مجالس وا اجتماعات کا اہتمام
1.1
ر سول اللہ کا اپنے میلاد کے بیان کے لیے اِہتمامِ اِجتماع
1.1.1
اکثر اعتراضات کرنے والوں کے ذہنوں میں یہ سوال آتا ہے کہ، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیدائش یا میلاد کے متعلق کوئی محفل یا اجتماع منعقد فرمائی یا کسی محفل یا اجتماع میں اپنی پیدائش یا میلاد کے متعلق کوئی بیان فرمایا تھا؟ جس کا جواب ہے جی ہاں ۔ کتبِ حدیث اور سیرت و فضائل میں سے امام بخاری (194۔ 256ھ)، امام مسلم (206۔ 261ھ)، امام ترمذی (210۔ 279ھ)، قاضی عیاض (476۔ 544ھ)، علامہ قسطلانی (851۔ 923ھ)، علامہ نبہانی (1265۔ 1350ھ) جیسے نام وَر اَئمہ و محدثین اور شارحین کی تصانیف میں ایسی بے شمار احادیث موجود ہیں جن کا تعلق کسی شرعی مسئلہ سے نہیں بلکہ بالخصوص آپ ﷺ کی ولادت، حسب و نسب، خاندانی شرافت و نجابت اور ذاتی عظمت و فضیلت سے ہے۔
یہاں ہم چند اَحادیثِ مبارکہ کا ذکر کرتے ہیں جس میں آپ ﷺ نے خود اپنی تخلیق و ولادت کی خصوصیت و فضیلت کے بیان کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اِجتماع کا اہتمام فرمایا۔
حدیث-۱- حضرت مطلب بن ابی وداعہ سے مروی ہے
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
جاء العباس إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فکأنه سمع شيئاً، فقام النّبي صلي الله عليه وآله وسلم علي المنبر، فقال : من أنا؟
فقالوا : أنت رسول اﷲ، عليک السّلام.
قال : أنا محمد بن عبد اﷲ بن عبد المطّلب، إن اﷲ خلق الخلق فجعلني في خيرهم فرقة، ثم جعلهم فرقتين، فجعلني في خيرهم فرقة، ثم جعلهم قبائل، فجعلني في خيرهم قبيلة، ثم جعلهم بيوتاً، فجعلني في خيرهم بيتاً وخيرهم نسباً.
’’حضرت عباس رضی اللہ عنہ رسول اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے، (اس وقت ان کی کیفیت ایسی تھی) گویا انہوں نے (حضور نبی اکرم ﷺ کے متعلق کفار سے) کچھ (نازیبا الفاظ) سن رکھے تھے (اور وہ حضور نبی اکرم ﷺ کو بتانا چاہتے تھے)۔ تو حضور ﷺ منبر پر جلوہ اَفروز ہوئے اور فرمایا : میں کون ہوں؟ سب نے عرض کیا : آپ پر سلام ہو، آپ اﷲ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : میں عبداللہ کا بیٹا محمد ﷺ ہوں۔ اﷲ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور اس مخلوق میں سے بہترین گروہ (انسان) کے اندر مجھے پیدا فرمایا اور پھر اس کو دو گروہوں (عرب و عجم) میں تقسیم کیا اور ان میں سے بہترین گروہ (عرب) میں مجھے پیدا کیا۔ پھر اﷲتعالیٰ نے اس حصے کے قبائل بنائے اور ان میں سے بہترین قبیلہ (قریش) کے اندر مجھے پیدا کیا اور پھر اس بہترین قبیلہ کے گھر بنائے تو مجھے بہترین گھر اور نسب (بنو ہاشم) میں پیدا کیا۔‘‘
حوالاجات
ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الدعوات، ۵ : ۵۴۳، رقم : ۳۵۳۲ | 1 |
ترمذی نے’’الجامع الصحیح (کتاب المناقب، باب فی فضل النبي ﷺ ، ۵ : ۵۸۴، رقم: ۳۶۰۸ | 2 |
میں وخیرھم نسبا کی جگہ وخیرھم نفسا کے الفاظ بھی بیان کیے ہیں | |
احمدبن حنبل نے ’’المسند (۱ : ۲۱۰، رقم : ۱۷۸۸)‘‘ میں آخر حدیث میں ’’فانا خیرکم بیتا وخیرکم نفسا‘‘ کا اضافہ کیا ہے | 3 |
۴-أحمد بن حنبل، المسند، ۴ : ۱۶۵ | 4 |
هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ۸ : ۲۱۶ | 5 |
۶-بيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، ۱ : ۱۶۹ | 6 |
اس حدیث مبارکہ میں درج ذیل نکات قابلِ غور ہیں:
۱-حضور نبی اکرم ﷺ کا معمول تھا کہ جب کسی موضوع پر کوئی اَہم اور قابلِ توجہ بات تمام صحابہ کو بتانا مقصود ہوتی توآپ ﷺ اپنا خطبہ یا تقریر منبر پر کھڑے ہو کر اِرشاد فرماتے۔ اگر معمول کی کوئی بات ہوتی تو آپ ﷺ موقع پر موجود صحابہ کے گوش گزار کر دیتے لیکن منبر پر کھڑے ہو کر خاص نشست کا اہتمام عامۃ المسلمین تک کوئی خاص بات پہنچانے کے لیے ہوتاتھا۔
۲-حضور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے سوال کیا ،میں کون ہوں؟سب نے عرض کی آپ پر سلام ہو، آپ اﷲ کے رسول ہیں۔صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا یہ جواب اگرچہ حق و صداقت پر مبنی تھا لیکن مقتضائے حال کے مطابق نہ تھا۔ تو آپ ﷺ نے خود ہی اپنی ولادت اور نسبی فضیلت کے متعلق یہ حدیث ارشاد فرمائی ۔ اگرچہ یہ وہ معلومات تھیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بہ خوبی جانتے تھے مگر اس کے باوجود آپ ﷺ کا اِس قدر اِہتمام کے ساتھ اس مضمون کو بیان فرمانے کا مقصدبیانِ میلادالنبی ﷺ کو اپنی سنت بنانا تھا۔
۳-مذکورہ حدیث میں اَحکامِ اِلٰہی بیان ہوئے ہیں نہ اَعمال و اَخلاق سے متعلق کوئی مضمون بیان ہوا ہے بلکہ آپ ﷺ نے لوگوں کو اپنی ولادت اور نسبی فضیلت کے بارے آگاہ فرمایا ہے جو موضوعاتِ میلاد میں سے ہے۔
۴-حضور نبی اکرم ﷺ کا یہ بیان انفرادی سطح پر نہیں بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اجتماع سے تھا جو خصوصی اِنتظام و اِنصرام کی طرف واضح اِشارہ ہے۔
حدیث-۲- حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اﷲ عنھما روایت کرتے ہیں
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
قلت :يارسول اﷲ! إن قريشاً جلسوا فتذاکروا أحسابهم بينهم، فجعلوا مثلک کمثل نخلة في کبوة من الأرض، فقال النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم : إن اﷲ خلق الخلق فجعلني من خيرهم من خير فرقهم وخير الفريقين، ثم تخيّر القبائل فجعلني من خير قبيلة، ثم تخيّر البيوت فجعلني من خير بيوتهم، فأنا خيرهم نفساً وخيرهم بيتا.
میں نے عرض کیا : یارسول اﷲ! قریش نے ایک مجلس میں اپنے حسب و نسب کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی مثال کھجور کے اُس درخت سے دی جو کسی ٹیلہ پر ہو۔ اِس پر آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو مجھے ان کی بہترین جماعت میں رکھا اور ان کے بہترین گروہ میں رکھا اور دونوں گروہوں میں سے بہترین گروہ میں بنایا، پھر قبائل کو منتخب فرمایا اور مجھے بہترین قبیلے میں رکھا، پھر اُس نے گھرانے منتخب فرمائے تو مجھے اُن میں سے بہتر گھرانے میں رکھا، پس میں اُن میں سے بہترین فرد اور بہترین خاندان والا ہوں۔
حوالاجات
ترمذي، الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب في فضل النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، ۵ : ۵۸۴، رقم : ۳۶۰۷ | 1 |
أحمد بن حنبل، فضائل الصحابة، ۲ : ۹۳۷، رقم :۱۸۰۳ | 2 |
أبو يعلي، المسند، ۴ :۱۴۰، رقم : ۱۳۱۶ | 3 |
حدیث-۳- حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور رحمتِ عالم ﷺ نے فرمایا
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
إن اﷲ اصطفي من ولد إبراهيم إسماعيل، واصطفي من ولد إسماعيل بني کنانة، واصطفي من بني کنانة قريشاً، واصطفي من قريش بني هاشم، واصطفاني من بني هاشم.
بے شک ربِ کائنات نے اِبراہیم (علیہ السلام) کی اَولاد میں سے اِسماعیل (علیہ السلام) کو منتخب فرمایا، اور اِسماعیل (علیہ السلام) کی اَولاد میں سے بنی کنانہ کو، اور اَولادِ کنانہ میں سے قریش کو، اور قریش میں سے بنی ہاشم کو، اور بنی ہاشم میں سے مجھے شرفِ اِنتخاب سے نوازا اور پسند فرمایا۔
حوالاجات
ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في فضل النبي صلي الله عليه وآله وسلم ،۵ : ۵۸۳، رقم : ۳۶۰۵ | 1 |
مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب فضل نسب النبي صلي الله عليه وآله وسلم وتسليم الحجر عليه قبل النبوة، ۴ : ۱۷۸۲، رقم: ۲۲۷۶ | 2 |
أحمد بن حنبل، المسند، ۴: ۱۰۷ | 3 |
ابن أبي شيبة، المصنف، ۶: ۳۱۷، رقم :۳۱۷۳۱ | 4 |
أبو يعلي، المسند، ۱۳ : ۴۶۹، ۴۷۲، رقم : ۷۴۸۵، ۷۴۸۷ | 5 |
طبراني، المعجم الکبير، ۲۲ : ۶۶، رقم :۱۶۱ | 6 |
بيهقي، السنن الکبري، ۶ : ۳۶۵، رقم :۱۲۸۵۲ | 7 |
بيهقي، شعب الإيمان، ۲ :۱۳۹، رقم :۱۳۹۱ | 8 |
اِس حدیث میں آپ ﷺ نے اپنا پورا سلسلۂ نسب بیان فرما دیا ہے۔ آپ ﷺ نے اصطفی کا لفظ اس لیے بیان کیا کہ صاحبِ نسب، مصطفیٰ ﷺ (چُنے ہوئے) ہیں اور پورے نسبی سلسلہ کو یہ صفاتی لقب دیا گیا ہے۔
بیانِ شرف و فضیلت کے لیے اِہتمامِ اِجتماع
1.1.2
حضور نبی اکرم ﷺ نے بیانِ میلاد کے علاوہ اپنی شرف و فضیلت بیان کرنے کے لیے بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اِجتماع کا اہتمام فرمایا
حدیث-۱- حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
جلس ناس من أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ينتظرونه، قال : فخرج حتي إذا دنا منهم سمعهم يتذاکرون فسمع حديثهم، فقال بعضهم عجباً : إنَ اﷲ عزوجل اتّخذ من خلقه خليلاً، اتّخذ إبراهيم خليلاً، وقال آخر : ماذا بأعجب من کلام موسي کلّمه تکليماً، وقال آخر : فعيسي کلمة اﷲ وروحه، وقال آخر : آدم اصْطفاه اﷲ. فخرج عليهم فسلّم، وقال صلي الله عليه وآله وسلم : قد سمعت کلامکم وعجبکم أن إبراهيم خليل اﷲ وهو کذلک، وموسٰي نجي اﷲ وهو کذالک، وعيسي روح اﷲ وکلمته وهو کذلک، وآدم اصْطفاه اﷲ وهو کذلک، ألا! وأنا حبيب اﷲ ولا فخر، أنا حامل لواء الحمد يوم القيامة ولا فخر، وأنا أول شافعٍ وأول مشفعٍ يوم القيامة ولا فخر، وأنا أول من يحرک حلق الجنة فيفتح اﷲ لي فيدخلنيها، ومعي فقراء المومنين ولا فخر، وأنا أکرم الأوّلين والآخرين ولا فخر
رسول اکرم ﷺ کے کئی صحابہ آپ ﷺ کے انتظار میں بیٹھے تھے کہ اتنے میں آپ ﷺ باہر تشریف لے آئے، جب ان کے قریب ہوئے تو سنا کہ وہ آپس میں کچھ باتیں کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک نے کہا : بڑے تعجب کی بات ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے (ابراہیم علیہ السلام کو اپنا) خلیل بنایا۔ دوسرے نے کہا : یہ اس سے زیادہ تعجب انگیز نہیں ہے کہ خدا نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا۔ تیسرے نے کہا : عیسیٰ علیہ السلام تو اللہ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں۔ چوتھے نے کہا : آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے برگزیدہ کیا۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ ان کے حلقے میں تشریف لے آئے، سلام کیا اور فرمایا : میں نے تم لوگوں کا کلام اور اِظہارِ تعجب سن لیا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام اللہ کے خلیل ہیں، بے شک وہ ایسے ہی ہیں۔ اور موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے سرگوشی کرنے والے ہیں اور وہ ایسے ہی ہیں۔ اور عیسیٰ علیہ السلام اس کی روح اور اس کا کلمہ ہیں اور وہ ایسے ہی ہیں۔ اور آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے منتخب کیا اور وہ ایسے ہی ہیں۔ آگاہ ہو جاؤ! میں اللہ کا حبیب ہوں لیکن میں فخر نہیں کرتا اور میں قیامت کے دن لواءِ حمد (حمد کا جھنڈا) اٹھانے والا ہوں گا اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں، اور میں قیامت کے دن سب سے پہلا شفیع اور سب سے پہلا مشفع ہوں گا اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں اور میں پہلا شخص ہوں گا جو بہشت کے دروازے کی زنجیر ہلائے گا اور اللہ تعالیٰ اسے میرے لیے کھولے گا اور مجھے اس میں داخل کرے گا اور میرے ساتھ وہ مومنین ہوں گے جو فقیر (غریب و مسکین) تھے لیکن مجھے اس پر بھی کوئی فخر نہیں، اور اَوّلین و آخرین میں سب سے زیادہ مکرّم و محترم میں ہی ہوں اور مجھے اس پر بھی کوئی فخر نہیں۔
حوالاجات
ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب ما جاء في فضل النبي صلي الله عليه وآله وسلم ،۲ : ۲۰۲، رقم ۳۶۱۶ | 1 |
دارمي، السنن،۱: ۳۹، رقم:۴۷ | 2 |
بغوي، شرح السنة، ۱۳ : ۱۹۸، ۲۰۴، رقم : ۳۶۱۷، ۳۶۲۵ | 3 |
رازي، مفاتيح الغيب (التفسير الکبير)، ۶ : ۱۶۷ | 4 |
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، ۱: ۵۶۰ | 5 |
سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالمأثور، ۲ : ۷۰۵ | 6 |
حدیث-۲- حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِ نَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ
أن النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم خرج يوماً فصلي علي أهل أحد صلا ته علي الميت، ثم انصرف إلي المنبر، فقال : إني فرط لکم وأنا شهيد عليکم، وإني واﷲ! لأنظر إلي حوضي الآن، وإني أعطيت مفاتيح خزائن الأرض أو مفاتيح الأرض، وإني واﷲ! ما أخاف عليکم أن تشرکوا بعدي، ولکن أخاف عليکم أن تنافسوا فيها.
ایک روز حضور ﷺ باہر (میدانِ اُحد کی طرف) تشریف لے گئے، پس آپ ﷺ نے شہدائے اُحد پر نمازِ جنازہ کی طرح نماز پڑھی، پھر آپ ﷺ منبر پر جلوہ اَفروز ہوئے اور فرمایا : بے شک میں تمہارا پیش رَو ہوں اور میں تم پر گواہ (یعنی تمہارے اَحوال سے باخبر) ہوں۔ اﷲ کی قسم! میں اِس وقت حوضِ کوثر دیکھ رہا ہوں اور مجھے روئے زمین کے خزانوں کی چابیاں عطا کی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! مجھے یہ خوف نہیں ہے کہ تم میرے بعد شرک میں مبتلا ہو جاؤ گے، البتہ یہ خوف ضرور ہے کہ تم دنیا پرستی میں باہم فخر و مباہات کرنے لگو گے۔‘‘
حوالاجات
بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب الصلاة علي الشهيد، 1 : 451، رقم : 1279 | 1 |
بخاري، الصحيح، کتاب المناقب، باب علامات النبوة، 3 : 1317، رقم : 1401 | 2 |
بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب أحد يحبنا، 4 : 1498، رقم : 3857 | 3 |
بخاري، الصحيح، کتاب الرقاق، باب ما يحذرمن زهرة الدنيا والتنافس فيها، 5 : 2361، رقم : 6062 | 4 |
بخاري، الصحيح، کتاب الحوض، باب في الحوض، 5 : 2408، رقم : 6218 | 5 |
مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب إثبات الحوض، 4 : 1795، رقم : 2296 | 6 |
أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 149، 153 | 7 |
ابن حبان، الصحيح، 7 : 473، رقم : 3168 | 8 |
ابن حبان، الصحيح، 8 : 18، رقم : 3224 | 9 |
اِس حدیثِ مبارکہ کے الفاظ” ثم انصرف الی المنبر (پھر آپ ﷺ منبر پر جلوہ اَفروز ہوئے)” سے ایک سوال ذہن میں اُبھرتا ہے کہ کیا شہدائے اُحد کےقبرستان میں بھی منبر تھا؟ یا پھر کسی خاص بات کے لیے ایک منبر کا اِہتمام کیا گیا کیونکہ اُس وقت وہاں کوئی مسجد نہ تھی، صرف شہدائے اُحد کے مزارات تھے۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ اتنا اہتمام کس لیے کیا گیا؟ یہ سارا اِہتمام و اِنتطام حضور نبی اکرم ﷺ کے فضائل ومناقب کے بیان کے لیے منعقد ہونے والے اُس اِجتماع کے لیے تھا جسے آقا ﷺ خود منعقد فرما رہے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اس اجتماع میں حضور ﷺ نے تحدیثِ نعمت کے طور پر اپنا شرف اور فضیلت بیان فرمائی جس کے بیان پر پوری حدیث مشتمل ہے۔ اِس طرح یہ حدیث جلسۂ میلادِ مصطفیٰ ﷺ کی واضح دلیل ہے۔
خلاصہ/نتیجہ
1.1.3
مذکورہ بالا احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہوا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے شرف و فضیلت کو بیا ن کرنے کے لیے اِجتماع کا اہتمام کرنا خود سنتِ رسول ﷺ ہے۔ لہٰذا میلادِ مصطفیٰ ﷺ کی محافل سجانا اور جلسوں کا اِہتمام کرنا مقتضائے سنتِ رسول ﷺ ہے۔ آج کے پُر فتن دور میں ایسی محافل و اِجتماعات کے اِنعقاد کی ضرورت پہلے سے کہیں بڑھ کر ہے تاکہ اُمت کے دلوں میں تاجدارِ کائنات ﷺ کی عشق و محبت نقش ہو اور لوگوں کو آپ ﷺ کی تعلیمات اور اُسوۂ حسنہ پر عمل کرنے کی ترغیب دی جائے۔