برکات رسولﷺ

2.3

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے  ذات  ِ  رسولﷺ کو ممبعِ برکات بنایاہے۔  قران و حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ مقدسہ اور آپ ﷺ کے آثار سے برکت حاصل کرنا ثابت ہے  جس طرح دیگر انبیاء کرام اور صالحینِ عظام کی ذوات اور آثار سے برکت حاصل کرنا شرعاً ثابت ہے۔  اسلیے ہم سب سے پہلے دیکھیں گے کہ قرآن میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام اور اشیائے مقدسہ  کی برکت کے بارے میں کیا فرمایا ہے اور  جانیں گے کہ اَنبیاء علیہم السلام نے کیسے خود واسطۂ تبرک اختیار کیا۔

فہرست

قرآن میں انبیاء ﷤ اور اشیائے مقدسہ کی برکت کا بیان2.3.1
اَنبیاء ﷤ کا واسطۂ تبرک اختیار کرنا2.3.2
اَنبیاء ﷤ سے منسوب اشیاء سے حصولِ برکت2.3.3
رسول اﷲﷺ کے جسدِ اقدس سے حصولِ برکت2.3.4
حضور نبی اکرمﷺ سے منسوب اشیاء سے حصولِ برکت2.3.5
ولادتِ رسولﷺ کی برکات2.3.6
مدینہِ منورہ کی برکات2.3.7
روضہٴ اقدس کی برکات2.3.8
اسمِ محمدﷺ کے برکات2.3.9
تعظیم  ِرسولﷺ کی برکات2.3.10
ذکر ِرسولﷺ کی برکات2.3.11
امت پرمیلاد النبیﷺ کی برکات2.3.12

قرآن میں انبیاء﷤ اور اشیائے مقدسہ کی برکت کا بیان

2.3.1

برکت اور تبرک کے صحیح تصور کو واضح کرنے کے لئے ذیل میں چند قرآنی اقسام کو بیان کیا جا رہا ہے۔ ان آیاتِ مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن میں لفظِ برکت اپنے مشتقات سمیت معین شخصیات، زمان اور مکان کے لئے استعمال ہوا ہے۔

انبیاء کرام﷤ کے بابرکت ہونے کا بیان

(1)

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بعض انبیاء کرام علیہم السلام اور اُن کے اہل و عیال کا مبارک اور بابرکت ہونا بیان کیا ہے۔   جیسا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بابرکت ہونے کے بارے میں فرمایا:

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلاَةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا

’’اور میں جہاں کہیں بھی رہوں اس نے مجھے سراپا برکت بنایا ہے اور میں جب تک (بھی) زندہ ہوں اس نے مجھے نماز اور زکوۃ کا حکم فرمایا ہے۔‘‘

مريم، 19 : 31

    { وَ جَعَلَنِیْ مُبٰرَكًا : اور اس نے مجھے مبارک بنایا ہے ۔} حضرت عیسیٰ   عَلَیْہِ    الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ مجھے نبوت عطا کرنے کے ساتھ ساتھ    اللہ  تعالیٰ نے مجھے لوگوں  کے لئے نفع پہنچانے والا، خیر کی تعلیم دینے والا ،       اللہ  تعالیٰ کی طرف بلانے والا اور اس کی توحید اور عبادت کی دعوت دینے والا بنایا ہے خواہ میں  کہیں  بھی ہوں۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

قرآن حکیم کے بابرکت ہونے کا بیان

(2)

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی بے شمار صفات اور خوبیاں بیان فرمائی ہے۔ قرآن کی ایک صفت اس کا بابرکت ہونا بھی ہے۔

1۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَهَذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ

’’اور یہ (وہ) کتاب ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے، بابرکت ہے، جو کتابیں اس سے پہلے تھیں ان کی (اصلاً) تصدیق کرنے والی ہے۔‘‘

الأنعام، 6 : 92

2۔ سورۃ الانعام میں ہی دوسری جگہ ارشاد فرمایا :

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَهَذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ

’’اور یہ (قرآن) برکت والی کتاب ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے سو (اب) تم اس کی پیروی کیا کرو اور (اﷲ سے) ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ‘‘

الأنعام، 6 : 155

3۔ قرآن حکیم کو خوبیوں والی اور بابرکت کتاب کہا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ

’’یہ کتاب برکت والی ہے۔ جسے ہم نے آپ کی طرف نازل فرمایا ہے تاکہ دانشمند لوگ اس کی آیتوں میں غور و فکر کریں اور نصیحت حاصل کریں‘‘

ص، 38 : 29

اماکنِ مقدسہ کے بابرکت ہونے کا بیان

(3)

اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں بعض خصوصی اماکن اور زمین کے قطعات کا بابرکت ہونا بیان فرمایا ہے۔

1۔ اللہ رب العزت نے خانہ کعبہ کو برکت والا گھر قرار دیا، فرمایا :

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ

’’بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لئے بنایا گیا وہی ہے جو مکہّ میں ہے برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لئے (مرکزِ) ہدایت ہے ‘‘

ال عمران، 3 : 96

امام ابوبکر جصاص نے احکام القرآن میں اس آیت کی تشریح میں برکت اور تبرک کے تصور کو یوں واضح کیا ہے :

وقوله مبارکًا يعني أنه ثابت الخير والبرکة، لأن البرکة هي ثبوت الخير ونموه وتزيده والبرک هو الثبوت يقال برک برکًا وبروکا إذا ثبت علي حاله.

’’اور اللہ عزوجل کا مبارکاً فرمانا اس معنی میں ہے کہ وہ گھر خیر و برکت والا ہے، کیونکہ کسی چیز میں خیر و بھلائی کا پایا جانا اور اس کا نشوو نما اور اس میں اضافہ ہو جانے کا نام برکت ہے۔ برکت سے مراد جم کر بیٹھنا ہے برک، برکاً اور بروکا اس وقت کہتے ہیں جب کوئی اپنی جگہ جم کر بیٹھے۔‘‘

جصاص، أحکام القرآن، 2 : 303

2۔ مسجدِ اقصیٰ کے گرد و نواح کو انبیاء کرام کا مسکن ہونے کی وجہ سے بابرکت بنا دیا۔ ارشاد فرمایا گیا :

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ

’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂِ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے‘‘

بنی اسرائيل، 17 : 1

اﷲ تعالیٰ نے سفرِ معراج کے ضمن میں مسجدِ حرام اور مسجدِ اقصیٰ کا ذکر فرمایا تو مسجدِ اقصیٰ کے ساتھ اس کی وجہ فضیلت بھی بتائی کہ اس کے اردگرد ہم نے برکتیں رکھ دی ہیں۔ ائمہِ تفسیر نے بابرکت ماحول کی وجہ بیت المقدس کے اردگرد پھلدار درخت اور جاری نہروں کے علاوہ زمانہ موسوی سے اس مسجد کو مہبطِ وحی اور مسکن انبیاء علیہم السلام کے طور پر بیان کیا ہے۔ علاوہ ازیں ایک بڑی و جہ انبیاء علیہم السلامکے مزارات ہیں جو فلسطین اور بالخصوص القدس شریف کی سرزمین میں موجود ہیں۔

علامہ قرطبی لکھتے ہیں :

قيل بالثّمار وبمجاري الأنهار وقيل بمن دُفن حوله من الأنبياء والصالحين.

’’یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے ارد گرد کو پھلوں اور نہروں کی وجہ سے بابرکت بنایا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے اردگرد انبیاء کرام علیہم السلام اور صالحین دفن ہیں اس وجہ سے یہ بابرکت ہے۔‘‘

قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 10 : 212

علامہ شوکانی لکھتے ہیں :

بالثّمار والأنهار والأنبياء و الصالحين فقد بارک اﷲ سبحانه حول المسجد الأقصي ببرکات الدّنيا والآخرة.

’’یعنی پھلوں، نہروں انبیاء علیہم السلام اور صالحین کی وجہ سے۔ پس اللہ تعالیٰ نے مسجد اقصیٰ کے اردگرد کے ماحول کو دنیا و آخرت کی برکتوں سے مالا مال فرمایا۔‘‘

شوکاني، فتح القدير، 3 : 206

علامہ قرطبی اور علامہ شوکانی کے قول کے مطابق بابرکت ہونے کی بڑی وجہ مزاراتِ انبیاء ہیں۔ یہی درست بات ہے کیونکہ لذیذ پھلوں اور خوش ذائقہ پانی کی نہروں کا وجود بھی انبیاء علیہم السلام کے وجودِ مسعود کے باعث ہے۔

نصِ قرآنی سے ثابت ہوا کہ انبیاء و صالحین کی وجہ سے کسی جگہ کا بابرکت ہونا اور لوگوں کا تبرکاً اس مقدس مقام کی زیارت کے لئے جانا نہ صرف جائز بلکہ امرمستحسن ہے۔ پس حضور تاجدارِ کائنات سیدنا محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مدفن ہونے کا اعزاز جس خطۂ زمین کو نصیب ہوا وہ پوری کائنات سے بڑھ کر بابرکت و باسعادت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرون اولیٰ سے لے کر آج تک جمہور اُمت روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کو دنیا و مافیھا سے بڑھ کر عزیز سمجھتی ہے۔

انبیاء علیہم السلام کے وجودِ مسعود کی وجہ سے مسجدِ اقصیٰ کا اردگرد بابرکت ہونے کی مزید تائید حضرت مجاہد کے اس قول سے ہوتی ہے :

سماه مبارکًا لأنه مقر الأنبياء ومهبط الملائکة والوحي

’’مسجدِ اقصیٰ کے اردگرد کو بابرکت اس لئے کہا گیا کہ یہ انبیاء علیہم السلام کی قرار گاہ اور نزولِ ملائکہ و وحی کا مقام ہے۔‘‘

1. بغوي، معالم التنزيل، 3 : 92

2. ثناء اﷲ، تفسير المظهري، 5 : 399

3. ابن جوزي، زاد المسير، 5 : 5

اس امر میں تو کوئی شک و شبہ نہیں کہ نصِ قرآنی کے مطابق بیت المقدس کا گردونواح بابرکت ہے۔ رہی یہ بات کہ وہ بابرکت کیوں ہے؟ اس بارے میں ائمہ تفسیر نے جو بھی وجہ بیان کی اس میں نمایاں چیز نسبتِ انبیاء علیہم السلام ہے۔ اگر وہاں نزولِ ملائکہ ہے تو وہ بھی نبیوں کی وجہ سے ہے۔ اگر مزاراتِ انبیاء و صالحین ہیں تو ان کی نسبت بھی ان سے ہے حتی کہ اگر عبادت گاہ مبارک ہے تو وہ بھی نبیوں کی نسبت کی وجہ سے ہے۔

امام نسفی لکھتے ہیں :

يريد برکات الدين والدنيا لأنه متعبد الأنبياء عليهم السلام ومهبط الوحي

’’اس سے مراد دین و دنیا کی برکتیں ہیں اس لئے مسجد اقصیٰ انبیاء علیہم السلام کی عبادت گاہ اور مقامِ نزولِ وحی الٰہی ہے۔‘‘

1. نسفي، مدارک التنزيل و حقائق التأويل، 2 : 278

2. آلوسي، روح المعاني، 15 : 11

3. زمخشري، الکشاف، 2 : 606

3۔ خطۂ شام کے بابرکت ہونے کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُواْ يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا.

’’اور ہم نے اس قوم (بنی اسرائیل) کو جو کمزور اور استحصال زدہ تھی اس سر زمین کے مشرق و مغرب (مصر اور شام) کا وارث بنا دیا جس میں ہم نے برکت رکھی تھی۔‘‘

الأعراف، 7 : 137

4۔ اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر خطۂ شام کو برکت سے نوازے جانے کے بارے فرمایا :

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَنَجَّيْنَاهُ وَلُوطًا إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ

’’اور ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اور لوط (علیہ السلام) کو بچا کر (عراق سے) اس سر زمین (شام) کی طرف لے گئے جس میں ہم نے جہان والوں کے لئے برکتیں رکھی ہیں۔‘‘

الأنبياء، 21 : 71

خطۂ شام کو سرزمینِ انبیاء و صالحین کہا جاتا ہے۔ ائمہِ تفسیر نے اس امر کی صراحت کی ہے کہ اس آیتِ مبارکہ میں جس خطہ زمین کو برکت سے نوازنے کا بیان ہے وہ شام ہے۔

1۔ اِمام فخر الدین رازی نے لکھا ہے :

وحقّت أن تکون کذلک فهي مبعث الأنبياء صلاة اﷲ عليهم ومهبط الوحي.

’’اور درست بات یہ ہے کہ ایسا ہی ہے کیونکہ یہ سرزمین انبیاء علیہم السلام کی بعثت اور نزول وحی کا خطہ ہے۔‘‘

رازي، التفسير الکبير، 24 : 157

2۔ اِمام زمخشری نے لکھا ہے :

وبرکاته الواصلة إلي العالمين أنّ أکثر الأنبياء عليهم السلام بعثوا فيه فانتشرت في العالمين شرائعهم و آثارهم الدينية و هي البرکات الحقيقيّة.

’’اس سرزمینِ شام کی برکتیں تمام جہاں کو پہنچی۔ اس طرح کہ اکثر انبیاء علیہم السلام یہیں مبعوث ہوئے اور پوری دنیا میں ان کی شریعت اور دینی آثار پھیل گئے۔ یہی حقیقی برکات ہیں۔‘‘

زمخشري، تفسير الکشاف، 3 : 127

3۔ اِمام نسفی نے لکھا ہے :

أي أرض الشام برکتها أن أکثر الأنبياء منها فانتشرت في العالمين آثارهم الدينية.

’’یعنی سرزمینِ شام کی طرف اور اس سرزمین کی برکتوں میں سے یہ بھی ہے کہ اکثر انبیاء علیہم السلام کی بعثت یہاں ہوئی اور پھر ان کے دینی آثار دنیا میں پھیلے۔‘‘

نسفي، مدارک التنزيل و حقائق التأويل، 3 : 86

خطۂ شام کے مبارک ہونے کی ایک وجہ مفسرین نے یہ بھی بیان کی ہے کہ یہ خطہ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مرکز رہا ہے۔ لہٰذا ان کے مبارک قدموں کی وجہ سے یہ خطۂ زمین برکت والا ہوگیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی شام کے لیے برکت کی دعا فرمائی۔ احادیث مبارک سے ثابت ہے کہ سرزمین شام اﷲ تعالیٰ کے منتخب بندوں انبیاء و صالحین کی سرزمین ہے اس لئے مبارک ہے۔

حضرت ابنِ حوالہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

سَيَصِيْرُ الْأَمْرُ إِلَي أَنْ تَکُوْنُوْا جُنُوْدًا مُجَنَّدَةً. جُنْدٌ بِالشَّامِ وَجُنْدٌ بِالْيًمَنِ وَجُنْدٌ بِالْعِرَاقِ. قَالَ ابْنُ حَوَالَةَ : خِرْ لِي يَارَسُوْلَ اﷲِ! إِنْ أَدْرَکْتُ ذٰلِکَ، فَقَالَ : عَلَيْکَ بِالشَّامِ فإِنَّهَا خيْرَةُ اﷲِ مِنْ أَرْضِهِ يَجْتَبِي إلَيْهَا خِيْرَتَهُ مِنْ عِبَادِهِ فَأَمَّا إِذْ أَبَيْتُمْ فَعَلَيْکُمْ بِيَمَنِکُمْ وَاسْقُوْا مِنْ غُدُرِکُمْ فَإِنَّ اﷲَ تَوَکَّلَ لِي بِالشَّامِ وَأَهْلِهِ.

’’عنقریب ایک ایسا وقت آنے والا ہے جب تمہارے لشکر الگ الگ ہوجائیں گے۔ ایک لشکر شام میں ہوگا تو ایک یمن میں اور ایک عراق میں۔ ابن حوالہ نے کہا : یارسول اﷲ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر میں اس وقت کو پاؤں تو فرمائیے میں کس لشکر میں جاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم سرزمین شام کو (سکونت کے لئے) اختیار کرنا کیونکہ سرزمین شام اﷲتعالیٰ کی زمین میں بہترین زمین ہے۔ اﷲتعالیٰ اس قطعہ ارضی میں اپنے بہترین بندوں کو چن کر اکٹھا فرمائے گا‘‘ اگر تجھے یہ منظور نہ ہو تو پھر یمن کو اختیار کرنا اور اپنے حوضوں سے پانی پلاتے رہنا۔ اﷲتعالیٰ نے میری خاطر ملک شام کی اور اہل شام کی کفالت فرمائی ہے۔‘‘

حوالاجات

فضیلتِ شام کے بارے میں کتبِ احادیث میں متعدد احادیثِ مبارکہ موجود ہیں۔ فضیلتِ شام کے حوالے سے متذکرہ بالا نصِ قرآنی حدیثِ مبارکہ اور ائمہِ تفسیر کی آراء سے یہ ثابت ہوا کہ اﷲ رب العزت نے خود ابوالانبیاء سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے مقامِ ہجرت ملکِ شام کو بابرکت بنایا اور پھر امت کو فتنوں کے دور میں اس مبارک سرزمین میں حسبِ استطاعت تبرکاً سکونت اختیار کرنے کی ترغیب بھی فرمائی۔

غور طلب بات یہ ہے کہ زمین تو ساری اﷲتعالیٰ کی ہے، وہی پوری دنیا کا خالق و مالک حقیقی ہے، پھر اس قادر و قیوم ذاتِ وحدہ لا شریک نے زمین کے ایک ٹکڑے کو مبارک قراردیا۔ اس سے یہی بات مستنبط ہوتی ہے کہ اگر قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق کوئی مقام یا ہستی مبارک ہو اور اگر ایک بندہ مؤمن خالق کائنات کی طرف سے عطا کردہ برکت کی وجہ سے اس سے تبرک اختیار کرے تو یہ صحیح اور درست امر ہے اسے خلاف شرع اور منافی توحید قرار نہیں دیا جاسکتا۔

5۔ یمن کے بارے میں اللہ رب العزت نے فرمایا :

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا قُرًى ظَاهِرَةً.

’’اور ہم نے ان باشندوں کے اور ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکت دے رکھی تھی، (یمن سے شام تک) نمایاں (اور) متصل بستیاں آباد کر دی تھیں۔‘‘

سبا، 34 : 18

6۔ عام زمین کو خیر کے اعتبار سے کئی صورتوں میں متبرک بنایا گیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ.

’’اور اُس کے اندر (سے) بھاری پہاڑ (نکال کر) اس کے اوپر رکھ دیئے اور اس کے اندر برکت رکھی، اور اس میں  غذائیں ( اور سامانِ معیشت) مقرر فرمائے (یہ سب کچھ اس نے) چار دنوں (یعنی چار ارتقائی زمانوں) میں مکمل کیا۔‘‘

حم السجدة، 41 : 10

زمان کے بابرکت ہونے کا بیان

(4)

قرآن مجید میں بعض زمانوں کے بابرکت ہونے کو بھی بیان کیا گیا ہے،  جیساکہ شبِ قدر کے بارے میں سورۃ الدخان میں ارشاد فرمایا:

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ

’’بیشک ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں اتارا ہے بیشک ہم ڈر سنانے والے ہیں ‘‘

الدخان، 44 : 3

اس آیت کے تحت شیخ ابنِ عربی لکھتے ہیں :

البرکة : هی النماء و الزيادة و سماها مبارکة لما يعطي اﷲ فيها من المنازل و يغفر من الخطايا و يقسم من الحظوظ و يبث من الرحمة و ينيل من الخير و هي حقيقة ذلک وتفسيره.

’’برکت کا معنی کسی چیز میں بڑھوتری اور اِضافہ ہے۔ نزولِ قرآن کی رات کو اس لئے مبارک قرار دیا کہ اس میں اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کو بلند درجات عطا فرماتا ہے، گناہوں کی بخشش فرماتا ہے، سعادت و خوش قسمتی اور خیر و فضل تقسیم فرماتا ہے، اپنی رحمت کو پھیلاتا ہے اور خیر و بھلائی عطا فرماتا ہے۔ یہی اس رات کے بابرکت ہونے کا حقیقی معنی اور اس کی تفسیر ہے۔‘‘

ابن عربی، أحکام القرآن، 4 : 117

اشیاء کے بابرکت ہونے کا بیان

(5)

قرآن مجید میں بعض اشیاء کے بابرکت ہونے کو بھی بیان کیا گیا ہے۔

1۔ اللہ تعالیٰ نے زیتون کے درخت کو بابرکت قرار دیا ہے، ارشادِ ربانی ہے :

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ.

’’اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثال  اس طاق جیسی ہے جس میں چراغِ ہے، (وہ) چراغ، فانوس رکھا ہے۔ (یہ) فانوس (نورِ الٰہی کے پَر تَو سے اس قدر منور ہے) گویا ایک درخشندہ ستارہ ہے  جو زیتون کے مبارک درخت سے روشن ہوا ہے نہ شرقی ہے اور نہ غربی ۔‘‘

النور، 24 : 35

2۔ بارش کے پانی کو بھی مبارک قرار دیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُّبَارَكًا.

’’اور ہم نے آسمان سے بابرکت پانی برسایا۔‘‘

ق، 50 : 9

نام کی نسبت سے حصولِ برکت

(6)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

يَا أُخْتَ هَارُونَ.

’’اے ہارون کی بہن!‘‘

مريم، 19 : 28

ائمہِ تفسیر نے لکھا ہے کہ یہ حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے تھیں اور ان کے ایک بھائی کا نام حضرت ہارون علیہ السلام کی نسبت سے ’’ہارون‘‘ تھا اس لئے ان کو ہارون کی بہن کہا گیا :

کان لها أخ من أبيها اسمه هارون لأن هذا الاسم کان کثيراً في بني إسرائيل تبرکاً باسم هارون أخي موسي.

’’حضرت مریم علیہا السلام کے علاتی بھائی کا نام ہارون تھا کیونکہ بنی اسرائیل میں یہ نام رکھنے کا بہت رواج تھا۔ لوگ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کے نام کی نسبت سے تبرکاً اسے رکھتے تھے۔‘‘

قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 11 : 100

قرآن مجید میں بیان کردہ مبارک یا متبرک انبیاء علیہم السلام، خود قرآن حکیم، اماکنِ مقدسہ، اشیاء اور زمان کی اِن اقسام سے معلوم ہوا کہ مخلوق میں سے بعض کو خالقِ کائنات کی طرف سے بابرکت ہونے کا رتبہ ملا ہے۔ یہ مقام ملنے کی وجہ سے اُن کا مقام باقی تمام مخلوق سے جدا اور ممتاز ہو جاتا ہے۔

اس تفصیل سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اﷲ تعالیٰ خود آثارِ صالحین انبیاء و رسل کے مزارات اور مقدس مقامات کو بابرکت قرار دیا ہے ۔

اَنبیاء﷤ کا واسطۂ تبرک اختیار کرنا

2.3.2

نصوصِ قرآن سے ثابت ہے کہ اﷲ رب العزت کے جلیل القدر انبیاء علیہم السلام نے تبرک و تیمن کا واسطہ اختیار کیا جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ عمل شرک اور خلافِ توحید نہیں بلکہ یہ ہمارے  دین کا حصہ ہے ۔ قرآنِ حکیم میں درج ذیل ارشادات اس کا بیّن ثبوت ہیں۔

قمیصِ یوسف﷤ سے حضرت یعقوب علیہ السلام کا تبرک

(1)

سورۃ یوسف میں حضرت یعقوب علیہ السلام اور اُن کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کا طویل واقعہ بیان ہوا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے دھوکہ سے انہیں کنوئیں میں ڈال دیا تو مصر کے چند تاجر انہیں اپنے ساتھ مصر لے گئے، جس کی وجہ سے باپ بیٹے کی جدائی میں کئی سال گزرے۔ لیکن حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹے کی جدائی نہ بھولے تھے اور نابینا ہوگئے۔ کئی سال بعد جب حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے بھائیوں کے توسط سے باپ کی بینائی جانے کا حال معلوم ہوا تو انہوں نے اپنا قمیص تبرک کے لئے اپنے والدِ محترم حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس بھیجا۔

حضرت یوسف علیہ السلام کی یہ بات سورۃ یوسف میں یوں درج ہے :

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اذْهَبُواْ بِقَمِيصِي هَـذَا فَأَلْقُوهُ عَلَى وَجْهِ أَبِي يَأْتِ بَصِيرًا

’’ (حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا : ) میری یہ قمیض لے جاؤ، سو اِسے میرے باپ (حضرت یعقوب علیہ السلام) کے چہرے پر ڈال دینا، وہ بینا ہوجائیں گے۔‘‘

يوسف، 12 : 93

اس کے بعد کے واقعہ کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا :

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

فَلَمَّا أَن جَاءَ الْبَشِيرُ أَلْقَاهُ عَلَى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيرًا

’’پھر جب خوشخبری سنانے والا آ پہنچا اس نے وہ قمیص یعقوب (علیہ السلام) کے چہرے پر ڈال دیا تو اسی وقت ان کی بینائی لوٹ آئی۔‘‘

يوسف، 12 : 93

حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے اور اپنے والدِ گرامی حضرت یعقوب علیہ السلام کے درمیان قمیص کا واسطہ قائم کیا جس کی برکت سے حضرت یعقوب علیہ السلام کی کھوئی ہوئی بینائی لوٹ آئی لہٰذا ان کا یہ عمل شرک نہ ہوا۔ ان آیاتِ کریمہ سے درج ذیل امور ثابت ہوئے :

حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی لوٹانے والی ذاتِ حقیقی خالقِ کائنات کی تھی۔ پس اُن کی بینائی اللہ تعالیٰ کی قدرت سے لوٹی لیکن اس کا سبب حضرت یوسف علیہ السلام کا قمیص بنا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ عزوجل بغیر کسی واسطہ تبرک کے اُن کو بینا کر سکتا تھا لیکن اس واقعہ سے اللہ رب العزت نے اپنے انبیاء سے مس شدہ چیز کی برکت کا اظہار فرمایا ہے۔1
حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی لوٹانے والی ذاتِ حقیقی خالقِ کائنات کی تھی۔ پس اُن کی بینائی اللہ تعالیٰ کی قدرت سے لوٹی لیکن اس کا سبب حضرت یوسف علیہ السلام کا قمیص بنا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ عزوجل بغیر کسی واسطہ تبرک کے اُن کو بینا کر سکتا تھا لیکن اس واقعہ سے اللہ رب العزت نے اپنے انبیاء سے مس شدہ چیز کی برکت کا اظہار فرمایا ہے۔2
۔ جس چیز کو انبیاء کرام اور صلحاءِ عظام سے نسبت ہوجائے اس سے تبرک کرنا توحید کے منافی نہیں کیونکہ قمیض کو بھیجنے والے بھی اﷲ کے برگزیدہ نبی علیہ السلام  اور اس وسیلہ سے فائدہ اٹھانے والے بھی اﷲ کے برگزیدہ نبی علیہ السلام ہیں اور بیان کرنے والا ماحیء شرک یعنی قرآن ہے۔3
جَآءَ الْبَشِيْرُ کے اعتبار سے یہ تبرک اگرچہ ظاہراً بغیر النبی ہے لیکن فی الحقیقت یہ تبرک بآثار النبی ہے۔4
حضرت یعقوب علیہ السلام کے چہرے پر قمیض ڈالتے وقت بشارت دینے والے نے زبان سے کچھ نہ کہا بلکہ صرف قمیض کی برکت سے بینائی لوٹ آئی جو تبرکِ نفسی کی طرف اشارہ ہے۔5
غیرِ نبی سے بھی برکت حاصل کرنا سنتِ انبیاء علیہم السلام ہے۔ اس آیتِ کریمہ میں یہ امر بطورِ خاص توجہ طلب ہے کہ ایک پیغمبر حضرت یوسف علیہ السلام تبرک کا حکم دے رہے ہیں اور دوسرے پیغمبر حضرت یعقوب علیہ السلام اس قمیض سے برکت حاصل کر رہے ہیں یعنی قمیض متبرَّک بہِ ہے۔ لہٰذا جب پیغمبر کی قمیض سے تبرک امرِ جائز ہے تو اس سے تبرک بآثار الانبیاء اور تبرک بالصالحین کا عقیدہ بھی از خود ثابت ہوجاتا ہے۔6

حجرۂ مریم﷤ سے حضرت زکریا علیہ السلام کا تبرک

(2)

حضرت زکریا علیہ السلام نے جب حضرت مریم علیہا السلام کے حجرے میں بے موسم پھلوں کو دیکھا تو اسی جگہ کھڑے ہو کر نماز پڑھی اور اﷲ تعالیٰ سے دعا کی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهُ قَالَ رَبِّ هَبْ لِي مِن لَّدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاء

’’اسی جگہ زکریا ( علیہ السلام ) نے اپنے رب سے دعا کی، عرض کیا : میرے مولا! مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بیشک تو ہی دعا کا سننے والا ہے‘‘

آل عمران، 3 : 38

اس سے یہ ثابت ہوا کہ حضرت زکریا علیہ السلام کا واسطۂ تبرک و تیمن اور واسطۂ توسل اختیار کرنا شرک نہ تھا اگر ایسا ہوتا تو اللہ رب العزت خصوصیت کے ساتھ قرآن میں اس کا ذکر نہ فرماتا کیونکہ الفاظ ربانی یوں ہیں هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهُ یعنی اسی جگہ زکریا علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا کی۔

قدمینِ ابراہیم﷤ کا بابرکت ہونا

(3)

ابو الانبیاء سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے مبارک قدم تعمیرِ کعبہ کے دوران جس پتھر پر لگے وہ بھی باعثِ خیر و برکت اور تکریم و تعظیم ہوا، لوگ اس سے برکت حاصل کرتے ہیں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْناً وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ

’’اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو لوگوں کیلئے رجوع (اور اجتماع) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا، اور (حکم دیا کہ) ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو، اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام) کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کیلئے پاک (صاف) کر دو‘‘

البقرة، 2 : 125

حدیثِ مبارکہ کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشان حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نشانِ قدوم سے گہری مماثلت رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بنی اسرائیل کے علماء اس متبرک و مقدس پتھر پر یہ نشان دیکھ کر قریشِ مکہ سے پوچھا کرتے کہ کیا یہ قدموں کے نشان محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہیں؟ اس بات کی تصدیق ہونے پر وہ اس سے برکت حاصل کیا کرتے تھے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابھی اعلان نبوت نہیں فرمایا تھا لیکن یہودیوں کے بعض علماء نے مقامِ ابراہیم (علیہ السلام) پر کچھ ایسی نشانیاں دیکھیں کہ وہ لوگ ان سے برکت حاصل کرنے کے لئے آنے لگے۔ ان کو کتب سماویہ سے یہ معلوم ہوگیا تھا کہ وہ خاتم الانبیاء ہوں گے۔

اَنبیاء﷤ سے منسوب اشیاء سے حصولِ برکت

2.3.3

قرآنِ کریم میں انبیاء اور صالحین کے آثار و تبرکات سے بذاتِ خود انبیاء کا اور عوام الناس کے تبرک کا واضح ثبوت ہے۔ ذیل میں ہم قرآن وحدیث سے چند وہ حوالے درج کریں گے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آثارِ انبیاء اور اولیاء سے برکت حاصل کرنا سابقہ امم کا طریقہ تھا جس کو آقا علیہ السلام نے برقرار رکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متبعین اسی منہاج پر گامزن رہے۔

حضرت موسیٰ اور ہارون﷤ کے آثار سے تبرک

(1)

حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کے تبرکات کا ذکر قرآن حکیم میں اﷲ تبارک و تعالیٰ نے باقاعدہ اہتمام کے ساتھ ایک خاص تاریخی پسِ منظر میں فرمایا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَن يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلآئِكَةُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ

’’اور ان کے نبی نے ان سے فرمایا اس کی سلطنت (کے مِنْ جانبِ اﷲ ہونے) کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس صندوق آئے گا اس میں تمہارے رب کی طرف سے سکونِ قلب کا سامان ہوگا اور کچھ آلِ موسیٰ اور آلِ ہارون کے چھوڑے ہوئے تبرکات ہوں گے اسے فرشتوں نے اٹھایا ہوا ہو گا، اگر تم ایمان والے ہو تو بے شک اس میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے ‘‘

البقرة، 2 : 248

یہ امر واضح رہے کہ ہم نے مندرجہ بالا آیت کے ترجمہ میں تبرکات کا لفظ حضرت شاہ ولی اﷲ محدث رحمۃ اللہ علیہ دہلوی سے لیا ہے۔ اس کی تفصیل کم و بیش تفسیر کی ہر کتاب مثلاً تفسیر بغوی، قرطبی، جلالین، کبیر، بیضاوی، روح البیان، جمل، روح المعانی، خازن، مدارک، کشاف اور المظہری وغیرہ میں ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں ائمہِ تفسیر نے وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ سے مراد تبرکات لیے ہیں۔ ذیل میں چند تفاسیر کے حوالہ جات دیئے جارہے ہیں۔

1۔ امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :

قال أصحاب الأخبار : إن اﷲ تعالیٰ أنزل علي آدم عليه السلام تابوت فيه صور الأنبياء من أولاده فتوارثه أولاد آدم إلي أن وصل إلي يعقوب ثم بقي في أيدي بني إسرائيل فکانوا إذا اختلفوا في شيء تکلم وحکم بينهم وإذا حضروا القتال قدموه بين أيديهم يستفتحون به علي عدوهم. . . .

’’مؤرخین بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام پر ایک تابوت نازل فرمایا جس میں سیدنا آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے انبیاء علیہم السلام کی تصاویر تھیں۔ وہ تابوت اولادِ آدم میں وراثتاً منتقل ہوتے ہوئے حضرت یعقوب علیہ السلام تک پہنچا، پھر یہ بنی اسرائیل کے قبضے میں رہا۔ اور جب ان کے درمیان کسی مسئلے پر اختلاف ہوتا تو یہ تابوت کلام کرتا اور فیصلہ سناتا اور جب وہ کسی جنگ کے لئے جاتے تو اپنے آگے اس تابوت کو رکھتے جس کے ذریعے وہ اپنے دشمنوں پر فتح پاتے۔‘‘

رازي، التفسير الکبير، 6 : 149

2۔ امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ معالم التنزیل میں آیت وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ سے مراد حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کے تبرکات لیتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں :

(وَبَقِيَةٌ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوْسٰی وَاٰلُ هٰرُوْنَ) يعني موسيٰ وهارون نفسهما. کان فيه لوحان من التوراة ورضاض الألواح التي تکسرت وکان فيه عصا موسي ونعلاه وعمامة هارون وعصاه وقفيز من المن الذي کان ينزل علي بني اسرائيل.

(وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ) آل سے مراد خود حضرت موسیٰ و ہارون علیہا السلام کے تبرکات ہیں اس میں تورات کی دو مکمل تختیاں اور کچھ ان تختیوں کے کوٹے ہوئے ٹکڑے تھے۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اور نعلین اور حضرت ہارون علیہ السلام کا عمامہ اورعصا اور (جنت کا کھانا) مَنْ جو بنی اسرائیل پر نازل ہوتا تھا اس کا ٹکڑا بھی اس میں شامل تھا۔‘‘

1. بغوي، معالم التنزيل، 1 : 229

2. سيوطي، تفسير الجلالين، 1؛ 54

3. أبو الليث سمرقندي، تفسير سمرقندي، 1 : 188

علاوہ ازیں تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس (1 : 5)میں، امام طبری نے جامع البیان فی تفسیر القرآن (2 : 3614) میں، علامہ زمخشری نے الکشاف (1 : 321) میں، علامہ ابنِ کثیرنے تفسیر القرآن العظیم (1 : 302) میں، امام سیوطی نے الدرالمنثور (1 : 2758)میں، امام آلوسی نے روح المعانی (2 : 169) میں، علامہ شوکانی نے فتح القدیر (1 : 267) میں، علامہ محمد العمادی نے تفسیر ابی سعود ( 1 : 241) میں اور قاضی ثناء اﷲ پانی پتی نے تفسیر المظہری (1 : 249) میں زیرِبحث آیت کی تفسیر کرتے ہوئے وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ سے مراد حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کے تبرکات لئے ہیں جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اور نعلین مبارک، حضرت ہارون علیہ السلام کا عصا اور عمامہ، ان کا لباس، تورات کے بعض اجزاء اور مَنْ کے ٹکڑے جو بنی اسرائیل پر (آسمان سے) نازل ہوتا تھا، شامل تھے۔

3۔ مولانا عبدالماجد دریا آبادی تفسیر ماجدی میں سورۃ البقرۃ، 2 : 248 کی آیت کے تحت لکھتے ہیں :

’’اَلتَّابُوْتُ۔ اس خاص صندوق کا اصطلاحی نام تابوتِ سکینہ ہے۔ یہ بنی اسرائیل کا اہم ترین ملی اور قومی ورثہ تھا۔ اس میں تورات کا اصل نسخہ مع تبرکاتِ انبیاء محفوظ تھا۔ بنی اسرائیلی اس کو انتہائی برکت و مقدس سمجھتے تھے۔ سفر و حضر، جنگ و امن ہر حال میں اسے بڑی حفاظت سے اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ یہ کچھ ایسا بڑا نہ تھا۔ موجودہ علماءِ یہود کی تحقیق کے مطابق اس کی پیمائش حسبِ ذیل تھی :

طول۔ ۔ ۔ دو فٹ چھ انچ

عرض۔ ۔ ۔ ایک فٹ چھ انچ

بلندی۔ ۔ ۔ ایک فٹ چھ انچ

بنی اسرائیل اپنی ساری خوش بختی اسی سے وابستہ سمجھتے تھے، مدت ہوئی فلسطینی اسے ان سے چھین کر لے گئے تھے، اسرائیلی اسے اپنے حق میں انتہائی نحوست و بد طالعی سمجھ کر اس کی واپسی کے لیے نہایت درجہ بیتاب و مُضطرب تھے۔ ۔ ۔ ۔

طالوت کے وقت میں یہ تابوت واپس آجانے کے بعد تاریخ کا بیان ہے کہ بنی اسرائیل کے قبضہ میں حضرت سلیمان علیہ السلام (متوفی 933 ق، م) تک رہا، اور آپ نے بیت المقدس میں ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر کے بعد اسی میں اُسے بھی رکھ دیا تھا، اس کے بعد سے اس کا پتہ نہیں چلتا، یہود کاعام خیال یہ ہے کہ یہ تابوت اب بھی ہیکلِ سلیمانی کی بنیادوں کے اندر دفن ہے۔‘‘

عبدالماجد دريا آبادي، تفسير ماجدي، 1 : 459

4۔ مولانا اشرف علی تھانوی اپنی تفسیر ’’بیان القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’ (اور جب اُن لوگوں نے پیغمبر سے یہ درخواست کی کہ اگر کوئی ظاہری حجت بھی ان کی من جانب اﷲ بادشاہ ہونے کی ہم مشاہدہ کرلیں تو اور زیادہ اطمینان ہو جاوے اُس وقت) اُن سے اُن کے پیغمبر نے فرمایا کہ اُن کے (من جانب اﷲ) بادشاہ ہونے کی یہ علامت ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق (بدوں تمہارے لائے ہوئے) آ جاوے گا جس میں تسکین (اور برکت) کی چیز ہے۔ تمہارے رب کی طرف سے (یعنی تورات اور تورات کا من جانب اﷲ ہونا ظاہر ہے) اور کچھ بچی ہوئی چیزیں ہیں جن کو حضرت موسیٰ و حضرت ہارون علیہما السلام چھوڑ گئے ہیں (یعنی ان حضرات کے کچھ ملبوسات وغیرہ غرض) اُس صندوق کو فرشتے لے آویں گے۔ اس (طرح سے صندوق کے آ جانے) میں تم لوگوں کے واسطے پوری نشانی ہے۔ اگر تم یقین لانے والے ہو۔ اس صندوق میں تبرکات تھے۔‘‘

مزید حاشیے میں لکھتے ہیں : قولہ تعالیٰ :

’’يَأْتِيْکُمُ التَّابُوْتُ فِيْهِ سَکِيْنَةٌ ‘‘

’’اس میں اصل ہے آثارِ صالحین سے برکت حاصل کرنے کی۔‘‘

اشرف علی تهانوی، بيان القرآن، 1 : 145

اس تفصیل کا مقصود یہ امر واضح کرنا ہے کہ جب بنی اسرائیل کو انپے انبیاء علیہم السلام کے تبرکات کے ذریعے اﷲ تعالیٰ نے طرح طرح کے دنیوی و اخروی اور ظاہری و باطنی فوائد عطا فرمائے تھے جس پر قرآن مجید خود شاہدہے تو کیا امتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قلبی نسبت و تعلق اور سچی محبت و ادب کے ذریعے ظاہری و باطنی تبرکات و فیوضات نصیب نہیں ہوں گے؟ یقینا پہلی امتوں سے کہیں زیادہ بڑھ کر نصیب ہوں گے۔ ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فقط ذہنی اور فکری تعلق استوار کیا ہے مگر قلبی اور باطنی تعلق کمزور کر لیا ہے۔ جو لوگ آج بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایسا قلبی و روحانی رشتہ قائم کر لیتے ہیں وہ اپنی زندگی میں اب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الطافِ کریمانہ اور فیضان کے نظارے کرتے ہیں۔

حضرت صالح﷤ کی اونٹنی سے منسوب کنویں سے تبرک

(2)

اللہ رب العزت انبیاء کرام علیہم السلام اور اپنے مقرب بندوں کو عطا کردہ چیزوں میں اتنی برکت اور تاثیر رکھ دیتے ہیں کہ اُن سے نسبت شدہ چیزوں کو بھی بابرکت بنا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح کا ایک واقعہ تاریخ کے اوراق میں احادیث صحیحہ سے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی سے منسوب کنوئیں کے بارے میں بھی ملتا ہے۔ حضرت صالح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اونٹنی معجزہ کے طور پر عطا فرمائی تھی لہٰذا اس کے مبارک اور بابرکت ہونے میں شک کی کوئی گنجائش نہیں، لیکن بات صرف یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ بات یہاں تک پہنچتی ہے کہ وہ اونٹنی جس کنوئیں سے پانی پیتی تھی اس کو بھی نبی کی نسبت سے بابرکت بنا دیا گیا۔

واقعہ یوں ہے کہ حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی ایک کنویں سے پانی پیتی تھی۔ ایک پورا دن اس کے لئے خاص تھا قومِ صالح کو یہ ناگوار گزرا اور انہوں نے حضرت صالح علیہ السلام کی طرف سے عذابِ الٰہی کی وعید کے باوجود اس اونٹنی کو ذبح کر ڈالا نتیجتاً اللہ رب العزت کا عذاب نازل ہوا اور پوری قوم ہلاک ہو گئی۔

غزوۂ تبوک کے موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے جانثار صحابہ کے ہمراہ جب اس مقام پر سے گزر ہوا تو اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس مقام سے آگاہ فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس موقع پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو اس وادی سے تیزی کے ساتھ گزرنے کا حکم دیا اور تباہ شدہ قوم کے کنویں سے پانی پینے سے منع فرمایا اور اس سے آٹا گوندھنے اور برتن دھونے سے بھی منع فرمایا بلکہ گوندھا ہوا آٹا اور جمع کیا ہوا پانی پھینکنے کا حکم دیا۔ اس کی بجائے انہیں اس مبارک کنویں کا پانی استعمال کرنے کی ترغیب دی جس سے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی پیا کرتی تھی۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

أَنَّ النَّاسَ نَزَلُوْا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَرْضَ ثَمُوْدَ الْحِجْرَ فَاسْتَقَوْا مِنْ بِئْرِهَا وَاعْتَجْنُوْا بِهِ فَأَمَرَهُمْ رَسُولُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أنْ يُهَرِيقُو مَا اسْتَقَوْا مِنْ بِئرِهَا وَأَنْ يَعْلِفُوْا الإِبِلَ الْعَجِيْنَ وَأمَرَهُمْ أن يَسْتَقُوْا مِنَ البِئْرِ الَّتِي کَانَتْ تَرِدُهَا النَّاقَةُ.

’’لوگ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ثمود کی سر زمین حجر میں اُترے۔ اس کے کنوؤں سے پانی نکالا اور اس سے آٹا گوندھا۔ انہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ اس وادی کے کنویں سے جو پانی نکالا ہے اسے پھینک دو اور گوندھا ہوا آٹا اونٹوں کو کھلا دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کو حکم دیا وہ اس (مبارک) کنویں سے پانی لیں جس پر حضرت صالح علیہ السلام کی اُونٹنی آتی تھی۔‘‘

حوالاجات

علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر الجامع الاحکام القرآن میں سورۃ الحجر کی مذکورہ آیت کی تفسیر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مندرجہ بالا اِرشاد سے تبرک بالآثار کا استنباط کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

أمره صلي الله عليه وآله وسلم أن يستقوا من بئر الناقة دليل علي التبرک بآثار الأنبياء والصالحين وإن تقادمت أعصارهم وخيفت آثارهم.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد فرمانا کہ حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کے کنویں سے پانی لو، انبیاء و صالحین کے آثار سے تبرک پر دلیل ہے اگرچہ زمانے گذر چکے ہوں اور ان کے مبارک آثار آنکھوں سے اوجھل ہو چکے ہوں۔‘‘

قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 10 : 47

اسی حدیث کی تشریح میں شارح صحیح مسلم امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس حدیث پاک سے متعدد فوائد کاثبوت ہے۔

و منها مجانبة آبار الظالمين والتبرک بآبار الصالحين.

’’ان میں ظالموں کے منحوس کنووں سے اجتناب اور صالحین کے مبارک کنووں سے برکت حاصل کرنا مراد ہے۔‘‘

نووي، شرح صحيح مسلم، 18 : 112

امام نووی کی یہ تشریح دراصل سلف صالحین کے صحیح عقیدہ کی ترجمان ہے کہ کس طرح ہمارے اسلاف صالحین اور ان کے آثار سے تبرک حاصل کرتے تھے۔ لہٰذا صحیح سلفی عقیدہ یہ ہے کہ بعض مقامات بھی بابرکت ہوتے ہیں اور ان کا مبارک ہونا کسی نیک بندے یا کسی شعائر اﷲ کی نسبت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اب متذکرہ بالا آیتِ کریمہ سے یہ ثابت ہوا کہ جس طرح نیک بندگانِ خدا کی نسبت سے کوئی جگہ مبارک ہوسکتی ہے تو اس کے برعکس ظالم اور نافرمان قوم کی وجہ سے کوئی خطہ منحوس بھی ہوسکتا ہے۔ جس طرح مبارک مقامات سے تبرک حاصل کرنا درست ہے اسی طرح جس مقام پر عذابِ الٰہی کا نزول ہوا ہو وہاں غضبِ الٰہی سے پناہ مانگنا بھی سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔ کثیر احادیثِ مبارکہ سے بھی تبرکاتِ صالحین کی اصل ثابت ہے۔

رسول اﷲﷺ کے جسدِ اقدس سے حصولِ برکت

2.3.4

کتبِ احادیث کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دعا کرانے کے علاوہ بھی بہت سی صورتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تبرک حاصل کرتے تھے، مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اطہر کو تبرکاً مس کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضوسے بچے ہوئے پانی سے تبرک حاصل کرتے۔ جس پانی سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا دستِ مبارک دھوتے اسے اپنے چہروں اور بدن کے حصوں پر مل کر تبرک حاصل کرتے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچے ہوئے کھانے سے تبرک حاصل کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینہ مبارک، لعابِ دہن، موئے مبارک، انگوٹھی مبارک، بستر مبارک، چارپائی مبارک اور چٹائی مبارک سے برکت حاصل کرتے تھے۔ الغرض وہ ہر اس چیز سے تبرک حاصل کرتے جس کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اقدس سے تھوڑی یا زیادہ نسبت ہوتی بلکہ جن مبارک مکانوں اور رہائش گاہوں میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سکونت اختیار فرمائی، جن مقدس جگہوں پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازیں ادا فرمائیں، جن بخت رسا راہوں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گزرے، ان کے گرد و غبار تک سے بھی انہوں نے تبرک حاصل کیا۔ اس حوالے سے چودہ موضوعات کے تحت احادیثِ مبارکہ ذیل میں درج کی جاتی ہیں۔

جسدِ اقدس سے حصولِ برکت

(1)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک دیہاتی حضرت زاہر رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں دیہات سے تحفہ لایا کرتے تھے۔ جب وہ واپس جانے لگتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اسے سامان عنایت کرتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : زاہر ہمارا دیہاتی ہے اور ہم اس کے شہری ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے بہت محبت کرتے تھے۔ ان کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسد اقدس سے حصول تبرک کا واقعہ ایک حدیث مبارکہ میں یوں ہے :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

فَأتَاهُ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم يَوْماً وَهُوَ يَبِيْعُ مَتَاعَهُ فَاحْتَضَنَهُ مِنْ خَلْفِهِ وَلَا يُبْصِرُهُ، فَقَالَ : مَنْ هَذَا؟ ارْسِلْنِي، فَالْتَفَتَ فَعَرَفَ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم فَجَعَلَ لَا يَألُو مَا أَلْصَقَ ظَهْرَهُ بِصَدْرِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم حِيْنَ عَرَفَهُ.

’’ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور وہ (بازار میں) سامان بیچ رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو پیچھے سے اس طرح بغل گیر ہوگئے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں دیکھ سکتے تھے، انہوں نے کہا : کون ہے؟ مجھے چھوڑ دو، پھر جب انہوں نے مڑ کر دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں تو (عقیدت و محبت کے ساتھ) اپنی پیٹھ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینۂ اقدس سے حصولِ برکت کے لئے مَلنا شروع کر دیا۔‘‘

حوالاجات

دستِ اقدس کی برکتیں

(2)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھ ہزاروں باطنی اور روحانی فیوض و برکات کے حامل تھے۔ جس کسی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھ سے مَس کیا اُس کی قسمت ہی بدل گئی۔ وہ ہاتھ کسی بیمار کو لگا تو نہ صرف یہ کہ وہ تندرست و شفایاب ہوگیا بلکہ اس خیر وبرکت کی تاثیر تادمِ آخر وہ اپنے قلب و روح میں محسوس کرتا رہا۔ کسی کے سینے کو یہ ہاتھ لگا تو اُسے علم و حکمت کے خزانوں سے مالا مال کر دیا۔ بکری کے خشک تھنوں میں اُس دستِ اقدس کی برکت اُتری تو وہ عمر بھر دودھ دیتی رہی۔ توشہ دان میں موجود گنتی کی چند کھجوروں کو اُن ہاتھوں نے مَس کیا تو اُس سے سالوں تک منوں کے حساب سے کھانے والوں نے کھجوریں کھائیں مگر پھر بھی اُس ذخیرہ میں کمی نہ آئی۔ بقول اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰہ علیہ :

ہاتھ جس سمت اُٹھا غنی کر دیا

موج بحرِ سخاوت پہ لاکھوں سلام

( احمد رضا خان بريلوي، حدائق بخشش، 2 : 26)

اُن ہاتھوں کی فیض رسانی سے تہی دست و بے نوا، دوجہاں کی نعمتوں سے مالا مال ہوگئے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے اپنی زندگیوں میں بارہا ان مبارک ہاتھوں کی خیر و برکت کا مشاہدہ کیا۔ وہ خود بھی اُن سے فیض حاصل کرتے رہے اور دوسروں کو بھی فیض یاب کرتے رہے۔ اس حوالے سے متعدد روایات مروی ہیں ذیل میں چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے :

دستِ مصطفیٰﷺ سے برکت کا حصول اہلِ مدینہ کا معمول

1

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

کَانَ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِذَا صَلَّي الْغَدَاةَ جَاءَ خَدَمُ الْمَدِيْنَةِ بِآنِيَتِهِمْ فِيْهَا الْمَاءُ، فَمَا يُؤْتَي بِإنَاءٍ إِلَّا غَمَسَ يَدَهُ فِيْهَا، فَرُبَّمَا جَاءُوْهُ فِي الْغَدَاةِ الْبَارِدَةِ فَيَغْمِسُ يَدَهْ فِيْهَا.

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تو خدّامِ مدینہ پانی سے بھرے ہوئے اپنے اپنے برتن لے آتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر برتن میں اپنا ہاتھ مبارک ڈبو دیتے۔ بسا اوقات سرد موسم کی صبح بھی ایسا ہی ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا ہاتھ ٹھنڈے پانی والے برتنوں میں بھی ڈبو دیتے۔‘‘

حوالاجات

امام مسلم اس حدیث کو جس باب کے تحت لائے ہیں وہ ایمان افروز ہے جس سے ان کے اہلِ سنت و جماعت کے عقیدۂ راسخہ کا پتہ چلتا ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

باب قُربِ النَّبِیّ عليه السلام مِنَ النَّاسِ وَ تَبَرُّکِهِم بِهِ.

’’لوگوں کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرب اور برکت حاصل کرنا۔‘‘

حوالاجات

اس حدیث کے تحت امام نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :

وفيه التّبرّک بآثار الصّالحين وبيان ما کانت الصّحابة عليه من التّبرّک بآثاره صلي الله عليه وآله وسلم وتبرّکهم بإدخال يده الکريمة في الآنية.

’’اس حدیثِ مبارکہ میں آثار صالحین سے تبرک کا بیان ہے اور اس چیز کا بیان کہ صحابہ کس طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار مبارکہ سے برکت حاصل کرتے تھے۔ مزید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کو برتن میں ڈبو کر اس سے تبرک کا بیان ہے۔‘‘

نووي، شرح صحيح مسلم، 15 : 82

حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کی شفایابی

2

حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

ذَهَبَتْ بِي خَالَتِي إِلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَقَالَتْ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّ ابْنَ أُخْتِي وَجِعٌ فَمَسَحَ رَأْسِي وَ دَعَا لِي بِالْبَرَکَةِ، ثُمَّ تَوَضَّأَ، فَشَرِبْتُ مِنْ وَضُوئِهِ، ثُمَّ قُمْتُ خَلْفَ ظَهْرِهِ، فَنَظَرْتُ إِلَي خَاتَمِهِ بَيْنَ کَتِفَيْهِ، مِثْلَ زِرِّ الْحَجَلَةِ.

’’میری خالہ جان مجھے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں لے گئیں اور عرض گزار ہوئیں : یا رسول اللہ صلی اﷲ علیک وسلم! میرا بھانجا بیمار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے سر پر اپنا دستِ اقدس پھیرا اور میرے لئے برکت کی دعا فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو کیا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو کا پانی پیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے کھڑا ہو گیا تو دونوں مبارک کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت کی زیارت کی جو کبوتروں کے انڈے یا حجلۂ عروسی کے جھالر جیسی تھی۔‘‘

حوالاجات

دستِ مصطفیٰﷺ کا متعدی فیض

3

حضرت ذیال بن عبید رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک جلیل القدر صحابی حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ ان کے والد نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کے حق میں دعائے خیر کے لئے عرض کیا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

فَمَسَحَ رَأسَهُ وَقَالَ : بَارَکَ اﷲُ فِيْکَ.

’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک اُن کے سر پر پھیرا اور فرمایا، اللہ تعالیٰ تجھے برکت عطا فرمائے۔‘‘

حوالاجات

دستِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکتیں حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کو نصیب ہوئیں اس حوالے سے حضرت ذیال رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

فَرَأَيْتُ حَنْظَلَةَ يُوْتَي بِالإِنْسَانِ إِلْوَارِمِ وَجْهُهُ أَوِالْبَهِيْمَةِ الْوَارِمَةِ الضَّرْعُ فَيَتْفُلُ عَلَي يَدَيْهِ وَيَقُوْلُ : بِسْمِ اﷲِ وَيَضَعُ يَدْهُ عَلَي رَأسِهِ وَيَقُولُ عَلَي مَوْضِعِ کَفِّ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَيَمْسَحُهُ عَلَيهِ وَقَالَ ذَيَالٌ فَيَذْهَبُ الْوَرَمُ.

’’میں نے دیکھا کہ جب کسی شخص کے چہرے پر یا چوپائے کے تھنوں پر ورم ہو جاتا تو لوگ اسے حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کے پاس لے آتے اور وہ اپنے ہاتھ پر اپنا لعابِ دہن ڈال کر بسم اللہ پڑھتے پھر اپنا ہاتھ اپنے سر پر اس جگہ رکھتے جہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دستِ اقدس لگا تھا خاص اس جگہ کو مس کرتے۔ اور پھر وہ ہاتھ ورم کی جگہ پر مل دیتے حضرت ذیال فرماتے ہیں ان کے اس عمل سے ورم فوراً اُتر جاتا۔‘‘

حوالاجات

دستِ مصطفیٰﷺ کی دائمی تاثیر

4

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو زید انصاری رضی اللہ عنہ کے سر اور داڑھی پر اپنا دستِ اقدس پھیرا تو اُس کی برکت سے 100 سال سے زائد عمر پانے کے باوجود اُن کے سر اور داڑھی کا ایک بال بھی سفید نہ ہوا۔ اس واقعہ کو وہ خود روایت کرتے ہیں :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

قَالَ لِيْ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : ادْنُ مِنِّي، قَالَ : فَمَسَحَ بِيَدِهِ عَلَي رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ، قَالَ، ثُمَّ قَالَ : اَللّٰهُمَّ جَمِّلْهُ وَأَدِمْ جَمَالَهُ، قَالَ : فَلَقَدْ بَلَغَ بِضْعًا وَمِائَةَ سَنَةٍ، وَمَا فِي رَأسِهِ وَلِحْيَتِهِ بَيَاضٌ إِلَّا نَبَذٌ يَسِيْرٌ، وَلَقَدْ کَانَ مُنْبَسِطَ الْوَجْهِ وَلَمْ يَنْقَبِضْ وَجْهُهُ حَتَّي مَاتَ.

’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ میرے قریب ہو جاؤ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے سر اور داڑھی پر اپنا دستِ مبارک پھیرا اور دعا کی : الٰہی! اسے زینت بخش اور ان کے حسن و جمال کو دوام بخش دے۔ راوی کہتے ہیں کہ اُنہوں نے 100 سال سے زیادہ عمرپائی، لیکن ان کے سر اور داڑھی کے بال سفید نہیں ہوئے، سیاہ رہے، ان کا چہرہ صاف اور روشن رہا اور تادمِ آخر ایک ذرہ بھر شکن بھی چہرہ پر نمودار نہ ہوئی۔‘‘

حوالاجات

توشہ دان میں کھجوروں کا ذخیرہ

5

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

أَتَيْتُ النَّبِيَ صلي الله عليه وآله وسلم بِتَمَرَاتٍ، فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ ادْعُ اﷲَ فِيْهِنَّ بِالبَرَکَةِ فَضَمَّهُنَّ ثُمَّ دَعَا لِي فِيْهِنَّ بِالْبَرَکَةِ. فَقَالَ لِي : خُذْهُنَّ وَاجْعَلْهُنَّ فِي مِزْوَدِکَ هَذَا أَوْ فِي هَذَا المِزْوَدِ، کُلَّمَا أَرَدْتَ أَنْ تَأخُذَ مِنْهُ شَيْئًا فَأَدْخِلْ فِيْهِ يَدَکَ فَخُذْهُ وَلَا تَنْثُرْهُ نَثْرًا، فَقَدْ حَجَلْتُ مِنْ ذٰلِکَ التَمْرِ کَذَا وَکَذَا مِنْ وَسْقٍ فِي سَبِيْلِ اﷲ، فَکُنَّا نَأکُلُ مِنْهُ وَ نُطْعِمُ، وَ کَانَ لَا يُفَارِقُ حِقْوِي حَتَّي کَانَ يَوْمُ قَتْلِ عُثْمَانَ فَإِنَّهُ انْقَطَعَ.

’’میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کچھ کھجوریں لے کر حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ، اللہ تعالیٰ سے ان کھجوروں میں برکت کے لئے دعا فرمائیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اکٹھا کیا پھر میرے لئے ان میں برکت کی دعا فرمائی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا انہیں لے لو اور اپنے اس توشہ دان میں بکھیر دو۔ (حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں) میں نے ان میں سے اتنے اتنے وسق کھجوریں اللہ کے راستے میں خرچ کیں، ہم خود اس سے کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے۔ وہ توشہ دان کبھی بھی میری کمر سے جدا نہ ہوا یہاں تک کہ جس دن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو وہ توشہ دان بھی ٹوٹ گیا۔‘‘

حوالاجات

بیہقی، ابو نعیم، ابنِ سعد، ابنِ عساکر اور زرقانی نے اس طرح کا ایک واقعہ ابو منصور سے بطریق حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کیا ہے کہ ایک جنگ میں سینکڑوں کی تعداد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ موجود تھے جن کے کھانے کے لئے کچھ نہ تھا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اُس موقع پر میرے ہاتھ ایک توشہ دان (ڈبہ) لگا، جس میں کچھ کھجوریں تھیں۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استفسار پر میں نے عرض کیا کہ میرے پاس کچھ کھجوریں ہیں۔ فرمایا : لے آؤ۔ میں وہ توشہ دان لے کر حاضر خدمت ہوگیا اور کھجوریں گنیں تو وہ کل اکیس نکلیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ اقدس اُس توشہ دان پر رکھا اور پھر فرمایا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

اُدْعُ عَشَرَةً، فدعوت عشرةً فأکلوا حتٰي شبعوا ثم کذالک حتٰي أکل الجيش کله وبقي من التمر معي في المزود. قال : يا أباهريرة! إذا أردت أن تأخذ منه شيئًا فأدخل يدک فيه ولا تکفه. فأکلتُ منه حياة النبي صلي الله عليه وآله وسلم وأکلت منه حياة أبي بکر کلها وأکلت منه حياة عمر کلها وأکلت منه حياة عثمان کلها، فلما قُتل عثمان انتهب ما في يدي وانتهب المزود. ألا أخبرکم کم أکلتُ منه؟ أکثر من مأتي وسق.

’’دس آدمیوں کو بلاؤ! میں نے دس افراد بلائے۔ وہ آئے اور خوب سیر ہو کرچلے گئے۔ اسی طرح دس دس آدمی آتے اور سیرہو کر اٹھ جاتے یہاں تک کہ تمام لشکر نے کھجوریں کھائیں اور پھر بھی کچھ کھجوریں میرے پاس توشہ دان میں باقی رہ گئیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابوہریرہ! جب تم اس توشہ دان سے کھجوریں نکالنا چاہو ہاتھ ڈال کر ان میں سے نکال لیا کرو، لیکن توشہ دان نہ انڈیلنا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اس سے کھجوریں کھاتا رہا اور پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں پھر عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں حتی کہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پورے عہد خلافت تک اس میں سے کھجوریں کھاتا رہا اور خرچ کرتا رہا۔ جب عثمان غنی رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے تو جو کچھ میرے پاس تھا وہ چوری ہو گیا اور وہ توشہ دان بھی میرے گھر سے چوری ہوگیا۔ میں تمہیں کیا بتاؤں کہ میں نے اس میں سے کتنی کھجوریں کھائی ہوں گی؟ کم و بیش دو سو وسق سے زیادہ۔‘‘

حوالاجات

یہ سب کچھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کی برکتوں کا نتیجہ تھا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اُس توشہ دان سے منوں کے حساب سے کھجوریں نکالیں پھر بھی تادمِ آخر وہ ختم نہ ہوئیں۔

قدمین شریفین کی برکات

(3)

جس پتھر پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام قدم مبارک رکھ کر کعبہ تعمیر کرتے رہے وہ آج بھی صحنِ کعبہ میں مقامِ ابراہیم کے اندر محفوظ ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے لگنے سے وہ پتھر نرم ہوگیا اور اُن قدموں کے نقوش اُس پر ثبت ہو گئے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک قدموں کو بھی یہ معجزہ عطا فرمایا کہ اُن کی وجہ سے پتھر نرم ہو جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدومِ مبارک کے نشان بعض پتھروں پر آج تک محفوظ ہیں۔

1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

أَنّ النَّبِيَ صلي الله عليه وآله وسلم کَانَ إذَا مَشَي عَلَي الصَّخر غَاصَتْ قَدَمَاهُ فِيْهِ وَأَثرت.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب پتھروں پر چلتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں مبارک کے نیچے وہ نرم ہو جاتے اور قدم مبارک کے نشان اُن پر لگ جاتے۔‘‘

حوالاجات

2۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین شریفین بڑے ہی بابرکت اور منبعِ فیوضات و برکات تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک اگر کسی سست رفتار کمزور جانور کو لگ جاتے تو وہ تیز رفتار ہو جاتا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آکر اپنی اُونٹنی کی سست رفتاری کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پائے مبارک سے اُسے ٹھوکر لگائی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِه لَقَدْ رَأَيْتُهَا تسبق القَائِد.

’’اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اس کے بعد وہ ایسی تیز ہو گئی کہ کسی کو آگے بڑھنے نہ دیتی۔‘‘

حوالاجات

3۔ غزوۂ ذات الرقاع کے موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک قدموں کی برکت سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا اُونٹ بھی تیز رفتار ہو گیا تھا۔ حدیث پاک میں ہے :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

فَضَرَبَهُ بِرِجْلِهِ وَ دَعَا لَهُ، فَسَارَ سَيْراً لَمْ يَسْرِمِثْلَهُ.

’’پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پائے مبارک سے اُسے ٹھوکر لگائی اور ساتھ ہی دُعا فرمائی، پس وہ اتنا تیز رفتار ہوا کہ پہلے کبھی نہ تھا۔‘‘

حوالاجات

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیوض و برکات بالخصوص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا سے جو فائدہ ملتا اسے خاص الفاظ برکت کے ساتھ منسوب کرتے ہوئے کبھی بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ذہنوں میں یہ بات نہ آتی تھی کہ برکت تو اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ معاذ اللہ کہیں خلاف توحید نہیں بلکہ اپنے قول و عمل سے اس چیز کا برملا اظہار ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے فلاں فائدہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ اپنے اس صحابی سے اونٹ کے بارے میں دریافت کیا کہ اب تیرے اُونٹ کا کیا حال ہے تو اُنہوں نے عرض کیا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

بِخَيْرٍ قَدْ أَصَابَتْهُ بَرَکَتُکَ.

’’بالکل ٹھیک ہے، اُسے آپ صلی اﷲ علیک وسلم کی برکت حاصل ہو گئی ہے۔‘‘

حوالاجات

موئے مبارک سے حصولِ برکت

(4)

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے برکات کو حاصل کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے تھے۔ جس چیز کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت ہو جاتی اسے وہ دنیا و مافیہا سے عزیز تر جانتے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے عمل سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اندر یہ شعور بیدار کر دیا تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار و تبرکات کو محفوظ رکھتے اور ان کی انتہائی تعظیم و تکریم کرتے اور ان سے برکت حاصل کرتے۔

1۔ امام ابنِ سیرین رحمۃ اﷲ علیہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لَمَّا حَلَقَ رَأسَهُ، کَانَ أَبُوْ طَلْحَةَ أَوَّلَ مَنْ أَخَذَ مِنْ شَعْرِهِ.

’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر مبارک منڈوایا تو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک حاصل کئے۔‘‘

حوالاجات

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک، وضو کے مبارک پانی سے، لعاب دہن، پسینہ مبارک سے اور جن جن چیزوں کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مس کیا ہوتا ان سے برکت حاصل کرتے۔

2۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَتَي مِنًي فَأَتَي الْجَمْرَةَ فَرَمَاهَا ثُمَّ أَتَي مَنْزِلَهُ بِمِنًي وَ نَحَرَ ثُمَّ قَالَ لِلْحَلَّاقِ خُذْ. وَ أَشَارَ إِلَي جَانِبِهِ الْأَيْمَنِ ثُمَّ الْأَيْسَرِ ثُمَّ جَعَلَ يُعْطِيْهِ النَّاسَ.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب منیٰ تشریف لائے تو پہلے جمرہ عقبہ پر گئے اور وہاں کنکریاں ماریں، پھر منیٰ میں اپنی قیام گاہ پر تشریف لے گئے وہاں قربانی کی اور حجام سے سر مونڈنے کو کہا اور اسی کو دائیں جانب کی طرف اشارہ کیا پھر بائیں جانب اشارہ کیا پھر اپنے مبارک بال لوگوں کو عطا فرمائے۔‘‘

حوالاجات

علامہ شوکانی اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں :

قوله ثم جعل يعطيه للناس فيه مشروعية التّبرّک بشعر أهل الفضل ونحوه.

’’اس روایت میں صاحبِ فضل شخصیات کے بال اور اس طرح ان کی دیگر اشیاء سے تبرک کا ثبوت ہے۔‘‘

1. شوکاني، نيل الأوطار، 5، 128

2. شمس الحق عظيم آبادي، عون المعبود، 5 : 317

3۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

لَمَّا رَمَي رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم الْجَمْرَةَ وَ نَحَرَ نُسُکَهُ وَحَلَقَ نَاوَلَ الْحَالِقُ شِقَّهُ الْأَيْمَنَ فَحَلَقَهُ، ثُمَّ دَعَا أَبَا طَلْحَةَ الْأَنْصَارِيَّ فَأَعْطَاهُ إِيَاهُ، ثُمَّ نَاوَلَهُ الشِّقَّ الْأَيْسَرَ، فَقَالَ : احْلِقْ. فَحَلَقَهُ، فَأَعْطَاهُ أَبَا طَلْحَةَ، فَقَالَ : اقْسِمْهُ بَيْنَ النَّاسِ.

’’جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقامِ جمرہ پر کنکریاں ماریں اور اپنی قربانی کر لی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سرِ انور کا دایاں حصہ حجام کے سامنے کر دیا۔ اس نے بال مبارک مونڈ دیئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان کو وہ موئے مبارک عطا کئے، اِس کے بعد حجام کے سامنے بائیں جانب کی اور فرمایا : یہ بھی مونڈو، اس نے ادھر کے بال مبارک بھی مونڈ دیئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ بھی حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو عطا کئے اور فرمایا : یہ بال لوگوں میں تقسیم کر دو۔‘‘

حوالاجات

امام ابنِ حجر عسقلانی نے اسی حدیث کو فتح الباری شرح صحیح البخاری میں بحوالہ مسلم ذکر کرکے لکھا ہے کہ وفیہ التبرک بشعرہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ’’اس حدیثِ مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک سے تبرک کا ثبوت ہے۔‘‘

ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 1 : 274

4۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ، وَالْحَلاَّقُ يَحْلِقُهُ وَأَطَافَ بِهِ أَصْحَابُهُ، فَمَا يُرِيْدُوْنَ أَنْ تَقَعَ شَعْرَةٌ إِلَّا فِي يَدِ رَجُلٍ.

’’میں نے دیکھا : حجام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرِ اقدس کی حجامت بنا رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد گھوم رہے تھے اور ان میں سے ہر ایک کی یہی کوشش تھی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی ایک بال مبارک بھی زمین پر گرنے نہ پائے۔ بلکہ ان میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ میں آ جائے۔‘‘

حوالاجات

ناخن مبارک سے حصولِ برکت

(5)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ منیٰ میں حضرت عبداﷲ بن زید کو اپنے موئے مبارک اور ناخن کٹوا کر عطا فرمائے جن کو انہوں نے بطورِ تبرک سنبھال کر رکھا۔ ان کے صاحبزادے حضرت محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

فَحَلَقَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم رَأسَهُ فِي ثَوْبِهِ فَأَعْطَاهُ فَقَسَمَ مِنْهُ عَلَي رِجَالٍ وَ قَلَّمَ أَظْفَارَهُ فَأَعْطَاهُ صَاحِبَهُ.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی چادر میں اپنا سر اقدس منڈوایا اور بال انہیں عطا کر دیئے جس میں سے کچھ انہوں نے لوگوں میں تقسیم کردیئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناخن مبارک کٹوائے اور وہ انہیں اور ان کے ساتھی کو عطا کر دیئے۔‘‘

حوالاجات

مبارک لعابِ دہن سے حصولِ برکت

(6)

مستند احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیماروں کو دم فرماتے اور اپنا مبارک لعابِ دہن اپنی انگشتِ شہادت سے زمین پر ملتے اور اسے منجمد کر کے بیمار شخص کی تکلیف کی جگہ پر ملتے اور اﷲ تعالیٰ سے اس کی شفایابی کی دعا فرماتے۔

حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا بیان کرتی ہیں کہ جب کسی انسان کو تکلیف ہوتی یا کوئی زخم ہوتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا لعابِ دہن مٹی کے ساتھ ملا کر لگاتے اور اس کی شفایابی کے لئے یہ مبارک الفاظ دہراتے :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

بِسم اﷲِ، تُرْبَةُ أَرضِنَا، بِرِيْقَةِ بَعْضِنَا، يُشفَی سَقِيْمُنا، بِإذْنِ رَبِّنَا.

’’اللہ کے نام سے شفا طلب کر رہا ہوں، ہماری زمین کی مٹی اور ہم میں سے بعض کا لعاب اﷲ تعالیٰ کے حکم سے ہمارے مریض کو شفا دیتا ہے۔‘‘

حوالاجات

حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :

وانّما هذا من باب التّبرّک بأسماء اﷲ تعالي وآثار رسوله صلي الله عليه وآله وسلم .

’’بیشک اس حدیث کا تعلق ان احادیثِ مبارکہ سے ہے جس میں اسماءِ الٰہی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار سے تبرک ثابت ہے۔‘‘

ابن حجر، عسقلاني، فتح الباري، 10 : 208

امام ابنِ حجر عسقلانی نے اس حدیث کی تشریح میں یہ بھی لکھا ہے :

ثم أن الرقي والعزائم لها آثار عجيبة تتقاعد العقول.

’’پھر دم اور اسماءِ مبارکہ وغیرہ کے اثرات اس قدر حیران کن ہیں جن کی حقیقت سے عقل ماؤف ہو جاتی ہے۔‘‘

ابن حجر، عسقلاني، فتح الباري، 10 : 208

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اپنے بچوں کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گھٹی دلواتے

مستند ترین کتبِ احادیث میں یہ مثالیں بھی بکثرت ہیں کہ جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اسے گھٹّی دلوانے اور اس کا نام رکھوانے کے لیے بارگاہِ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نومولود کے منہ میں اپنا مبارک لعابِ دہن ڈالتے اور یوں اس بچے کے پیٹ میں سب سے پہلے جو چیز پہنچتی وہ تاجدارِ کائنات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک لعابِ دہن ہوتا۔

1۔ حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اﷲ عنھما بیان کرتی ہیں :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

أَنَّهَا حَمَلَتْ بِعَبْدِ اﷲِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَتْ : فَخَرَجْتُ وَأَنَا مُتِمٌّ، فَأَتَيْتُ الْمَدِيْنَةَ فَنَزَلْتُ بِقُبَاءٍ، فَوَلَدْتُهُ بِقُبَاءٍ، ثُمَّ أَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَ صلي الله عليه وآله وسلم فَوَضَعْتُهُ فِيْ حِجْرِهِ، ثُمَّ دَعَا بِتَمْرَةٍ، فَمَضَغَهَا، ثُمَّ تَفَل فِي فِيْهِ، فَکَانَ أَوَّلَ شَيْءٍ دَخَلَ جَوْفَهُ رِيْقُ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ، ثُمَّ حَنَّکَهُ بِتَمَرَةٍ، ثُمَّ دَعَا لَهُ وَبَرَّکَ عَلَيْهِ.

’’وہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حاملہ تھیں۔ انہوں نے کہا : میں مکہ سے (ہجرت کے لئے) اس حالت میں نکلی کہ میرے وضع حمل کے دن پورے تھے میں مدینہ آئی اور قبا میں ٹھہری اور وہیں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔ میں اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئی۔ میں نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود مبارک میں ڈال دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور منگوائی اور اسے چبایا۔ پھر بچے کے منہ میں لعابِ دہن ڈال دیا پس جو چیز سب سے پہلے اس کے پیٹ میں داخل ہوئی وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لعاب مبارک تھا۔ پھر اس کے تالو میں کھجور لگا دی، اس کے حق میں دعا کی اور اس پر مبارکباد دی۔‘‘

حوالاجات

2۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

ذَهَبْتُ بِعَبْدِ اﷲِ بْنِ أبِی طَلْحَةَ الْأَنْصَارِیِّ إلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم حِيْنَ وُلِدَ، وَرَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِي عَبَاءَ ةٍ يَهْنَأُ بَعِيْرًا لَهُ فَقَالَ : هَلْ مَعَکَ تَمْرٌ؟ فَقُلْتُ : نَعَمْ، فَنَاوَلْتُهُ تَمَرَاتٍ، فَأَلْقَاهُنَّ فِيْ فِيْهِ فَلَاکَهُنَّ، ثُمَّ فَغَرَفَا الصَّبِيّ فَمَجَّهُ فِي فِيْهِ، فَجَعَلَ الصَّبِيُ يَتَلَمَّظُهُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : حُبُّ الْأَنْصَارِ التَّمْرَ. وَسَمَّاهُ عَبْدَ اﷲِ.

’’جب حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو میں ان کو لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک چادر اوڑھے اپنے اونٹ کو روغن مل رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تمہارے پاس کھجوریں ہیں؟ میں نے عرض کیا : جی ہاں۔ پھر میں نے کچھ کھجوریں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیش کیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ اپنے منہ میں ڈال کر چبائیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچے کا منہ کھول کر اسے بچے کے منہ میں ڈال دیا اور بچہ اسے چوسنے لگا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انصار کو کھجوروں سے محبت ہے۔ اور اس بچے کا نام عبداللہ رکھا۔‘‘

حوالاجات

مذکورہ احادیث کے لیے امام مسلم نے عنوان باندھا ہے : باب اسْتِحْبَابِ تحْنِيْک الْمَوْلُوْدِ عِنْدَ وِلَادَتِه وَحَمْلِهِ إِلَی صَالِح يُحَنِّکُهُ یعنی ’’بچے کو پیدائش کے وقت گھٹی دینے اور کسی صالح شخص کی بارگاہ میں لے جا کر گھٹی دلوانے کا بیان۔‘‘ باب کے اس عنوان سے امام مسلم کا صحیح عقیدہ اور نظریہ معلوم ہو گیا کہ وہ صالحین سے تبرک کے قائل ہیں کیونکہ اس عنوان کے تحت اصلاً تو وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث لا رہے ہیں۔ مگر جب عنوان قائم کیا تو عمومی رکھا اور صحیح عقیدے کی وضاحت بھی کر دی شارحینِ حدیث نے بھی اس حدیث سے آثار صالحین سے تبرک کا جواز ثابت کیا ہے۔

شارح مسلم امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ مبارکہ کے تحت لکھتے ہیں :

وفي هذا الحديث فوائد، منها : تحنيک المولود عند ولادته وهو سنة بالإجماع کما سبق. ومنها : أن يحنکه صالح من رجل أو امرأة ومنها التبرک بآثار الصالحين وريفهم وکل شئ منهم.

’’اس حدیث سے کئی فوائد اخذ ہوتے ہیں جس میں سے ایک یہ ہے کہ نومولود بچے کو ولادت کے بعد گھٹی دی جائے اور مسئلہ اجماع سے ثابت ہے جیسا کہ پہلے ذکر ہوا۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ کسی صالح مرد یا صالح خاتون سے اس نومولود کو گھٹی دلوانی چاہیے۔ تیسرا فائدہ یہ ہے کہ آثارِ صالحین ان کا لعاب اور ان سے منسوب ہر چیز سے تبرک حاصل کرنا ثابت اور جائز ہے۔‘‘

نووي، شرح النووي علي صحيح مسلم، 14 : 124

آپ ﷺ کے وجود سے مس  روٹی کہ آگ نہ تپش دیتی؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

آپ ﷺ کے لعبِ دہن سے حضرت علی کی آنکھیں ٹھیک ہو جاتی؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

پسینہ مبارک سے حصولِ برکت

(7)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسدِ اطہر سے ہمیشہ پاکیزہ خوشبو آتی تھی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے اس خوشبو کو مشک و عنبر اور پھول کی خوشبو سے بڑھ کر پایا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اپنے لئے، اپنے بچوں کے لئے، اور شادی بیاہ کے موقع پر اپنی بیٹیوں کے لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینہ مبارک کو حاصل کرتے، اس سے برکت کی امید رکھتے اور بڑے اہتمام کے ساتھ اس متاعِ عزیز کو سنبھال کر رکھتے۔

1۔ حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ام سلیم رضی اﷲ عنھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے چمڑے کا ایک گدا بچھایا کرتی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ہاں اسی گدے پر قیلولہ فرمایا کرتے تھے۔ (حضرت انس رضی اللہ عنہ کا) بیان ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سونے سے بیدار ہوتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پسینہ مبارک اور موئے مبارک کو ایک شیشی میں جمع کرتیں پھر ان کو خوشبو کے برتن میں ڈال دیتیں۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور قیلولہ فرمایا۔ میری والدہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پسینہ پونچھ پونچھ کر ایک شیشی میں ڈالنے لگیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

يَا أُمَّ سُلَيْمٍ، مَا هَذَا الَّذِی تَصْنَعِيْنَ؟ قَالَتْ : هَذَا عَرَقُکَ نَجْعَلُهُ فِی طِيْبِنَا وَهُوَ مِنْ أَطْيَبِ الطَيْبِ.

’’اے ام سلیم! تم یہ کیا کر رہی ہو؟ انہوں نے عرض کیا : یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پسینہ ہے جس کو ہم اپنی خوشبو میں ڈالیں گے اور یہ سب سے اچھی خوشبو ہے۔‘‘

حوالاجات

امام ابنِ حجر عسقلانی نے اس کا ذکر کر کے ان کی تشریح میں لکھا ہے :

ويستفاد من هذه الروايات اطّلاع النبي صلي الله عليه وآله وسلم علي فعل أم سليم وتصويب.

’’اس طرح کی احادیث سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت ام سلیم کے عمل پر مطلع ہونا اور اسے درست قرار دینا ثابت ہوتا ہے۔‘‘

ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 11 : 72

2۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت اُم سُلیم رضی اﷲ عنہا کے گھر تشریف لے گئے اور وہیں آرام فرمایا جب وہ باہر سے آئیں تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسینہ مبارک آیا ہوا ہے جو چمڑے کے بستر پر جمع ہو گیا ہے۔ حضرت اُمّ سُلیم پسینہ مبارک پونچھ پونچھ کر ایک بوتل میں جمع کرنے لگیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

فَفَزِعَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : مَا تَصْنَعِيْنَ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ؟ فَقَالَتْ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ! نَرْجُو بَرَکَتَهُ لِصِبْيَانِنَا قَالَ : أَصَبْتِ.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اچانک اٹھ بیٹھے اور فرمایا : اے اُمّ سُلیم! کیا کر رہی ہو؟ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ہم اس سے اپنے بچوں کے لئے برکت حاصل کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے ٹھیک کیا ہے۔‘‘

حوالاجات

امام مسلم نے ان روایات کو جمع کرکے باب کا جو عنوان رکھا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ تبرک کے باب میں ان کا عقیدہ وہی ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور تابعینِ عظام کا تھا۔ عنوان ہے : باب طِيْبِ عَرَقِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والتَّبَرُّکِ بِہ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک پسینہ کی خوشبو اور اس سے برکت حاصل کرنا۔‘‘

مہرِنبوتﷺ سے حصولِ برکت

(8)

صحابہ اکرام  حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک جسم کی برکتیں حاصل کرنے کے لیے کوئی موقعہ ضائع نہ جانے دیتے تھے۔

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کا واقعہ

1

مہرِ نبوت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آخری نبی ہونے کی علامت ہے، سابقہ الہامی کتب میں مذکور تھا کہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک علامت اُن کی پشتِ اقدس پر مہرِ نبوت کا موجود ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ کتاب جنہوں نے اپنی کتابوں میں پڑھ رکھا تھا اس نشانی کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاتے تھے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشتِ اقدس پر مہرِ نبوت کی تصدیق کر لینے کے بعد ہی ایمان لائے تھے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کا واقعہ کتبِ تاریخ و سیر میں تفصیل سے درج ہے۔

بعض روایات میں مذکور ہے کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ایک دن اپنے یہودی مالک کے کھجوروں کے باغ میں کام کر رہے تھے، کھجور کے ایک درخت پر چڑھے ہوئے تھے کہ اُنہوں نے سنا کہ اُن کا یہودی مالک کسی سے باتیں کر رہا تھا کہ مکہ سے ہجرت کر کے قبا میں آنے والی ہستی نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کی داعی ہے۔

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا دل مچل اٹھا، اور تلاشِ حق کے مسافرکی صعوبتیں لمحۂ مسرت میں تبدیل ہو رہی تھیں۔ وہ ایک طشتری میں تازہ کھجوریں سجا کر والیء کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور کہا کہ یہ صدقے کی کھجوریں ہیں۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ کھجوریں واپس کر دیں کہ ہم صدقہ نہیں کھایا کرتے۔ غموریا کے پادری کی بتائی ہوئی ایک نشانی سچ ثابت ہو چکی تھی۔ دوسرے دن پھر ایک خوان میں تازہ کھجوریں سجائیں اور کھجوروں کا خوان لے کر رسولِ ذی حشما کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے۔ عرض کی یہ ہدیہ ہے، قبول فرما لیجئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ تحفہ قبول فرما لیا اور کھجوریں اپنے صحابہ میں تقسیم فرما دیں۔

دو نشانیوں کی تصدیق ہو چکی تھی۔ اب مُہرِ نبوت کی زیارت باقی رہ گئی تھی۔ تاجدارِکائنات اجنت البقیع میں ایک جنازے میں شرکت کے لئے تشریف لائے اور ایک جگہ جلوہ افروز ہوئے، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ آقائے دوجہاںا کی پشت کی طرف بے تابانہ نگاہیں لگائے بیٹھے تھے۔ آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نورِ نبوت سے دیکھ لیا کہ سلمان کیوں بے قراری کا مظاہرہ کر رہا ہے، مخبرِ صادق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ازرہِ محبت اپنی پشت انور سے پردہ ہٹا لیا تاکہ مہرِ نبوت کے دیدار کا طالب اپنے من کی مراد پا لے۔ پھر کیا تھا حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی کیفیت ہی بدل گئی، تصویر حیرت بن کے آگے بڑھے، فرطِ محبت سے مہرِ نبوت کو چوم لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرایمان لاکر ہمیشہ کیلئے دامنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستہ ہو گئے.

حوالاجات

سواد بن عزیہ کا واقعہ

2

جنگ بدر کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب صفیں درست فرما رہے تھے تو سواد بن عزیہ کے پیٹ میں جو صف سے ذرا آگے بڑھے ہوئے تھے، تیر چبھو کر فرمایا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

استو يا سواد.

’’سواد! برابر ہو جا۔‘‘

اس پر انہوں نے عرض کیا :

يا رسول اﷲ! أوجعتني، و قد بعثک اﷲ بالحق، فأقدني، فکشف رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عن بطنه وقال : إستقِد. فاعتنقه، وقبل بطنه. و قال : ما حملک علي هٰذا يا سواد؟ فقال : يا رسول اﷲ! حضر ما تري و لم آمن القتل، فإني أحب أن أکون آخر العهد بک أن يمسّ جلدي جلدک، فدعا له رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم بخير.

’’یا رسول اللہ! آپ نے مجھے تکلیف پہنچائی جبکہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، سو مجھے بدلہ دیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بطن مبارک سے کپڑا ہٹا لیا اور فرمایا : بدلہ لے لو۔ وہ (تو بہانہ ڈھونڈ رہے تھے) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لپٹ گئے اور بطنِ اقدس کو بوسہ دینے لگے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے سواد! تجھے کس چیز نے اس عمل کی ترغیب دی؟ اُنہوں نے عرض کیا : یارسول اللہ! جیسا کہ آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں ممکن ہے میں جنگ میں زندہ نہ بچ سکوں اس پر میں نے چاہا کہ میرا آخری عمل آپ کے ساتھ یہ ہو کہ میرا جسم آپ کے جسمِ اطہر سے مس ہو جائے، پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لئے دُعائے خیر فرمائی۔

حوالاجات

حضور نبی اکرمﷺ سے منسوب اشیاء سے حصولِ برکت

2.3.5

حضور نبی اکرم ﷺ کی قمیص مبارک سے تبرک

(1)

صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی فوت ہوگیا تو اس کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ جو جانثار صحابی رسول تھے، نے عرض کیا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

أَعْطِيْنِي قَمِيْصَکَ أُکَفِّنُهُ فِيْهِ وَصَلِّ عَلَيْهِ وَاسْتَغْفِرْلَهُ فَأَعْطَاهُ النَّبِيُ صلي الله عليه وآله وسلم قَمِيْصَهُ. . .

’’مجھے اپنی قیمص مبارک عطا فرمائیے تاکہ اُسے میں کفناؤں اور ان پر نماز پڑھیں اور دعائے مغفرت فرمائیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے اپنی قمیص عطا فرما دی۔‘‘

حوالاجات

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کا عرض کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے اس سچے صحابی کی دلجوئی کے لئے ان کے منافق باپ کو اپنی قیمص عطا فرمانا، تبرک کے ثبوت کے لئے اصل ہے، علامہ اسماعیلی نے اس روایت سے یہی استنباط کیا ہے اور امام ابنِ حجر عسقلانی نے ان پر اعتماد کرتے ہوئے شرح بخاری میں اسے نقل کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

واستنبط منه الإسماعيلی جواز طلب آثار أهل الخير منهم للتبرک بها وإن کان السائل غنياً.

’’علامہ اسماعیلی نے اس روایت سے صالحین سے ان کے آثار کو برائے تبرک طلب کرنے کا جواز اخذ کیا ہے خواہ مانگنے والا مالدار کیوں نہ ہو۔‘‘

ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 3 : 139

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسواک مبارک سے تبرک

(2)

کتبِ صحاح میں سے سنن ابو داؤد اور دیگر کتبِ احادیث میں مسواک دھونے کے حوالے سے روایت ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

کَانَ نَبِيُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَسْتَاکُ فَيُعْطِيْنِي السِّوَاکَ لِاَغْسِلَهُ فَأَبْدَأُ بِهِ فَأَسْتَاکُ ثُمَّ أَغْسِلُهُ وَأَدْفَعُهُ إِلَيْهِ.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسواک کیا کرتے تھے سو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے مسواک دھونے کے لئے عنایت فرماتے تو میں دھونے سے پہلے اسی سے تبرکاً مسواک کرتی پھر اسے دھو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں پیش کرتی۔‘‘

حوالاجات

اس روایت میں بھی تبرک کا واضح ثبوت ہے۔ شارحینِ حدیث نے مذکورہ روایت کی شرح میں لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجۂ مطہرہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کا یہ عمل حصولِ برکت کے لئے تھا۔

علامہ محمد شمس الحق عظیم آبادی مذکورہ حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

فَأَبْدَأُ بِهِ : أي باستعماله في فمي قبل الغسل ليصل برکة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إلي والحديث فيه ثبوت التبرک بآثار الصالحين.

’’فأَبْدَأُ بهِ کا معنی یہ ہے کہ میں دھونے سے پہلے اسے استعمال کرتی تاکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت مجھے حاصل ہو۔ اس حدیث میں آثارِ صالحین سے تبرک کا ثبوت ہے۔‘‘

عظيم آبادي، عون المعبود، 1 : 52

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلینِ اقدس سے تبرک

(3)

ایسی روایات ہیں کہ بعض لوگوں کو قصیدہ بردہ کے قلمی اوراق (جو مؤلفِ قصیدہ امام شرف الدین بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں لکھے گئے تھے) آنکھوں پر لگانے سے آشوبِ چشم میں شفایابی ہوئی۔ اسی طرح بزرگوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین مبارک کے نقشے کی بہت سی برکات بیان کی ہیں۔ حتیٰ کہ مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنے رسالے ’’نیل الشفاء‘‘ میں نقشہ نعلِ مبارک کے برکات اور خواص تفصیل سے درج کیے ہیں وہ خود اپنی تصنیف نشر الطيب میں لکھتے ہیں :

’’جب صرف ان الفاظ میں جو آپ کے معنٰی و مدح کی صورت و مثال ہیں اور پھر ان نقوش میں جو ان الفاظ پر دال ہیں اور اس ملبوس میں جو آپ کی نعال ہیں اور پھر ان نقوش میں جو ان نعال کی تمثال ہیں (میں اس قدر برکت ہے) سو خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مجمع الکمالات و اسماء جامع البرکات سے توسل حاصل کرنا اور اس کے وسیلے سے دعا کرنے سے کیا کچھ حاصل نہ ہو گا۔

نامِ احمد (ص) چوں چنیں یاری کند

تاکہ نورش چوں مددگاری کند

نام احمد (ص) چوں حصارے شد حصین

تاچہ باشد ذاتِ آں رُوح الامینں

( اشرف علي تهانوي، نشر الطيب فی ذکر النبي الحبيب : 300)

تبرک اختیار کرنے میں کوئی شرکیہ عنصر نہیں ہے۔ انبیاء و صالحین کا واسطۂ تبرک اختیار کرنا نصوصِ قرآن اور کثیر احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔ جب واسطہ تبرک قرآن و حدیث سے ثابت ہے تو اسے ہر گز واسطہ شرکیہ نہیں گردانا جا سکتا۔

جائے نماز سے حصولِ برکت

(4)

صحیح بخاری میں حضرت عتبان بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری اور نماز پڑھانے کا واقعہ درج ہے۔ جسے ائمہِ حدیث نے تبرک کے باب میں حجت قرار دیا ہے۔ حضرت محمود بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

أنَّ عِتْبَانَ بْنَ مَالِکٍ، وَ هُوَ مِنْ أَصحَابِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ، مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنَ الْأَنْصَارِ : أَنَّهُ أَتَي رَسُوْلَ اﷲِ فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، قَدْ أَنْکَرْتُ بَصَرِي، وَأَنَا أُصَلِّي لِقَوْمِي، فَإِذَا کَانَتِ الْأَمْطَارُ، سَالَ الْوَادِي الَّذِي بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ، لَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ آتِي مَسْجِدَهُمْ فَأُصَلِّي بِهِمْ، وَوَدِدْتُ يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَنَّکَ تَأتِيْنِي فَتُصَلِّيَ فِي بَيْتِي، فَأَتَّخِذَهُ مُصَلًّي، قَالَ : فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : (سَأَفْعَلُ إِنْ شَاءَ اﷲُ). قَالَ عِتْبَانُ : فَغَدَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَأَبُوبَکْرٍ حِيْنَ ارْتَفَعَ النَّهَارُ، فَاسْتَأْذَنَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَأَذِنْتُ لَهُ، فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّي دَخَلَ البَيْتَ، ثُمَّ قَالَ : (أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ مِنْ بَيْتِکَ). قَالَ : فَأَشَرْتُ لَهُ إِلَي نَاحِيَةٍ مِنَ الْبَيْتِ، فَقَامَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَکَبَّرَ، فَقُمْنَا فَصَفَفْنَا، فَصَلّٰي رَکْعَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ.

’’حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان انصاری صحابہ میں سے تھے جو غزوۂ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ وہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ میری نظر کمزور ہوگئی ہے اور میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں؟۔ جب بارش ہوتی ہے تو وہ نالہ جو میرے اور ان کے درمیان ہے بہنے لگتا ہے جس کے باعث میں ان کی مسجد تک نہیں جاسکتا کہ انہیں نماز پڑھاؤں۔ یا رسول اللہ صلی اﷲ علیک و سلم میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے گھر تشریف لے چلیں اور وہاں نماز پڑھیں تاکہ میں اسے نماز پڑھنے کی جگہ بنالوں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ان شاء اللہ میں کسی دن آؤں گا، حضرت عتبان نے بتایا کہ دوسرے دن صبح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دن چڑھنے کے بعد میرے گھر تشریف لائے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسبِ معمول اجازت طلب فرمائی میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوش آمدید کہا۔ گھر میں تشریف لانے کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھے نہیں، فرمایا : تم کس جگہ پسند کرتے ہو کہ میں تمہارے گھر میں نماز پڑھوں۔ میں نے گھر کے ایک گوشے کی طرف اشارہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی، ہم بھی کھڑے ہو گئے اور صف بنائی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو رکعت (نفل) نماز پڑھی پھر سلام پھیرا۔‘‘

حوالاجات

شارح صحیح بخاری امام ابنِ حجر عسقلانی نے اس حدیث پاک کو آثارِ صالحین سے تبرک کے باب میں حجت قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

وسؤاله النّبي صلي الله عليه وآله وسلم أن يصلّي في بيته ليتّخذه مصلّي وإجابة النبيّ صلي الله عليه وآله وسلم إلي ذلک فهو حجّة في التّبرّک بآثار الصّالحين.

’’حضرت عتبان کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کرنا کہ ان کے گھر تشریف لا کر نماز ادا کریں تاکہ وہ اس جگہ کو اپنے لئے جائے نماز بنا لیں اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا ان کی التجا قبول کرنا آثارِ صالحین سے تبرک کے ثبوت کے لئے بین دلیل ہے۔‘‘

ابن حجر عسقلاني، فتح الباري شرح صحيح البخاري، 1 : 569

امام ابنِ عبد البر موطا کی شرح التمہید میں لکھتے ہیں :

وفيه التبرّک بالمواضع التي صلّي فيها رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و وطئها وقام عليها.

’’اس حدیثِ مبارکہ میں ان مقامات سے حصولِ برکت کا ثبوت ہے جہاں جہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز ادا فرمائی، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مبارک قدم رکھے اور جس جگہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہوئے۔‘‘

ابن عبدالبر، التمهيد، 6 : 228

وضو کے بچے ہوئے پانی سے حصولِ برکت

(5)

1۔ حضرت ابوجُحَيْفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بِالْهَاجِرَةِ، فَأُتِيَ بِوَضُوْءٍ فَتَوَضَّأَ، فَجَعَل النَّاسُ يَأْخُذُوْنَ مِنْ فَضْلِ وَضُوئِهِ فَيَتَمَسَّحُوْنَ بِهِ، فَصَلَّي النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم الظُّهْرَ رَکْعَتَيْنِ، وَالْعَصْرَ رَکْعَتَيْنِ، وَ بَيْنَ يَدَيْهِ عَنَزَةٌ.

وَقَالَ أَبُوْ مُوْسَي : دَعَا النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم بِقَدْحٍ فِيْهِ مَاءٌ، فَغَسَلَ يَدَيْهِ وَ وَجْهَهُ فِيْهِ، وَمَجَّ فِيْهِ، ثُمَّ قَالَ لَهُمَا : اشْرَبَا مِنْهُ، وَأَفْرِغَا عَلَي وُجُوهِکُمَا وَ نُحُوْرِکُمَا.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوپہر کے وقت ہمارے پاس تشریف لائے۔ پانی لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو کیا۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو کے بچے ہوئے پانی کو لے کر اُسے اپنے اوپر ملنے لگے۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظہر کی دو رکعتیں اور عصر کی دو رکعتیں پڑھیں۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے نیزہ تھا۔ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی کا ایک پیالہ منگایا۔ پس اپنے مبارک ہاتھ اور چہرۂ اقدس کو اُسی میں دھویا اور اُسی میں کلی کی پھر اُن دونوں سے فرمایا : اس میں سے پی لو اور اپنے چہروں اور سینوں پر ڈال لو۔‘‘

حوالاجات

صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ایک دوسری روایت میں یہ اضافہ ہے :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

فَنَادَتْ أُمُّ سَلَمَةَ مِنْ وَرَاءِ السِّتْرِ أَنْ أَفْضِلَا لِأُمِّکُمَا فَأَضْلَا لَهَا مِنْهُ طَائِفَةً.

’’ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے بھی ان دونوں کو پردہ کے پیچھے سے آواز دی کہ اس متبرک پانی میں سے اپنی ماں (یعنی حضرت ام سلمہ) کے لئے بھی چھوڑ دینا۔ پس انہوں نے ان کے لئے بھی کچھ پانی باقی رکھا۔‘‘

حوالاجات

2۔ حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

رَأَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِي قُبَّةٍ حَمْرَاءَ مِنْ أَدَمٍ، وَرَأَيْتُ بِلَا لًا أَخَذَ وَضُوْءَ رَسُوْلِ اللّٰهِ صلي الله عليه وآله وسلم ، وَرَأَيْتُ النَّاسَ يَبْتَدِرُوْنَ ذَاکَ الْوَضُوْءَ، فَمَنْ أَصَابَ مِنْهُ شَيْئًا تَمَسَّحَ بِهِ، وَمَنْ لَمْ يُصِبْ مِنْهُ شَيْئًا أَخَذَ مِنْ بَلَلِ يَدِ صَاحِبِهِ. . . الحديث.

’’میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چمڑے کے ایک سرخ خیمے میں دیکھا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استعمال شدہ پانی لیتے دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استعمال شدہ پانی کے حصول کے لئے کوشش کر رہے تھے جسے کچھ مل گیا اُس نے اپنے اُوپر مل لیا اور جسے اس میں سے ذرا بھی نہ ملا اُس نے اپنے ساتھی کے ہاتھ سے تری حاصل کی۔‘‘

حوالاجات

مذکورہ حدیث کے تحت، شارح صحیح بخاری امام ابنِ حجر عسقلانی لکھتے ہیں :

وفي الحديث من الفوائد التماس البرکة مما لامسه الصالحون.

’’اس حدیث مبارکہ میں کئی فوائد ہیں جن میں سے ایک حصولِ برکت کے لئے صالحین کے مس شدہ چیز کو ملنا ہے۔‘‘

ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 1 : 574

3۔ عروہ نے حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

وَ إِذَا تَوَضَّأَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم کَادُوا يَقْتَتِلُوْنَ عَلَي وَضُوْئِهِ.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب وضو فرماتے تو ایسا لگتا تھا کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو کے پانی کے حصول کے لئے آپس میں لڑ مریں گے۔‘‘

حوالاجات

4۔ حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم بِمَکَّةَ وَ هُوَ بِالْأَبْطَحِ فِيْ قُبَّةٍ لَهُ حَمْرَآءَ مِنْ آدَمٍ قَالَ فَخَرَجَ بِلَالٌ بِوَضُوْئِهِ فَمِنْ نَّآئِلٍ وَ نَاضِحٍ.

’’میں مکہ مکرمہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت مقامِ ابطح میں سرخ چمڑے کے ایک خیمہ میں قیام فرما تھے، اس موقع پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو کا بچا ہوا پانی لے کر باہر نکلے پس لوگوں نے اس پانی کو مل لیا کسی کو پانی مل گیا اور کسی نے اس پانی کو چھڑک لیا۔‘‘

حوالاجات

صحیح مسلم کے شارح امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ مبارکہ کی تشریح میں لکھتے ہیں :

ففيه التبرک بآثار الصالحين واستعمال فضل طهورهم وطعامهم وشرابهم ولباسهم.

’’پس اس حدیثِ مبارکہ میں آثارِ صالحین، ان کے وضو سے بچے ہوئے پانی ان کے بچے ہوئے کھانے اور استعمال شدہ ملبوسات سے تبرک کا ثبوت ہے۔‘‘

نووي، شرح صحيح مسلم، 4 : 219

مبارک ملبوساتِ رسولﷺ سے حصولِ برکت

(6)

مولائے کائنات سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنتِ اسد رضی اﷲ عنھما کا وصال ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تجہیز و تکفین کے لئے خصوصی اہتمام فرمایا۔ غسل کے بعد جب انہیں قمیص پہنانے کا موقعہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا کرتہ مبارک عورتوں کو عطا فرمایا اور حکم دیا کہ یہ کرتہ انہیں پہنا کر اُوپر کفن لپیٹ دیں.

1. طبراني، المعجم الکبير، 24 : 351، رقم : 871

2. ابن عبدالبر، الاستيعاب، 4 : 1891، رقم : 4052

3. أبونعيم، حلية الاولياء وطبقات الأصفياء، 3 : 121

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے کرتہ عطا فرمانے کا مقصد یہی سمجھ میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہتے تھے کہ وہ اس کے فیوض و برکات سے مستفید ہوجائیں۔

2۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ام عطیہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ جس وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اﷲ عنہا وصال فرما گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

اغْسِلْنَهَا ثَلَاثًا اَوْ خَمْسًا اَوْ أَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ إِنْ رَأَيْتُنَّ ذٰلِکَ بِمَآءٍ وَ سِدْرٍ وَاجْعَلْنَ فِي الْاٰخِرَةِ کَافُوْرًا اَوْ شَيْئًا مِنْ کَافُوْرٍ فَإِذَا فَرَغْتُنَّ فَاٰذِنَّنِي فَلَمَّا فَرَغْنَا اٰذَنَّاهُ فَأَعْطَانَا حِقْوَهُ فَقَالَ أَشْعِرْنَهَا إِيَاهُ تَعْنِي إِزَارَهُ.

’’اس کو تین یا پانچ دفعہ یا اگر مناسب سمجھو تو اس سے زیادہ بار بیری کے پتوں اور پانی سے غسل دو اور آخر میں کچھ کافور رکھ دینا۔ جب تم فارغ ہو جاؤ تو مجھے خبر دینا۔ (وہ فرماتی ہیں) جب ہم فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اطلاع دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی مبارک چادر عنایت فرمائی اور فرمایا : اس کو کفن کے نیچے پہنانا۔‘‘

حوالاجات

اس حدیثِ مبارکہ کو بھی ائمہ و محدّثین نے تبرک بالصالحین کی بنیاد قرار دیا ہے۔ چند اکابر ائمہ حدیث کے حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں :

1۔ امام ابنِ حجر عسقلانی اس حدیث کو تبرکِ صالحین کی بنیاد قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

وهو أصل فی التّبرّک بآثار الصّالحين.

’’یہ حدیثِ پاک آثار صالحین سے تبرک کے ثبوت میں اصل ہے۔‘‘

ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 3 : 29، 130

2۔ شارح صحیح مسلم امام نووی نے بھی اس حدیث سے تبرک کا استنباط کیا ہے، وہ فرماتے ہیں :2٫

ففيه التّبرّک بآثار الصّالحين ولباسهم.

’’اس حدیثِ مبارکہ میں آثارِ صالحین اور ان کے استعمال شدہ کپڑوں سے تبرک کا ثبوت ہے۔‘‘

نووي، شرح صحيح مسلم، 7 : 3

3۔ علامہ شوکانی نے امام ابنِ حجر عسقلانی کے اِستنباط پر اعتماد کرتے ہوئے انہی کے الفاظ کہ وہو اصل فی التّبرّک بآثار الصّالحین کو نقل کیا ہے۔

شوکاني، نيل الأوطار، 4 : 64

3۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک خاتون نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک چادر پیش کی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ زیب تن فرمائی تو ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! کتنی حسین چادر ہے، مجھے عنایت فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں عنایت فرمائی۔ حاضرین میں سے بعض نے اس کو اچھا نہیں سمجھا اور چادر مانگنے والے کوملامت کی کہ جب تمہیں معلوم تھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی سائل کو واپس نہیں لوٹاتے تو تم نے یہ چادر کیوں مانگی؟ اس شخص نے جواب دیا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

إِنِّی وَاﷲِ مَاسَأَلْتُهُ لِأَلْبَسَهَا، إِنَّمَا سَأَلْتُهُ لِتَکُوْنَ کَفَنِی. قَالَ سَهْلٌ : فَکَانَتْ کَفَنَهُ.

’’خدا کی قسم میں نے یہ چادر اس لئے نہیں مانگی کہ اسے پہنوں۔ میں نے (تو اس کی برکت کی امید سے) اس لئے مانگی ہے کہ یہ مبارک چادر میرا کفن ہو۔ حضرت سہل فرماتے ہیں : کہ یہ مبارک چادر بعد میں ان کا کفن بنی۔‘‘

حوالاجات

یعنی اس خوش بخت صحابی رضی اللہ عنہ کو ان کی خواہش کے مطابق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک چادر میں کفن دے کر دفنایا گیا۔

حافظ ابنِ حجر عسقلانی نے اس حدیث کے فوائد بیان کیے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے :

وفيه التّبرّک بآثار الصّالحين.

’’اور اس حدیث مبارکہ میں آثار صالحین سے تبرک کا ثبوت ہے۔‘‘

ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 3 : 144

حافظ ابنِ حجر عسقلانی نے اس حدیث کے فوائد بیان کیے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے :

4۔ حضرت عبداللہ بن سعد بن سفیان غزوہ تبوک میں شہید ہوئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنے مبارک قمیص کا کفن پہنایا۔

1. ابن اثير، أسد الغابة، 3 : 262

2. عسقلاني، الإصابه في تمييز الصّحابة، 4 : 111، رقم : 4715

5۔ حضرت عبداللہ بن حارث بن عبدالمطلب بن ہاشم فوت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنی مبارک قمیص کا کفن پہنا کر دفن کیا، اور فرمایا : ھذا سعید ادرکتہ سعادۃ ’’یہ خوش بخت ہے اور اس نے اس سے سعادت حاصل کی ہے۔‘‘

1. ابن اثير، أسد الغابة، 3 : 207

2. ابن عبدالبر، الإستيعاب، 3 : 884، رقم : 1496

3. عسقلاني، الإصابه في تمييز الصحابة، 4 : 47، رقم : 4605

4. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 4 : 48

6۔ حضرت عبداﷲ بن ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ جب فوت ہوئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے قمیص مبارک میں دفن کیا۔ امام ابنِ حجر عسقلانی الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ میں بیان کرتے ہیں :

دفنه النبي صلي الله عليه وآله وسلم في قميصه.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنی قمیص مبارک میں دفن کیا۔‘‘

عسقلاني، الإصابة في تمييز الصّحابة، 4 : 29، رقم : 4575

ان روایات سے معلوم ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک لباس میں اللہ تعالیٰ نے برکت رکھی تھی۔ نہ صرف دنیا میں لوگ اس کے اثر سے فیض یاب ہوتے رہے بلکہ بعد از وفات بھی اس کی برکات سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا رہا ہے اور پہنچتا رہے گا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو لباس زیب تن فرمایا، نسبتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے وہ بھی عام کپڑا تھا مگر جسدِ اطہر کے ساتھ منسوب ہونے کی وجہ سے وہ مشرف و متبرک ہوگیا۔ اسی لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم خواہش رکھتے تھے کہ انہیں کفن کے لئے کوئی ایسا کپڑا میسر آئے جس کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسدِ اطہر کے ساتھ کچھ نہ کچھ نسبت ہو۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعض صحابہ کو ایسے با برکت کپڑے عنایت فرما کر خود اپنے عمل سے اُمت کے لیے یہ سنت عطا فرمائی کہ تبرکات صالحین سے برکت حاصل کرنا جائز اور مشروع ہے۔

عصا مبارک سے حصولِ برکت

(7)

حضرت عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں گستاخِ رسول سفیان بن خالد الھذلی کو واصل جہنم کر کے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارا چہرہ فلاح پائے۔ وہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے اس (خالد بن سفیان بن ھذلی) کو قتل کر دیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو نے سچ کہا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے ساتھ کھڑے ہوئے اور اپنے کاشانۂ اقدس میں تشریف لے گئے اور مجھے عصا عطا کیا اور فرمایا : اے عبداللہ بن انیس! اسے اپنے پاس رکھ، پس جب میں یہ عصاء لے کر لوگوں کے سامنے نکلا توانہوں نے کہا کہ یہ عصا (ڈنڈا) کیا ہے؟ تو کہتے ہیں کہ میں نے کہا : یہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا کیا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ اسے پاس رکھو۔ لوگوں نے مجھ سے پوچھا : تم اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو واپس نہیں کرو گے؟ عبداللہ بن انیس کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اﷲ علیک وسلم! یہ عصا مبارک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے کس لیے عطا کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

آيَةٌ بَيْنِی وَ بَيْنَکَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، أَنَّ أَقَلَّ النَّاسِ الْمُتَخَصِّرُوْنَ يَوْمَئِذٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ. فَقَرَنَهَا عَبْدُاﷲِ بِسَيْفِهِ فَلَمْ تَزَلْ مَعَهُ حَتَّی إِذَا مَاتَ، أَمَرَ بِهَا فَصُبَّتْ مَعَهَ فِی کَفَنِهِ ثُمَّ دُفِنَا جَمِيْعاً.

’’قیامت کے روز یہ تیرے اور میرے درمیان ایک نشانی ہوگی کہ جس دن بہت کم لوگ کسی کے ساتھ تعاون کرنے والے ہوں گے۔ (راوی بیان کرتے ہیں کہ) حضرت عبداﷲ بن انیس نے اس عصا کو اپنی تلوار کے ساتھ باندھ لیا اور وہ ہمیشہ ان کے پاس رہتا یہاں تک کہ ان کا وصال ہوگیا۔ انہوں نے عصا کے متعلق وصیت کی تھی کہ اس کو ان کے کفن میں رکھ دیا جائے اور پھر اسے ان کے ساتھ یکجا دفن کر دیا جائے۔‘‘

حوالاجات

مبارک مشکیزہ سے حصولِ برکت

(8)

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے مبارک دہنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مس شدہ مشکیزہ کا منہ حصولِ خیر و برکت کے لئے کاٹ کر محفوظ کیا جیسا کہ حضرت عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ اپنی دادی حضرت کبشہ انصاریہ رضی اﷲ عنھا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم دَخَلَ عَلَيْهَا، وَ عِنْدَهَا قِرْبَةٌ مُعَلَّقَةٌ فَشَربَ مِنْهَا وَ هُوَ قَائِمٌ، فَقَطَعَتْ فَمَ الْقِرْبَةِ تَبْتَغِي بَرَکَةَ مَوْضِعَ فِي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم .

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے ہاں تشریف لائے تو وہاں ایک مشکیزہ لٹکا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے پانی پیا اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیام فرما تھے، اس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دہنِ اقدس والی جگہ سے مشکیزے کا منہ حصول برکت کے لیے کاٹ کر رکھ لیا۔‘‘

حوالاجات

حضرت ام سلیم رضی اﷲ عنھا حضرت انس رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ تھیں، حضرت انس رضی اللہ عنہ اپنی والدہ محترمہ کا معمول بیان فرماتے ہیں :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

أَنَّ النَّبِيَ صلي الله عليه وآله وسلم دَخَلَ عَلَي أُمِّ سُلَيْمٍ، وَ فِي الْبَيْتِ قِرْبَةٌ مَعَلَّقَةٌ، فَشَرِبَ مِنْ فِيْهَا وَ هُوَ قَائِمٌ، قَالَ : فَقَطَعَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ فَمَ الْقِرْبَةِ فَهُوَ عِنْدَناَ.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ام سلیم رضی اﷲ عنہا کے یہاں تشریف لائے تو ان کے گھر میں (پانی کا) ایک مشکیزہ لٹکا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مشکیزہ سے کھڑے کھڑے پانی نوش فرمایا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت ام سلیم رضی اﷲ عنھا نے (تبرکاً) اس مشکیزہ کا منہ کاٹ لیا۔ پس وہ (اب بھی) ہمارے پاس موجود ہے۔‘‘

حوالاجات

ان دونوں صحابیات نے مشکیزے کے ٹکڑوں کو اس لئے محفوظ کیا کہ انہیں محبوبِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک لبوں نے مس کیا تھا جس سے یہ ٹکڑے عام ٹکڑوں سے ممتاز ہو گئے تھے یعنی محض دہنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبو سما جانے کے بعد یہ ہمیشہ کے لیے خیر وبرکت کا باعث بن گئے۔

عطا شدہ سونے سے حصولِ برکت

(9)

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا معمول تھا کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب کسی بھی شے کی حفاظت اپنی جان سے زیادہ کرتے اور حتی المقدور اسے ضائع نہ ہونے دیتے حتی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو دینار بطورِ معاوضہ کسی صحابی کو دیئے تو انہوں نے انہیں بھی باعث خیر و برکت سمجھ کر سنبھال کر رکھے اور آگے خرچ نہیں کئے۔

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں : میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا۔ ایک سست اونٹ پر سوار ہونے کی وجہ سے سب سے پیچھے رہتا تھا۔ جب میرے پاس سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گزرے تو پوچھا : کون ہے؟ میں نے عرض کیا : جابر بن عبداللہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا : کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا : میں ایک سُست اونٹ پر سوار ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے چھڑی طلب فرمائی تو میں نے چھڑی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور پیش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے اونٹ کو مارا اور ڈانٹا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے وہی اونٹ سب سے آگے بڑھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے اونٹ کو خریدنا چاہا تو میں عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! یہ آپ ہی کا ہے، یہ بلا معاوضہ آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ مگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خریدنے پر اصرار کیا اور فرمایا کہ میں نے چار دینار کے عوض اسے تم سے خرید لیا ہے اور مجھے مدینہ منورہ تک اس پر سواری کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ جب ہم مدینہ منورہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

يا بلال، اقضِه و زِدهُ.

’’اے بلال! (جابر کو) اس کی قیمت دو اور اس میں اضافہ بھی کرو۔‘‘

حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو چار دینار اور ایک قیراط سونا اضافی طور پر دیا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

لاَ تُفارِقُنِی زِيَادَةُ رَسُولِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم. فَلَمْ يَکُنِ الْقِيْرَاطُ يُفارِقُ جِرَابَ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاﷲِ.

’’اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیا ہوا (ایک قیراط) اضافی سونا مجھ سے کبھی جدا نہ ہوتا۔ (راوی بیان کرتے ہیں : ) اور (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عطا کردہ) وہ ایک قیراط (سونا) جابر بن عبداللہ کی تھیلی میں ہمیشہ رہا، کبھی جدا نہ ہوا۔‘‘

حوالاجات

خلاصۂ بحث۔ ۔ ۔ اہم علمی نکات

(10)

درجِ بالا موضوعات کے تحت کثیر احادیثِ مبارکہ سے درج ذیل اہم علمی اور اعتقادی نکات ثابت ہوئے :

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار مبارک سے برکت حاصل کرنا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی سنت رہا ہے۔

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار سے برکت حاصل کرنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہدِ مبارک میں اور آپ کے سامنے ہوا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع نہیں فرمایا بلکہ برقرار رکھا لہٰذا تبرک کے مشروع ہونے پر یہ ساری احادیث دلائلِ قاطعہ ہیں۔ اگر حضور علیہ السلام کے آثار سے برکت حاصل کرنا جائز اور مشروع نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے منع فرماتے اور اس سے روک دیتے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایسا کوئی بھی قول یا فعل صادر نہیں ہوا جیسا کہ اخبارِ صحیحہ اور اجماعِ صحابہ سے جواز ثابت ہوا ہے۔

    یہ تمام رِوایات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے قوتِ ایمان اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کی شدید محبت، قربت، معیت، اطاعت اور متابعت پر بھی دلالت کرتے ہیں۔ موجودہ دور میں بھی جس شخص کا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ایسا شدید حبّی اور قلبی تعلق ہوگا وہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثارِ مبارکہ کی تعظیم بجا لائے گا اور ان سے فیض یاب ہوگا۔

    ان کثیر احادیث کی شرح اور توضیح کرتے ہوئے جلیل القدر ائمہِ حدیث امام مسلم، امام ابنِ عبدالبر، امام نووی، حافظ ابنِ حجر عسقلانی اور علامہ شوکانی نے اولیاء اور صالحین سے تبرک و حصولِ برکت کرنے کا جواز ثابت کیا ہے جو سلف صالحین کے تبرک پر عقیدہ صحیحہ کی غماز ہے۔

جمہور اُمت کا یہ عقیدہ ہے کہ آثار اور نشانیوں میں از خود کوئی فضیلت نہیں ہے۔ ان مقدس اماکن و مقامات کی تعظیم و تکریم کرنا اور اس سے خیر و برکت حاصل کرنا اِس وجہ سے ہے کہ یہ بہت سی خیر اور نیکیوں کا باعث، ذریعہ اور وسیلہ ہوتے ہیں۔ مقربین بارگاہِ الٰہی ان اماکن و مقامات میں مراقب ہو کر عبادت و ریاضت اور ذکر و اذکار کرتے رہے۔ ان عبادات کی وجہ سے ان میں رب رحمٰن کی رحمتوں اور عنایتوں کا نزول ہوتا رہا اور ملائکہ مقربین کی آمد ہوئی، پس اس لیے ربِ کا ئنات کی خصوصی رحمت نے ان اماکن اور آثار کو گھیرا ہوا ہے۔ اسی نسبت سے یہ برکت مقصود ہوتی ہے جس کو ان مقامات میں اللہ تعالیٰ سے ہی طلب کیا جاتا ہے۔

مقدس مقامات ہوں یا مقرب اشخاص، ان سے برکت انہیں بالذات موثر مان کر حاصل نہیں کی جاتی بلکہ ان مقامات پر حاضر ہو کر اللہ رب العزت کی طرف متوجہ ہو کر دعا و استغفار کے ذریعہ مانگا جاتا ہے۔ ان مقامات میں جو عظیم واقعات پیش آتے ہیں ان کا ذکر کیا جاتا ہے، مقرب ہستیوں کی ہمت و معرفت کا بیان ہوتا ہے جس سے قلب و باطن میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور حوصلوں کو جلا ملتی ہے۔ محبوبان بارگاہ الٰہی کے ساتھ ظاہری و باطنی قربت کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔ یہی تبرک ہے اور اسی کو جمہور امت نے اختیار کیا ہے۔ اس میں کوئی شرکیہ عنصر نہیں ہاں اگر کوئی شخص ان اماکن و اشخاص سے بالذات تاثیر کا عقیدہ رکھے تو یہ جائز نہیں۔

ولادتِ رسولﷺ کی برکات

2.3.6

ولادتِ رسولﷺ  سے ہی خیر القرون کا بابرکت زمانہ شروع ہوا۔ یہاں ہم آپﷺ کی بے شمار  برکات میں سے چند ایک کا ذکرِخیر کرتے ہیں۔

سیدہ آمنہ رضی اﷲ عنہا  پر نزولِ برکات

(1)

والدہ ِرسولﷺ  ،حضرت سیّدتُنا بی بی آمنہ   رضی اﷲ عنہا  نہایت پارسا، پرہیز گار،طہارتِ نفس،شرافتِ نسب اور عزت و وجاہت والی صاحبِ ایمان خاتون تھیں۔آپ قریش کی عورتوں میں حسب، نسب اور فضیلت میں سب سے ممتازتھیں۔

(دلائل النبوۃ،ج1،ص102ملخصاً)

حضرت سیّدُنا عبدُاللہ رضی اﷲ عنہ کا حضرت سیّدتُنا بی بی آمنہ رضی اﷲ عنہا  سے نکاح ہو گیا اور نورِمحمدی حضرت سیّدُنا عبدُاللہ رضی اﷲ عنہ سے منتقل ہو کر حضرت سیّدتُنا بی بی آمنہ رضی اﷲ عنہا  کے شکمِ اَطہر میں جلوہ گَرہوا۔

(مدارج النبوۃ،ج2،ص12 ۔13ملتقطاً)

ایک بار نبیِّ کریم صلَّی اللہ  تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی والدہ کی قبر پر آئے تو رونے لگے، حاضرین نے رونےکا سبب پوچھا تو فرمایا: مجھے اپنی والدہ کی شفقت ومہربانی یاد آگئی تَو میں روپڑا۔

(السیرۃ الحلبیہ،ج1،ص154)

برکاتِ مصطفےٰﷺ

1

اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں آمد کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ  بی بی آمنہ   رضی اﷲ عنہا  پر   اِس قدر برکتیں  نازل کیں کہ آپ رضی اﷲ عنہا  پرشرق تا غرب سارے آفاق روشن ہو گئے اور آپ رضی اﷲ عنہا  کو  وہ نور نظر آنے لگے جو کسی عام انسان کو نظر نہیں آتے۔

حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے بارگاہِ رِسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ کی نبوتِ مبارکہ کی شروعات کیسے ہوئی؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

دعوة أبي إبراهيمَ، وبُشري عيسي، ورأت أمي أنه يخْرُجُ منها نور أضاءت منه قصور الشام.

’’میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا اور عیسیٰ کی بشارت ہوں۔ اور (میری ولادت کے وقت) میری والدہ ماجدہ نے دیکھا کہ اُن کے جسم اَطہر سے ایک نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے۔‘‘

حوالاجات

حضرت آمنہ اپنے عظیم نونہال کے واقعاتِ ولادت بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

لما فصل منّي خرج معه نور أضاء له ما بين المشرق إلي المغرب.

’’جب سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور ہوا تو ساتھ ہی ایسا نور نکلا جس سے شرق تا غرب سب آفاق روشن ہوگئے۔‘‘

حوالاجات

ایک روایت میں سیدہ آمنہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ وقتِ ولادت اُن سے ایسا نور خارِج ہوا جس کی ضوء پاشیوں سے اُن کی نگاہوں پر شام میں بصریٰ کے محلات اور بازار روشن ہوگئے یہاں تک اُنہوں نے بصریٰ میں چلنے والے اونٹوں کی گردنیں بھی دیکھ لیں۔

حوالاجات

ولادتِ رسول کی برکات کا نزول  نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ پر   ہوا   بلکہ وہاں موجود  حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی والدہ پر بھی  نازل ہویں۔ حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُن کی والدہ نے اُن سے بیان کیا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

شهدت آمنة لمَّا وُلِدَ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، فلمَّا ضربها المَخَاض نَظَرْتُ إلي النجوم تدلي حتي إني لأقول : إنها لتقعن عليّ. فلما ولدت خرج منها نور أضاء له البيت الذي نحن فيه والدَّار، فما شيء أنظر إليه إلا نور.

’’جب ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وقت آیا تو میں سیدہ آمنہ سلام اﷲ علیھا کے پاس تھی۔ میں دیکھ رہی تھی کہ ستارے آسمان سے نیچے ڈھلک کر قریب ہو رہے ہیں یہاں تک کہ میں نے محسوس کیا کہ وہ میرے اوپر گرپڑیں گے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی تو سیدہ آمنہ سے ایسا نور نکلا جس سے پورا گھر جس میں ہم تھے اور حویلی جگمگ کرنے لگی اور مجھے ہر ایک شے میں نور ہی نور نظر آیا۔‘‘

حوالاجات

حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں: میں نے دیکھا کہ تین جھنڈے نصب کئے گئے۔ ایک مشرق میں، دوسرا مغرب میں، تیسرا کعبے کی چھت پر اور حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوگئی۔

(خصائص کبریٰ، ج اول، ص82)

سیدتنا آمنہ ( رضی اللہ عنہا ) فرماتی ہیں ،  میں نے تین جھندے بھی دیکھے ، ایک مشرق میں گاڑا گیا تھا ۔ دوسرا مغرب میں اور تیسرا جھنڈا خا نہ کعبہ کی چھت پر لہرارہا تھا ۔

( سیرت حلبیہ ج 1 ص 109)

یہ حدیث ( الو فابا حوال مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ) میں محدث ابن جوزی نے بھی روایت کی ہے ۔

سیدہ حلیمہ سعدیہ  رضی اﷲ عنہا   پر نزولِ برکات

(2)

جن سعادت مَند خواتین نے رحمتِ عالَم ﷺ کو دودھ پلانے کا شرف حاصل کیا، ان میں ایک مبارک نام حضرت سیّدتنا حَلیمہ سَعْدِیہ بنت عبد اللہ بن حارِث رضی اللہ تعالٰی عنہا  کا بھی ہے۔ آپ کے شوہر کا نام حضرت حارِث رضی اللہ تعالٰی عنہ تھا، آپ دونوں شرفِ اسلام و صحابیت سے مشرف ہوئے اور حضورِ اکرم ﷺ کی صحبتِ بابرکت سے فیض پانے والے تھے ۔(فتاویٰ رضویہ،ج30،ص293 ملخصاً)

حضورِ اکرم ﷺ کا زمانۂ رضاعت حضرت سیّدتنا حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا رسول کریم ﷺ کواپنے ساتھ لے گئیں اور اپنے قبیلہ میں آپ کو دودھ پلاتی رہیں اور انہیں کے پاس آپ ﷺ کے بچپن کے ابتدائی سال  گزرے۔ (مدارج النبوۃ، ج2،ص18ملخصاً)

برکاتِ مصطفےٰﷺ

1

 جب سے رسولِ کریم ﷺ حضرت سیّدتنا حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے پاس آئے، حضرت حلیمہ کے مویشی کثرت سے بڑھنے لگے، آپ کا مقام و مرتبہ بلند ہوگیا، خیر و برکت اور کامیابیاں ملتی رہیں۔

(مواہب لدنیہ،ج1،ص80ملتقطاً)

اولاد حضرت سیّدتنا حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی اولاد بھی مسلمان ہوگئی تھی، آپ کے صاحبزادے کا نام عبداللہ بن حارث تھا جو کہ سَرورِ عالَم ﷺ کے رضاعی بھائی تھے اور دو صاحبزادیاں انیسہ بنتِ حارث اور جُدامہ بنتِ حارث تھیں، جُدامہ بنتِ حارث ہی شَیما کے نام سے مشہور ہیں۔ (طبقات ابن سعد،ج 1،ص89) حضرت شیما رحمتِ عالَم ﷺ کی بڑی رضاعی بہن تھیں اور آپ کو گود میں کھلاتی اور لوریاں دیتی تھیں۔

(مراٰۃ المناجیح،ج8،ص20)

نبیِّ کریم  ﷺ کی آپ سے محبت جب حضرتِ حلیمہ حضور انور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپ ﷺ ان کا ادب و احترام فرماتے اور محبت سے پیش آتے۔ چنانچہ ایک مرتبہ غَزوۂ حُنین کے موقع پر جب حضرت سیّدتنا حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا محبوبِِ خدا ﷺ سے ملنے آئیں تو آپ ﷺ نے ان کے لئے اپنی چادر بچھائی۔

(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب،ج 4،ص374)

ایک مرتبہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا تاجدارِ رسالت ﷺ کے پاس آئیں اور قحط سالی کا بتایا تو نبیِ کریم ﷺ کے کہنے پر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے حضرت حلیمہ کو 1اونٹ اور 40 بکریاں دیں۔

(الحدائق لابن جوزی،ج1،ص169)

آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو جنّۃ البقیع شریف میں دفن کیا گیا۔

ولادت و  رضاعت ِمصطفےٰﷺ کی برکاتِ کا  مختصر واقعہ

2

آنحضورﷺ  کی پیدائش پر پورے مکہ میں بالعموم اور خاندان بنوہاشم میں بالخصوص خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ابولہب جو آپﷺ کا چچا تھا‘ کو اس کی لونڈی ثویبہ نے جب یہ اطلاع دی تو وہ اتنا خوش ہوا کہ اس نے اپنی لونڈی کو اس خوشی میں آزاد کردیا۔ ثویبہ کا بیٹا مسروح اس وقت شیرخوار تھا، ثویبہ نے آپﷺ کو اپنا دودھ پلایا۔ یوں انہیں بھی آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی ماں ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ثوبیہ ؓ آپﷺ پر ایمان بھی لے آئی تھیں۔ بعدازاں آپﷺ نے حلیمہ سعدیہ کے ہاں اپنا دورِ شیرخواری گزارا۔ آپﷺ نے حضرت حمزہؓ کی والدہ ہالہ کا دودھ بھی پیا تھا۔ وہ بھی آپﷺ کی رضاعی والدہ ہیں۔

قریش اپنے شیرخوار بچوں کو فصیح وبلیغ عربی زبان سیکھنے کی خاطر شیرخوارگی کے زمانے میں دیہاتی علاقوں میں بھیج دیا کرتے تھے۔ ان کو دودھ پلانے والی خواتین معاوضے پر ان بچوں کودودھ پلاتی تھیں۔ وہ ان کی دیکھ بھال اور پرورش کرتیں۔ انہیں فصیح عربی زبان سیکھنے کا موقع بھی ملتا تھا۔ بچوں کی تلاش میں ہر سال مختلف قبائل سے عورتیں مکہ آتی تھیں۔ آنحضورﷺ کی پیدائش کے سال قبیلہ بنوسعد بن بکر سے دس عورتیں بچوں کے حصول کے لیے مکہ آئیں۔ ان میں سے نو خواتین کو تو وہ بچے مل گئے جن کے والد موجود تھے، ایک خاتون حلیمہ سعدیہ خالی ہاتھ رہ گئی۔ ان میاں بیوی کو معلوم ہوا کہ ایک یتیم بچہ جو سردار قریش عبدالمطلب کا پوتا ہے‘ وہ رہ گیا ہے جس کا حصول ممکن ہے۔ حلیمہ اور اس کے خاوند حارث بن عبدالعزیٰ نے سوچا کہ یتیم بچے کی کفالت سے ہمیں کیا ملے گا۔ بالآخر انہوں نے مجبوراً یہ فیصلہ کرلیا کہ خالی ہاتھ جانے کی بجائے اسی بچے کو لے چلتے ہیں۔ یہ فیصلہ اگرچہ بظاہر مجبوراً کیا گیا مگر یہ انتہائی مبارک فیصلہ تھا۔ اس خوش بخت گھرانے کو درِّیتیم کیا ملا، اللہ کی رحمتیں ان پر نازل ہونا شروع ہوگئیں۔ ایک دوسری روایت کے مطابق حارث نے شروع میں یتیم بچے کو لینے کی مخالفت کی مگر پھر یہ سوچ کر کہ خالی ہاتھ جائیں گے تو سُبکی بھی ہوگی اور شاید یتیم کے ساتھ ایسے سلوک کی وجہ سے ہم سے خدا بھی ناراض ہوجائے گا۔ اب جو ان انعاماتِ ربّانی کو دیکھا تو احساس ہوا کہ واقعی وہ فیصلہ بہت اچھا تھا۔

حلیمہ مکہ کی جانب سفر کا تذکرہ کرتے ہوئے بیان فرماتی ہیں کہ سخت قحط سالی کی وجہ سے ہمارے جانور انتہائی لاغر ہوگئے تھے۔ میں اپنی بھورے رنگ کی گدھی پر سوار تھی اور میرے خاوند حارث ایک اونٹنی پر سوار تھے جو بمشکل چل سکتی تھی اور شیردار ہونے کے باوجود اس کا دودھ بھی سوکھ گیا تھا۔ ہم بارش کے انتظار میں تھے، مگر بارش کا دور دور تک نام ونشان نہ تھا۔ مکہ تک کا سفر ہم نے بڑی مشکل سے طے کیا۔ قافلے والوں کو کئی جگہ رک کر ہمیں اپنے ساتھ ملانا پڑا۔ مکہ میں پہنچ کر بھی شروع میں ہمیں قدرے مایوسی ہوئی مگر اللہ تعالیٰ کو ہماری قسمت بدلنا مقصود تھا۔ اس لیے مکہ میں موجود دس نومولود بچوں میں سے نوبچے دیگر مرضعات (دودھ پلانے والیوں) نے ہم سے پہلے حاصل کرلیے۔ آخر میں دُرّ یتیم رہ گئے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہماری قسمت میں لکھے گئے تھے۔ ان کا ہمارے ہاتھ آنا تھاکہ اللہ کی رحمتیں ہماری طرف متوجہ ہوگئیں۔

السیرۃ الحلبیۃ، ج1، ص130,131

جب حلیمہ جناب عبدالمطلب کے پاس آئیں تو انہوں نے نام پوچھا۔ انہوں نے بتایا حلیمہ سعدیہ۔ جناب عبدالمطلب خوش ہوگئے اور مسکراتے ہوئے فرمایا: حِلم اور سعادت کا امتزاج کیا خوب! پھر فرمایا: میرے ساتھ آؤ۔ حضرت حلیمہ خود بیان کرتی ہیں کہ جناب عبدالمطلب نے سیدہ آمنہ کا دروازہ کھولا اور مجھے بہت پیار ومحبت سے اندر آنے کے لیے خوش آمدید کہا۔ پھر فرمایا یہی میرا بیٹا محمدﷺ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ تم اسے دودھ پلانے کے لیے اپنے ساتھ لے جاؤ۔ جوں ہی چہرہ مبارک پر حلیمہ سعدیہ کی نظر پڑی تو وہ خوش ہوگئیں۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ جب میں نے بچے کو اٹھایا تو وہ سو رہا تھا۔ اس کی ماں نے اسے سفید رنگ کے صوف کے کپڑے سے ڈھانکا ہوا تھا اور سبز رنگ کا ریشمی بستر اس کے نیچے تھا۔ اس کے چہرے سے ایسی روشنی مجھے نظر آئی جو آسمان تک بلند ہوگئی۔ اس موقع پر مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ بچہ میرے اٹھانے سے جاگ نہ جائے اور رونے نہ لگ پڑے، مگر میں نے دیکھا کہ وہ یوں پُرسکون انداز میں سویا ہوا تھا کہ اس کے چہرے پر مکمل طمانیت تھی۔ پھر اچانک جب میں نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھا تو وہ مسکرایا اور اپنی دونوں آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا۔ میرا دل باغ باغ ہوگیا۔ پس میں نے اس کا چہرہ چوما اور اس کو اپنے ساتھ چمٹا لیا۔ (ایضاً)

اس وقت تک میاں بیوی کو پوری طرح یہ احساس نہیں تھا کہ انہیں کیا برکات حاصل ہونے والی ہیں۔ آپﷺ کو گود لیتے ہی ان کے سامنے یہ حقیقت کھل گئی کہ یہ بچہ بڑی شان اور مقام کا حامل ہے۔ انہوں نے فوری طور پر برکات اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ جب انہوں نے محمدﷺ بن عبداللہ کو اپنی گود میں لیا تو حلیمہ کی دونوں چھاتیاں دودھ سے یوں بھر آئیں کہ انہیں محسوس ہوا دودھ ٹپکنے لگے گا۔ ایک جانب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پیا تو خوب سیر ہوگئے۔ حلیمہ کے بیٹے عبداللہ نے دوسری جانب سے دودھ پیا تو وہ بھی خوب سیر ہوگیا۔ دُرّ یتیم کا مستقل معمول رہا کہ جس جانب سے انہوں نے دودھ پیا تھا، اسی جانب سے پیتے تھے۔ دوسری جانب سے وہ دودھ پینے سے انکار کردیتے۔ ( ایضاً)

اب جو اپنے علاقے کی جانب یہ لوگ چلے تو ایک اور عجیب منظر سامنے آیا۔ ان کی نحیف ونزار سواریاں جو بمشکل قبیلہ بنوسعد سے مکہ پہنچی تھیں‘ اب واپسی پر ان کی نرالی شان تھی۔ وہ سب سواریوں سے آگے نکل گئیں۔ رخصت کرتے وقت آنحضورﷺ کی والدہ ماجدہ نے حلیمہ سے کہا ”اے مہربان اور شرافت کی پتلی حلیمہ! اس بچے کی طرف پوری طرح توجہ دینا۔ اللہ نے چاہا تو بہت جلد اس کی ایک شان ہوگی‘‘۔ پھر انہوں نے اپنے بیٹے کے حمل سے لے کر ولادت تک کے چند واقعات بھی حلیمہ کو بتائے۔ ایک واقعہ یہ تھا کہ پیدائش کے وقت انہوں نے ایک ایسی روشنی دیکھی جس میں انہیں دور دراز ممالک (بصریٰ، شام) کے محلات نظر آئے اور دیگر بہت سے خرقِ عادت واقعات سے بھی سابقہ پیش آیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ یہ حسن اتفاق ہے کہ مجھے متواتر تین راتیں یہ پیغام ملتا رہا کہ اپنے بیٹے کو قبیلہ بنوسعدبن بکر اور آلِ ابو ذوئیب میں دودھ پلانا۔ حلیمہ نے کہا: میرے والد کی کنیت ابوذوئیب ہے۔ جب یہ خاندان وادیٔ سرر میں پہنچا تو ان سے پہلے روانہ ہونے والی دائیوں سے ان کی ملاقات ہوگئی۔ ان عورتوں نے حلیمہ سے پوچھا: حلیمہ! پھر تمھارے ساتھ کیا بنا؟ حلیمہ نے جواب دیا: اخذتُ وَاللّٰہِ خَیْرَ مولودٍ رَأیتُہٗ قَطُّ وَاَعْظَمُہُمْ بَرَکَۃً۔ یعنی خدا کی قسم جتنے بچے میں نے آج تک دیکھے ان سب میں بہترین، معزز ترین، برکت والا مولود مل گیا ہے۔

عورتوں نے کہا: کیا وہی عبداللہ کا یتیم لڑکا؟ حلیمہ نے خوش ہو کر جواب دیا: ہاں وہی دُرّیتیم۔ حلیمہ کہتی ہیں: ہم نے اس منزل سے کوچ بھی نہ کیا تھا کہ میں نے دیکھا بعض عورتوں میں حسد نمایاں ہے۔ اس پر بعض مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت حلیمہ جب آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کو سیدہ آمنہ سے حاصل کرکے اپنے گھر لے کر گئیں تو رخصت کے وقت آپﷺ کی والدہ حضرت آمنہ نے کہا:

اعیذہ باللہ ذی الجلالٖ

من شَرِّ ما مرّ علی الجبالٖ

حَتّٰی اراہُ حاملَ الحلالٖ

وَیَفْعَلَ العُرْفَ الی الْمَوالی

وَغیرِہم من حِشْوَۃ الرجالٖ

میں اپنے بیٹے کو اللہ ذوالجلال کی پناہ میں دیتی ہوں، ہر اس شر سے جو پہاڑوں پر اترتا اور انسانوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔

میری دعا ہے کہ اللہ اسے خیریت سے رکھے، یہاں تک کہ میں اسے کامیابیوں، کامرانیوں پر فائز دیکھ سکوں۔

(اور میری آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں) جب میں اسے غلاموں اور بے کسوں کے ساتھ نیکی کرتا ہوا دیکھوں

اور غلاموں کے علاوہ بھی جو لوگ بے مایہ ہوں ان پہ احسان کرتا ہوا پاؤں۔

( ابن سعد، ج1، ص110-111)

ان اشعار کے اندر ایک عجیب حلاوت اور تاثیر ہے۔ سیدہ آمنہ کا یہی ایک بیٹا تھا جس کے سر سے والد کا سایہ بھی اٹھ چکا تھا۔ اس بیٹے کی پیدائش سے قبل اور اس کے بعد بھی انہوں نے ایسے عجیب وغریب اور دل ربا مناظر دیکھے تھے جومعمول سے بالکل ہٹ کر تھے۔ ان کا دل گواہی دے رہا تھا کہ یہ بچہ عام بچوں کی طرح نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص، چنیدہ اور محبوب بچہ ہے۔ اللہ اس سے کوئی بہت بڑا کام لینا چاہتا ہے اور جتنا اس کا بلند مقام ہے اتنا ہی اس کی حفاظت کا اہتمام بھی ضروری ہے۔ وہ اور کیا حفاظت کرسکتی تھیں سوائے اس کے کہ اپنے درّیتیم کو اس ذات کی حفاظت میں دے دیں کہ جس کی حفاظت میں آنے کے بعد دنیا کی کوئی طاقت اس کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتی۔ ان اشعار کے اندر ماں کا دھڑکتا ہوا دل اور مامتا کی بے پناہ محبت موجزن ہے۔

سارےجہاں پر نزولِ برکات

(3)

ولادت مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی میں اللہ تعالیٰ نے   مشرق و مغرب  میں برکتوں والےجھنڈے نصب کئے  اور حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے دنیا بھر کی عورتوں کو صرف لڑکے عطا کئے  ۔اس طرح  اللہ تعالیٰ نے میلاد النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے پورا سال سارےجہاں والوں کو خوشیاں  ہی خوشیاں  عطا فرمائیں۔

حضرت عمرو بن قتیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے اپنے والد سے سنا جو بہت بڑے عالم تھے، فرماتے ہیں:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

لما حضرت ولادة آمنة قال الله تعالیٰ الملائکته افتحوا ابواب السمآء کلها، وابواب الجنان، وابست الشمس يومئذ نورا عظيما، وکان قد اذن الله تلک السنة لنسآء الدنيا ان يحملن ذکورا کرامة لمحمد.

’’حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں ولادت باسعادت کا وقت قریب آیا تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ تمام آسمانوں اور جنتوں کے دروازے کھول دو۔ اس روز سورج کو عظیم نور پہنایا گیا اور اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر کی عورتوں کے لئے یہ مقدر کردیا کہ وہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے لڑکے جنیں‘‘۔

حوالاجات

آسمان میں  داخل ہونے سے شیطانوں  کو روک دیا گیا:

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَ حَفِظْنٰهَا مِنْ كُلِّ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍۙ(۱۷)اِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَاَتْبَعَهٗ شِهَابٌ مُّبِیْنٌ(۱۸)

اور اسے ہم نے ہر شیطان مردود سے محفوظ رکھا مگر جو چوری چھپے سننے جائے تو اس کے پیچھے پڑتا ہے روشن شعلہ

(الحجر،17:18)

اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آسمانِ دنیا کو ہر مردود اور لعین شیطان سے محفوظ رکھا ہے لیکن جو شیطان آسمانوں  میں  ہونے والی گفتگو چوری کر کے ایک دوسرے کو بتاتے ہیں  تو ان کے پیچھے ایک روشن شعلہ پڑ جاتا ہے۔

 (تفسیر طبری، الحجر، تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸، ۷ / ۴۹۹)

            حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ

’’  شَیاطین آسمانوں  میں  داخل ہوتے تھے اور وہاں  کی خبریں  کاہنوں  کے پاس لاتے تھے ، جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پیدا ہوئے تو شیاطین تین آسمانوں  سے روک دیئے گئے اور جب سیدُ المرسلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ولادت ہوئی تو تمام آسمانوں  سے منع کردیئے گئے۔ اس کے بعد ان میں  سے جب کوئی باتیں  چوری کرنے کے ارادے سے اوپر چڑھتا تو اسے شِہاب کے ذریعے مارا جاتا۔ شیطانوں  نے یہ صورت ِحال ابلیس کے سامنے بیان کی تو ا س نے کہا: ضرور کوئی نئی بات ہوئی ہے۔ پھر ابلیس نے شیطانوں  کو معلومات کرنے کے لئے بھیجا تو ایک جگہ انہوں  نے دیکھا کہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قرآنِ پاک کی تلاوت فرما رہے ہیں  ۔ یہ دیکھ کر وہ بول اٹھے ’’خدا کی قسم یہی وہ نئی بات ہے۔‘‘

(خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۱۷، ۳ / ۹۷)

شیطانوں  کوشہابِ ثاقب لگنے سے متعلق دو اَحادیث:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

(1)… حضرت ابوہریرہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب اللّٰہ تعالیٰ آسمانی فرشتوں  کو کوئی حکم دیتا ہے تو وہ عاجزی کی وجہ سے اپنے پَرمارنے لگتے ہیں  جیسے زنجیر کو صاف پتھر پر مارا جائے۔ پھر اللّٰہ تعالیٰ اس حکم کو نافذ فرما دیتا ہے ۔ جب ان کے دلوں  سے کچھ خوف دور ہوتا ہے تو ایک دوسرے سے کہتے ہیں  کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے کیا فرمایا ؟وہ جواب دیتے ہیں  کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے جو فرمایا وہ حق فرمایا اور وہی بلند و بر تر ہے ۔پھر بات چرانے والے شیطان چوری چھپے سننے کی کوشش کرتے ہیں  اور چوری چھپے سننے کے لئے شیطان یوں  اوپر نیچے رہتے ہیں ، چنانچہ سفیان نے اپنے ہاتھ کی انگلیوں  کو کھول کر اوپر نیچے کر کے دکھایا۔ بعض اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ سننے والے شیطان کو چنگاری جا لگتی ہے اور وہ جل جاتا ہے ا س سے پہلے کہ وہ یہ بات اپنے ساتھ والے کو بتائے اور بعض اوقات چنگاری لگنے سے پہلے وہ اپنے نزدیک والے شیطان کو جو اس کے نیچے ہوتا ہے، بتا چکا ہوتا ہے اورا س طرح وہ بات زمین تک پہنچا دی جاتی ہے ،پھر وہ جادو گر کے منہ میں  ڈالی جاتی ہے ،پھر وہ جادو گر ایک کے ساتھ سو جھوٹ اپنی طرف سے ملاتا ہے، اس پر لوگ اس کی تصدیق کر کے کہنے لگتے ہیں  کہ کیا اس نے فلاں  روز ہمیں  نہیں  بتایا تھا کہ فلاں  بات یوں  ہو گی چنانچہ ہم نے اس کی بات کو درست پایا حالانکہ یہ وہی بات تھی جو آسمان سے چوری چھپے سنی گئی تھی۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

(2)… حضرت عبداللّٰہ بن عباس  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں  مجھے ایک انصاری صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے بتایا کہ ہم ایک رات رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ بیٹھے تھے، ایک تارا ٹوٹا، اور روشنی پھیل گئی تو ہم سے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ جاہلیت کے زمانے میں  جب اس جیسا تارا ٹوٹتا تھا تو تم کیا کہتے تھے ؟ہم نے عرض کی ’’ اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خوب جانتے ہیں  ۔ ہم تو یہ کہتے تھے کہ آج رات یا تو کوئی بڑا آدمی پیدا ہوا یا کوئی بڑا آدمی مرا ہے۔ نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’یہ تارے نہ تو کسی کی موت کے لیے مارے جاتے ہیں  نہ کسی کی زندگی کیلئے لیکن ہمارا رب عَزَّوَجَلَّ کہ اس کا نام مبارک اور بلندہے ، جب کسی چیز کا فیصلہ کرتا ہے تو عرش اٹھانے والے تسبیح کرتے ہیں ، پھر آسمان والوں  میں  سے جو ان کے قریب ہیں  وہ تسبیح کرتے ہیں  حتّٰی کہ تسبیح کا یہ سلسلہ اس دنیا کے آسمان والے فرشتوں  تک پہنچ جاتا ہے ، پھر عرش اٹھانے والے فرشتوں  کے قریب والے ان سے پوچھتے ہیں  کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے کیا فرمایا؟ وہ انہیں  خبر دیتے ہیں  ۔ پھر بعض آسمان والے بعض سے خبریں  پوچھتے ہیں  حتّٰی کہ اس آسمانِ دنیا تک خبر پہنچ جاتی ہے تو جِنّات ان سنی ہوئی باتوں  کو اچک لیتے ہیں  اور اپنے دوستوں  تک پہنچا دیتے ہیں ، (ان میں  سے بعض) مار دیئے جاتے ہیں  ۔پھر کاہن جو کچھ اس کے مطابق کہتے ہیں  وہ تو کچھ درست ہوتا ہے لیکن وہ تو اس میں  جھوٹ ملادیتے ہیں  اور بڑھا دیتے ہیں  ۔

حوالاجات

واقعہ اصحابِ فیل

(4)

یہ واقعہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے صرف پچاس یا پچپن دن پہلے پیش آیا تھا ۔ اس واقعہ اصحابِ فیل میں رسولِ کریم ﷺ کی برکات ظاہر ہیں  ،کیونکہ اس وقت آپ ﷺشکمِ مادر میں تھے اور  صرف ۵۵  دن بعد آپﷺ کی ولادت ہونا تھی۔  اگر اصحاب فیل غالب آتے تو وہ آپ  ﷺ  کی قوم کو تباہ و برباد کردیتے، اس لئے اللّٰہ تعالٰی نے آپﷺ کی برکت سے اَصحابِ فیل کو  بغیر کسی جنگ کے خودہلاک کر دیا،  تاکہ اس کے حبیبِ پاک ﷺ  کی ولادت کے وقت آپﷺ کی قوم     اور کعبہ امن کا گہوارہ ہو۔یہ واقعہ رسولِ کریم ﷺ کی نبوت کا پیش خیمہ تھا کیونکہ آپ ﷺ کے دین میں اسی بیت اللّٰہ کی تعظیم اسی کے حج اور اسی کی طرف نماز کا حکم ہوا۔ واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ:

 ابرہہ صباح حبشی نے( جو نجاشی بادشاہ حبش کی طرف سے یمن کا گورنر جنرل تھا)جب دیکھا کہ اہل عرب خانہ کعبہ کا حج کرتے ہیں تو صنعاٴ میں ایک بڑا کلیسا تعمیر کیا، اور چاہا کہ عرب کا حج اسی کی طرف پھیر دے مگر جب اس کی خبر بنو کنانہ کے ایک آدمی کو ہوئی تو اس نے رات کے وقت کلیسا کے اندر گھس کر اس کے قبلے پر پائخانہ پوت دیا۔ابرہہ کو پتہ چلا تو سخت برہم ہوا اوور ساٹھ ہزار کا ایک لشکر جرار لے کر کعبے کو کو ڈھانے کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ اس نے اپنے لئے ایک زبردست ہاتھی بھی منتخب کیا، لشکر میں کل نو یا تیرہ ہاتھی تھے۔ ابرہہ یمن سے یلغار کرتا ہوا مغمس پہنچا اور وہاں اپنے لشکر کو ترتیب دےکر اور ہاتھی کو تیار کرکے مکے میں داخلے کے لئے چل پڑا، جب مزدلفہ اور منی’ کے درمیان وادی محسر میں پہنچا تو ہاتھی بیٹھ گیا اور کعبے کی طرف بڑھنے کے لئے کسی طرح نہ اٹھا۔ اس کا رخ شمال جنوب یا مشرق کی طرف کیا جاتا تو اٹھ کر دوڑنے لگتا لیکن کعبے کی طرف کیا جاتا تو بیٹھا رہتا۔ اسی دوران اللہ نے چڑیوں کا ایک جھنڈ بھیج دیا جس نے لشکر پر ٹھیکری جیسے پتھر گرائے اور اللہ نے اسی سے انہیں کھائے ہوئے بھس کی طرح کر دیا۔ یہ چڑیاں ابابیل یا قمری جیسی تھیں، ہر چڑیا کے پاس تین تین کنکریاں تھیں، ایک چونچ میں اور دو پنجوں میں ،کنکریاں چنے جتنی تھیں مگر جس کو لگ جاتی تھیں اس کے اعضاٴ   کٹنا شروع ہو جاتے تھے اور وہ مر جاتا تھا۔ ادھر ابرہہ پر اللہ نے ایسی آفت بھیجی کہ اس کی انگلیوں کے پور جھڑ گئے اور صنعاٴ پہنچتے پہنچتے چوزے جیسا ہو گیا۔ پھر اسکا سینہ پھٹ گیا، دل باہر نکل آیا اور وہ مر گیا۔ ابرہہ کے اس حملے کے موقع پر مکے کے باشندے جان کے خوف سے گھاٹیوں میں بکھر گئے تھے اور پہاڑ کی چوٹیوں پر جا چھپے تھے۔ جب لشکر پر عذاب نازل ہو گیا تو اطمینان سے اپنے گھروں کو پلٹ آئے۔

مکہِ مکرمہ پر نزولِ برکات

(5)

جس شہر میں ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں، اس شہر کی  اللہ عزوجل قرآن میں کسی جگہ قسمیں فرماتا ہے  اور تو کسی جگہ اس کی برکتوں کا ذکر فرماتا ہے۔  اللہ عزوجل نے شہر  مکہ کو بلدِ امین فرمایا یعنی امان والا شہر اور اسکی قسم فرمائی

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَ التِّیْنِ وَ الزَّیْتُوْنِۙ(۱)وَ طُوْرِ سِیْنِیْنَۙ(۲) وَ هٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِۙ(۳)

انجیر کی قسم اور زیتون اور طور سینا اور اس امان والے شہر کی

(التین، 1:3)

اور فرمایا:

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَوَ لَمْ نُمَكِّنْ لَّهُمْ حَرَمًا اٰمِنًا یُّجْبٰى اِلَیْهِ ثَمَرٰتُ كُلِّ شَیْءٍ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ

کیا ہم نے اُنہیں جگہ نہ دی امان والی حرم میں جس کی طرف ہر چیز کے پھل لائے جاتے ہیں ہمارے پاس کی روزی لیکن ان میں اکثر کو علم نہیں

(القصص،57 )

سورۂ بلد  میں اللہ عزوجل مکہ مکرمہ  کی عظمت  کی  وجہ  واضح  کر دی:

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

لَا اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۱)وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۲)

مجھے اس شہر کی قسم کہ اے محبوب تم اس شہر میں تشریف فرما ہو

 (البلد،2:1)

سورۂ بلد کی دوسری آیت میں  گویا کہ ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، مکہ مکرمہ کو یہ عظمت آپ کے وہاں  تشریف فرما ہونے کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔( تفسیرکبیر، البلد، تحت الآیۃ: ۲، ۱۱ / ۱۶۴)

            حضرت علامہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’علماء فرماتے ہیں  کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں  نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے علاوہ اور کسی نبی کی رسالت کی قَسم یاد نہ فرمائی اور سورۂ مبارکہ ’’لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۱)وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِ‘‘ اس میں  رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی انتہائی تعظیم و تکریم کا بیان ہے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے قسم کو اس شہر سے جس کا نام ’’بلد ِحرام‘‘ اور ’’بلد ِامین‘‘ ہے ،مُقَیَّد فرمایا ہے اور جب سے حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اس مبارک شہر میں  نزولِ اِجلال فرمایا تب سے اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک وہ شہر معزز و مکرم ہو گیا اور اسی مقام سے یہ مثال مشہور ہوئی کہ ’’شَرَفُ الْمَکَانِ بِالْمَکِیْنِ‘‘ یعنی مکان کی بزرگی اس میں  رہنے والے سے ہے۔

            مزید فرماتے ہیں  کہ اللّٰہ تعالیٰ کا اپنی ذات و صفات کے علاوہ کسی اور چیز کی قسم یاد فرمانااس چیز کا شرف اور فضیلت ظاہر کرنے کے لئے اور دیگر اَشیاء کے مقابلے میں  اس چیز کو ممتاز کرنے کے لئے ہے جو لوگوں  کے درمیان موجود ہے تاکہ لوگ جان سکیں  کہ یہ چیز انتہائی عظمت و شرافت والی ہے۔

( مدارج النبوہ، باب سوم دربیان فضل وشرافت، ۱ / ۶۵ )

سبحان اللہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ یہ عظمت مکّہ مکرّمہ کو سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رونق افروزی کی بدولت حاصل ہوئی ۔ اس لیے  اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں ،

وہ خدانے ہے مرتبہ تجھ کو دیا ، نہ کسی کو ملے نہ کسی کو ملا

کہ کلامِ مجید نے کھائی شہا،  تِرے شہر و کلام و بقا کی قسم

( اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان)

ولادتِ مصطفی کے سال اہل قریش پر خیر کثیر

1

اللہ تعالیٰ نے میلاد النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی برکت کی وجہ سے سارا سال  اہل قریش کو اتنی کثیر خیر عطا کی کہ ان کو خوشحال  کر دیا۔ علامہ نورالدین علی بن ابراہیم بن احمد حلبی شافعی (متوفی 1044ھ) لکھتے ہیں:

وکانت تلک السنة التی حمل فيها برسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم يقال لها سنة الفتح والابتهاج، فان قريشا کانت قبل ذلک فی جدب وضيق عظيم فاخضرت الارض وحملت الاشجار واتاهم الرغد من کل جانب فی تلک السنة.

جس سال نور محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ودیعت ہوا۔ وہ فتح و نصرت، ترو تازگی اور خوشحالی کا سال کہلایا۔ اہل قریش اس سے قبل معاشی بدحالی، عسرت اور قحط سالی میں مبتلا تھے۔ ولادت کی برکت سے اس سال اللہ تعالیٰ نے بے آب و گیاہ زمین کو شادابی اور ہریالی عطا فرمائی اور سوکھے درختوں اور مردہ شاخوں کو ہرابھرا کرکے انہیں پھلوں سے لاد دیا۔ اہل قریش اس طرح ہر طرف سے کثیر خیر آنے سے خوشحال ہوگئے۔

(السيرة الحلبية، ج1، ص72)

مدینہِ منورہ کی برکات

2.3.7

ولادتِ رسولﷺ  سے ہی خیر القرون کا بابرکت زمانہ شروع ہوا۔ یہاں ہم آپﷺ کی بے شمار  برکات میں سے چند ایک کا ذکرِخیر کرتے ہیں۔

جب اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے نبی کریم ﷺ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ پہنچے تو اس مقام کو کیا کیا عظمتیں  حاصل ہوئیں   اور آپ ﷺ کی دعا سے کیسی برکات حاصل ہوئی ملاحظہ ہوں :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، سَمِعْتُ يُونُسَ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : اللَّهُمَّ اجْعَلْ بِالْمَدِينَةِ ضِعْفَيْ مَا جَعَلْتَ بِمَكَّةَ مِنَ الْبَرَكَةِ ، تَابَعَهُ عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ يُونُسَ .

ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا، انہوں نے یونس بن شہاب سے سنا اور انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہ   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے اے اللہ! جتنی مکہ میں برکت عطا فرمائی ہے مدینہ کو اس سے دگنی برکت  عطاکر۔ جریر کے ساتھ اس روایت کی متابعت عثمان بن عمر نے یونس کے واسطہ کے ساتھ کی ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الْحُبَابِ سَعِيدَ بْنَ يَسَارٍ ، يَقُولُ : سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، يَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أُمِرْتُ بِقَرْيَةٍ تَأْكُلُ الْقُرَى ، يَقُولُونَ يَثْرِبُ وَهِيَ الْمَدِينَةُ ، تَنْفِي النَّاسَ كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ .

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انہیں یحییٰ بن سعید نے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابوالحباب سعید بن یسار سے سنا، انہوں نے کہا کہ   میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ایک ایسے شہر ( میں ہجرت ) کا حکم ہوا ہے جو دوسرے شہروں کو کھا لے گا۔ ( یعنی سب کا سردار بنے گا ) منافقین اسے یثرب کہتے ہیں لیکن اس کا نام مدینہ ہے وہ ( برے ) لوگوں کو اس طرح باہر کر دیتا ہے جس طرح بھٹی لوہے کے زنگ کو نکال دیتی ہے۔

حوالاجات

آپ ﷺ کی دعا سے مدینہ منورہ حرم قرار دیا گیا:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : حَدَّثَنِي أَخِي ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : حُرِّمَ مَا بَيْنَ لَابَتَيْ الْمَدِينَةِ عَلَى لِسَانِي ، قَالَ : وَأَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَنِي حَارِثَةَ ، فَقَالَ : أَرَاكُمْ يَا بَنِي حَارِثَةَ قَدْ خَرَجْتُمْ مِنْ الْحَرَمِ ، ثُمَّ الْتَفَتَ ، فَقَالَ : بَلْ أَنْتُمْ فِيهِ .

ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن بلال نے، ان سے عبیداللہ نے، ان سے سعید مقبری نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مدینہ کے دونوں پتھریلے کناروں میں جو زمین ہے وہ میری زبان پر حرم ٹھہرائی گئی۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنو حارثہ کے پاس آئے اور فرمایا بنوحارثہ! میرا خیال ہے کہ تم لوگ حرم سے باہر ہو گئے ہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مڑ کر دیکھا اور فرمایا کہ نہیں بلکہ تم لوگ حرم کے اندر ہی ہو۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

حضرت سہل بن حنیف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اپنے دست ِاَقدس سے مدینہ منورہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا’’ بے شک یہ حرم ہے اور امن کا گہوارہ ہے۔

حوالاجات

آپ ﷺ کی شفاعت کا وعدہ:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جس شخص کو مدینہ منورہ میں  موت آ سکے تو اسے یہاں  ہی مرنا چاہئے،کیونکہ میں  یہاں  مرنے والوں  کی (خاص طور پر) شفاعت کروں  گا۔

حوالاجات

مدینہ شریف کی حفاظت فرشتوں کے ذریعے:

(1)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، قَالَ : حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُجْمِرِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : عَلَى أَنْقَابِ الْمَدِينَةِ مَلَائِكَةٌ ، لَا يَدْخُلُهَا الطَّاعُونُ ، وَلَا الدَّجَّالُ .

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نعیم بن عبداللہ المجمر نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مدینہ کے راستوں پر فرشتے ہیں نہ اس میں طاعون آ سکتا ہے نہ دجال۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ ، حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لَيْسَ مِنْ بَلَدٍ إِلَّا سَيَطَؤُهُ الدَّجَّالُ ، إِلَّا مَكَّةَ ، وَالْمَدِينَةَ لَيْسَ لَهُ مِنْ نِقَابِهَا نَقْبٌ إِلَّا عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ صَافِّينَ يَحْرُسُونَهَا ، ثُمَّ تَرْجُفُ الْمَدِينَةُ بِأَهْلِهَا ثَلَاثَ رَجَفَاتٍ ، فَيُخْرِجُ اللَّهُ كُلَّ كَافِرٍ وَمُنَافِقٍ .

ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، ان سے ولید نے بیان کیا، ان سے ابوعمرو اوزاعی نے بیان کیا، ان سے اسحٰق نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی ایسا شہر نہیں ملے گا جسے دجال پامال نہ کرے گا، سوائے مکہ اور مدینہ کے، ان کے ہر راستے پر صف بستہ فرشتے کھڑے ہوں گے جو ان کی حفاظت کریں گے پھر مدینہ کی زمین تین مرتبہ کانپے گی جس سے ایک ایک کافر اور منافق کو اللہ تعالیٰ اس میں سے باہر کر دے گا۔

حوالاجات

رسول اللہ ﷺ کی مدینہ منورہ سے محبت:

(2)

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، كَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ ، فَنَظَرَ إِلَى جُدُرَاتِ الْمَدِينَةِ أَوْضَعَ رَاحِلَتَهُ ، وَإِنْ كَانَ عَلَى دَابَّةٍ حَرَّكَهَا مِنْ حُبِّهَا .

ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے حمید نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی سفر سے واپس آتے اور مدینہ کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی سواری تیز فرما دیتے اور اگر کسی جانور کی پشت پر ہوتے تو مدینہ کی محبت میں اسے ایڑ لگاتے۔

حوالاجات

خلاصہ:

مدینہ طیبہ وہ پاک و مبارک شہر ہے

جہاں خود حضور اقدس سرورِ اکر م جان دو عالم ﷺ کی تربت اطہر اور روضۂ انور ہے جس پر کروڑوں مسلمانوں کی جانیں قربان ہیں۔1
جس کے راستوں پر فرشتے پہر ہ دیتے ہیں اس میں نہ دجال آئے نہ طاعون (بخاری ومسلم)2
جو تمام بستیوں پر باعتبار فضائل و برکات غالب ہے۔ (بخاری ومسلم)3
جو لوگوں کو اسی طرح پاک و صاف کرتا ہے ۔ جیسے بھٹی لوہے کے میل کو (بخاری و مسلم)4
جو شخص مدینہ میں مرے گا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت پائے گا اور بخشا جائے گا۔ (ترمذی)5
جس کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعائیں فرمائیں کہ:6
الٰہی! ہمارے لیے ہماری کھجوروں میں برکت دے۔(ا)
ہمارے صاع و مد( دو پیمانے) میں برکت دے۔(ب)
 ہمارے مدینہ میں برکتیں اتار۔(ج)
یا اللہ! بے شک ابراہیم تیرے بندے، تیر ے خلیل اور تیرے نبی ہیں اور بیشک میں تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں، انہوں نے مکہّ کے لیے تجھ سے دعا کی اور میں مدینہ کے لیے تجھ سے دعا کرتا ہوں اسی کی مثل جس کی دعا مکہّ کے لیے انہوں نے کی اور اتنی ہی اور (یعنی مدینہ کی برکتیں مکہ سے دو چند ہوں) (مسلم وغیرہ)(د)
یا اللہ! تو مدینہ کو ہمارا محبوب بنا دے جیسے ہم کو مکہ محبوب ہے بلکہ اس سے زیادہ اور اس کی آب و ہوا کو ہمارے لیے درست فرما دے(ر)
یہ دعا اس وقت فرمائی تھی جب ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لائے اور یہاں آب و ہوا صحابہ کرام کو ناموافق ہوئی کہ پیشتر یہاں وبائی بیماریاں بکثرت ہوتیں اسی لیے اس کا نام یثرب تھا یعنی ناموافق آب و ہوا والی بستی ، اب یہ یثرب نہیں بلکہ طیبہ ہے۔

            اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ  کیا خوب فرماتے ہیں :

طیبہ میں  مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں  بند

سیدھی سڑک یہ شہرِ شفاعت نگر کی ہے

(اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان)

روضہٴ اقدس کی برکات

2.3.8

مدینہِ منورہ  کی سب سے عظیم برکت اللہ کے  محبوب ﷺ کے روضہِ  مبارک کی ہے ، کیونکہ یہاں آپ ﷺ  خود اپنے وجودِ اطہر کے ساتھ موجود ہیں۔  ایک مومن جو برکات آپ ﷺ  سے حاصل کر سکتا ہے وہ کسی اور چیز سے ممکن نہیں۔

سید العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ارشاداتِ گرامی میں روضۂ اقدس کی زیارت کی ترغیب دی اور زائر کے لئے شفاعت کا وعدہ فرمایا ۔

زیارتِ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مشروعیت

بحث القرآن

(1)

قبرِ انور کی زیارت کی شرعی حیثیت پر اُمتِ مسلمہ کا اِجماع ہے۔ کئی ائمہِ احناف کے نزدیک واجب ہے جبکہ ائمہِ مالکیہ کے نزدیک قطعی طور پرواجب ہے۔ اُن کے علاوہ دیگر اہلِ سنت کے مکاتب و مذاہب بھی اُسے واجب قرار دیتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری کا حکم یوں فرمایا ہے :

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا۔

’’اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اِس وسیلہ اور شفاعت کی بناء پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے۔‘‘

النساء، 4 : 64

اس آیتِ کریمہ کو فقط سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات پر محمول کرنا، جیسا کہ بعض لوگوں کا گمان ہے، نصِ قرآنی کا غلط اِطلاق اور قرآن فہمی سے ناآشنائی کی دلیل ہے۔ مذکورہ بالا آیت کی تفسیر کرتے ہوئے محدّثین و مفسرین نے بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضری کو مطلق قرار دیا ہے۔ حافظ ابنِ کثیر رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر کے تحت لکھتے ہیں :

يُرشد تعالي العصاة والمُذنبين إذا وقع منهم الخطأ والعصيان أن يأتوا إلي الرسول صلي الله عليه وآله وسلم، فيستغفروا اﷲ عنده، ويسألوه أن يغفر لهم، فإنهم إذا فعلوا ذٰلک تاب اﷲ عليهم ورحمهم وغفر لهم، ولهذا قال : ﴿لَوَجَدُوا اﷲَ تَوَّابًا رَّحِيْمًا﴾ وقد ذکر جماعة منهم الشيخ أبومنصور الصبّاغ في کتابه الشامل ’الحکاية المشهورة، عن العتبي، قال : کنتُ جالساً عند قبر النبي صلي الله عليه وآله وسلم، فجاء أعرابي فقال : السلام عليک يارسول اﷲ! سمعتُ اﷲ يقول : ﴿وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَّلَمُوْا أَنْفُسَهُمْ جَآءُ وْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اﷲَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اﷲَ تَوَّابًا رَّحِيْمًا﴾ وقد جئتُکَ مستغفراً لذنبي مستشفعاً بکَ إلي ربي. ثم أنشأ يقول :

يا خير من دفنت بالقاع أعظمه

فطاب من طيبهن القاع و الأکم

نفسي الفداء لقبر أنت ساکنه

فيه العفاف وفيه الجود والکرم

ثُم انصرف الأعرابيّ، فغلبتني عيني، فرأيت النبي صلي الله عليه وآله وسلم في النوم، فقال : يا عتبي! الحق الأعرابيّ، فبشره أن اﷲ قد غفر له.

’’اللہ تعالیٰ نے عاصیوں اور خطاکاروں کو ہدایت فرمائی ہے کہ جب ان سے خطائیں اور گناہ سرزد ہوجائیں تو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر اللہ تعالیٰ سے اِستغفار کرنا چاہئے اور خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی عرض کرنا چاہئے کہ آپ صلی اللہ علیک وسلم ہمارے لئے دعا فرمائیں جب وہ ایسا کریں گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ ان کی طرف رجوع فرمائے گا، انہیں بخش دے گا اور ان پر رحم فرمائے گا۔ اِسی لئے فرمایا گیا : لَوَجَدُوا اﷲَ تَوَّابًا رَّحِيْمًا (تو وہ (اِس وسیلہ اور شفاعت کی بناء پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے)۔ یہ روایت بہت سوں نے بیان کی ہے جن میں سے ابو منصور صباغ نے اپنی کتاب ’الحکایات المشہورۃ‘ میں لکھا ہے : عُتبی کا بیان ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ ایک دیہاتی آیا اور اس نے کہا : ’’السّلام علیکَ یا رسول اﷲ! میں نے سنا ہے کہ اللہ پاک کا ارشاد ہے : ’’اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اُن کے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اِس وسیلہ اور شفاعت کی بناء پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے۔‘‘ میں آپ صلی اﷲ علیک و سلم کی خدمت میں اپنے گناہوں پر استغفار کرتے ہوئے اور آپ کو اپنے رب کے سامنے اپنا سفارشی بناتے ہوئے حاضر ہوا ہوں۔‘‘ پھر اس نے یہ اشعار پڑھے :

(اے مدفون لوگوں میں سب سے بہتر ہستی! جن کی وجہ سے میدان اور ٹیلے اچھے ہو گئے، میری جان قربان اس قبر پر جس میں آپ صلی اﷲ علیک وسلم رونق افروز ہیں، جس میں بخشش اور جود و کرم جلوہ افروز ہے۔ )

پھر اعرابی تو لوٹ گیا اور مجھے نیند آگئی، میں نے خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے فرما رہے تھے : عُتبی! اعرابی حق کہہ رہا ہے، پس تو جا اور اُسے خوش خبری سنا دے کہ اللہ تعالیٰ نے اُس کے گناہ معاف فرما دیئے ہیں۔‘‘

ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 519 – 520

اعرابی کا مذکورہ بالا مشہور واقعہ درج ذیل کتب میں بھی بیان کیا گیا ہے :

بيهقي، شعب الإبمان، 3 : 495، 496، رقم : 41781
ابن قدامة، المغني، 3 : 2982
نووي، کتاب الأذکار : 92، 933
سبکي، شفاء السقام في زيارة خير الأنام : 46. 474
مقريزي، إمتاع الأسماع، 14 : 6155

اِمام قرطبی نے اپنی معروف تفسیر ’’الجامع لاحکام القرآن (5 : 265 ۔ 266)‘‘ میں عتبیکی روایت سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ یوں بیان کیا ہے :

روي أبو صادق عن علي، قال : قدِم علينا أعرابيّ بعد ما دفّنا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم بثلاثة أيام، فرمي بنفسه علي قبر رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، وحَثَا علي رأسه من ترابه، فقال : قلتَ يا رسول اﷲ! فسمعنا قولک، و وَعَيْتَ عن اﷲ فوعينا عنک، وکان فيما أنزل اﷲ عليک : ﴿وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَّلَمُوْا أَنْفُسَهُمْ﴾ الآية، وقد ظلمتُ نفسي، وجئتُکَ تستغفر لي. فنودي من القبر أنه قد غفر لک.

’’ابو صادق نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ہمارے سامنے ایک دیہاتی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تدفین کے تین دن بعد مدینہ منورہ آیا۔ اس نے فرطِ غم سے اپنے آپ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر گرا لیا۔ قبر انور کی مٹی اپنے اوپر ڈالی اورعرض کیا : اے اللہ کے رسول! صلی اﷲ علیک وسلم آپ نے فرمایا اور ہم نے آپ صلی اﷲ علیک وسلم کا قول مبارک سنا ہے، آپ صلی اﷲ علیک وسلم نے اللہ سے احکامات لئے اور ہم نے آپ صلی اﷲ علیک وسلم سے احکام لئے اور اُنہی میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے : ’’وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ ۔ ۔ ۔ (اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے۔ ۔ ۔)۔‘‘ میں نے بھی اپنے اوپر ظلم کیا ہے، آپ صلی اﷲ علیک وسلم میرے لیے اِستغفار فرما دیں۔ اعرابی کی اِس (عاجزانہ اور محبت بھری) التجاء پر اُسے قبر سے ندا دی گئی : ’’بیشک تمہاری مغفرت ہو گئی ہے۔‘‘

قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 5 : 265

عتبیٰ کی اس روایت پر اکابر محدّثینِ کرام نے اعتماد کیا ہے۔ امام نووی نے اسے اپنی معروف کتاب ’’الایضاح‘‘ کے چھٹے باب (ص : 454، 455) میں، شیخ ابوالفرج بن قدامہ نے اپنی تصنیف ’’الشرح الکبير (3 : 495)‘‘ میں اور شیخ منصور بن یونس بہوتی نے اپنی کتاب ’’کشاف القناع (5 : 30)‘‘، جو مذہب حنبلی کی مشہور کتاب ہے، میں اسے نقل کیا ہے۔ علاوہ ازیں تمام مذاہب کے اجل ائمہ و علماء کا عُتبی کی روایت کے مطابق دیہاتی کا روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آ کر مغفرت طلب کرنا ان کی کتابوں میں زیارۃِ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا مناسکِ حج کے ذیل میں بیان ہواہے۔ جن میں امام ابنِ کثیر، امام نووی، امام قرطبی، امام ابنِ قدامہ، امام سبکی، امام سیوطی، امام زرقانی سمیت کئی ائمہ شامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان اکابر محدّثین و مفسرینِ کرام نے کفر اور گمراہی کو نقل کیا ہے؟ یا (معاذ اﷲ) وہ بات نقل کی ہے جو بت پرستی یا قبر پرستی کی غماز ہے؟ اگر ایسا تسلیم کر لیا جائے تو پھر کس امام کو معتبر اور کس کتاب کو ثقہ و مستند مانا جائے گا؟

لہٰذا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بعد اَز وصال اُمت کے لئے اِستغفار فرمانا ممکن ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُمت کے حق میں انتہائی شفیق و رحیم ہونا نصوصِ قرآن و سنت سے ثابت اور متحقق ہے تو یہ امر قطعًا و حتماً معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعد اَز وصال بھی روضۂ مبارک پر حاضرِ خدمت ہونے والوں کو محروم نہیں فرماتے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَ مَنْ يَخْرُجْ مِنْم بَيْتِه مُهَاجِرًا إِلَي اﷲِ وَ رَسُوْلِه ثُمَّ يُدْرِکْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُه عَلَي اﷲِ.

’’اور جو شخص بھی اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی طرف ہجرت کرتے ہوئے نکلے، پھر اسے (راستے میں ہی) موت آپکڑے تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ثابت ہو گیا۔‘‘

النساء، 4 : 100

آیتِ مقدسہ کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وِصال کے بعد جو شخص اپنے نہاں خانہ دل میں گنبد خضراء کے جلوؤں کو سمیٹنے کی نیت سے سفر اختیار کرتا ہے اس پر بھی اسی ہجرت الی الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِطلاق ہوتا ہے۔

بحث الحديث

(2)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف طریقوں سے اَز رَہِ شان و فضیلت کہیں اپنے روضۂ اَقدس، کہیں اپنے مسکن مبارک اور کہیں اپنے منبرِ اَقدس کی زیارت کی ترغیب دی ہے۔  یہی وجہ ہے کہ قرونِ اولیٰ سے لے کر آج تک زیارتِ قبر انور کی نیت سے سفر کرنا اُمتِ مسلمہ کا پسندیدہ اور محبوب عمل رہا ہے۔ ایسا محبوب عمل جس کی ادائیگی تو کجا اس کی محض یاد بھی موجب برکت و سعادت ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے روضۂ اَطہر کی زیارت کے حوالے سے اِرشاد فرمایا:

۱- حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ اقدس ہے :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

مَنْ حَجَّ فَزَارَ قَبْرِي بَعَدَ وَفَاتِي، فَکَأَنَّمَا زَارَنِي فِيْ حَيَاتِي.

’’جس نے حج کیا پھر میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی تو گویا اُس نے میری زندگی میں میری زیارت کی۔‘‘

حوالاجات

2-حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ تاجدارِ کائنات ﷺ نے فرمایا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

مَنْ جَاءَ نِي زَائِرًا لَا يَعْمَلُهُ حَاجَةً إِلَّا زِيَارَتِي، کَانَ حَقًّا عَلَيُ أَنْ أَکُوْنَ لَهُ شَفِيْعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ.

’’جو بغیر کسی حاجت کے صرف میری زیارت کے لیے آیا اُس کا مجھ پر حق ہے کہ میں روزِ قیامت اُس کی شفاعت کروں۔‘‘

حوالاجات

ابن السکن نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’السنن الصحاح ماثورۃ عن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کے خطبہ میں اس کتاب میں نقل کردہ روایات کو بالاجماعِ ائمہ حدیث کے نزدیک صحیح قرار دیا ہے۔ اِس حدیثِ مبارکہ کو اُنہوں نے ’’کتاب الحج‘‘ میں باب ثواب من زار قبر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی نقل کیا ہے۔

3-حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما نے روایت کیا ہے :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

مَنْ زَارَ قَبْرِي، وَجَبَتْ لَهُ شَفَاعَتِي.

’’جس نے میری قبر کی زیارت کی اُس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی۔‘‘

حوالاجات

ایک دوسری روایت میں ’حلّت لہ شفاعتي‘ کے الفاظ بھی ہیں۔ امام نبہانی رحمۃ اللہ علیہ ’’شواہد الحق فی الاستغاثہ بسید الخلق (ص : 77)‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ائمہِ حدیث کی ایک جماعت نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

امام سبکی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی چند اِسناد بیان کرنے اور جرح و تعدیل کے بعد فرماتے ہیں :

’’مذکورہ حدیث حسن کا درجہ رکھتی ہے۔ جن احادیث میں زیارتِ قبرِ انور کی ترغیب دی گئی ہے ان کی تعداد دس سے بھی زیادہ ہے، اِن احادیث سے مذکورہ حدیث کو تقویت ملتی ہے اور اِسے حسن سے صحیح کا درجہ مل جاتاہے۔‘‘

سبکي، شفاء السقام في زيارة خير الأنام : 3، 11

عبد الحق اِشبیلی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ امام سیوطی نے ’’مناہل الصفا فی تخریج احادیث الشفا (ص : 71)‘‘ میں اسے صحیح کہا ہے۔ شیخ محمود سعید ممدوح ’’رفع المنارہ (ص : 318)‘‘ میں اس حدیث پر بڑی مفصل تحقیق کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے اور قواعدِ حدیث بھی اِسی رائے پردلالت کرتے ہیں۔

اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اقدس کے زائر پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت متحقق اور لازم ہوگئی یعنی اللہ تعالیٰ سے زائر کی معافی و درگزر کی سفارش کرنا لازم ہو گیا۔

4۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

مَنْ زَارَنِي بِالْمَدِيْنَةِ مُحْتَسِبًا کُنْتُ لَهُ شَهِيْدًا وَشَفِيْعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ.

’’جس شخص نے خلوصِ نیت سے مدینہ منورہ حاضر ہوکر میری زیارت کا شرف حاصل کیا، میں قیامت کے دن اس کا گواہ ہوں گا اور اس کی شفاعت کروں گا۔‘‘

حوالاجات

عسقلانی نے تلخیص الحبیر (2 : 267)‘ میں اسے مرفوع کہا ہے۔

5- حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہادئ برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

مَنْ زَارَ قَبْرِي، أَوْ قَالَ : مَنْ زَارَنِي کُنْتُ لَهُ شَفِيْعًا أَوْشَهِيْدًا، وَ مَنْ مَاتَ فِي أَحَدِ الْحَرَمَيْنِ بَعَثَهُ اﷲُ مِنَ الآمِنِيْنَ يَوْمَ الْقِيَامَة.

’’جس نے میری قبر (یا راوی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ) میری زیارت کی میں اس کا شفیع یا گواہ ہوں گا اور جو کوئی دو حرموں میں سے کسی ایک میں فوت ہوا اللہ تعالیٰ اُسے روزِ قیامت ایمان والوں کے ساتھ اٹھائے گا۔‘‘

حوالاجات

سبحان اللہ، مولائے قدوس جل جلالہ ہمیں آپ ﷺ   کی بارگاہ میں پہنچا کر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا مہمان بناتا ہے اور دنیا و آخرت میں ہماری کامرانی و بخشش و نجات و شفاعت کا مژدہ اپنے حبیب کی زبان وحیِ ترجمان سے سناتا  ہے۔

بعداَز وصال صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا معمول

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم صبح و شام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت اور دیدار سے اپنے مضطرب قلوب و اذہان کو راحت و سکون بہم پہنچاتے تھے اور  اُن کے دل میں ہر لمحہ یہ تمنا رہتی تھی کہ اُن کا محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی بھی اُن سے جدا نہ ہو پس جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی کیفیاتِ محبت کا والہانہ اظہار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مقدسہ میں ہوا، اسی طرح بعد از وصال بھی وہ دیوانہ وار حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اطہر پر حاضری دیتے اور اس حاضری میں بھی ان کی کیفیات دیدنی ہوتیں۔ یعنی ادبِ بارگاہِ رسالت کے ساتھ ساتھ محبت اور عشق کی تمام تر بے قراریاں، جذب وشوق اور کیفیتِ فراق اور غمِ ہجر کی لذتیں ان کے ایمان کو جلا بخشتی تھیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ اَنور کی زیارت کے حوالہ سے صحابہ کرام کے ان ہی کیفیاتِ شوق پر مبنی معمولات درج ذیل ہیں :

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا معمول

1

حضرت کعب الاحبار کے قبولِ اسلام کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے انہیں کہا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

هل لک أن تسيرمعي إلي المدينة فنزور قبر النبي صلي الله عليه وآله وسلم وتتمتع بزيارته، فقلت نعم يا أمير المؤمنين.

’’کیا آپ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اقدس کی زیارت اور فیوض و برکات حاصل کرنے کے لیے میرے ساتھ مدینہ منورہ چلیں گے؟‘‘ تو انہوں نے کہا : ’’جی! امیر المؤمنین۔‘‘

پھر جب حضرت کعب الاحبار اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ آئے تو سب سے پہلے بارگاہِ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضری دی اور سلام عرض کیا، پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مدفن مبارک پر کھڑے ہوکر اُن کی خدمت میں سلام عرض کیا اور دو رکعت نماز ادا فرمائی۔

حوالاجات

اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کا معمول

2

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کا معمول تھا کہ آپ اکثر روضہ مبارک پر حاضر ہوا کرتی تھیں۔ وہ فرماتی ہیں :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

کُنْتُ أَدْخُلُ بَيْتِي الَّذِي دُفِنَ فِيْهِ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَ أَبِي، فَاَضَعُ ثَوْبِي فَأَقُوْلُ إنَّمَا هُوَ زَوْجِي وَأَبِي، فَلَمَّا دُفِنَ عُمَرُ مَعَهُمْ فَوَ اﷲِ مَا دَخَلْتُ اِلَّا وَ أَنَا مَشْدُوْدَة عَلَيَ ثِيَابِي حَيَائً مِنْ عُمَرَ.

’’میں اس مکان میں جہاں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میرے والد گرامی مدفون ہیں جب داخل ہوتی تو یہ خیال کرکے اپنی چادر (جسے بطور برقع اوڑھتی وہ) اتار دیتی کہ یہ میرے شوہرِ نامدار اور والدِ گرامی ہی تو ہیں لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کے ساتھ دفن کر دیا گیا تو اللہ کی قسم میں عمر رضی اللہ عنہ سے حیاء کی وجہ سے بغیر کپڑا لپیٹے کبھی داخل نہ ہوئی۔‘‘

حوالاجات

اس حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کا روضۂ اقدس پر حاضری کا ہمیشہ معمول تھا۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے اہلِ مدینہ کو قحط سالی کے خاتمے کے لئے قبرِ انور پر حاضر ہو کر توسل کرنے کی تلقین فرمائی۔ امام دارِمی صحیح اِسناد کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

اس حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کا روضۂ اقدس پر حاضری کا ہمیشہ معمول تھا۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے اہلِ مدینہ کو قحط سالی کے خاتمے کے لئے قبرِ انور پر حاضر ہو کر توسل کرنے کی تلقین فرمائی۔ امام دارِمی صحیح اِسناد کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

’’ایک مرتبہ مدینہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہوگئے تو انہوں نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے (اپنی دِگرگوں حالت کی) شکایت کی۔ آپ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ مبارک کے پاس جاؤ اور اس سے ایک روشندان آسمان کی طرف کھولو تاکہ قبرِ انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ رہے۔ راوی کہتے ہیں کہ ایسا کرنے کی دیر تھی کہ اتنی زور دار بارش ہوئی جس کی وجہ سے خوب سبزہ اُگ آیا اور اُونٹ اتنے موٹے ہوگئے کہ (محسوس ہوتا تھا) جیسے وہ چربی سے پھٹ پڑیں گے۔ پس اُس سال کا نام ہی ’’عامُ الفتق (سبزہ و کشادگی کا سال)‘‘ رکھ دیا گیا۔‘‘

حوالاجات

ثابت ہوا کہ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا نے اہلِ مدینہ کو رحمتیں اور برکتیں حاصل کرنے کے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ مبارک کو وسیلہ بنانے کی ہدایت فرمائی، جس سے اُن پر طاری شدید قحط ختم ہو گیا، اور موسلا دھار بارش نے ہر طرف بہار کا سماں پیدا کر دیا۔ جہاں انسانوں کو غذا ملی وہاں جانوروں کو چارا ملا، اِس بارش نے اہلِ مدینہ کو اتنا پر بہار اور خوشحال بنا دیا کہ انہوں نے اس پورے سال کو ’عام الفتق (سبزہ اور کشادگی کا سال)‘ کے نام سے یاد کیا۔

بعض لوگوں نے اس رِوایت پر اعتراضات کئے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ اس کی سند کمزور ہے لہٰذا یہ روایت بطورِ دلیل پیش نہیں کی جا سکتی لیکن مستند علماء نے اِسے قبول کیا ہے اور بہت سی ایسی اسناد سے استشہاد کیا ہے جو اس جیسی ہیں یا اس سے کم مضبوط ہیں۔ لہٰذا اس روایت کو بطورِ دلیل لیا جائے گا کیونکہ امام نسائی کا مسلک یہ ہے کہ جب تک تمام محدّثین ایک راوی کی حدیث کے ترک پر متفق نہ ہوں، اس کی حدیث ترک نہ کی جائے۔

(1)عسقلاني، شرح نخبة الفکر في مصطلح أهل الأثر :233

ا یک اور اعتراض اس روایت پر یہ کیا جاتا ہے کہ یہ موقوف ہے یعنی صرف صحابیہ تک پہنچتی ہے، اور یہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کا قول ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان نہیں ہے۔ اس لئے اگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ تک اس کی اسناد صحیح بھی ہوں تو یہ دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ یہ ذاتی رائے پر مبنی ہے اور بعض اوقات صحابہ کی ذاتی رائے صحیح ہوتی ہے اور بعض اوقات اس میں صحت کا معیار کمزور بھی ہوتا ہے، لہٰذا ہم اس پر عمل کرنے کے پابند نہیں۔

اس بے بنیاد اعتراض کا سادہ لفظوں میں جواب یہ ہے کہ نہ صرف اس روایت کی اسناد صحیح اور مستند ہیں بلکہ کسی بھی صحابی نے نہ تو حضرت عائشۃ رضی اﷲ عنہا کے تجویز کردہ عمل پر اعتراض کیا اور نہ ہی ایسا کوئی اعتراض مروی ہے جس طرح حضرت مالک دار رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایت میں اس آدمی پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا جو قبرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آ کر بارش کے لیے دعا کرتا ہے۔ یہ روایتیں صحابہ کا اجماع ظاہر کرتی ہیں اور ایسا اجماع بہر طور مقبول ہوتا ہے۔ کوئی شخص اس عمل کوناجائز یا بدعت نہیں کہہ سکتا کہ جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے سکوت نے جائز یا مستحب قرار دیا ہو۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی پیروی کے لزوم کے بارے میں امام شافعی فرماتے ہیں :

رأيهم لنا خير من رأينا لأنفسنا.

’’ہمارے لیے ان کی رائے ہمارے بارے میں ہماری اپنی رائے سے بہتر ہے۔‘‘

ابن قيم، أعلام الموقعين عن ربّ العالمين، 2 : 186

علامہ ابنِ تیمیہ نے اس روایت پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جھوٹ ہے اور حضرت عائشۃ رضی اﷲ عنہا کی پوری زندگی میں روضۂ اقدس کی چھت میں اس طرح کا کوئی سوراخ موجود نہیں تھا۔ یہ اعتراض کمزور ہے کیونکہ امام دارمی اور ان کے بعد آنے والے اَئمہ و علماء اس طرح کی تفصیل متاخرین سے زیادہ بہتر جانتے تھے۔ مثال کے طور پر مدنی محدّث و مؤرخ امام علی بن احمد سمہودی نے علامہ ابنِ تیمیہ کے اعتراض کا ردّ اور امام دارمی کی تصدیق کرتے ہوئے ’’وفاء الوفاء (2 : 560)‘‘ میں لکھا ہے :

’’زین المراغی نے کہا : ’جان لیجئے کہ مدینہ کے لوگوں کی آج کے دن تک یہ سنت ہے کہ وہ قحط کے زمانہ میں روضۂ رسول کے گنبد کی تہہ میں قبلہ رُخ ایک کھڑکی کھولتے اگرچہ قبر مبارک اور آسمان کے درمیان چھت حائل رہتی۔ میں کہتا ہوں کہ ہمارے دور میں بھی مقصورہ شریف، جس نے روضہ مبارک کو گھیر رکھا ہے، کا باب المواجہ یعنی چہرۂ اقدس کی جانب کھلنے والا دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور لوگ وہاں (دعا کے لیے) جمع ہوتے ہیں۔‘‘

سمهودي، وفاء الوفاء، 2 : 560

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور کے پاس جا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسُّل سے دعا کرنے کا معمول عثمانی ترکوں کے زمانے یعنی بیسویں صدی کے اوائل دور تک رائج رہا، وہ یوں کہ کہ جب قحط ہوتا اور بارش نہ ہوتی تو اہلِ مدینہ کسی کم عمر سید زادہ کو وضو کروا کر اوپر چڑھاتے اور وہ بچہ اس رسی کو کھینچتا جوقبرِ انور کے اوپر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے فرمان کے مطابق سوراخ کے ڈھکنے کو بند کرنے کے لئے لٹکائی ہوئی تھی۔ اس طرح جب قبرِ انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ نہ رہتا تو بارانِ رحمت کا نزول ہوتا۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کا معمول

3

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کے آزاد کردہ غلام نافع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ابنِ عمر رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ جب بھی سفر سے واپس لوٹتے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اقدس پر حاضری دیتے اور عرض کرتے :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

السّلام عليک يا رسول اﷲ! السّلام عليک يا أبا بکر! السّلام عليک يا أبتاه!

’’اے اللہ کے (پیارے) رسول! آپ پر سلامتی ہو، اے ابوبکر! آپ پر سلامتی ہو، اے ابا جان! آپ پر سلامتی ہو۔‘‘

حوالاجات

قاضی عیاض نے ’’الشفاء (2 : 671)‘‘ میں جو روایت نقل کی ہے اس میں ہے کہ حضرت نافع رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کو سو (100) سے زائد مرتبہ قبرِ انور پر حاضری دیتے ہوئے دیکھا، اور مقریزی نے بھی ’’اِمتاع الاسماع (14 : 618)‘‘ میں یہی نقل کیا ہے۔ ابن الحاج مالکی نے ’’المدخل (1 : 261)‘‘ میں اِس کی تائید کی ہے۔ علاوہ ازیں ابنِ حجر مکی نے ’’الجوہر المنظم (ص : 28)‘‘ اور زرقانی نے ’’شرح المواہب اللدنیۃ (12 : 198)‘‘ میں اس روایت کو نقل کیا ہے۔

حضرت عبداﷲ بن دینار بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کو دیکھا کہ جب سفر سے واپس لوٹتے تو مسجدِ (نبوی) میں داخل ہوتے اور یوں سلام عرض کرتے :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

السّلام عليک يا رسول اﷲ! السّلام علي أبي بکر! السّلام علي أبي.

’’اے اللہ کے (پیارے) رسول! آپ پر سلام ہو، ابوبکر پر سلام ہو (اور) میرے والد پر بھی سلام ہو۔‘‘

اس کے بعد حضرت عبداﷲ بن عمر دو رکعات نماز ادا فرماتے۔

حوالاجات

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا معمول

4

حضرت ابو اُمامہ بیان کرتے ہیں :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

رَأيتُ أنَس بن مَالِک أتي قَبْر النَّبي صلي الله عليه وآله وسلم فوقف فرفع يديه حتي ظننتُ أنه افتتح الصّلاة فسلّم علي النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم ثم انصرف.

’’میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر آتے دیکھا، انہوں نے (وہاں آ کر) توقف کیا، اپنے ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ شاید میں نے گمان کیا کہ وہ نماز ادا کرنے لگے ہیں۔ پھر انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں سلام عرض کیا، اور واپس چلے آئے۔‘‘

حوالاجات

اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم فقط بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سلام عرض کرنے کا شرف حاصل کرنے کے لئے بھی مسجدِ نبوی میں آتے تھے۔

حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہما کا معمول

5

امام محمد بن منکدر روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو روضۂِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب روتے ہوئے دیکھا۔ وہ کہہ رہے تھے :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

هاهنا تسکب العبرات، سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَا بَيْنَ قَبْرِيْ وَمِنْبَرِي رَوْضَة مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ.

’’یہی وہ جگہ ہے جہاں (فراقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں آنسو بہائے جاتے ہیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : میری قبر اور منبر کے درمیان والی جگہ بہشت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔‘‘

حوالاجات

حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو خواب میں زیارت کا حکم

6

عاشقِ مصطفیٰ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وِصال مبارک کے بعد یہ خیال کرکے شہرِ دلبر. . . مدینہ منورہ. . . سے شام چلے گئے کہ جب یہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی نہ رہے تو پھر اِس شہر میں کیا رہنا! حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیت المقدس فتح کیا تو سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے خواب میں آئے اور فرمایا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

ما هذه الجفوة، يا بلال؟ أما آن لک أن تزورني؟ يا بلال!.

’’اے بلال! یہ فرقت کیوں ہے؟ اے بلال! کیا وہ وقت ابھی نہیں آیا کہ تم ہم سے ملاقات کرو؟‘‘

اس کے بعد حضرت بلال رضی اللہ عنہ اَشک بار ہو گئے۔ خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کو حکم سمجھا اور مدینے کی طرف رختِ سفر باندھا، اُفتاں و خیزاں روضۂ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضری دی اور بے چین ہوکر غمِ فراق میں رونے اور اپنے چہرے کو روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ملنے لگے۔

حوالاجات

حضرت ابو ایوب اَنصاری رضی اللہ عنہ کا واقعہ

7

حضرت داؤد بن صالح سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز خلیفہ مروان بن الحکم روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے دیکھا کہ ایک آدمی حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور پر اپنا منہ رکھے ہوئے ہے۔ مروان نے اسے کہا : کیا تو جانتا ہے کہ تو یہ کیا کر رہا ہے؟ جب مروان اس کی طرف بڑھا تو دیکھا کہ وہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ہیں، انہوں نے جواب دیا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

نَعَمْ، جِئْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَ لَمْ آتِ الْحَجَرَ.

’’ہاں (میں جانتا ہوں کہ میں کیا کر رہا ہوں)، میں اﷲ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا۔‘‘

حوالاجات

امام احمد بن حنبل کی بیان کردہ روایت کی اِسناد صحیح ہیں۔ امام حاکم نے اسے شیخین (بخاری و مسلم) کی شرائط پر صحیح قرار دیا ہے جبکہ امام ذہبی نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔

حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کا بارگاہِ نبوت میں سلام

8

یزید بن ابی سعید المقبری بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا۔ جب میں نے انہیں الوداع کہا تو انہوں نے فرمایا   مجھے آپ سے ایک ضروری کام ہے، پھر فرمایا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

إذا أتيت المدينة ستري قبر النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم، فأقرئه منّي السّلام.

’’جب آپ مدینہ منورہ حاضر ہوں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ مبارک پر حاضری دے کر میری طرف سے (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں) سلام (کا تحفہ و نذرانہ) پیش کر دیجئے گا۔‘‘

حوالاجات

ایک دوسری روایت میں ہے :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

کان عمر بن عبد العزيز يوجه بالبريد قاصدًا إلي المدينة ليقري عنه النبي صلي الله عليه وآله وسلم.

’’حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ آپ ایک قاصد کو شام سے بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اپنی طرف سے درود و سلام کا ہدیہ پیش کرنے کے لیے بھیجا کرتے تھے۔‘‘

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے پاس ایک صحابیہ آئی جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فراق میں گھائل تھی۔ اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کرنے کی درخواست کی۔ بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضری کے وقت وہ عورت اِتنا روئی کہ اُس نے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔

حوالاجات

درج بالا علمی تحقیق سے ثابت ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں اور بعد از وصال صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے لئے حاضری دیا کرتے تھے۔ اُن کا حاضری دینے کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ وہ آقا علیہ السلام کی حیات اور بعد از وصال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیوضات و برکات سے مستفید ہوں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے بعد جمیع امتِ مسلمہ کا بھی یہ معمول رہا ہے کہ وہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اطہر پر حاضری دینے کو اپنے لئے باعثِ سعادت و خوش بختی سمجھتی ہے۔

اِستطاعت کے باوجود زیارت نہ کرنے پر وعید

9

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ اَقدس ہے :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

مَنْ حَجَّ الْبَيْتَ وَ لَمْ يَزُرْنِي فَقَدْ جَفَانِي.

’’جس نے بیت اللہ کا حج کیا اور میری (قبرِ اَنور کی) زیارت نہ کی تو اس نے میرے ساتھ جفا کی۔‘‘

حوالاجات

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان بڑا واضح ہے۔ اِس میں اُمتِ مسلمہ کے لئے کڑی تنبیہ بھی ہے کہ جس مسلمان نے حج کی سعادت حاصل کی مگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری نہ دی اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جفا کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لطف و کرم سے محروم ہوا جبکہ زائرِ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شفاعت کا منفرد اعزاز نصیب ہوگا۔ اس حوالے سے اِمام سبکی ’’شفاء السقام فی زیارۃ خیرالانام (ص : 11)‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’روضۂ اقدس کی زیارت کرنے والے عشاق کو وہ شفاعت نصیب ہوگی جو دوسروں کے حصہ میں نہیں آئے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زائرینِ قبرِ اَنور ایک خاص شفاعت کے مستحق قرار دیئے جائیں گے اور اُنہیں بالخصوص یہ منفرد اِعزاز حاصل ہو گا۔ اس سے یہ مراد بھی لی جاسکتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ اَنور کی زیارت کی برکت کے باعث شفاعت کے حقدار ٹھہرنے والے عمومی افراد میں زائر کا شامل ہونا واجب ہوجاتا ہے۔ بشارت کا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ قبرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زائر حالتِ اِیمان پر اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گا۔ یہاں اس اَمر کی وضاحت ضروری ہے کہ فرشتے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے مقرب بندے بھی شفاعت کرنے کا اعزاز رکھتے ہیں، لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور کی زیارت کے شرف سے مشرف ہونے والوں کا اعزاز یہ ہے کہ خود آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن کی شفاعت فرمائیں گے۔‘‘

بحث الفقہ والسلوک

(3)

زیارتِ روضۂ اَنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محبوب عمل ہے (ائمہ کی تصریحات)

آقائے دو جہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روضۂ اقدس کائناتِ ہست و بود کا سب سے بلند درجہ متبرک مقام ہے۔ کیوں نہ ہو کہ وہ اللہ رب العزت کے محبوب ترین مطہر و مقدس نبی محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے مدفن ہے۔ گنبدِ خضراء وہ مبہطِ انوارِ الٰہیہ ہے جہاں قدسیانِ فلک صبح و شام 70، 70 ہزار کی تعداد میں حاضری کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ ایک مومن صادق کے دل میں ہر وقت یہ تمنا مچلتی ہے کہ کاش! مجھے اس بارگاہ بے کس پناہ میں حاضری کی سعادت نصیب ہو جائے۔ خاکِ طیبہ کو آنکھوں کا سرمہ بنانے اور وہاں کی پاکیزہ فضاؤں میں سانس لینے کی آرزو قرونِ اولیٰ سے لے کر آج کے دن تک ہر عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امتی کے دل میں رہی ہے۔ جمہور ائمۂِ فقہاء کے نزدیک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اقدس کی زیارت محبوب مستحسن اور موجب رحمت و سعادت عمل ہے، اس پر اتفاق ہے۔

1. علامہ ابنِ ہمام رحمۃ اللہ علیہ (م 681ھ) لکھتے ہیں :

قال مشائخنا رحمهم اﷲ تعاليٰ : من أفضل المندوبات وفي مناسک الفارسي و شرح المختار أنها قريبة من الوجوب لمن له سعة.

’’ہمارے مشائخ کرام نے کہا : زیارتِ روضۂِ اطہر علی صاحبھا الصّلاۃ والسلام بلند درجہ مستحب عمل ہے۔ مناسک الفارسی، اور شرح المختار، میں لکھا ہے کہ ہر صاحبِ استطاعت شخص کے لیے (زیارتِ روضۂِ اقدس کا درجہ) وجوب کے قریب ہے۔‘‘

ابن همام، فتح القدير، 3 : 179

2۔ علامہ ابنِ ہمام ہی نے لکھا ہے :

والأولي فيما يقع عند العبد الضعيف تجريد النّيّة لزيارة قبر النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم.

’’بندۂ ضعیف (ابن ھمام) کے نزدیک محض حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور کی زیارت کی نیت کرنا بھی اولیٰ ہے۔‘‘

ابن همام، شرح فتح القدير، 2 : 180

3. علامہ ابن قدامہ حنبلی (م 620) نے فقہ حنبلی کی معروف کتاب ’’الکافی‘‘ اور ’’المغنی‘‘ میں لکھا ہے :

ويستحبّ زيارة قبر النّبي صلي الله عليه وآله وسلم وصاحَبيه.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں صحابہ کرام (حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہما) کی مبارک قبروں کی زیارت مستحب ہے۔‘‘

1. ابن قدامة المقدسي، الکافي، 1 : 457

2. ابن قدامة، المغني، 3 : 297

علامہ ابن قدامہ نے اپنے مذکورہ قول کے ثبوت میں زیارتِ قبرِ انور کی ترغیب میں احادیثِ مبارکہ کا ذکر کیا ہے۔ زیارت قبر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے سفر ان کے نزدیک امر مباح اور جائز ہے۔

ابن قدامه، المغني، 2 : 52

4۔ عارفِ کامل حضرت ملا جامی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں منقول کیا ہے کہ انہوں نے حج کے بعد محض زیارتِ قبر انور کے لیے الگ سفر اختیار کیا تاکہ اس سفر کا مقصد زیارت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کچھ نہ ہو۔

ائمۂ احناف کے نزدیک روضۂ انور کی نیت سے سفر کرنا افضل عمل ہے۔

ابن قدامه، المغني، 2 : 52

5۔ علامہ طحطاوی نے لکھا ہے :

الأولي في الزيارة تجريد النّية لزيارة قبره صلي الله عليه وآله وسلم.

’’زیارتِ قبر انور کے لیے بہتر یہ ہے کہ محض حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور کی زیارت کی نیت کی جائے۔‘‘

طحطاوي، حاشية علي مراقي الفلاح، 1 : 486

6. علامہ ابنِ عابدین شامی نے لکھا ہے :

قال في شرح اللباب وقد روي الحسن عن أبي حنيفة أنه إذا کان الحجّ فرضاً فالأحسن للحاج أن يبدأ بالحج ثم يثني بالزيارة وإن بدا بالزيارة جاز.

’’شرح اللباب میں ہے حضرت حسن نے امام ابو حنیفہ سے روایت کیا ہے کہ زائر حرمین شریفین اگر فرض حج کی ادائیگی کر رہا ہو تو حج سے ابتداء کرے اس لیے کہ فرض درجہ کے لحاظ سے غیر فرض پر مقدم ہوتا ہے۔ بعد ازاں زیارتِ روضۂ اقدس کی الگ نیت کرے اور اگر اس نے زیارتِ قبرِ انور سے ابتداء کی ہے تو یہ بھی جائز اور درست ہے۔‘‘

ابن عابدين، حاشية ابن عابدين، 2 : 627

وہ اس بات کی وجہ یہ لکھتے ہیں :

إذ يجوز تقديم النّفل علي الفرض إذا لم يخش الفوت بالإجماع.

’’کیونکہ نفل کا فرض پر مقدم کرنا جبکہ فرض کے فوت ہونے کا خوف نہ ہو شرعاً جائز ہے۔‘‘

ابن عابدين، حاشية ابن عابدين، 2 : 627

مذکورہ بالا اختیار اس صورت میں ہے جب زائر کا گذر مدینہ منورہ سے نہ ہو۔ اگر اس کا گذر مدینہ طیبہ اور روضۂ انور کے قرب سے ہو تو پھر زیارتِ روضۂِ انور ناگزیر ہے۔ علامہ ابن عابدین شامی نے لکھا ہے :

فإن مرّ بالمدينة کأهل الشام بدأ بالزّيارة لا محالة لأن ترکها مع قربها يعدّ من القساوة والشّقاوة وتکون الزيارة حينئذ بمنزلة الوسيلة وفي مرتبة السنة القبلية للصّلاة.

’’اور اگر زائرِ حرمین کا گزر ہی قرب مدینہ منورہ سے ہو جیسے ملک شام کے لوگوں کے لئے تو اسے بہرصورت زیارت روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہی ابتدا کرنی ہو گی، کیونکہ زائر کا اس کے قرب سے گزرنے کے باوجود اس کی زیارت کو ترک کرنا بد بختی اور قساوتِ قلبی کی دلیل ہے۔ اس صورت میں زیارت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وسیلہ بنے گی اور اس کا یہ عمل درجۂ ادائیگی میں ایسا ہے جیسے فرض نماز سے پہلے سنت نماز کی ادائیگی۔‘‘

ابن عابدين، حاشية ابن عابدين، 2 : 627

روضہٴ اقدس کی زیارت بالاجماع اعظم قربات اور افضل طاعت سے ہے، اور ترقی درجات کے وسائل میں سے سب سے بڑا وسیلہ ہے۔ بعض علماء نے اہل وسعت کے لیے اسے واجب لکھا ہے۔

 (معلم الحجاج)

ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرح الشفاء میں قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھا ہے:

زیارة قبرہ علیہ السلام سنة من سنن المسلمین مجمع علیہا أي مجتمع علی کونہا سنة و فضیلة مرغب فیہا․

یعنی قبر اطہر کی زیارت مسلمانوں کی متفق علیہ سنت ہے اور اس کی ایسی فضیلت ہے جس کی رغبت ہر مسلمان کو کرنی چاہیے

(شرح الشفاء: ۲/۱۵۰)

زیارتِ قبرِ مبارکہ کا حکم: روضۂ رسول کی زیارت بہت بڑی سعادت،عظیم عبادت،قُربِ ربُّ العزت پانے کا ذریعہ اور قریب بواجب ہے جس کا حکم کتاب و سنت اور اجماع و قیاس سے ثابت ہے۔

(فتح الباری،ج 4،ص59،شواھد الحق، ص59،مجموع رسائل العلامۃ الملا علی القاری،ج2،ص197)

اس شان و فضیلت کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اُمت میں اِن مقاماتِ مقدسہ کی زیارت کا شوق اور رغبت پیدا ہو۔ جان نثارانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دربارِ نبوی کی زیارت کا حد درجہ اشتیاق رکھتے ہیں اور خاکِ طیبہ کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بناتے ہیں، بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ

خاکِ طیبہ از دو عالم خوشتر است

آں خنک شہرے کہ آں جا دلبرست

( علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ)

اسمِ محمدﷺ کے برکات

2.3.9

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شمائل و خصائص کا شمار جس طرح ممکن نہیں اُسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام مبارک ” محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم “کےبرکات و  فضائل بے شمار ہیں، جن کا تعین ممکن نہیں اس لیے  ذیل میں اُن کا ذکر مختصراً کیا جاتا ہے :    

1۔ مشہور حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

قال اﷲ تعالي : وعزتي وجلالي! لا أعذب أحداً تسمي باسمک في النار.

’’اﷲ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : مجھے اپنی عزت اور بزرگی کی قسم! (اے حبیب مکرم!) میں کسی ایسے شخص کو آگ کا عذاب نہیں دوں گا جس کا نام آپ کے نام پر ہوگا۔‘‘

حوالاجات

اِمام حلبی لکھتے ہیں کہ اس حدیث مبارکہ میں نام سے مراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مشہور نام یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا احمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

2۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

يوقف عبدان بين يدي ﷲ عزوجل، فيقول اﷲ لهما : ادخلا الجنّة، فإنّي آليت علي نفسي أن لا يدخل النار من اسمه محمد ولا أحمد.

’’دو آدمی اﷲ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں گے، تو اﷲ تعالیٰ اُنہیں فرمائے گا : تم جنت میں داخل ہو جاؤ کیونکہ میں نے اپنے اوپر لازم کیا ہے کہ وہ شخص دوزخ میں داخل نہیں ہو گا جس کا نام ’محمد‘ یا ’احمد‘ رکھا گیا۔‘‘

حوالاجات

3۔ معضل سے مروی حدیثِ مبارکہ میں ہے :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

إذا کان يوم القيامة نادي مناد : يا محمد! قم فادخل الجنة بغير حساب، فيقوم کل من اسمه محمد، يتوهّم أن النداء له، فلکرامة محمد صلي الله عليه وآله وسلم.

’’روزِ محشر ایک پکارنے والا پکارے گا : اے محمد! جنت میں داخل ہو جا۔ پس ہر وہ شخص جس کا نام محمد ہوگا یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ نداء اُس کے لئے ہے کھڑا ہو جائے گا۔ پس یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کرامت کے سبب ہے۔‘‘

حوالاجات

4۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

إذا سمّيتم محمدًا فلا تضربوا ولا تقبّحوه وأکرموه وأوسعوا له في المجلس.

’’جب تم کسی کا نام محمد رکھو تو نہ اسے مارو اور نہ اس کی برائی بیان کرو بلکہ اس کی تکریم کرو اور مجلس میں اس کے لیے جگہ چھوڑ دو‘‘

حوالاجات

5۔ ایک روایت میں ہے کہ محمد نام رکھنے سے انسان میں برکت آجاتی ہے اور جس گھر یا مجلس میں محمد نام کا شخص ہو وہ گھر اور مجلس بابرکت ہو جاتی ہے.

1. شعراني، کشف الغمة، 1 : 283

2. حلبي، إنسان العيون، 1 : 135

6۔ سیدنا اِمام حسین رضی اللہ عنہ کا قول ہے :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

من کان له حمل فنوي أن يسميه محمداً حوله اﷲ تعالي ذکراً، وإن کان أنثي.

’’جس کی عورت حمل سے ہو اور وہ نیت کرے کہ (پیدا ہونے والے) بچے کا نام محمد رکھے گا تو اِن شاء اﷲ تعالیٰ لڑکا پیدا ہو گا اگرچہ حمل میں لڑکی ہی ہو۔‘‘

حوالاجات

7۔ حضرت عطاء رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ جس نے حمل میں موجود بچہ کا نام محمد رکھا تو لڑکا ہی پیدا ہو گا۔ ابنِ وہب کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے سات بچوں کا نام دورانِ حمل ہی میں محمد رکھنے کی نیت کر لی تھی، جس کی برکت سے سب لڑکے پیدا ہوئے۔

1. شعراني، کشف الغمة، 1 : 283

2۔ حلبی نے ’انسان العیون (1 : 135)‘ میں کہا ہے حفاظِ حدیث نے اِس روایت کی صحت کا اِقرار کیا ہے۔

8۔ سیدنا علی کرم اﷲ وجھہ سے بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

ما اجتمع قوم قط فی مشورة معهم رجل اسمه محمد، لم يدخلوه في مشورتهم إلا لم يبارک لهم.

’’کوئی قوم مشورہ کے لئے جمع ہو اور محمد نام والا کوئی شخص اُن کے مشورہ میں داخل نہ ہو تو اُن کے کام میں برکت نہیں ہو گی۔‘‘

حوالاجات

9۔ حضرت محمد بن عثمان عمری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

ما ضر أحدکم لو کان في بيته محمد ومحمدان وثلاثة.

’’تم میں سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا اگر اُس کے گھر کے اِفراد میں ایک یا دو یا تین شخص محمد نام کے ہوں۔‘‘

حوالاجات

10۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

ما أطعم طعام علي مائدة، ولا جلس عليها، وفيها اسمي إلا قدسوا کل يوم مرتين.

’’کوئی بھی دستر خوان ایسا نہیں جس پر کھانا کھایا جائے اور وہاں میرا ہم نام بیٹھا ہو تو فرشتے ہر روز دو مرتبہ (اُس دستر خوان کی) تعریف نہ کرتے ہوں۔‘‘

حوالاجات

11۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

ما کان في أهل بيت اسم محمد إلا الغرماء برکته.

’’جس گھر میں بھی محمد نام کا شخص ہو اُس میں برکت پھیل جاتی ہے۔‘‘

حوالاجات

12۔ اِمام حلبی ’اِنسان العیون (1 : 136)‘ میں روایت کرتے ہیں :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

من کان له ذو بطن فاجمع أن يسميه محمداً رزقه اﷲ غلاماً، ومن کان لا يعيش له ولد فجعل ﷲ عليه أن يسمي الولد المرزوق محمدا عاش.

’’جس کی بیوی حاملہ ہو اور وہ بچہ کا نام محمد رکھنے کا اِرادہ کر ے تو اﷲ تعالیٰ اُسے بیٹا عطا کرے گا۔ جس کا بچہ زندہ نہ رہتا ہو اور وہ اﷲ تعالیٰ کے بھروسہ پر اِرادہ کرلے کہ وہ ہونے والے بچہ کا نام محمد رکھے گا تو اُس کا بچہ زندہ رہے گا۔‘‘

حوالاجات

13۔ مولائے کائنات سیدنا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایت ہے :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

ليس أحد من أهل الجنة إلا يدعي باسمه أي ولا يکني إلا آدم عليه السلام، فإنه يدعي أبا محمد تعظيماً له وتوقيراً للنبي صلي الله عليه وآله وسلم .

’’جنت میں سب کو اُن کے ناموں سے پکارا جائے گا یعنی اُن کی کنیت نہیں ہوگی، سوائے حضرت آدم علیہ السلام کے۔ اُنہیں تعظیما ’ابو محمد‘ کہہ کر پکارا جائے گا، اور یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توقیر کے سبب ہے۔‘‘

حوالاجات

14۔عبد الرحمن بن سعد بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا پیر سن ہو گیا ایک شخص نے کہا اس کو یاد کرو جو تم کو سب سے زیادہ محبوب ہو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا یا محمد ۔اسی طرح امام مسلم حضرت براءبن عازب رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث روایت کرتے ہیں اس میں ہے ۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

فَصَعِدَ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ فَوْقَ الْبُيُوتِ، وَتَفَرَّقَ الْغِلْمَانُ وَالْخَدَمُ فِي الطُّرُقِ، يُنَادُونَ: يَامُحَمَّدُ يَا رَسُولَ اللهِ يَا مُحَمَّدُ يَا رَسُولَ اللهِ

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

15۔عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما فَخَدِرَتْ رِجْلُه، فَقُلْتُ : يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، مَا لِرِجْلِکَ؟ قَالَ : اجْتَمَعَ عَصَبُهَا مِنْ هَاهُنَا. فَقُلْتُ : اُدْعُ اَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْکَ. فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ. فَانْبَسَطَتْ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْاَدَبِ وَابْنُ السُّنِّيِّ وَاللَّفْظُ لَه.

اخرجه البخاري في الادب المفرد / 335، الرقم : 964، وابن الجعد في المسند، 1 / 369، الرقم : 2539، وابن سعد في الطبقات الکبری، 4 / 154، وابن السني في عمل اليوم والليلة / 141-142، الرقم : 168-170، 172، والقاضي عياض في الشفا / 498، الرقم : 1218، ويحيی بن معين في التاريخ، 4 / 24، الرقم : 2953.

’’حضرت عبد الرحمن بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کے ساتھ تھے کہ ان کا پاؤں سن ہوگیا تو میں نے ان سے عرض کیا : اے ابو عبد الرحمن! آپ کے پاؤں کو کیا ہوا ہے؟ توانہوں نے فرمایا : یہاں سے میرے پٹھے کھینچ گئے ہیں تو میں نے عرض کیا : تمام لوگوں میں سے جو ہستی آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہو اسے پکاریں، تو انہوں نے یا محمد (صلی اﷲ علیک وسلم) کا نعرہ بلند کیا (راوی بیان کرتے ہیں کہ) اسی وقت ان کے اعصاب کھل گئے۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری نے الادب المفرد میں اور ابن السنی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔

وفي روارواية : خَدِرَتْ رِجْلُ رَجُلٍ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما : اُذْکُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْکَ. فَقَالَ : مُحَّمَدٌ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَذَهَبَ خَدِرَه. رَوَاهُ ابْنُ السُّنِّيِّ.

’’ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما کے پاس بیٹھے کسی شخص کی ٹانگ سن ہو گئی تو انہوں نے اس شخص سے فرمایا : لوگوں میں سے جو تمہیں سب سے زیادہ محبوب ہے، اسے یاد کرو، تو اس شخص نے کہا : (وہ محبوب ترین ہستی) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ تو (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم مبارک لیتے ہی) اُس کی ٹانگ ٹھیک ہو گئی۔‘‘ اس روایت کو امام ابن السنی نے روایت کیا ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

16۔ عَنْ کَعْبٍ الْأَحْبَارِ رضي الله عنه قَالَ: أَي بُنَيَّ، فَکُلَّمَا ذَکَرْتَ اللهَ فَاذْکُرْ إِلٰی جَنْبِهِ اسْمَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم، فَإِنِّي رَأَيْتُ اسْمَه مَکْتُوْبًا عَلٰی سَاقِ الْعَرْشِ، وَأَنَا بَيْنَ الرُّوْحِ وَالطِّيْنِ، کَمَا أَنِّي طُفْتُ السَّمَاوَاتِ فَلَمْ أَرَ فِي السَّمَاوَاتِ مَوْضِعًا إِلَّا رَأَيْتُ اسْمَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم مَکْتُوْبًا عَلَيْهِ، وَأَنَّ رَبِّي أَسْکَنَنِيَ الْجَنَّةَ، فَلَمْ أَرَ فِي الْجَنَّةِ قَصْرًا وَلَا غُرْفَةً إِلَّا اسْمَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم مَکْتُوْبًا عَلَيْهِ، وَلَقَدْ رَأَيْتُ اسْمَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم مَکْتُوْبًا عَلٰی نُحُوْرِ الْعِيْنِ، وَعَلٰی وَرَقِ قَصَبِ آجَامِ الْجَنَّةِ، وَعَلٰی وَرَقِ شَجَرَةِ طُوْبٰی، وَعَلٰی وَرَقِ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰی، وَعَلٰی أَطْرَافِ الْحُجُبِ، وَبَيْنَ أَعْيُنِ الْمَـلَائِکَةِ، فَأَکْثِرْ ذِکْرَه، فَإِنَّ الْمَـلَائِکَةَ تَذْکُرُه فِي کُلِّ سَاعَاتِهَا.

رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ وَالسُّيُوْطِيُّ.

’’حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام نے (اپنے بیٹوں سے) فرمایا: اے میرے بیٹے، تو جب کبھی اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے تو اس کے ذکر کے ساتھ (اس کے حبیب) محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کا بھی ذکر کیا کرو، پس بے شک میں نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسمِ گرامی عرش کے پایوں پر لکھا ہوا پایا، درآنحالیکہ میں روح اور مٹی کے درمیانی مرحلہ میں تھا، جیسا کہ میں نے تمام آسمانوں کا طواف کیا اور کوئی جگہ ان آسمانوں میں ایسی نہ پائی جس میں، میں نے اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھا ہوا نہ دیکھا ہو، بے شک میں نے حور عین کے گلوں پر، جنت کے محلات کے بانسوں کے پتوں پر، طوبی درخت کے پتوں پر، سدرۃ المنتھی کے پتوں پر، دربانوں کی آنکھوں پر، اور فرشتوں کی آنکھوں کے درمیان اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھا ہوا دیکھا، پس تم بھی کثرت سے ان کا ذکر کیا کرو، بے شک ملائکہ بھی ہر گھڑی ان کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔‘‘ اِسے امام ابن عساکر اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

17۔قال المـلا علي القاري في ’’شَرْحِ الْبُرْدَةِ‘‘: أَنَّه إِذَا ذُکِرَ عَلٰی مَيِّتٍ حَقِيْقِيٍّ صَارَ حَيًّا حَاضِرًا، وَإِذَا ذُکِرَ عَلٰی کَافِرٍ وَغَافِلٍ جَعَلَ مُؤْمِنًا وَهَوَّلَ ذَاکِرًا لٰـکِنَ اللهَ تَعَالٰی سَتَرَ جَمَالَ هٰذَا الدُّرِّ الْمَکْنُوْنِ وَکَمَالَ هٰذَا الْجَوْهَرِ الْمَصُوْنِ لِحِکْمَةٍ بَالِغَةٍ وَنُکْتَةٍ سَابِقَةٍ وَلَعَلَّهَا لِيَکُوْنَ الْإِيْمَانُ غَيْبِيًّا وَالْأُمُوْرُ تَکْلِيْفِيًّا لَا لِشُهُوْدٍ عَيْنِيًّا وَالْعِيَانُ بَدِيْهِيًّا أَوْ لِـئَـلَّا يَصِيْرَ مَزْلَقَةً لِأَقْدَامِ الْعَوَامِ وَمَزِلَّةً لِتُضِرَّ الْجَمَالَ بِمَعْرِفَةِ الْمَلِکَ الْعَلَّامِ.

’’ملا علی قاری رحمہ اللہ ’قصیدہ بُردہ شریف‘ کی شرح میں لکھتے ہیں: اگر خدائے رحیم و کریم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسمِ مبارک کی حقیقی برکات کو آج بھی ظاہر کر دے تو اُس کی برکت سے مُردہ زندہ ہو جائے، کافر کے کفر کی تاریکیاں دُور ہو جائیں اور غافل دل ذکرِ الٰہی میں مصروف ہو جائے لیکن ربِّ کائنات نے اپنی حکمتِ کاملہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِس اَنمول جوہر کے جمال پر پردہ ڈال دیا ہے، شاید ربِّ کائنات کی یہ حکمت ہے کہ معاملات کے برعکس اِیمان بالغیب پردہ کی صورت میں ہی ممکن ہے اور مشاہدہ حقیقت اُس کے منافی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کو مکمل طور پر اِس لیے بھی ظاہر نہیں کیا گیا کہ کہیں ناسمجھ لوگ غلُوّ کا شکار ہوکر معرفتِ اِلٰہی سے ہی غافل نہ ہو جائیں۔‘‘

حوالاجات

تعظیم  ِرسولﷺ کی برکات

2.3.10

تعظیم  ِرسولﷺ  دراصل محبت ِرسولﷺ ہے یعنی تعظیم ا ور محبت ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔ اس ویب سائیٹ  کے ضمن میں محبت ِرسولﷺ  کی تفصیل بیان کرنا   بہت ضروری ہے اس موضوع کےلیے آگے ایک مکمل باب مختص کیا گیا ہے۔ یہاں  مختصرطور پر  لیکن  بہت ضروری   چندنکات پر اکتفا کیا گیا ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی سے والہانہ عقیدت جزوِ ایمان ہے،  اس کے بغیر ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی۔  اسی لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قلبی نسبت و تعلق اور سچی تعظیم و محبت کے ذریعے ہی ظاہری و باطنی تبرکات و فیوضات نصیب ہوتے ہیں۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں اِس انداز میں حضور ﷺ کی عزت و تعظیم اورادب و احترام سکھایا کہ :

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

یٰآَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْآ اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوْا لَہ، بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْن

’’اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو حضور اکرم ﷺ کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو (ایسا نہ ہو)  کہ تمہارے سارے اعمال ہی غارت ہو جائیں اور تمہیں شعور تک بھی نہ ہو‘‘-

(الحجرات،۲)

یعنی اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضور ﷺ کے ادب و تعظیم کو اعمال کے قبول ہونے  یا نہ ہونے کا معیار ٹھہرایا ہے۔  اگر کوئی حضور ﷺ کی ادب و تعظیم کرے گا تو اس ادب و تعظیم کی برکت سے اس  اعمال  قابل قبول ہیں ورنہ سارے کے سارے  اعمال غارت ہو جائیں گے۔

حضورﷺ کے اِسمِ مبارک کی تعظیم  کی برکات

(1)

حضور ﷺ کے اِسمِ مبارک  سے نہ صرف اس دنیا  میں بلکہ آخرت میں بھی  بے شمار  برکات  حاصل ہوتی ہیں۔ آپ کے نام مبارک رکھنے سے دنیا میں  عزت و تکریم حاصل ہوتی ہے اور آخرت میں نعمتِ عظیم یعنی  جنت  کا وعدہ ہے۔

 حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

إِذَا سَمَّيْتُمْ مُحَمَّدًا فَـلَا تَضْرِبُوْهُ وَ لَا تُقَبِّحُوْهُ، وَأَکْرِمُوْهُ وَأَوْسِعُوا لَهُ فِي الْمَجْلِسِ.

’’جب تم کسی کا نام محمد رکھو تو نہ اس کو مارو اور نہ ہی اس کو برا سمجھو (بلکہ) اس کی عزت کرو اور مجلس میں اس کے لیے جگہ بناؤ۔‘‘

حوالاجات

حضرت ابو اُمامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ وُلِدَ لَهُ مَوْلُوْدٌ فَسَمَّاهُ مُحَمَّدًا تَبَرُّکًا بِهِ، کَانَ هُوَ وَ مَوْلُوْدُهُ فِی الْجَنَّةِ.

’’جس نے میرے نام سے برکت حاصل کرنے کی نیت سے اپنے بچے کا نام محمد رکھا تو وہ اور اُس کا بیٹا دونوں جنت میں داخل ہوں گے۔‘‘

    عجلونی نے ’’کشف الخفاء ومزیل الإلباس (2: 375، رقم: 644)‘‘ میں کہا ہے کہ اِسے ابن عساکر نے حضرت ابو امامہ باہلی سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ سیوطی نے کہا ہے کہ یہ اِس باب میں وارد ہونے والی بہترین حدیث ہے اور اِس کی اِسناد حسن ہے۔

    ابن قیم، المنار المنیف: 61

علامہ قزوینی نے ’’التدوین فی إخبار قزوین (2: 343)‘‘ میں حضرت ابواُسامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

مَنْ وُلِدَ لَهُ مَوْلُوْدٌ، فَسَمَّاهُ مُحَمَّدًا حُبًّا لِي وَتَبَرُّکًا بِاسْمِي هُوَ وَمَوْلُوْدٌ فِی الْجَنَّةِ.

’’جس نے میری محبت کے باعث اور میرے اسم سے برکت حاصل کرنے کی نیت سے اپنے پیدا ہونے والے بچے کا نام محمد رکھا تو وہ اور بچہ دونوں جنت میں داخل ہوں گے۔‘‘

حوالاجات

حضورﷺ پر درود  شریف کی تعظیم کی برکات

(2)

اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے پیارے  مَحبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پردُرُود پڑھنے کو ایسی مُنفرِدعِبادت بنادیا جوکسی وَقت کے ساتھ خاص نہیں ، صُبح وشام ، دن رات ،  چلتے پھرتے ، اُٹھتے بیٹھتے ، دُعا سے پہلے اور دُعاکے بعد ، الغرض جب چاہیں جس جگہ چاہیں جن الفاظ کے ساتھ چاہیں دُرُودپاک پڑھ سکتے ہیں ۔

احادیث  مبارکہ کی روشنی میں علماء نے دعا میں درود پڑھنا مستحب قرار دیا ہے ۔اس لئے ہمیں دعا کے شروع میں اللہ کی حمد وثنا کے بعد نبی اکرم ﷺ پر درود پڑھنا چاہئے ، کیونکہ حمد و ثنا پڑھنا  اللہ کی  تعظیم و تکریم  بیان کرنا  ہے اور درود شریف  پڑھنا رسول  اللہﷺ کی  تعظیم و تکریم  بیان کرنا ہے اس لیے ہمیں ان کے بعد ہی  دعا کا آغاز کرنا چاہیے۔

جس وَقت بھی ہم دُرُودشریف پڑھیں گے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ  وَجَلَّ اس کی بَرَکتوں سے مُسْتفِیض ہوں گے اوریہ دُرُودشریف ہمارے تمام رَنج و اَلم کودُور کرنے اور گُناہوں کی مُعافی کے لئے کافی ہوگا ۔ لیکن یاد رکھیں ہم  جتنی ذیادہ توجہ اور   تعظیم سے درود  شریف   پڑھیں گے ہمیں اس کی اتنی ہی ذیادہ  برکات حاصل ہونگی۔

بخیل شخص:

1

وہ شخص بخیل ہے جس کے سامنے حضور نبی اکرم ﷺ کا ذکر ہو اور وہ آپ ﷺ پر درود نہ بھیجے۔  یعنی  اس نے رسول اللہ ﷺ کی  تعظیم و تکریم   نہیں ہے۔ حضرت  حسین رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

عن حسين بن علي بن أبي طالب رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : البخيل الذي من ذُکِرتُ عنده لم يُصلِّ عليَّ.

’’حضرت حسین بن علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک وہ شخص بخیل ہے جس کے سامنے میرا ذکر ہو اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔‘‘

حوالاجات

تاقیامت برکات:

2

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

مَنْ صَلَّی عَلَيَّ فِي کِتَابٍ لَمْ تَزَلِ الْمَلَا ئِکَةُ تَسْتَغْفِرُ لَهُ مَا دَامَ اسْمِي فِي ذَلِکَ الْکِتَابِ.

’’جو شخص کسی کتاب میں (لکھ کر) مجھ پہ درود بھیجتا ہے تو فرشتے اس کے لئے اس وقت تک بخشش کی دعا کرتے رہتے ہیں جب تک میرا نام اس کتاب میں موجود رہتا ہے۔‘‘

حوالاجات

چہرے پر نور:

3

حضرت عجلان سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

مَنْ صَلَّی عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمَ الْجُمُعَةِ مِائَةَ مَرَّةٍ، جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَعَلَی وَجْهِهِ مِنَ النُّوْرِ نُوْرٌ. يَقُوْلُ النَّاسُ: أَيُّ شَيْئٍ کَانَ يَعْمَلُ هَذَا.

’’جو شخص جمعہ کے دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سو (100) مرتبہ درود بھیجتا ہے وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کے چہرے پر بہت زیادہ نور ہوگا۔ (اس کے چہرے کے نور کو دیکھ کر حیرت سے) لوگ کہیں گے: یہ شخص دنیا میں کونسا عمل کرتا تھا (جس کی بدولت آج اس کو یہ نور میسر آیا ہے)۔‘‘

حوالاجات

رَنج واَلم سے ازالہ:

4

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

حضرت سَیِّدُنا اُبی بن کَعْب رَضیَ اللّٰہُ تَعالٰی عَنْہ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی  :  ’’اَجْعَلُ لَکَ صَلَاتِیْ کُلَّہَا، میں اپنا سارا وَقت آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر دُرُود شریف پڑھتا رہوں گا ۔ ‘‘ توحضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا  :  ’’اِذاً تُکْفٰی ہَمَّکَ وَیُغْفَرُ لَکَ ذَنْبُک، تب یہ دُرُودشریف تیرے رَنج واَلم دُور کرنے کے لئے کافی ہے اور تیرے سارے گُناہ بَخش دیئے جائیں گے  ۔ ‘‘

حوالاجات

دعا میں درود شریف:

5

دعاؤںمیں درود کا خاص اہتمام ہونا چاہئے ،کوئی شروع دعا، وسط دعا اور آخردعا تینوں مقامات پر درود پڑھے تو بہت اچھا اور اگر کوئی دعا میں بکثرت درودہی پڑھے تو  بہت ہی اچھا ہے کیونکہ درود پڑھنےسے غم اورگناہوں سے پروانہ نجات ملتا ہے ۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

كانَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ إذا ذَهَبَ ثُلُثا اللَّيلِ قامَ فقالَ : يا أيُّها النَّاسُ اذكُروا اللَّهَ اذكُروا اللَّهَ جاءتِ الرَّاجفةُ تتبعُها الرَّادفةُ جاءَ الموتُ بما فيهِ جاءَ الموتُ بما فيهِ ، قالَ أُبيٌّ : قلتُ : يا رسولَ اللَّهِ إنِّي أُكْثِرُ الصَّلاةَ علَيكَ فَكَم أجعلُ لَكَ مِن صلاتي ؟ فقالَ : ما شِئتَ قالَ : قلتُ : الرُّبُعَ ، قالَ : ما شئتَ فإن زدتَ فَهوَ خيرٌ لَكَ ، قُلتُ : النِّصفَ ، قالَ : ما شِئتَ ، فإن زدتَ فَهوَ خيرٌ لَكَ ، قالَ : قلتُ : فالثُّلُثَيْنِ ، قالَ : ما شِئتَ ، فإن زدتَ فَهوَ خيرٌ لَكَ ، قلتُ : أجعلُ لَكَ صلاتي كلَّها قالَ : إذًا تُكْفَى هَمَّكَ ، ويُغفرَ لَكَ ذنبُكَ

جب دو تہائی رات گزر جاتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھتے اور فرماتے: لوگو! اللہ کو یاد کرو، اللہ کو یاد کرو، کھڑکھڑانے والی آ گئی ہے اور اس کے ساتھ ایک دوسری آ لگی ہے، موت اپنی فوج لے کر آ گئی ہے۔ موت اپنی فوج لے کر آ گئی ہے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں آپ پر بہت صلاۃ ( درود ) پڑھا کرتا ہوں سو اپنے وظیفے میں آپ پر درود پڑھنے کے لیے کتنا وقت مقرر کر لوں؟ آپ نے فرمایا: جتنا تم چاہو، میں نے عرض کیا چوتھائی؟ آپ نے فرمایا: جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، میں نے عرض کیا: آدھا؟ آپ نے فرمایا: جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، میں نے عرض کیا دو تہائی؟آپ نے فرمایا: جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، میں نے عرض کیا: وظیفے میں پوری رات آپ پر درود پڑھا کروں؟ ۔ آپ نے فرمایا: ”اب یہ درود تمہارے سب غموں کے لیے کافی ہو گا اور اس سے تمہارے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔

حوالاجات

نماز میں درود شریف:

6

ایک حدیث فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

سمعَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ رجلًا يَدعو في صلاتِهِ لم يُمجِّدِ اللَّهَ تعالى ولم يُصلِّ علَى النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ فقالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ عجِلَ هذا ثمَّ دعاهُ فقالَ لَهُ أو لغيرِهِ إذا صلَّى أحدُكُم فليَبدَأ بتَمجيدِ ربِّهِ جلَّ وعزَّ والثَّناءِ علَيهِ ثمَّ يصلِّي علَى النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ثمَّ يَدعو بَعدُ بما شاءَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز میں دعا کرتے سنا، اس نے نہ تو اللہ تعالیٰ کی بزرگی بیان کی اور نہ ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود ( نماز ) بھیجا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص نے جلد بازی سے کام لیا ، پھر اسے بلایا اور اس سے یا کسی اور سے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو پہلے اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کرے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود ( نماز ) بھیجے، اس کے بعد جو چاہے دعا مانگے ۔

حوالاجات

اس سے معلو م ہوا کہ دُرُود شریف ہروَقت پڑھ سکتے ہیں اَلْبتَّہ بعض اَوقات ایسے ہیں جن میں بطورِخاص دُرُودشریف پڑھنے کی احادیثِ مُبارکہ میں تاکید  ہے ۔ بکثرت  درود شریف  پڑھنے سے ہمارے دلوں میں رسول اللہ ﷺ کی  تعظیم و تکریم    پیدا ہوتی ہے اور ہمارا ایمان   بھی بڑھتا ہے، جو  دنیا اور آخرت میں رسول اللہ ﷺ سے قرب کا باعث ہے۔

یاد رکھئےدرود و سلام پڑھتے وقت تعظیم و تکریم اور تواضع و انکساری کا اظہار علامتِ محبت ہے کیونکہ ہر محب اپنے محبوب کا ذکر نہایت ادب و احترام اور تواضع سے کرتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بھی آقا علیہ الصلوٰۃ والسّلام کا ذکر نہایت خشوع و خضوع سے کرتے تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ  کے بے شمار واقعات ہمارے لیے  مثلِ راہ ہیں۔ اس لیے ہمیں بھی حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضری کے وقت ظاہری اور باطنی ادب و احترام کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے کیونکہ یہ تقاضائے محبت و عقیدت بھی ہے اور علامت ایمان بھی۔

حضورﷺ کی سنتِ طیبہ کی تعظیم کی برکات

(3)

ایک مرتبہ امیہ بن عبداللہ نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: ہم قرآن میں مقیمی اور حالتِ خوف کی نماز تو پاتے ہیں لیکن نمازِ سفر کے بارے میں ہم قرآن میں کچھ نہیں پاتے (کہ وہ کیسے پڑھی جائے)؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

يَا ابْنَ أَخِي، إِنَّ اللهَ عَزَّوَجَلَّ بَعَثَ إِلَيْنَا مُحَمَّدًا صلی الله عليه وآله وسلم وَلَا نَعْلَمُ شَيْئًا، وَ إِنَّمَا نَفْعَلُ کَمَا رَأَيْنَا مُحَمَّدًا صلی الله عليه وآله وسلم يَفْعَلُ.

’’میرے بھتیجے! بے شک اللہ  نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہماری طرف مبعوث فرمایا جبکہ ہم کچھ نہیں جانتے تھے، ہم تو اسی طرح کرتے ہیں جیسا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کرتا دیکھتے ہیں۔‘‘

حوالاجات

ان کے بتلانے کا مقصود یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہمارے پاس بھیجا جبکہ ہم کسی شئے کو نہیں جانتے تھے۔ نہ کوئی مسئلہ جانتے تھے، نہ شریعت کو جانتے تھے اور نہ احکام کو، نہ جزئیات کو، نہ فروعات کواور نہ ہی اصول کو۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے پس جیسے وہ کرتے تھے ہم بھی اسی طرح آنکھ بند کر کے  تعظیماً کر لیا کرتے تھے۔ پھر یہی شریعت بن گئی۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول سے حدیث و سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم کا ثبوت ملتا ہے۔

قاضی عیاض ’’الشفائ‘‘ میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ اپنے اونٹ کو لے کر ایک جگہ گھما رہے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دیکھا تو پوچھا: ’’ابنِ عمر کیا کر رہے ہو؟ اونٹ کو بغیر کسی وجہ کے چکر دیئے جا رہے ہو؟ انہوں نے فرمایا:

لَا أَدْرِي إِلاَّ أَنِيّ رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَعَلَهُ فَفَعَلْتُهُ.

’’مجھے اور کچھ پتہ نہیں البتہ ایک روز میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس مقام پر ایسا کرتے دیکھا تھا، پس میں نے بھی ایسے کیا۔‘‘

(1) قاضی عیاض، الشفائ، 2: 558

یعنی میں سنتِ طیبہ کی اتباع میں ایسا کر رہا ہوں۔ میرے دل میں  تو فقط سنتِ طیبہ کی تعظیم ہی تعظیم ہےاسی لیے میں تو اپنے محبوب کی اداؤں کو دہرا رہا ہوں مجھے کیا خبر کہ وجہ کیا ہے؟ ایمان والے وجہ کو نہیں جانتے انہیں تو فقط محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اداؤں سے غرض ہوتی ہے۔ یہی کمالِ عشق ہے جوایمان کی اساس ہے۔

حضورﷺ کی حدیثِ مبارکہ کی تعظیم کی برکات

(4)

تعظیمِ مُصْطَفٰے  ﷺ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پیارے آقا، مُصْطَفٰے  ﷺ کی احادیثِ مُبارکہ جو کہ آپ ﷺ کے مُبارَک قول و فعل پر مشتمل ہوتی  ہیں،اس کا بھی خُوب اَدَب کِیا جائے اور احادیثِ مبارکہ پڑھتے،لکھتے ،سُنتے اور بیان کرتے ہوئے تعظیم کا بہت لحاظ رکھا جائے۔

صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان  اور ہمارے بُزرگانِ دِین نے رسولِ اکرم،نورِ مُجَسَّم ﷺ کی تعظیم کی خاطر حدیثِ پاک کا بھی نہایت ادب و احترام کِیا کرتے تھے ۔ اسی  ادب و احترام کی برکت سے اللہ تبارک و تعالی نے  ان کو دنیا و آخرت میں عزتیں عطا کیں ۔   آج بھی تمام امت اِن  کو اچھے الفاظ سے یاد کرتی ہے اور اِن کی  ادب و احترام کی  مثالیں دیتی ہے۔

حضرت علیُّ المُرتَضٰی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے:

جس وقت آپ ﷺ کلام کرتے تو حاضرین اس طرح سر جھکا لیتے کہ گویا ان کے سَروں پر پرندے ہیں۔

  الشمائل المحمدیہ للترمذی،باب ما جاء فی خلق رسول اللہ ،ص۱۹۸حدیث۳۳۴

ایک مرتبہ حضرت سعید بن مُسَیَّب رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کے پاس ایک شخص حاضر ہوا اور ایک حدیثِ پاک کے بارے میں پوچھنے لگا، حضرت سعید بن مُسَیَّب رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  جو کہ لیٹے ہوئے تھے فوراً اُٹھ کر بیٹھ گئے اور حدیثِ پاک بیان کر دی، اُس شخص نے عرض کی: میں چاہتا تھا کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اُٹھنے کی تکلیف نہ کرنی پڑے،آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  نے ارشاد فرمایا:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

اِنِّيْ كَرِهْتُ اَنْ اُحَدِّثَك عَنْ رَّسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  وَاَنَا مُضْطَجِعٌ

 یعنی مجھے (بطورِ اَدَب)یہ گوارا نہ ہوا کہ لیٹے لیٹے ہی حدیثِ رسول بیان کردوں۔

حوالاجات

صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان   کے بعد حُضورِ اکرم ﷺ کی تعظیم کی خاطر حدیثِ رسول کی انتہائی تعظیم کرنے کے مُعاملے میں امام مالک اور امام بخاری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمَا  کا نام سرِ فہرست ہے ،چُنانچہ حضرت ابُو مُصْعَب رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں:

حضرت مالک بن انس رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ رسولُ الله ﷺ کی احادیثِ مُبارکہ کو  اَدَب و تعظیم کی وجہ سے بغیر وضو کے بیان نہ فرمایا کرتے تھے۔بلکہ حضرت مُطَرِّف بن عبدُ اللہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں کہ حضرت امام مالک رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کے پاس جب لوگ کچھ پوچھنے کیلئے آتے تو خادمہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کے دولت خانے سے نکل کر دریافت کِیا کرتی کہ آپ حدیثِ پاک پوچھنے آئے ہیں یا کوئی شرعی  مسئلہ ؟اگر کہا جاتا کہ مسئلہ دریافت کرنے کیلئے آیا ہوں تو امام مالک رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  فوراً ہی باہر تشریف لے آتے ،اور اگر کہا جاتا کہ حدیثِ پاک کیلئے آیا ہوں تو امام مالک رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  غسل فرماکر خوشبو لگاتے، پھر لباس بدل کر نکلتے، آپ کے لئے تخت بچھایا جاتا، جس پر آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  وقار کے ساتھ بیٹھ کر حدیثِ پاک بیان کِیا کرتےاور شروع سے آخرتک خوشبو سلگائی جاتی اور وہ تخت صرف حدیثِ پاک روایت کرنے کے لئے ہی مخصوص تھا،جب امام مالک رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا:

اُحِبُّ اَنْ اُعَظِّمَ حَدِیْثَہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ

یعنی مجھے اس طرح رسولُ الله صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی حدیثِ پاک کی تعظیم کرنا پسند ہے۔

(سبل الہدی و الرشاد،الباب التاسع فی سیرۃ السلف…الخ،۱۱/۴۴۲ مفہوما و ملخصا)

اسی طرح امام بخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ حدیثِ پاک کے ادب و احترام کا خاص خیال رکھتے، احادیثِ مبارکہ کے دلکش و دلربا موتیوں کو بخاری شریف کی حسین لڑی میں پرونے کے طریقۂ   کار کے متعلق تو امام بخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ بذاتِ خُود ارشاد فرماتے ہیں:

مَاکَتَبْتُ فِیْ کِتَابِ الصَّحِیْحِ حَدِیْثًا اِلَّا اِغْتَسَلْتُ قَبْلَ ذٰلِکَ وَ صَلَّیْتُ رَکْعَتَیْنِ

یعنی میں نے بخاری شریف کی ہر حدیث کو لکھنے سے پہلے وضو کرکے دو(2)رکعت نماز ضرور پڑھی۔

(مقدمہ فتح الباری،الفصل الاول فی بیان السبب…الخ،۱/۱۰)

ہمارے بُزرگانِ دِین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِین  رسولِ اکرم،نورِ مُجَسَّم ﷺ کی کس قدر تعظیم کِیا کرتے تھے  کہ

حضرت  سعید بن مُسَیَّب رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  لیٹے لیٹے حدیثِ پاک بیان نہ کرتے ،

 امام مالک اور امام بخاری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمَا  جیسے عظیم بُزرگانِ دِین کا جذبۂ ادب بھی خُوب تھا کہ حدیثِ پاک لکھنے  سے پہلے غسل  کرکے نوافل پڑھا کرتے،حدیثِ پاک بیان کرنےکے لئے غسل کرتے ،اچھا لباس زیبِ تن کرتے ،خوشبو لگاتےاور بیانِ حدیث کے لئے باقاعدہ ایک تخت خاص پر تشریف  فرماتے 

اگر چہ قرآن و حدیث میں کہیں نہیں  فرمایا گیا کہ حدیث ِ پاک لیٹے لیٹے بیان نہ کرو ،اور نہ ہی یہ فرمایا گیا ہےکہ  حدیثِ پاک لکھنے اور بیان کرنے سے پہلے وضو یا غسل کرکے نوافل اَدَا کرو ،خوشبو لگاؤ، نئے کپڑے پہنو اور مخصوص تخت پر بیٹھ کر ہی حدیثِ پاک بیان کرو وغیرہ وغیرہ،مگر اس کے باوجود حضرت سَیِّدُنا سعید بن مُسیّب،حضرت امام مالک اور حضرت  امام بخاری رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن  جیسی جلیلُ القدر ہستیوں نے  جو کہ شریعت کے مسائل و عقائد اور مزاج سے خُوب واقف تھے،جنہیں آج بھی دُنیا جانتی پہچانتی ہے اور اُن کی عظمت کی قائل ہے،ان مُبارَک اور عظیم ہستیوں نے صرف تعظیمِ مُصْطَفٰے  ﷺ کی خاطر  احترامِ حدیثِ پاک کے یہ تمام انداز اِخْتِیار فرمائے اور اپنے طرزِ عمل سے یہ بات اچھی طرح واضح کردی کہ تعظیمِ مُصْطَفٰے  کے ہر ہر انداز کیلئے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  اور رسولِ اکرم ﷺ علیحدہ حکم ضروری نہیں بلکہ ہر وہ طریقہ جائز و مُسْتَحْسَن (یعنی اچھا )ہے، جس سے پیارے آقا، مکی مدنی مُصْطَفٰے  ﷺ کی عظمت و تعظیم ظاہر ہو ۔

تعظیمِ مُصْطَفٰے  ﷺ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جن چیزوں کو پیارے آقا ، مکی مدنی مُصْطَفٰے  ﷺ سے نسبت و تعلق ہے ،اُن کی بھی تعظیم کی جائے۔جیساکہ حضرت علامہ قاضی عیاض مالکی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ اس بارے میں ایک مستقل باب قائم کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ بھی حضورِ اکرم، نورِ مُجَسَّم ﷺ ہی کی تعظیم ہے کہ وہ تمام چیزیں  جو آپ ﷺ سے نسبت رکھتی ہیں اُن کی تعظیم کی جائے،مکہ مکرمہ اور مدینہ طیّبہ کے جن مقامات کو آپ ﷺ نے مشرف فرمایا، اُن کا بھی اَدَب و احترام کِیا جائےنیز جن مقاماتِ شریفہ پر آپ ﷺ نے قیام فرمایا اور وہ تمام چیزیں جن کو آپ ﷺ نے دَستِ مُبارک سے چُھوا ہو یا وہ جسمِ مُبارک کے کسی عضو سے مَس   ہوئی ہوں، اُن سب کی تعظیم کی جائے۔

تعظیمِ مُصْطَفٰے  کے اس پہلو کے تحت علامہ قاضی عیاض رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  چند روایات نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:حضرت سَیِّدُنا عبدُ اللہ بن عُمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کو دیکھا گیا کہ منبر شریف میں جو جگہ رسولُ الله ﷺ کے بیٹھنے کی تھی، وہاں اپنا ہاتھ رکھا اور اسے اپنے مُنہ پر پھیر لیا۔ اسی طرح امام مالک رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کے بارے میں لکھتے ہیں کہ حضرت امام مالک رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  مدینہ طیبہ میں کسی جانور پر سوار نہ ہوا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ مجھے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  سے حیا آتی ہے کہ جس مقدَّس زمین میں رسولُ الله ﷺ آرام فرما ہیں میں اس کو اپنے جانور کے کُھروں سے روندوں ۔

(الشفا بتعریف…الخ،الجزء الثانی،ص۵۶ملتقطاً)

ذکر ِرسولﷺ کی برکات

2.3.11

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ

اور ہم نے تمہاری خاطر تمہارا ذکر بلند کردیا۔

( الم نشرح، 94 :4) 

ہمارے پیارے آقا ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے بے شمُار فضائل و خصائص سے نوازا۔ اُن میں ایک فضیلت حضور سیّدُالمرسلین   ﷺ کے ذِکر ِ مبارَک کی بلندی ہے جو اوپر ذکر کردہ آیت میں بیان کی گئی ہے۔ مومنین کی زبان پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ   نے اپنے ذکر کے ساتھ ساتھ  ذکر ِ مصطفیٰ   ﷺ بھی( نماز، تشہد، اذان،  درود شریف، خطبات و مجالس وغیرہ کی صورت میں) جاری کیا ہے۔

نوٹ:   یہاں صرف آپ ﷺ کے ذکر کی برکات کا بیان کیا  گیا ہے۔  آپ ﷺ کے ذکر کی تفصیل اِنْ شَاءَ اللہ اگلے باب2.4 میں آےَ گی کہ  آپ ﷺ کا ذکر کہاں کہاں اور کیسے جاری ہے۔

ذکر ِ مصطفیٰ   ﷺ کی بہت سی صورتیں ہیں جن  میں سے کچھ واجب ہیں جیسے نماز، تشہد، اذان،  جمعہ کےخطبات وغیرہ، یہ  عبادات  آپ ﷺ کے ذکر کے بغیر قابلِ قبول نہیں۔ دوسری قسم کی  صورتیں نفلی ہیں بلاشبہ ان  نفلی  عبادات کی برکات  بھی بے شمار ہیں جیسے

آپ ﷺ پر درود ِ شریف پڑھنا،1
آپ ﷺ کی سیرت  یا حدیث مبارکہ پر کتاب، مضمون ( یا  ویب سائٹ وغیرہ)   کا تحریر کرنا   یا مطالعہ کرنا،2
آپ ﷺ کے ذکر کی محافل کا انعقاد،3
آپ ﷺ کی شان و  فضائل میں نظم و نثر  کا  تحریر کرنا  یا سماعت کرنا  ۔4

دُرود شریف کی برکات:

(1)

درود ِ پاک کی صورت میں ذکر ِ مصطفیٰ   ﷺ کی شان تو یہ ہے کہ ہر آن، ہر لمحہ دنیا میں آپ   ﷺ  پر دُرود و سلام پڑھا جارہا ہے اور اگر درود پڑھنے والا کوئی انسان نہ بھی ہو تو فرشتے تو ہر آن آپ ﷺ پردرود پڑھ رہے ہیں اور یہ فرشتے زمین کی گہرائیوں سے لے کر عرش کی بُلندیوں تک موجود ہیں اور معاملہ کچھ یوں نظر آتا ہے۔

فرش پہ تازہ چھیڑ چھاڑ، عرش پہ طرفہ دھوم دھام

کان جدھر لگا ئیے تیری ہی داستان ہے

جس طرح ذات  ِ  رسولﷺ ممبعِ برکات  ہے اسی طرح ذکر  ِ  رسولﷺ  موجبِ صد خیر و برکت اورباعثِ تسکینِ جاں ہے، خاص طور پر دُرود شریف کی بے شمار برکات  ہیں۔ اللہ کے پیارے حبیب  ﷺ  نے دُرود و سلام پڑھنے والوں کو عزّت ، بخشش ، وُسعتِ رزق ، گھر میں برکت ، درجات کی بلندی ، حاجت روائی اور دیگر کئی فضائل و برکات کی بشارتیں عطا فرمائی ہیں۔

علمائے کرام نے دُرود شریف کے فضائل کے بارے میں باقاعدہ مختصر و مفصّل کتابیں تحریر فرمائی ہیں جن میں دُرود شریف کی فضیلت پر احادیثِ مبارَکہ کے ساتھ ساتھ لطیف نِکات بھی ذِکْر فرمائے ہیں۔

حضور نبیِّ رحمت ، وجہِ تخلیقِ کائنات محمدِ مصطفےٰ احمدِ مجتبیٰ  ﷺ  کی مبارّک و مقدّس و عظیم ذات پر دُرود شریف بھیجنا ایک مسلمان کے لئے بہت بڑی نعمت ، اعزاز اور خوش قسمتی کی بات ہے۔ دُرود شریف پڑھنے  کی برکات میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں۔

رسولِ کریم  ﷺ  کی محبت دل میں بیٹھ جاتی ہے۔1
چونکہ بندہ اپنے محبوب کی اطاعت کرتا ہے ، یوں جب دُرود شریف پڑھنے والے کے دل میں پیارے مصطفےٰ  ﷺ  کی محبت بیٹھ جاتی ہے تو بندہ اپنے پیارے محبوب  ﷺ  کی اطاعت بھی کرتا ہے اور  سرورِ کائنات  ﷺ  کا مطیع فرمانبردار بن جاتا ہے۔2
بخاری شریف میں فرمانِ مصطفےٰ  ﷺ  ہے : “ اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ یعنی  بندہ جس سے محبت کرتا ہے اسی کے ساتھ ہوگا۔ “  (بخاری ، 4 / 147 ، حدیث : 6168)  تو دُرود شریف پڑھنے  سے چونکہ دل میں نبیِّ کریم  ﷺ  کی محبت بیٹھ جاتی ہے تو اس محبتِ رسول ﷺ کی وجہ سے اِنْ شَاءَ اللہ قبر و حشر میں رسولِ کریم  ﷺ  کا ساتھ نصیب ہوگا۔3
دُرود شریف پڑھنے والا چونکہ محبتِ رسول ﷺ کی بدولت سرکارِ دو عالَم  ﷺ  کی اطاعت کرتا ہے ، اور اطاعتِ رسولِ کریم  ﷺ  کا انعام اللہ کریم یہ عطا فرماتا ہے کہ وہ قیامت کے دن انبیا و صدّیقین و شُہَداء و صالحین کے ساتھ ہوگا ، اور ان سب نفوسِ قدسیہ کے سردار خود حُضور سرورِ کائنات  ﷺ  ہیں ، تو نتیجہ یہ نکلا کہ دُرود پڑھنے والا ان سب مقبولانِ الٰہی کے ساتھ ہوگا۔4
قراٰنِ کریم میں ہے کہ اطاعتِ رسولِ کریم ﷺ اللہ پاک کا محبوب بناتی ہے : ( قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ) تَرجَمۂ: اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا۔ (اٰل عمرٰن : 31)    تو یوں دُرود شریف پڑھنے والا محبتِ رسولِ کریم میں اطاعتِ رسول ﷺ بجالاتا ہے اور اطاعتِ رسول ﷺ کے سبب  اللہ کریم کا محبوب بن جاتاہے۔5
آپ ﷺ پر درود شریف پڑھنے سے  بیماروں کو شفا حاصل ہوتی ہے۔بلکہ نبی کریم  ﷺ کا ہر طرح کا  ذکر شفا ہے۔  اسی لیے ابو الفضل قاضی عیاض مالکی اندلسی نے مصطفےٰ کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کی سیرت و شمائل پر مشتمل اپنی شہرہ آفاق کتاب کو ’’کتاب الشفاء‘‘ کا نام دیا ۔ کتاب الشفاء کو پڑھنے کی فضیلت کے بارے علامہ احمد شہاب الدین خفاجی فرماتے ہیں:
’’و اسمہ موافق لمسماہ فان السلف الصالحین قالوا انہ جرب قراء نہ لشفاء الامراض وفک عقد الشدائد وفیہ امان من الفرق و الحرق والطاعون ببرکۃ (ﷺ) و اذا صحح الاعتقاد حصل المراد‘‘
’’شفاء شریف کا اسم اس کے مسمی کے موافق ہے کیونکہ سلف صالحین فرماتے ہیں کہ اس کا پڑھنا بیماریوں سے شفا اور مشکلات کے حل کیلئے بہترین اور محرب عمل ہے اور نبی کریم ﷺ کی برکت سے اس کتاب کو پڑھنے سے ڈوبنے،  جلنے اور طاعون کی بیماریوں سے نجات رہتی ہے اگر اعتقاد صحیح ہو تو مراد حاصل ہوجاتی ہے‘‘-
6
اگر کوئی اپنی دعا میں صرف درود شریف پڑھے اور کو ئی بھی دعا نا مانگے تو یہ اس کے لیے کافی ہے۔ اللہ اس کی تمام حاجات کا ذمہ لےلے گا۔7
عربوں کی روایت ہے کہ جب بھی کوئی  لڑائی جھگڑا ہوتا تو  وہاں موجود لوگ آپ پر درود شریف پڑھنا شروع کر دیتے،  تو درود شریف  کی برکت سے لڑائی جھگڑا ختم ہو جاتا۔8

فضائل و برکاتِ درود و سلام

درود و سلام اللہ تعالیٰ کی ان با برکت نعمتوں میں سے ہے جو اپنے دامن میں بے پناہ فیوض و برکات سمیٹے ہوئے ہیں۔ یہ ایسی لازوال دولت ہے کہ جسے مل جائے اس کے دین و دنیا سنور جاتے ہیں۔ درود و سلام محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف، اللہ تعالیٰ کی رحمت کا خزانہ، گناہوں کا کفارہ، بلندیِ درجات کا زینہ، قربِ خداوندی کا آئینہ، خیر و برکت کا سفینہ ہے۔ مجلس کی زینت، تنگ دستی کا علاج، جنت میں لے جانے والا عمل، دل کی طہارت، بلاؤں کا تریاق، روح کی مسرت، روحانی پریشانیوں کا علاج، غربت و افلاس کا حل، دوزخ سے نجات کا ذریعہ اور شفاعت کی کنجی ہے۔

احادیث مبارکہ میں درود و سلام کے بے شمار فضائل و برکات کا ذکر ملتا ہے جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :

درود و سلام قربِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذریعہ ہے

1

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی سے والہانہ عقیدت و محبت جزوِ ایمان ہے۔ اس کے بغیر ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی۔ درود و سلام پڑھنا، محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دلیل ہے۔ کثرت سے درود و سلام پڑھنے والے کو روزِقیامت قربِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعمت سے فیض یاب کیا جائے گا۔ حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

أوْلَی النَّاسِ بِي يَومَ القَيَامَةَ أَکْثَرُهُمْ عَلَيَّ صَلَاةً.

’’قیامت کے روز لوگوں میں سے میرے سب سے زیادہ قریب وہ ہوگا جو اس دنیا میں کثرت سے مجھ پر درود بھیجتا ہے۔‘‘

حوالاجات

درود و سلام روحانی و جسمانی پاکیزگی کا باعث ہے

2

درود وسلام وہ پاکیزہ عمل ہے جو انسان کے تن اور من کو ہر قسم کی آلائشوں، کثافتوں اور آلودگیوں سے پاک و صاف کر دیتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

صلّوا عليّ فإنّ الصّلاة عليّ زکاةٌ لّکم.

’’مجھ پر درود پڑھا کرو۔ بلاشبہ مجھ پر (تمہارا) درود پڑھنا تمہارے لئے (روحانی و جسمانی) پاکیزگی کا باعث ہے۔‘‘

حوالاجات

درود و سلام شرفِ زیارت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ ہے

3

درود و سلام کی سب سے بڑی فضیلت اور خصوصیت یہ ہے کہ کثرت سے درود و سلام پڑھنے والے کو خواب یا حالتِ بیداری میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوتی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت بہت بڑی سعادت ہے جو ہر ایک کو میسر نہیں آتی بلکہ خال خال ہی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو مومن جمعہ کی رات دو رکعت اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں 25 مرتبہ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ سورۃ فاتحہ کے بعد پڑھے، پھر ہزار مرتبہ یہ درود پڑھے اللَّهُمَّ صَلِّی عَلَی مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الْاُمِّي تو آنے والے جمعہ سے پہلے خواب میں میری زیارت کرے گا۔ جو میری زیارت کرے گا اﷲ تعالیٰ اس کے گناہ معاف فرما دے گا۔‘‘

حوالاجات

درود و سلام نزول رحمتِ خداوندی کا باعث ہے

4

درود و سلام کا ورد رحمتِ خداوندی کا خزانہ ہے۔ جو شخص خلوص دل سے درود و سلام کا ورد کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنی رحمتوں کی بارش نازل فرماتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ ہم اس کے محبوب کی صرف تھوڑی سی تعریف کرتے ہیں تو وہ ہمیں اپنی رحمتوں کے خزانے سے مالا مال کر دیتا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

صلّوا عليّ فإنّ الصّلاة عليّ زکاةٌ لّکممَنْ صَلَّی عَلَیَّ وَاحِدَةً، صَلَّی اﷲُ عَلَيْهِ عَشْرًا.

’’جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھا اﷲ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ رحمتیں نازل فرمائے گا۔‘‘

حوالاجات

درود و سلام گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے

5

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔ اس کی رحمت بندوں کی بخشش کے بہانے تلاش کرتی رہتی ہے۔ اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجنا بھی انہی بخشش کے بہانوں میں سے ایک ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

’’جب (اﷲ تعالیٰ کے لئے) محبت رکھنے والے دو بندے ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں تو ایک دوسرے سے علیحدہ ہونے سے پہلے ان کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔‘‘

حوالاجات

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

  علامہ ابن جوزی بحوالہ ابن بنان اصبہانی روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت محمد رسول اللہ صلى الله عليہ وآلہ وسلم  کو خواب میں دیکھا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلى الله عليہ وآلہ وسلم آپ کے چچا کی اولاد میں محمد بن ادریس امام شافعی کا انتقل ہو گیا ہے۔ کیا  آپ نے  کوئی اکرام ان کے لئے فرمایا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا ہاں میں نے اللہ تعالی سے دعا کی ہے کہ محمد بن ادریس   شافعی کو روز قیامت بغیر حساب کتاب کے بخش دے۔ میں نے عرض کیا ایسی شفاعت  کس عمل کی وجہ سے فرمائی گئی۔ آپ صلى الله عليہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ، شافعی مجھ پرایسا درود پڑھا کرتا تھا  جوآج تک کسی نے نہیں پڑھا۔  میں نے عرض کیا کہ وہ درود کیا ہے۔ آپ صلى الله عليہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللھم صلی علی محمد کلما  ذکرہُ الذاکرون وصلی علی محمد کلما غفل عن ذکرہ الغافلون

حوالاجات

درود و سلام دنیا کے غموں کا مداوا ہے

6

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں : میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ پر کثرت کے ساتھ درود پڑھتا ہوں۔ میں اپنی دعا کا کتنا حصہ آپ پر درود کے لئے مقررکروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جتنا تم پسند کرو۔ میں نے عرض کیا : ایک چوتھائی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ٹھیک ہے لیکن اگر کچھ اور بڑھا دو تو بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا : کیا آدھا حصہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ٹھیک ہے لیکن اگر کچھ اور بڑھا دو تو بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا : دوتہائی ؟ فرمایا : اس میں بھی اضافہ کردو تو بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا : میں اپنی ساری دعا (کا وقت ) آپ پر درود کے لئے وقف کر دوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

إذا تُکْفی ھَمَّکَ، وَيُغْفَرُ لَکَ ذَنْبُکَ۔

’’تب تو تیرا ہر غم دور ہو گا اور ہر گناہ معاف کر دیا جائے گا۔‘‘

حوالاجات

درود و سلام قبولیتِ دعا کا ذریعہ ہے

7

حضرت عبد اﷲبن مسعود رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے کہ میں نماز پڑھ رہا تھا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ وہاں رونق افروز تھے۔ جب میں نماز پڑھ کر بیٹھ گیا تو پہلے میں نے اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھا پھر اپنے لئے دعا مانگی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

سَلْ تُعْطَهْ، سَلْ تُعْطَهْ۔

’’مانگ تجھے عطا کیا جائے گا، مانگ تجھے عطا کیا جائے گا۔‘‘

حوالاجات

درود پڑھنے والے پر اﷲ تعالیٰ کا خود درود بھیجنا

8

درود و سلام پڑھنے کی برکت کا اندازہ اس بات سے ہو رہا ہے کہ اﷲ ربّ العزت درود پڑھنے والے پر خود درود بھیجتا ہے۔ حضرت عبد اﷲ بن عوف رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھے خوشخبری سنائی کہ آپ کا پروردگار فرماتا ہے :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

مَنْ صَلَّی عَلَيْکَ صَلَّيْتُ عَلَيْهِ، وَمَنْ سَلَّمَ عَلَيْکَ سَلَّمْتُ عَلَيْهِ۔

’’جو شخص آپ پر درود پڑھتا ہے میں اس پر درود پڑھتا ہوں اور جو کوئی آپ کو سلام عرض کرتا ہے میں اس پر سلام بھیجتا ہوں۔‘‘

حوالاجات

یومِ جمعہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کی فضیلت

9

جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات کثرتِ درود و سلام کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ صحابہ کرام سے اس دن اور رات میں درود و سلام پڑھنے سے متعلق کثرت کے ساتھ احادیث مروی ہیں۔

حضرت اوس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

’’تمہارے دنوں میں جمعہ کا دن سب سے افضل ہے اس میں حضرت آدمں کو پیدا کیا گیا اور اسی میں ان کی روح قبض کی گئی اور اسی میں صور پھینکا جائے گا اور اسی میں سب بیہوش ہوں گے۔ پس اس روز مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود پڑھنا مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ لوگ عرض گزار ہوئے : یا رسول اﷲ! اس وقت بھلا ہمارا درود پڑھنا کس طرح پیش ہوگا جبکہ آپ رحلت فرما چکے ہوں گے؟ یعنی مٹی (میں دفن) ہو چکے ہوں گے۔ آپ نے فرمایا : بیشک اﷲ تعالیٰ نے انبیاء کرام کے جسموں کو زمین پر حرام فرما دیا ہے۔‘‘

حوالاجات

محدثین اور سیرت نگاروں پر برکات

(2)

حضرت ابو ہریر ہ  روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

مَنْ صَلَّی عَلَيَّ فِي کِتَابٍ لَمْ تَزَلِ الْمَلَا ئِکَةُ تَسْتَغْفِرُ لَهُ مَا دَامَ اسْمِي فِي ذَلِکَ الْکِتَابِ.

’’جو شخص کسی کتاب میں (لکھ کر) مجھ پہ درود بھیجتا ہے تو فرشتے اس کے لئے اس وقت تک بخشش کی دعا کرتے رہتے ہیں جب تک میرا نام اس کتاب میں موجود رہتا ہے۔‘‘

حوالاجات

یعنی جو بھی آپﷺ کی احادیث مبارکہ  یا سیرت مبارکہ پر تحریر کرے گا ، وہ قیامت تک اللہ  سبحان و تعالی  کی برکات حاصل کرتا رہے گا۔ اولین دور سے عصر حاضر تک بے شمار  محدثین اور سیرت نگاروں نے اپنے اپنے انداز میں اس پر کام کیا ہے اور لازوال برکات سمیٹی ہیں۔ اسی لیے  اللہ  سبحان و تعالی   نے اِن کو  دنیا میں بھی عزت و اکرام سے نوازا  اور ان کا نام زندہ و جاوید کیا۔

بلا مبالغہ محدثین  اور سیرت نگاروں کی تعداد بے شمار ہے لیکن ان میں سے بعض ایسے ہیں جنہوں نے اس فن میں اہم ترین کارنامے سر انجام دیے ہیں حصولِ برکت کے لیے ان میں سے چندکا مختصر تعارف یہاں ہم تمام ائمہ کا ذکر نہیں کر رہے بلکہ صرف انہی کا تذکرہ کر رہے ہیں جن کا کام تاریخی نوعیت کا ہے۔  

عظیم  محدثین اور ان کی کتابیں:

1

    صحاح ستہ،  6 بنیادی کتبِ احادیث /اہم مجموعے

صحیح بخاری – محمد بن اسماعیل بخاری (المتوفی 256ھ)1
صحیح مسلم – مسلم بن حجاج (المتوفی 261ھ)2
سنن نسائی –  احمد بن شعیب النسائی (المتوفی 303ھ)3
سنن ابی داؤد – ابو داؤد السجستانی (المتوفی 275ھ)4
سنن ترمذی – ابوعیسی محمد ترمذی (المتوفی 279ھ)5
سنن ابن ماجہ – ابن ماجہ ابو عبد اللہ محمد بن یزید قزوینی(المتوفی 273ھ)6

دیگر بنیادی کتبِ احادیث /اہم مجموعے (صحاح ستہ کے علاوہ)

موطأ امام مالک – امام مالک بن انس (المتوفی 179ھ)1
مسند احمد بن حنبل – امام احمد بن حنبل (المتوفی 241ھ)2
سنن الدارمی –   عبدالرحمن دارمی(المتوفی 255ھ)3
صحیح ابن خزیمہ – امام ابن خزیمہ (المتوفی 311ھ)4
صحیح ابن حبان – ابن حبان (المتوفی 354ھ)5
مستدرک علی الصحیین حاکم – حاکم نیشاپوری(المتوفی 405ھ)6
معجم الکبیر طبرانی  – امام طبرانی(المتوفی 360ھ)7
معجم الاوسط  طبرانی  – امام طبرانی(المتوفی 360ھ)8
معجم الصغیر طبرانی – امام طبرانی(المتوفی 360ھ)9
مسند الطیالسی – ابوداؤد طیالسی (المتوفی 204ھ)10
مستخرج صحیح ابو عوانہ (مسند ابو عوانہ) – ابو عوانہ الاسفرایینی (المتوفی 316ھ)11
مصنف ابن ابی شعبہ – ابن ابی شیبہ (المتوفی 235ھ)12
مصنف عبد الرزاق –  عبد الرزاق بن ہمام الصنعانی (المتوفی 211ھ)13
الادب المفرد – محمد بن اسماعیل بخاری (المتوفی 256ھ)14
سنن کبریٰ بیہقی (المتوفی 458ھ)15
شعب الایمان – بیہقی (المتوفی 458ھ)16
الشمائل المحمدیہ (شمائل ترمذی)- ابو عيسى الترمذی (المتوفی 279ھ)17
مصنف ابن جریج18
السنن الكبرى للنسائي –  احمد بن شعیب النسائی (المتوفی 303ھ)19
صحیفہ ہمام ابن منبہ – ہمام ابن منبہ (المتوفی 131ھ)20
تہذیب الآثار -ابن جریر الطبری (المتوفی 310ھ)21
کتاب الآثار – ابن جریر الطبری (المتوفی 310ھ)22
مسند – امام اعظم ابو حنیفہ (المتوفی 150ھ)23
مسند – امام شافعی (المتوفی 204ھ)24
مسند السراج25
مسند فردوس الدیلمی (المتوفی 558ھ)26
مسند ابو یعلیٰ – ابی یعلی الموصلی (المتوفی 307ھ)27
سنن سعید ابن منصور (المتوفی 229ھ)28
سنن دارقطنی (المتوفی 385ھ)29
مسند – عبد بن حمید (المتوفی 249ھ)30
کتاب الزہد – عبداللہ بن مبارک (المتوفی 181ھ)31
مسند– عبداللہ بن مبارک (المتوفی 181ھ)32
مسند – عبداللہ بن زبیرالحمیدی (المتوفی 219ھ)33
مسند – بزار (المتوفی 292ھ)34
الادب – ابن ابی شیبہ (المتوفی 235ھ)35
مسند اسحاق بن راہویہ (المتوفی 238ھ)36

        ثانوی کتبِ احادیث /اہم مجموعے

مشکوۃ المصابیح – الخطیب تبریزی(المتوفی 516ھ)1
مصابیح السنہ –  ابو محمد حسین بن مسعود بن محمد الفرا البغوی (المتوفی 516ھ)2
ریاض الصالحین– امام نووی (المتوفی 631ھ)3
بلوغ المرام- ابن حجر العسقلانی  (المتوفی 852ھ)4
مجمع الزوائد –   الہیثمی (المتوفی 807ھ)5
کنز العمال – المتقی الہندی  (المتوفی 979ھ)6
زجاجۃ المصابیح – عبداللہ نقشبندی  (المتوفی 1292ھ)7
الاربعین– امام نووی (المتوفی 631ھ)8
کتاب المعرفۃ سنن و آثار بیہقی (المتوفی 458ھ)9
کتاب الاعتقاد – بیہقی (المتوفی 458ھ)10
کتاب الدعا – ابن ابی دنیا (المتوفی 281ھ)11
الشکر للہ– ابن ابی دنیا (المتوفی 281ھ)12
مكارم الأخلاق- ابن ابی دنیا (المتوفی 281ھ)13
مسند – حارث بن ابی اسامہ (المتوفی 282ھ)14
کتاب السنۃ – الشیبانی(المتوفی 290ھ)15
المنتقیٰ – ابن جارود نیشاپوری (المتوفی 307ھ)16
مسند – ابوبکر الرویانی (المتوفی 307ھ)17
الترغیب والترہیب –  المنذری (المتوفی 656ھ)18
جامع السنن والمسانید- ابن كثير  (المتوفی 774ھ)19
حصن حصین –امام ابن جزری (المتوفی 833ھ)20
اتحاف-شہاب الدین بوصیری (المتوفی 839ھ)21
المطالب العالیہ- ابن حجر العسقلانی  (المتوفی 852ھ)22
کتاب الاشراف ابن المنذر (المتوفی 318ھ)23
نوارد الاصول – حکیم ترمذی (المتوفی 318ھ)24
مسند ابن ابی اوفی- ابن صاعد (المتوفی 318ھ)25
شرح مشكل الآثار- الطحاوی   (المتوفی 321ھ)26
شرح معانی الآثار- الطحاوی   (المتوفی 321ھ)27
معجم ابن الاعرابی -(المتوفی 340ھ)28
صحیح ابن السکن (المتوفی 353ھ)29
فتح الباری (شرح صحیح بخاری) – ابن حجر العسقلانی  (المتوفی 852ھ)30
مستخرج علی مسلم از ابونعیم اصفہانی (المتوفی 430ھ)31
حلیۃ الاولیاء از ابونعیم اصفہانی (المتوفی 430ھ)32
مسند شہاب – ابو عبد الله القضاعی (المتوفی 454ھ)33
کتاب المعرفۃ سنن و آثار بیہقی (المتوفی 458ھ)34
کتاب الاعتقاد – بیہقی (المتوفی 458ھ)35
جامع بیان العلم وفضلہ- ابن عبدالبر(المتوفی 463ھ)36
استیعاب – ابن عبدالبر(المتوفی 463ھ)37
کتاب الدعا – طبرانی (المتوفی 360ھ)38
مکارم الاخلاق – طبرانی (المتوفی 360ھ)39
معجم اسماعیلی (المتوفی 371ھ)40
مستخرج علی بخاری از اسماعیلی (المتوفی 371ھ)41
معجم ابن المقری (المتوفی 381ھ)42
الجامع لاخلاق -خطیب بغدادی (المتوفی 463ھ)43
تاریخ بغداد -خطیب بغدادی (المتوفی 463ھ)44
مشارق الانوار قاضی عیاض (المتوفی 544ھ)45
الکامل – ابن عدی (المتوفی 573ھ)46
الطیورات– ابو طاہر سلفی  (المتوفی 576ھ)47
الموضوعات الکبریٰ– ابن جوزی (المتوفی 597ھ)48
جامع الاصول – الجزری ابن الاثير (المتوفی 606ھ)49
الغایہ – امام سخاوی (المتوفی 902ھ)50
المقاصد الحسنہ  – امام سخاوی (المتوفی 902ھ)51
التوضيح الأبرہ  – امام سخاوی (المتوفی 902ھ)52
الجامع الربرہ – امام سیوطی (المتوفی 911ھ)53
الدرر المنتثرة- امام سیوطی (المتوفی 911ھ)54
کشف الخفاء – العجلونی (المتوفی 1162ھ)55
نيل الاوطار  – الشوكانی (المتوفی 1250ھ)56
الفوائد – الشوكانی (المتوفی 1250ھ)57
اللؤلؤ والمرجان – محمد فواد الباقی (المتوفی 1388ھ)58
سلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ-  البانی- (المتوفی 1420ھ)59

عظیم  سیرت نگار اور ان کی کتابیں:

2

سیرت ابن اسحاق

1

سیرت ابن اسحاق کے نام سے معروف اس مشہور کتاب کا اصل نام سیرۃ رسول اللہ ہے جو محمد ابن اسحاق، تابعی کی تصنیف ہے اور دوسری صدی ہجری  میں تصنیف کی گئی۔ اسے اولین سیرت و تاریخ کی کتاب مانا جاتا ہے۔

اس کتاب کی جامعیت، تفصیل اورمعلومات کی فراوانی کی بنا پر اکثر اہل علم نے اسے قدر و منزلت کی نظر سے دیکھا۔ مصنف سے بعد کے سبھی مورخوں اور مصنفوں نے سیرت نبوی کے حولے سے اس کتاب پر پورا پورا اعتماد کیا اور اسے اپنا مآخذ بنایا۔ ابن جریر طبری، ابن خلدون اور دیگر مورخین نے ابن اسحاق سے بکثرت روایت کی ہے۔

سیرت ابن ہشام

2

سیرت ابن ہشام جس کا اصلی نام السیرۃ النبویۃ ہے اور کتاب کے مولف ابو محمد عبد الملك بن هشام بن ايوب حميری‎ ہیں جو ابن ہشام کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ کتاب دوسری صدی ہجری  میں تصنیف کی گئی اور اسے اولین سیرت و تاریخ کی کتاب مانا جاتا ہے۔

یہ کتاب دراصل سیرت ابن اسحاق کی تلخیص اور تہذیب ہے ،مثلاً اصل کتاب کا کچھ حصہ سیرت سے براہ راست متعلق نہ تھا اس لیے ابن ہشام نے اسے چھوڑ دیا، مشکل الفاظ کے معنی بیان کیے اور بعض واقعات کا اپنی طرف سے اضافہ کیا۔

سیرت ابن اسحاق کو بطور سیرت ابن ہشام جو شکل ابن ہشام نے دی وہ اتنی مقبول ہوئی کہ لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اصل کتاب فراموش ہو گئی۔ اب یہی کتاب یعنی سیرت ابن ہشام متداول ہے۔

سیرت ابن ہشام کی مقبولیت اور اہمیت کی وجہ سے اس کی کئی شروحات بھی لکھی گئیں:

·        الروض الانف۔ شرح السہیلی (عبد الرحمن عبد اللہ احمد السہیلی) متوفی 581ھ / 1175ء نیز عبد الرحمن الوکیلی نے الروض الانف کی مبسوط شرح لکھی جو 7 ضخیم جلدوں میں شائع ہوئی۔

الشفاء  بتعریف المصطفی

3

سیرت نبوی کے موضوع پر قاضی عیاض (15 شعبان 476ھ۔ 544ھ) کی یہ کتاب مختصراً الشفاء یا شفاء شریف کے نام سے بھی مشہور ہے۔ یہ سیرت کی معروف اور مقبول عام کتاب ہے۔ مصنف نے کتاب میں رسول پاک کے فضائل، محاسن اور معجزات کو ایسے مؤثر اور دل پزیر پیرائے میں بیان کیا ہے کہ ان کے ایک ایک لفظ سے آنحضرت کے ساتھ انتہائی عقیدت اور محبت ٹپکتی ہے۔ قاضی عیاض کی یہ کتاب ایسی بے نظیر ہے جو بے تحاشا فائدے کی حامل ہے لاغر کر دینے والی بیماریوں سے شفا اور مصائب و پریشانیوں سے نجات پانے کے لیے اس کی قرأت و تلاوت مجرب ہے،

ایک مصری عالم اور ادیب الخفاجی (احمد شہاب الدین الخفاجی متوفی 1069ھ / 1659ء) نے اس کی ایک مبسوط شرح نسیم الریاض کے نام سے لکھی جو چار ضخیم جلدوں میں استنبول اور قاہرہ سے شائع ہو چکی ہے۔

اس کی ایک شرح محمد علی القادری نے بھی لکھی جو نسیم الریاض کے مصری ایڈیشن کے حاشیہ پر چھپی ہے۔

شمائل ترمذی

4

عظیم محدث امام ترمذی کی مشہور کتاب۔ “شمائل ترمذی” جس میں امام ترمذی رحمہ اللہ نے نہایت محنت وکاوش وعرق ریزی سے سیّد کائنات ،سيد ولد آدم، جناب محمد رسول صلى الله عليه وسلم كے عسرویسر، شب وروز اور سفر وحضرسے متعلقہ معلومات کو احادیث کی روشنى میں جمع کر دیا ہے- کتاب پڑھنے والا کبھی مسکراتا اورہنستا ہے تو کبھی روتا اورسسکیاں بھرتا ہے- سیّد کائنات صلى اللہ علیہ وسلم کے رخ زیبا کا بیان پڑھتا ہے تو دل کی کلى کھل جاتی ہے اور جب گذر اوقات پر نظر جاتى ہے تو بے اختیار آنسوؤں کی لڑیاں گرنا شروع ہوجاتی ہیں-

شمائل ترمذی کا درجہ صحیحین کے بعد ہے؛ مگربعض خصوصیات صحاح کی تمام کتابوں سے بڑھ کر ہیں، چنانچہ اسماعیل ہروی لکھتے ہیں کہ: ”ترمذی“، بخاری اور مسلم سے زیادہ فائدہ بخش ہے، ان دونوں کتابوں سے صرف صاحب کمال اور صاحب نظر فائدہ اٹھاسکتے ہیں اور ترمذی میں احادیث کی ضروری شرح بھی کردی ہے۔ اس لیے محدثین اور فقہا وغیرہ ہر طبقہ کے لوگ مستفید ہوسکتے ہیں۔ صاحب ”مواہب لدنیہ“ جو شمائل ترمذی کے محشی ہیں لکھتے ہیں کہ امام ترمذی کی ”جامع“ تمام حدیثی اور فقہی فوائد اور سلف وخلف کے مذاہب کی جامع ہے، مجتہد کے لیے کافی ہے اور مقلد کو دوسری کتابوں سے بے نیاز کرنے والی ہے اورجس گھر میں یہ جامع ہوتو گویا اس گھر میں نبی بات کر رہا ہے، ”قَالَ المصنِّفُ مَنْ کانَ فِي بَیتہ ہَذا الکتابُ یَعنِي جامِعَہ فَکأَنَّما فِي بیتہ نبیٌ یَتَکَلُّمُ“

المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ

5

المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ سیرت نبوی کے موضوع پر امام قسطلانی ( 851ھ۔ 923ھ / 1448ء۔ 1517ء ) کی مشہور اور مقبول کتاب ہے۔ کتاب دو ضخیم جلدوں میں قاہرہ سے شائع ہو چکی ہے۔

اس کی سب سے مفصل شرح علامہ زرقانی نے شرح المواہب اللدنيہ کے نام سے کی جو 8 ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے اور مصر سے شائع ہو چکی ہے۔ اس کے صفحات کی مجموعی تعداد تین ہزار سے زائد ہے۔ یہ شرح سیرت نبوی کے متعلق ہر قسم کی معلومات کا ایک خزینہ ہے۔

المواہب کی ایک تلخیص الانوار المحمدیہ فی المواہب اللدنیہ کے نام سے یوسف بن اسماعیل النبہانی نے لکھی جو بیروت سے شائع ہوئی جو اصل کتاب کا قریباً ایک تہائی ہے

زاد المعاد فی هدی خیر العباد

6

زاد المعاد فی هدی خیر العباد حافظ محمد ابن قیم الجوزی کی سیرت کے موضوع پر مشہور کتاب ہے۔

کتب سیرت میں زاد المعاد کی منفرد خصوصیت یہ ہے کہ اس میں صرف حالات اور واقعات کے بیان پر اکتفاء نہیں کیا گیا بلکہ ہر موقع پر یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ آنحضرت کے فلاں قول اور فلاں عمل سے کیا حکم مستنبط ہو سکتا ہے اور آنحضرت کے حالات اور معمولات زندگی میں ہمارے لیے کیا کچھ سامانِ موعظت موجود ہے گویا اس کتاب میں امت کے سامنے رسول کریم کا اسوہ حسنہ اس طرح کھول کر رکھ دیا گیا ہے کہ وہ زندگی کے ہر شعبے میں اس سے ہدایت حاصل کر سکے۔

یہ قابل قدر کتاب اپنی غیر معمولی دلچسپی اور افادیت کی وجہ سے مصر سے کئی دفعہ چھپ چکی ہی۔ اصل کتاب چار جلدوں میں ہے۔

دلائل النبوۃ للبیہقی

7

امام ابو بکر احمد بن حسین بیہقی (متوفی 458ھ) کی سیرت النبی پر عظیم کتاب دلائل النبوۃ ہے۔

امام بیہقی نے اس عظیم الشان تصنیف میں معجزات النبی ،دلائل النبوۃ،رسول اکرم کی طہارت میلاد،اسماء وصفات اور حیات وممات کے سارے پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے اس کتاب میں سیرت نبوی کو بڑے احسن اور منفرد انداز میں جمع فرما دیا علامہ بیہقی اپنے ہم عصروں میں حفظ حدیث، اتقان، علوم و فنون میں پختگی اور حسنِ تصنیف میں منفرد و یگانہ روزگار تھے سیرتِ طیبہ پر ’’الدلائل النبوۃ۔۔‘‘ تصنیف فرمائی جسے علامہ تاج الدین سبکی بے نظیر کتاب قرار دیتے ہیں اور علامہ ابن کثیر سیرت و شمائل کے باب میں تصنیف شدہ تمام کتب کا سرچشمہ قرار دیتے ہیں۔ کتاب کی سب سے بڑ ی خوبی یہ ہے کہ امام بیہقی نے سیرت کو احادیث کی صحیح روایات کے ساتھ مزّین فرمایا ہر قول کے لیے سند پیش کی۔

دلائل النبوۃ لابی نعیم

8

دلائل النبوۃ :امام ابو نعیم اصفہانی کی یہ کتاب بہت مشہور و معروف ہے

آپ کی یہ کتاب آنحضرت ﷺ کے خصائص وکمالا ت اور فضائل و مکارم اور دلا ئل نبوت ومعجزات سے متعلق ہے ۔امام صاحب نے سب سے پہلے آنحضرت ﷺکے خصائص اوصاف قرآن مجید کی روشنی میں بیان کیے ہیں اور تائید میں احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیش کی ہیں اس کے بعد قدیم کتابوں اور انبیائےؑ کرام کے صحیفوں میں جو پیش گو ئیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بیان کی گئی ہیں ان کو جمع کیا ہے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولا دت سے وفات تک کے واقعات کا تفصیل سے ذکر کیا ہے ۔

امام ابو نعیم ؒ نے اس طور پر ایمان لا نے والے متعدد افراد کے مکمل واقعات تحریر کیے ہیں اس حیثیت سے یہ صرف دلا ئل و معجزات نبویہ ہی کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ عہد نبوی کے مختلف النوع اہم واقعات و حالات اور بعض غزوات وسرایا کا مکمل مرقع بھی ہے مصنف نے بعض واقعات کی تفصیل اور ان کے دلا ئل کی نوعیت وغیرہ بھی بیان کردی ہے اور بعض شبہات واشکالات کو بھی رفع کیا ہے آخر میں بعض مشہور انبیاؑئے کرام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کا تقابلی حیثیت سے ذکر کیا گیا ہے اس میں بعض جلیل القدر انبیائےؑ کرام کے خاص اور اہم معجزات کا تذکرہ کرنے کے بعد دکھا یا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اسی نوعیت کے معجزات عطا کیے گئے تھے

طبقات ابن سعد

9

طبقات ابن سعد المعروف الطبقات الکبیر محمد ابن سعد کی تصنیف ہے جو صحابہ کرام اور تابعین کے حالات پر ہے اور ضخیم ہونے کی وجہ سے اس کے نام کے ساتھ الکبیر کی صفت لگائی گئی ہے۔

ابن سعد کا پورانام ابو عبد اللہ محمد بن سعد بن منیع ہاشمی ہے جو کاتب واقدی کے نام سے مشہور ہیں۔

اس کتاب کے ابتدائی حصے میں سیرت طیبہ کا بیان ہے۔ مکمل کتاب کی آٹھ حصوں میں سے پہلے دو حصے سیرت پر مشتمل ہیں۔ یہ کتاب اسلام کی پہلی دو صدیوں کے مشاہیر کے حالات پر ایک بے مثال تالیف ہے اور سیرت نبوی کے نہایت قدیم اور قیمتی مصادر و مآخذ میں شمار ہوتی ہے۔ یہ 15 جلدوں پر مشتمل ہے اس کے علاوہ ان کی طبقات صغریٰ اور تاریخ کی کتاب بھی ہے۔

سیرۃ النبی ﷺ: علامہ شبلی نعمانیؒ اور سید سلیمان ندوی ؒ

10

علامہ شبلی نعمانی ؒ انیسویں اور بیسویں صدی کی ایک معروف محقق اور سیرت نگار ہیں جنھوں نے اپنی بے بہا اور قیمتی نگارشات سے علمی دنیا کو مالا مال کیا ہے۔ انھوں نے سیرۃ النبی کے نام سے کتاب لکھی ہے جس کا بدل غالبا عربی زبان میں بھی نہیں ہے۔ برصغیر میں قرآنی context اور درایات حدیث پر پرکھنے کا جدید رجحان دینے والی علمی شخصیت علامہ شبلی نعمانیؒ ہیں۔ علامہ موصوف سیرت نگاری کے تعلق سے لکھتے ہیں کہ ’’ میں نے سیرت نبوی پر ایک مبسوط کتاب لکھنے کا ارادہ کر لیا۔ لیکن واقع یہ ہے کہ کوئی تصنیف اس تصنیف سے زیادہ دیر طلب اور جامع مشکلات نہیں ہوسکتی۔ ‘‘ہر فرد کو بالخصوص اسلامیات سے دلچسپی رکھنے والوں کو اس کتاب کا بالاستعیاب ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔

ضیاء النبی :محمد کرم شاہ الازہری ؒ

11

یہ سات جلدوں پر مشتمل ہے اور سیرت کے ہر پہلو پرمفصل روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کتاب میں تحقیقی انداز غالب ہے اور ہر بات حوالوں کے ساتھ لکھی گئی ہے۔ مزید یہ کہ قدیم و جدید کے تمام ماخذوں سے بھر پور استفادہ کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے اس میں دوسری کتابوں کے مقابلے میں خوبیاں نمایاں ہیں۔ حکومت پاکستان وزارت مذہبی امور نے اس کتاب کو 1994 ء میں پہلے انعام کا مستحق ٹھہرایا۔

سیرۃالرسول ﷺ:ڈاکٹر  محمد طاہر القادری

12

سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انفرادیت یہ ہے کہ سابقہ ارباب سیر نے آغاز ہی سیرت سے کیا ہے اس بات پر روشنی نہیں ڈالی کہ سیرت کیا ہے اور کیسے بنتی ہے؟ شیخ الاسلام کی سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتیازی مقام ہے کہ اس سلسلہ کی پہلی کتاب مقدمہ کے عنوان سے ہے جس میں ایسے موضوعات پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ آپ نے ’’ابتدائیہ‘‘ میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہمیت کو قرآن و حدیث اور سیرت کی روشنی میں اجاگر کرنا ضروری قرار دیا ہے۔ سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے آپ نے ایک ایسا ہمہ جہت تصور متعارف کرایا ہے جو بیک وقت نظروں اور عقلوں کو بھی مطمئن کرسکے اور دلوں اور روحوں کی بستی کو بھی سیراب کرسکے۔ آپ نے بعض سیرت نگاروں کی طرف سے سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روحانی اور معجزانہ پہلوؤں سے انکار کو سیرت نگاروں کا المیہ کہہ کر اس کی مضبوط علمی گرفت کی ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس سے قلبی محبت و وجدانی اتصال اور روحانی عشق کی نسبت پیدا کرنے کو تکمیل ایمان و عرفان اور ادائیگی تقاضائے دین کے لیے ضروری قرار دیا

سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر ہر سطر ادبی شان لیے ہوئے ہے آپ کی یہ تصنیف آپ کے دلکش اسلوب، طرز استدلال اور علمی وجاہت کا مظہر ہے۔۔۔ الفاظ کا چناؤ آپ کی عالمانہ شان کا گواہ ہے۔۔۔ اہل محبت کی اضطراری کیفیات کو اپنے دل کی دھڑکنوں میں سموکر قرطاس و قلم کے سپرد کیا گیا ہے۔۔۔

سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دس جلدیں زیور طبع سے آراستہ ہوکر ارباب علم و دانش، عوام و خواص، اہل محبت و عقیدت کی علمی پیاس بجھانے کا سامان مہیا کررہی ہیں۔

سیرت سرور عالم : مولانا مودودی ؒ

13

ایک اور مایہ ناز تصنیف ہے۔ یہ اگرچہ مولانا مودودی کی کوئی باقاعدہ تصنیف نہیں ہے اس کو مولانا نعیم صدیقی اور مولانا عبدالوکیل علوی نے تفہیم القرآن اور کچھ دوسرے تصانیف سے مرتب کر کے دو جلدوں میں شائع کیا۔ اب اس کی تیسری جلد بھی شائع ہو چکی ہے۔ تینوں جلدوں میں سیرت کے مختلف پہلووں پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ مولانا محترم نے اس میں معتدل تجزیے کے ساتھ ساتھ منفرد اسلوب میں سیرت رسول کو روشناس کرایا۔

در یتیمﷺ : ماہر القادریؒ

14

اس کتاب کے مصنف ماہر القادری ہیں جو ایک اعلیٰ پایہ کے ادیب بھی تھے۔ انھوں نے اس کو ناول کے انداز میں لکھ ڈالی ہے۔ یہ سیرت میں ادب کے لحاط سے ایک شاہکار تصنیف ہے اور بر صغیر میں اس کو دلجمعی اور دلچسپی کے ساتھ مطالعہ کیا جاتا ہے۔ یہ پہلی بار پاکستان میں 1949ء میں شائع ہوئی۔ سیرت کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے یہ ایک نادر تحفہ ہے۔

اصح السیر : حکیم ابو البرکات عبدالرؤف دانا پوری ؒ

15

اصح السیر سیرت نبوی پر ایک بہترین تحفہ ہے اس کے مصنف حکیم ابو البرکات عبدالرؤف دانا پوری ہیں۔ اس میں مقدمہ سیرت مع تاریخ، پھر سیرت رسول ﷺ ولادت تا وفات، انساب کا حال، مکمل کتاب المغازی، مکمل کتاب الاموال، کتاب بالوفود، حجۃ الوداع کا مٖفصل حال، ازواج النبی کے حالات اور بے شمار معلومات کا ذخیرہ ہے اور یہ سب چیزیں صحیح ترین روایات سے ماخوز ہیں۔

محاضرات سیرت ﷺ: ڈاکٹر محمود احمد غازی ؒ

16

محاضرات سیرت دور جدید میں سیرتی لٹریچر میں ایک اہم اضافہ ہے۔ اس کے مصنف معروف مفکر ڈاکٹر محمود احمد غازی ؒ ہیں انھوں نے ان خطبات یا محاضرات میں بحر بے کراں کو بند کر کے کتاب کو صحیح معنوی میں دریا در کوزی کرنے کی مثال بن گیا ہے۔ یہ دراصل سیرت سے نہیں بلکہ علم سیرت سے بحث کرتی ہے۔ محاضرات سیرت بارہ خطبات پر مشتمل ہے جن میں نصف کا تعلق فن سیرت کی تاریخ اور تدوین سے ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ان خطبات میں مغربی مستشرقین اور ان کے پیروں کاروں کی پیدا کردہ غلط فہمیوں، موشگافیوں اور الجنھوں کو دور کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اس کتاب سے قاری کو بہت سے نئے گوشوں کو پڑھنے کا موقع ملتا ہے۔

النبی الخاتم ﷺ : مولانا مناظر احسن گیلانیؒ

17

النبی الخاتم سیرت پر ایک اعلیٰ درجہ کی کتاب ہے۔ یہ 450 عنوانات پر مشتمل ہے جن میں 300 سے زائد عناوین کا تعلق النبی الخاتم کی پاک زندگی و مقدس سیرت کے مختلف پہلووں کے متعلق بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب کی ادبی چاشنی بھی لائق صد تحسین ہے۔ وہ نبی کریم ﷺ کی شخصیت کے بارے میں لکھتے ہیں ’’یوں آنے کو سب ہی آئے۔ سب میں آئے۔ سب جگہ آئے (سلام ہو ان پر) کہ بڑی کٹھن گھڑیوں میں آئے۔ لیکن کیا کیجیے، ان میں جو آیا جانے کے لیے آیا، پر ایک اور صرف ایک، جو آیا اور آنے ہی کے لیے آیا وہی جو آنے کے بعد پھر کبھی نہیں ڈوبا چمکا اور چمکتاہی چلا جارہا ہے۔ بڑھا اور بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ چڑھا اور چڑھتا ہی جارہا ہے۔ ‘‘

محمد عربی ﷺ: مولانا محمد عنایت اللہ سبحانی

18

محمد عربی اردو زبان میں ایک مقبول عام کتاب ہے۔ دور جدید میں برصغیر میں سیر ت رسول ﷺ پر منفرد انداز سے لکھنے والے مولانا عنایت اللہ سبحانی کا ایک اہم رول ہے۔ مولانا کو سیرت لکھنے کا منفرد انداز ہے۔ سیرت پر ان کی ایک کتاب’’محمد عربی‘‘ پاک و ہند میں مشہور و معروف ہے۔ جو بڑے منفرد انداز سے لکھی گئی ہے۔ جو تذکیری پہلووں سے بھی مزین ہے۔ یہ کتاب 14 ضخیم ابواب پر مشتمل ہے۔ ان ابواب کے عناوین بھی بے حد دلچسپ ہے جو نہ صرف دل کو چھو لینے والی ہیں بلکہ ان میں سوز و گداز بھی ہے۔ کتاب کے چند عناوین یہ ہیں : ہوتی ہے سحر پیدا، کرنیں ابھرتی ہیں، خدا کی آواز، پھلی پکار طوفانی کشمکش، نازک مرحلے اور کارواں بنتا گیا، دعوت حق تلواروں کے چھاؤں میں وغیرہ

محسن انسانیتﷺ : مولانا نعیم صدیقی ؒ

19

محسن انسانیت بھی سیرت پر ایک شاہکار کتاب ہے۔ بقول ماہر القادری ’’اردو زبان میں ہی نہیں بلکہ دوسری زبانوں میں بھی جن اہل نظر اور ارباب علم کی نگاہ سے سیرت کی کتابیں گذری ہیں وہ محسن انسانیت کو پڑھ کر اس کی انفرادیت کو ضرور محسوس کریں گے‘‘ ضمیمے کے ساتھ یہ کتاب 7 ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلا باب سیرت کا پیغام، نصب العین اور تاریخی مقام کے عنوان سے ہے۔ دوسرا باب شخصیت ایک نظر میں کے نام سے ہے تیسرا باب مکی دور سے تعرض کرتا ہے چوتھا باب مدنی دور سے بحث کرتا ہے۔ پانچواں باب تلواروں کی چھاؤں پر ہے جو نظریہ جہاد اور غزوات النبوی سے متعلق ہے۔ قاری اس کتاب سے تب ہی پوری طرح سے مستفید ہوسکتا ہے جب وہ یہ باب ذہن میں مستحضر رکھیے کہ سیرت کا مطالعہ کس مقصد کے لیے کرنا ہے؟

عہد نبوی کا تمدن : ڈاکٹر یٰسین مظہر صدیقی

20

عصر حاضر میں ڈاکٹر یٰسین مظہر صدیقی کا شمار بڑے سیرت نگاروں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے سیرت نبوی کے مختلف پہلووں پر قابل ذکر کام کیا ہے۔ ’عہد نبوی کا تمدن ‘ بھی اس کی ایک کڑی ہے۔ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے پہلا باب عہد نبوی کے کھانوں پر ہے جس میں کھانے کی بنیادی ضروریات کو آیات قرآنی کے حوالے سے مختلف زاویوں سے اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ دوسرا باب عہدنبوی کے ملبوسات پر ہے جس میں تمام ضروری لباسوں پر بحث کی گئی ہے۔ تیسرا باب آرائش بدن کے مختلف پہلووں کا احاطہ کرتا ہے۔ چوتھواں باب عہد نبوی کے مکانات اور اسباب زیست سے تعرض کرتا ہے۔ پانچواں باب میں مختلف تقریبات کا ذکر ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔

دروس سیرت : ڈاکٹر محمد سعید البوطی ؒ

21

یہ کتاب دراصل عالم عرب کے معروف عالم دین اور مربی ڈاکٹر محمد سعید البوطی کی عربی تصنیف فقہ السیرۃ النبویۃ کا اردو ترجمعہ ہے جسے معروف اسکالر ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی صاحب نے نہایت شستہ انداز میں اردو میں منتقل کیا ہے۔ یہ سات ابواب پر مشتمل ہے پہلے باب میں سیرت نگاری پر بحث کی گئی ہے باقی ابواب کے نام یہ ہیں : ولادت سے بعثت تک، بعثت سے ہجرت تک، نئے معاشرے کی بنیادیں، دفاعی جنگ کا مرحلہ اور فتح، مقدمات اور نتائج۔ اس کتاب کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ قاری کو ہر موقع پر یہ نصحیت اور تحریک ملتی ہے کہ مجھے بھی سیرت پاک کی کرنوں میں اپنے آپ کو رنگنا چاہیے۔

الرحیق المختوم : مولانا صفی الرحمٰن مبارک پوری ؒ

22

الرحیق المختوم کا پس منظر یہ ہے کہ 1976 ء میں کراچی کی بین الاقومی سیرت کانفرنس کے اختتام پر رابطہ عالم اسلام نے سیرت نبوی ﷺ کے موضوع پر مقالہ نویسی کا ایک عالمی مقابلہ کرنے کا اعلان کیا جس میں دنیا بھر کے اہل علم کو سیرت نبوی کے موضوع پر مقالہ لکھنے کے لیے دعوت دی گئی۔ اس مقابلہ میں دنیا بھر سے 171 مقالے پیش کیے گئے جن میں 84 مقالات عربی زبان میں تھے۔ ان مقالات کی خوب جانچ پڑتال کی گئی جس کے بعد رابطہ عالم اسلام کی قائم کردہ سیرت کمیٹی کی سفارشات کے مطابق مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری کا مقالہ ’الرحیق المختوم‘ جو لحاظ سے تحقیقی نوعیت کا ہے اور اس کو پہلے انعام کامستحق قرار دیا گیا۔ اس ایوارڑ یافتہ کتاب کو لوگوں میں ہر اعتبار سے پزیرائی ملی اور علمی حلقوں نے اس کو خوب سراہا۔ اس وقت یہ سیرت کی بہترین کتابوں میں سے ایک ہے۔

حیات سرورکائنات محمد : مارٹن لنگس( ابو بکر سراج الدین)

23

حیات سرورکائنات محمد (Muhammad : His life Based on Earliest Sources) ایک نو مسلم انگریزی ادب کے اسکالر مارٹن لنگس(ابو بکر سراج الدین) نے لکھی ہے۔ یہ کتاب سیرتی لٹریچر میں ایک اہم اضافہ ہے اور اس کا متعدد زبانوں میں ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔ اس تصنیف کی ایک خاص بات یہ ہے کہ مصنف نے عربی کے بنیادی اور اصل ماخذسے استفادہ کر کے احوال و کوائف سے غیر معمولی نتائج اخذ کیے ہیں جو یقینا قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہیں۔

محدثین اور سیرت نگاروں کے  برکت بھرےچند واقعات:

3

یہاں پر محدثین اور سیرت نگاروں کے چند واقعات بیان کیے جائیں گے  جس سے اِن کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ  نہ صرف مضبوط تعلق بلکہ حصولِ برکات بھی واضح ہوتا ہے۔

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ

1

حضرت امام مالک عاشقِ رسول صلى الله علیہ وآلہ وسلم تھے اور مدینہ طیبہ سے والہانہ محبت کرتے تھے۔ مدینہ طیبہ میں ۹۳ھ میں پیدا ہوئے اور آخر وہیں ۱۷۹ھ میں وصال فرمایا۔ جنت البقیع میں مدفون ہیں۔ اب تک آپ  کے مرقد سےکےلوگ مستفید ہوتے ہیں ۔ حضرت مثنی بن سعید زارغ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام مالک کو فرماتے سنا کہ کوئی رات ایسی نہیں جاتی جب میں اپنے حبیب صلى الله علی وسلم کو نہ دیکھتا ہوں اور اس کے بعد روئے ۔  (حیاۃ الصحابہ حصہ پنجم صفحہ ۳۹۲ ازمولانا محمد یوسف کاندھلوی  اردو ترجمہ)

حضرت محمد ابن ابی ا لسری عسقلانی نے خواب میں حضرت محمد صلى الله عليہ وآلہ وسلم  کی زیارت کی اور عرض کیا کہ آپ کوئی ارشاد فرمائیں تاکہ میں آپ کی جانب   سے اس ارشاد کی تبلیغ کروں۔ آپ صلى الله عليہ وآلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا  ، میں نے مالک بن انس کو ایک خزانہ دے دیا ہے جسے وہ تم سب میں تقسیم کر رہا ہے اور وہ خزانہ   موطا ہے۔  (روض الفائق صفحہ ۱۴۸)

حافظ ابو نعیم اصفہانی نے کتاب حلیة الاولیاء میں حضرت امام مالک کا ذکر کرتے ہوئے  سندصحیح کے ساتھ نقل کیا ہے کہ سہیل بن مزاحم جو اپنے وقت کے عابدوں میں سے تھے اور عبد الله بن المبارک ے جو مرو کے رہنے والے تھے ان کے دوستوں میں سے تھے ، یہ بیان کیا کہ میں نے ایک روز حضرت رسول الله صلى الله عليہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا تو عرض کیا یارسول الله صلى الله عليہ وآلہ وسلم  آپ کاخیر و برکت والا زمانہ تو گذر گیا۔ اگرہمارے دل میں دینی کاموں میں شک و شبہہ واقع ہوتوکس شحض سے تحقیق کریں ۔ آپ نے فرمایا کہ تم کو جو مشکل پیش آئے ہے اس کو مالک بن انس سے دریافت کرو۔

بستان المحدثین ۔ارد و صفحہ ۱۸

 امام اعظیم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ

2

آپ کے اخلاص، صداقت ودیانت، عبادت وریاضت اور زہد وتقویٰ کے باعث اللہ تعالیٰ نے آپ کو تصوف وطریقت میں بلند درجہ عطا کیا اور امامت واجتہاد کے مقام پر فائز فرمایا، اس کی تائید حضرت شیخ علی ہجویری﷫  کی اس تحریر سے بھی ہوتی ہے کہ انہوں نے خواب میں آقا ومولیٰ صلی الله علیہ وسلم کی زیارت کی اور دیکھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم امام اعظم ابو حنیفہ کو اپنی گود میں اٹھائے ہوئے تشریف لارہے ہیں، آپ لکھتے ہیں خواب سے ظاہر ہوگیا کہ امام ابوحنیفہ ان پاک لوگوں میں سے تھے جو اوصاف طبع میں فانی اور احکام شرع میں باقی ہیں، اس لیے کہ حضور آپ کو اٹھا کر لائے، یعنی آپ کے چلانے والے سید عالم ہیں، اگر آپ خود چل کر آتے تو باقی الصفت ہوتے، باقی الصفت لوگ منزل کو پابھی سکتے ہیں اور منزل سے بھٹک بھی سکتے ہیں، چوں کہ رسول اللہ نے آپ کو اٹھایا ہوا تھا، اس لیے یقینا آپ کی ذاتی صفات فنا ہوچکی تھیں اور وہ آقا کریم کی صفات کے ساتھ صاحب بقا تھے۔(کشف المحجوب 165)

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ

3

حضرت امام شافعی کاسلسل نسب ساتویں پشت پر رسول الله صلى الله علی آلہ وسلم سے جا ملتا  ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں  ایک مرتبہ حضرت محمد رسول اللہ صلی الہ علیہ  کو خانہ کعبہ میں نماز پڑھتے دیکھا۔جب آپ نمازسے  فارغ ہوئے تولوگوں کو تعلیم دینے لگے ۔میں نے قریب ہوکر عرض کیا یارسول الله  مجھے بھی کچھ سکھایئے۔ آپ نے اپنی آستین سے میزان (ترازو) نکال کر مجھ کو عطا فرمایا اورفرمایاکہ تیرے لئے میرا یہ عطیہ ہے۔ معبر نے اس کی یہ تعبیر بتائی کہ تم دنیا میں حضرت محمد رسول اللہ صلی الہ علیہ  کی سنت  مطہرہ کی نشر و اشاعت میں امام بنو گے۔  (سیرت آئمہ اربعہ مرتبہ ریئس  احمد جعفری صفحہ ۳۴۷)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ

4

حضرت امام بخاری خود  بیان فرماتے  ہیں کہ صحیح بخاری کی تدوین کا محرک ایک خواب ہوا۔  ایک رات میں نے خواب دیکھا کہ حضرت محمد رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف فرما ہیں اور میں پنکھے سے ہوا کر رہا ہوں اور آپ کے رخ انورکے قریب جانے والی مکھیاں بھی اڑا  رہا ہوں۔   صبح ایک معبر سے میں نے اپنے اس خواب کی تعبیر چاہی  تو اس نے کہا کہ تجھے خدا وند تعالی توفیق دے گا اور تو کذب وافترا کو حضرت محمد رسول االلہ  سے دور کرے گا۔   اس کے بعد میرے دل میں صحیح بخاری کی تدوین و ترتیب کا خیال پیدا ہوا اور سولہ سال کی مدت میں اس کی تکمیل کی ۔ سب سے پہلے اس کا مسودہ مسجدحرام میں بیٹھ کر لکھا۔  اس کے بعد دوباره مسووہ روضہ ِ اطہر اور ممبرنبوی کے درمیان بیٹھ کر لکھا۔   یہ مجموعہ ترتیب دیتے  وقت ہمیشہ  روزہ  رکھا۔  روایت ہے کہ ہر حدیث پر شب کو خواب میں بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تصدق  کی سند ملتی تھی۔

حضرت   ابو زید مروزی محدث ذکر فرماتے ہیں کہ میں مسجد حرام میں   محو خواب تھا کہ   شاه تقدس مآب حضرت محمد رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی ۔آپ نے ارشاد فرمایا: اے ابو زید   تم میری کتاب کیوں نہیں پڑھاتے ؟ میں نے عرض کیا یا رسول الله صلی الله علیہ و آلہ وسلم آپ کی کون سی کتاب ہے ؟ فرمایا محمد بن اسماعیل  بخاری کی تالیف کردہ کتاب ۔ بے شک کلام اللہ کے بعد صحیح بخاری، ہی سب سے زیادہ عظیم الشان کتاب ہے۔ (نتائج التقلید از محمداشرف تھانوی صفحہ ۱۸۵)

ابوبکر خطیب تاریخ   بغدار، میں نقل کرتے ہیں کہ عبدالواحد طراولیسی بن آدم   نے فرمایاکہ میں نے ایک رات حضرت محمد رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ چندصحابہ کرام کے ہمراہ کسی کے انتظارمیں کھڑے ہیں۔ میں نے دریافت کیا کہ آپ کس کے منتظرہیں ؟ ارشادفرمایا: انتظرمحمدبن اسماعیل بخاری، (یعنی  میں محمد بن اسماعیل بخاری کا انتظار کر رہا ہوں)۔ چند روز گزرنے کے بعد معلوم ہوا کہ حضرت امام بخاری نے عین اسی وقت اس دار فانی سے رخت ِسفر باندھا تھاجس وقت اپنے غلاموں کو فراموش نہ کرنے والے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کا منتظر تھا۔ مدتوں حضرت امام بخاری کے مزار پر انوار کی مٹی سے مشک کی سی خشبو آتی رہی اور لوگ  تبرک کے طور پر وہ مٹی لے جاتے رہے ۔

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ

5

عظیم محدث امام ترمذی کی مشہور کتاب۔ “شمائل ترمذی” جس میں امام ترمذی رحمہ اللہ نے نہایت محنت وکاوش وعرق ریزی سے سیّد کائنات ،سيد ولد آدم، جناب محمد رسول صلى الله عليه وسلم كے عسرویسر، شب وروز اور سفر وحضرسے متعلقہ معلومات کو احادیث کی روشنى میں جمع کر دیا ہے- کتاب پڑھنے والا کبھی مسکراتا اورہنستا ہے تو کبھی روتا اورسسکیاں بھرتا ہے- سیّد کائنات صلى اللہ علیہ وسلم کے رخ زیبا کا بیان پڑھتا ہے تو دل کی کلى کھل جاتی ہے اور جب گذر اوقات پر نظر جاتى ہے تو بے اختیار آنسوؤں کی لڑیاں گرنا شروع ہوجاتی ہیں۔

شمائل ترمذی کا درجہ صحیحین کے بعد ہے؛ مگربعض خصوصیات صحاح کی تمام کتابوں سے بڑھ کر ہیں، چنانچہ اسماعیل ہروی﷫ لکھتے ہیں کہ: ”ترمذی“، بخاری اور مسلم سے زیادہ فائدہ بخش ہے، ان دونوں کتابوں سے صرف صاحب کمال اور صاحب نظر فائدہ اٹھاسکتے ہیں اور ترمذی میں احادیث کی ضروری شرح بھی کردی ہے۔ اس لیے محدثین اور فقہا وغیرہ ہر طبقہ کے لوگ مستفید ہوسکتے ہیں۔ صاحب ”مواہب لدنیہ“ جو شمائل ترمذی کے محشی ہیں لکھتے ہیں کہ امام ترمذی کی ”جامع“ تمام حدیثی اور فقہی فوائد اور سلف وخلف کے مذاہب کی جامع ہے، مجتہد کے لیے کافی ہے اور مقلد کو دوسری کتابوں سے بے نیاز کرنے والی ہے اورجس گھر میں یہ جامع ہوتو گویا اس گھر میں نبی بات کر رہا ہے، ”قَالَ المصنِّفُ مَنْ کانَ فِي بَیتہ ہَذا الکتابُ یَعنِي جامِعَہ فَکأَنَّما فِي بیتہ نبیٌ یَتَکَلُّمُ“

امام ترمذیؒ، امام بخاریؒ کے شاگرد تھے۔ نصر بن محمد خود امام ترمذی سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن امام بخاریؒ نے ان سے کہا کہ تم نے مجھ سے اس قدر استفادہ نہیں کیا، جتنا استفادہ میں نے تم سے کیا ہے۔

عمران بن علان نے کہا کہ: ’’امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ نے فوت ہونے کے بعد اہل خراسان کے لئے علم و عمل میں امام ترمذیؒ جیسا کوئی شخص نہیں چھوڑا۔ ‘‘ (تذکرۃ المحدثین، ص: 239)

امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ

6

شرح السنہ للبغوی علامہ ابو محمد حسین بن مسعود بغوی ﷫ کی مایہ ناز تصنیف ہے ، جن کی پیدائش ۴۳۳ اور وفات ۵۱۶ ہجری میں ہوئی ہے ۔ ”مشکاة شریف “کا اصل اور متن ”مصابیح السنہ “ بھی ان کی تالیف ہے۔ ان کا لقب محیی السنہ ہے اور اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ علامہ بغوی ﷫  جب” شرح السنہ“کی تصنیف سے فارغ ہوئے تو ایک دن ان کو خواب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت نصیب ہوئی اور آپ نے ان کو مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ

 ”أحیاک اللہ کما أحییت سنتي․“

 یعنی ” اللہ تعالی تمہیں اس طرح زندہ رکھے جیسا کہ تم نے میری سنت کو ( اپنی تصنیف کے ذریعے ) زندہ کیا ۔ “

( اشعة اللمعات: ۱/۲۶، ۲۷، معجم البلدان: ۱/۴۶۸)

امام جرزی رحمۃ اللہ علیہ

7

“حصن حصین ” حضرت محمد رسول الله صلى الله علیہ و آلہ وسلم کے دعائیہ کلام کا مجموعہ ہے جس کو اس کے مؤلف حضرت محمد بن محمد بن محمد جرزی شافعی دمشقی نے ۲۲ ذی الحجہ بروز یک شنبہ ۶۹۱ ھ  میں   اپنے مدرسہ واقع (موضع عقبتہ الکتان ) میں مکمل کیا ۔ جب  یہ کتاب مکمل ہوئی تیمور لنگ کی وجہ سے دمشق  فتنہ و فساد  کاگھربنا ہوا تھا ۔ شہر کے گرد و نواح میں آگ لگی ہوئی تھی اور لوٹ مار جاری تھی۔  مولئف  کے ایک  جانی دشمن نے جس کو اللہ تعالی کے سوا کوئی دفع کرنے والا  نہ تھا اسی زمانہ میں ان کو طلب کیا۔ یہ چھپ کر بھاگ گئے اور اس مضبوط ومستحکم قلعہ سے اپنی حفاظت کی (یعنی  وظیفہ کے طور پر اپنی کتاب حصن حصین پڑھنی شروع کی) خواب میں حضرت رسول الله صلى الله علیہ و آلہ  و سلم کو دیکھا اس طرح کہ آپ کی بائیں جانب قلب مبارک کے قریب بیٹھا ہوں اور آپ فرمارہے ہیں تم کیا چاہتے ہو؟  میں نے عرض  کیا آپ میرے اور تمام مسلمانوں کے لیے دعا فرمائیں۔ میری درخواست پر آپ نے فوراَ اپنے دست مبارک اٹھا ئے میں آپ کے مبارک ہاتھوں کی طرف دیکھتارہا ۔ پھر آپ نے دعا فرمائی اور اپنے دست مبارک اپنے روئے مبارک پر پھیرے۔ جمعرات کو میں نے خواب دیکھا۔ اتوار کی رات دشمن خود بخود بھاگ گیا۔ (حصن حصین معہ ترجمہ و شرح از مولانا عبد العلیم ندوی صفحہ ۵۴۲ تا ۵۴۳)

امام جزولی رحمۃ اللہ علیہ

8

حضرت امام سید ابو عبداللہ  بن محمد بن سلیمان بن ابی بکر جزولی شریف حسنی سادات متقدمین اور مشائخ روزگار سے تھے۔ آپ نے فیضِ باطنی حضرت محمد رسول اللہ صلى الله علیہ وآلہ وسلم سے پایا۔ آپ نے کتاب “دلائل الخیرات” لکھی اور عالم خواب میں قبولیت کتاب سے مشرف ہوئے اور کمال فنا فی الرسول میں شہرہ روزگار ہوئے۔  ( ریاض الفقر معروف بہ “دفتر حقیقت”  دوسرا گلزار صفحہ  ۱۸۷،از حافظ امداد حسین میرٹھی)۔

امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ

9

علامہ حافظ عبد الرحمن  جلال الدین سیوطی نے تحریر فرمایاکہ میرے پاس ایک  فریادی نے درخواست کی کہ میں سلطان قا ئتبائی کے پاس جا کر اس کی سفارش کروں ۔ میں نے اس کو جواب دیاکہ میرے بھائی میں ۵ ۷ مرتبہ حضرت رسول الله صلى الله علیہ وآلہ وسلم کی زیارت با برکت سے شرف ہو چکا ہوں۔ سوتے اور جاگتے میں آپ سےبعض احادیث کی صحت کے بارے میں دریافت کر چکا ہوں۔ مجھے یہ خدشہ ہے کہ اگر میں سفارشی بن کر آپ کے ساتھ سلطان کے پاس جاؤں تو  پھر مجھےزیارت نصیب  نہ ہو۔ میں اس شرف کوشرفِ سلطان پر ترجیح دیتا ہوں۔ (سعادت الدارین صفحہ ۴۳۷)

امام ابو اسحق رحمۃ اللہ علیہ

10

ابو اسحق معروف بہ نہشل نے بیان کیا کہ جب میں احادیث کی تخریج کیا کرتا تھا تو ہر حدیث لکھتے وقت قال النبی صلی الله علیہ وسلم  تسلیما لکھاکرتا تھا۔ ایک روز میں نے حضرت محمد رسول اللہ صلى الله علیہ آلہ وسلم کو خواب میں دیا کہ آپ کے دست میان میں میری کتاب کا ایک جزہے اور آپ اسے ملاحظ فرماکر ارشاد فرمارہے ہیں کہ یہ بہت خوب ہے  (فضال در ود شریف صفحہ ۱۰۷)

امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ

11

طبرانی نے روایت کی ہے کہ حضرت محمد رسول الله صلى الله علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ شفقت،  دوستی اور حسن سلوک آپس میں کیا کریں اورمانند ایک تن کے ہوں اگر ایک عضو بدن میں درد ہوتا ہے تو تمام بدن اس کی رفاقت میں بے چین رہتا ہے۔  طبرانی نے اس حدیث شریف کی روایت کے بعد  کہاکہ  میں نے حضرت محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک اور خواب میں دیا اور اس حدیث کی بابت دریافت کیا تو آپ نے اپنے دست مبارک سے اشارہ کر کے  فرمایا صحیح صحیح صحیح۔

(  مجموعئہ سعادت حصہ ثانی ملقب، بفقہ الحدیث، موئفہ مولانا عباد الرحمن صفحہ ۲۷۳ تا ۲۷۴ – در مطبع سعید المطابع واقع بنارس طبع گردید ۱۳۰۸ء)۔

محافلِ ذکر ِمصطفیٰﷺ کی برکات:

(3)

ذکرِ رسول ﷺ کی تیسری نفلی صورت، محافلِ ذکر ِمصطفیٰ    ﷺ کا انعقاد ہے۔  بلاشبہ دنیا بھر میں سب سے ذیادہ  ذکر ِمصطفیٰ    ﷺ  کی محافل کا انعقاد عیدمیلاد النبی ﷺ کے موقع پرہی کیا جاتا ہے، اس لیے  عیدمیلاد النبی ﷺ کی محافل ذکر ِمصطفیٰ    ﷺ  کی ہی محافل ہیں ۔ ان محافل کی برکات کے بیان  کے لیے   اگلا حصہ(2.3.12) ”امت پرمیلاد النبی ﷺ کی برکات ” کے نام سے مختص کیا گیا ہے۔

شان و فضائلِ حبیبﷺ پر نظم و نثر کی برکات:

(4)

رسول اللہ ﷺ کے دور سے لے کر آج تک جتنے بھی شعراء نے آپ ﷺ کی مدح  سرائی کی،  اس کے طفیل  ان تمام شعراء کو  اللہ کریم  کی طرف سے کسی نہ کسی صورت میں برکتیں موصول ہوئی۔ کسی نے  روح الامین   کی برکت  تو کسی نے آپ ﷺ آپ کے رخِ زیبا کے دیدار  کی برکت پائی۔

حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ

1

حضور نبی اکرم ﷺ خود  بھی محفلِ نعت منعقد فرماتے اور حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو فرماتے کہ وہ آپ ﷺ کی مدح میں لکھے ہوئے قصائد پڑھ کر سنائیں۔    اس عمل پر حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو اللہ کی طرف سے  جو   سب سے بڑی برکت حاصل ہوئی  وہ تھی   روح الامین  کی مدد۔

سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا آگے بیان کرتی ہیں کہ حضرت حسان آپ ﷺ کی نعت پڑھتے تو آپ ﷺ خوش ہوکر فرماتے :

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

إن اﷲ تعالي يؤيّد حسان بروح القدس ما يفاخر أو ينافح عن رسول اﷲ.

’’بے شک اللہ تعالیٰ روح القدس کے ذریعے حسان کی مدد فرماتا ہے جب تک وہ اﷲ کے رسول کے متعلق فخریہ اَشعار بیان کرتا ہے یا (اَشعار کی صورت میں) ان کا دفاع کرتا ہے۔‘‘

حوالاجات

حضرت حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا آپ نے حضور ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی   سَیِّدِ نَا   وَ  مَوْلَانَا   مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰی  اٰلِہٖ  وَسَلِّمْ

يا حسان! أجب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، اللّهم أيّده بروح القدس.

’’اے حسان! اللہ کے رسول کی طرف سے دفاع کرتے ہوئے (کفار کو) جواب دو، اے اللہ! اِس کی روح الامین کے ذریعے مدد فرما۔‘‘

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : ہاں، میں نے حضور ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔

حوالاجات

اسماعیل بن محمد بن زبیر بن ربعیہ حمیری

2

تابعین کے دور کے مشہور شاعر اسماعیل بن محمد بن زبیر بن ربعیہ حمیری فرماتے ہیں کہ میں نے بچپن میں عالم رویاء میں دیکھا کے شورازار بنجر زمین ہے جس میں بہت سے کانٹے دار درخت اُگے ہوئے ہیں اس کے برابر ایک اور تختہ زمین ہے جس پرحضرت ہادی اُمت صلی الله علیہ وآلہ وسلم جلوہ افروز ہیں ۔آپ نے میری جانب خطاب کرکے استفسار فرمایا: تم جانتے ہو یہ درخت اور کانٹے کس کے ہیں ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلى الله علیہ و آلہ وسلم آپ سے بہتر کون جان سکتا ہے۔ اس پر آپ نے ارشادفرمایا کے امرالقیس کے ہیں۔ اس کے بعد مجھے حکم دیاکہ ان درختوں کو اس بنجر زمین سے اکھاڑ کر اس زمین پر لگا دوں جہاں میں کھڑا ہوں۔ آپ کے حکم کی تعمیل کر کے میں فراغت حاصل کر چکا تھا کہ آنکھ کھل گئی ۔ اس دور کےمشہورمعبر ابن سیریں سے ان کے والد نے یہ خواب بیان کیا تو آپ نے تعبیرمیں فرمایاکہ تمہارا بیٹا قادر الکلام شاعرہوگا اور  بزرگوں کی مدح سرائی میں اپنے  قلم کے جوہر دیکھائے گا۔ یہی ہوا (حیات ابن سیریں از مولوی محمد علی صاحب)

امام جامیؒ

3

مولانا عبدالر حمٰن جامی رحمۃ اﷲ علیہ عالم اسلام کی مقتدر شخصیات میں سے ایک اہم شخصیت ہیں، جو مورخ، سیرت نگار، سوانح نگار، نثرنگار اور شاعر کے علاوہ ایک عظیم صوفی بزرگ ہوئے ہیں۔ آپ کاشمار صف اوّل کے صوفیاء کرام میں ہوتا ہے ۔

مولانا عبدالر حمٰن جامی رحمۃ اﷲ علیہ سچے عاشق رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تھے ۔ آپ کا یہ پہلو آپ کو ممتاز کرتا ہے ، جس کی وجہ سے شرق وغرب آپ کا شہرہ ہے ۔ آپ نے جس و الہانہ انداز سے بارگاہ رسالت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں ہدیۂ نعت پیش کیا ہے ، اس کا تمام فارسی ادب میں جواب نہیں ملتا۔ وہ وادی بطحا میں پہنچ کر مدینہ، خاک ِمدینہ، خارِمدینہ، حتیٰ کہ سگِ مدینہ کو بھی اپنے دل کے قریب پاتے ہیں۔  

وہ عشق رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں ڈوب کر نعت لکھتے تھے اور وہ اس فن میں منفرد ہی نہ تھے، امام تھے ۔ دیدارِ روضہ ٔ اطہر کیلئے جس جذب و جنوں کا حصہ انہیں ملا تھا، وہ  بہت کم  شاعروں نے پایا ۔

(حالات جامی ،مقدمہ شواہد النبوۃ، صفحہ 14) علامہ منشا تابش قصوری لکھتے ہیں: حضرت شاہ محمد ہاشم رحمۃ اﷲ علیہ ’’جامع الشواہد‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں۔ ’’ماہ ربیع الاوّل کی ایک پرکیف اور نورانی رات میں امام العاشقین حضرت مولانا عبدالرحمنٰ جامی قدس سرہ السامی نے ایک روح پرور اور ایمان افروز خواب دیکھا کہ محراب النبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے قریب حبیب کبریا جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم جلوہ افروز ہیں، ذکر و اذکار اور حمد ونعت کا سلسلہ جاری ہے ۔ حضرت جامی رحمۃ اﷲ علیہ بھی چند نعتیہ اشعار پیش کرتے ہیں، جنہیں سرکار ابد قرا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم منظورفرماتے ہیں۔ جب آنکھ کھلی توجامی رحمۃ اﷲ علیہ پر وجد و سرور کی کیفیت طاری تھی ،عالم جذب میں فرمانے لگے ’’وہ نورانی رخ ِزیبا جو چاند سے زیادہ حسین اور روشن ہے ، جب جبینِ مقدس سے ، آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے موئے مبارک کو ہٹایا تو سراج منیر کی تجلیاں نمودار ہونی لگیں‘‘۔ اسکے بعد جب جامی رحمۃ اﷲ علیہ کا اپنے وطن آنا ہوا تو بے تابی کے عالم میں پکارنے لگے ۔ نسیما جانب بطحا گزر کن زِاحوالم محمد را خبر کن ببر ایں جان مشتاقم در آنجا فدائے روضۂ خیر البشر کن توئی سلطان عالم یا محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم زروئے لطف سوئے من نظر کن مشرف گرچہ شد جامی زلطفش خدایا ایں کرم بار دگر کن جامی رحمۃ اﷲ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک ہفتہ بھی گزرنے نہیں پایا تھا کہ انہیں آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے پھر زیارت سے مشرف فرمایا۔

 (اغثنی یا رسول اﷲ ،صفحہ 17,18) حضرت مولانا عبدالرحمنٰ جامی رحمۃ اﷲ علیہ وہ عاشق رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہیں جن کو بارگاہ ِرسالت میں شرف قبولیت حاصل ہے ۔

امام شرف الدین بوصیریؒ

4

امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کو نعتیہ قصیدہ لکھنے پر بارگاہِ مصطفیٰ ﷺ سے چادر اور شفایابی کا تحفہ عطا ہوا صاحبِ ’’قصیدہ بردہ‘‘ امام شرف الدین بوصیری (608۔ 696ھ) کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ اپنے زمانے کے متبحر عالمِ دین، شاعر اور شہرۂ آفاق ادیب تھے۔ اللہ رب العزت نے آپ کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا۔

 اچانک ان پر فالج کا حملہ ہوا جس سے ان کا آدھا جسم بیکار ہوگیا، وہ عرصہ دراز تک اس عارضہ میں مبتلا رہے اور کوئی علاج کارگر نہ ہوا۔ اس مصیبت و پریشانی کے عالم میں امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں خیال گزرا کہ کیوں نہ آقائے دوجہاں ﷺ کی مدح میں ایک قصیدہ لکھ کر اپنی اس مرضِ لادوا کے لیے شفاء طلب کروں؟ چنانچہ اس بیماری کی حالت میں قصیدہ لکھا۔ رات کو سوئے تو مقدر بیدار ہوگیا اور خواب میں حضور نبی اکرم ﷺ کی زیارت سے شرف یاب ہوئے۔ عالم خواب میں پورا قصیدہ آقائے کائنات ﷺ کو پڑھ کر سنایا۔ امام بوصیری کے اس کلام سے آپ ﷺ اس درجہ خوش ہوئے کہ اپنی چادر مبارک ان پر ڈالی اور اپنا دستِ شفاء پھیرا جس سے دیرینہ بیماری کے اثرات جاتے رہے اور وہ فوراً تندرست ہوگئے۔

قصیدہ بردہ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ سے خوش ہو کر اپنی چادر مبارک ان کے بیمار جسم پر ڈالی اور اپنا دست شفاء پھیرا جس کی برکت سے وہ فوراً شفاء یاب ہوگئے۔ لہٰذا اس چادرِ مصطفیٰ ﷺ کی نسبت سے اس قصیدہ کا نام ’’قصیدہ بردہ‘‘ مشہور ہوا۔

خرپوتي، عصيدة الشهدة شرح قصيدة البردة : 3 – 5

امام احمد رضا خانؒ

5

مو لانا شاہ احمد رضا خا ں فا ضل بر یلوی رحمتہ اللہ تعالیٰ ،سچے عاشق رسول تھے ،تہجد کے وقت اپنا نعتیہ کلام با رگاہ رسالت ﷺ میں پیش کر تے اور صبح تک روتے رہتے ۔ ہجر وفراق کی کیفیت حد سے گزرگئی تو مد ینہ شریف حا ضر دربار ہو ئے ،گنبدخضرا کے انوار وتجلیات کے فا نوس سے محبت کی روشنی ،دل ونگا ہ کو منور کر رہی تھی ،طالب دید کے نیاز ،عشق کا مجسمہ بنے ہو ئے تھے ، ایسی ساعت سعید کی کیفیات کو سمٹیتے ہو ئے عر ض گزار ہوئے ’’فاران کے بت کدے کو دارالسلام بنا نے والے مجھے بھی شر ف زیا رت عطا کیجیے ۔‘‘رات بھر بے قراررہے ،صبح مو اجہہ شریف میں رات کی کما ئی یو ںپیش کر نے لگے ۔

وہ  سوئے لالہ  زار  پھر تے ہیں

تیرے دن اے بہا ر پھر تے  ہیں

کو ئی کیو ں پو چھے تیر ی با ت  رضا

تجھ  سے  کتے  ہزار  پھر تے ہیں

 رات بھر دربار گو ہر بار میں حا ضری دی اور زیارت کی درخواست گزاری ،اسی شب جمال جہاں آراکی زیارت سے اپنی آنکھیں ٹھنڈ ی کیں ۔ جب آپ کا قافلہ مدینہ طیبہ سے الوداع ہو نے لگا تو بے اختیار پکار اٹھے ۔

مشرف گرچہ شد جا می زلطفش

خدا یا ایں کرم بار دگر کن

آپ یقینا سچے عاشق رسول تھے آپ کی زند گی کا ایک ایک لمحہ عشق نبو ی سے سر شار تھا آپ کا سینہ تو عشق رسول کا گنجینہ تھا ایک مو قع سے آپ فر ماتے ہیں ۔بحمد اللہ ! اگر قلب کے دو ٹکڑ ے کیے جا ئیں تو خدا کی قسم ایک پر لا الہ الا اللہ اور دوسرے پر محمد ر سول اللہ ہوگا۔   امام عشق ومحبت ارشاد فر ما تے ہیں ۔

وہ کما ل حسن حضور ہے کہ گمان نقص جہا ں نہیں

یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں

سر کا ر کی عظمت ورفعت اور شان وشوکت کا اندازہ لگا نا اہل فرش کی طاقت وقوت سے با ہر ہے ،سر کار کی حقیقت کی معرفت میں عقل حیران ہے ،سرکار دوعالم ﷺخود فر ما تے ہیں :اے ابو بکر! میر ی حقیقت کو میر ے رب کے سوا کسی نے نہیں جانا اس کی تر جمانی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے کی ہے ۔

فرش والے تیری شوکت علوکیا جانیں

خسرواعرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا

عرش کی عقل دنگ ہے چرخ میں آسمان ہے

جان مراد اب کدھر ہا ئے ترا مکان ہے

علامہ اقبالؒ

6

جناب فقیر سیّد وحید الدین صاحب روزگار فقیر میں لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر محمد اقبال مر حوم کی سیرت اور زندگی کا سب سے زیادہ ممتاز، محبوب اور قابل قدر جذبہ عشق رسولؐ ہے۔ ذات رسالت مآبؐ کے ساتھ انھیں جو والہانہ عقیدت تھی اس کا اظہار ان کی چشم نمناک اور دیدۂ تر سے ہوتا تھاکہ جہاں کسی نے ان کے سامنے حضورؐ کا نام لیا ان پرجذبات کی شدت اور رقت طاری ہو گئی اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہو گئے۔ رسول اللہ ﷺکا نام آتے ہی اور ان کا ذکر چھڑتے ہی اقبال بے قابو ہو جاتے تھے۔ اقبال کی شاعری کا خلاصہ، جوہر اور لب لباب عشق رسولؐاور اطاعت رسولؐ ہے۔

علامہ اقبال نے محبت رسولؐ اور عشق مصطفیٰ ﷺ  کا اظہار اپنے اشعار میں بہت سے مقامات پر کیا ہے۔ اپنی اردو شاعری میں انہوں نے خاتم النبییّن حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو متعدد اسماء سے یاد کر کے آپ ؐسے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کیا ہے۔ محمد، احمد، مصطفیٰ، دانائے سبل، ختم الرّسل، مولائے کل، قرآں، فرقاں، یٰسیں، طٰہٰ، رسول، رسول عربی، نبی مرسل، شہِ یثرب، مولائے یثرب، رحمۃ للعالمین، رسول عربی، رسول ہاشمی، خدا کا رسول، رسول امیں، رسول مختار، نبی عفت، حضورِ رسالت مآب،حضور سروَرِ عالم، صاحبِ ’مازاغ‘، صاحبِ یثرب، مدفونِ یثرب، میر عرب، بدر و حنین کے سردار ،رفعت شان، رفعنا لک ذکرک اور بہت سے اسماء مبارک پر مشتمل اشعار زبان زد عام ہیں۔ان اسماء اور القاب مبارک کے استعمال سے جہاں علامہ اقبال کی شاعری کے حسن میں اضافہ ہوا ہے وہاں حضور اکرم ﷺسے علامہ اقبال کی عقیدت و محبت کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔

رسول اللہ ﷺکا اسم مبارک ـ’’محمدؐ‘‘ کو علامہ اقبال نے جن اشعار میں استعمال کیا ان میں سے چند اشعار بطور مثال پیش کیے جا رہے ہیں:

اس راز کو اب فاش کر اے روحِ محمدؐ

آیاتِ الہٰی کا نگہبان کِدھر جائے!

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

دہر میں اسمِ محمدؐ سے اجالا کر دے

دیں مسلکِ زندگی کی تقویم

دیں سر محمدؐ و براہیم

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا

روحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو

محمدؐ بھی ترا، جبرائیل بھی، قرآن بھی تیرا

مگر یہ حرفِ شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا؟

نہیں وجود حدود و ثغور سے اس کا

محمدؐ عربی سے ہے عالمِ عربی

قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں

کچھ بھی پیغامِ محمدؐ کا تمھیں پاس نہیں

علامہ اقبال کا یہ شعر تو آج ہر کسی نے سن رکھا ہے:

کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں

حضور نبی اکرم ﷺکا ایک اسم مبارک ’’احمدؐ‘‘ ہے۔ علامہ اقبال نے اس اسم کے ساتھ ملت کا لفظ جوڑ کا استعمال کیا ہے۔ علامہ فرماتے ہیں:

عشق کا دل بھی وہی، حسن کا جادو بھی وہی

اُمت احمد مرسلؐ بھی وہی، تو بھی وہی

کسی یکجائی سے اب عہد غلامی کر لو

ملت احمد مرسلؐ کو مقامی کر لو!

دین کے اتمام کے لیے اسم مبارک ’’مصطفیٰؐ‘‘ کو علامہ اقبال نے استعمال کیا ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں:

اگر قبول کرے، دینِ مصطفی، انگریز

سیاہ روز مسلماں رہے گا پھر بھی غلام

بمصطفٰیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست

اگر بہ او نرسیدی، تمام بولہبی است

عشق کے بیان میں بھی علامہ اقبال اسم ’’مصطفیٰؐ ‘‘ کو ہی استعمال کرتے ہیں:

تازہ مرے ضمیر میں معرکہ کہن ہوا

عشق تمام مصطفیٰ، عقل تمام بولہب

عشق دمِ جبرئیل، عشق دلِ مصطفیٰ

عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام

حضور نبی اکرم ﷺکے خاتم النبیّین ہونے پر علامہ اقبال نے درج ذیل اشعار میں شہادت دی ہے:

وہ دانائے سبل، ختم الرسل، مولائے کل جس نے

غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا

اس نئی آگ کا اقوامِ کہن ایندھن ہے

ملّتِ ختمِ رسل شعلہ بہ پیراہن ہے

ان اسماء النبی ؐکے لیے علامہ اقبال نے کچھ اور اسماء النبی ؐبھی اپنے اشعار میں جا بجا استعمال کیے ہیں۔ چند امثال پیش خدمت ہیں:

نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل، وہی آخر

وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسیں، وہی طٰہٰ

کرم اے شہِ عرب و عجم کہ کھڑے ہیں منتظر کرم

وہ گدا کہ تو نے عطا کِیا ہے جنھیں دماغِ سکندری

علامہ اقبال نے اپنی شاعری، تقریروں اور تحریروں میں اسی عشق رسول ﷺ کو دلوں میں بیدار کرنے کی کوشش کی ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ علامہ اقبال کے پیغام کو عام کیا جائے اور آئندہ آنے والی نسلوں میں عشق رسولؐ کی شمع روشن کریں۔ صرف یہی وہ واحد راستہ ہے جس سے امت مرحومہ اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ بحال کر سکتی ہے۔ علامہ اقبال کی خواہش یہ تھی کہ وہ اپنا نور بصیرت آئندہ آنے والی نسلوں میں منتقل کر دے۔

خدایا ! آرزو میری یہی ہے

مرا نورِ بصیرت عام کر دے

علامہ اقبالؒ  کا مقام:

چودری غلام حیدر خان صاحب چشتیؒ جب بھی لاہور جاتے تو تمام بزرگوں کے مزارات پر حاضری دیتے۔  قدسی  مقال ،علامہ اقبالؒ کے مزار پر فاتحہ پڑھتے تو علامہؒ سے دورانِ مراقبہ گفتگو  فرماتے۔  چوہدری صاحب نے ایک مرتبہ حضرت علامہؒ سے دریافت فرمایا کہ آپ تقریبا نئی روشنی کے مسلمان تھے،  مغربی تہذیب میں رہ کر اعلی تعلیم حاصل کی،  پھر عملی طور پر آپ کیسے اسلام کی طرف راغب ہوئے اور کیونکر عشق و اتباعِ رسول مقبولﷺ اور صبفۃ  اللہ میں رنگے؟  حضرت علامہؒ نے فرمایا: “سب اللہ کے فضل و کرم سے ہوا میں بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح  ایک عام  مسلمان تھا مگر دوران تعلیم ہی مجھے صہونیت، عیسائیت ، اشراکیت،  بت پرستی اور آزاد طرز زندگی وغیرہ سے نفرت ہو گئی تھی۔  پھر میں نے اعلی تعلیم کے ساتھ کتاب و سنت کا مطالعہ کیا اور تمام بزرگان دین خصوصی طور پر اپنے روحانی استاد حضرت مولانا جلال الدین رومی ؒکے کلام کو بغور پڑھا اور استفادہ کیا تو اللہ کے فضل سے پتہ چلا کہ دین کا روح رواں اور ماحصل تو محبت،  اتباع اور اطاعت رسول مقبول علیہ الصلوۃ والسلام ہے ۔ میں نماز فجر سے پہلے اٹھتا،  نوافل ادا کر کرنے کے بعد قران مجید کی تلاوت ، ذکر اللہ ،کلمہ طیبہ اور درود شریف کا بہت ورد کرتا حتی کہ صلوۃ فجر کے بعد بھی یہی عمل رہتا۔  اکثر اوقات درود پاک اور کلام اللہ پڑھنے کے دوران ندامت کے آنسو جاری ہو جاتے ، عشق و محبت غالب رہتی اور رقت طاری ہو جاتی ۔ یہ آداب خود آگاہی و آہ سحر گاہی،  بزرگان دین کے اقوال و تجربات سے حاصل کیے اور یہ معمولات تازیست قائم رہے۔

جب عشق سکھا تا ہے آداب ِخود آگاہی

کھلتے ہیں غلاموں پر  اسرار شہنشاہی

عطار ہو،  رومی ہو،  رازی ہو ، غزالی ہو

کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی

اور پھر میں گڑ گڑا کر التجا کرتا :

تو  اے آقا ئے یثرب،  میری چارہ سازی کر

میرا دین ہے ا فرنگی ، میرا یمان ہے زناری

جو اللہ تعالی کے یہاں قبول ہوئی،  میرے علم میں اضافہ ہونے لگا،  عشق و محبت میں مزید ترقی ہوتی گئی اور اولیاء اللہ خصوصا حضرت مولانا رومیؒ سے خواب میں اور بیداری میں ملاقات ہونے لگی ۔ ان بزرگان دین نے میری بہت رہنمائی کی اور سب نے اتباع،  اطاعت اور غلامی و قرب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر زور دیا ۔  خلوص دل سے خوب محنت کی حتی کہ بھوک پیاس اور گرمی اور سردی کا احساس بھی جاتا رہا ۔ بعض اوقات گھنٹوں ذکر اللہ میں گم رہتا ، کشف و کرامات اور گزشتہ وآئندہ کے واقعات کی خبریں ملنے لگیں اور مشاہدہ ہونے لگا،  مگر دل نفی کرتا رہا کہ یہ منزل مقصود نہیں ہے ۔ بالآخر اللہ تعالی کے فضل و کرم سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے نیم خوابی و بیداری کی حالت میں زیارت و برکت سے نوازنا شروع کر دیا اور پھر یہ سلسلہ آخر تک قائم رہا ۔ اس میں میری کوئی خوبی یا اعمال کی اچھائی کو دخل نہ تھا بلکہ یہ تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی اپنے ایک ادنی امتی اور غلام پر نگاہ رحمت و شفقت تھی کہ آپؐ نے میری چارہ سازی فرمائی اور براہ راست میری تعلیم و تربیت کے لیے ہدایت ارشاد ہونے لگیں اور اسرار الہی کھلنے لگے۔

افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر

کھلتے ہیں اصرار آخر اٹھتے ہیں حجاب آخر

چشم بینا تو پہلے ہی عطا ہو چکی تھی،  دل بینا بھی عطا ہوا ، کشود مقام خود ی اور نمود امانت الہی نصیب ہوا ، دولت وصل عطا ہوئی، مشاہدہ حق عطا ہوا اور مقصود  موجود ہوا ۔  الحمدللہ رب العالمین “

امت پرمیلاد النبیﷺ کی برکات

2.3.12

مَحبَّتِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حُصُول کاایک بہترین ذریعہ ذکر  ِ  رسولﷺ کی محافل ہیں  جس سے منسلک ہونے والے ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد عشقِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جام بھر بھر کر پیا کرتے ہیں۔

 بیشک  میلاد النبی ﷺ بھی    اصل میں ذکر  ِ  رسولﷺ  ہی ہے   اور میلاد النبی ﷺ کی سب سے بڑی  برکت یہ ہے کہ اس سے رسولِ کریم  ﷺ  کی محبت دل میں بیٹھ جاتی ہے۔ جس مومن کو محبتِ رسولِ ﷺ حاصل ہو جائے تو اس کو  کائینات میں کسی اور چیز کی خوائش باقی نہیں رہتی۔ کچھ خوش نصیب تو ایسے ہیں جن  کو محبتِ رسولِ ﷺ کی  نعمت اس  قدر حاصل ہوتی ہے کہ وہ  فنا فی الرسول کے مرتبہ تک پہنچ جاتے ہیں۔

اب ہم اسلامی تاریخ کے چند واقعات  کے مطالعہ سے دیکھیں گے کہ مومنین پرمحبت  ِ  رسولﷺ   کے اثرات اور ذکر  ِ  رسولﷺ   کی برکات  بالخصوص دورانِ  میلاد النبی ﷺ کیسے ظاہر ہوتے ہیں۔

ذکر ِرسولﷺاور محبت ِرسولﷺ کے اثرات

(1)

(1)  حضرت سیِّدُنا ثوبان رضی اللہ عنہ ایک دن حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو ان کا رنگ مُتَغَیَّر (یعنی بدلا ہوا) تھا اور رَنج و مَلال ان کے چہرے سے نُمایاں تھا۔ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پریشانی کا سبب پوچھا۔عرض کی:یَارسولَ اللہ! مجھے دَرد ہے نہ بیماری مگر جس وقت آپ کو نہیں دیکھتا بےتاب ہوجاتا ہوں، قِیامت کے دن اگر جنّت میں بھی جاؤں گا (تو اپنے اعمال کے مطابق مقام و مرتبہ پاؤں گا،) آپ تو انبیائے کرام علیہم السَّلام کے ساتھ اعلیٰ مقام پر ہونگے، حُضور میں وہاں کس طرح پہنچوں گا جس وقت آپ کی زِیارت نہ کر سکوں گا بِہِشت سے کیا لُطف حاصل کروں گا؟ ان کی تسلی کے لئے قراٰنِ کریم کی یہ آیت نازِل ہوئی: ( وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ-وَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًاؕ(۶۹))تَرجَمۂ کنزُ الایمان:اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اُسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ اور یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں۔

(تفسیرِ بغوی،پ5،النسآء، تَحت الآیۃ: 69،ج 1،ص 358مفہوماً)

(2)امام سَفِیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:ایک عورت نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کی:مجھے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی قبر کی زیارت کرا دیجئے، اُسے قبر شریف دکھائی تو وہ عورت اس قدر بےتاب ہوئی کہ روتے روتے(اس کا)انتقال ہوگیا۔

(شرح بخاری للسفیری،ج1،ص408)

(3)امام مالِک رحمۃ اللہ علیہ سے حضرت اَیُّوب سَخْتِیانی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جب وہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مبارک ذِکْر سنتے تو اس قدر روتے کہ مجھے ان پر رحم آجاتا۔

(4)امام ابنِ شہاب زُہری رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے جب حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذِکْر کیا جاتا تو آپ اىسے ہوجاتے گوىا کہ نہ ہم ان کو جانتے ہیں اور نہ وہ ہمیں جانتے ہیں۔

(5)حضرت عامر بن عبدُاللہ بن زبیررحمۃ اللہ علیہم کے پاس جب سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذِکْر کیا جاتا تو وہ اس قدر روتے کہ آنکھوں میں آنسو باقی نہ رہتے۔

(6)حضرت صَفْوان بن سُلَیم رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے جب نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر ہوتا تو رو پڑتے اور اتنی دیر تک روتے رہتے کہ لوگ آپ کو چھوڑ کر چلے جاتے۔(الشفا،ج2،ص41تا43 ملخصاً)

میلاد النبیﷺ کی برکات

(2)

(1) شا ہ عبد الرحیم محدث دہلوی رحمہ اللہ ( والد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ ، م 1176 ھ ) فرماتے ہیں کہ میں ہر سال  بڑی محبت سے میلاد شریف کے دنوں میں کھانا پکوا کر لوگوں کو کھلایا کرتا تھا ۔ ایک سال قحط کی وجہ سے بھنے ہوئے چنوں کے سوا کچھ میسر نہ ہو ا ، میں نے وہی چنے تقسیم کرد یے ۔ رات کو خواب میں آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہو اتو دیکھا کہ وہی بھنے ہوئے چنے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھے ہوئے ہیں اور آپ بیحد خوش اور مسرور ہیں۔ (الدار الثمین صفحہ 8)

 (2)عظیم مفسرامام ابن حجر مکی علیہ الرحمۃ نے امام فخر الدین رازی ( صاحب تفسیر کبیر) سے نقل فرمایا کہ جس شخص نے میلاد شریف کا انعقاد کیا اگرچہ عدم گنجائش کے باعث صرف نمک یا گندم یا ایسی ہی کسی چیز سے زیادہ تبرک کا اہتمام نہ کرسکا ۔ برکت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا شخص نہ محتاج ہوگا نہ اس کا ہاتھ خالی رہے گا ۔ (النعمۃ الکبرٰی صفحہ 9 )

 (3)حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس مبارک جگہ محفل میلاد میں حاضری اور مشاہدہ ءانوار کا ذکر فرمایا ۔( جواہر البحار جلد سوم صفحہ 1154 فیوض الحرمین صفحہ 27 )

(4)محدث ابن جوزی اپنی کتاب المیلاد النبی ﷺ میں میلاد شریف کے متعلق لکھتے ہیں کہ

ہمیشہ سے حرمین شریفین، مصر، یمن، شام اور تمام بلاد عرب کے لوگ محافل میلاد منقد کرتے ہیں۔  ماہ ربیع الاول کا چاند نظر آتے ہی خوشیاں مناتے ہیں، عمدہ لباس پہنتے ہیں، زیب و زینت کرتے ہیں، خوشبو لگاتے ہیں ،سرمہ لگاتے ہیں اور ان تمام ایام میں خوشی اور مسرت کا اظہار کرتے ہیں ۔  جو کچھ میسر ہو نقد و جنس وغیرہ سے خوب دل کھول کر خرچ کرتے ہیں میلاد مصطفیﷺ کے سننے اور پڑھنے کا شوق سے اہتمام کرتے ہیں اور اس پر اظہار مسرت کی بدولت بہت اجر و ثواب اور خیر و برکت حاصل کرتے ہیں ۔ محفل میلاد شریف کے مجربات سے یہ بات بھی ہے جہاں یہ محفل منعقد ہوتی ہے وہاں خوب خیر و برکت ،سلامتی،  عافیت،  مال و دولت اور رزق میں کشادگی ہوتی ہے۔  اولاد پوتوں نواسوں میں زیادہ ہوتی ہے ۔ آبادی اور شہروں میں امن و امان اور گھروں میں محفل پاک کی برکت سے سکون و قرار رہتا ہے۔

حکایت: ابن جوزی یہ بیان کرنے کے بعد ایک نہایت ہی روح پرور اور ایمان افروز واقعہ نقل فرماتے ہیں

بغداد شریف میں ایک شخص ہر سال محفل میلاد منعقد کرتا تھا ۔ اس کے پڑوس میں یہودی عورت رہتی تھی جو سخت متعصب تھی۔  ایک دن اس نے بڑے تعجب سے اپنے شوہر سے کہا ہمارے اس مسلمان پڑوسی کو کیا ہو گیا ہے جو ہمیشہ اس مہینے میں اپنی بہت بڑی دولت اور مال و زر فقراء اور رمساکین پر خرچ کرتا ہے اور قسم قسم کے کھانے تیار کر کے کھلاتا ہے۔  اس کے شوہر نے کہا غالبا یہ مسلمان گمان کرتا ہے کہ اس کے نبی اس ماہ میں پیدا ہوئے ہیں اور یہ خوشی ان کی ولادت با سعادت کی وجہ سے کرتا ہے۔  اس کا خیال ہے کہ نبی ﷺ اس خوشی و مسرت سے خوش ہوتے ہیں لیکن یہودیہ نے اس بات کو تسلیم نہ کیا ۔

جب رات ہو ئی تو وہ سو گئی اس نے خواب دیکھا کہ ایک بہت ہی نورانی شخصیت تشریف فرما ہیں۔  ان کے ساتھ ان کے اصحاب کی ایک بڑی جماعت ہے ۔ عورت نے یہ دیکھا تو بڑی متعجب ہوئی اور خواب میں ہی ایک صحابی سے پوچھا یہ شخص کون ہے؟ جنہیں میں تم سب لوگوں میں سے زیادہ معزز دیکھتی ہوں۔  انہوں نے فرمایا یہ محمد رسول اللہ ﷺ ہیں ۔

عورت نے کہا اگر میں ان سے کچھ عرض کروں تو جواب عطا فرمائیں گے۔ صحابی نے فرمایا ہاں۔ تو اس نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف بڑھنے کا ارادہ کیا اور قریب آ کر سلام عرض کر کے کہا یا رسول اللہ ﷺ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ کی بندی لبیک ۔ اس پر یہودی عورت رو پڑی اور کہنے لگی آپ مجھے اس طرح کیوں نواز رہے ہیں جبکہ میں آپ کے دین پر نہیں ہوں۔  اس پر حضور پُر نور ﷺ نے فرمایا میں نے تجھے اس لیے جواب دیا کہ اللہ تعالی تجھے ہدایت دینے والا ہے۔  اس نے عرض کیا کیا میں گواہی دیتی ہوں اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔

پھر اُس کی آنکھ کھل گئی ۔ وہ اپنے اس خواب سے بے حد مسرور اور انتہائی خوش ہوئی کہ اس نے سید الانام حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زیارت کی اور مشرف با اسلام ہوئی ۔ اس نے خواب ہی میں عہد کر لیا تھا کہ اگر صبح کی تو اپنا تمام مال و زر صدقہ کر دوں گی اور محفل میلاد منعقد کروں گی۔  پھر جب اس نے صبح کی اور اپنا وعدہ پورا کرنے کا ارادہ کیا تو اس نے دیکھا اس کا شوہر بھی نہایت خوش ہے اور اپنا سارا مال قربان کرنے پر تیار ہے۔  اس وقت اس نے شوہر سے کہا کہ کیا بات ہے کہ میں تمہیں ایک نیک ارادے کی طرف راغب دیکھ رہی ہوں یہ کس لیے ہے؟  شوہر نے اپنی عورت سے کہا یہ سب اس ذات گرامی ﷺ کے لیے ہے جس کے دست مبارک پر تم نے آج رات اسلام قبول کیا۔  عورت نے کہا اللہ تم پر رحم فرمائے تمہیں کس نے میری بات باطنی  حالت پر مطلع کیا؟ اس نے کہا اس ذات کریم نے جس کے دست اقدس پر تیرے  بعد  میں اسلام لایا۔  عورت نے کہا اللہ تعالی ہی حمد کے لائق ہے جس نے مجھے اور تجھے دین اسلام پر جمع فرمایا اور ہم دونوں کو شرک و گمراہی سے نکال کر امت محمدیہ میں داخل فرمایا ۔

الدار المنظم صفحہ100

مفسر قرآن علامہ اسماعیل حقی نے امام سیوطی امام سبکی ، امام بن حجر عسقلانی ، امام ابن حجر ، امام سخاوی ، علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہم جیسے اکابر علمائے امت سے میلاد شریف کی اہمیت نقل فرمائی اور لکھا ہے کہ میلاد شریف کا انعقاد آپ کی تعظیم کے لئے ہے ،اور اہل اسلام  (محبتِ رسول ﷺ کی وجہ سے) ہر جگہ ہمیشہ میلاد شریف کا اہتمام کرتے ہیں ۔( تفسیر روح البیان جلد 9 صفحہ 56 )

اِن دلائل و براہین سے  یہ بھی  ثابت  ہوتا ہےکہ میلا د النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محافل منعقد کرنے  کا سلسلہ امت مسلمہ میں صدیوں سے جاری ہے اور صدیوں سے  امت مسلمہ اِن محافل  کی برکات سمیٹ  رہی ہے  ۔

Scroll to Top