیہ ضمریؓ نے اس تک پہنچایا۔ آنحضورؐ نے اپنے خط میں بادشاہِ حبشہ کو بھی اس طرح اسلام کی دعوت دی جس طرح دوسرے ملوک و امراء کو دی تھی۔ نجاشی نے آپؐ کا خط وصول کرتے ہی اسے اپنی آنکھوں سے لگایا اور آنحضورؐ پر ایمان لانے کا اعلان کر دیا۔ امام ابنِ قیم نے زادالمعاد میں بیان کیا ہے کہ نجاشی نے اس موقع پر بھرے دربار میں قبولِ اسلام کے بعد جو خطاب فرمایا اس میں آنحضورؐ کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔ اس کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے:
”میں گواہی دیتا اور قسم کھاتا ہوں کہ آپؐ وہی نبی امی ہیں جن کا اہلِ کتاب انتظار کر رہے ہیں اور جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے راکب الحمار (گدھے کے سوار) سے حضرت عیسیٰ کی بشارت دی ہے، اسی طرح راکب الجمل (اونٹ سوار) سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش خبری دی ہے اور مجھے آپؐ کی رسالت کا اس درجہ یقین ہے کہ عینی مشاہدے کے بعد بھی میرے اس یقین میں [کوئی] اضافہ نہ ہوگا۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
حدثنا إبراهيم بن موسى، اخبرنا هشام بن يوسف، ان ابن جريج اخبرهم , قال: اخبرني عطاء، انه سمع جابر بن عبد الله رضي الله عنهما , يقول: قال النبي صلى الله عليه وسلم:” قد توفي اليوم رجل صالح من الحبش، فهلم فصلوا عليه , قال: فصففنا، فصلى النبي صلى الله عليه وسلم عليه ونحن صفوف”، قال: ابو الزبير، عن جابر، كنت في الصف الثاني.
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی کہ انہیں ابن جریج نے خبر دی ‘ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے عطاء بن ابی رباح نے خبر دی ‘ انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج حبش کے ایک مرد صالح (نجاشی حبش کے بادشاہ) کا انتقال ہو گیا ہے۔ آؤ ان کی نماز جنازہ پڑھو۔ جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر ہم نے صف بندی کر لی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ ہم صف باندھے کھڑے تھے۔ ابوالزبیر نے جابر رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے نقل کیا کہ میں دوسری صف میں تھا۔
صحيح البخاري- كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ
38 بَابُ مَوْتُ النَّجَاشِيِّ ، حدیث نمبر: 1320
سلطان نور الدین زنگی کی حبِ رسولﷺ
3
نور الدین زنگی کے جنگی کارناموں اور فتوحات کا مختصر خاکہ کچھ اس طرح سے ہے: اس نے مسیحیوں سے بیت المقدس واپس لینے کے لیے پہلے ایک مضبوط حکومت قائم کرنے کی کوشش کی اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے گرد و نواح کی چھوٹی چھوٹی مسلمان حکومتوں کو ختم کر کے ان کو اپنی مملکت میں شامل کر لیا۔ شروع میں نور الدین کا دارالحکومت حلب تھا۔ 549ھ میں اس نے دمشق پر قبضہ کر کے اسے دارالحکومت قرار دیا۔ اس نے صلیبی ریاست انطاکیہ پر حملے کر کے کئی قلعوں پر قبضہ کر لیا اور بعد ازاں ریاست ایڈیسا پر مسلمانوں کا قبضہ ختم کرنے کی عیسائیوں کی کوشش کو بھی ناکام بنا دیا۔ دوسری صلیبی جنگ کے دوران دمشق پر قبضہ کرنے کی کوششوں کو بھی سیف الدین اورمعین الدین کی مدد سے ناکام بنا دیں اور بیت المقدس سے مسیحیوں کو نکالنے کی راہ ہموار کر دی۔
دوسری صلیبی جنگ میں فتح کی بدولت ہی مسلمان تیسری صلیبی جنگ میں فتح یاب ہو کر بیت المقدس واپس لینے میں کامیاب ہوئے۔ اس زمانے میں مصر میں فاطمی حکومت قائم تھی لیکن اب وہ بالکل کمزور ہو گئی تھی اور مصر چونکہ فلسطین سے ملا ہوا تھا اس لیے مسیحی اس پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ یہ دیکھ کر نور الدین نے ایک فوج بھیج کر 564ھ میں مصر پر بھی قبضہ کر لیا اور فاطمی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔
نور الدین کی خوبیوں اور کارناموں کی وجہ سے اس زمانے کے ایک مورخ نے لکھا ہے کہ:”میں نے اسلامی عہد کے حکمرانوں سے لے کر اس وقت تک کے تمام بادشاہوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا لیکن خلفائے راشدین اور عمر بن عبد العزیز کے سوا نور الدین سے زیادہ بہتر حکمران میری نظر سے نہیں گزرا“۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی رح نے اپنی کتاب ” تاریخ مدینہ “ میں نور الدین زنگی رح کا محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نرالے کردار سے متعلق ایک واقعہ ذکر کیا ہے۔ ایک رات نمازِ تہجّد کے بعد سلطان نور الدین زنگی نے خواب میں دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو سرخی مائل رنگت کے آدمیوں کی طرف اشارہ کر کے سلطان سے کہہ رہے ہیں کہ مجھے ان کے شر سے بچاؤ۔ سلطان حیران ہو کر اٹھا۔ وضو کیا،نفل ادا کیے اور پھر اس کی آنکھ لگ گئی۔ خواب دیکھنے کے بعد آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ اس کا اب کسی سے ذکر نہ کریں اور فوراً مدینہ روانہ ہو جائیں۔ اگلے روز سلطان نے بیس مخصوص افراد اور بہت سے تحائف کے ساتھ مدینہ کے لیے سفر کیا اور سولہویں روز شام کے وقت وہاں پہنچ گئے۔ سلطان نے روضہٴ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری دی اور مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں بیٹھ گئے۔ اعلان کیا کہ تمام اہل مدینہ میں پہنچ جائیں جہاں سلطان ان میں تحائف تقسیم کرے گا۔ لوگ آتے گئے اور سلطان ہر آنے والے کو باری باری تحفہ دیتا گیا۔ اس دوران وہ ہر شخص کو غور سے دیکھتا رہا لیکن وہ دو چہرے نظر نہ آئے جو اسے ایک رات میں تین بار خواب میں دکھائے گئے تھے۔
سلطان نے حاضرین سے پوچھا۔ کیا مدینہ کا ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے۔؟جواب اثبات میں تھا۔ سلطان نے پھر پوچھا۔ کیا تمہیں یقین ہے کہ ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے؟ اس بار حاضرین نے کہا۔ سوائے دو آدمیوں کے۔ راز تقریباً فاش ہو چکا تھا۔ سلطان نے پوچھا۔ وہ کون ہیں اور اپنا تحفہ لینے کیوں نہیں آئے۔؟ بتایا گیا کہ یہ مراکش کے صوم و صلوٰة کے پابند دو متقی باشندے ہیں۔ دن رات رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود سلام بھیجتے ہیں اور ہر ہفتے مسجدِ قبا جاتے ہیں۔ فیاض اور مہمان نواز ہیں۔ کسی کا دیا نہیں لیتے۔ سلطان نے کہا۔ سبحان اللہ ! اور حکم دیا کہ ان دونوں کو بھی اپنے تحائف وصول کرنے کے لیے فوراً بلایا جائے۔
جب انہیں یہ خصوصی پیغام ملا تو انہوں نے کہا۔ الحمد للہ ! ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے اور ہمیں کسی تحفے تحائف یا خیر خیرات کی حاجت نہیں۔ جب یہ جواب سلطان تک پہنچایا گیا تو اس نے حکم دیا کہ ان دونوں کو فوراً پیش کیا جائے۔ حکم کی فوری تعمیل ہوئی۔ ایک جھلک ان کی شناخت کے لیے کافی تھی تاہم سلطان نے اپنا غصہ قابو میں رکھا اور پوچھا۔ تم کون ہو؟ یہاں کیوں آئے ہو؟ انہوں نے کہا ہم مراکش کے رہنے والے ہیں۔ حج کے لیے آئے تھے اور اب روضہٴ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے سائے میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ سلطان نے سختی سے کہا۔ کیا تم نے جھوٹ بولنے کی قسم کھا رکھی ہے؟” اب وہ چپ رہے۔
سلطان نے حاضرین سے پوچھا۔ یہ کہاں رہ رہے ہیں؟ بتایا گیا کہ روضہٴ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے بالکل نزدیک ایک مکان میں جو مسجدِ نبوی کے جنوب مغرب میں دیوار کے ساتھ تھا۔ سلطان فوراً اٹھا اور انہیں ساتھ لے کر اس مکان میں داخل ہو گیا۔ سلطان مکان میں گھومتا پھرتا رہا۔ اچانک نئے اور قیمتی سامان سے بھرے ہوئے اس مکان میں اس کی نظر فرش پر پڑی ہوئی ایک چٹائی پر پڑی۔ نظر پڑنی تھی کہ دونوں مراکشی باشندوں کی ہوائیاں اڑ گئیں۔ سلطان نے چٹائی اٹھائی۔ اس کے نیچے ایک تازہ کھدی ہوئی سرنگ تھی۔ سلطان نے گرج کر کہا۔ کیا اب بھی سچ نہ بولو گے؟ ان کے پاس سچ کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ مسیحی ہیں اور ان کے حکمراں نے انہیں بہت سا مال و زر اور ساز و سامان دے کر حاجیوں کے روپ میں مراکش سے اس منصوبے پر حجاز بھیجا تھا کہ وہ کسی نہ کسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسدِ اقدس روضہٴ مبارک سے نکال کر لے آئیں۔
اس ناپاک منصوبے کی تکمیل کے لیے انہوں نے حج کا بہانہ کیا اور اس کے بعد روضہٴ رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے نزدیک ترین جو مکان کرائے پر مل سکتا تھا’ وہ لے کر اپنا مذموم کام شروع کر دیا۔ ہر رات وہ سرنگ کھودتے جس کا رخ روضہٴ مبارک کی طرف تھا اور ہر صبح کھدی ہوئی مٹی چمڑے کے تھیلوں میں بھر کر جنّت البقیع لے جاتے اور اسے قبروں پر بکھیر دیتے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی ناپاک مہم بالکل آخری مراحل میں تھی کہ ایک رات موسلادھار بارش کے ساتھ ایسی گرج چمک ہوئی جیسے زلزلہ آ گیا ہو اور اب جب کہ ان کا کام پایہٴ تکمیل کو پہنچنے والا تھا تو سلطان نہ جانے کیسے مدینے پہنچ گئے۔ سلطان ان کی گفتگو سنتے جاتے اور روتے جاتے اور ساتھ ہی فرماتے جاتے کہ “میرا نصیب! کہ پوری دنیا میں سے اس خدمت کے لیے اس غلام کو چنا گیا۔ سلطان نور الدین زنگی نے حکم دیا کہ ان دونوں کو قتل کر دیا جائے اور روضہٴ مبارک کے گرد ایک خندق کھودی جائے۔
سلطان کے حکم کی تعمیل میں روضۂ اطہر کے چاروں طرف اتنی گہری خندق کھودی گئی کہ زمین سے پانی نکل آیا، اس کے بعد اس میں سیسہ بھر دیا گیا تاکہ زمانہ کی دستبرد سے ہر طرح محفوظ رہے۔ یہ سیسے کی دیوار روضۂ اقدس کے گرد آج تک موجود ہے اور ان شاء اللہ ابد تک قائم رہے گی۔ آج بھی اہل اسلام سلطان نور الدین کا نام نہایت محبت اور احترام سے لیتے ہیں اور ان کا شمار ان نفوس قدسی میں کرتے ہیں، جن پر سید البشر نے خود اعتماد کا اظہار فرمایا اور ان کے محب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کی تصدیق فرمائی۔
سلطان محمود غزنوی کی حبِ رسولﷺ
4
مشہور بادشاہ،سُلطان محمود غَزنوی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ ایک زَبر دَست عالمِ دین اور صوم و صلوٰۃ کے پابندتھے اور باقاعدگی کے ساتھ قرآنِ پاک کی تلاوت کِیا کرتے، آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنی ساری زِندگی عَین دینِ اسلام کے مُطابق گزاری اور پرچمِ اسلام کی سربُلَندی اوراِعلائے کَلِمَۃُ اللّٰہ (یعنی اللہ کا کلمہ بُلند کرنے)کیلئے بہت سی جنگیں لڑیں اورکامیاب ہوئے۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ شُجاعت وبہادری کے ساتھ ساتھ عشقِ رسول ﷺ کے عَظِیْم مَنْصَب پر بھی فائز تھے۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے فرمانبردار غلام ایّازکا ایک بیٹا تھا، جس کا نام محمد تھا۔ حضرت محمود غزنوی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ جب بھی اس لڑکے کو بُلاتے تو اس کے نام سے پُکارتے ،
سلطان محمود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ نے خِلافِ معمول ایک دن اُسے اے اِبنِ ایاز (ایاز کے بیٹے) کہہ کر مُخاطب کِیا۔ وہ گھبرا گیا اور اپنے والد صاحب ( ایاز) کی خدمت میں عرض کی کہ معلوم ہوتا ہے کہ میری کسی خطا کے سبب بادشاہ سلامت مجھ سے ناراض ہوگئے ہیں جو مجھے آج ’’ایاز کا لڑکا‘ کہا، ورنہ ہمیشہ بڑے ادب سے میرا نام لیتے رہے ہیں، ایاز نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہو کر بیٹے کے اس خدشہ کا اظہار کیا تو حضرت سیدنا سلطان محمود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: ایاز تمہارے بیٹے کا نام احمد ہے اور یہ نام بہت ہی عظمت والا ہے لہذا میں یہ نام کبھی بھی بے وضو نہیں لیتا اتفاقاً میں اس وقت بے وضو تھا اس لیے نام لینے کے بجائے مجبورا ’ایاز کا لڑکا‘ کہہ کر مخاطب کرکے مجھے بات کر نا پڑی۔
(روح البیان، پ ۲۲، الاحزاب ، تحت الایۃ ۴۰۔۷/۱۸۵)
روایت ہے کہ فاتح سومنات سلطان محمود غزنوی کو تین باتوں کے متعلق شکوک تھے۔ ایک تو اس حدیث شریف کی بابت “العلما ورثۃ النبیاء ” علماء پیغمبروں کے وارث ہیں ، دوسرے قیامت کے متعلق اور تیسرے امیر ناصر الدین سبگتگین کے ساتھ اپنی نسبت کے متعلق۔ایک دن کسی جگہ سے آرہے تھے اور فراش شمع اور سونے کا شمعدان لئے ہوئے ساتھ تھا ۔ محمود غزنوی نے دیکھا کہ ایک طالب علم مدرسہ میں اپنا سبق یاد کر رہا ہے ۔ مدرسہ کے اندر تاریکی ہے ۔ کتاب کی عبارت دیکھنے کے لئے روشنی کی حاجت ہوتی ہے ہے تو ایک بنیئے کے چراغ کے قریب جا کر دیکھتا ہے ۔ سلطان کا دل یہ دیکھ کر بھر آیا اور وہ شمعدان اس طالب علم کو دے دیا ۔ اسی شب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ فرما رہے ہیں :” یاابن امیر سبگتگین اغرک اللہ فی الدارین کما اعززت ورثتی ” یا امیر سبتگین کے بیٹے خدا تجھ کو دونوں جہاں میں عزت دے جیسے تو نے میرے وارث کو عزت دی، اور اس طرح اس خواب کے ذریعے سلطان محمود کے تینوں شکوک رفع ہو گئے ۔(تاریخ محمد قاسم فرشتہ) (فرشتہ بحوالہ طبقات ناصری) (خواب کی دنیا از عبدالمالک آروی صفحہ ۷۷ تا ۸۸) ۔
سلطان نے ٫۱۰۳۰میں بمقام غزنی افغانستان ۳۳ برس حکمرانی کرکے وصال فرمایا ۔حال ہی میں کسی وجہ سے سلطان کی لحد کھودی گئی و جسم مبارک تابوت کے اندر بالکل محفوظ اور تروتازہ نکلا۔
ایک شخص سلطان محمود غزنوی کے پاس آیا اور کہاں مدت سے چاہتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھوں اور حال دل بیان کروں ۔ ایک رات آپ کو خواب میں دیکھا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر ہزار دینار قرض ہے ،قرض ادا نہیں کر سکتا اور ڈرتا ہوں کہ موت آجائے اور قرض میری گردن پر سوار ہو ۔ آپ نے فرمایا محمود سبکتگین کے پاس جاؤ اور ہزار دینار اس سے لے لے ۔ عرض کیا کہ اگر وہ باور نہ کرے اور نشانی طلب کرے تو میں کیا کروں گا ۔ فرمایا کہنا اول شب سونے کے وقت تم ۳۰ ہزار مرتبہ اور آخری شب جاگنے کے وقت ۳۰ ہزار مرتبہ درود پڑھتے ہو ۔ چنانچہ اس نے سلطان محمود غزنوی سے یہ بات جا کہی جس کو سن کر رونے لگا اور ہزار دینار قرض ادا کردیا اور ہزار دینار اور دیئے ۔ ارکان دولت نے تعجب سے کہا اے سلطان آپ نے اس شخص کی ایک ناممکن بات کی تصدیق کر دی حالانکہ کہ ہم لوگ آپ کے ساتھ برابر رہتے ہیں ۔ کبھی نہیں دیکھتے کہ آپ درود پڑھتے ہو اور اگر کوئی رات دن درود ہی میں مصروف رہے تو بھی ۶۰ ہزار مرتبہ روزانہ نہیں پڑھ سکتا ۔ پھر اول و آخری شب میں کیوں کر آپ ۶۰ ہزار مرتبہ درود شریف پڑھتے ہوں گے ۔ سلطان نے کہا میں نے عالموں سے سن رکھا ہے کہ جو کوئی ایک بار حسبِ ذیل درود پڑھے گا تو گویا اس نے دس ہزار مرتبہ درود پڑھا ۔ میں اوّل شب میں تین مرتبہ اور آخر شب میں تین مرتبہ اس کو پڑھتا ہوں ہو اور یقین رکھتا ہوں کہ میں نے ۶۰ ہزار مرتبہ درود پڑھا ۔رو نا میرا ،اس خوشی وجہ سے سے تھا کہ عالموں کی بات سچی تھی اور خود حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصدیق فرمادی۔ وہ درود شریف یہ ہے : “اللھم صلی علی سیدنا محمد وعلی سیدنا محمد ما اختلف الملوان وتعاقب العصران و تکرر الجدیدان و استقل الفرقدان و بلغ روح سیدنا محمد ا ارواح اہل بیتہِ مناالتحیتہ و السلام” ( اے اللہ ہدیہ درود بھیج ہمارے آقا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب تک دن رات بدلتے رہیں زمانے آتے جاتے ہیں ۔سورج چاند نکلتے رہیں ستارہ قطب شمالی چمکتا ر ہے یہ ہدیہ یہ پہنچا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کی روح کو اور بہت کثرت سے سلام پڑھ)
(صلوت ناصری از مولانا ناصر علی صفحہ ۷۲ تا۷۳) (انوار العارفین از مولانا صوفی محمد عابد میاں ڈابھیلی صفحہ ۱۰۲۲)
بادشاہ اِربل سلطان مظفر الدین ابو سعید کوکبری کی حبِ رسولﷺ
5
سلطان صلاح الدین ایوبی (532۔ 589ھ / 1138۔ 1193ء) کے بہنوئی اور اِربل کے بادشاہ سلطان مظفر الدین ابو سعید کوکبری (م 630ھ) بہت زیادہ صدقہ و خیرات کرنے والے اور مہمان نواز تھے۔
قاضی القضاۃ ابو العباس شمس الدین احمد بن محمد بن ابی بکر بن خلکان اپنی کتاب ’’وفیات الاعیان وانباء ابناء الزمان (3 : 448۔ 450)‘‘ میں حافظ ابو الخطاب بن دحیہ کلبی (544۔ 633ھ) کے سوانحی خاکہ میں لکھتے ہیں :
کان من أعيان العلماء، ومشاهير الفضلاء، قدم من المغرب، فدخل الشام والعراق، واجتاز بإربل سنة أربع وستمائة، فوجد ملکها المعظم مظفر الدين بن زين الدين يعتني بالمولد النبوي، فعمل له کتاب ’’التنوير في مولد البشير النذير‘‘ وقرأه عليه بنفسه، فأجازه بألف دينار. قال : وقد سمعناه علي السلطان في ستة مجالس، في سنة خمس وعشرين وستمائة.
’’ان کا شمار بلند پایہ علماء اور مشہور محققین میں ہوتا تھا۔ وہ مراکش سے شام اور عراق کی سیاحت کے لیے روانہ ہوئے۔ 604ھ میں ان کا گزر اِربل کے علاقے سے ہوا جہاں ان کی ملاقات عظیم المرتبت سلطان مظفر الدین بن زین الدین سے ہوئی جو یوم میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتظامات میں مصروف تھا۔ اس موقع پر انہوں نے ’’التنویر فی مولد البشیر النذیر‘‘ کتاب لکھی۔ انہوں نے یہ کتاب خود سلطان کو پڑھ کر سنائی۔ پس بادشاہ نے ان کی خدمت میں ایک ہزار دینار بطور انعام پیش کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے 625ھ میں سلطان کے ساتھ اسے چھ نشستوں میں سنا تھا۔‘‘
سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 44، 45
سيوطي، الحاوي للفتاوي : 200
نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 236، 237
اِمام شمس الدین الذہبی (673۔ 748ھ) کا شمار عالمِ اسلام کے عظیم محدثین و مؤرّخین میں ہوتا ہے۔ اُنہوں نے اُصولِ حدیث اور اَسماء الرجال کے فن میں بھرپور خدمات سرانجام دیں اور کئی کتب تالیف کی ہیں، مثلا تجرید الاصول فی احادیث الرسول، میزان الاعتدال فی نقد الرجال، المشتبۃ فی اسماء الرجال، طبقات الحفاظ وغیرہ۔ فنِ تاریخ میں اُن کی ایک ضخیم کتاب تاریخ الاسلام ووفیات المشاہیر والاعلام موجود ہے۔ اَسماء الرجال کے موضوع پر ایک ضخیم کتاب سیر اعلام النبلاء میں رُواۃ کے حالاتِ زندگی پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ یہ کتاب علمی حلقوں میں بلند پایہ مقام رکھتی ہے۔ امام ذہبی نے اس کتاب میں سلطان صلاح الدین ایوبی (532۔ 589ھ / 1138۔ 1193ء) کے بہنوئی اور اِربل کے بادشاہ سلطان مظفر الدین ابو سعید کوکبری (م 630ھ) کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے اور ان کی بہت تعریف و تحسین کی ہے۔ بادشاہ ابو سعید کوکبری بہت زیادہ صدقہ و خیرات کرنے والے اور مہمان نواز تھے۔ اُنہوں نے دائمی بیماروں اور اندھوں کے لیے چار مسکن تعمیر کروائے اور ہر پیر و جمعرات کو ان سے ملاقات و دریافت اَحوال کے لیے جاتے۔ اِسی طرح خواتین، یتیموں اور لاوارث بچوں کے لیے الگ الگ گھر تعمیر کروائے تھے۔ وہ بیماروں کی عیادت کے لیے باقاعدگی سے ہسپتال جاتے تھے۔ اَحناف اور شوافع کے لیے الگ الگ مدارس بنوائے اور صوفیاء کے لیے خانقاہیں تعمیر کروائی تھیں۔ اِمام ذہبی لکھتے ہیں کہ وہ بادشاہ سنی العقیدہ، نیک دل اور متقی تھا۔ اُنہوں نے یہ واقعہ اپنی دو کتب ’’سیر اعلام النبلاء‘‘ اور ’’تاریخ الاسلام ووفیات المشاہیر والاعلام‘‘ میں بالتفصیل درج کیا ہے۔
اِمام ذہبی ملک المظفر کے جشنِ میلاد منانے کے بارے میں لکھتے ہیں :
و أما احتفاله بالمَوْلِد فيقصر التعبير عنه؛ کان الخلق يقصدونه من العراق والجزيرة . . . و يُخْرِجُ من البَقَر والإبل والغَنَم شيئاً کثيراً فَتُنْحَر وتُطْبَخ الألوان، ويَعْمَل عِدّة خِلَع للصُّوفية، ويتکلم الوُعّاظ في الميدان، فينفق أموالاً جزيلة. وقد جَمَعَ له ابن دحية ’’کتاب المولد‘‘ فأعطاه ألف دينار. وکان مُتواضعًا، خيراً، سُنّ. يّاً، يحب الفقهاء والمحدثين. . . . وقال سِبط الجوزي : کانَ مُظفّر الدِّين ينفق في السنة علي المولد ثلاث مائة ألف دينار، وعلي الخانقاه مائتي ألف دينار. . . . وقال : قال من حضر المولد مرّة عددت علي سماطه مائة فرس قشلميش، وخمسة آلاف رأس شوي، و عشرة آلاف دجاجة، مائة ألف زُبدية، و ثلاثين ألف صحن حلواء.
’’اَلفاظ ملک المظفر کے محفلِ میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کا انداز بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ جزیرۂ عرب اور عراق سے لوگ کشاں کشاں اس محفل میں شریک ہونے کے لیے آتے۔ ۔ ۔ اور کثیر تعداد میں گائیں، اونٹ اور بکریاں ذبح کی جاتیں اور انواع و اقسام کے کھانے پکائے جاتے۔ وہ صوفیاء کے لیے کثیر تعداد میں خلعتیں تیار کرواتا اور واعظین وسیع و عریض میدان میں خطابات کرتے اور وہ بہت زیادہ مال خیرات کرتا۔ ابن دحیہ نے اس کے لیے ’’میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ کے موضوع پر کتاب تالیف کی تو اس نے اسے ایک ہزار دینار دیئے۔ وہ منکسر المزاج اور راسخ العقیدہ سنی تھا، فقہاء اور محدثین سے محبت کرتا تھا۔ سبط الجوزی کہتے ہیں : شاہ مظفر الدین ہر سال محفلِ میلاد پر تین لاکھ دینار خرچ کرتا تھا جب کہ خانقاہِ صوفیاء پر دو لاکھ دینار خرچ کرتا تھا۔ اس محفل میں شریک ہونے والے ایک شخص کا کہنا ہے کہ اُس کی دعوتِ میلاد میں ایک سو (100) قشلمیش گھوڑوں پر سوار سلامی و اِستقبال کے لیے موجود تھے۔ میں نے اُس کے دستر خوان پر پانچ ہزار بھنی ہوئی سِریاں، دس ہزار مرغیاں، ایک لاکھ دودھ سے بھرے مٹی کے پیالے اور تیس ہزار مٹھائی کے تھال پائے۔‘‘
ذهبي، سير أعلام النبلاء، 16 : 274، 275
ذهبي، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام (621 – 630ه)، 45 : 402 – 405
صلاح الدین رحمہ اللہ اور ان کے ساتھی وہ عظیم مومن فاتح ہیں جنہوں نے صلیبیوں سے جہاد کیا اور مسلمانوں کو ایک بار پھر بیت المقدس جیت کر واپس دیا۔ ایسے عظیم لوگوں کے بارے میں بدگمانی پھیلانا کتنی بڑی اسلام اور ان عظیم لوگوں سے نا انصافی ہے۔
بدگمانیاں پھیلانے والے مسلمانوں ہوش کے ناخن لو اور اپنے رویوں اور سوچوں کو درست کرو۔
.
فاتحِ قسطنطنیہ سلطان محمد فاتح کی حبِ رسولﷺ
6
قسطنطنیہ کی فتح چونکہ ترک سلطنت کے مقدر میں لکھی جا چکی تھی لہٰذا اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سلطان محمد کو اس اعزاز عظیم سے نوازا۔ سلطان محمد فاتح ایک غیر معمولی بحری پالیسی اپناتے ہوئے حیران کن معرکہ سر کرتے ہیں اور بالآخر قسطنطنیہ فتح کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اس نصرت عظیم کے پس پشت سلطان فاتح کا وہ سچا خواب تھا جس میں انہوں صحابی رسولؐ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کو نوید دیتے ہوئے پایا۔ سلطان محمد فاتح کے بحری بیڑہ نے ایک حیران کن تاریخ رقم کر دی۔ سلطان محمد فاتح کے خواب کے پیچھے آقا محمد رسول اللہ ﷺ کی بشارت ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ’’کیا عجیب ہو گا مسلمانوں کا وہ لشکر جو قسطنطنیہ (استنبول) فتح کرے گا اوراس فتح میں شامل لشکر کو جنت کی بشارت دی۔ حضورؐ کا یہ فرمان مسلمانوں کے لئے خوش نصیبی کی علامت بن گیا، یہاں تک کہ ایک لشکر میں شامل بزرگ صحابی حضرت ابو ایوب انصاریؓ زخموں کی وجہ سے بیمار ہو گئے اور اسی حالت میں آپ کا انتقال ہو گیا۔ آپ کی خواہش پر آپ کو شہر کی پناہ گاہ کے قریب ترین جا کر دفن کر دیا گیا ۔ صحابی رسولؐ نے فتح کی یہ نوید سلطان محمد فاتح کو خواب میں دی جس نے سلطان فاتح کے عزم کو فولادی قوت بننے میں مدد دی۔ فتح عظیم کے بعد سلطان فاتحانہ انداز میں شہر میں داخل ہوئے، بعد میں تمام شہر کو امان دے دی۔ عیسایئوں کے تاریخی چرچ ’’آیا صوفیہ‘‘ کو مسجد کی شکل دے دی گئی اور عظیم سلطان نے اس میں سجدہ شکر ادا کیا۔ دوسرا اہم کام حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی قبر مبارک کی تلاش تھی۔ قبر مبارک پر ایک خوبصورت مقبرہ تعمیر کرایا گیا۔ قسطنطنیہ کا نام تبدیل کر کے اس کا نام ’’اسلام بول‘‘ رکھ دیا یعنی اسلام پھیلانے والی جگہ۔ اس فتح عظیم کے بعد عالم دنیا میں ترک حکومت ایک عظیم الشان اسلامی سلطنت عثمانیہ کی حیثیت سے ابھری۔ اور یوں خلافت پہلی بار عربوں کے ہاتھ سے نکل کر بغداد سے ایک غیر عرب قوم یعنی ترکوں کو منتقل ہو گئی۔ اس عالیشان تاریخ کا سبب ترکوں کی نبی کریمؐ سے بے مثال محبت و عقیدت ہے۔ خلافت عثمانیہ کی فتوحات میں جب ارض حجاز شامل ہو ا تو ترک سلطنت نے اپنی عقیدت کے پھول نچھاور کر دیئے۔ اس قدر ادب و احترام کے ساتھ مساجد حرمین کی تعمیر کرائی گئی کہ مقدس عمارتیں آج بھی ترکوں کے عشق و محبت کی داستان بیان کر رہی ہیں۔ مسجد نبویؐ کی تعمیر تو اس قدر پیار سے کی گئی کہ اس مقدس خدمت میں دو نسلیں لگ گئیں۔ پوری دنیا سے مسلمان کاری گروں کو بلا کر مدینہ کے باہر آباد کیا گیا اور ان کو حکم دیا گیا کہ اپنا فن اپنے بچوں کو سکھائیںاور ساتھ ساتھ بچوں کو حافظ قرآن بھی بنائیں اور جب وہ بچے اپنا فن سیکھ گئے تو ان بچوں کو بھی مسجد نبویؐ کی تعمیر پر لگا دیا گیا تا کہ تعمیرکے دوران قرآن پاک کی تلاوت کرتے رہتے اور ہتھوڑوں کے اوپر چمڑے لپیٹے گئے تاکہ ان کی آواز سے حضور پاکؐ کے دربار کی بے ادبی نہ ہو ۔دور عثمانیہ میں تعمیر کی جانے والی مسجد نبویؐ اور حرم کعبہ سلطنت عثمانیہ کے عشق کی زندہ مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمؐ کی بشارت کا شرف ترک قوم کو عطا کیا اور اس کی وجہ ترکوں کی اسلام اور نبی کریمؐ سے بے پناہ محبت ہے۔
منگ شہنشاہ چین ژو یوانزنگ کی حبِ رسولﷺ
7
شہنشاہ چین ژو یوانزنگ (9813-1368) نے حضرت محمد کی شان میں ایک نظم اپنے دور کے کلاسیکی چینی انداز میں تحریر کی تھی۔ ژو یوانزنگ چینی شاہی سلسلہ ‘مِنگ’ کے جدِ امجد ہیں۔ مِنگ عہد کے بانی Hongwu کے عہد میں جنوبی چین میں متعدد تاریخی مساجد تعمیر ہوئیں۔ Nanjing,Yunnan, Guangdong , Fujian جیسے شہروں میں مساجد کی تعمیر بھی آپ کے عہد میں ہوئی۔ چین میں اسلام کے آسٹریلین محقق Donald Danielاس موضوع پر رقمطراز ہیں کہ
’’مِنگ شہنشاہ اسلام کی طرف خصوصی میلان رکھتے تھے۔شاید اس لیے کہ مسلمانوں نے منگولوں کے خلاف مِنگ خاندان سے مل کر جدوجہد کی تھی۔اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پہلے مِنگ شہنشاہ Hongwuمسلمانوں سے خصوصی تعلقات رکھتے تھے ۔ تین ابتدائی مِنگ جرنیلوں کے متعلق خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ مسلمان تھے۔دوسرے مِنگ شہنشاہ Yongleکے ایڈمرل مسلمان تھے،جنہوں نے چین کے سفیر کی حیثیت سے دنیا بھر کے متعدد سفر کیے“۔
مِنگ خاندان کے بانی Hongwuکی اولاد اور آنے والی تین صدیوں تک مسندِ شاہی پر بیٹھنے والے مِنگ حکمرانوں نے مسلمانوں سے قرب و محبت کی پالیسی کو جاری وساری رکھا۔ خصوصا آپ کے صاحبزادے Yongleنے اپنے والد محترم کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے چینی مسلمانوں سے خصوصی شفقت و عنایت کا سلوک فرمایا۔آپ کی طرف سے مسلمانوں کو تحریری امان عطا کی گئی جس کے الفاظ Fuzhou اور Quanzhouکی مساجد میں صدیوں تک آویزاں رہے۔ اس امان میں تحریر تھا کہ
میں آپ لوگوں کی رہائشوں اور گھروں کی حفاظت کا شاہی فرمان جاری کرتا ہوں۔عام شہری ہوں، سرکاری حکام یا میری فوج کوئی شخص آپ لوگوں کو تکلیف نہ پہنچائے۔ نہ آپ لوگوں سے جارحیت سے پیش آئے۔ آپ لوگوں کو رنج اور تکلیف پہنچانے والا میرے احکام کا نافرمان اور مجرم تصور ہوگا نیزسزا کا مستحق ٹھہرے گا۔
مِنگ عہد کے بانی Hongwuکے مسلمانوں سے خصوصی حُسنِ سلوک، چین کے طول وعرض میں مساجد کی تعمیر، دربار شاہی میں مسلمان جر نیلوں کے اثر ورسوخ سے ظاہر ہے کہ آپ کے قلب و روح اسلام سے متاثر تھے۔ نہ صرف یہ کہ آپ اسلام کی طرف میلان رکھتے اور قرآن کریم کے پیغام سے متاثر تھے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ حضرت محمد ﷺ کے عشق ومحبت میں سرشار تھے۔ آپ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ایک نعت رقم فرمائی۔ یہ نعتِ رسول اللہ ﷺ اس بات کی غماز ہے کہ آپ پر اسلام کی حقیقت منکشف ہوچکی تھی اور آپ ولیوں اور درویشوں کی طرح رسولﷺ کے مقام و مرتبہ سے آشنا ہوچکے تھے۔ سو الفاظ پر مشتمل یہ نعت چینی زبان میں 百字讃 یعنی Baizizan کہلاتی ہے جس کا لفظی ترجمہ ہے سو لفظوںکی نعت۔25مصرعوں پر مشتمل اس نعت کا ہر مصرعہ 4چینی الفاظ پر مشتمل ہے ۔اس پاکیزہ نعت کے ذریعہ سو الفاظ میں اسلام اور رسول اللہ ﷺکانہایت جامع تعارف شاہِ چین کے علم وعرفان اور سعید فطرت کا مظہر ہے۔ سب سے پہلے نیولان برینڈن نے اس نظم کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا اور اب اس کا اردو ترجمعہ بھی ہو چکا ہے۔
اردو ترجمہ:
لوحِ روحانی پہ اس کے اسم کی تحریر سے
اک نئے عالم کی گویا ابتدا ہونے لگی
سمتِ مغرب کی زمینوں کا مفکر، فلسفی
بانیِ دیں۔ سارے عالم کی ہدایت کے لئے
تیس پاروں کی ضیا اس کو عطا ہونے لگی
ایک دنیا با صفا و پارسا ہونے لگی۔۔۔۔۔
امیر ناصر الدین سبگتگین کی حبِ رسولﷺ
8
تاریخ دولت ناصری میں لکھا ہے کہ ابتدئی زمانہ میں امیر ناصر الدین سبگتگین ایک غلام تھا اور نیشا پور میں اس کا قیام تھا۔ صرف ایک گھوڑا ا س کے پاس تھا جس پر سوار ہو کر جنگلوں میں شکار کی تلاش میں گھومتا پھرتا تھا۔ ایک دن شکار کی تلاش میں پھر رہا تھا کہ دور سے ایک ہرنی نظر آئی جو بچے کو ساتھ لیے چرنے میں مشغول تھی اسے دیکھ کر اس نے ایڑی لگائی اور بچہ پکڑ کے شہر کی طرف چل پڑا۔ شہر کے قریب پہنچ کرمڑ کر دیکھا توبے چاری ہرنی اپنے بچے کے پیچھے چلی آرہی تھی۔ امیر سبگتگین کو یہ دیکھ کر ترس آگیا سوچا اس کی ماں صدمے سے نڈھال ہو جائے گی اس لیےبچے کو آزاد کر دیا۔ بچہ دوڑتا ماں سے جا ملا ارع دونوں جنگل کی طرف چلے دیئے۔ واپسی پر ہرنی مر مڑ کر امیر سبگتگین کی طرف دیکھتی اور آنکھوں ہی آنکھوں میں رحمدل شکاری کا شکریہ ادا کرتی جاتی تھی۔ اس رات سبگتگین نے دیکھا کہ حضرت محمد رسول الله صلى الله علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اے سبگتگین، اس کمزور ہرنی پر رحم کر کےتو نے ہمارا دل خوش کیا۔ تو ایک دن بہت بڑا بادشاہ بنے گا۔ جب بادشاہ بنے گا تو خدا کے بندوں پر ایسے ہی رحم کرنا تاکہ تیری سلطنت کو قیام و دوام حاصل ہو۔آخر کار سبگتگین ایک دن بہت بڑا بادشاہ بن گیا۔(جوامع الحکایات و لوامع الروایات حصہ دوم از محمد عوفی ترجمعہ اختر شیرانی صفحہ۱۰۴ تا ۱۰۵ )
محمود شاہ بیگڑہ گجراتی کی حبِ رسولﷺ
9
محمود شاہ بیگڑہ گجراتی ۸۶۱ھ بمطابق ۱۴۵۵٫ میں گجرات کے تخت پر متمکن ہوا ۔ اب ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک نئی قوم کا نام نظر آتا ہے جو فرنگی کے لقب سے یاد کی جاتی ہے ۔ پرتگال والوں نے ہندوستان کا بحری راستہ دریا فت کرلیا اور ۹۰۳ ہجری میں گجرات پر قدم جمانے کی کوشش کی ۔ قسطنطنیہ کی اسلامی حکومت اس وقت وقت معراج کمال پر تھی پر اور اس کی بحری قوت سے یورپ کا دل دہلتا تھا۔ ہندوستان میں بسنے کا ارادہ کیا تو سلطان ِروم نے اپنے ایک سردار امیر حسین کو جنگی جہازوں کا ایک بیڑا دے کر کر بحر احمر سے ہندوستان کی طرف روانہ کیا تاکہ پرتگالیوں کے قدم اس ملک میں نہ جمنے پائیں۔ پرتگالی مورخ لکھتے ہیں کہ عرب میں جہاز بنانے کا سامان نہ تھا لہذا ترکوں نے یورپ سے لکڑی بھیجی جو اونٹوں پر لادکر سویز کے ہولناک ریگستان کو عبور کر کے قاہرہ پہنچی اور وہاں اس مصالحہ سے بارہ جنگی جہاز تیار کیے گئے جن کو لے کر امیر حسین پندرہ سو سپاہیوں کے ساتھ گجرات کے ساحل پر پہنچا ۔ محمود شاہ بیگڑہ نے اس بیڑے کا خیر مقدم کیا اور اپنے جنگی جہازوں پر امیر حسین کے ساتھ مل گیا ۔”چول” بندرگاہ کے پاس اتحادی بیڑہ کاپرتگالیوں سے مقابلہ ہوا ۔فرنگیوں کا نشان بردار جہاز کی لاگت کا تخمینہ اس زمانے میں ایک کروڑ روپیہ کیا جاتا تھا غرق ہوا ہوا اور اس جہاز کا کوئی بھی ملاح زندہ نہ بچا۔ اس جنگ میں چار سو ترک شہید ہوئے جبکہ تین ہزار پرتگالی مارےگئے۔اس بحری کامیابی نے بادشاہِ گجرات محمود شاہ بیگڑہ کی شہرت و نیک نامی میں بہت اضافہ کیا ۔ یہ بحری لڑائی ہندوستان کی تاریخ میں یاد رکھنے کے قابل ہے مگر افسوس ہم اسے بھلا چکے ہیں۔ (شاہان مالوہ مولئفہ امیر احمد علوی۔ انوار المطابع لکھنئو صفحہ ۱۰۴ تا ۱۰۵)
اس وقت ہندوستان کے ہم عصر سلاطین میں کوئی سلطان محمود شاہ بیگڑہ کی ٹکر کا نہ تھا ۔اس کی بحری قوت لا جواب تھی اور اس کا اقبال ہر مہم میں اس کے ساتھ تھا ۔۸۷۲ھ میں محمود شاہ بیگڑہ نے خواب میں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نفیس غذائیں کھلائی ہیں۔اس خواب کی تعبیر دانشوروں نے یہ دی کہ بادشاہ کو غیر معمولی فتوحات حاصل ہوں گی ۔یہ تعبیر بالکل درست نکلی اور محمود شاہ بیگڑہ کی قوت بازو سے وہ سخت مہمات انجام کو پہنچیں جوکہ مسلمان بادشاہوں سے اب تک سر نہ ہوئی تھیں۔گر نال اور جاپانیر کی فتح نے ان کو ” بیگڑہ ” کا خطاب دلایا یعنی دو پہاڑی قلعوں کو فتح کرنے والا ۔ (شاہان مالوہ مولئفہ امیر احمد علوی۔ انوار المطابع لکھنئو صفحہ ۱۰۶)
ہر خاص و عام کا ذکرِ شانِ رسولﷺ
2.4.12
بیشک متقی اورصالح مسلمان ذات ِ رسولﷺ سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں اور ذکر ِ رسولﷺ میں ذیادہ محو ہوتے ہیں لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ ہر مسلمان خواہ کتنا ہی گناہ گار ہو کسی نہ کسی درجہ کی محبت و ذکر ِ رسولﷺ ضرور کرتا ہے ۔دراصل مسلمانوں کا ہر فرقہ اس کی ترغیب دیتا ہے اوراس کو موجبِ نجات بھی سمجھتا ہے۔
بزرگانِ دین/ اَسلاف کا ذکرِ شانِ رسولﷺ
1
بزرگانِ دین میں تما م علماء حق، محدثین اکرام، مفسرین اکرام اور پیرانِ طریقت شامل ہیں جنہوں نے خود حبِ رسولﷺ میں اعلی مقام حاصل کیا اور اپنی محنت و کاوش سے امتِ محمد ﷺمیں حبِ رسول ﷺکی شمع جلاےَ رکھی۔ اِن بزرگانِ دین نے ذکرِ شانِ رسولﷺ میں متعدد کتابیں تحریر فرمایَی اور اپنی عمریں آپ ﷺکی شان میں وعظ و تقریر میں صرف کر دیں۔
یہاں صرف اس بیان پر اکتفا کریں گے کہ حُضور ﷺکے ذکر کے وقت اور آپ ﷺ کی حدیث و سنت و اسم گرامی اور سیرتِ مبارکہ کے سنتے وقت، کس طرح ہمارے بزرگانِ دین تعظیم و توقیر اور انتہائی ادب کو ملحوظ رکھتے ۔ جیسا کہ ابو ابراہیم تجیبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ مسلمان پر واجب ہے کہ جب بھی آپ ﷺکا ذکر کرے یا سنے تو خشوع و خضوع کے ساتھ آپ ﷺکی تعظیم و توقیر کرے۔
بیشک سرکارِ دو عالَم ﷺ کا ذکر آنکھوں کا نور اور دِلوں کا سرور ہے۔ آپ ﷺ کے ذکرِ خیر سے عُشّاق کے دل اطمینان پاتے اور لذّتِ عشق محسوس کرتے ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیں بھی ان مقدس ہستیوں کے صدقے ذکرِ رسول کرتے وقت محبت و تعظیم بھرا انداز اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن ﷺ
درج ذیل روایات میں ملاحظہ کیجئے کہ ہمارے سلف صالحین اور ائمہ متقدمین رحمہمُ اللہ نبیِّ کریم ﷺکے ذکر کے وقت کیسا محبت و تعظیم بھرا انداز اختیار فرماتے تھے:
حضرت سیّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ جب نبیِّ کریم ﷺ کا ذکر کرتے تو عشقِ رسول سے بےتاب ہو کر رونے لگتے اور فرماتے : وہ (نبی ﷺ ) تو نکھرے نکھرے چہرے والے ، مہکتی خوشبو والے اور حسب کے اعتبار سے سب سے زیادہ مکرّم تھے ، اوّلین و آخرین میں آپ ﷺ کی کوئی مثل نہیں۔
حضرت سیّدُنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت سیّدُنا اسلم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سیّدُنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ جب مکی مدنی سرکار ﷺ کا ذِکْر کرتے تو عشقِ رسول سے بے تاب ہو کر رونے لگتے۔
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ بغیر وضو کے حدیث نبوی ﷺ کی نہ قرأت کرتے تھے اور نہ بیان کرتے تھے۔
حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے جب نبیِّ اکرم ﷺ کا ذکر کیا جاتا تو اُن کے چہرے کا رنگ بدل جاتا اور وہ ذِکْرِ مصطفےٰ ﷺ کی تعظیم کے لئے خوب جھک جاتے۔ درسِ حدیث میں تعظیم کا عالَم یہ ہوتا کہ عمدہ لباس زیبِ تن فرما کر مسند پر نہایت عاجزی کے ساتھ تشریف فرما ہوتے اور درس کے دوران کبھی پہلو نہ بدلتے۔
الشفا ، 2 / 41 ، 42 ، 45
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے محمد بن منکدر رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا وہ قاریوں کے سردار تھے ، جب کبھی ہم ان سے حدیث کے بارے میں سوال کرتے تو وہ اتنا روتے کہ ہمیں ان پر رحم آتا۔
حضرت سیّدُنا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے جب احادیثِ مبارَکہ سنانی ہوتیں (تو غُسل کرتے) ، چَوکی(مَسنَد) بچھائی جاتی اور آپ رحمۃ اللہ علیہ عمدہ لباس زیبِ تن فرما کر خوشبو لگا کر نہایت عاجزی کے ساتھ اپنے حُجرۂ مبارَکہ سے باہَر تشریف لا کر اس پر با ادب بیٹھتے (درسِ حدیث کے دوران کبھی پہلو نہ بدلتے) اور جب تک اُس مجلس میں حدیثیں پڑھی جاتیں اَنگیٹھی میں عُود و لُوبان سُلگتا رہتا۔
حضرت عبدُالرّحمٰن بن مہدی رحمۃ اللہ علیہ جب بھی حدیثِ نبوی ﷺ پڑھتے تو حاضرین کو خاموش رہنے کا حکم دیتے اور فرماتے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ۔
اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو۔
26 ، الحجرات : 2
مزید فرماتے تھے کہ حدیثِ نبوی ﷺ سنتے وقت اسی طرح خاموش رہنا واجب ہے جس طرح خود حضور ﷺ کی مبارک زبان سے سنتے وقت خاموش رہنا واجب تھا۔
الشفامترجم ، 2 / 92
عبدُالرّحمٰن بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ نبیِّ کریم ﷺ کا ذکر کرتے تو ان کے چہرے کا رنگ دیکھا جاتا کہ وہ ایسا ہوگیا گویا کہ اس سے خون نچوڑ لیا گیا ہے اور حضور ﷺ کی ہیبت و جلال سے ان کا منہ اور زبان خشک ہوجاتی۔
حضرت عامر بن عبدُاللہ بن زبیر رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے جب بھی نبیِّ کریم ﷺ کا ذِکْرِ جمیل کیا جاتا تو اتنا روتے کہ ان کی آنکھوں میں آنسو تک نہ رہتا۔
امام زُہری رحمۃ اللہ علیہ بڑے نرم دل اور ملنسار تھے لیکن جب بھی ان کے سامنے نبی کریم ﷺ کا ذکر کیا جاتا تو ایسے ہو جاتے گویا کہ نہ ہم ان کو جانتے اور نہ وہ ہمیں جانتے ہیں۔ (ماخوذ از الشفا ، 2 / 40تا46)
رئیسُ المتکلمین مولانا نقی علی خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے سورۂ اَلَمْ نَشْرَح کی تفسیر فرماتے ہوئے جب نامِ نامی اسمِ محمد لینا چاہا تو ادب کا یہ عالَم نظر آیا کہ سات بڑے صفحات پر نبیِّ کریم ﷺ کےالقابات ذکر کرنے کے بعد بھی جب نامِ نامی اسمِ محمد ﷺ لیا تو پھر بھی یہ فرمایا :
در بند آ مباش کہ مضمون نہ ماندہ است
صد سال می تواں سخن از زلفِ یار گفت
ترجمہ : اس خیال میں نہ رہنا کہ مضمون ختم ہوگیا ، اگر میں چاہوں تو سو (100) سال تک صرف زُلفِ یار کی باتیں کرتا رہوں۔
اعلیٰ حضرت محدثِ بریلوی علیہ الرَّحمہ کا حدیثِ مبارَکہ بیان کرنے کا انداز یہ ہوتا کہ آپ علیہ الرَّحمہ کھڑے ہوکر درسِ حدیث دیا کرتے۔ بغیر وُضو اَحادیثِ کریمہ نہ چھوتے اور نہ پڑھایا کرتے۔ حدیث کی ترجمانی فرماتے ہوئے کوئی شخص درمیان میں اگر بات کاٹنے کی کوشش کرتا ، تو ناراضی کے اظہار میں چہرۂ مبارَکہ سُرخ ہوجاتا۔ درسِ حدیث دیتے وقت آپ علیہ الرَّحمہ کی وارفتگی کا عالَم دیدنی ہوتا۔
مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ زبردست عاشقِ رسول تھے ، سرورِ دو جہان ﷺ کا ذکرِ مبارک آتا تو بے اِختیار آپ رحمۃ اللہ علیہ پر سوزوگداز کی ایک مخصوص کیفیت طاری ہو جاتی جس کے نتیجے میں آنکھ میں آنسو بھر آتے اور آواز بھاری ہو جاتی ، آپ رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھنے اور سننے والے ہزارہا افراد بھی اس کیفیت کو محسوس کر لیا کرتے تھے۔
سرکارِ دو عالَم ﷺ کا ذکر آنکھوں کا نور اور دِلوں کا سرور ہے۔ آپ ﷺ کے ذکرِ خیر سے عُشّاق کے دل اطمینان پاتے اور لذّتِ عشق محسوس کرتے ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیں بھی ان مقدس ہستیوں کے صدقے ذکرِ رسول کرتے وقت محبت و تعظیم بھرا انداز اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن ﷺ
عام امتی کا ذکرِ شانِ رسولﷺ
2
رسول کریم ﷺ کی محبت امتی کے لیے ایک ایسا جوہر ہے جو تکمیل ِایمان کا ذریعہ ہے۔ صحابہ کرام ؓ رسول اکرم ﷺ کی محبت و اطاعت کے تقاضے میں جس طرح پورے اترے اس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔ وہ محبت و عقیدت کے ساتھ ادب و احترام اور اس کے ساتھ اتباع اور اطاعت میں اپنی مثال آپ تھے۔ احترام انسانیت کے حقیقی علم بردار تو صحابہ کرامؓ ہی تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی ہر ادا مثالی اور ہر بات بے نظیر تھی ان کا ایمان، یقین، صداقت، دیانت، ایثار، فیاضی، معاملات، عفت، پاکیزگی، ان کی نمازیں اور صدقہ و خیرات سب بے مثال تھے۔
صحابہ کرام کے دور سے آج تک ایک عام مسلمان بھی اپنے آقا و مولا تاجدارِ دوعالم سے کسی بھی دوسرے مذہب کی کسی بھی مقدس شخصیّت سے بڑھ کرمحبت کرتا ہے اور حُبّ رسولؐ کو ایمان و یقین کا سرچشمہ اور آخرت کے لیے بہترین ذخیرہ سمجھتا ہے۔ ایک عام مسلمان جس کے دل میں ذرّہ برابر ایمان ہو، خواہ کتنا ہی گناہ گار کیوں نہ ہو حبِ رسول ﷺ ضرور رکھتا ہے اسی وجہ سے ناموس رسالت ﷺ کے خلاف ایک حرف بھی برداشت نہیں کرسکتا۔اس پر ہمارے ذہن میں ایک سوال ضرور آتا ہے کہ آخریہ حبِ رسول ﷺ ایک مومن کے دل میں پیدا کیسے ہوتی ہے؟
اس کا جواب بہت ہی آسان ہے اور وہ ہے؛مومن کے دل میں حبِ رسول ﷺ ذکر ِ رسولﷺ کے سننےسے پیدا ہوتی ہے۔ ذکر ِ رسولﷺ میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے وہ تاثیر رکھی ہے کہ یہ دل کی گہرایَی میں بس جاتی ہے اور حبِ رسولﷺ کو جنم دیتی ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قران مجید میں ذکرِ رسولﷺ کے متعلق بیان فرمایا:
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ
’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا ‘‘
الإنشراح، 94 : 4
سبحان اللہ،یعنی ربُ اٰلمین نے قران مجید میں سیّد المرسَلین ﷺ کا چرچا یعنی ذکر بلندکرنےکا ذمہ خود لیا ہے اور خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس ذکر کا سبب بنتے ہیں۔ مومن اپنی زندگی کے ہر مرحلے اور ہر شعبے میں آپ ﷺ کے ذکر سے محظوظ ہوتا ہے ۔ کیونکہ
تفسیر، حدیث، سیرت اور دینی کتابوں………………میں ہے ذکرِ شانِ رسولﷺ | 1 |
علما ء کے درس و تدریس…………………………………..میں ہے ذکرِ شانِ رسولﷺ | 2 |
علما ء کے واضح و نصیحت…………………………………….میں ہے ذکرِ شانِ رسولﷺ | 3 |
جمعہ کے خطبوں……………………………………………….میں ہے ذکرِ شانِ رسولﷺ | 4 |
دینی و اصلاحی کانفرنسوں…………………………………..میں ہے ذکرِ شانِ رسولﷺ | 5 |
جلسے جلوسوں…………………………………………………..میں ہے ذکرِ شانِ رسولﷺ | 6 |
میلادالنبی ﷺ……………………………………………….میں ہے ذکرِ شانِ رسولﷺ | 7 |
مدارس و سکولوں کے تقریروں………………………….میں ہے ذکرِ شانِ رسولﷺ | 8 |
سوشل میڈیا اور ٹی وی چینل………………………………میں ہے ذکرِ شانِ رسولﷺ | 9 |
گلیوں بازاروں………………………………………………….میں ہے ذکرِ شانِ رسولﷺ | 10 |
مومن کے گھروں……………………………………………..میں ہے ذکرِ شانِ رسولﷺ | 11 |
خوش نصیبوں کے دلو ں………………………………………میں ہے ذکرِ شانِ رسولﷺ | 12 |
ذکرِ رسولﷺ کے بارے میں متعدد مؤرخین اور متعدد بزرگوں نے امام ابو ابراہیم التجیبی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول لکھاہے کہ:
’’واجب علی کل مومنٍ متی ذکرہ او ذکر عندہ ان یغضع و یخشع و یتوقر و یسکن من حرکاتہ و یاخذ فی ہیبتہ و اجلالہ بما کان یاخذ بہ نفسہ لو کا ن بین یدیہ و یتأدب بما ادبہ اللّٰہ بہ‘‘
’’ہر مسلمان پر یہ لازم ہے کہ جب بھی مسلمان کے سامنے امام الانبیائ حضرت محمدر سول اللہ ﷺ کا ذکر کیا جائے یا حضور ﷺ کا اسمِ گرامی لیا جائے تو خشوع و خضوع کے ساتھ حضور ﷺ کے نام اور ذکر کاادب و احترام کرے اور اپنی حرکات میں سکون اور قرار اختیار کر لے اور آپ ﷺ کی ہیبت اور تعظیم کاایسے اظہار کرے کہ جس طرح بندہ کے سامنے (اسم یا ذکر نہیں بلکہ خود ) حضور پاک ﷺ موجو د ہیں ‘‘-
ان کے فرمان کا مقصد یہ ہے کہ ہم نے حضور ﷺ کے ذکر کے دوران ادب و احترام کا خاص خیال رکھیں تاکہ آپ کی محبت ہمارے اندر پیدا ہو۔ علامہ اقبال نے اسے اپنے انداز میں یوں بیان کیا ہے:
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ھمہ اوست
اگر بہ اُو نرسیدی ، تمام بولہبی است
ترجمہ: ’’مصطفی کریم ﷺ تک خود کو پہنچا دے کہ تمام دین آپ ہی کی ذات مبارکہ ہے- اگر تم ان تک نہیں پہنچ سکے تو سمجھ لو کہ باقی دنیا میں تو صرف بو لہبی (کفر) ہی ہے‘‘-
(علامہ محمد اقبال)
اگر حضور ﷺ کی بارگاہ میں اِس خشوع، عاجزی، انکساری اور ادب واحترام اور وقار کو مدِ نظر رکھتے ہوئے حاضری نصیب نہیں ہوتی تو اقبال فرماتے ہیں ’’تمام بو لہبی است‘‘ پھر تیرا ایمان مکمل ہی نہیں ہوا، تو نے ایمان کی رَمز کو سمجھا اور جانا ہی نہیں۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت و بعثت کو یاد کرنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت و سیرت، فضائل و کمالات اورخصائص و معجزات کا ذکر کرنا بارگاہِ خداوندی میں اس نعمت عظمیٰ کا شکر ادا کرنے کی ہی ایک صور ت ہے۔ اس نعمت جلیلہ کا ذکر کر کے ہم خود کو بلند کرتے ہیں ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر تو وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ کے فرمودۂ خداوندی کے مطابق ہر روز افزوں ہی رہے گا۔ اور ہر آنے والی ساعت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کی رفعتوں کو بلند سے بلند تر ہوتا دیکھے گی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْأُولَى
’’اور بے شک (ہر) بعد کی گھڑی آپ کے لیے پہلی سے بہتر (یعنی باعثِ عظمت و رفعت) ہےo‘‘
الضحیٰ، 93 : 4
اس سے پتہ چلتا ہے کہ اب کوئی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرے گا تو اس سے اس کی اپنی ذات کو فائدہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد مبارک کے موقع پر اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں بطور شکرانہ خوشی منائے گا تو یہ بھی اس کے اپنے مفاد میں ہے، یعنی اپنا ہی توشۂ آخرت جمع کر رہا ہے۔پس ایک مومن کے لیے یہی ذکرِ رسول ﷺ کا تقاضا اور مطلوب ہے۔
تعظیم رسولﷺ | << | 2.5 | 2.3 | >> | برکات رسولﷺ |